Episode ۳
وقت وقت کی بات ہے سحر ہوتی ہے اور ظلمت کی گود میں ڈوب کر رات کی سیاہی عیاں ہو جاتی ہے۔
اس نے کھڑکی پڑے پردے سرکائے ۔۔۔۔وہ لاعلم تھی کہ نظر آنے والے درخت کے پیچھے موجود شخص کی نظریں اس کا ایک ایک نقش دیکھ رہی ہیں۔۔۔۔ اپنی دو سالہ پیاس بجھا رہی ہیں۔۔۔۔!
آج وہ" ماہین ارشم" تھی۔ " ماہین حنان" سے "ماہین ارشم" کا سفر بہت کٹھن تھا.... دونوں کے لیے۔۔لیکن اس سفر میں ماہی نے اپنا آپ روندا تھا ۔۔اگر اس شخص کو پانے کی جیت ہوئی بھی تھی تو اپنا آپ وار کے ۔۔اپنا آپ ہار کے!! اپنے وجود کے شکستہ ٹکڑوں کے ساتھ اسے منزل ملی تھی۔۔کھڑکی سے پردے ہٹائے تو سورج کی تپتی روشنی اس کی آنکھوں میں سیدھا پڑی۔۔ اس نے ہاتھوں کا چھجا بنایا ۔کچھ وقت تک کچھ نظر نا آیا۔ اور تبھی اس تپش کا راستہ رک گیا ۔ چھاؤں میسر ہوگئی۔ اس نے سامنے دیکھا تو وہ کھڑا تھا ۔جان نکال کر خود کی جان پیش کرنے والا ستمگر۔۔ وہی شخص جو اس کی زندگی تھا ، کل متاع تھا۔ جس کے لیے اس نے اپنا آپ کھو یا تھا۔
وہ اب بھی تیار تھا ماہین کے شکستہ وجود کو خود میں سمیٹنے کے لیے لیے ۔۔۔دوبارہ سے اس کے وجود میں رعنائی بھرنے کے لیے ۔۔۔خود کی چاہتوں سے خود کی شدتوں سے۔۔۔۔
اگر اس نے زخم دیے تھے تو طبیبی بھی وہی کرنا چاہ رہا تھا۔۔لیکن اس کی ماہی، ارشم کی ماہی اب منکر ہو گئی تھی۔ اس نے انکار کر دیا تھا۔۔خود سپردگی کے لئے۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ نظر کا سفر دل کے تاروں کو چھوتا اور سرگنگناتے ،وہ وہاں سے پلٹ آئی اور آنکھ سے نکلے قطرے کو اس نے پوروں پر لے کر مسل دیا۔
عین دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے اپنے چھوٹے سے خوبصورت کمرے کا دروازہ کھولا ۔ سامنے ہی نوال کھڑی تھی ۔اس نے خوشی خوشی اسے ارشم کی آمد کا بتایا اور واپس چل دی۔ آخر اس کا بھائی آیا ہوا تھا، اس کا ہر دلعزیز کزن۔۔۔ اب خاطر داریاں تو ہونی ہی تھیں۔
دل کو ایک اور گھاؤ لگا تھا ۔پرانے زخموں کی کھرنڈ تو ابھی تک بن نہیں پائی تھی کہ ہر روز ایک نیا زخم چھوڑ دیتے اس کے خونی رشتے۔۔
اس نے ایک لمبی اور ٹھنڈی سانس بھری ۔اس کی آہ میں موجود غم کے بھیگے گلے ہواؤں نے ضرور محسوس کیے تھے۔
وہ دوپٹہ لپیٹتے ہوئے لپیٹے ہوئے باہر نکل آئی۔ ایزینہ اترتے وقت اس نے اپنی نظریں بالکل اپنی ناک کی سیدھ میں رکھی تھیں۔ سامنے تھری سیٹر صوفے پہ اس کے ابو جانی ، ان کا بھانجا اور بوا بیٹھی ہوئی تھیں۔ آخری زینہ اترتے ہی اس نے نظروں کو قابو کر لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ نظر اس سے دغا کرتی وہ بول پڑی۔
"بوا جانی شانو نہیں آئی؟" یہ کہتے ہوئے وہ ان کے زانوؤں کے پاس آکر ان کا پیار لینے لگی۔
بریرہ نے اپنی بھتیجی کے سر پر بوسہ دیا۔ اور کہا، "بیٹا- اس نے کہا ہے کہ امی آپ جائیں اور آج ماہی کو لے کر آئیں۔ میں اس کے آنے کےلئے تیاری کرتی ہوں۔"
"بس بیٹا ،میں نے کہا ،اشنہ تم نے تو میرے دل کی بات کہہ دی ہے ۔"
