چھٹی قسط

3 0 0
                                    

لندن
ڈیڈ ۔۔۔ ڈیڈ ۔۔۔ ہاتھ میں دس سے بارہ موٹی موٹی کتابیں جن میں زیادہ تر کتابیں اسلامی تاریخ کی تھیں، اٹھائے ایک لڑکی جینز اور فراک پہنے اندر داخل ہوئی جس کے سر پہ دوپٹہ بندھا ہوا تھا۔
اچانک کسی چیز سے ٹکرائی اور ساری کتابیں زمین بوس ، جس سے وہ ٹکرائی تھی وہ کوئی اور نہیں زارون ملک تھا۔
تم ڈیڈ سے ملنے آئے ہو؟ ان کے دوست ہو ؟ معاف کرنا مین نے تمھیں دیکھا نہیں۔ مگر سامنے سے کوئی جواب نہیں آیا۔
تم ٹھیک ہو۔۔ میرا مطلب ہے آئی ایم سوری میں نے تمھیں دیکھا نہیں اور اتنی موٹی موٹی کتابوں کے ساتھ تم سے ٹکراگئی۔ مجھے معاف کردو۔
نیچے جھک کر اپنی کتابیں سمیٹنے لگی۔
میں زارون ہوں۔۔ دور کھڑا زارون دھیمے سے گویا ہوا جیسے ہوش میں آیا ہو۔ تصویر والی لڑکی نکل کر سامنے آگئی ہو۔ وہ کبھی تصویر کو کبھی سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
تم تصویر سے تھوڑی چھوٹی لگ رہی ہو؟
چھوٹی ۔۔۔ اس لڑکی نے حیرت سے دیکھا مانو کوئی پاگل دیکھ لیا ہو۔
تم ام حبیبہ ہو سر نے مجھے بتایا تھا۔
میں اتنی خوبصورت نہیں ہوں ۔۔۔ منہ پہ ہاتھ رکھے وہ ہنستے ہنستے وہیں بیٹھ گئی تھی۔
اس کو ہنستا دیکھ مبہوت سا زارون اسے دیکھے گیا۔
وہ میری مما ہیں۔۔ اگر ڈیڈ نے تمھیں مما کا بتایا ہے تو میرا بھی بتایا یوگا۔ میں تصویر والی سے چھوٹی نہیں بڑی ہوں۔ وہ چھوٹی والی ۔۔ میں ہوں۔۔
تصویر کی طرف اشارہ کیا۔
تو تم زونیا ہو ۔۔۔
ہاں بلکل میں زونیا ہوں۔۔
لو ڈیڈ بھی آگئے۔۔ زونیا قدموں کی آہٹ پاکر پلٹتی اس سے پہلے ہی بتا چکی تھی۔
یہ میرا نیا دوست ہے۔ کچھ دن یہ ہمارے پاس رہے گا۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے۔
ڈیڈ آپ کے دوست ہیں مجھے کیوں اعتراض ہوگا۔ مجھے بلکل کوئی اعتراض نہیں لیکن یا تو انہیرات کی کافی بنانی ہوگی یا رات کے برتن دھونے ہوں گے۔۔
سر میں برتن دھو سکتا ہوں لیکن کافی نہیں ۔۔ کیونکہ مجھے تو چولہا جلانا بھی نہیں آتا۔۔ زونیا کی بات ختم ہوتے ہی ارون نے فوراً سے پیشتر اس کی دونوں باتوں میں سے ایک مان لی تھی۔
مائی ڈیئر ینگ لیڈی ایسے مہمانوں کو ڈراتے نہیں ہیں۔
زونیا میں پہ ہاتھ رکھے ہنس پڑی۔ جب ہنستی تھی اس کے رخسار، ناک اور کنپٹیاں تک سرخ ہوجاتی تھیں۔
۔۔۔۔۔
کراچی پریس کلب
بہت سارے نوجوان اپنے منہ کالی پٹیاں باندھے سر جھکائے کھڑے تھے۔ سامنے ایک زینت کے ساتھ ایک بچی اور ایک لڑکے کی تصویر اور موجود تھی ان تمام بچوں کی عمریں لگ بھگ 10 سال کے اندر تھیں۔ جن کو زیادتی کے بعد بدترین طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
ان کی لاشیں ملک کے مختلف شہروں سے برآمد ہوئی تھیں۔ لیکن انسانی ہمدردی میں وہ یہاں کراچی میں احتجاج کررہے تھے۔
زیادہ تر کیسسز میں ایک ہی بات عمومی تھی اور وہ یہ کہ سب بچے 10 سال سے چھوٹے تھے۔ سب کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو اجسام کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس سے اہم یہ سب کرنے والے آس پاس کے جاننے والے یا رشتہ دار تھے۔جنہوں نے یہ گنہاؤنی حرکت کی تھی۔
سر کیا آپ بتا سکتے ہیں حکومت کیا اقدام کر رہی ہے؟ آخر یہ کب تک ہوگا؟ معصوم بچیاں کو ساتھ یہ ناروا سلوک آخر کب تک ہوتا رہے گا ؟
