اسے گھر سے نکلے تین گھنٹے ہوچکے تھے دادی جان کا پریشانی کے مارے برا حال تھا۔ نائلہ بیگم رو رو کر نڈھال ہوچکیں تھیں جبکہ آمنہ بیگم دعائے مانگ مانگ کر تھک چکیں تھیں۔ بریرہ بھی ابھی ابھی آفس سے واپس آئی تھی اور سب کی پریشان صورتیں دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگئی تھی ۔
فارق صاحب بار بار اس کا نمبر ملا رہے تھے جوکہ مسلسل بند جارہا تھا۔
"بس کرو اس کا نمبر ملانا۔ کہیں نہیں گیا وہ۔ شام سے عمر کے گھر پر موجود ہے۔"
شاہنواز صاحب نے اندر آتے ہوئے اطلاع دی سب کو۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے مصطفی کہ بیسٹ فرینڈ کو کال کی تھی اور ان کی توقع کہ عین مطابق وہ اسی کہ گھر پر موجود تھا۔
"شاہنواز آپ جاکر اسے لے آئیں نا پتا نہیں اس نے اتنی دیر سے کچھ کھایا بھی ہوگا یا نہیں؟"
نائلہ بیگم روتے ہوئے بولیں
"یہ آپ لوگوں کی انہیں فضول باتوں نے اس کا دماغ ساتویں آسمان پر چڑھا رکھا ہے۔ بجائے اسے اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کہ وہ الٹا ہم سے ہی ناراض ہوکر بیٹھا ہے۔ خبردار جو کسی نے گھر سے ایک قدم بھی باہر نکالا اسے بلانے کے لیے یا دوبارہ کسی نے اس کا نمبر ڈائل کیا۔"
غصے سے کہتے آخر میں وہ سب کو تنبہ کرتے وہاں سے نکلتے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آخر تو ہر بار کیوں کرتا ہے ایسا مصطفٰی؟ کیوں اپنے ابو کو اتنا پریشان کرتا ہے؟"
وہ آرام سے بیٹھا فیس بک پر سکرولنگ کررہا تھا جب عمر نے اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔
"میں کچھ غلط نہیں کرتا انہیں ہی بس میے ہر کام سے مسئلہ ہوتا ہے۔ میں جو کروں انہیں برا ہی لگتا ہے ہر بات پر روک ٹوک کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔"
وہ غصے سے بولا
"اسی بات نہیں ہے مصطفی وہ تجھ سے پیار کرتے ہیں اسی لیے تجھے غلط کاموں سے روکتے ہیں۔ وہ یہ سب روک ٹوک تیری بھلائی کہ لیے ہی کرتے ہیں۔"
"وہ مجھ سے بالکل پیار نہیں کرتے انہیں صرف اپنی بیٹیوں اور اپنی بھتیجیوں سے ہی محبت ہے میرا کوئی خیال نہیں ہے انہیں۔"
"تو غلط سوچ رہا ہے یار ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔"
"میں جو بھی سوچ رہا ہوں تجھے اس کے لیے ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر تو نہیں چاہتا کہ میں تیرے گھر اور رکوں تو میں چلا جاتا ہوں یہاں سے۔"
غصے سے کہتا گاڑی کی چابی اٹھاتے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور عمر کہ ہزار روکنے کے باوجود بھی وہاں نہیں رکا اور چلا گیا۔
عمر اور مصطفی دونوں سکول کہ زمانے سے دوست تھے۔ عمر بھی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہی تھا۔ اس لیے مصطفی کو اپنا بھائی سمجھتا تھا اور مصطفی کے لیے بھی عمر کسی بھائی سے کم نہیں تھا ۔ عمر کا تعلق ایک درمیانے طبقے کے خاندان سے تھا۔ اس کہ والد ایک سرکاری ملازم تھے لیکن چند سال پہلے ہی وہ ریٹائر ہوچکے تھے جس کی وجہ سے گھر کا سارا بوجھ عمر کے سر پر آگیا تھا۔ عمر اپنی تعلیم بھی مکمل کررہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر کی کفالت بھی کرتا تھا۔
