Episode ۲
فجر قضاء ہوئے وقت کتنا ہو گیا؟ پر نا جی، آبا واجداد کے گدھے گھوڑے بیچ کر سونے میں ان کا تو کوئی ثانی نہیں روئے زمین پر۔۔"
ماں کی زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی تیزی سے رات کا پھیلاوا سمیٹ رہے تھے۔ اس نے چپکے سے کرسی پر موجود دوپٹہ اٹھایا اور سا میہ کے پلٹنے سے پہلے کمرے سے رفو چکر ہو گئی۔۔۔۔ جانتی تھی جب تک امی اندر کی تمام کر گزاریوں کو ٹھکانے نہیں لگا لیتیں باہر نہیں آئیں گی۔۔۔ اور ماہین کے پھیلائے کچرے کو سمیٹنے میں کم سے کم آدھا گھنٹہ درکار ہی تھا سا میہ کو۔
کمرے سے باہر نکل کر اس نے کندھے پر پڑی چوٹی پیچھے کو پھینکی اور دھڑا دھڑ زینہ طے کرتی اوپر کچن میں پہنچ گئی۔ جہاں نوال بیٹھی مہینے کی د الیں صاف کر رہی تھی۔
ماہین کے چہرے پہ دبی دبی مسکراہٹ ابھری۔ جسے اس نے دبا لیا، وگرنہ وہ واقف تھی کہ نوال عرف نیلی ابھی بھری بیٹھی ہوگی بالکل۔۔اور اس کے ایک جملہ کہہ دینے پہ توپ کے گولے کی طرح پھٹے گی۔۔۔۔ اسی لئے اس نے خاموشی سے اپنا چائے کا کپ تیار کیا ۔ اور فورا سے پیشتر کچن سے نکل آئی ۔
کچن میں موجود نوال نے آخری مرتبہ خود کو کوسا کہ آخر اس نے کوئی امید ہی کیوں کر رکھی۔۔ اپنی اکلوتی بہن سے، کہ وہ کچھ مدد کرے گی۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس نے تیزی سے ہاتھ چلانا شروع کر دیے۔۔ جانتی تھی ہٹلر امی جانی کے دوبارہ کچن میں وارد ہونے سے پہلے پہلے اسے اس عظیم کام کو پایہ تکمیل تک پہونچانا تھا۔ وگرنہ اس کے وہ لتے لیے جاتے کہ واللہ۔۔
" ماہین ، اگر ڈھلتی صبح اور چڑ ھتی دوپہر کے مزے لے لیے ہوں تو جھوٹے کپڑے جمع کرو۔ مشین نہیں لگانی۔۔ عید کے نئے جوڑے ہیں، خراب ہو جانے ہیں۔۔ہاتھوں سے دھونے ہیں۔۔"
اندر ماہین کے کمرے سے آتی امی کی آواز نے نوال کے کلیجے کو ٹھنڈک سے سرشار کر دیا۔۔
"اب آپی نے شام ڈھلے تک رہنا ہے مصروف۔۔وا ہ۔۔!" اس نے سارے ڈبے بند کر کے الماری میں رکھے۔۔ سا میہ بیگم کے آنے سے پہلے پہلے اب اس نے ظہرانے کے برتن دھونے تھے۔ حالانکہ یہ حکم اسے نہیں ملا تھا۔۔ لیکن پھر بھی تعمیل حکم از قبل جاری حکم ، اس نے بہتر جانا۔۔
_______________________________شایان نے آنکھوں په ٹکا چشمہ اُوپر کو چڑ ھا یا اور کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔۔ کنارے موجود میز پر سیاہ مگ میں ، چائے پر جمی تہہ ثبوت تھی کے کافی دیر سے مگ ان چھو ا رکھا ہوا ہے۔ درواز ہ کھلنے کی آواز کے ساتھ انہوں نے اپنی سرخ ہوتی آنکھیں بھی کھولیں۔
گیلے ہاتھوں کو پونچھتی بریرہ خانم اندر داخل ہوئیں۔ اپنے مجازی خدا کی آنکھوں میں تیر تی سرخی دیکھ کر پریشانی سے آگے بڑھیں۔
" کیا ہوگیا، سر میں درد ہے؟ یا پھر سانسوں کی روانی پھر بگڑی تھی؟ مجھے آواز دینی چاہیے تھی نہ آپ کو فوراً! "
شایان صاحب نے ان کے ہاتھوں کو اپنے چوڑ ے ہاتھوں میں تھام لیا۔ بریرہ ابھی بھی پریشان بولی جا رہی تھیں۔
" میں نے سجل سے کہا بھی کہ بابا کو دیکھ آؤ۔ انتہائی نکمی ہوتی جا رہی ہے۔۔۔"
"بریرہ۔۔ بس بھی کرو۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔اور گڑیا مجھے چائے کا کپ تھما کر گئی ہے۔۔" انہوں نے اپنی شریک حیات کی بات کا ٹی۔۔
بریرہ تھم گئیں۔ شایان کے کاندھے پر انھوں نے اپنا سر ٹکایا۔ اور پھر استفسار کیا کہ آخر ان کی آنکھوں کی لالی کا سبب کیا ہے۔۔
شا یان محمد نے اپنی زوجہ کو ایک نظر دیکھا اور پھر ایک گیلی سانس بھری۔ بریرہ نے فوراً ان کی جانب دیکھا۔ چند ایک لمحے سرکے اور۔۔
" سمجھ گئیں نا آپ ؟ " شایان نے ایک تھکی مسکراہٹ سے پوچھا۔
بریرہ ابھی تک انہیں ہی دیکھ رہی تھیں۔ پھر انہوں نے نظریں پھیر لیں۔ شا یا ن کو تکلیف ہوئی۔
وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ "بریرہ، کیوں کر رہی ہیں آپ ایسا؟ آپ کو عزیز تھی نہ وہ بہت۔۔ پھر؟ اب کیوں آپ اس کی ان خامیوں کو بھی گنوا رہی ہیں جو اس میں ہیں ہی نہیں؟ "
وہ دروازے تک کا چکر لگا کر واپس آ گئے۔
"آپ جانتی ہیں کے آپ کے انکار سے وہ پیچھے ہٹ ہی جائے گا۔۔ نہیں کرے گا ضد۔۔ لیکن کیوں؟ آخر کیوں آپ اسے قبول نہیں کرنا چاہتیں؟.."