ایک رپوٹر نے وہاں موجود ایک لوکل پولیٹیشن سے سوال کیا جو ٹریفک جام کی وجہ سے لڑنےاترے تھے مگر رپورٹر نے کوئی بات کہنے سے پہلے ہی اپنا سوال رکھ دیا۔
اب وہ ایک طرف اپنے گارڈز اور ڈرائیور کو دیکھتے اور دوسری طرف سامنے کھڑے رپورٹر کو جو مائیک ان کی طرف بڑھائے اپنے جواب کا منتظر تھا۔ ڈرائیور نے اشارے سے بولنے کا کہا جہاں ان کا غصہ بڑا تیز تھا کہ ان کا راستہ کیسا روکا گیا۔
دیکھیں اب حکومت کیا کیا سنبھالے گی۔ بچیوں کو باہر نکالنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ چھوٹی بچے بچیوں کو ایسے ہی گھومنے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے چمکیلے کپڑے پہنا دیتے ہیں۔ لڑکی ذات ہے چاروں طرف بھیڑیے گھوم رہے ہیں سب جانتے ہیں پھر بھی بچیوں کو۔۔۔
سر لیکن بچیاں 10 سال سے بھی کم عمر ہیں جو نشانہ بنی ہیں۔ اب کیا آپ ان کو بھی چاہتے ہیں شٹل کاک برقعہ پہنا دیں۔ رپورٹر نے جوابی سوال کیا۔ مگر اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتے ان کے لوگوں نے راستہ بنا لیا تھا۔
سر جواب دیتے جائیے سر۔۔ ایک منٹ سر۔۔۔
ان کے گارڈز لوگوں کو دھکا دہتے راستہ بناتے جارہے تھے جبکہ ایک نے آگے بڑھ کر پجیرو کا دروازہ کھول کر کھڑا ہوگیا۔
الزام دوسروں پہ دھر کے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ ان کے گارڈز گاڑی سے آگے چلتے ہوئے راستہ بناتے گاڑی کو نکال کر لے جارہے تھے۔
دیکھا آپ نے یہ ہیں ہمارے رہنما جو پارلیمنٹ ہاؤس میں ناجانے کیا کرنے جاتے ہیں کیونکہ جو کام ان کا ہے وہ اگر یہ کر رہے ہوتے تو یقیناً ایسی صورتحال تو قطعاً نا ہوتی۔
جب ذمہ دار لوگ ہی جواب دینے سے دامن کترائیں گے تو پھر ملک و قوم کی ذمہ داری کون لے گا کون جواب دے گا اس سب کا کون انصاف دلوائے گا؟
جیسا کے آپ میرے پیچھے نوجوانوں کا ایک جمِ غفیر دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنی زندگیوں میں سے وقت نکال کر یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ ان معصوموں کو انصاف دلواسکیں جن کے ناصرف زندگی چھین لی بلکہ ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کی گئی۔
سب چاہتے ہیں ان  کے مجرموں کو سرِ عام پھانسی دی جائے۔ جس کے سلسلے میں ہمارے چینل کی جانب سے ایک پول کا آغاز کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کیا بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو کھلے عام چوک پہ پھانسی دینی چاہیے ؟
اس پول کا حصہ بننے کیلئے ابھی اپنا فون اٹھائیے اور  اپنا نام لکھئے سپیس دیجئے ہاں یا ناں لکھ کر ہمیں 0809 پہ ایس ایم ایس کریں۔
رپورٹر نے اپنی بات مکمل کی اور مزید فوٹیج کیلئے یہاں وہاں نظر دوڑانی شروع کردی۔
ایک صحافی کے اختیار کا دائرہ کار اتنا ہی تھا۔ ان کام صرف سوال جواب کرکے ذمہ داران کا محاسبہ کرنا ہوتا ہے یا حق کیلئے آواز بلند کرنا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ ان کا دائرہ اختیار بھی نہیں۔
