رمضان سپیشل آخری قسط

1.2K 47 12
                                    

گاڑی کی تیز رفتار کی وجہ سے ٹکر اتنی تیز تھی کہ حنین جو اپنی جگہ پر کھڑی تھی اڑتی چلی گئی اور پیڑ سے ٹکرا کر بےہوش ہوگئی اسکا وجود خون سے رس رہا تھا اسکو بہت چوٹیں ائین تھیں۔
اعزاز جلدی سے اسکے اس پہنچا۔
"حنین انکھیں کھولو۔ حنین، حنین۔۔" اعزاز نےتقریبا چیختے ہوئے کہا وہ اپنے آپکو سنبھال نہیں پارہا تھا حنین کو اس حالت میں دیکھ کر۔ اسکو سمجھ نہیں ارہا تھا وہ کیا کرے۔
"حنین۔۔۔" حورین چیخی۔
اعزاز حنین کو اٹھاتا گاڑی کی طرف آرہا تھا تبھی ہی حورین چیخی۔
ابان جو آنکھیں موندے سیٹ سے سر ٹکائے بیٹھا تھا ایکدم چونکا۔ پھر اس نے حیرانی سے اعزاز اور اسکے ہاتھوں میں بےہوش حنین کو دیکھا جسکے سر سے خون بہہ رہا تھا۔
ابان گاڑی سے نکل ایا۔
"کیا ہوا اسکو؟ کیسے لگی اسکو یہ چوٹیں؟ کیا ہوا ہے! تم کچھ بولتے کیوں نہیں۔۔؟" ابان چیخا
"فلحال ان باتوں کا وقت نہیں ہے اسے گاڑی میں بٹھاؤ بہت خون بہہ چکا ہے جلدی کرو اسے کچھ ہو نا جائے۔۔۔" اعزاز نے اپنی آنکھیں پوچھتے ہوئے کہا
اعزاز نے اسکو پیچھے لٹایا۔۔ حورین اسکا سر اپنی گود میں رکھے بیٹھ گئی۔ رومیشہ اور اریبہ پیچھے جا کر بیٹھ گئیں۔۔ کیونکہ کار سیون سیٹر تھی۔
حورین نے روتے روتے اپنے پرس سے دوسرا دوپٹہ نکالا اور اس کے سر سے نکلتے خون کو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
"ابان جلدی گاڑی چلاو۔" اعزاز نے چیختے ہوئے کہا۔
"بسسس ہم پہنچ گئے ہیں۔۔ میں روک رہا ہوں گاڑی تم ریلیکس ہوجاو۔ کچھ نہیں ہوگا حنین کو۔" ابان نے اس سے زیادہ اپنے اپکو تسلی دی۔ بھلے وہ اور حنین ہر وقت لڑتے تھے پر اس نے ہمیشہ حنین کو اپنی چھوٹی بہن مانا تھا۔اج اسکو اس حالت میں دیکھ کر اسے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
بلآخر ابان نے گاڑی روکی اور جلدی سے باہر نکلا اعزاز بھی باہر نکلا۔ ابان نے اندر جا کر اسٹریچر لانے کو کہا۔ حنین کو اسٹریچر میں لٹا کر وہ اور اعزاز اسکے ساتھ ہی اندر چلے گئے۔
جاتے جاتے ابان لڑکیوں کو تاکید کر گیا تھا کہ وہ اندر نا ائیں۔ گاڑی میں ہی اسکا انتظار کریں۔
چاروں لڑکیوں کی حالت بہت خراب تھی۔ اتنے میں فون کی آواز گاڑی میں گونجی۔ وہ لوگ چونک گئیں۔
جب دیکھا تو ابان کا فون بج رہا تھا۔ وہ جلدی میں فون وہیں چھوڑ گیا تھا۔
حورین نے فون اٹھایا تو دیکھا ابو کالنگ لکھا آرہا تھا۔
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی حورین نے ڈرتے ڈرتے کال اٹھائی۔
"کہاں ہو شاہ۔۔! وقت دیکھا ہے؟ اس وقت تم سب کو لے کر کہاں چلے گئے؟ عقل جگہ پر ہے کہ نہیں۔۔؟" اس نے کال اٹھائی ہی تھی کہ ہاشم صاحب برس پڑے۔
"وہ چچا جان میں حورین۔۔" حورین نے ڈرتے ہوئے رندھے لہجے میں کہا۔
"اوہ اچھا۔۔ بیٹا شاہ کا فون آپکے پاس کیا کر رہا ہے۔؟" ہاشم نے تشویش سے پوچھا۔
"وہ چچا جان۔۔۔۔" ابھی حورین کچھ ںولنے ہی والی تھی کہ گاڑی میں داخل ہوتے ابان نے اسکے ہاتھ سے فون لیا اور آنسو پوچھنے کے لیے اپنی جیب سے ٹشو نکال کر اسکو دیا۔
اور پھر واپس اسی خاموشی سے ہسپتال میں چلا گیا۔۔
حورین ہکا بکا رہ گئی۔
🖤🖤🖤
"ہاں ابو۔۔! وہ ایک پروبلم ہوگئی ہے۔" ابان نے پریشانی سے فون کان میں لگاتے کہا۔
"کیسی پروبلم۔۔؟ تم نے وقت دیکھا ہے۔ ایک بج رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو پروبلم ہوگئی ہے۔" ہاشم صاحب اس پر برس پڑے۔
"ابو۔۔! حنین کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور ڈاکٹرز کہ رہے ہیں سیریس کنڈیشن ہے" ابان نے رندھے لہجے میں کہا۔
ہاشم صاحب سکتے میں اگئے۔ بامشکل بولے
"کیسے ہوا۔۔؟"
"ابو۔۔! آپ اجائیں۔۔ ہم اکیلے نہیں سنبھال پائیں گے۔" ابان کی انکھوں میں نمی اگئی۔
وہ ایسا ہی تھا اپنے سے جڑے ہر رشتے کی قدر کرنے والا۔ پھر حنین کو تو اس نے اپنی بہن مانا تھا۔ اور اسکے ساتھ کیا ہوگیا تھا۔
"تم اور اعزاز وہیں رکنا میں اتا ہوں۔ پریشان مت ہونا تم لوگ۔۔" ہاشم صاحب نے اپنی بات مکمل کرکے جلدی سے فون رکھا۔؟

زندگی کے حسین رنگWhere stories live. Discover now