"کہاں جا رہی ہو تم۔۔؟ "وہ رومیسہ کے کمرے میں آیا تو اسے بیگ پیک کرتا دیکھ کر بولا
"ماما سے ملنے جا رہی ہوں۔۔ کچھ دن وہیں رہوں گی۔۔ "وہ مصروف انداز میں بولی
"تم وہاں نہیں جاؤ گی۔۔ "وہ سختی سے بولا
"کیوں۔۔؟"رومیسہ نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔۔
"کیوں کہ مجھے اچھا نہیں لگتا تمہارا وہاں جانا۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا
"تمہیں ایسا کوئی حق نہیں ہے حذیفہ کے مجھ پر پابندیاں لگاؤ ۔۔ "وہ غصے سے بولی
"رومی بحث مت کرو۔۔ وہاں عدیل بھی موجود ہوگا جو مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولا
"تو تمہیں اس سے کیا مسلہ ہے۔۔؟ "
"وہ جس طرح سے تم سے فری ہونے کی کوشش کرتا ہے۔۔ مجھے غصہ آتا ہے۔۔ "وہ غصے سے بولا
"اور یہ جو تم آج کل مجھ سے فری ہو رہے ہو نا۔۔ یہ مجھے غصہ دلاتا ہے۔۔ "
"دیکھو رومی۔۔ میری بات مان لو مت جاؤ۔۔"وہ سنجیدگی سے بولا
"تمہارے پیچھے اب میں اپنی ماں سے ملنا چھوڑ دوں۔۔؟ "
"تم ان سے کہو وہ یہاں آ کر مل جائیں تم سے۔۔ "
وہ حل پیش کرتے ہوئے بولا
"میرا دماغ مت کھاؤ حذیفہ جاؤ یہاں سے۔۔ "
"اچھا ٹھیک ہے تم چلی جاؤ لیکن شام میں واپس آ جانا۔۔ رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ "
"مجھے تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ اپنے کام سے کام رکھو۔۔ "وہ غصے سے بولی
"مشورہ نہیں دے رہا حکم دے رہا ہوں۔۔ شام میں خود واپس نا آئی تو لینے چلا آؤں گا۔۔ "وہ بھی اسی کہ انداز میں بولا
"تم ہوتے کون ہو مجھ پہ حکم چلانے والے۔۔ ؟ "
وہ غصے سے چیخی۔۔
"میں جو بھی ہوتا ہوں اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔۔۔ فلحال تم یہ بات ذہن میں بٹھا لو کہ شام میں تم واپس آؤ گی۔۔ "اٹل لہجے میں کہتا وہ اس کہ کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ رومیسہ نے غصے سے بیگ اٹھا کر دور پھینکا۔۔
"میں بھی دیکھتی ہوں کیسے چلاتا ہے یہ حکم مجھ پہ۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے واہ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔۔ "
وہ لیونگ میں بیٹھی تھی۔۔ ماما اس کہ لیے ناشتہ بنانے گئی تھیں جب عدیل وہاں آتے ہوئے بولا
"السلام علیکم عدیل بھائی۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔ وہ جانتی تھی اس کہ بھائی کہنے پر عدیل کتنا تپے گا۔۔
"اب بھائی تو مت کہو۔۔ وہ منہ بنا کر بولا
"اب اتنی عمر تو ہے نہیں آپ کی کہ انکل کہوں۔۔ معیوب لگے گا نا زرا۔۔ "وہ معصومیت سے بولی تو عدیل کڑھ کر وہ گیا۔۔
"ارے بیٹا تم کب آئے۔۔ "اتنی دیر میں وہ اس کہ لیے ناشتہ بنا کر لے آئیں۔۔۔
"بس ابھی آیا ہوں چچی۔۔ سنا رومیسہ آئی ہے تو سوچا ملاقات ہی کر لوں۔۔ "وہ مسکرا کر بولا
"چلو تم لوگ باتیں کرو میں آتی ہوں۔۔ "وہ مسکراتے ہوئے بولیں
"میں آپ سے باتیں کرنے کے لیے آئی ہوں۔۔ اور لوگوں سے نہیں۔۔ "وہ زرا طنزیہ لہجے میں بولی تو ان کی مسکراہٹ سکڑی۔۔ عدیل بھی غصے سے وہاں سے چلا گیا۔۔
"زرا سوچ سمجھ کر بولا کرو رومی۔۔ سسرال ہے یہ میرا۔۔ اور میں سارا دن تمہارے ساتھ نہیں بیٹھی رہ سکتی مجھے گھر کے بھی کام ہیں۔۔ "وہ اسے جھڑکتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں جبکہ اس نے بہت سے آنسو اپنے اندر اتارے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں آ کر ایسے ہی ہوتا تھا۔۔ وہ کچھ دیر اس کہ ساتھ بیٹھی رہتیں پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو جایا کرتی تھیں ۔۔ ان کہ ایک بیٹا بیٹی اور بھی تھے اور شاید وہ انہیں رومیسہ سے زیادہ عزیز تھے۔۔
ابھی اسے لان میں بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو عدیل بیٹھا تھا۔۔ اسے دیکھ کر رومیسہ کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔۔
"اکیلی کیوں بیٹھی ہو یہاں۔۔؟ "وہ دوستانہ لہجے میں پوچھ رہا تھا۔۔
"ویسے ہی۔۔"وہ سنجیدگی سے بولی
"چلو کہیں باہر چلتے ہیں۔۔ "
