(آج مجھے بہت سارا لکھنا ہے۔ ان شاء االلہ)
ماہی۔۔۔
ارشم نے دروازہ ناک کیا۔
سب جا چکے تھے ۔صرف ماہی رکی ہوئی تھی۔ نازش کے کمرے میں بند۔۔ ارشم نہیں جا سکا تھا سبھی کے ساتھ۔۔ وہ بے چین تھا۔اس کا دل بے چین تھا۔ اسے ماہی کو دیکھنا تھا۔اس سے بات کرنی تھی۔۔اس کے آنسوؤں میں خود کو شریک کر کے اس کا غم سمیٹنا تھا۔
دروازہ ناک کرنے پہ بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ اسے اس طرح تنہا ،وہاں آنا پہلے تو ٹھیک ہی نہیں لگا تھا۔۔ لیکن وہ مجبور تھا۔۔ اس نے واپس پلٹنے کا قصد کیا۔۔ تبھی گیلی سانسوں میں اُبھری آواز آئی۔۔
" ہاں ؟۔۔
اور دروازہ کھلا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔جنہیں اس نے قطعئ چھپانے کی کاوش نہیں کی تھی۔۔
"ماہی، جو ہوا سو ہوا۔۔ ماموں نے کہا ہے نا کہ ہم ریچک کروا لیں گے پیپر۔۔۔ ؟ ہاں؟ "
وہ کچھ وقت تک اسے دیکھتی رہی۔ اور پھر اس کی آنکھوں سے اشک بہہ نکلے۔ ارشم کی جان اٹک گئی۔
وہ بے بس سا ہو گیا۔
" ۔۔میں نے بہت محنت کی تھی۔۔ میرے آگے کے تمام خواب اسی پہ منحصر تھے کہ میں ٹاپ کروں گی۔۔ پھر آگے ۔۔۔"
بولتے بولتے اس کی آواز پھنسنے لگی۔۔وہ بے حال ہو کر دروازے سے ٹک گئی۔۔
"ماہی۔۔
اس نے بہت ہمت کر کے اسے تھامنا چاہا تھا۔۔ لیکن اسے نہیں چھو پایا۔
وہ جانتا تھا، اس کے لیے یہ زندگی موت کا مسلہ بن گیا ہوگا۔ اور۔۔ اسیلئے وہ اسے تنہا چھوڑ کر نہیں جا پایا تھا۔۔
ممانی مجبور تھیں۔۔ کہ ماہی اُنہیں وہاں نہیں رکنے دیتی۔۔ خود کے پاس۔۔ وہ بس تنہا رہنا چا ہتی تھی۔۔
اور ارشم کو خوف تھا کہ وہ کچھ غلط نہ کر کے خود کے ساتھ۔۔
ماہین کے آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے۔ وہ ہولے ہولے کانپ بھی رہی تھی۔ ارشم نے اسے پانی کا گلاس تھمایا۔۔ جائے اس نے با آسانی تھام لیا۔۔۔ وہ منتظر تھا کہ وہ گلاس ہونٹوں سے لگائے گی۔۔ لیکن۔۔کچھ دیر وہ ہلتے پانی کو دیکھتی رہی۔۔ساکت ہو کر۔۔
اور پھر اس نے گلاس دیوار سے مار دیا۔۔گلاس دیوار سے ٹکر ا کر نیچے لڑھک گیا۔۔
ماہی۔۔۔؟؟
ارشم مستعجب سا اسے دیکھے گیا۔۔ ایک ٹک۔۔۔ اسے امید نہیں تھی کے وہ ایسا بھی کر سکتی ہے۔۔
" کیوں؟ کیوں آئے ہیں آپ یہاں۔۔ کیوں میرے ہی ساتھ ہوا ایسا؟ کیوں؟ ہمدردی کے لیے آئے ہیں؟ تمسخر اڑانے آئے ہیں۔۔؟
بتائیں۔۔ کیوں ؟۔۔"وہ بے ربط کہتی،
چینختے ہوئے نیچے بیٹھتی گئی۔
" اتنے لاکھ لوگ تھے، میرے ہی ساتھ کیوں ہوا ایسا؟ کیوں؟؟؟؟"
وہ نڈھال ہو کر پھر رونے لگی۔۔ گٹھنوں کے بل۔۔۔