ان دونوں کہ مزاج میں زمین و آسمان کا فرق تھا مصطفی جتنا جزباتی تھا عمر اتنے ہی ٹھنڈے مزاج کا تھا۔ ہر بار مصطفی کی ہر غلطی کو عمر ہی کور کرتا تھا اور اسے سمجھاتا بھی تھا لیکن مصطفی ہر بار اس سے بھی ناراض ہوجایا کرتا تھا لیکن عمر ہر قیمت پر مصطفی کو منا لیتا تھا۔
وہ دونوں ہی دو قلب ایک جان تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر کہ گھر سے نکلنے کے بعد کچھ دیر تک وہ یونہی بے مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا تھا پھر نو بجے تک گھر میں داخل ہوا۔
اس کی توقع کے عین مطابق سب لیونگ میں بیٹھے اس کا انتظار کررہے تھے۔وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا سب کے گلوں سے سکھ کی سانس خارج ہوئی۔ نائلہ بیگم فوراََ اٹھ کر اسے گلے لگیں ۔
اس کی نظر شاہنواز صاحب پر پڑی جو لاپروائی سے ٹی وی دیکھ رہے تھے پھر سب کو نظر انداز کرتا وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
"جاؤ بریرہ بیٹا کھانا دیر کر آؤ اسے۔ نجانے بچہ کب سے بھوکا ہے۔"
دادی جان بریرہ کو مخاطب کرتی ہوئیں بولیں
"کوئی ضرورت نہیں ہے اس کے لیے کھانا لے کر جانے کی۔ کوئی محنت مزدوری کرکہ نہیں آیا وہ اگر بھوک لگی ہے تو سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے ورنہ بیٹھا رہے بھوکا۔ "
دادی جان کی بات پر شاہنواز صاحب فوراً بولے۔ مصطفی جو کہ ان کے الفاظ سن چکا تھا زور سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکہ اندر چلا گیا ۔
"جاؤ بیا تم سب کے لیے کھانا لگاؤ ٹیبل پر۔"
اب کہ وہ بریرہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے تو وہ خاموشی سے اٹھ کر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانا کھا کر سب اب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ مصطفی نہ ہی نیچے آیا تھا اور نا ہی کسی نے اسے بلانے کی ہمت کی تھی کیونکہ شاہنواز صاحب نے سختی سے کہہ رکھا تھا کہ کوئی بھی اسے بلانے نہیں جائے گا۔
دوسری طرف بھوک کے مارے مصطفی کا برا حال ہورہا لیکن خود سے نیچے جانا اسے اپنی شان کے خلاف لگ رہا تھا۔ وہ کب سے آس لگائے بیٹھا تھا کہ ابھی کوئی اسے بلانے آئے گا لیکن اپنے ابو کی بات وہ بھی سن چکا تھا اور بخوبی جانتا تھا کہ ان کی بات کوئی نہیں ٹال سکتا۔
پہلے اس کہ دل میں خیال آیا کہ بیا کو میسج کرکہ کھانے کا بول دے لیکن پھر یہ بھی اسے اپنی شان کے خلاف لگا اور وہ بھوکا بیٹھا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کہ گیارہ بج رہے تھے بریرہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی آفس کا کوئی کام کر رہی تھی جب اس کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کچھ حیران ہوتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا تو سامنے شاہنواز ہاتھ میں ٹرے لیے کھڑے تھے۔
"خیریت تایا جان آپ اس وقت؟"
وہ حیران ہوتی ہوئی بولی
"ہاں بیٹا یہ کھانا جاکر اس نالائق کو دے آو۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے اس نے شام سے کچھ نہیں کھایا ہوگا۔"
وہ کھانے کی ٹرے اس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بولے تو وہ بس مسکرا کر رہ گئی۔
وہ جانتی تھی تایا جان جتنی محبت مصطفی سے کرتے ہیں اتنی اور کسی سے نہیں کرتے یہ الگ بات ہے کہ وہ کبھی اس پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے لیکن مصطفی کا سب سے زیادہ خیال انہیں ہی ہوتا تھا۔
"ٹھیک ہے تایا جان میں دے آتی ہوں۔"
وہ ٹرے پکڑتے ہوئے جانے لگی تو انہوں نے اسے پھر آواز دی۔
"سنو اسے یہ مت بتانا کہ یہ کھانا میں نے بھیجا ہے۔"
اس کی بات پر اس نے بمشکل اپنا قہقہہ روکا یعنی وہ اس سے پیار بھی کرتے تھے اس کی پرواہ بھی کرتے تھے لیکن اس پر ظاہر بھی نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ نے مصطفی کے کمرے کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔ وہ جانتی تھی وہ کبھی بھی جواب نہیں دے گا اس لیے آہستہ سے دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہو گئی۔
اس کی توقع کے عین مطابق وہ تکیہ میں منہ گھسائے لیٹا ہوا تھا۔ یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا۔
"مصطفی اٹھو۔"
بریرہ نے اسے ایک دو بار آواز دی لیکن وہ نہیں اٹھا۔ اسی لیے اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے تکیہ کھینچا جس سے وہ غصے سے اٹھ بیٹھا۔
"کیا مسئلہ ہے کیوں تنگ کر رہی ہو؟"
وہ بے زاری سے بولا
"چلو اٹھ کر کھانا کھا لو۔"
وہ ٹرے اس کہ سامنے رکھتے ہوئے بولی
"لے جاؤ مجھے کچھ نہیں کھانا۔"
وہ منہ پھیرتے ہوئے بولا حالانکہ بھوک سے جان جارہی تھی۔
"نخرے مت کرو مجھے اچھی طرح سے پتا ہے کتنے بھوکے ہو تم چلو کھاؤ۔"
وہ روب جھاڑتے ہوئے بولی
"بڑی جلدی خیال آگیا ہے سب کو میری بھوک کا۔ بیٹھے رہتے ابھی بھی سب شاہنواز صاحب کے خوف سے نیچے اور رہنے دیتے مجھے بھوکا۔"
کھانا اپنے آگے کرتے ہوئے وہ غصے سے بولا
"یہ کھانا شاہنواز صاحب نے ہی تمہارے لیے بھجوایا ہے اور مجھے منع بھی کیا ہے تمہیں نا بتاؤ ۔ اور ویسے بھی میں پاگل تھوڑی نہ ہوں جو تمہارے لیے کھانا لاتی پھروں مجھے کیا ضرورت پڑی ہے تمہارے بھوک کا خیال کرنے کی۔"
وہ لاپروائی سے بولی
"یہ کھانا ابو نے بھجوایا ہے؟"
ایک لمحے کو اسے ندامت ہوئی
"جی ہاں۔ نہ صرف بھجوایا ہے بلکہ سب کچھ گرم کرکہ پورا ٹرے بھی انہوں نے ہی بنا کر دیا ہے میں تو بس ان کے کہنے پر تمہارے لیے لے کر آئی ہوں۔"
وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی
"دیکھو مصطفی تم کیوں ہر دفعہ تایا ابو کو پریشان کرتے ہو؟ تم اب بڑے ہوگئے ہو بچے نہیں رہے۔ تمہیں چاہیے کہ تم ان کا سہارا بنو بجائے اس کہ کہ تم انہیں پریشان کرو اس عمر میں۔ "
وہ خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا جب وہ اسے سمجھانے لگی
"تمہیں زیادہ میری ماں بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ مانا کہ عمر میں کافی بڑی ہو تم لیکن مجھے مت سمجھایا کرو ہر وقت۔ کھانا دے دیا ہے نا؟ ہوگیا تمہارا کام اب جاؤ۔"
وہ بے رخی سے بولا تو بریرہ پیر پٹختی ہوئی غصے سے وہاں سے چلی گئی اس شخص سے ہمدردی کرنا اس کی سب سے بڑی بے وقوفی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری رات سوچ بچار کرنے کے بعد آخر کار مصطفی کو اپنی غلطی کا احساس ہو ہی گیا تھا اس لیے وہ وقت پر ناشتے کی میز پر موجود تھا۔ شاہنواز صاحب اسے نظرانداز کیے اپنے ناشتے میں مصروف تھے جبکہ باقی سب بھی خاموش تھے۔ کسی نے بھی رات والے واقعے کا ذکر نہیں کیا تھا۔
"میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں ابو!"
