5

1.7K 182 43
                                    


"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں۔۔؟ "وہ صبیحہ بیگم کو ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیکھ کر حیرت سے بولی۔۔
"میں اپنی بچی سے ملنے نہیں آ سکتی۔۔ "وہ رومیسہ کو گلے لگاتے ہوئے بولیں
"پہلے تو کبھی اتنی یاد نہیں ستائی آپ کو میری۔۔ "
وہ طنزیہ لہجے میں بولی
"رومی۔۔ کس لہجے میں بات کر رہی ہو۔۔ "وہاں بیٹھی چچی جان نے اسے ٹوکا۔۔ وہ اس چیز کا بہت خیال رکھا کرتی تھیں کہ رومیسہ باہر کسی سے بد تمیزی نا کرے۔۔ ان کہ نزدیک اس کی زیادہ پرورش انہوں نے ہی کی تھی اور اگر اب وہ کوئی بھی ایسی حرکت کرتی تو جواب دہ انہیں ہی ہونا پڑتا تھا۔۔
چچی جان کے ٹوکنے پر اس نے اپنا لہجہ کچھ درست کیا۔۔ کچھ دیر وہ ان سے باتیں کرتی رہی پھر اٹھ کر ان کہ لیے چائے بنانے چلی گئی۔۔
وہ چائے بنا کر دوبارہ ڈرائنگ روم میں جا رہی تھی جب اندر سے آنے والی آوازوں نے اس کہ قدم روکے۔۔
"کون ہے اور ہم یہاں کان لگائے کیوں کھڑی ہو۔۔؟"
حذیفہ ابھی آفس سے آیا تھا اور رومیسہ کو اس طرح سے کھڑا دیکھ کر بولا
"ماما آئی ہیں۔۔"وہ آہستہ سے بولی
"تو یہاں کیوں کھڑی ہو؟ اندر تو چلو نا۔۔ "
یہ کہتے ہی اس نے اندر کی طرف قدم بڑھانے چاہے لیکن رومی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روکا۔۔
"صبر ہے تم میں زرا بھی۔۔ کھڑے رہو یہیں۔۔ "وہ غصے سے بولی
"کون سی گول میز کانفرنس ہو رہی ہے اندر جو تمہیں یہاں کھڑے ہو کر سننا پڑ رہی ہے۔۔ "وہ تجسس سے بولا
"تم خاموش کرو گے تو کچھ سننے کو ملے گا۔۔ "
وہ اسے گھور کر بولی تو حذیفہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش ہوگیا۔۔
"میں چاہتی ہوں اب رومیسہ کے فرض سے فارغ ہو جاؤں۔۔ "اندر سے اس کی ماما کہہ رہی تھیں۔۔ حذیفہ نے لب بھینچے۔۔
"آپ لوگوں نے رومیسہ کو ساری زندگی پالا ہے لیکن اس کی ماں میں ہوں۔ جو میرا حق ہے اس پر وہ کسی کا نہیں ہے۔۔ رومیسہ کے لیے میرے دیور کے بیٹے عدیل کا رشتہ آیا ہے۔۔ "وہ آرام سے کہہ رہی تھی جبکہ حذیفہ نے رومیسہ کی طرف دیکھا۔۔
"یہ کیا بکواس ہے۔۔؟ "وہ غصے سے بولا
"تم چپ کر کہ یہیں کھڑے ہو۔۔ "سنجیدگی سے کہتی وہ اندر چلی گئی اور چائے ٹیبل پر پٹخ کر ان کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
"اب آپ کو یاد آ گیا ہے کہ مجھ پر سب سے زیادہ حق آپ کا ہے۔۔ اس وقت یہ حقائق کی بات کیوں نہیں کی تھی جب مجھے چھوڑ کر چلی گئیں تھیں۔۔ "وہ غصے سے کہہ رہی تھی۔۔ سب خاموش بیٹھے تھے۔۔ ان ماں بیٹی کے معاملے میں کوئی نہیں بولنا چاہتا تھا۔۔
"میں تمہاری ماں ہوں رومیسہ۔۔ تمہارے لیے کوئی غلط فیصلہ تھوڑی نا کروں گی۔۔"وہ دکھ سے بولیں
"اتنے عرصے سے آپ کی ممتا کیوں سوئی ہوئی تھی۔۔؟ تب کیوں نہیں جاگی آپ کی ممتا جب مجھے یہاں ان سب کے حوالے کر کہ خود چلی گئیں تھیں۔۔ "وہ شکوہ جو آج تک اس نے کبھی نا کیا تھا اب زبان پر آ ہی گیا تھا۔۔
"رومی اس وقت میں مجبور تھی۔۔ اب میں تمہارے بھلے کے لیے ہی کہہ رہی ہوں۔۔ عدیل اچھا لڑکا ہے تم اس سے شادی کر لو۔۔ اس طرح سے تم میرے قریب بھی رہو گی۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولیں
"تب آپ مجبور تھیں اب میں مجبور ہوں۔۔ میرا رشتہ پہلے ہی حذیفہ سے طے ہو چکا ہے۔۔ آپ سے زیادہ محبت مجھے ان لوگوں سے ملی ہے اور اب میں اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار انہی لوگوں کو دوں گی۔۔ آپ کو میرے لیے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہں ہے۔۔ "وہ غصے سے بولی تو سب نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔حتا کہ باہر کھڑے حذیفہ کا منہ بھی حیرت سے کھل گیا۔۔ وہ لڑکی جو اتنے دن سے واویلا مچا کر بیٹھی تھی اس سے شادی نا کرنے کے لیے اب کتنی آسانی سے کہہ گئی تھی۔۔
