فتح تیری ، شکست میر ی Episode ۴

28 1 0
                                    


پھر ارشم نے بھی نظر کا پردہ نہیں کیا۔ وہ کھڑکی کے پٹ پر ہاتھ ٹکائے مغموم کھڑی تھی ۔اس کے دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوئی۔وہ جانتا تھا کے سامنے کھڑی زن پر اس کا سر تا پیر حق ہے۔۔وہ ابھی چاہے، ابھی دنیا کے سامنے اسے اپنے سنگ لے جا سکتا ہے۔ لیکن اسے اپنی محبت کی عزت نفس عزیز تھی۔ وہ با علم تھا، ماہی کے لیے اس کی انا کیا اہمیت رکھتی تھی۔ سارا مسئلہ انا کا ہی تو تھا۔۔ ابتدا سے انتہا تک۔۔ اب تک۔۔
اس نے ایک گہری سانس کھینچی۔
زندگی میں اس نے بہت سی جنگیں ھاری تھیں۔ لیکن ماہین کو اپنے نکاح میں لے کر اس نے اپنا آپ فتح کر لیا تھا۔
اچانک ماہین جھٹکے سے پلٹ گئی۔ واپس پردے پڑ گئے کھڑکیوں پر۔۔ ایک تلخ مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کر لیا۔ یاد کا کوئی جگنو ٹمٹما یا۔۔
"میں ماہین حیات ہوں ، ایک مرتبہ اگر میں رل گئی، میری ذات کی خواری حد کو پہنچ گئی۔۔تو پھر میں ہر ایک سے منہ پھیر لوں گی۔۔"
"مجھ سے بھی ماہی؟ " اس نے بڑے مان سے پوچھا تھا۔
ایک دھیمی مسکا ن کے ساتھ مکین قلب کا جواب موصول ہوا تھا۔
" ارشم حنان ، میرے بس میں نہیں ہے یہ۔۔ کیوں کہ میں جانتی ہوں خود کو، اگر ایسا کچھ ہوا تو میرا خود پہ کوئی قابو نہیں رہے گا۔۔ سو، کچھ کہہ نہیں سکتے۔۔"
اتنا کہہ کر وہ کچھ لمحوں بعد ہنس دی۔۔ ہلکی سی ہنسی۔۔ جیسے وہ پر یقین ہو کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ارشم کے حوالے سے۔۔
ارشم نے سر جھٹکا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔
ماموں کے سامنے بیٹھک سنبھالنے کے بعد اس نے امی کو کہتے سنا کہ وہ اپنی بھتیجی کو گھر لے جانا چاہ رہی ہیں۔ اسے پتہ تھا۔۔ سجل ماہی کی منتظر ہے۔۔ تو مطلب اب وہ گھر جائے گی ساتھ میں۔۔۔ ارشم کے دل کی کلیاں کھلنے لگیں۔۔ تبھی وہ زینہ اترتے نظر آئی۔ بیرونی دروازے پر کھڑے ہو کے تو دید کا مرحلہ طے ہی نہیں ہوا تھا۔
ارشم نے اسے دیکھنے کہ قصد کیا۔۔ اور مسکرا دیا۔۔ نہیں ضبط ہوا ماہین سے، اور اس نے بھی آخر دیکھا ہی نا۔۔
ا رشم بخوبی جانتا تھا کہ ماہین نے بھرپور دیکھا ہے اسے۔۔ بس کافی تھا اتنا ہی۔۔
اس نے چائے کا کپ رکھ دیا۔ وہ اوپر جا رہی تھی۔ اب امی کے ساتھ اس کے گھر جانے سے پہلے وہ نکلنا چا ہ رہا تھا۔
اس نے چابی اٹھائی اور ماموں سے مصافحہ لے کر کھڑا ہو گیا۔
پھر پورا دن اس نے گھر کے باہر گزارا تھا۔۔ صرف اس کے لیے جس کے لیے جان حاضر تھی۔۔ہمہ وقت۔۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس کے گھر میں رہنے کے سبب غیر آرام دہ ہو۔۔ وہ نہیں سامنا کرنا چاہتی تھی تو ایسے ہی صحیح۔۔
ارشم حنان مطمئن تھا۔ کیوں کہ اپنی پوری رضامندی کے ساتھ ماہی، ماہین حیات سے ماہین ارشم بنی تھی۔۔ کائنات کی سب سے معتبر شہادت کے ساتھ۔۔
اب آدھی رات کو گھر لوٹنے کے بعد بھی اس کی یادوں اور اس کے خیالات نے ارشم کا احاطہ کیا ہوا تھا۔
دن جو گزرا تو کسی یاد کی رو میں گزرا
۔ شام آئی تو کوئی خواب دکھاتے۔ گزری
_________________________________________

ارشم اور ماہین۔۔ پھپھو زاد کزن ہونے کے علاوہ ماموں زاد کزن بھی تھے۔
بریرہ کے انکار کی وجہ یہی تھی۔ وہ جانتی تھیں ان کی ہیرے سی بھتیجی ماضی کے الجھے دھاگوں کی پکی الجھنوں کو نہیں سلجھا پائے گی۔۔ وہ بہت معصوم ہے۔۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ماہی ان کے گھر سے جڑے۔۔وہ بھی ارشم کے حوالے سے۔۔۔حالانکہ ان کا بیٹا، ان کا جگر اس بات سے قطعئ انجان تھا۔۔
شایان صاحب کا اصرار تھا کہ یا تو وہ ماہین اور ارشم کی حب چا ہ کو تکمیل تک پہنچا دیں یا پھر ارشم کو حقیقت سے بہرہ ور کر دیں۔۔
لیکن بریرہ اپنے لاڈلے کو دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں نہیں دھکیلنا چاہتی تھیں۔
اس لیے وہ خود مورد الزام ٹھہر رہی تھیں، ماہین کے لیے منع کرنے پہ۔۔ یہ ان کو قبول تھا۔۔ لیکن ارشم کی دل آزاری۔۔ قطعي نہیں۔۔
"شایان، آپ عہد لیں مجھ سے۔۔ کبھی بھی، کسی بھی صورت میں آپ دونوں کو ہی پرانی باتوں کا علم نہیں ہونے دیں گے۔۔ "
اور شایان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ بریرہ ایک تھکی سے مسکراہٹ کے ساتھ پلنگ سے ٹیک لگا کر خود کو پرسکون کرنے لگیں۔۔
__________________________
۔۔۔جاری

فتح تیری ، شکست میریDonde viven las historias. Descúbrelo ahora