فتح تیری ، شکست میری - Episode ۱

92 3 2
                                    

Episode 1
اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی کو خود پر اتنا تسلط قائم کرنے دیا تھا۔ پہلی بار، کسی کی ہر بات کو پی کر خود کو غلط مان لیا تھا۔ لیکن۔۔وہ خالی ہاتھ ششدر بیٹھے رہ گئی تھی۔۔۔ صرف درد تھا جو اس کی جھولی میں آن گرا تھا۔۔ اس نے ضبط کرنے کی کوشش میں خود کو ہار دیا تھا اس کے باوجود درد تھا کے بڑھتا جا رہا تھا۔ لفظ بکھر بکھر کے ہاتھ سے پھسل کر پھیلتے جارہے رہے تھے۔ ان ہواؤں کے سنگ جو بہت ظالم تھیں۔ بہت زیادہ۔
جو یقینا کہیں نہ کہیں اس کی گلیوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ ویسی ہی بے حس، ویسی ہی سنگ دل!
میں موجود ہر ہر رگ میں اسی کی محبت خون بن کے دوڑتی تھی۔۔
یہ تھا اس کا رشتہِ اس ستم گر کے ساتھ، جسے وہ اپنی ہر ممکن کوشش سے بھی نہیں توڑ پائی تھی۔ یہ تھی اس کی غیر مشروط محبت۔ ۔
اس صنف نازک کی محبت۔۔ جس کی ذات مضبوط ہوا کرتی تھی اپنے آپ میں، بلکل منفرد، یکجا۔۔
جس کے پاس نہ ستواں ناک تھی نا غلافی آنکھیں۔۔
نہ بغیر غاز ے کے دہکتے سرخ رخسار تھے نہ یاقوت کی قاشوں سے شنگرفی ہونٹ۔۔
مگر پھر بھی جب وہ اپنے پورے قد سے سا دے تسمے کی جوتی پہنے چلتی تو چال میں فخر ہوتا۔۔ سیاہ پتلیوں میں ہلکورے لیتی ذہانت آنکھوں کو چمک عطا کرتی۔۔ ناک میں موجود اکلوتی زینت بخشتی لونگ اس کی اٹھان نمایاں کرتی، اس کی خودی ، اس کی عزت نفس۔۔ ہونٹوں کا خم سامنے سے بہت سادہ تھا۔۔بلکل عام سا۔۔لیکن جب خطاب کرنے کے لیے وہ ڈھلتے تو اپنی خوبصورت پیچیدگیاں عیاں کرتے۔۔اس کی رنگت میں ملاحت تھی جو سختی سے مبدل ہو جاتی تھی کچھ خاص اوقات میں۔۔

مختصر یہ کہ وہ عام نہیں تھی۔ اس کی ذہانت خاص تھی۔اسکا خاندان مختلف تھا۔ کچھ الگ تھا اس کی زندگی میں۔ کامیابیاں تھیں، شہرت تھی ، جدوجھد تھی خود کو خودی سے مستعار کر کے اپنا نام رقم کرنے کی۔۔ اسے رشک تھا خود پر۔۔ کہ وہ انفرادیت لیے ہوئے ہے۔۔
" ما ہین حنان" کو غرور تھا خود کے دل پر۔۔
آہ، لیکن دھڑکنیں انہیں کی چھینی جاتی ہیں جنہیں غرور ہوتا ہے اپنی دھڑکنوں پہ کسی کی چھاپ نہ ہونے پہ۔
تاریکیاں انہیں کے مقدر میں ڈالی جاتی ہیں جنہیں اپنے وجود کی رہ گزر سے نکلنے والے اجالوں پہ ناز ہوتا ہے۔ وہ اجالے جن پر کبھی کسی کا سایہ نہ پڑا ہو۔
"ماہین حنان " بھی خالی کشکول لے کر اس دشمن جا ں سے محبت کے سکوں کی مطلوب تھی۔
__________________________________________

اس نے پلکوں کی چلمن کھولی اور سورج کی زرد روشنی کے پڑتے ہی آنکھیں دوبارہ موند لیں۔ گھڑی کی ٹک ٹک فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ ادھ کھلی دروازے سے آتی سنہری دھوپ ابھی بھی اس کی نیند میں مخل ہو رہی تھی۔
اگلے کچھ ہی لمحوں میں اس نے جھنجھلا کر چادر پرے کی۔ اور تن فن کرتی ملحقہ باتھروم میں گھس گئی۔تبھی دروازہ گھسیٹنے کی مخصوص آواز آئی اور روزمرہ کی ڈانٹ کا آغاز ہو گیا۔ اس نے اندر ہی اندر ایک ہاتھ سے دائیں کان میں انگلی ٹھونسی اور دوسرے فارغ ہاتھ سے منہ کے کنارے سے بہنے والے جھاگ کو صاف کیا۔ پانچ منٹ سے کم عرصے میں واپس ہونے کے بعد اس نے چادر کی تہہ لگائی۔پیچھے سے ایک دھموکہ کمر میں زور کا پڑا۔

۔۔جاری
از قلم۔ در فشاں

فتح تیری ، شکست میریWhere stories live. Discover now