یہ اس وقت کی بات تھی، جب ان دونوں کی مشترکہ کزن نازش کی شادی تھی۔ ارشم کو اپنی یہ منفرد سی کزن، ماہی شروع سے بہت بھاتی تھی۔ اپنی ذات کے پورے افتخار سے جینے والی،لوگوں کی پرواہ نہ کرنے والی،اپنی زندگی میں مگن،اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آسمان کو چھونے والی،نانازک نہ مضبوط،کردار کی پختگی اتنی زیادہ کہ خاندان کے لڑکوں کا اس کی طرف دیکھنا تک ناممکنات میں شامل تھا۔ اور جب وہ شعور کی جانب گامزن ہوا تو اسے علم ہوا کہ ماہین اسے صرف بھاتی نہیں ہے بلکہ اس کے وجود پہ پوری طرح سے قابض ہے۔
ان تمام خصوصیات کی حامل وہ انفرادیت لیے ماہین حنان تھی۔
وہ بارہویں کا امتحان دے کر اپنے کریئر کے لیے بہت پریشان تھی۔ اسے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے CSE کا امتحان پار کرنا تھا۔ اور ارشم شایان اس بات سے بخوبی واقف تھا۔
جس دن سبیلہ آنٹی کی بیٹی نازش آپی کی شادی تھی اسی دن ماہی کا بارہویں کا رزلٹ آنے والا تھا ۔
یہ وہی دن تھا جس کے سبب ان دونوں کی زندگیاں مکمل طور سے بدل گئی تھیں۔ یہ وہی دن تھا جب اس نے اپنا آپ، اپنے احساسات،اپنے جذبات اور اپنا حال دل اس پر کھول دیا تھا۔
یہ وہی دن تھا جب صبح سے ابر آلود تھا۔ سورج اپنی زردی مائل کرنوں کے ساتھ بادلوں کے سنگ اٹکھیلیاں کر رہا تھا۔ کبھی سفید روئی کے گالوں کے پیچھے چھپ جانا اور کبھی پوری طرح سے عیاں ہو جانا۔
یہ وہی دن تھا جب ماہین حنان بالکل سورج کی مانند کبھی اپنے تمام احساسات کو اپنے چہرے سے چھپا جاتی اور کبھی ضبط کی تمام کوششوں کے باوجود اس کی اندرونی کیفیت اس کا اضطراب ،،اس کے چہرے سے جھلک آتا ۔کوئی اس بات سے واقف تھا یا نہ تھا لیکن ارشم کی نظریں اس کا طواف کر رہی تھیں۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ وہ کتنی پریشان ہوگی۔ اپنی پڑھائی کو لے کر وہ بہت پوزیسیو تھی۔
یہ وہی دن تھا جب سارے رشتہ دار شادی کی تیاریوں میں مگن تھے۔ سجل اور سنبل اپنے غرارے پر استری کر رہی تھیں۔۔ مناہل گجروں کا انتظام کرنے کے لئے ادھر سے ادھر بے چینی کے ساتھ پھر رہی تھی۔ سیف اپنی شرٹ کے لیے اپنی امی کو ڈھونڈ رہا تھا۔دونوں خا لائیں ،ارشم کی امی ،تینوں مما نیاں۔۔ قریبا تمام رشتہ دار سبیلہ آنٹی کے گھر ہی ٹھہرے ہوئے تھے پچھلے ایک ہفتے سے ۔۔لیکن صرف ما ہی اکیلی ایسی تھی جسے نہ ہی شادی کی کسی تیار ی میں دلچسپی تھی اور نہ ہی وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں رکنے کے لیے تیار تھی۔ سامیا پھپھو صرف اور صرف اسی کی وجہ سے تاکہ وہ گھر میں تنہا نہ رہے روز گھر لوٹ جاتی تھیں۔ لیکن روز صبح صبح فجر کے بعد بعد ما ہی آ جاتی کیونکہ شادی کے بہت سے کام اس نے اپنے کندھے پر لے کر رکھے تھے۔ مثلا روٹیاں وہی بناتی تھی۔اور وہ تمام تر افعال اتنی جاں فشانی سے انجام دیتی کے تمام لوگ اپنے کاموں کے لیے اسے ہی آواز دیتے۔
