رات کے کھانے تک وہ اس کی اسائنمنٹ بنا چکی تھی۔
سب ڈائننگ ٹیبل پر کھانے کے لیے موجود تھے جب اچانک شاہنواز صاحب نے مصطفی کو مخاطب کیا۔
"تمہارے لاسٹ سمسٹر کے ایگزامز کب سے شروع ہیں؟"
"ایک ہی ہفتے میں شروع ہونے والے ہیں بس۔"
اس نے تھوک نگلتے ہوئے جواب دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اس کی پکی شامت ہے۔
"تو جناب کتابوں کو بھی ہاتھ لگا لیا کریں گناہ بالکل نہیں ہوتا بلکہ تھوڑا افاقہ ہی ہوجاتا ہے۔"
وہ طنز کرتے ہوئے بولے
"میں پڑھتا ہوں روز ابو۔"
وہ آہستہ سے بولا
"اوہ ہاں مصطفی تم نے جو اسائنمنٹ بنانے کے لیے دی تھی مجھے وہ میں نے لکھ دی ہے ساری۔ کھانے کے بعد مجھ سے لے لینا۔"
بریرہ اچانک سے بولی تو مصطفی بس اسے گھور کر وہ گیا۔ اس کا بس چلتا تو اسے کچا ہی چبا جاتا۔
"کونسی اسائنمنٹ؟ اور تم کیوں لکھ رہی ہوں یہ خود کیوں نہیں کر رہا؟"
شاہنواز صاحب چونکتے ہوئے بولے
"تایا ابا اسے خود لکھنے کی عادت جو نہیں ہے۔ ہمیشہ سے سارے کام زینب سے کرواتا ہے جب وہ نہ کرے تو زبردستی مجھے کرنا پڑتا ہے۔"
وہ مزے سے بولتی چلی گئی جبکہ مصطفی کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔
"مصطفی اپنے کام خود کیا کرو۔ آج تو میں یہ سب سن رہا ہوں دوبارہ ایسا نہ سکوں۔"
وہ سختی سے بولے تو مصطفی لب بھینچ کر رہ گیا۔
"آگے کے کیا ارادے ہیں تمہارے بی بی اے تو کمپلیٹ ہوجائے گا کچھ دنوں تک اس کے بعد کیا یونہی فارغ پھرتے رہنا ہے؟"
کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ دوبارہ بولے
"ایم بی اے میں ایڈمنڈسن لوں گا پھر۔"
وہ سر جھکائے بولا۔ آنکھیں غصے کی شدت سے ابھی بھی سرخ تھیں۔
"جناب اب آفس کی بھی راہ پکڑ لو گھر میں بیٹھ کر بس مفت کی روٹیاں کھانا چھوڑ دو۔ "
وہ سنجیدگی سے کہتے اٹھ کر چلے گئے جبکہ باقی سب بھی کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
سب کو منظر سے غائب ہوتا دیکھ کر مصطفی اپنی نشست سے اٹھا اور اس کے کمرے کی طرف چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی مجھے واپسی پر دیر ہوجائے گی آج۔"
عمر گھر سے نکلتے ہوئے بولا
"پہلے تم کونسا جلدی گھر آتے ہو۔"
وہ ناراضی سے بولیں
"امی ایک نئی ٹیوشن ملی ہے 9 سے 10 تک کی۔ سوچ رہا ہوں وہ بھی جوائن کرلوں۔"
"بیٹا کیوں اپنی جان کو اتنا ہلکان کر رہے ہو پہلے کیا تھوڑی محنت کرتے ہو جو اب مزید بوجھ ڈال رہے ہو اپنے اوپر۔"
وہ پیار سے بولیں
"امی آپ نہ پریشان ہوا کریں بس دعا کیا کریں۔"
وہ مسکراتے ہوئے چلا گیا۔
وہ تب تک اسے متفکر نظروں سے دیکھتیں رہیں جب تک کہ وہ ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیڈ پر بیٹھی لاپ ٹاپ گود میں رکھے کام کر رہی تھی جب اس کہ کمرے کا دروازہ دھڑم سے کھلا۔
"تمہیں تمیز نہیں ہے کہ کسی کے کمرے میں ناک کرکہ آتے ہیں۔"
آنے والا اور کوئی نہیں بلکہ مصطفی تھا جسے دیکھ کر بریرہ ناگواری سے بولی
