Episode 7

1.5K 124 1
                                    

مصطفی کمرے سے باہر چلا گیا۔
شاہنواز صاحب وہیں بریرہ کے پاس بیٹھ گئے۔
"میں مانتا ہوں اس بار مصطفی نے بہت بڑی غلطی کی ہے بریرہ لیکن بچے وہ واقعی میں بہت شرمندہ ہے۔ میں اس کا باپ ہوں اس کی رگ رگ سے واقف ہوں اس بار اسے اپنی غلطی کا احساس ہے۔ بیٹا تم تو بہت بڑے دل والی ہے اسے معاف کردو۔"
وہ آہستہ سے بولے
"تایا جان آپ کو مصطفی سے ایسا کچھ نہیں کہنا چاہیے تھے۔ میرا اور مصطفی کا رشتہ باکل بے جوڑ ہوتا۔ اگر میں ٹھنڈے دماغ سے سوچوں تو اس میں مصطفی کی کوئی غلطی نہیں ہے اس کے لیے ہر گز یہ بات قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس کے منع کرنے پر آپ نے اس پر زور دیا ہوگا اور نتیجے میں اس نے اپنا سارا بدلہ مجھ سے پورا کیا ہے۔ "
وہ اپنے آنسو پونچھ کر بولی
"بیٹا مجھے بھی معاف کردو۔ میں سمجھا تھا شاید مصطفی راضی ہوگیا ہے لیکن وہ اتنا شدید رد عمل دے گا مجھے احساس نہیں تھا۔"
وہ شرمندگی سے بولے
"آپ نے مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ہے۔ اب میں مصطفی کا سامنا بھی نہیں کرسکتی بلکہ گھر میں کسی کا بھی سامنا نہیں کر سکتی۔"
وہ سنجیدگی سے بولی
"میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا بریرہ بیٹا میں سب سہی کرنا چاہتا تھا لیکن سب غلط ہوگیا۔"
وہ دکھ سے بولے
" آپ کا کوئی قصور نہیں ہے تایا جان کسی کا بھی کوئی قصور نہیں ہے بس میری ہی قسمت خراب ہے۔"
وہ سنجیدگی سے بولی تو وہ خاموش ہوگئے اور وہاں سے اٹھ کر آ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادا جان اخبار پڑھنے میں مصروف تھے جب مصطفی ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے پاس بیٹھنے پر انہوں نے اپنا رخ دوسری طرف کو موڑ لیا۔
"آپ بھی مجھ سے ناراض ہیں ابا؟"
وہ ان کے گھٹنے پر سر رکھتے ہوئے بولا۔ باقی سب انہیں دادا جان کہتے تھے لیکن صرف مصطفی انہیں ابا کہہ کر پکارتا تھا۔
"تم نے میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے مصطفی۔ میں سمجھا تھا کہ میں نے اپنے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے اور میرا خاندان ہر طرح کی نفرت اور بغض سے پاک ہے لیکن مجھے اب احساس ہوا ہے کہ میں کتنا غلط تھا۔"
وہ دکھی لہجے میں بولے
"مجھے معاف کردیں ابا میں بہت شرمندہ ہوں پتا نہیں غصے میں میں یہ سب کیسے کرگیا۔ "
وہ شرمندگی سے بولا
"لیکن اس میں سب قصور میرا تو نہیں ہے نا ابا۔ ابو نے مجھ سے اچانک ایسی بات کردی جس کا میں ساری زندگی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اب ایسی بات پر میرا کچھ تو ریکشن کرنا بنتا تھا نا لیکن میرے کچھ بھی بولنے سے پہلے انہوں نے مجھے بلیک میل کیا تو میں مجبور ہوگیا یہ سب کرنے پہ۔"
وہ وضاحت دیتے ہوئے بولا
"تم اتنا مجبور ہوگئے کہ اتنی بڑی غلطی کردی؟"
وہ سنجیدگی سے بولے
"میں شرمندہ ہوں نا ابا۔ سب سے معافی بھی مانگی ہے بریرہ سے بھی معافی مانگی ہے اب آپ بتائیں میں کیا کروں۔ میں صرف ابو کو خوش کرنا چاہتا تھا میں ان کی نظروں میں اچھا بننا چاہتا تھا۔"
"اس کی نظروں میں اچھا بننے کے لیے تم بریرہ کو سب کی نظروں سے گرا رہے تھے؟"