جیسے کراچی پریس کلب کو لے لیجئے جسے صحافی حضرات اور ان کی فیملی کی تفریح کیلئے بنایا گیا تھا مگر بعدازاں لوگوں نے اس کو دیوارِ گریہ تصور کر لیا۔ آہستہ آہستہ وہاں لوگ جمع ہونے لگے اور صحافی حضرات نے بھی اپنی ذاتی تفریح کو بلائے طاق رکھا اور جٹ گئے لوگوں کے مسائل کو سننے میں، اس سب میں کب صحافت لوگوں کی نظروں میں اس سب سے آگے بڑھ گئی کسی کو بھی خبر نا ہوئی۔
اب ایک صحافی سے لوگوں کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ان پہ لوگ وکیل، سوشل ورکر اور پولیس کی ذمہ داری بھی عائد کردیتے ہیں۔
اور اتنی ساری متوقع ذمہ داریوں کے بوجھ تلے اکثر میڈیا اور میڈیا سے منسلک افراد خود کو منصف یا جج سمجھ بیٹھتے ہیں۔
سب کو یہ کہتےتو پایا ہے کہ میڈیا بے لگام ہے لیکن کیا کبھی یہ تصور کیا ہے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کیوں ؟ اور کیا اس میں ہمارا بھی کوئی کردار ہے ؟ تو جناب ہم کس قدر اس سب میں شامل ہیں یہ تو ہم اوپر ذکر کر ہی چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
لندن
آفیسر ڈیڈ گھر پہ نہیں ہیں۔ آپ کا کوئی میسج ہے تو مجھے بتا دیجئے میں جب وہ آئیں گے تو میں ان کو بتا دوں گی۔ زونیا نے گھر کے دروازے پہ کھڑے پولیس اہلکاروں کو دیکھا تو خوش اسلوبی سے بات کی۔
مس دیوان آفیسر عارفین ۔۔ یہ کون ہیں ۔۔ پولیس آفیسر نے پیچھے سے آتے زارون کو دیکھ کر سوال کیا۔
یہ ہمارے مہمان ہیں زارون ملک۔ آپ کیا کہہ رہے تھے اپنی بات مکمل کیجئے۔ آپ اندر تشریف رکھیں کیا لیں گے کافی اور جوس ۔۔ زونیا نے پاکستانی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آفیسرز کو اندر آنے کی دعوت دی۔
نہیں شکریہ۔۔ ہم کچھ بتانے آئے ہیں۔ دو آفیسرز ساتھ تھے جو بات کرنے سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی جھجھک دیکھ کر زونیا بھی ٹھٹک گئی تھی۔ کچھ تو ایسا ہے جس کو بتانے سے پہلے دونوں کترا رہے ہیں۔
آپ کی والدہ ۔۔ آفیسر نے سوال کیا۔شاید وہ جاننا چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی اور ہے یا نہیں۔
آفیسر ۔۔ آپ شاید میرے ڈیڈ کے ساتھ کام نہیں کرتے ۔
آفیسر نے نفی میں سر ہلایا۔ چار سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کو بلڈ کینسر تھا جس کا علاج نا ہوسکا۔ زونیا کی بات سن کر سب کی نظریں اس تصویر کی طرف تھیں جو لاؤنج میں لگی ہوئی تھی جہاں وہ ننھی زونیا کو گود میں لیے کھڑی مسکرارہی تھیں۔
زندگی سے بھرپور یہ تصویر کہیں یہ سوال بھی کر رہی تھی اس کے دیکھنے والوں سے کہ دیکھو کبھی گھمنڈ نا کرنا کبھی تکبّر میں گردن کو اکڑا کہ نا گھومنا۔۔ یہ خوبصورتی، صحت اور زندگی سب ربِ کائنات کا عظیم تحفہ ہے۔ تم اس زمین پہ اللّٰہ کے نمائندے ہو تمھاری اصل منزل جنت ہے تمھیں یہاں رہ کر اس کو واپس پانے کی کوشش کرنی ہے۔ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا کر، اس دنیا کی خواہشات اور رنگینیوں میں کھو نا جانا، تمھارے اختیار میں تمھاری اگلی سانس بھی نہیں ہے پھر گھمنڈ کیسا۔۔۔
آفیسر نے زارون کو اشارے سے اپنے ساتھ باہر بلایا اور لان میں کھڑے ہو کر کچھ بات کی۔
جاتے جاتے ایک نظر دروازے پہ کھڑے زونیا کو دیکھا اور مسکرا کر باہر کو نکل گئے۔
زارون بوجھل قدموں سے زونیا کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں وہ کیا کہنے والا ہے۔