"کیوں ماہی, اب ایسا بھی کیا گریز بچہ۔۔ مان لیا وہ تمہارا ہونے والا سسرال ہے۔ لیکن پہلے تمہاری بوا کا گھر ہے۔ آج تمہیں تو میں لے کے جاؤ گی۔ کیوں بھائی جان ۔۔۔۔۔۔"
ماہی تو بس خاموشی سے ان کی باتوں پہ سر ہلا رہی تھی ۔وگرنہ ضبط قائم رکھنا ستمگر کی موجودگی میں۔۔ بہت کٹھن کام تھا ۔
" ماہی اگر جانا چاہے تو بالکل لے جاؤ ۔۔"
حنان محمد نےچائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا ۔
انہوں نے اپنی لخت جگر سے پوچھے بغیر، اس کی مرضی کے خلاف جا کر بہت سے اس کی زندگی کے فیصلے لئے تھے۔ اب وہ اس کے دل میں اپنا آپ اور مکدر کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتےتھے ۔
ماہی نے اپنے باپ کو دیکھا اور دوبارہ اثبات میں سر ہلایا۔
لیکن نظر وہاں سے لوٹتے لوٹتے کسی کے نقش کو چوم ہی آئی ۔دیکھنے والوں کے لئے ماہین کا دیکھنا ایک سرسری نگاہ تھی۔لیکن یہ وہ جانتی تھی اور اس کا دل۔۔۔
اندر تک شہر دل میں ہلچل مچ گئی ۔ شور و غل اونچا ہونے لگا ۔دل شاد مانی کی جانب بڑھنے لگا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی راستہ عبور کرتی زینہ چڑھ گئی ۔ دل کو دماغ نے سرزنش کی ،تیری نادانیوں کے سبب ایک مکمل ذات رل چکی ہے ۔ عزت نفس کھو چکی ہے ۔اور اے دل۔۔ تو اب بھی ورغلا رہا ہے بےوقوفیوں پہ۔۔۔۔
" ماہی ۔۔۔اتر بھی آؤ۔۔۔ بریرہ تمہاری منتظر ہے۔"
ماما کی آواز اسے واپس لے آئی۔
نقاب لگاتے ہوئے اس نے دوبارہ انگلی کی پور سے ایک آنسو جھٹکا ۔
______________________________
آدھی رات تقریبا گزر چکی تھی۔ وہ رات جو اپنی سیاہی میں کسی کی عبادت چھپائے ہوتی ہے تو کسی کا گناہ۔
وہ ظلمت شب جو بہت سوں کے درد کو ابھارتی ہے ، وہی درد وہ بھی اپنے سینے میں محسوس کر رہا تھا ۔
ایش ٹرے دور رکھی ہوئی تھی۔ سینہ مسلتے ہوئے آج پھر اس کے لبوں پر ایک تلخ مسکان تھی۔ ہر رات اس کی جدائی کے زہریلے نشے سے مزین ہوتی تھی۔ ایسی جدائی جو جسم سے پرے تھی۔۔۔ کیونکہ اس بار ماہین نے اپنا دل سخت کرکے اپنی روح کو خفا جتایا تھا۔وہ دور تھی اس سے۔۔ بہت دور۔۔ یا شاید نہیں۔۔۔ نکاح تو قربت کی راہیں وا کرتا ہے!
آج دوپہر کا خیال اس کے ذہن کو چھو کر گزرا ۔وہ کچھ گھنٹے پہلے پیچھے چلا گیا۔ اس کے کمرے کی کھڑکی کے پٹ وا تھے۔ مگر پردے پڑے ہوئے تھے۔ وہ بائیک کھڑی کرکے کچھ دیر کے لئے گیٹ کے پاس ٹھہرا رہا۔ امی اندر جا چکی تھیں۔ اس نے اندر جانے کا قصد کیا ۔اور۔۔۔پردے ہٹائے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔جاری
![](https://img.wattpad.com/cover/224881763-288-k740709.jpg)
YOU ARE READING
فتح تیری ، شکست میری
General Fictionسلام اس تخلیق کے بارے میں لا علم ہوں میں قطعی۔ ۔ کہ آخر قلم کی نوک سے نکلے الفاظ صفحہ قرطاس پر کس کہانی کو بکھیرنے کا عہد کر بیٹھے ہیں! بالکل آپ قارئین ہے کی طرح، مجھے نہیں علم کے اس کا "نام" کیا ہوگا، کردار اپنی کون سی کہانیوں سے آپ اور مجھے م...