"مجھے معاف کردیں۔"
اب کی بار اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا اس لیے دوبارہ سے معذرت کرلی۔
"مجھ سے نہیں بریرہ سے معافی مانگو جا کر۔"
وہ آہستہ سے بولے
"اچھا نا اب آپ تو معاف کردیں باقیوں سے میری سفارش بھی تو آپ نے کرنی ہے۔"
انہیں نرم پڑتا دیکھ کر وہ فوراََ بولا
"بہت چالاک ہو تم ۔ سہی کہتا ہے شاہنواز تمہیں بگاڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ میرا ہی ہے۔"
وہ اسے ساتھ لگاتے ہوئے بولے
"ابا آپ میری ایک بات مانیں گے؟ مطلب اگر میں آپ سے کچھ مانگوں تو آپ مجھے دیں گے؟"
وہ اپنے مطلب پر آیا۔
"ہاں بولو میری جان۔ ایسا کبھی ہوا ہے کہ تم کچھ مانگو اور ہم نہ دیں۔"
وہ پیار سے بولے
"وہ۔۔۔ ابا میں بریرہ۔۔ میرا مطلب میں بریرہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
وہ جھجکتے ہوئے بولا
"کیا؟ کیا کہہ رہے ہو؟"
دادا جان حیرانی سے بولے
"جی میں بریرہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ابا۔"
اس نے اپنی بات دہرائی۔
"اور تم ایسا کیوں کرنا چاہتے ہو؟ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بریرہ اور تمہاری ہمیشہ سے ہی کبھی نہیں بنی اور وہ تم سے عمر میں بھی پانچ سال بڑی بھی ہے تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ اب تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو؟ اس سے جان چھڑوانے کے لیے تم نے اس قدر ڈرامہ رچایا تھا اور اب تم کہہ رہے ہو تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو؟"
دادا جان ناراضگی سے بولے
"پہلے مجھے پتا نہیں کیا ہوگیا تھا لیکن اب میں اس سے واقعی میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ شاید جو میں اس کہ ساتھ کرچکا ہوں اس کا مداوا کرنا چاہتا ہوں۔"
وہ آنکھیں نیچی کیے بولا
"مصطفی اگر تم واقعی دل سے یہ سب کہہ رہے ہو تو میں بات کرسکتا ہوں سب سے لیکن اگر تم یونہی کہہ رہے ہو تو میری بچی ابھی ہم پر اتنی بھاری نہیں ہے جو اسے بنا چاہت کے تمہارے ساتھ رخصت کردیں۔"
وہ سختی سے بولے
"میں اتنی بڑی بات یونہی تو نہیں کرسکتا نا ابا۔ شادی کرنا چاہتا ہوں اس لیے تو کہہ رہا ہوں آپ سے۔"
وہ جھنجھلایا
"شادی کرنا چاہتے ہو یا بریرہ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟"
وہ اسے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے
"کیا ہے ابا۔۔ بریرہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
وہ چڑتے ہوئے بولا
"یہی خیال اگر تمہیں تین دن پہلے آ جاتا تو وہ حالات نہ ہوتے جو اب پیدا ہو چکے ہیں لیکن بحر حال میں کوشش کرتا ہوں سب سے بات کرنے کی لیکن تم فل وقت خاموش رہو۔"
وہ سنجیدگی سے بولے
"ہائے ابا جان یو آر دا بیسٹ۔"
وہ ان کے گلے لگتا ہوا بولا تو وہ مسکرا دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی میں بہت بور ہو رہی ہوں۔"
زینب کچن میں کام کرتیں نائلہ بیگم سے بولی
"آج تمہاری چھٹی کا پہلا دن ہے اور یہ حال ہے تمہارا پورا مہینہ کیا کرو گی؟"
وہ اسے گھورتیں ہوئیں بولیں
"مجھے نہیں پتا امی میں بور ہو رہی ہوں مجھے کہیں جانا ہے۔"
وہ چڑتے ہوئے بولی