وہ۔۔ اپنی بات شروع کرنے کیلئے کوئی مناسب الفاظ کی تلاش میں اپنی انگلیاں مروڑتا ہوا وہ خود ایک کسی مخمسے میں الجھا ہوا نظر آرہا تھا۔
ڈیڈ کو کچھ ہوا ہے؟ زونیا نے براہِ راست سوال کیا۔ جیسے وہ سمجھ رہی تھی وہ کیا چاہ رہا ہے۔
زارون نے بس گردن ہلکے سے ہلائی۔
کیا۔۔۔ وہ ۔۔۔ مام کے پاس چلے گئے ہیں؟ خود کو سنبھالتے اگلا سوال کیا۔ اس بار آنکھوں میں ایک التجا تھی جیسے چیخ رہی ہوں اور چلا چلا کر کہہ رہی ہوں پلیز کہنا نہیں ایسا نہیں ہے وہ تمھارے پاس ہی ہیں کہیں نہیں گئے وہ واپس آئیں گے۔
مگر یہ ممکن نہیں تھا گذشتہ شب ایک پولیس مقابلے میں مقامی غنڈوں کے ساتھ جوابی فائرنگ میں ایک گولی ان کے سر پہ اور دوسری دل پہ لگی تھی۔ مارنے والے نے یقین کیا تھا کہ آفیسر عارفین کے بچنے کی کوئی امید نا بچے۔
زونیا الٹے قدموں دوڑ کر اپنے کمرے میں داخل ہوچکی تھی۔
۔۔۔۔۔
یہ لو ۔۔۔ ایک لفافہ زارون کی جانب بڑھایا۔
بنا کوئی سوال کیے وہ لفافہ اس کے ہاتھ سے لے لیا تھا۔
ڈیڈ کو شاید پتا تھا ایسا کچھ ہونے والا ہے۔۔۔ انہوں نے مجھے پرسوں ہی یہ لفافے دہے تھے ایک میرے لیے اور ایک تمھارے لیے۔
انہوں نے کہا تھا اگر انہیں کچھ ہوجائے تو تم ٹوکیو چلے جانا ان کے دوست اینا فرنینڈس کے پاس۔ وہ تمھاری مدد کریں گی۔ میری خالہ ہیں، ان کے مسلمان ہونے کے بعد صرف اینا خالہ ہی تھیں جن سے مما بات کرتی تھیں۔ نانا اور باقی سب نے تو ان سے سارے رشتے ختم کرلیے تھے۔
زونیا کی باتوں کو زارون نہایت خاموشی سے سن رہا تھا۔ وہ لڑکی واقعی بہادر تھی۔ چند گھنٹے پہلے اس نے اپنے اکلوتے رشتے کو کھو دیا تھا جو کہ اس کے والد تھے۔ مگر وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑی تھی۔ بیشک اس کی سوجی ہوئی آنکھیں گھنٹوں آنسو بھائے جانے کا مثردہ سنا رہی تھیں۔ مگر اس کا لہجہ کافی مضبوط تھا۔
اور تم۔۔ اس کی ساری بات سن کر جو ایک بات زارون نے پوچھی وہ زونیا کی حفاظت سے متعلق تھی۔
میں یہاں سے کسی اور جگہ جارہی ہوں بہتر یہ ہے کہ وہ آپ نا جانیں میں کہاں ہوں ہم دونوں کیلئے اچھا ہے۔ میں نہیں چاہتی میری وجہ سے آپ کو کوئی پریشانی ہو۔
عجیب گھرانہ تھی کسی کیلئے قربانی دینا ان کیلئے کوئی بڑی بات ہی نہیں تھی بےدریغ دیے جارہے تھے۔
۔۔۔۔
ایک پرانی جیگور کو لندن کی سڑکوں پہ بھگایا جارہا تھا۔ دو ہینڈ بیگ کے ساتھ دو نفوس بھی اس میں سوار تھے۔ ڈرائیور سیٹ پہ لڑکا اور اس کے ساتھ مسافر سیٹ پہ ایک لڑکی براجمان تھی۔
اچانک ایک گاڑی نے تیز رفتاری سے سامنے سے آکر اس پرانی جیگور کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ مگر گاڑی چلانے والے کو مہارت حاصل تھی اس نے رفتار بڑھا کر دوسری گاڑی کو اس سے باز رکھا۔
گاڑی اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی کہ پیچھے سے کچھ زور سے ٹکرانے کی آواز آئی۔ ڈرائیونگ سیٹ والے نے ایک ہاتھ سے ساتھ بیٹھی لڑکی کا سر نیچے کیا۔
وہ ایک عدد گن شوٹ تھا جو زونیا اور زارون کو روکنے کیلئے یا مارنے کیلئے کیا گیا تھا۔
شیشے ٹوٹنے کی آواز یوں بھی ممکن نہیں کہ گاڑیوں کے شیشے گیس سے بنائے جارہے ہیں۔ ٹوٹنے پہ چھن کی آواز کہ جگہ کسی غبارے کی ہوا نکلنے جیسی آواز چھس کرکے سنائی دیتی ہے۔
