آج گھر میں پھر وہی موضوع کھلا ہوا تھا جس وہ سب سے زیادہ کتراتا تھا۔۔ اس کہ کمرے کا دروازہ ناک ہوا تو وہ جانتا تھا رومیسہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا۔۔
"لو بھئی شہزادہ سلیم۔۔ تمہارا بلاوا آیا ہے۔۔ "وہ اندر آ کر مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔
"ماما سے کہہ دو میں سو رہا ہوں۔۔ "وہ اکتاتے ہوئے بولا
"ویسے یار حذیفہ تم ایک کام کیوں نہیں کرتے۔۔۔ "وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی
"رومی کمرے سے باہر نکل جاؤ۔۔۔ "وہ تکیے میں سر گھسا کر بولا
"تم نا دونوں سے شادی کر لو۔۔ کتنا مزہ آۓ گا نا ۔۔ ایک طرف آئمہ دلہن بنی بیٹھی ہو گی دوسری طرف ایمن۔۔ اور بیچ میں تم۔۔ واؤ۔۔ ہاؤ امیزنگ۔۔ "رومیسہ بڑے پر جوش انداز میں کہہ رہی تھی۔۔
"رومیسہ تم اپنے مشورے اپنے پاس رکھو اور دفع ہو جاؤ میرے کمرے سے۔۔ "وہ غصے سے دھاڑا تھا۔۔
"چیخ کیوں رہے ہو۔۔ جا رہی ہوں میں تو بس چچی کا پیغام لے کر آئی تھی۔۔ جا کر کہہ دیتی ہوں وہ کہہ رہا ہے جس سے آپ کہیں میں وہاں شادی کر لوں گا۔۔ "وہ مزے سے بولی تو وہ تکیہ دور پھینکتا فوراََ اٹھا۔۔
"مر جاؤ تم ٹائم نکال کہ۔۔ "وہ غصے سے بولا
"میرے پاس تو چلو ٹائم نہیں ہوتا۔۔ تم تو ما شا اللہ فارغ ہی ہوتے ہو۔۔ پہلے تم مر جاؤ نا۔۔ "وہ اسی کہ انداز میں بولی تو حذیفہ نے اسے
گھورا۔۔۔ وہ سر جھٹک کمرے سے باہر نکل آئی۔۔
اجمل صاحب اور سمیہ بیگم کی ایک بیٹی ماریہ تھی جو کہ شادی شدہ تھی جبکہ ایک بیٹا حذیفہ تھا جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی کمپنی میں جاب کر رہا تھا۔۔
اجمل صاحب اور سمیہ بیگم دونوں میں بہت محبت تھی لیکن جب سے حذیفہ کی شادی کا قصہ چھڑا تھا وہ دونوں ضد لگائے بیٹھے تھے۔۔ اجمل صاحب اپنی بہن کی بیٹی آئمہ سے اس کی شادی کرنا چاہتے تھے جبکہ سمیہ بیگم اس کی شادی اپنے بھائی کی بیٹی ایمن سے کرنا چاہتی تھیں اور حذیفہ ان دونوں میں سے کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو خفا نہیں کر سکتا تھا۔۔
رومیسہ حذیفہ کی چچا زاد تھی۔۔ رومیسہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔۔ اس کی پیدائش کے چند سال بعد ہی اس کہ والد کا انتقال ہوگیا تھا۔۔ ان کہ انتقال کہ بعد اس کی والدہ نے دوسری شادی کر لی تھی جہاں رومیسہ کو قبول نہیں کیا گیا تھا اس لیے وہ اپنی دادی جان کہ پاس رہ رہی تھی۔۔ انہوں نے اسے بالکل اپنی اولاد کی طرح ہی پالا تھا۔۔ رومیسہ ایک خوش شکل اور خوش اخلاق لڑکی تھی۔۔ وہ ابھی اپنے بی ایس سی کہ پہلے سمیسٹر میں تھی۔۔ چچی جان کا جب دل ہوتا اس سے پیار کر لیتیں ورنہ کبھی غصہ کر جاتیں ان سے وہ کچھ خاص اٹیچ نا تھی۔۔ ماریہ کی بھی شادی ہوچکی تھی جبکہ حذیفہ تو اسے ویسے ہی ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔۔ بس چچا جان اور دادی جان ہی تھے جن سے وہ اپنی ہر بات شئیر کرتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"دادو میں کیا کروں۔۔۔ ماما بابا کو پتا نہیں اس عمر میں آ کر کیا ضد لگ گئی ہے۔۔ "وہ ان کی گود میں سر رکھ کر کہہ رہا تھا۔۔ دادی جان اس کی سب سے بہترین دوست تھیں۔۔ وہ انہیں سب سے زیادہ چاہتا تھا۔۔
"تو تم ان دونوں میں سے کسی ایک کی مان لو نا۔۔
وہ اس کہ بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں
"کیسے مان لوں دادو۔۔ آئمہ سے شادی کروں گا تو ساری زندگی ماما کے طعنے سننا پڑیں گے۔۔ ایمن سے کروں گا تو بابا کہ۔۔ میں کہاں جاؤں۔۔ "وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہوئے بولا
"پھر میں تمہیں ایک مشورہ دوں۔۔ "وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔۔
"میں آپ کے پاس مشورہ لینے ہی آیا ہوں۔۔ "وہ فوراً سے سیدھا ہوا۔۔
"تم رومی سے شادی کر لو۔۔۔ "ان کہ کہنے پر اس نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تھا۔۔
"ہیں۔۔؟ میں کس سے کیا کر لوں۔۔؟ "وہ نا سمجھی سے بولا تھا۔۔
"رومیسہ سے شادی کر لو۔۔ "انہوں نے اپنی بات دہرائی کچھ دیر حذیفہ انہیں بے یقینی سے دیکھتا رہا پھر بے اختیار ہی ہنستہ چلا گیا۔۔
"دادو۔۔۔ دادو کیا ہوگیا ہے آپ کو۔۔۔۔ آپ چاہتی ہیں میں اس بدتمیز بد دماغ لڑکی سے شادی کر لوں۔۔ یقین کریں اس سے بہتر ہے میں آئمہ اور ایمن دونوں سے شادی کر لوں۔۔ "وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔ اسے یہی لگا تھا کہ دادی جان مزاق کر رہی ہیں۔۔
"میں مزاق نہیں کر رہی حذیفہ۔۔۔ رومیسہ سے شادی کر لو تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔۔ "وہ اسے ہنستے ہوئے دیکھ کر سنجیدگی سے بولیں
"اس سے شادی کر کہ مسئلہ حل نہیں ہوگا دادو۔۔ بلکہ مسائل پیدا ہو جائیں گے میرے لیے۔۔ "وہ اب بھی غیر سنجیدہ تھا۔۔
"تم اس معاملے پر غور سے سوچو حذیفہ۔۔ رومیسہ بہت اچھی لڑکی ہے۔۔ منگنی کرلو ایک دفع شادی تو پھر بعد کی بات ہے۔۔ ایک دفعہ تمہارے والدین کے سر سے یہ بھوت تو اترے اپنی اپنی ضد کیا۔۔ "
دادی جان کی بات پر وہ سوچ میں پڑ گیا ۔۔
"کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں دادو۔۔ منگنی کرنے میں کیا حرج ہے اگر اس طرح سے ماما بابا کی ضد ٹوٹتی ہے تو ایسے ہی سہی۔۔ "وہ سوچتے ہوئے بولا
"بس پھر اب دوبارہ وہ تم سے جب بھی پوچھیں بتا دینا کہ میں رومیسہ کو پسند کرتا ہوں۔۔ اختلاف ضرور کریں گے لیکن تمہاری ضد کے آگے اپنی ضد چھوڑ دیں گے۔۔ "وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔
"لیکن اس نک چڑی کو کون سمجھائے گا۔۔ مجھے دیکھ کر ہی وہ ناک بھوں چڑھانے لگتی ہے منگنی تو بڑی دور کی بات ہے۔۔ "اب اسے رومیسہ کی فکر ہونے لگی۔۔
"اسے سمجھانا میرا کام ہے بس تم دو چار اپنا رویہ کچھ بہتر کر لو اس کہ ساتھ۔۔ "وہ اسے تسلی دلاتے ہوئے بولیں
"وہ ہمیشہ بد تمیزی کرتی ہے دادو۔۔ میں کچھ نہیں کہتا اسے۔۔ "وہ منہ بنا کر بولا
"تم کونسا چپ رہتے ہو۔۔ چار سال چھوٹی ہے تم سے۔۔ کچھ خیال ہی کر لیا کرو۔۔ "
"اسے بھی تو بدتمیزی کرتے ہوئے کبھی شرم نہیں آئی۔۔ "
"چلو اب اس کی برائیاں چھوڑو اور اچھی باتیں سوچوں۔۔ "
"ویسے دادو۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ "وہ زمین سے اٹھ کر ان کہ گلے لگتے ہوئے بولا
"یہ اب اگر تم رومی سے کہو تو شاید بات بن جائے۔۔
وہ مسکرا کر بولیں
"بات بنے نا بنے آپ کی پوتی میرا کباڑا ضرور بنا دے گی۔۔ "وہ ڈرتے ہوئے بولا
"بہادر بنو بچا بہادر بنو۔۔ "وہ مسکرا کر بولیں تو وہ بھی مسکراتے ہوئے باہر آ گیا اب اسے پتا تھا اس نے کیا کرنا ہے۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے چل رہا تھا جب دادی جان کے کمرے کی طرف جاتی رومیسہ کو دیکھ کر وہ وہیں کھڑا ہو گیا۔۔
"کیا مسئلہ ہے کھڑے کھڑے سو گئے ہو۔۔؟ ہٹو پرے۔۔
اسے راستے میں کھڑا دیکھ کر وہ غصے سے بولی
"بلو کلر سوٹ کرتا ہے تم پر کافی۔۔ "وہ بڑی دل پھینک مسکراہٹ کے ساتھ بولا تو رومیسہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
"اے دماغ تو نہیں چل گیا کیا۔۔؟ دادو سے مار کھا کر آ رہے ہو۔۔ "وہ حیرت سے بولی
"دماغ کا تو پتا نہیں دل کچھ عجیب سا ہو رہا ہے۔۔
اس نے فلمی ڈائیلاگ مارنا چاہا۔۔
"پیچھے ہٹو گھٹیا انسان۔۔ پتا نہیں کہاں سے سر پھڑوا کر آ رہے ہو۔۔ "وہ غصے اسے پرے دھکیلتی کمرے میں چلی گئی جبکہ حذیفہ اپنے آپ کو داد دے کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