زینب کے سیکنڈ ائیر کے ایگزامز کل ہی ختم ہوئے تھے اور اب اسے کافی لمبی چھٹیاں تھیں۔ بریرہ کا بخار اب اتر چکا تھا اور وہ آج ایک ہفتے کے بعد آفس گئی تھی اس لیے زینب اکیلی ہوگئی تھی۔
"تو تم ایسا کرو شائستہ بھابھی کہ گھر چلی جاؤ نا۔ ان کے کچھ کام کروا آؤ کتنی اکیلی ہوتی ہیں سارا دن اور بیمار بھی رہتی ہیں۔ "
وہ عمر کی امی کا کہتے ہوئے بولیں۔ دونوں خاندانوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں کافی آنا جانا تھا۔ زینب اکثر ہی ان کے گھر صبح سے شام کے لیے جاتی اور ان کے کافی کام کروا کر آتی تھی۔ ان دونوں خاندانوں میں سٹیٹس کا بہت فرق تھا لیکن محبتیں ان سب میں سگے رشتوں سے بھی بڑھ کر تھیں۔
"امی۔۔۔ آنٹی مجھے پھر کچھ بنانے پر لگا دیں گی۔"
وہ چڑتے ہوئے بولی
"تو کیا ہوگیا زینب۔۔ خود ہی تو کہہ رہی ہو بور ہو رہی ہوں وہاں جا کر ان کی ہیلپ ہی کروا دو۔"
وہ اسے جھڑکتے ہوئے بولیں
"اچھا ٹھیک ہے میں تیار ہوکر آتی ہوں آپ مصطفی بھائی سے کہیں مجھے چھوڑ آئیں۔"
وہ مانتے ہوئے بولی اور تیار ہونے چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے میرا بچہ آج کتنے دنوں بعد آیا ہے۔"
وہ مصطفی کے ساتھ عمر کے گھر آئی تو اس کی امی اس سے بہت محبت سے ملیں۔
"بس آنٹی کل ہی فارغ ہوئی ہوں ایگزامز سے۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولی
"چلو اچھی بات ہے۔ آتی جاتی رہا کرو میرے گھر میں رونق رہتی ہے۔"
وہ محبت سے بولیں
"جی آنٹی"
"آؤ مصطفی تم بھی اندر باہر کیوں کھڑے ہو۔"
وہ مصطفی کی طرف متوجہ ہوئیں۔
"نہیں آنٹی میں بس چلتا ہوں کچھ کام ہے۔ شام میں کھانے میں آپ کے ہاتھ کی بنی دال ہی کھاؤں گا بنا کر رکھیے گا۔"
وہ محبت سے بولا۔ وہ ہمیشہ ان سے کچھ نا کچھ کھانے کی فرمائش کرتا تھا لیکن صرف ایسی چیز کی فرمائش کرتا جو وہ آسانی سے بنا سکیں اس سے وہ خوش بھی ہو جایا کرتیں تھیں اور ان پر بوجھ بھی نہیں پڑتا تھا۔
"ضرور میں اپنے بچے کے لیے بنا کر رکھوں گی "
وہ مسکرا کر بولیں تو وہ چلا گیا اور زینب کمرے میں احسن صاحب سے ملنے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام علیکم انکل۔"
وہ کمرے میں داخل ہوتے اونچی سے بولی
احسن صاحب جو اخبار پڑھ رہے تھے اس کی آواز پر چونکے۔
"وعلیکم السلام میرا بچہ آیا ہے آج۔"
وہ خوشگواری سے بولے
"جی انکل میں نے سوچا آج آپ اکیلے اکیلے اخبار نہ پڑھیں بلکہ میں پڑھ کر سناؤں۔"
وہ مسکراتے ہوئے ان کے پاس چئیر رکھ کر بیٹھ گئی اور ان کے ہاتھ سے اخبار لے لی۔
"دیکھیں آج زینب آئی ہے تو کتنی رونق ہوگئی ہے گھر میں۔"
شائستہ بیگم ہاتھ میں جوس پکڑے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں
"ہماری بچی ہے ہی اتنی اچھی جب بھی آتی ہے گھر کھل جاتا ہے۔"
وہ خوشی سے بولے تو زینب مسکرانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈور بیل کی آواز پر دونوں چونکی۔
"اس وقت کون آگیا عمر کے آنے کا تو ٹائم ابھی نہیں ہوا"
شائستہ بیگم بولیں
"آپ دیکھیں جا کر میں پکوڑے فرائی کرتی ہوں۔ "
زینب کام میں مصروف بولی
دروازہ کھولنے پر عمر ہی نمودار ہوا۔
"خیرت ہے؟ آج تم اس وقت کیسے گھر آگئے۔"
ابھی مغرب کا وقت تھا جبکہ عمر عشاء کے بعد گھر آیا کرتا تھا۔