"تمہیں تمیز نہیں ہے کہ دوسروں کے معاملات سے دور رہتے ہیں۔"
وہ غراتے ہوئے بولا
"کیا بے ہودگی ہے مصطفی دور رہ کر بات کرو "
وہ غصے سے بولیں
"تم خود کو سمجھتی کیا ہو ہاں؟ یہ اکڑ یہ غرور سب کیا ہے؟ شکل دیکھی ہے کبھی شیشے میں اپنی؟ کس بات پر اتنا اکڑتی ہو؟ "
وہ ناجانے کیا بول رہا تھا بریرہ کچھ بھی اندازہ لگانے سے کاثر تھی۔
"کیا بول رہے ہو دماغ تو نہیں خراب ہوگیا تمہارا۔"
وہ نا سمجھی سے بولی
"کیا ضرورت تھی تمہیں ابو کہ سامنے بکواس کرنے کی ہاں؟"
اس نے غصے سے پوچھا
"اوہ تو جناب کو بے عزتی کا دکھ لگ گیا ہے۔"
بریرہ طنز کرتے ہوئے بولی
"اپنی اوقات میں رہو بریرہ۔"
وہ غصے سے بولا
"میں نے کچھ غلط نہیں کیا مصطفی وہ صرف مزاق تھا۔ تم بھی تو اس طرح کے مزاق کر رہی لیتے ہو میں نے کرلیا تو کونسی قیامت آگئی ہے۔"
وہ تحمل سے بولی
"تم میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے اس لیے ہر بار اپنی اوقات مت بھول جایا کرو۔"
وہ انگلی اٹھاتے ہوئے بولا
"تم اوور ریکٹ کر رہے ہو۔"
وہ بھی غصے سے بولی
"میں جو مرضی کروں لیکن تم مجھ سے اور میرے معاملات سے دور رہو۔ "
پھنکارتے ہوئے وہ باہر چلا گیا جبکہ بریرہ حیرانگی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج گھر پہنچتے پہنچتے اسے گیارہ بج چکے تھے۔ گھر آتے ہی وہ ابو سے ملا پھر کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
پرانی سی لکڑی کی میز پر کتابیں پھیلائے وہ کسی اور ہی خیالوں میں گم تھا۔
آج پھر اس نے اسے ایک نظر دیکھا تھا۔ آج پھر وہ اسے ایک نظر کے بعد دوبارہ دیکھنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا۔
وہ آج بھی بس ایک نظر میں ہی اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔
اس وقت بھی وہ اسے یاد کیے مسکرا رہا تھا ۔ اس کا ہلکا سا دیدار عمر کے پورے دن کے لیے ایک نعمت ہوتا تھا۔ تلخیوں بھری زندگی میں اسے وہ لمحہ سکون کا لمحہ محسوس ہوتا جب وہ اسے نظر آتی تھی لیکن وہ لمحہ کبھی بھی ایک سیکنڈ سے زیادہ کا نہ ہوتا کیونکہ وہ ہمیشہ اپنی نظر جھکا لیا کرتا تھا۔
بس پھر اپنی تمام پریشانیاں بھلائے وہ پوری رات اس ایک لمحے میں ہی کھویا رہتا تھا۔
کچھ دیر اسے سوچنے کے بعد اس نے قلم اٹھایا اور اس کا خیال اپنے تصور میں لاکر صفحوں پر قلم سے اپنے جذبات اتارنے لگا۔ وہ جذبات جو وہ اس سے کہنے سے کتراتا تھا وہ جذبات جو وہ خود سے کہنے سے بھی کتراتا تھا وہ بس وہ اسی سنہری جلد والی کتاب میں ہی لکھتا تھا۔
کبھی خُود بھی میرے پاس آ
میری بات سُن
میرا ساتھ دے
جو خلش ہے دل سے نکال کے
مجھے الجھنوں سے نجات دے
تیرا سوچنا میرا مشغلہ
تجھے دیکھنا میری آرزو
مجھے دن دے اپنے خیال کا
مجھے اپنے قُرب کی رات دے
میں اکیلا بھٹکُوں کہاں کہاں
یہ سفر بہت طویل ہے
میری زندگی میرے ساتھ چل
میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے
وہ الفاظ سراسر اس کے جذبات کی اکاسی کررہے تھے۔ انہیں لکھتے ہوئے اس کا دل ہمیشہ کی طرح بہت تیز رفتار سے چل رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ غلط راستے چل پڑا ہے یہ محبت بالکل بھی اسے حاصل نہیں ہو گی اور اس یک طرفہ محبت میں وہ خود اذیت سے دوچار ہوگا مگر لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ خود کو اس سے محبت کرنے سے روک نہیں پاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ ابھی آفس سے واپس آئی ہی تھی کہ مصطفی اس کے پاس آ دھمکا تھا۔ کچھ دن پہلے ہونے والی تلخ کلامی کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے سے مخاطب بھی نہ ہوئے تھے لیکن آج یوں دوبارہ سے مصطفی کا بریرہ کا راستہ روکنا کچھ نیا نہیں تھا کیونکہ یہ ہمیشہ سے ہی ہوتا چلا آرہا تھا۔ وہ ہر بار اس سے بدتمیزی کرکہ دو چار دن موڈ بنا کر پھر خود ہی کوئی کام لے کر دوبارہ آ جاتا تھا۔ آج بھی یہی ہو رہا تھا۔
"بات سنو بیا۔"
وہ اسے بیا تب ہی کہتا تھا جب کوئی کام نکلوانا ہوتا
"فرماؤ۔"
وہ سنجیدگی سے بولیں
"دیکھو میری پیاری کزن مجھ سے ابو کی گاڑی کہیں لگ گئی ہے تو اس پر کچھ ڈینٹ پڑ گئے ہیں تم مجھے تھوڑے سے پیسے تو دے دو۔ گھر میں کسی اور کو بتایا تو وہ فوراً ابو کو اطلاع کردیں گے تم تو میری پیاری کزن ہو نا میری ہیلپ ضرور کرو گی۔"
وہ نہایت عاجزی سے بولا ۔ بریرہ کا دل چاہا کوئی چیز اٹھا کر اس کہ سر میں دے مارے یعنی کے حد ہی ہوگئی جب اس کا دل چاہا بے عزت کر دیا جب دل چاہا پیار سے بات کرکہ اپنا مطلب نکلوا لیا۔
پہلے تو اس کا دل چاہا کہ صاف انکار کردے لیکن پھر یہی سوچتے ہوئے اس نے ہاں کردی کہ جانتی تھی مصطفی کو انکار کرنے کا مطلب ہے اپنی شامت خود بلانا۔ اس سے دشمنی مول لینا نہایت بے وقوفی کی بات تھی کیونکہ وہ مت نئے طریقوں سے اس سے بدلا لینے کی کوشش کرتا اور اس کی تذلیل کرتا۔ اس سے بہتر یہی تھا کہ وہ اسے خاموشی سے پیسے دے کر اپنی جان چھڑاتی۔
"یہ پکڑو اور شکل گم کرو اپنی۔"
اس کے ہاتھ میں چند ہزار ہزار والے نوٹ تھماتے ہوئے وہ ناگواری سے بولی
ہائے بہت شکریہ عمر رسیدہ خاتون۔"
جاتے ہوئے بھی وہ طنز کرنا بلکل نہیں بھولا تھا ۔ بریرہ سر جھٹکتی آگے بڑھ گئ۔
مصطفی پیسے لے کر کسی گانے کی دھن پر سیٹی بجاتا پلٹا ہی تھا کہ ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر پڑا۔
ایک لمحے کو وہ بالکل گنگ رہ گیا۔ گال پر ہاتھ رکھے بے یقین نظروں سے سامنے دیکھا تو مارنے والے اور کوئی نہیں بلکہ شاہنواز صاحب ہی تھے جو اسے خونخوار نظروں سے گھور رہے تھے۔
تھپڑ کی آواز پر بریرہ بھی فوراً سے پلٹی اور شاہنواز صاحب کی طرف بڑھی جو اسے ایک اور تھپڑ مارنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھا چکے تھے۔
"تایا ابا یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟"
اس نے فوراََ سے ان کا ہاتھ پکڑا۔
