Episode 1

5.7K 184 9
                                    


زندگی ایسی کیوں ہے آخر؟ انسان جس چیز سے سب سے زیادہ بھاگتا ہے وہی چیز اس کے مقدر میں آخر کیوں لکھ دی جاتی ہے؟ انسان کو اس کی من چاہی چیزیں کیوں نہیں ملتیں؟ ہر بار زندگی ہمارا امتحان کیوں لیتی ہے؟ ہمیشہ ہی ہمیں کیوں ممپرومائز کرنا پڑتا ہے؟
اس کے ذہن میں اس وقت اس طرح کے بے تحاشا سوالات تھے لیکن فلحال اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ ان کے جواب تلاش کرتا۔ انگلیوں کے درمیان دبی سیگریٹ کو اپنی جوتی سے مسل کر وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چلا گیا جوکہ اب صرف اس کا ہی کمرہ نہیں رہا تھا بلکہ اس میں کسی "اور" کا بھی اضافہ ہوچکا تھا اور جتنی نفرت اسے اس کسی "اور" سے تھی آج تک اپنی 23 سالا زندگی میں اور کسی سے نہ ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آج اتنا کچھ کیوں بن رہا ہے امی؟"
وہ یونیورسٹی سے واپس آکر سیدھا کچن میں آگیا جہاں نائلہ بیگم کام میں مصروف تھیں۔
"بیٹا بریرہ کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں آج۔"
وہ اس کے آگے پانی کا گلاس رکھتے ہوئے بولیں
"لو جی ایک تو ہر آئے دن بعد گھر میں یہ محفل ضرور لگنی ہوتی ہے۔"
وہ بے زاری سے بولا
"بری بات ہے مصطفی بڑی بہنوں کی طرح ہے تمہاری۔"
وہ اسے ڈپٹٹے ہوئے بولیں
"رہنے دیں امی میری بہنوں کی تو اللہ کا شکر ہے جوانی میں ہی شادیاں ہوگئیں تھیں جبکہ آپ کی یہ چہیتی تو لگتا ہے بوڑھے ہونے تک کنواری ہی بیٹھی رہے گی۔"
وہ ہنستے ہوئے بولا
"ایسے نہیں کہو مصطفی بس دعا کرو۔ میں تو بہت پریشان ہوں اس بچی کے لیے۔ اتنی پیاری بچی ہے پتا نہیں کیوں رشتے میں اتنی رکاوٹ آرہی ہے۔"
وہ دکھ سے بولیں
"اللہ کو مانیں امی 28 سالا عورت کو آپ بچی کہنا چاہ رہی ہیں؟"
وہ تفخر سے بولا
"نہایت بدتمیز انسان ہو زرا شرم نہیں ہے تم میں۔"
اس کی بات پر وہ غصے میں آگئیں اور کچن سے باہر چلی گئیں۔
"لو جی سچ بات سننے کی تو سکت ہی نہیں ہے لوگوں میں "
بڑبڑاتا ہوا وہ اٹھ کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں بریرہ کے کمرے کا کھلا دروازہ دیکھ کر وہیں رک گیا اور دروازے سے اندر جھانکنے لگا۔ سامنے بریرہ ڈریسنگ کے پاس کھڑی ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رہی تھی۔ مصطفی کی موجودگی سے بے خبر تھی وہ۔
"مت کرو اتنا بناؤ سنگھار بریرہ فاروق۔ کسی کام نہیں آنے والا یہ تمہارے۔ خاندان میں تو تمہیں کوئی پسند کرنے نہیں والا اور رہی بات خاندان سے باہر شادی کی تو وہ تو ابا جان ہونے نہیں دیں گے۔ اس لیے بھول جاؤ کہ تمہاری بھی کبھی شادی ہوگی یا تم بھی کبھی خشگوار زندگی گزارو گی۔۔"
چہرے پر دل جلا دینے والی مسکراہٹ سجائے وہ بڑے آرام سے اس پر اپنے طنز کے تیر چلا رہا تھا۔
"تمہیں میری فکر میں گھلنے کی ضرورت نہیں ہے مصطفی اپنے کام سے کام رکھو۔"
اس طرح کے طنز سننے کی تو وہ بچپن سے عادی تھی اس لیے بغیر کوئی اثر لیے ہوئے بولی
