وہ چھ بجے تک آفس سے گھر آ جایا کرتا تھا۔۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو رومیسہ لیونگ میں اپنی کتابیں پھیلائیں زمین پر بیٹھی کوئی اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھی۔۔
"کیسی جا رہی ہے پڑھائی۔۔؟ "وہ اس صوفے پر بیٹھتا دوستانہ لہجے میں بولا
"ٹھیک جا رہی ہے۔۔ "وہ مصطفی انداز میں جواب دے کر خاموش ہوگئی۔۔
"تم اتنی سڑھی ہوئی کیوں بیٹھی ہو۔؟ "وہ اس کہ لہجے پر بولا
"میں پہلے بھی اتنی ہی سڑی ہوئی ہوتی ہوں۔۔ تمہیں آج زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔۔ "وہ اپنے ازلی بے زار لہجے میں بولی
"ہاں آج تو مجھے وہ بھی محسوس ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔۔ "وہ کھویا کھویا سا بولا تو رومیسہ نے اسے گھورا۔۔
"دل پھینک انسان۔۔ ٹھرک باز۔۔ اب کس کہ ساتھ سیٹنگ کر آئے ہو۔؟ "وہ اسے مشکوک نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی
"تمہیں میں ایسا لگتا ہوں۔۔؟ "وہ جیسے دکھ سے بولا
"لگنے لگانے کی تو بات ہی نہیں ہے۔۔ مجھے پورا یقین ہے تم ایسے ہی ہو۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولی تو حذیفہ اپنی بے عزتی پر کڑھ کر رہ گیا۔۔
"بہت غلط گمان رکھے ہوئے ہیں تم نے میرے بارے میں۔۔ "وہ جواباً بولا تو رومیسہ سر جھٹکتی ہوئی وہاں سے اٹھ گئی۔۔ وہ جانتی تھی اب وہ جتنی دیر بیٹھا رہے گا فضول ہانکتا رہے گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تمہاری مشوقع کی کال آ رہی تھی مجھے۔۔ کہہ رہی ہے تم اس کی کال ریسیو نہیں کر رہے اور تمہیں پیغام دے دوں کہ پلیز اس سے بات کرلو ورنہ وہ مر جائے گی۔۔ "وہ رات کے کھانے کے بعد باہر لان میں واک کرنے نکلا تھا جب رومیسہ حسب عادت منحوس خبر لے کر آ دھمکی۔۔
"اس سے کہہ دو حذیفہ کا موبائل خراب ہے۔۔ "وہ اکتاتے ہوئے بولا۔۔۔ آئمہ کے زکر پر وہ ایسے ہی چڑ جاتا تھا۔۔ وہ ہمیشہ اس کہ پیچھے پڑی رہتی اور اگر وہ بات نا کرتا تو گھنٹہ رونے کا سیشن کرتی تھی۔۔
"اوہ تو پہلے بتاتے نا۔۔ اب تو میں نے اسے کہہ دیا کہ حذیفہ کا موبائل اس کہ ہاتھ میں ہی ہے وہ بس تمہیں جان کہ اگنور کر رہا ہے۔۔ "وہ آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی تو حذیفہ کا دل چاہا اس کا گلہ دبا دے۔۔
"تمہارا دماغ تو نہیں خراب رومی۔۔؟ اب وہ گھنٹوں اس بات پر میرا سر کھائے گی۔۔ "وہ غصے سے بولا
"یار تم اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتے۔۔؟ بیچاری اتنی ٹرائی مارتی ہے تم پر۔۔ "وہ مسکراہٹ دبا کر بولی
"شادی تو مجھے جس سے کرنی ہے اسی سے ہی کروں گا۔۔ دنیا چاہے لاکھ رقیب بنے۔۔ "وہ اسے دیکھتے ہوئے معنی خیزی سے بولا
"اوہ۔۔ یعنی پہلے سے ہی کوئی پسند کی جا چکی ہے۔۔۔ پھر چاچو چچی کو کیوں اتنا کھپا رہے ہو۔۔؟ بتا دو انہیں بھی۔۔ "
"انہیں بھی بتا دوں گا وقت آنے پر۔۔۔ "وہ مسراہٹ دبا کر بولا
"یونی میں پڑھتی تھی۔۔؟ "رومیسہ نے تجسس سے پوچھا۔۔
"نہیں۔۔ "حذیفہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔
"آفس کی کولیگ؟ "اس نے دوسرا اندازہ لگایا۔۔
"نہیں۔۔ "اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔۔
"پھر کون ہے۔۔؟ بتا دو نا۔۔ "وہ تجسس سے بولی
"تمہیں کیوں اتنی ٹینشن ہو رہی ہے۔۔۔ جو بھی ہو تمہیں کیا۔۔ "وہ اسے گھور کر بولا
"میں تو جنرل سوال کر رہی تھی ۔۔ میری بلا سے جو مرضی ہو وہ۔۔ "وہ کندھے اچکا کر بولی ۔۔
پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھ لیا۔۔
"اچھا زرا سا ہنٹ ہی دے دو۔۔ "وہ عاجزی سے بولی
"ہنٹ بس اتنا ہی ہے کہ وہ میرے بہت آس پاس ہے۔۔ میرے دل کے بہت قریب۔۔ "وہ مسکرا کر بولتا اندر چلا گیا جبکہ وہ سوچ میں پڑ گئی۔۔
"ہیں۔۔؟ یہ آس پاس دل کے قریب والا کیا چکر ہے بھئی۔۔ "نا سمجھی سے سوچتی وہ اندر چلی آئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حذیفہ دیکھو تمہارے ماموں تم سے کتنا پیار کرتے ہیں۔۔ اور ایمن بھی کتنی پیاری بچی ہے۔۔ ہر کام آتا ہے اسے جبکہ وہ آئمہ اس کو تو تیار ہونے اور گھومنے پھرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔۔ تم میری مانو ایمن سے شادی کر لو ساری زندگی ماں کو دعائیں دو گے۔۔ "وہ اپنے موبائل پر مصروف تھا جب ماما اس کہ پاس بیٹھتی ہوئی بولیں۔۔
"ماما آپ لوگ کیوں ضد لگا کر بیٹھ گئے ہیں۔۔؟ مجھے نا ہی آئمہ سے شادی کرنی ہے نا ایمن سے۔۔ "
وہ اکتاہٹ سے بولا
"پھر کس سے کرنی ہے شادی تمہیں۔۔؟ "پاپا نے بھی راہ خیر میں اپنا حصہ ڈالا۔۔
"کسی سے بھی نہیں کرنی۔۔ "وہ بڑبڑایا۔۔
"آج تو تمہیں فیصلہ کرنا ہی ہوگا حذیفہ۔۔۔ آئمہ یا ایمن۔۔۔"
"میں نا آئمہ سے شادی کروں گا نا ایمن سے۔۔ اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔ "وہ غصے سے بولا
"پھر کس سے کرو گے۔۔؟ "
"اپنی پسند سے شادی کروں گا۔۔ آپ دونوں کی اگر ضد ہے تو میری بھی ضد ہے۔۔ "وہ اٹل لہجے میں بولا
"اور کون ہے تمہاری پسند۔۔؟ "انہوں نے اسے گھورا۔۔ ایک پل کو حذیفہ ہڑبڑایا۔۔ اس نے بے اختیار تھوک نگلا پھر ایک نظر دادی جان کو دیکھا جو آنکھوں سے ہی اسے تسلی دے رہی تھیں جبکہ دوسری نظر اس نے رومیسہ کو دیکھا جو شاید یہ سین بہت انجوئے کر رہی تھی ۔۔
"بولو بھی۔۔ کس سے کرو گے شادی۔؟ "اب کہ اسے خاموش دیکھ کر بابا غصے سے بولے
"رومی۔۔ رومسیہ سے کروں گا شادی ۔۔ اور اگر کسی نے میرے فیصلے سے اختلاف کیا تو میں کبھی شادی ہی نہیں کروں گا۔۔ "غصے سے کہتا وہ گھر سے باہر چلا گیا جبکہ پیچھے سے سب حیران پریشان کھڑے تھے بس دادی جان مسکرا رہی تھیں۔۔
رومیسہ کی آنکھیں جو پہلے تجسس لیے ہوئے تھیں اب حیرت سے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھیں جہاں سے حذیفہ باہر نکل کر گیا تھا۔۔
"اس کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔۔؟ کیا فضول بکواس کر رہا ہے۔۔ "بابا غصے سے بولے
"آنے دیں اسے گھر پوچھتی ہوں میں اس سے کہ آخر یہ چاہتا کیا ہے۔۔ "ماما بھی غصے سے بولیں تو رومیسہ پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
"تم لوگ بھی تو بے وقوفی کر رہے ہو نا۔۔ جوان اولاد ہے۔۔ اس پر اپنی مرضی مسلط کرو گے تو باغی ہو کر کہیں کوئی غلط قدم نا اٹھا لے۔۔ "
لوہا پہلے ہی گرم تھا۔۔ دادی جان نے اپنی ضرب بھی لگا دی۔۔
"لیکن اماں جان رومی سے کیسے کر دیں شادی اس کی ۔۔۔ "ماما پریشانی سے بولیں
"کیوں نہیں ہو سکتی رومی سے اس کی شادی۔؟ جیسے آئمہ اس کی کزن ہے ایمن اس کی کزن ہے تو رومی بھی اس کی کزن ہے۔۔ اگر ان سے شادی ہو سکتی ہے تو رومی سے کیوں نہیں۔۔ "وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔
"جو بھی ہے میں اپنے بیٹے کی شادی اپنی مرضی سے کروں گی۔۔ "وہ غصے سے کہتیں وہاں سے چلی گئیں۔۔
"میں بھی دیکھتا ہوں تم کیسے اپنی مرضی کرتی ہو۔۔ "وہ بھی غصے سے بولے تھے جبکہ دادی جان اپنا سر پکڑ کر رہ گئی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