شور کی آواز سے سب ہی وہاں آگئے تھے۔ مصطفی ابھی بھی اپنی گال پر ہاتھ رکھے بے یقین نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"نہایت ہی بدقسمت باپ ہوں میں جو تم جیسی اولاد کا باپ ہوں۔"
وہ غصے سے بولے
"یہ تربیت کی تھی میں نے تمہاری یہ سکھایا تھا تمہیں کہ تم یوں میری عزت اچھالتے پھرو مجھ سے جھوٹ بولتے رہو؟ تمہارا کبھی دل نہیں دکھتا باپ کو ذلیل کرواتے ہوئے؟ "
وہ شدید اشتعال میں تھے۔
"کیا ہوا ہے شاہنواز کیوں ہاتھ اٹھایا ہے تم نے مصطفی پر؟"
آغا جان آگے بڑھتے ہوئے بولے
"کیونکہ آپ کا یہ گھٹیا پوتا میری گاڑی سے کسی کا اکسیڈنٹ کروا آیا کے اوور سپیڈنگ کی وجہ سے اور وہ شخص ہسپتال میں پڑا ہے اور بجائے مجھے اطلاع دینے کے یہ یہاں بریرہ سے نہایت بے غیرتی سے پیسے مانگ رہا ہے تاکہ مجھے بغیر پتا لگائے گاڑی کی مرمت کروا سکے۔"
وہ سارا قصہ بیان کرتے ہوئے بولے
"پوچھیں اس سے کیا کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں جو یہ ایسی حرکتیں کرکہ مجھے در در ذلیل کروا رہا ہے۔ مجھے اگر بروقت اطلاع نہ ملتی تو پولیس کیس بن جانا تھا۔ "
سب خاموش تھے کسی میں کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ آج سے پہلے ہمیشہ سے ہی ان دونوں کے چھوٹی موٹی باتوں پر اختلافات ہوتے آئے تھے لیکن کبھی بھی شاہنواز صاحب نے اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔
"مصطفی بیٹا تم اپنے کمرے میں چلو۔"
فاروق صاحب نے اسے منظر سے ہٹانا چاہا لیکن اس نے اپنی مٹھی میں دبے پیسے ایک طرف کھڑی بریرہ کے پاس اچھالے اور سرخ چہرہ لیے گھر سے نکلتا چلا گیا۔
اپنے پیچھے اسے سب کی اسے روکنے کے ساتھ ساتھ شاہنواز صاحب کی آوازیں بھی سنائی دے رہیں تھیں۔
"کہہ دو اسے یہ بعض آجائے اپنی حرکتوں سے ورنہ میں اس کا ایسا علاج کروں گا جو یہ برداشت نہیں کر پائے گا۔"
غصے سے کہتے وہ وہاں سے چلے گئے جبکہ مصطفی بھی بغیر کسی سواری کے پیدل ہی گھر سے نکلتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے گھر سے نکلے ایک گھنٹہ گزر گیا تھا اور وہ خود نہیں جانتا تھا کہ وہ پیدل چلتا چلتا کہاں پہنچ گیا ہے۔
جب اسے اپنی ٹانگوں میں درد محسوس ہوا تو وہ قریب ایک باغ میں بینچ پر سر جھکا کر بیٹھ گیا۔
آج پہلی بار شاہنواز صاحب نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اسے ڈانٹتے رہتے لیکن کبھی
بھی اتنے غصے میں نہیں آئے تھے کہ اس پر ہاتھ اٹھایا ہوں لیکن آج معمولی سی بات پر انہوں نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔
کیا وہ اتنا برا تھا؟ کیا وہ اتنا برا بیٹا تھا کہ اس کا باپ اس سے اس قدر پریشان تھا؟
آج پہلی بار مصطفی ٹھنڈے دماغ سے سوچ رہا تھا۔ آج پہلی بار اسے شاہنواز صاحب کی بجائے اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا۔ آخر وہ کیوں یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ وہ اکلوتا تھا اگر سب کا لاڈ پیار اس سے جڑا تھا تو سب کی امیدیں بھی تو اسی سے وابستہ تھیں پھر وہ کیوں آج تک ایسی حرکتیں کرتا آیا تھا جو سب کے لیے پریشانی کا باعث بنتی تھیں۔
سب سے زیادہ شاہنواز صاحب اس کے لیے پریشان رہتے تھے اور وہ سب سے زیادہ انہیں کو تنگ کرتا تھا۔
وہ خود کو ابھی بھی وہی چھوٹا لاڈلہ مصطفی سمجھتا تھا جس کی ہر اچھی بری حرکت سب اگنور کر دیں گے لیکن اب اسے احساس ہورہا تھا نہ اب وہ بڑا ہوچکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس پر کچھ زمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جنہیں اسے پورا کرنا تھا۔
کچھ دیر وہیں بیٹھے رہنے کے بعد وہ ایک نتیجے پر پہنچا تھا کہ اب وہ کوئی اسی حرکت نہیں کرے گا جس سے شاہنواز صاحب پریشان ہوں۔ اب وہ واقعی ہی انہیں ان کا سہارا بن کر دکھائے گا۔ اب وہ انہیں خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گہری ہوتی جا رہی تھی جبکہ مصطفی کا کچھ اتا پتا نہیں تھا اس کا فون بھی بند جا رہا تھا جبکہ اس بار عمر کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔
سب پریشانی سے لان میں موجود تھے جبکہ عمر بھی وہیں پر ان کے ساتھ تھا۔
شاہنواز صاحب اپنے عمل پر پچھتا رہے تھے ٹھیک ہے مصطفی کی غلطی تھی لیکن انہیں اس پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔سب سے زیادہ پریشان بھی وہی تھے۔
کچھ دیر مزید انتظار کہ بعد مین ڈور کھلا اور مصطفی اندر داخل ہوا۔ سب اس کی طرف بڑھے لیکن وہ سب کو نظرانداز کرتا ہوا تیز تیز چلتا ہوا اندر چلا گیا اور اپنے کمرے میں جاکر دروازہ بند کرلیا۔
اسے کچھ وقت چاہیے تھا فیصلہ کرنے میں اپنے فیصلے پر قائم رہنے میں۔ وہ شرمندہ تھا اور اس وقت کسی کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بہت رات ہوگئی ہے شاہنواز آپ اندر آجائیں اب"
شاہنواز صاحب لان میں بیٹھے تھے جب فوزیہ بیگم ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولیں
"میں نے بچپن سے لے کر آج تک اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا فوزیہ پتا نہیں کیوں آج میں اپنی برداشت کھو بیٹھا۔"
وہ دکھی لہجے میں بولے
"شاہنواز آپ کا کوئی قصور نہیں ہے مصطفی کی بھی غلطی تھی۔"
"مصطفی میرا اکلوتا بیٹا ہے میری اس سے بہت امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ میرا سہارا بنے گا۔ لیکن بچپن سے لے کر آج تک وہ مجھے پر مقام پر مایوس کرتا آیا ہے۔ "
"میں بھی یہی سوچتی ہوں۔ پتا نہیں ہماری تربیت میں کیا کمی رہ گئی جو وہ اتنا خود سر ہو گیا ہے۔"
"میں اس کی زندگی کا ایک اہم فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو میرا وہ فیصلہ منظور ہوگا؟"
وہ اچانک سے بولے
"کیسا فیصلہ؟"
وہ چونکی اور پھر شاہنواز صاحب انہیں اپنا فیصلہ سناتے چلے گئے۔
"مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے شاہنواز۔ میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کوئی نہیں ہوگی۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