بولتے بولتے وہ ہانپ گئے۔ سانس کا مسئلہ انکی زندگی میں شامل تھا۔ بریرہ خانم نے شیشے کے گلاس میں پانی انڈیل کر اُنہیں تھمایا۔ بالکل خاموشی سے، بغیر کچھ کہے۔۔ شایان گھونٹ لیتے ہوئے انہیں پر نظریں کیے ہوئے تھے۔ پانی کے آخری گھونٹ تک انہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اپنے موقف پر اب بھی ڈ ٹی ہوئی ہیں۔
___________________________________
خرام ناز پایا آفتا بو ں نے، ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ ز اروں نےصبح کی سپیدی اس کے روم میں کھڑکی کے ادھ کھلے پٹ سے گر رہی تھی۔ آہستہ ، آہستہ۔۔ ہو لے ہو لے! جس طرح سے ماضی کی گم گشتہ یادوں سے اس نے ظلمتِ شب میں خود کو بھگویا تھا۔ اس کی محبت کی یادوں سے آج پھر اس نے خود کی روح کو تر کیا تھا۔ کچھ جلی اور چند ایک بغیر جلی، لا تعداد سگریٹیں بیڈ کے ارد گرد پڑی ہوئی تھیں۔ لیکن ان میں سے کسی ایک سے بھی اس نے کش نہیں لیا تھا۔ اس "دشمن جاں " سے ان کہا وعدہ اس نے مکمل طور سے نبھایا تھا اور اب بھی نبھا ہی رہا تھا۔۔ ایک تلخ مسکان اس کے عنابی ہونٹوں پر ابھری ۔ جس کے پس پشت درد کا بحر بیکراں تھا۔ کتنی ہی راتیں اس نے بھی بتائی تھیں ۔۔ کروٹیں بدلتے ہوئے ، اس کے نقش کو محسوس کرتے ہوئے، اس کی ہر بے نیاز ادا کا ورد کر کے خود کو اذیت دیتے ہوئے۔۔
ہاں! پہلے وہ بےنیاز ہی تھی۔ جب تک لا علم تھی تب تک۔۔
آگہی کے بعد تو اس نے ایک پل بھی خود کو "ارشم شایان" سے جدا نہیں سمجھا تھا۔ ایک لمحہ بھی اس نے خود کو الگ نہیں کیا تھا اس کی محبت سے۔
اب کی بار پھر اس کے لبوں نے مسکراہٹ عیاں کی۔ لیکن اس مسکراہٹ میں وہ سارے عشرت انتما لمحات پوشیدہ تھے جو ان دونوں نے باہم مل کر جیے تھے۔ بنا کسی خوف جدائی کے ، بغیر کسی دکھ کے۔۔ ایک دوسرے کی روح کو جانتے ہوئے، ایک دوسرے کے ساتھ عشوہ گری کرتے ہوئے۔۔
ایک اپنی" قدیم محبت " کی داستانیں سناتا ۔۔
تو دوسرا اپنے "عشق نو" کو بیان کرتا۔۔جاری۔۔
از قلم- در فشاں
ESTÁS LEYENDO
فتح تیری ، شکست میری
Ficción Generalسلام اس تخلیق کے بارے میں لا علم ہوں میں قطعی۔ ۔ کہ آخر قلم کی نوک سے نکلے الفاظ صفحہ قرطاس پر کس کہانی کو بکھیرنے کا عہد کر بیٹھے ہیں! بالکل آپ قارئین ہے کی طرح، مجھے نہیں علم کے اس کا "نام" کیا ہوگا، کردار اپنی کون سی کہانیوں سے آپ اور مجھے م...