"تم ایسے کیسے کر سکتی ہو۔۔؟ میں تمہاری ماں ہو۔۔ میرا حق ہے یہ۔۔ "وہ بھی غصے سے بولیں
"اسی دن کھو دیے تھے آپ نے اپنے سارے حق جب اپنی پانچ سالہ بیٹی کو چھوڑ کر گئی تھیں۔۔ اپنی بیٹی کے ساتھ تمام حقوق بھی آپ انہی لوگوں کے حوالے کر گئیں تھیں۔۔ "وہ انہیں کہ انداز میں بولی
"میری بات سنو بیٹا تمہارے ایسا کرنے سے میرا گھر خراب ہو جائے گا۔۔ انہوں نے بڑی چاہ سے تمہارا رشتہ مانگا ہے اب اگر انکار کر دیا تو وہ میرا وہاں رہنا مشکل کر دیں گے ۔ "وہ دکھ سے بولیں
"واہ ماما واہ۔۔ اپنا گھر بچانے کے لیے آپ میری زندگی میری خوشیاں داؤ پر لگا رہی ہیں۔۔ میں آپ کو ایک بات کلیئر کر دوں ماما ۔۔ یہ میری زندگی ہے اور میں آپ کو اس پر حکمرانی کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتی۔۔ میرا رشتہ حذیفہ سے طے ہو چکا ہے اور شادی بھی اسی سے ہی ہوگی۔۔ بہتر ہے آپ دوبارہ اس گھر کا رخ نا کریں۔۔ "
غصے سے کہتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
"رومی۔۔"وہ اسے پکار رہی تھیں لیکن وہ تب تک جا چکی تھی۔۔
"آپ سمجھائیں اسے۔۔ ایسے کیسے انکار کر سکتی ہے یہ۔۔ "اس کہ جانے کے بعد وہ دادی جان کی طرف متوجہ ہوئیں۔۔
"ہم اس پر کوئی زبردستی نہیں کر سکتے۔۔ جو وہ فیصلہ کر چکی ہے بس ہوگیا اب۔۔ "دادی جان بھی سنجیدگی سے کہتیں وہاں سے اٹھ گئیں۔۔
"آپ۔۔ آپ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔ میری بیٹی ہے وہ۔۔ "اب کہ چچی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولیں
"اب کوئی فائدہ نہیں ہے اپنا حق جتانے کا۔۔ بہت دیر ہوگئی ہے۔۔ "وہ بھی سنجیدگی سے کہتی وہاں سے چلی گئیں تو وہ بھی غصے سے نکل گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں سے نکل کر وہ لان میں آ کر بیٹھ گئی تھی۔۔ آج حقیقتا اپنی ماں کی باتوں سے اسے بہت دکھ ہوا تھا۔۔ وہ اتنی مطلبی ہوں گی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گم بیٹھی تھی جب اسے اپنے ساتھ کسی کے بیٹھنے کا احساس ہوا۔۔
"شیرنی لگی ہو میری۔۔ دل خوش کر دیا۔۔ "حذیفہ اس کہ ساتھ بیٹھ کر مسکراتے ہوئے بولا وہ دونوں لان کی سیڑھی پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔
"زیادہ اوور مت ہو۔۔ جب تم مجھے استعمال کر سکتے ہو تو میں نہیں کر سکتی کیا۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولی
"میں نے تمہیں کب استعمال کیا۔۔ "حذیفہ نے حیرت سے پوچھا۔۔
"تم نے ان دونوں سے جان چھڑانے کے لیے مجھے استعمال کیا۔۔ میں نے عدیل سے بچنے کے لیے تمہارا استعمال کر لیا۔۔ "
"چلو یہ بھی اچھا۔۔ میں نے تمہیں استعمال کیا تم نے مجھے کر لیا حساب پورا۔۔ اب کیا ہم دوستی کر لیں۔۔؟۔"وہ اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا ۔۔۔
"سوچنا بھی مت۔۔ "وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی
"چلو منگنی تو ہو ہی گئی ہے۔۔ دوستی بھی ہوجائے گی پھر پیار بھی ہو جائے پھر شادی بھی ۔۔"وہ جیسے بہت کھوئے کھوئے لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔
"ہوتے رہو خوش۔۔ میرا کیا جاتا ہے۔۔ "سنجیدگی سے کہتی وہ وہاں سے اٹھ گئی۔۔ حذیفہ بھی اس کہ پیچھے ہی اٹھ گیا۔۔
"تم اداس ہو۔۔؟ "حذیفہ کی بات پر اس نے خلاف معمول اتنا معمولی سا ریکشن دیا تھا۔۔ ورنہ ایسی باتوں پر تو وہ مرنے مرانے پر تل جاتی تھی۔
"حیران ہوں۔۔۔ کتنی خود غرض دنیا ہے۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولی
"تم مجھ سے دل لگا کر دیکھو۔۔ قسم سے بڑا بے غرض ہو کر چاہوں گا تمہیں۔۔ "وہ مسکرا کر بولا
"دفع ہو ٹھرکی گھٹیا انسان۔۔ "وہ اسے گھورتی ہوئی چلی گئی جبکہ وہ مسکرا کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

LOVE TALES❤Where stories live. Discover now