ارشم کا ضبط یہیں تک تھا۔۔ اس نے جھک کر اسے شانوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا۔۔
اس کا دوپٹہ ڈھلک رہا تھا۔۔ اس نے ماہین کے شانے پر اسے دوبارہ رکھا۔۔ اور بہت تحمل سے دوبارہ پانی د یا۔۔ کچھ لمحوں میں وہ سنبھل چکی تھی۔۔اس نے گلاس منہ سے لگا لیا۔۔
ارشم اس سے کچھ دور زانو ؤں پہ بیٹھ گیا۔۔
وقت ہی کچھ ایسا تھا، ہواؤں میں سر کچھ اس طرح بکھرے تھے کہ وہ اظہار کر بیٹھا۔۔
کر بیٹھا خود کو عیاں۔۔۔
" ماہی، تمہارے آنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔۔"
ماہین حنان کی آنکھوں میں سوال تھا۔اس قدر درد سے مزین لہجہ؟ ۔ حیرت بھرا تاثر۔۔ کیوں؟
ارشم اپنی محبت کی آنکھوں میں شک نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔
" شادی کرنا چاہتا ہوں ماہین میں تم سے۔۔"
فضا میں موجود خوشبو محبت کے اس پاکیزہ ظہور پہ مہک اٹھی۔۔دور کہیں دف پہ بجتی تال بول اُٹھی۔۔
اور ماہین۔۔ ماہین ششدر سی اسے دیکھ رہی تھی۔۔
ارشم آہستہ سے اٹھا۔۔ اور اثبات میں سر ہلایا۔
یقین۔۔ کہ تم یقین کر لو۔۔
وہ جانے کے لیے پلٹ گیا۔۔
"ارشم شایان۔۔ شادی کرنا چاہتے ہیں مجھ سے؟ کیوں؟"
ارشم مسکرا اٹھا۔۔ وہ "ماہین حنان " تھی۔۔ عام نہیں تھی۔۔
منفرد تھی۔۔
اس نے ٹھنڈی سانس لی اور خود کو اپنے محبوب کے کٹہرے میں پیش ہونے کے لیے تیار کیا۔۔ اسے اپنی ذات عیاں کرنی تھی۔۔اپنے جذبات کا اظہار کرنا تھا۔۔
" ماہی۔۔ بتاؤں؟ کیوں اپنی زندگی میں تمہیں شامل کرنا چاہتا ہوں؟ "
وہ سوالیہ کھڑی ہو گئی۔۔
وہ دو قدم قریب آیا۔۔ اس کا ہاتھ تھامنا چاہا، اور اس بار اس نے اپنے مضبوط ہاتھوں میں اس کے ہاتھوں کو بند کر لیا۔۔ ضروری تھا یہ۔۔ صداقت کے لیے ضروری تھا۔۔ وقت کا تقاضا تھا۔۔ حب چا ہ کو اس کے اندر انڈیلنے کے لیے ضروری تھا۔۔
" محبت کرتا ہوں تم سے۔۔ تکمیلِ محبت ، نکاح کرنا چاہتا ہوں اسلیئے۔۔"
اپنے تمام احساسات، پچھلے چار پانچ سالوں سے در پیش درد، اپنا اضطراب، شدت محبت۔۔ سب کچھ صرف چار لفظوں کے ایک جملے میں اس نے عیاں کر دیا تھا ۔
ماہین حنان ڈھیلے انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔ وہ آہستگی سے روم سے نکل آیا۔
VOUS LISEZ
فتح تیری ، شکست میری
Fiction généraleسلام اس تخلیق کے بارے میں لا علم ہوں میں قطعی۔ ۔ کہ آخر قلم کی نوک سے نکلے الفاظ صفحہ قرطاس پر کس کہانی کو بکھیرنے کا عہد کر بیٹھے ہیں! بالکل آپ قارئین ہے کی طرح، مجھے نہیں علم کے اس کا "نام" کیا ہوگا، کردار اپنی کون سی کہانیوں سے آپ اور مجھے م...