"خیر فکر تو مجھے تمہاری نہیں صرف اپنی ہی ہے آخر کو تم خاندان کی آخری لڑکی ہو جس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی بلکہ شادی تو دور کی بات تمہاری تو کہیں رشتہ بھی تہ نہیں ہو پایا اور جس طرح سے تم عمر رسیدہ خاتون بنتی جا رہی ہو مجھے نہیں لگتا کہ آئندہ مستقبل میں بھی تمہاری شادی ہو۔۔۔۔۔۔"
اس کی بات بیچ میں ہی تھی کہ وہ غصے سے اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی
"تمہارا ان سب باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بہتر ہوگا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ۔"
وہ اپنا غصہ بمشکل ضبط کرتے ہوئے بولی
"ارے میرا کوئی لینا دینا کیوں نہیں ہے اس بات سے؟ آخر کو جب تک بریرہ نامی بلا اس گھر سے رخصت نہیں ہوگی تب تک میری شادی کیسے ہوگی؟
اب بتاؤ ایسے میں بھی مجھے فکر نہ ہو تو کیا ہو؟"
آنکھوں میں شرارت لیے وہ اسے تنگ کرنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا۔
بریرہ جانتی تھی کہ مصطفی سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ اس نے آج تک بریرہ کے بڑے ہونے کا لحاظ نہیں کیا تھا۔ اس لیے وہ خاموشی سے وہاں سے نکل گئی جبکہ مصطفی اپنے مقصد میں کامیاب ہونے پر گنگناتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ کالے رنگ کے جوڑے میں ملبوس تھی۔ وہ اپنی عمر سے دو تین سال چھوٹی ہی لگتی تھی لیکن اس کی سانولی رنگت اس کے لیے زندگی بھر کا روگ ہی بن گئی تھی۔ وہ بدصورت ہر گز نہیں تھی لمبیں بال تیکھے نین نقوش کی حامل تھی لیکن رنگ سے ہر بار مار کھا جایا کرتی تھی۔
ابھی بھی وہ پیاری لگ رہی تھی لیکن رشتے کے لیے آنے والوں نے اس کا رنگ دیکھ کر ہی بری شکلیں بنانا شروع کردی تھیں اور دوسرا اس کی بڑی عمر پر طنز کرتے وہ وہیں پر انکار کرکہ وہاں سے چلے گئے تھے۔
بریرہ کہ لیے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا یہ سب تو اس کے ساتھ شروع سے ہوتا آرہا تھا۔ یا تو کوئی رشتہ آتا ہی نہیں تھا اور اگر آ بھی جاتا تو اس کی صورت کو نشانہ بنا کر اس کی تذلیل کرکہ اسے رد کردیا جاتا تھا۔ وہ یہ سب ہمیشہ سے برداشت کرتی آرہی تھی لیکن ہر بار اس کہ دل میں خواہش ہوتی کہ شاید اس بار قسمت بدل جائے مگر ہر بار نئے طریقے سے وہ تکلیف سے دوچار ہوتی تھی۔
ابھی بھی رشتے والے اسے رد کرکہ نکل کر گئے تو وہ بمشکل اپنے آپ پر ضبط کرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی وہ اپنے پیچھے اپنے خاندان والوں سے دکھی کلمات نہیں سننا چاہتی تھی اس لیے باہر لان میں لگی اوپر کی طرف جاتی سیڑھیوں پر جاکر بیٹھ گئی اور اپنا سر گھٹنوں پر رکھ لیا ۔ نا چاہنے کے باوجود بھی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر لڑیوں کی صورت اس کہ چہرے پر پھیلتے چلے گئے ۔
ابھی اسے وہاں بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اور وہ بغیر دیکھے بھی اچھے سے جانتی تھی کہ وہ اس کہ اکلوتے چچا زاد کہ علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
"مت اتنا رویا کرو ڈئیر کزن۔ یہ تو معمول کی بات ہے خود کو اب ان سب کا عادی بنا بھی لو ابھی تو یہ طنز یہ باتیں ساری زندگی برداشت کرنی ہیں تمہیں۔"