"کچھ نہیں ایک گھر نے ٹیوشن چھڑوا دی ہے اپنے بچوں کی اس لیے جب تک دوسری نہیں ملتی جلدی ہی گھر آیا کروں گا۔ "
وہ آہستگی سے کہتا ہوا اندر آگیا۔
"اچھا تم بیٹھو میں چائے لاتی ہوں۔"
انہوں نے اس کی حالت دیکھ کر فلحال کچھ بھی کہنے کا ارادہ ترک کیا اور کچن میں چلی آئیں۔
وہ وہیں لان میں پڑی چارپائی پر لیٹ گیا۔ ایک بازو آنکھوں پر رکھا تھا جبکہ دوسرا سر کہ نیچے رکھا ہوا تھا۔
"السلام علیکم عمر بھائی کیسے ہیں؟"
ابھی اسے لیٹے کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب اس کے کانوں میں زینب کی آواز پڑی۔ عمر ہلکی ہلکی نیند میں تھا اس لیے زینب کی آواز سن کر اسے لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔
اس نے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹایا تو اس کے بالکل سامنے مسکراتی ہوئی زینب چائے کا کپ تھامے کھڑی تھی۔
عمر کی دھڑکن اسے دیکھتے ہی تیز ہوگئی۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ آج وہ زینب سے مل پائے گا۔ کتنے دنوں سے وہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ترس رہا تھا اور آج جب وہ اس کے سامنے کھڑی تھی تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
وعلیکم السلام تم کب آئی۔"
وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولا
"میں تو صبح سے آئی ہوئی ہوں۔ آج کل فارغ ہوں گھر میں بور ہو رہی تھی اس لیے ادھر آگئی۔"
"اچھی بات ہے۔"
بس اتنا کہہ کر وہ چائے پینے میں مصروف ہوگیا جبکہ زینب دوبارہ اندر چلی گئی۔
وہ ہر بار سوچتا تھا کہ اب جب وہ زینب سے ملے گا اس سے بہت باتیں کرے گا۔ اسے بتائے گا کہ وہ اس کہ بغیر خود کو کتنا ادھورا محسوس کرتا ہے۔ اسے بتائے گا کہ اسے اس کی کتنی ضرورت ہے۔ اسے بتائے گا کہ اس تلخ زندگی میں اس کی ایک جھلک عمر کے لیے آب حیات کی طرح ہوتی ہے۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنی زندگی کی تمام تر تلخیاں بھول جاتا ہے۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہتا تھا وہ بس ایک بار جاننا چاہتا تھا کہ کیا وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے جتنی محبت وہ اس سے کرتا ہے؟
لیکن یہ سب باتیں وہ صرف اس سے تصور میں ہی کر سکتا تھا جب بھی وہ اس کے سامنے آتی اس کے احترام میں عمر کی نظریں خود بہ خود ہی جھک جایا کرتیں تھیں۔ اس کی دھڑکن تیز ہوجایا کرتی تھی وہ اسے ایک نظر کے بعد دوبارہ دیکھنے کی جرت نہیں کرتا تھا۔ وہ جو اس سے ہزاروں باتیں کرنا چاہتا تھا اس کے سامنے آنے پر بالکل خاموش کو جایا کرتا تھا۔
وہ جو اس کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا اسے سامنے پا کر سب بھول جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عمر بھائی آپ نے اب تک نماز نہیں پڑھی؟ "
مغرب کا وقت گزر رہا تھا جب زینب عمر کے پاس آکر بولی جو کہ ابھی تک چارپائی پر لیٹا تھا۔ شائستہ بیگم احسن صاحب کو دوا کھلانے گائیں تھیں جبکہ مصطفی ابھی زینب کو لینے نہیں آیا تھا اس لیے وہ باہر آگئی تھی جہاں عمر لیٹا تھا۔
"نہیں زہن میں نہیں رہا۔ آنکھ لگ گئی تھی۔"
وہ آہستگی سے بولا
"آپ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں؟"
