Episode 3

1.6K 133 2
                                    


بریرہ ابھی ابھی آفس سے واپس آئی تھی۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی وہ اندر داخل ہوتے ہوئے حیران ہوئی پھر یاد آیا کہ آج تو سب بڑوں کو کسی خاندان کی قریبی شادی میں جانا تھا۔
کپڑے چینج کرنے کے بعد وہ زینب کے کمرے میں آئی جو کہ حسب معمول کتابیں پڑھنے میں مصروف تھی۔
"ارے آپی آپ آگئیں۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔"
زینب اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر چونکتے ہوئے بولی
"تمہیں کتابوں کے علاوہ کچھ اور نظر آئے تب نا۔"
اربیہ ہنستے ہوئے بولی
"ایسی بھی بات نہیں ہے آپ یہاں بیٹھیں میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔"
زینب بکس بند کرتے ہوئے بولی
"نہیں چندا تم پڑھائی کرو میں خود بنا لاتی ہوں۔ "
بریرہ مسکرا کر کہتی اٹھ کر کچن میں آگئی اور چائے بنانے لگی۔
ابھی اس نے چائے اپنے لیے کپ میں نکالی ہی تھی کہ پیچھے سے مصطفی کی آواز ابھری۔
"ایک کپ میرے لیے بھی بنا دو۔"
وہ حکم دے کر وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔
"میں بنا چکی ہوں اب چائے دوبارہ نہیں بناؤں گی۔"
بریرہ سنجیدگی سے کہتی وہاں سے جانے لگی
"دوبارہ بنا لو گی تو کوئی مصیبت نہیں آ جائے گی۔"
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولا
"ملازمہ نہیں ہوں تمہاری خود اٹھ کر بنا لو۔ "
"ویسے جس طرح تمہاری عمر گزرتی جارہی ہے عنقریب بچوں کی نینی بننے کا کام ہی کرنا پڑے گا تمہیں۔"
وہ شرارت سے بولا
"اپنی بکواس بند رکھا کرو تم ۔"
بریرہ انگلی اٹھا کا اسے وارن کرتی ہوئی بولی
"یہ چائے تم مجھے دے دو اور جا کر یوٹیوب پر کوئی رنگ گورا کرنے کے ٹوٹکے دیکھو۔ پہلے ہی اتنی کالی ہو چائے پی پی کر اور سیاہ ہوجاؤ گی۔ "
طنزیہ لہجے میں کہتا وہ اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھین کر وہاں سے نکلتا چلا گیا جبکہ بریرہ غصے سے بیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر ابھی ابھی ٹیوشن پڑھا کر گھر میں داخل ہوا تھا۔ اس کی روٹین بہت ٹف قسم کی تھی۔ صبح آٹھ سے بارہ وہ یونیورسٹی پڑھنے جاتا تھا پھر وہاں سے ایک اکیڈمی جاتا پڑھانے پھر اس کہ بعد دو گھروں میں جاتا ٹیوشن پڑھانے اور اسی طرح سے اسے گھر آتے آتے نو بج جایا کرتے تھے۔
"میرا بیٹا تھک گیا ہے۔"
وہ فریش ہوکر احسن صاحب کہ پاس آکر بیٹھا تو وہ اس کا تھکا تھکا سا چہرہ دیکھتے ہوئے بولے
"تھکنا کیا ہے ابو مجھے تو مزا آتا ہے بہت۔ سارا دن اچھا گزرتا جاتا ہے ورنہ گھر بیٹھ کر سارا دن میں بور ہی ہوجاتا۔"
وہ اپنی تھکان کو اپنی مسکراہٹ کے پیچھے چھپائے بولا
"بیٹا میں بہت شرمندہ ہوں جس عمر میں تمہیں صرف اپنی پڑھائی پر دھیان دینا چاہیے تھا اس عمر میں تم گھر گھر جاکر لوگوں کے بچوں کو پڑھا رہے ہو۔ یہ سب میری زمہ داری تھی اس گھر کی کفالت کرنا لیکن دیکھو میں مریض بن کر بیٹھ گیا اور ساری پریشانیاں تمہیں دے دیں۔"
وہ باپ تھے اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی پریشانی بخوبی بھانپ سکتے تھے۔
"ایسی بات نہیں ہے ابو تعلیم دینا تو نبیوں کی میراث ہے اس میں کونسا کوئی شرمندگی والی بات ہے۔ اور آپ کیوں سوچ سوچ کر خود کو پریشان کرتے ہیں کوئی زمہ داری نہیں ہے مجھ پہ کوئی بوجھ نہیں ہے یہ تو میرا فرض ہے۔ اور آپ ہر وقت خود کو بیمار مت کہا کریں بہت جلد انشااللہ آپ صحت یاب ہوجائیں گے۔"
وہ مسکرا کر بولا
"مجھے فخر ہے میرے بیٹے پر اللہ تمہیں ڈھیروں کامیابیاں دے۔"
وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
"آپ آرام کریں ابو میں پڑھائی کرلوں۔"
وہ آہستگی سے کہتا اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اسے پڑھتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ شائستہ بیگم کھانا لیے کمرے میں داخل ہوئیں۔
"کتنی دفعہ کہا ہے عمر کہ آتے ساتھ ہی پڑھنے مت بیٹھ جایا کرو پہلے کھانا کھا لیا کرو۔"
وہ خفگی سے بولیں
"سوری امی آئیندہ سے خیال رکھوں گا۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا
"چلو بند کرو یہ کتابیں اور کھانا کھاؤ پہلے۔"
ان کہ کہنے پر اس نے کتابیں بند کردیں اور کھانا کھانے لگا
"دوپہر میں کھانا کھایا تھا؟"
انہوں نے اچانک سے سوال کیا
"جی کھا لیا تھا۔"
وہ نظریں چراتے ہوئے بولا
"تمہیں مجھ سے جھوٹ بولنے کی کب سے ضرورت محسوس ہونے لگی ہے عمر؟"
وہ اس کا گریز جان گئی تھیں۔
"یاد نہیں رہا تھا کھانا۔ مصروف تھا اس لیے ٹائم نہیں ملا۔"
"مجھے سچ سچ بتاؤ عمر۔"
اب کہ انہوں نے سختی سے سوال کیا
"پیسے ختم ہوگئے تھے امی۔ ابو کی دوائی لے آیا تھا۔"
بالآخر اس نے سچ بول ہی دیا ۔
اس کہ جواب پر وہ گہری سانس بھر کر رہ گئیں۔
"پتا نہیں کب یہ مشکلات ختم ہوں گیں۔"
وہ افسردگی سے بولیں
"امی اب آپ یہ مایوسی والی باتیں نہ کریں اور میرے لیے چائے بنا کر لائیں کیونکہ مجھے ساری رات جاگ کر کام کرنا ہے آج۔"
وہ موضوع تبدیل کرتے ہوئے بولا
"سوچ رہی ہوں تمہاری شادی ہی کردوں مجھ سے نہیں ہوتے یہ کام۔"
وہ بھی ماحول پر چھائی افسردگی ختم کرنے کو بولیں تو عمر ان کی بات پر مسکرا کر رہ گیا بے اختیار ہی ایک معصوم سا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا جسے اس نے فوراََ سے پہلے ہی جھٹک دیا۔ وہ اسے سوچنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ اس کی نہیں ہے۔ وہ چاہ کر بھی اس کی نہیں ہوسکتی لیکن یہ سب جاننے کے باوجود بھی وہ خود کو اس سے محبت کرنے سے روک نہیں پاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی میں اب کسی کے سامنے مزید پیش نہیں ہوسکتی ہونی ہوگی میری شادی تو ہوجائے گی نہیں تو اللہ مالک ہے۔"
بریرہ آمنہ بیگم کی بات سن کر ناراضگی سے بولی
"میری جان اس طرح سے کیسے زندگی گزرے گی "
وہ پریشانی سے بولیں
"تنہا زندگی گزارنا زیادہ بہتر ہے بجائے اس کہ کہ میں لوگوں کی طنزیہ باتیں سنتی رہوں۔ ہر روز ان کے سامنے پیش ہوجاؤں اور بدلے میں وہ میری شکل و صورت بڑھتی عمر اور سانولے رنگ کا مزاق اڑاتے رہیں؟ میں یہ سب مزید برداشت نہیں کرسکتی۔ "
غصے میں کہتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
ابھی وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ اس کا تصادم بری طرح مصطفی سے ہوا جو کہ اپنی دھن میں سیڑھیاں چڑھتا اوپر آرہا تھا۔
"بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ تو تمہاری آنکھوں نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔"
وہ شرارت سے بولا لیکن بریرہ خاموشی سے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔ مصطفی اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ چکا تھا لیکن پھر کندھے اچکاتا آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ویسے زینب کیا واقعی میں تمہاری کسی لڑکے سے دوستی نہیں ہے؟"
وہ اپنے گروپ کے ساتھ کالج کے گراؤنڈ میں بیٹھی تھی جب ایک کلاس فیلو نے اسے مخاطب کیا۔
"نہیں کیونکہ میں ان حرام رشتوں پر یقین نہیں رکھتی۔"
وہ سنجیدگی سے بولی
"یہ تو لگتا ہے شادی بھی اپنے گھر والوں کی مرضی سے ہی کرے گی۔
ردا نے بھی اپنا حصہ ڈالا
"ہاں بالکل میں انہیں کی پسند سے شادی کروں گی۔"
زینب مسکراتے ہوئے بولی
"یعنی تمہاری اپنی کوئی پسند ہی نہیں ہے؟ کسی عجیب لڑکی ہو یار پتا نہیں اس دور میں رہ کیسے رہی ہو؟ میں تو جب تک عادل سے بات نہ کرلوں میرا ایک ایک لمحہ مشکل ہوتا ہے اور تم ہو کہ آج تک کسی سے دوستی تک نہیں۔"
وہ ہنستے ہوئے بولی
"کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ان فضول کہ رشتوں میں پڑھ کر ہم اصل رشتوں کی خوبصورتی کھو دیتے ہیں۔ جب مجھے پتا ہے کہ میرے لیے کوئی بنا دیا گیا ہے کوئی ازل سے ہی میرا ہے میں پھر اس کی تلاش میں کیوں ہر وقت ہر جگہ منہ ماری کرتی پھروں جب مجھے معلوم ہے کہ وہ وقت آنے پر میرے پاس خود ہی آجائے گا۔"
زینب اپنا نظریہ بیان کرتی ہوئی بولی
"مگر پھر بھی کیا تمہارا دل نہیں کرتا کہ تمہیں بھی کوئی پسند کرے تمہارے پیچھے آئے تمہاری فکر کرے؟"
ردا نے اپنے مزاج کے مطابق سوال کیا
"میرا خیال میں اس سے زیادہ خوبصورت احساس یہ ہے کہ میں اسے سوچوں جسے میں جانتی تک نہیں نہ ہی وہ مجھے جانتا ہو۔ یہ کتنا خوبصورت ہے نا کہ میں نہیں جانتی وہ کون ہے لیکن پھر بھی اس کے لیے اپنے آپ کو ہر کسی سے ہر کسی کی بری نظر سے محفوظ رکھے ہوئے ہوں۔ جب بھی کبھی دل چاہتا ہے اسے سوچ لیتی ہوں اور کبھی کبھار تو سوچتی ہوں کہ کیا وہ بھی مجھے اس طرح سے ہی سوچتا ہوگا؟ کیا اسے بھی میرا انتظار ہوگا جیسے میں اس کا انتظار کرتی ہوں؟ یقین کرو یہ احساس کسی نامحرم سے گفتگو کرنے سے کہیں زیادہ خوبصورت اور پرسکون ہے"
زینب مسکراتے ہوئے بولی
"عجیب دقیانوسی سوچ ہے تمہاری۔ آجکل بھلا کون رکھتا ہے ایسی سوچ۔"
وہ سب اس کی عقل پر ماتم کرتیں وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں جبکہ زینب مسکرا کر رہ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی وہ لوگ کبھی بھی زینب کے احساسات کو نہیں جان سکتے کیونکہ انہیں نامحرم سے رات بھر جاگ کر گفتگو کرنے میں اور گھر والوں سے جھوٹ بول کر آوازہ لڑکوں سے محبت کے نام پر ملنے میں لذت آنے لگی ہے ۔اس لیے وہ نہیں جان سکتیں تھیں کہ محرم رشتوں کو تو سوچنا ہی کتنا پرکشش ہوتا ہے۔ اپنی ساری سوچیں اپنی ساری خواہشات اپنے محرم کے گرد رکھنا کتنا حسین ہوتا ہے۔
وہ سب اٹھ کر جا چکیں تھیں اور زینب بھی اپنے زہن سے سوچوں کو جھٹکتی نوٹس بنانے میں مصروف ہوگئی۔
وہ ایسی ہی تھی اپنی سوچوں کو اپنے تک محدود رکھنے والی۔ وہ اج کل کی لڑکیوں کی طرح بالکل نہیں تھی نہ زیادہ بولتی نہ زیادہ کسی سے گھلتی ملتی تھی بس اپنے آپ میں ہی سمٹی سی رہتی۔
اس کا چہرہ بہت معصوم تھا اور اس پر اس کی گہری کالی آنکھیں اسے اور حسین بناتی تھیں جنہیں وہ چشمے کے پیچھے چھپا کر رکھتی تھی۔
کالے ہی گھنے بال اونچی پونی ٹیل میں باندھے ہوتے تھے ۔ بلاشبہ وہ بہت خوبصورت اور معصوم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ذلیل انسان میرے بغیر تو یہاں بیٹھا اکیلے اکیلے مزے کر رہا ہے؟"
مصطفی عمر کو یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگائے نیچے بیٹھے دیکھتے ہوئے بولا
میں کیا مزے کروں گا مصطفی مجھے تو خود زندگی مزے چھکانے پر تلی ہوئی ہے۔"
عمر افسردگی سے بولا تو مصطفی وہیں اس کہ پاس بیٹھ گیا وہ جانتا تھا ضرور کوئی بڑی بات ہے ورنہ عمر مایوس ہونے والے لوگوں میں سے بالکل نہیں تھا۔
"کیا بات ہے عمر کیوں پریشان ہے؟"
اس کہ لہجے میں تشویش تھی۔
"میری زندگی میں تو ہر بات ہی پریشانی والی ہوتی ہے نجانے کب مجھے بھی خوشی کی خبریں ملا کریں گی۔"
اس کا لہجہ ابھی بھی تلخ تھا۔
"انکل آنٹی ٹھیک ہیں؟"
مصطفی کو ان کی طرف سے اندیشہ ہوا
"ابو کی رپورٹس آئی ہیں آج اور ان کی بیماری آخری سٹیج تک چلی گئی ہے مصطفی ۔ یہ مرض ان کے پورے جسم میں پھیلتا جا رہا ہے۔"
بلآخر اس نے وجہ بتا ہی دی۔
"تو پھر اب ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟ کیا علاج ہے اس کا؟"
مصطفی نے پریشانی سے سوال کیا
"اپنی طرف سے تو وہ علاج کی پوری کوشش کریں گے لیکن ان کا یہی کہنا ہے کہ اب ان کے پاس ایک سال سے زیادہ کا وقت نہیں ہے۔ مرض ٹھیک ہو بھی گیا تو وہ ایک سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے۔"
عمر کے لہجے میں بے پایاں دکھ تھا۔
"میں کیا کروں گا مصطفی ایک میرے والدین ہی تو میرا کل سرمایہ ہیں اگر ان میں سے بھی کسی کو کچھ ہوگیا تو میرا کیا ہوگا؟ میں تو جیتے جی ہی مر جاؤں گا۔"
وہ کرب سے بول رہا تھا۔
مصطفی نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا تو عمر کی آنکھوں میں نمی پیدا ہوگئی۔
"تو پریشان نہ ہو عمر اللہ بہت بڑا مہربان ہے تو اس سے دعا کر سب ٹھیک ہوجائے گا۔"
مصطفی اسے تسلیاں دیتے ہوئے بولا کیونکہ اس کہ سوا وہ بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
"چل یہاں سین نہ کریٹ کر کلاس میں چلتے ہیں اس سے پہلے سر ہماری کلاس لینے باہر آجائیں۔"
عمر کچھ ہی دیر میں خود کو کمپوز کرچکا تھا اس لیے بشاش سے بولا اور کلاس کی طرف چل دیا جبکہ مصطفی اسے دیکھتا رہا۔
کیا تھا وہ لڑکا؟ کس طرح حالات سے لڑ رہا تھا؟ ایک پل کو لگتا بالکل ڈھے سا جائے گا دوسرے پل کسی مضبوط چٹان کی طرح دوبارہ سے ڈٹ جاتا۔
کبھی کبھی مصطفی کو عمر پر ترس آتا تو کبھی اس پر رشک ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زینب میری پیاری بہن بس ایک اسائنمنٹ بنا دو پھر میں تمہیں جو تم کہو گی لا کر دوں گا۔"
مصطفی زینب کی منت کرتے ہوئے بولا جو اپنی کتابوں میں سر گھسائے بیٹھی تھی۔ آگے ہمیشہ سے ہی اس کے سارے نوٹس ساری اسائنمنٹ عمر ہی بناتا تھا لیکن آج عمر کی کنڈیشن دیکھتے ہوئے مصطفی نے اسے اسائنمنٹ بنانے کو نہیں بولا اور اب وہ زینب کے پاس بیٹھا اس کی منتیں کر رہا تھا۔
"میں بالکل بھی نہیں بنانے والی بھائی۔ میرا صبح ایگزام ہے آپ خود بنائیں جاکر۔ "
وہ صاف انکار کرتی ہوئی بولی تو مصطفی مایوس سا اس کے کمرے سے نکل گیا۔
اپنے کمرے میں واپس جاتے ہوئے اسے لیونگ روم میں ٹی وی دیکھتی بریرہ نظر آئی۔
وہ کچھ سوچتا ہوا اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا
"آ گئی آفس سے؟ کیسا گزرا آج کا دن؟"
اس نے خوشگوار لہجے میں سوال کیا تو بریرہ کو بے انتہا حیرت ہوئی۔ مصطفی سے وہ ایسے سوال اور ایسے لہجے کی توقع کبھی نہیں کرسکتی تھی۔
"ٹھیک گزرا۔"
مختصر سا جواب دے کر وہ دوبارہ ٹی وی میں مصروف ہوگئی
"ویسے بیا تم پہ یہ کلر سوٹ کرتا ہے پہنا کرو۔"
اسے اپنی طرف متوجہ کرتا وہ پھر بولا
"شکریہ"
بریرہ نے پھر ایک لفظی جواب دیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر کوئی اور جواب دے گی تو مصطفی اسے ضرور کھینچ کھانچ کر اسے طنز کا نشانہ بنائے گا جو اس وقت وہ نہیں چاہتی تھی۔
"ایک کام کردو گی میرا۔"
اب وہ اصل بات کی طرف آیا۔
"بالکل نہیں۔"
وہ قطعی انداز میں بولی اب اسے مصطفی کی خوش اخلاقی کی سمجھ آئی تھی۔
"یہ میری اسائنمنٹ آج کی تاریخ میں ہی بنا کر میرے روم میں دے جانا۔"
اس کی طرف پیجز اچھالتا وہ وہاں سے اٹھ گیا۔
"میں کوئی اسائنمنٹ نہیں بنا رہی خود کرو جو کرنا ہے۔"
وہ غصے سے بولی لیکن وہ نظر انداز کرتا آگے بڑھ گیا۔
پہلے تو بریرہ کا دل کیا کہ سارے پیپر پھاڑ دے لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے پیپر اٹھائے اور کمرے میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Where stories live. Discover now