چہرے پر ہمدردی کے تاثرات سجائے مصطفی اس پر ہمشیہ کی طرح طنز کہ تیر چلا رہا تھا۔
کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص بریرہ سے پانچ سال چھوٹا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سراج صاحب لاہور کے ایک پوش علاقے میں رہتے تھے۔ ان کہ چار بچے تھے دو بیٹے اور دو ہی بیٹیاں۔ دونوں بیٹیاں بیاہ کر اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوچکی تھیں جبکہ دونوں بیٹے شادی کہ بعد بھی اپنی اولاد کہ ساتھ اسی گھر میں مقیم تھے۔ سراج صاحب کا تعلق لاہور سے قریب کسی گاؤں سے
تھا جہاں ان کی کافی زمینیں تھیں۔
ان کہ سب سے بڑے بیٹے شاہنواز کی تین بیٹیاں تھی اور  دو کی شادی ان کے خاندان میں ہی ہوئی تھی جبکہ تیسری بیٹی ابھی چھوٹی تھی اور سیکنڈ ائیر میں پڑھ رہی تھی۔  ان کا سب سے لاڈلہ اور اکلوتا بیٹا "مصطفی" تھا جو کہ ابھی اپنی تعلیم مکمل کررہا تھا۔ 23 سالہ مصطفی بلاشبہ بے حد خوبصورت تھا۔ بھوری آنکھیں ستواں ناک اور تیکھے نین نقوش نے اسے خاصہ مغرور بنا دیا تھا۔کچھ اکلوتے ہونے کے مان نے بھی اسے آسمان پر چڑھا رکھا تھا۔
دوسری طرف سراج صاحب کہ چھوٹے بیٹے فاروق کی دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی بیٹی کی شادی تو دس سال پہلے ہی ہوچکی تھی جبکہ دوسری بیٹی "بریرہ " کے مقدر تو جیسے کہیں جا سوئے تھے۔ بریرہ خوبصورت نین نقوش کی مالک تھی لیکن سانولی رنگت کی وجہ سے ہر بار اسے رد کر دیا جاتا تھا۔ خاندان میں کہیں سے بھی اس کے لیے کوئی رشتہ نہیں آتا تھا جبکہ خاندان سے باہر شادی کرنا ان کے گھرانے میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لڑکی کو اپنے گھر کی دہلیز پر ہی بوڑھا کردیتے تھے لیکن خاندان سے باہر شادی کا تصور بھی حرام سمجھا جاتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بریرہ کی عمر 28 سال ہوچکی تھی لیکن ابھی تک وہ پرانے رواجوں کی زنجیروں میں جکڑی بیٹھی تھی۔ وہ کہیں سے بھی 28 سال کی نہیں لگتی تھی اس کا سراپہ نازک سا تھا لیکن صرف ایک رنگ کا سانولہ ہونا اس کے لیے مصیبت بن گیا تھا۔
ہر وقت کہ طنز و مزاح سے بچنے کے لیے اس نے ایک بینک میں نوکری شروع کردی تھی جس کی اجازت آغا جان نے اسے بہت مشکل سے دی تھی لیکن اپنے ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے بریرہ نے اسے قائل کر ہی لیا تھا۔
وہ صبح نو بجے جاتی اور واپسی اس کی پانچ بجے ہوتی تھی۔ اس وقت میں اسے لگتا جیسے ہر چیز سے ہر طنز سے اس کی جان چھوٹ جاتی تھی۔
ہر آئے دن کوئی نہ کوئی اس کا رشتہ دیکھنے ضرور آتا لیکن ہر بار اس پر کیچڑ اچھال کر اس کی عمر اس کے رنگ کا مزاق اڑا کر اسے رد کرکہ چلے جایا کرتے تھے۔