"نہیں شکریہ۔۔ "وہ انکار کرتے ہوئے بولی
"تم اتنا نخرہ کیوں دکھاتی ہو۔۔؟ "وہ تنگ آتے ہوئے بولا
"اور آپ اتنا فری ہونے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔۔؟
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی اب اسے اپنے یہاں آنے کے فیصلے پر بے تحاشہ غصہ آیا۔۔ عدیل کی نظریں اسے وحشت میں مبتلا کرتی تھیں۔۔
یہ کہہ کر بغیر اس کا کوئی جواب سنے وہ اندر آگئی اور کمرے میں بند ہو گئی جو کہ اس کی چھوٹی بہن کا تھا۔۔ ابھی اسے لیٹے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی جب اس کی بہن نے آ کر پیغام دیا۔۔
"آپی آپ کو لینے آیا ہے باہر کوئی۔۔ "
وہ اتنا کہہ کر چلی گئی جبکہ رومیسہ کو اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ یہ حذیفہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔
"منع کیا تھا نا تمہیں میں نے۔۔ پھر کیوں لینے آ گئے ہو۔۔۔"وہ ڈرائنگ روم میں آ کر غصے سے بولی
"اور میں نے بھی تم سے کہا تھا کہ تم یہاں نہیں رہو گی۔۔ "وہ بھی اسی کہ انداز میں بولا اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی اس کی امی کمرے میں داخل ہوئیں تو ان دونوں کو خاموش ہونا پڑا۔۔
"تم نے آنے کی زحمت کیوں کی حذیفہ۔۔؟ عدیل چھوڑ دیتا رومیسہ کو گھر۔۔ "وہ حذیفہ سے بولیں
"مجھے رومیسہ نے ہی کال کی تھی کہ واپسی پر اسے لیتا جاؤں۔۔ "عہ سنجیدگی سے بولا جبکہ اس کہ جھوٹ پر رومیسہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔
"اتنی بھی کیا جلدی تھی رومیسہ۔۔ ایک دو دن رہ لیتی۔۔ "وہ جیسے مروت نبھانے کو بولی تھیں۔۔ اپنی اتنی نا قدری پر اسے رونا آیا۔۔
"نہیں ماما۔۔ کل سے یونیورسٹی بھی جانا ہے۔۔ پھر کبھی آ جاؤں گی۔۔ "وہ حذیفہ کے ساتھ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن عدیل کی گھٹیا نظریں اور ماما کہ رویے نے اسے دلبرداشتہ کردیا تھا کہ وہ اب ایک لمحہ بھی وہاں نہیں گزارنا چاہتی تھی۔۔
"چلو آ جانا پھر۔۔"وہ بس اتنا بولی تھیں۔۔ رومیسہ نے کمرے سے اپنا بیگ اٹھایا اور بغیر ان سے ملے باہر آ گئی۔۔
"ارے آپ ابھی سے جا رہی ہیں۔۔؟ میں نے تو سوچا تھا کچھ دن رہیں گی آپ۔۔۔"وہ باہر نکلے ہی تھے جب عدیل اسے جاتے ہوئے دیکھ کر بولا رومیسہ اسے جواب دینے کو رکی لیکن حذیفہ نے اس کا بازو دبوچ کر اسے آگے کو دھکیلا اور اپنے ساتھ باہر لے گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہو گیا شوق پورا۔۔ منع کیا تھا مت آؤ یہاں۔۔ دیکھ لیا رویہ سب کا۔۔ "گاڑی میں کچھ دیر کی خاموشی کے بعد حذیفہ بولا
"چپ کر جاؤ حذیفہ۔۔ تمہیں کس نے کہا تھا مجھے لینے آنے کو۔۔ "وہ غصے سے بولی
"میں لینے نا آتا اور تم دو دن مزید اپنی تزلیل کرواتی رہتی۔۔ تمہیں مجھ پر غصہ ہے نا تم نکال لو۔۔ لیکن دوبارہ وہاں جانے کی بات مت کرنا۔۔ "وہ غصے سے بولا
"مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔۔ تم سب مطلب پرست ہو۔۔ میری سگی ماں جس نے مجھے لاوارثوں کی طرح پھینکا ہوا ہے۔۔ وہ اپنی دوسری اولاد میں اتنا مصروف ہیں کہ میرا وجود اہمیت ہی نہیں رکھتا ان کے لیے۔۔ اور تم۔۔ تم اپنے والدین کی ضد توڑنے کے لیے مجھے استعمال کر رہے ہو۔۔ صرف اس لیے مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تاکہ ان دونوں سے تمہاری جان چھوٹ جائے۔۔ سب مفاد پرست ہیں ۔۔ کسی کو میری پرواہ نہیں ہے۔۔ "وہ غصے سے کہہ رہی تھی جب آخر میں اس کی آواز رندھ گئی۔۔
"اتنی ملکہ جذبات کیوں بن رہی ہو۔۔؟ اگر تمہاری پرواہ نا ہوتی تو کبھی لینے نا آتا تمہیں۔۔ فکر تھی تو آیا ہوں۔۔ اور اگر ماما بابا کی ضد توڑنے کے لیے ہی مجھے شادی کرنی ہوتی نا تو کسی سے بھی کر لیتا۔۔ تمہارے لیے ضد لگا کر نا بیٹھتا اپنے گھر والوں کے آگے۔۔ "وہ سنجیدگی سے بولا
"چپ کر جاؤ حذیفہ اب۔۔ میرا دماغ مزید خراب مت کرو۔۔ "وہ غصے سے بولی تو وہ لب بھینچ کر خاموش ہوگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