تقریبا صبح کے گیارہ بجے تھے۔ نازش بیوٹیشن کے آنے کے بعد کمرے میں بند تھی۔ تمام لڑکیاں بالیاں اپنے حسن کو نکھارنے میں مصروف تھیں۔ اور وہ جلے پیر کی بلی کی طرح گھر کے پچھلے گیٹ کے پاس چل رہی تھی۔ ارشم اسے برابر نوٹ کر رہا تھا۔ تبھی ماہین کے ہاتھ میں دبے فون کی نوٹیفیکیشن رنگ شاید بجی تھی۔ اس نے بڑی عجلت کے ساتھ اپنا فون چیک کیا تھا۔ یقینا اس کا نتیجہ آ چکا تھا۔ صرف ماہین کیا ،صرف ا رشم کیا۔۔ہر ایک پر یقین تھا کہ ماہین شہر میں ٹاپ کرے گی۔ ہر ایک کو اس بات کا اتنا ہی یقین تھا جتنا اس بات پر کہ آج نازش کی شادی ہونی ہے۔ اور ماہی نے جس قدر محنت سے آپنے یہ دو سال پڑھائی کی تھی، اس سے یہ بھی ممکن تھا کہ اسٹیٹ ٹاپروہی ہو۔
ارشم نے اس کی جانب قدم بڑھانے کا قصد کیا۔ لیکن اچانک وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی اندر کی جانب بڑھ گئی۔ ارشم کو اچنبھا ہوا۔
اس دن ارشم نے اپنی ۲۲ سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی زندگی کو اس قدر روتے دیکھا تھا۔ نا قابل یقین طور پر ماہین حنان کا نتیجہ کم آیا تھا۔ کچھ ۸۰ فیصد کے آس پاس۔۔۔ ماہین حنان۔۔اور ۹۰ سے کم۔۔نا ممکن۔۔
وہ بہت رو رہی تھی۔ زار و قطار۔۔ حیران تو سبھی تھے۔۔اس نا گہانی نتیجے پہ۔۔
لیکن چند ایک تسلی اور دلاسوں کے بعد کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ سا میہ پھپھو اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھیں کہ وہ اسے قبول کر لے۔
کچھ گھنٹوں بعد سب شادی ہال پہنچ گئے تھے۔ اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے حنان ماموں نے منع کیا تھا، کسی کو بھی اس کو زور دینے کے لئے کہ وہ بھی ہال میں جائے۔۔ اس کی ہچکیاں کچھ دیر تک اس وقت رکی تھیں جب ماموں نے اسے کندھے سے لگا کر کہا تھا کہ پیپر ریچیک کا فارم بھرنا اگر وہ چاہے تو کر سکتی ہے۔
ارشم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ان موتیوں کو چن لے۔۔۔
زندگی میں اسے ہوش و حواس سنبھالنے کے بعد ایک اپنی ماں کے آنسووں سے شدید تکلیف ہوتی تھی اور دوسرا آج اسے علم ہوا تھا کہ۔۔ اپنی ماں کی بھتیجی کے اشکوں سے بھی درد بے تحاشا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ جاری
از قلم - در فشاں
YOU ARE READING
فتح تیری ، شکست میری
General Fictionسلام اس تخلیق کے بارے میں لا علم ہوں میں قطعی۔ ۔ کہ آخر قلم کی نوک سے نکلے الفاظ صفحہ قرطاس پر کس کہانی کو بکھیرنے کا عہد کر بیٹھے ہیں! بالکل آپ قارئین ہے کی طرح، مجھے نہیں علم کے اس کا "نام" کیا ہوگا، کردار اپنی کون سی کہانیوں سے آپ اور مجھے م...