بریرہ کی زندگی میں سب سے بڑا عذاب اس کا اکلوتا تایا زاد "مصطفی" تھا۔  مصطفی بریرہ سے پانچ سال چھوٹا تھا لیکن اس نے کبھی بھی اس کا لحاظ نہیں کیا تھا۔ وہ آتے جاتے اسے طعنے دینا طنز کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا لیکن بریرہ جواب میں خاموش ہی رہتی تھی۔ لوگوں کہ بے جا طنز نے اسے بالکل ہی خاموش کردیا تھا۔ کوئی اسے کتنا ہی بے عزت کیوں نہ کرلیتا لیکن وہ ہر بات کا جواب تحمل سے ہی دیا کرتی تھی۔ وقت اور حالات نے اسے بالکل خاموش کردیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ُ"تم نے قسم کھا رکھی ہے کیا مصطفی کہ ہر جگہ ہر موقعے پر بوڑھے باپ کو ذلیل کروا کر ہی چھوڑنا ہے؟"
شاہنواز صاحب لیونگ روم کے بیچ و بیچ کھڑے مصطفی کی کلاس لے رہے تھے جو کہ سر جھکائے کھڑا تھا۔
"آج تم مجھے بتا ہی دو آخر تم چاہتے کیا ہو؟ ہر روز تمہارا کوئی نہ کوئی نیا تماشہ ہوتا ہے آخر تم ایک بار ہی مجھے مار کیوں نہیں دیتے؟ یہ روز روز کی تزلیل سے اچھا ہے میں ایک ہی دفعہ مر جاؤں۔"
وہ نہایت اشتعال سے بولے تو مصطفی نے فوراََ سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا
"ایسی باتیں مت کریں ابو میں۔۔۔"
وہ بے چینی سے بولا لیکن انہوں نے اس کی بات کاٹ دی
"تم جو اسی حرکتیں نہ کرو تو میں بھی ایسی باتیں نہ کروں "
ان کہ غصے سے کہنے پر مصطفی کو بے انتہا شرمندگی ہوئی۔
"سوری ابو میں آئیندہ سے کبھی ایسا نہیں کروں گا۔"
وہ شرمندگی سے بولا
سوری تم اس وقت کرنا جب تم واقعی میں شرمندہ ہو۔ میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے سوری مت بول دیا کرو۔"
"میں واقعی ہی میں شرمندہ ہوں ابو۔"
"میں تو جیسے تمہیں جانتا ہی نہیں ہوں نا۔ میری اولاد ہو تم تم سے زیادہ جانتا ہوں تمہیں۔
پکڑو یہ چیک اور علاج کرواؤ جاکر اس کا جسے بے دردوں کی طرح پیٹ کر آرہے ہو۔"
وہ اس کی طرف چیک پھینکتے ہوئے غصے سے بولے اور وہاں سے چلے گئے جبکہ مصطفی بھی سر جھکاتا وہاں سے نکلتا چلا گیا پیچھے سے سب بس تاسف سے اسے دیکھتے رہ گئے۔
یہ تو اس گھر کا روز کا معمول تھا۔ آئے دن مصطفی کی کوئی نہ کوئی نئی غلطی ہوتی اور شاہنواز صاحب یونہی سب کہ سامنے اسے بے عزت کرکہ چلے جاتے اور سب بیٹھے دیکھتے رہتے کوئی کچھ نہ بولتا تھا کوئی اسے کچھ نہیں سمجھاتا تھا۔ آغا جان اور دادی جان نے اسے اپنے ہاتھوں کا چھالا بنا رکھا تھا۔ جب شاہنواز صاحب اسے ڈانٹ کر چلے جاتے اور وہ غصے سے گھر سے باہر نکل جاتا یا کھانا چھوڑ دیتا تو وہی دونوں اسے مناتے تھے۔ سب کہ بے جا لاڈ پیار نے اسے بہت بگاڑ رکھا تھا کہ اب وہ بے حد خود سر ہوچکا تھا۔
جسے دل کرتا طنز کرتا بے عزت کرتا ۔ جسے دل کرتا مار پیٹ دیتا ۔ اس کے دل سے ہر قسم کا ڈر خوف ختم ہوچکا تھا بس شاہنواز صاحب ہی تھے جن سے وہ تھوڑا بہت ڈرتا تھا لیکن آغا جان اور دادی جان کی سپورٹ کی وجہ سے وہ جانتا تھا کہ وہ زیادہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔
آج بھی یونیورسٹی میں معمولی سے جھگڑے پر اس نے ایک لڑکے کو اچھا خاصہ مار پیٹ دیا تھا جس کے باعث اس کی حالت خراب ہوگئی تھی اور اب وہ ہسپتال میں داخل تھا۔ شاہنواز صاحب کو جیسے ہی یہ خبر ملی وہ ہمیشہ کی طرح اس پر برس پڑے تھے ۔ کچھ دیر تک تو مصطفی پر ان کی باتوں کا اثر ہوا تھا لیکن کچھ دیر بعد وہ اثر ذائل ہوا اور وہ الٹا سب سے ناراض ہوکر گھر سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now