زینب نے سوال کیا تو عمر نے نظریں اٹھا کر ایک نظر اسے دیکھا۔ زینب نے چہرے کے گرد نماز کے سٹائل میں دوپٹہ لیا ہوا تھا۔ ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ دوبارہ سے سر جھکا گیا۔
"باقاعدگی سے نہیں پڑھتا کچھ نمازیں ٹیوشن کے وقت میں چھوٹ جاتی ہیں۔"
وہ شرمندگی سے بولا
"آپ کو پتا ہے آپ کی پریشانی کی وجہ کیا ہے؟ کیوں آپ اپنے روزگار کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں؟"
وہ اچانک سے بولی تو عمر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا
"ایسے حیران مت ہوں مجھے آنٹی بتاتی رہتی ہیں کہ آپ کس قدر پریشان رہتے ہیں جاب کی وجہ سے۔"
وہ اسے حیران دیکھ کر بولی
"آپ کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے روزگار کے لیے اپنی نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کو اپنے رب پر پورا یقین ہی نہیں ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ اپنا کام چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جائیں گے تو آپ کو کام میں نقصان ہوگا۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں جب آپ اپنے کسی کام کے لیے نماز چھوڑتے ہیں نا تو وہ کام آپ کہ لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔"
نظریں نیچی کیے وہ اسے غور سے سن رہا تھا۔
" آپ رزق کی خاطر اپنی نماز چھوڑتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل رازق تو اللہ کی ذات ہے۔ وہ جب گھونسلوں میں چڑیا کو رزق دے سکتا ہے وہ جنگلوں میں پہاڑوں میں بسے لوگوں کو رزق دے سکتا ہے وہ آسمان میں اڑتے پرندوں کو رزق دے سکتا ہے تو وہ آپ کو کیوں نہیں دے گا؟
جب اس کا وعدہ ہے ہمیں رزق دینے کا تو ہم کیوں رزق کمانے کی خاطر اپنی نماز ترک کردیں۔
مانا کہ آپ پر بہت زمہ داریاں ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے لیکن نماز بھی تو ہم پر فرض ہے نا؟ اور آپ یقین کریں جب ہم اپنا یہ فرض پوری ایمانداری سے نبھائیں گے تو ہماری آدھی پریشانیاں ویسے ہی ختم ہو جائیں گی۔ "
بولتے بولتے جب وہ تھک گئی تو خاموش ہوگئی۔
عمر بغیر کچھ بولے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تو زینب کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔
"یعنی کہ حد ہی ہوگئی ایک تو میں اچھی بات سمجھا رہی تھی اور وہ بجائے کچھ کہنے کے منہ اٹھا کر وہاں سے چلے ہی گئے۔ "
وہ منہ میں بڑبڑاتی ہوئی اٹھ کر اندر آگئی۔
کچھ دیر بعد جب وہ باہر نکلی تو عمر برآمدے میں نماز پڑھ رہا تھا۔
زینب اپنی کامیابی پر مسکرا کر رہ گئی۔
وہ ایسی ہی تھی ہر ایک سے محبت کرنے والی ہر ایک کا خیال کرنے والی۔ کسی بھی انسان سے اسے کوئی غرض یا مطلب نہیں ہوتا تھا وہ سب کے لیے مخلص تھی۔ اسے جب بھی کوئی اداس لگتا پریشان لگتا وہ ضرور اس کے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ ابھی بھی وہ عمر کی پریشانی کچھ کم کرنا چاہ رہی تھی کیونکہ کچھ دیر پہلے ہی وہ آنٹی سے سن چکی تھی کہ عمر آج کل جاب کے لیے کس قدر پریشان ہے اور کام کے پیچھے سب نمازوں سے بھی غافل ہوا پڑا ہے اسی لیے اپنی فطرتاً نرم دل طبیعت سے مجبور ہوکر وہ اسے بھی سمجھانے بیٹھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon