وہ جیسے سن ہوگیا تھا۔ وہ جو توقع کر رہا تھا سب کچھ اس سے الٹ ہوگیا تھا ۔ شاہنواز صاحب نے آج ایک بار پھر سب کے سامنے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا اور وجہ آج بھی بریرہ ہی تھی۔
"تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے شرم آتی ہے مجھے مصطفی۔ میں سمجھا تھا کہ تم واقعی میں اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہو۔ میں سمجھا تھا اب تمہیں واقعی ہی میں اپنی زمہ داریوں کا احساس ہوگیا لیکن میں غلط تھا۔ تم کبھی سدھر ہی نہیں سکتے۔ تم اتنے گھٹیا ہوجاؤ گے میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔"
وہ نہایت غصے سے بول رہے تھے
"کیا بات ہے شاہنواز اس سب میں مصطفی کا کیا قصور ہے؟"
دادا جان ناسمجھی سے بولے۔
بریرہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں جاچکی تھی جبکہ آمنہ بیگم دوبارہ سے باہر آگئیں تھیں۔ اب بریرہ کے علاوہ سب ہی وہاں موجود تھے۔
"ابا جان یہ جو تصویروں آپ سب کو دکھا رہا ہے اور جو باتیں آپ لوگوں کو بتا رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے سراسر الزام لگا رہا ہے یہ میری بریرہ پر۔ "
شاہنواز صاحب ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولے
"یہ جو بریرہ کے ساتھ تصویروں میں لڑکا ہے یہ زین ہے اور میرے دوست کا بیٹا ہے۔ یہ شادی شدہ ہے اور اس کے دو بیٹے بھی ہیں ۔ بریرہ کا اس سے ایسا کوئی تعلق نہیں ہے ان تصاویر میں بریرہ اس کے ساتھ اکیلی نہیں تھی بلکہ باقی سب ساتھ تھے۔ آفیشل لنچ تھا یہ ان کا لیکن تصویر لینے والے نے نہایت مہارت سے صرف انہیں کی تصویر لی ہے اور یہ دوسری مال والی تصویر میں بھی سب ساتھ ہی تھے یہ بھی اس نے جان بوجھ کر ان کی ہی تصویریں لی ہیں بس"
شاہنواز صاحب نہایت غصے سے بولے جبکہ مصطفی غصے سے لب بھینچ کر کھڑا رہا ۔
"بھائی جان بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ بریرہ کبھی بھی میری اجازت کے بغیر کہیں نہیں گئی اور یہاں بھی یہ میری اجازت سے ہی گئی تھی۔
تمہیں میری بیٹی سے شادی نہیں کرنی تھی مصطفی تو صاف منع کر دیتے یوں اس پر بہتان لگا کر یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔"
اب کی بار فاروق صاحب دکھ سے بولے اور وہاں سے چلے گئے۔
سب تاسف سے مصطفی کو دیکھ رہے تھے جو سر جھکائے کھڑا تھا۔
کسی نے ہر بار کی طرح اسے اس بار بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ سب خاموشی سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے جبکہ آمنہ بیگم بریرہ کے پاس آگئیں تھیں اور شاہنواز صاحب فاروق صاحب کے پاس چلے گئے تھے ۔
مصطفی گھر سے باہر نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ بستر پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ آنسوؤں سے اس کا چہرہ تر ہوچکا تھا۔ رو رو کر اس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی رنگ و صورت اس کے لیے اس قدر عذاب بن جائے گی کہ اب اس پر الزام لگنا بھی شروع ہوجائیں گے۔ آج اسے اپنے رنگ سے اپنے چہرے سے بے پناہ نفرت ہورہی تھی ۔ آج جو اس پر بہتان لگا تھا وہ کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی وہ ماں جنہوں نے آج تک اسے اپنی ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا تھا آج اس پر اتنی بے اعتباری دکھا کر اس پر ہاتھ بھی اٹھا دیا تھا۔
وہ ہچکیوں کے ساتھ رونے میں مصروف تھی جب آمنہ بیگم اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
انہیں دیکھتے ہی وہ فوراََ رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔
"سوری بیٹا مجھے پتا نہیں اس وقت کیا ہوگیا تھا جو میں نے تم پر ہاتھ اٹھا دیا۔"
وہ نہایت شرمندگی سے بولیں
"میں کیا اتنی بے اعتبار ہوں امی آپ کے لیے امی کہ آپ نے میری کوئی بھی بات سنے بغیر یقین کر لیا کہ میں کبھی آپ لوگوں کو دھوکا دے سکتی ہوں؟"
وہ روتے ہوئے بولی
"میری جان اس وقت مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ مصطفی باتیں ہی ایسی کر رہا تھا کہ میں مجبور ہوگئی۔ مجھے معاف کردو میرا بچہ۔"
وہ اس کا ہاتھ تھامے بولیں
"امی کیا اس میں میرا قصور ہے کہ اب تک میری شادی نہیں ہورہی؟ بتائیں کیا اس میں میرا قصور ہے کہ میں بد صورت ہوں؟ یہ میرا قصور ہے کیا کہ ہمارے اس معاشرے میں سب خوبصورتی کو ترجیح دیتے ہیں؟ بتائیں امی اب میں اس میں کیا کروں کہ ہر دفعہ لوگ میری شکل و صورت کو تنقید کا نشانہ بنا کر مجھے رد کر جاتے ہیں؟"
دکھ سے کہتیں وہ آخر میں ان کے گلے سے لگ کر رو پڑی۔
"صبر کرو میرا بچہ تم دیکھنا ایک دن تمہیں کتنے بھاگ لگیں گے۔"
وہ ماں تھیں ۔ اسے تسلی دینے کو ان کے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے۔ ان کی اپنی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوچکے تھے۔
"کوئی بھاگ نہیں لگیں گے مجھے امی۔ میں ہوں ہی ایسی کیوں کہ میں خوبصورت نہیں ہوں۔ اب تو مجھ پر بہتان بھی لگنا شروع ہوچکے ہیں بس اسی کی کثر رہ گئی تھی۔
اچھا کرتے تھے پرانے زمانے میں لوگ کہ بیٹیوں کو زمین میں گاڑھ دیتے تھے۔ بعد میں انہیں پل پل مارنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی بار انہیں مار دیا جائے۔"
تلخی سے کہتی وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی جبکہ آمنہ بیگم اسے دکھ سے دیکھتی رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں بہت شرمندہ ہوں فاروق مجھے زرا اندازہ نہیں تھا مصطفی اس حد تک گر جائے گا۔"
شاہنواز صاحب شرمندگی سے بولے
"آپ کو اس سے ایسی کوئی بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی بھائی جان۔ یہ ایک بالکل بے جوڑ رشتہ تھا۔"
وہ دکھ سے بولے
"میں نے سوچا تھا کہ شاید اس سے مصطفی بھی سدھر جائے اور اس سے بڑی خوشی کی بات میرے لیے اور کیا ہوسکتی تھی کہ بریرہ میری بہو بنتی۔"
"میری بچی کہ نصیب تو جانے کیوں سو ہی گئے ہیں۔ اب جو حرکت مصطفی نے کی ہے نجانے کیا گزر رہی ہوگی اس پر پہلے کیا کم لوگوں کی باتیں برداشت کر رہی ہے۔"
وہ پریشانی سے بولے
"انشااللہ اللہ بہتر کرے گا۔ ہماری بیٹی کے نصیب میں ضرور کوئی نہ کوئی اچھا لڑکا ہوگا تم بس دعا کرو۔"
وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولے
"میری تو ہر سانس کے ساتھ اسی کے لیے دعا نکلتی ہے۔ بس اللہ میری بیٹی کہ نصیب اچھے کرے۔"
وہ سنجیدگی سے بولے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"او گدھے مجھے پتا تھا تو لازماً ادھر ہی ہوگا۔ "
عمر مصطفی کو باغ میں بیٹھا دیکھ کر اس کے پاس آ گیا۔
"کہاں مرا ہوا تھا کل سے ؟ کتنی کالز کی تھیں میں نے مگر مجال ہے جو تو نے ایک بار بھی کال ریسیو کی ہو۔"
وہ غصے سے بولے جا رہا تھا جب اس نے مصطفی کے تاثرات نوٹ کیے۔ مصطفی کے ہاتھ میں سگریٹ تھا جس سے وہ ہر تھوڑی دیر بعد کش لگا رہا تھا۔ آنکھیں اس کی بالکل سرخ ہو رہی تھیں۔
"یہ تو نے سگریٹ کب سے پینا شروع کردی ہے ہاں؟ پھینک اسے۔ "
عمر نے اس کے ہاتھ سے سیگریٹ نکال کر پھینک دیا۔
"اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دے عمر۔"
وہ غصے سے بولا
"کیسے اکیلا چھوڑ دوں بتا مجھے کیا ہوا ہے؟"
عمر بھی غصے سے بولا تو مصطفی نے ساری بات اس کے گوش گزار کردی۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اپنی کوئی بھی بات صرف اپنے تک ہی رکھتا اور عمر کو نہ بتاتا۔ جب تک عمر اسے اور وہ عمر کو اپنی تمام باتیں نہیں بتا دیتے تھے تب تک ان دونوں کو ہی چین نہیں آتا تھا۔
"یہ کیا حرکت کردی تم نے مصطفی؟ تو اتنا گھٹیا کیسے ہوسکتا ہے۔"
ساری بات سن کر عمر بے یقینی سے بولا
"میں خود بہت شرمندہ ہوں عمر پتا نہیں یہ مجھ سے کیا ہوگیا۔ مجھے اس وقت زرا خیال نہیں آیا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔"
وہ پریشانی سے بولا
"مصطفی اگر انکل نے رشتے کی بات کر بھی دی تھی تو تم انکار کر دیتے کسی اور طریقے سے لیکن یہ سب۔۔۔
عمر اب بھی بے یقین تھا۔
"پتا نہیں کیا کر دیا ہے میں نے ۔ میں بس ابو کی نظروں میں برا نہیں بننا چاہتا تھا "
مصطفی سر پکڑے بیٹھا تھا۔
"اسی لیے تم نے بریرہ کو سب کی نظروں میں برا بنا دیا؟ معافی مانگو مصطفی سب سے خاص طور پر بریرہ سے۔ کس قدر ہرٹ ہوئی ہوگی وہ تمہاری اس حرکت سے "
عمر غصے سے بولا
"اچھا اب تو تو غصہ نہ کر پہلے کیا کم ناراض ہیں سب مجھ سے۔ "
مصطفی چڑتے ہوئے بولا
"غصہ نہ کروں تو تمغہ امتیاز دوں اس حرکت پہ تجھے؟"
عمر طنز کرتے ہوئے بولا
"آئیڈیا برا نہیں ہے۔"
مصطفی ڈھٹائی سے بولا
"تمغہ امتیاز نہیں تمغہ بے شرمی ملنا چاہیے تجھے میرے یار۔"
"اس اعزاز پر میں آپ کا شکر گزار ہوں جناب عالی۔
مصطفی ہنستے ہوئے بولا
ہنستے ہوئے وہ دونوں کنٹین میں آ کر بیٹھ گئے تو عمر نے کچھ سنجیدگی سے بات شروع کی۔
"دیکھ مصطفی مزاق اپنی جگہ لیکن یہ جو حرکت تو نے کی ہے یہ بہت بہت غلط ہے۔ کسی پر یوں بہتان لگانا گناہ ہے۔ مجھے تم سے زرا توقع نہیں تھی کہ تم کبھی ایسی حرکت بھی کرسکتے ہو۔ بریرہ سے تمہاری چڑ اپنی جگہ لیکن یہ بہت بڑی غلطی کی ہے تم نے۔ وہ تمہاری کزن ہیں تم سے بڑی ہے بلکہ چھوٹی بھی ہوتیں تو ان کی عزت کرنا تمہارا فرض ہے۔ مرد تو عزتوں کے محافظ ہوتے ہیں مصطفی اور تم اس طرح سے ان پر بہتان لگا رہے تھے؟ "
وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
"اچھا میرے استاد مجھے ہوگیا احساس اپنی غلطی کا مانگ لوں گا معافی۔ اب خوش؟"
مصطفی تنگ آتے ہوئے بولا
"تو میرس دوست ہے اور میں چاہتا ہوں تو جنت میں بھی میرے ساتھ ہی چل اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کہیں اکیلا جہنم میں نہ چلا جائیں۔"
عمر مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
"فکر نہ کر جانی میں جہاں بھی جاؤں گا تجھے ساتھ ہی لے کر جاؤں گا۔"
مصطفی مسکراتے ہوئے بولا
یہ بھی دوستی کا ایک تقاضہ ہی ہے کہ جب آپ کا کوئی دوست کسی غلط راہ کو چل پڑے تو بجائے اس سے کنارہ کشی کرنے کے اسے سمجھایا جائے اور ایسے مناسب الفاظ میں سمجھایا جائے کہ اسے اپنی بے عزتی بھی محسوس نہ ہو اور اپنی غلطی کا احساس بھی ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بیا آپی آج آفس نہیں جانا آپ کو؟"
زینب بریرہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی
"میری طبیعت نہیں ٹھیک۔"
بریرہ آنکھوں پر بازو رکھتے ہوئے بولی
"بھائی کی حرکت پر سب بہت شرمندہ ہیں آپی۔ بہت غلط حرکت کی ہے انہوں نے۔ رات بھی وہ دیر سے گھر آئے تھے اور صبح سے بھی انہیں کسی نے نہیں بلایا۔ سب بہت ناراض ہیں ان سے اور بھائی کافی شرمندہ لگ رہے ہیں۔
زینب آہستہ سے بولی
"میں تمہارے بھائی کی کوئی بھی بات نہیں سننا چاہتی۔"
بریرہ تلخی سے بولی
"آپی دیکھیں۔۔۔
آپ کو تو بہت تیز بخار ہے آپی۔"
زینب نے اپنی بات کہنے کے لیے اس کا ہاتھ تھاما تو وہ بے حد تپ رہا تھا۔
"اچھا ہے شاید اسی طرح سے مر جاؤں۔"
وہ بے پروائی سے بولی
"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ آپی۔
امی ۔۔ امی جلدی آئیں دیکھیں بیا آپی کو کتنا تیز بخار ہے۔"
زینب اونچی سے بولی تو سب بریرہ کے کمرے میں جمع ہوگئے۔
"جاؤ زینب مصطفی کو بلا کر لاؤ جلدی سے لے کر جائے اسے ڈاکٹر کے پاس۔ "
دادی جان فوراََ سے بولیں
"میری بیٹی اس کے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔ کال کرو زینب اپنے چچا کو وہ آ کر کے جائیں گے اسے۔ "
آمنہ بیگم غصے سے بولیں
مصطفی جو کہ شور سن کر وہیں پر آ رہا تھا خاموشی سے وہیں سے پلٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ کو بہت تیز بخار چڑھ گیا تھا۔ آج اس واقعے کو تین دن بیت گئے تھے لیکن وہ ابھی بھی بخار میں تپ رہی تھی۔
مصطفی اپنے کیے پر شرمندہ بھی تھا لیکن جب اسے شاہنواز صاحب کے تھپڑ یاد آتے وہ پھر سے غصے میں آ جاتا تھا۔ عمر نے اسے بہت سمجھایا تھا اور اس کے سامنے وہ اس کی بات مان بھی گیا تھا کیونکہ وہ عمر کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔
شاہنواز صاحب کو بھی وہ ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ہر حال میں انہیں خوش رکھنا چاہتا تھا اپنی طرف سے سکون دینا چاہتا تھا لیکن ہر بار ہی کوئی نہ کوئی غلط کام ہوجاتا تھا۔ اس بار بھی اس کا سارا کیا دھرا اسی کہ اوپر آگیا تھا۔ اسے احساس تھا کہ اس کا طریقہ غلط تھا وہ کسی اور طریقے سے بھی اس رشتے سے بچ سکتا تھا لیکن یہ سب کرکہ وہ اب سب کی نظروں میں گر گیا تھا۔ اب دوبارہ سے سب کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اسے بہت کچھ کرنا پڑنا تھا۔ وہ بریرہ سے اپنے کیے کی معافی مانگنا چاہتا تھا لیکن معافی وہ صرف اپنی غلطی کی مانگنا چاہتا تھا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے دل سے بریرہ کے لیے چڑ نکل گئی تھی۔ وہ اس سے بدلا لینے کا ارادہ اب بھی رکھتا تھا لیکن اس سے پہلے اسے سب کو راضی کرنا تھا خاص طور پر شاہنواز صاحب کو جو کہ اس سے بے حد خفا تھے۔
کچھ سوچتے ہوئے وہ بریرہ کے کمرے میں چلا آیا۔
"بیا بات سنو۔"
وہ لیٹی ہوئی تھی جب مصطفی نے اسے آواز دی۔
مصطفی کی آواز پر وہ تیزی سے اٹھی۔
"تم یہاں کیا کرنے آئے ہو ہاں؟ کوئی اور بہتان رہ گیا ہے تو وہ بھی لگا دو مجھ پر۔"
اسے دیکھتے ہی وہ غصے سے بولی
"میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں بریرہ میں واقعی میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا میں نے بہت بڑی غلطی کردی ہے پلیز مجھے معاف کردو۔"
وہ نہایت شرمندگی سے کہہ رہا تھا اور یہ سب وہ دل سے کہہ رہا تھا ۔ اس کے پیچھے تو اس کا کوئی مقصد نہیں چھپا تھا۔
جو اس کی غلطی تھی اس کی معافی وہ مانگ رہا تھا لیکن جو بدلہ اس نے بریرہ سے لینا تھا وہ وہ ضرور لینے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن کسی اور طریقے سے۔
"دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ نہیں سننی مجھے تمہاری کوئی بات۔"
وہ چیختے ہوئے بولی
"تم یہاں کیا کر رہے ہو مصطفی؟"
بریرہ کی آواز سن کر شاہنواز صاحب اس کے کمرے میں آکر گرج دار آواز میں بولے
"ابو میں بریرہ سے معافی مانگنے آیا تھا۔"
وہ شرمندگی سے بولا
"اسے کہہ دیں تایا جان مجھے نہیں سننی اس کی کوئی بات چلا جائے یہ یہاں سے۔ "
بریرہ غصے سے بولی
"تم جاؤ یہاں سے مصطفی۔"
وہ سنجیدگی سے بولے
"لیکن ابو میں شرمندہ ہوں معافی مانگ تو رہا ہوں۔
"جاؤ تم یہاں سے میں بات کرتا ہوں بریرہ سے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