وہ ناشتہ ختم کرکہ اٹھ کر جانے والے تھے جب مصطفی کی آواز پر رکیں۔ سب نے حیرت سے مصطفی کی طرف دیکھا جو کہ چہرہ جھکائے بیٹھا تھا۔
"بہت مہربانی تمہاری کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔"
سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ وہاں سے چلے گئے تو مصطفی نے سکھ کی سانس خارج کی اور دادی کے پاس جاکر ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
"نا ستایا کر باپ کو اتنا۔ سہارا بن اسکا اب تو بڑا ہوگیا ہے میرا بیٹا۔"
دادی جان اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں
"دادی جان اب آپ بھی مت شروع ہوجائے گا ۔ بتایا تو ہے شرمندہ ہوں معافی بھی مانگ لی ہے اب اور کیا کروں؟"
وہ بگڑتے ہوئے بولا
"اچھا اچھا چل ناراض مت ہو۔ یونیورسٹی نہیں جانا آج؟"
وہ موضوع بدلتی ہوئی بولیں
"نا دادی جان پوری رات سوچ سوچ کر گزاری ہے نیند بھی پوری نہیں ہوئی اس لیے آج میں بس سکون سے سؤوں گا اور کچھ نہیں۔"
وہ مزے سے کہتا ہوا وہیں ان کی گود میں آنکھیں بند کیے لیٹا رہا تو وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ اس کا کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب کالج سے آتے ہی حسب معمول سو گئی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی کتابیں اٹھاتی لان میں آگئی۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ دوپہر چار بجے کی دھوپ بڑی پرسکون لگ رہی تھی۔ وہ وہیں کتابیں رکھ کر نیچے گھاس پر بیٹھ گئی اور اپنے ٹیسٹ کی تیاری کرنے لگی۔
ابھی اسے بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ باہر بیل بجنے کی آواز آئی۔
"کون مصیبت ہے بھئی زرا جو کوئی سکون سے پڑھنے دے۔"
غصے سے بڑبڑاتے ہوئے وہ دروازے تک گئی اور نہایت ہی غصے سے پوچھا
"کون ہے باہر؟"
انداز پھاڑ کھانے والا تھا
"عمر"
آنے والے کا نام سن کر ایک لمحے کو وہ گڑبڑا گئی اور اسے اپنے لہجے کا احساس ہوا۔
دروازہ کھولتے ہی فوراََ سے عمر کو سلام کیا
"کیا حال چال ہے عمر بھائی بڑے دنوں بعد آئے ہیں؟"
اپنے پہلے والے لہجے کا اثر ذائل کرنے کے لیے وہ خوشگواریت سے بولی
"میں ٹھیک ہوں بس مصروف ہوتا ہوں آپ کیسی ہو؟"
عمر نے حسب معمول سر جھکائے دھیمے لہجے میں کہا۔
زینب نے یہ بات بہت دفعہ نوٹ کی تھی کہ وہ جب بھی اس سے مخاطب ہوتا کبھی نظریں نہیں اٹھاتا تھا۔ اس کی نظریں ہمیشہ ہی جھکی ہوتیں تھیں۔
"آنٹی انکل کی طبیعت کیسی ہے؟ اور آپ آجائیں اندر باہر کیوں کھڑے ہیں۔"
وہ کہتے ہوئے سائڈ پر ہوگئی اور اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔
"سب ٹھیک ہیں اللہ کا شکر ہے۔ آپ پلیز مصطفی کو بلا دیں۔"
وہ سنجیدگی سے بولا
"بھائی گدھے گھوڑے سب بیچ کر سو رہے ہیں آپ خود ہی انہیں جاکر جگا دیں۔"
وہ اطلاع دیتے ہوئے بولی تو عمر سر ہلاتے ہوئے اندر چلا گیا۔ ان کے لیے یہ نئی بات نہیں تھی ان دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بہت معمول تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغیر دروازہ ناک کیے عمر سیدھا مصطفی کے کمرے میں چلا گیا تھا۔ سامنے ہی مصطفی بیڈ پر آڑا ترچھا لیٹا دنیا و جہان سے بے خبر سو رہا تھا۔ عمر کہ چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ در آئی تھی۔ اسے اپنا یہ دھوپ چھاؤں جیسا دوست اپنے دل کے بہت قریب لگتا تھا۔ وہ جانتا تھا مصطفی زبان کا جتنا تیز ہے دل سے اتنا ہی صاف و شفاف ہے۔
"اٹھ جا ہڈ حرام آدمی۔"
عمر اس کے اوپر سے کمبل کھینچتے ہوئے بولا
"کیا مصیبت ہے یار سونے دو نا۔"
وہ بے زاری سے بولا
"اٹھ جا مصطفی دیکھ میں ٹیوشن چھوڑ کر تجھ سے ملنے آیا ہوں۔ نا تو یونیورسٹی آیا ہے آج نہ صبح سے میری کال ریسیو کر رہا ہے اور رات بھی تو ناراض ہوکر چلا گیا تھا تجھے پتا بھی ہے مجھے کتنی پریشانی ہورہی تھی۔"
وہ بغیر رکے بولتا چلا گیا۔
"بس کر بھائی بس کر بریک پر پیر رکھ۔"
مصطفی آنکھیں ملتا ہوا بولا
"رات کو میں تیرے لیکچر سے بچنے کے لیے نکل آیا تھا اور پھر داری رات سویا نہیں تھا اس کیے یونیورسٹی نہیں آیا اور پھر اب نیند پوری کررہا تھا اس کیے تیری کال کا پتا ہی نہیں چلا۔ اب بتا اور کوئی وضاحت باقی تو نہیں رہ گئی؟"
"حد ہوتی ہے ویسے مصطفی ایک میسج ہی کردیتے مجھے تم بلاوجہ ہی پریشان ہورہا تھا میں۔"
عمر ناراضگی سے بولا
"چل پریشان مت ہو یہ بتا تو اس وقت آ کیسے گیا ہے؟ اس وقت تو تجھے ٹیوشن میں ہونا چاہیے تھا۔"
مصطفی موبائل پر ٹائم دیکھتا ہوا بولا
"تیری وجہ سے آج ٹیوشن بھی نہیں گیا میں۔ بلاوجہ میں اب پیسے کٹ جائیں گے تنخواہ سے۔"
عمر منہ بناتے ہوئے بولا
"کیا ضرورت تھی عمر تمہیں بلاوجہ چھٹی کرنے کی؟ میں مر تھوڑی گیا تھا جو تو چھٹی کرکہ بیٹھ گیا "
مصطفی غصے سے بولا
"بکواس بند کر اور یہ مرنے مرانے والی باتیں مت کیا کر ہزار دفعہ منا کیا ہے۔"
عمر بھی غصے سے بولا تو مصطفی نے بات بدل دی۔
"اور بتا انکل کی طبیعت کیسی ہے اب؟ ٹیسٹ کب ہونے ہیں ان کے؟"
عمر کے والد کو ہیپاٹائٹس تھا اور آج کل ان کا علاج چل رہا تھا۔
"ٹھیک ہیں یار بس اسی ہفتے میں انشاءاللہ ٹیسٹ ہوجائیں گے بس مجھے تنخواہ مل جائے۔"
"عمر تو تنخواہ کا انتظار مت کر میں ہزار دفعہ کہہ چکا ہوں تو مجھ سے پیسے لے لے میں بھی تو انکل کا بیٹا ہی ہوں۔"
مصطفی آہستگی سے بولا
"میں تجھ سے اپنے دکھ اس لیے شئیر نہیں کرتا کہ تو مجھ سے ہمدردی کرنا شروع ہوجائے۔"
عمر برا مناتے ہوئے بولا
"تو مجھے اپنا بھائی سمجھتا ہی نہیں ہے۔"
مصطفی ناراض ہوتے ہوئے بولا
"تو ہی تو میرا بھائی ہے یار میری جان ہے۔ تبھی تو اپنے دل کا سارا حال تجھی سے بیان کرتا ہوں لیکن مصطفی میں تجھ سے پیسے نہیں لے سکتا۔ میں نے تجھ سے دوستی اپنے کسی غرض کے لیے نہیں کی تھی ۔ امی ابو میری زمہ داری ہیں اور میں اپنی زمہ داری نبھانے کی پوری کوشش کررہا ہوں۔ تو میرے لیے پریشان مت ہوا کر بس دعا کیا کرے۔"
عمر سنجیدگی سے بولا
"اچھا چل اٹھ تجھے اچھی سی چائے پلاتا ہوں۔"
مصطفی اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولا تو وہ دونوں اٹھ کر باہر چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