زونیا کا سیٹ بیلٹ کھول کر اس کو نیچے بیٹھا دیا تھا۔ جبکہ ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اسٹئیرنگ گھماتا جارہا تھا۔ کبھی دائیں کبھی بائیں تاکہ گولیوں سے بچا جاسکے۔
گاڑی کا رخ اب ائیر پورٹ کی جگہ بندرگاہ کی جانب تھا جہاں سے زونیا کو جانا تھا۔
ایک عدد سامان کا بیگ اس کے کندھوں پہ ڈال دیا تھا۔ حملہ آوورں کو چکما دے کر گاڑی بندگاہ سے کچھ فاصلے پہ کھڑی کرکے زونیا اور زارون ایک پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہوگئے۔
یہ ہم کہاں جارہے ہیں۔۔۔ ہمیں ائیرپورٹ جانا تھا۔۔ زونیا نے لبوں پہ زبان پھیرتے بمشکل اپنی بات کہی بھاگتے بھاگتے اس کا حلق خشک ہوچکا تھا۔
پہلے تمھیں چھوڑوں گا پھر میں جاؤں گا۔۔ زارون کی بات سن کر زونیا کچھ دیر خاموش ہوگئی۔ ناجانے اس کے ذہن میں کون سے خیال گردش کررہے تھے۔ مگر جب اس نے بات شروع کی تو سب واضح ہوگیا۔
مگر ڈیڈ نے کہا تھا آپ کی جان کو خطرہ ہے، وہ گینگ آپ کے پیچھے پڑا ہے اس لیے پہلے آپ کو جانا چاہیے۔
اگلے اسٹاپ پہ آپ اترجائیں یہاں سے ائیرپورٹ قریب رہےگا۔
زارون نے ایک لفظ بھی جواب میں نہیں کہا نا گردن کو جنبش دی تھی۔ ایسے بیٹھا رہا گویا اس نے کچھ سنا ہی نا ہو۔
زونیا کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ چند لمحوں میں اس کی زندگی اتنی بدل جائے گی اس نے کبھی سوچا ہی نا تھا۔ وہ اس طرح کبھی لندن کی سڑکوں پہ جان بچاتی ہوئی بھاگے گی یا اسے اپنی جائے پیدائش کو اس طرح چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ اس کی اپنی ہی سرزمین اس پہ تنگ کردی جائے گی۔ انہی سوچوں میں الجھے ناجانے کب وہ بندرگاہ کے قریب اسٹاپ پہ اتر گئے۔
ایک بڑا سا جہاز پہلے سے لنگر انداز تھا،جس کے پاس مسافروں کا ایک ہجوم موجود تھا جو اپنے سامان کے ساتھ سوار ہورہے تھے۔
زونیا کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے زارون رش میں جگہ بناتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک مقام پہ آکر اس کو وہ ہاتھ چھوڑنا پڑا جسے اب وہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
زونیا تختہ عبور کرتی ہوئی جہاز میں اندر کی جانب بڑھ رہی تھی جبکہ زارون کا رخ دوسری جانب تھا وہ باہر نکل رہا تھا۔
۔۔۔۔۔
کراچی
یہ کیا حالت بنا لی ہے تو نے۔۔ ہوش کر مجھے سب چھوڑ کے آنا پڑا۔۔ یہ حداب تھا جو اپنے دوست کیلئے چلا آیا تھا 5 دن ہوچکے تھے اس کا بخار اترا تھا نا اس کو ہوش آیا تھا۔ اب کچھ ہوش سنھبلا تھا تو حداب اس سے مخاطب تھا۔
محبت کو کھودینے سے زیادہ اگر اس بات کا دکھ ہو کہ آپ اپنی محبت کو بچانے کی کوئی کوشش بھی نا کر پائے ہوں تو یہ زیادہ اذیت ناک ہے۔ جس کا اثر زارون ملک پہ صاف نظر آرہا تھا۔
زرد چہرہ، سوجی ہوئی آنکھیں یاسیت اور اداسی نے اس کی شخصیت ہی اجاڑ دی تھی۔ 5 دنوں میں وہ برسوں کا بیمار لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔
صاحب جلدی آجائیں۔۔ ہم سے نہیں سنبھالا جا رہا آپ جلدی آجائیں۔۔۔
میں آرہا ہوں۔۔ ابتہاج کو کسی نے کال پہ جلدی آنے کا کہا۔

Zard Shafat (زرد صحافت)Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz