Episode 15

1.6K 126 1
                                    


ان کی شادی کو دو ہفتے ہوچکے تھے اور یہ دو ہفتے انہوں نے دعوتوں میں مصروف گزارے تھے۔ مصطفی اپنی یونیورسٹی دوبارہ جوائن کرچکا تھا۔ چونکہ اس کہ فائنل امتحان قریب تھے اسی وہ اس وقت بیڈ پر بیٹھا پڑھنے میں مصروف تھا۔ رات دس بجے کا ٹائم تھا۔ بریرہ صوفے پر بیٹھی کوئی ناول پڑھ رہی تھی۔۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ اس خاموشی کو بریرہ کی آواز نے توڑا۔
"میں سوچ رہی ہوں آفس دوبارہ جوائن کر لوں۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔ اس کی بات پر مصطفی نے نوٹس سے سر اٹھا کر اسے دیکھا
"دماغ تو نہیں خراب ہوگیا تمہارا؟ "
وہ غصے سے بولا
"اس میں دماغ خراب ہونے والی کیا بات ہے۔۔ مں دوبارہ جاب شروع کرنا چاہتی ہو۔ "
"میں نے تم سے شادی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آئندہ تم جاب کا نام نہیں لو گی تو اب کیوں بلاوجہ سر کھپا رہی ہو۔ "
"تم تو کچھ کر نہیں رہے تو مجھے ہی جاب کرنے دو۔ آخر کو اب میری شادی ہوگئی ہے اب اچھا تو نہیں لگے گا کہ میں اپنی ضروریات کے لیے ابا سے پیسے مانگوں۔۔ اور تم تو اس قابل ہو نہیں کہ ہمارا خرچہ اٹھا سکو تو مجھے ہی کچھ کرنا پڑیگا۔ "
وہ اپنی طرف سے بھر پور سنجیدگی سے بول رہی تھی جب مصطفی غصے سے بیڈ سے اٹھا اور اس کا بازو پکڑ کر اسے بھی صوفے سے اٹھایا۔
"تم خود کو سمجھتی کیا ہو ہاں؟ "
وہ اس کا بازو دبوچے غصے سے کہہ رہا تھا۔
"اس میں سمجھنے سمجھانے والی کیا بات ہے میں نے تو وہی کہا ہے جو سچ ہے۔ "
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔ تیر بالکل نشانے پر لگا تھا۔
"تم سمجھتی ہو کہ تم بہت مہان ہو اور میں کچھ نہیں کرسکتا؟ دماغ میں بٹھا لو اپنے یہ بات کہ تم تو صرف پچس تیس ہزار لی نوکری کرسکتی ہو لیکن میرے باپ کا کڑوڑوں کا بزنس ہے جس کا میں اکلوتہ وارث ہوں۔ "
وہ اچھی طرح سے اس کی طبیعت صاف کر رہا تھا۔
"میں کیا کروں اس کڑوڑوں کہ بزنس کا جب میں کسی کو یہ بتانے کے قابل نہیں ہوں کہ میرا شوہر کام کیا کرتا ہے۔ کوئی پوچھے تو یہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ گھر میں بیٹھ کر اپنے باپ کے پیسوں پر ایش کرتا ہے۔ "
وہ مزید بول کر اسے طیش دلا گئی۔
"اپنی بکواس بند کرو بریرہ ورنہ منہ توڑ دوں گا تمہارا۔ "
وہ نہایت غصے سے دھاڑا تھا کہ ایک لمحے کو بریرہ بھی دہل گئی تھی۔
"سچ بات سننے کی سکت ہی نہیں ہے تم میں۔ "
وہ اپنے لہجے کو نڈر بناتی ہوئی بولی
"مجھ سے تمیز سے بات کیا کرو۔۔۔ شوہر ہوں تمہارا کوئی مزاق نہیں۔ آج تو برداشت کررہا ہوں آئندہ اس لہجے میں بات کی تو ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گا تمہیں فارغ کرنے میں۔ "
اس کی بازو دوبارہ سے دبوچتے ہوئے وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولا
"میں بھی بیوی ہوں تمہاری کوئی مزاق نہیں۔ جب رشتہ بنایا ہے تو اسے نبھاؤ بھی۔۔ زمہ داری لی ہے تو پھر بوجھ بھی اٹھاؤ۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی تو وہ اسے جھٹکا دے کر غصے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریرہ کی باتیں ہتھوڑے کی طرح اس کہ دماغ میں بج رہی تھیں۔۔ لیکن کہہ تو وہ ٹھیک رہی تھی زبردستی ہی سہی لیکن وہ اب اس کی زمہ داری بن چکی تھی اور اس کی ضروریات کا خیال اسے ہی رکھنا تھا۔ بے شک اس کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن اب وہ شادی شدہ ہوچکا تھا اور اسکی زمہ داریاں بڑھ گئیں تھیں جنکا اب تک اسے احساس ہوجانا چاہیے تھا۔
بلاشبہ بریرہ نے اسے ایک نئے طرز پر سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ گھر میں تو بریرہ کی باتیں اسے طیش دلا گئیں تھیں لیکن اب جب وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ رہا تھا تو سب بالکل ٹھیک لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر بعد گھر واپس آیا تو رات گہری ہوچکی تھی۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو مکمل اندھیرا تھا۔ اندر آتے ہوئے اس نے نائٹ بلب جلایا تو سامنے اس کی نظر بریرہ پر پڑی جو بیڈ پر آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹی ہوئی تھی۔
مصطفی کو اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے۔
"بریرہ۔۔۔ "
وہ آہستگی سے بولا
"کیا ہے۔۔ ؟ "
وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولی
"سوری مجھے اتنی بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی تم سے۔ "
وہ اپنی جگہ پر لیٹتے ہوئے بولا
"تم نے کونسا پہلی دفعہ بدتمیزی کی ہے ہر بار کا یہی کام ہے۔ "
وہ لاپرواہی سے بولی
"تم بھی تو ہر بار مجھے غصہ دلاتی ہو۔۔۔ احساس ہی نہیں ہوتا تمہیں کہ میں تمہارا شوہر ہوں۔۔ تم وہی پہلے والا کزن سمجھ کر ہی مجھ سے بحث کرتی رہتی ہو۔ "
وہ بھی جتاتے ہوئے بولا
"تو تم نے کب مجھے بیوی سمجھا ہے؟ بلکہ شادی کہ بعد سے تو تم پہلے سے زیادہ بدتر رویہ اختیار کر رہے ہو۔۔ پہلے تو کچھ بولتے ہوئے پھر لحاظ کر لیتے تھے لیکن اب تو تمہیں کسی بات کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ تو تمہیں بہت محسوس ہوتا ہے کہ میں تم سے بدتمیزی کرتی ہوں یہ احساس نہیں ہوتا کہ تمہارے الفاظ میرے دل پر کیا اثر کرتے ہیں؟ "
وہ بھی جواباً غصے سے بولی
"اچھا چلو بس کرو اب سوری کردیا ہے زیادہ لیکچر نا دو۔ "
مصطفی کی بات پر بریرہ نے غصے سے گھور کر اسے دیکھا
"ہاں تم تو ہو ہی ڈھیٹ۔۔۔ میری کسی بات کا اثر تھوڑی نا ہوگا۔ "
"اب تم پھر بدتمیزی کر رہی ہو۔۔۔ میں پھر کچھ کہوں گا تو تمہیں اپنی شان میں گستاخی لگے گی۔
وہ بھی اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا تو وہ غصے سے دوسری طرف کروٹ لے کر سو گئی۔ مصطفی سے بحث کرنے کا مطلب دیوار میں سر مارنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن شام کے چھ بج چکے تھے لیکن مصطفی ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔ بریرہ کافی دیر سے اس کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ پہلے تو وہ ایک دو بجے تک گھر آ جایا کرتا تھا۔ پہلے تو بریرہ نے سوچا اسے کال کرکہ پوچھ لے لیکن پھر یہی سوچ کر اپنا خیال جھٹک دیا کہ بیٹھا ہوگا اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ۔
ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ مصطفی کی گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔
وہ فوراََ کمرے میں چلی گئی۔۔
مصطفی کمرے میں داخل ہوا تو وہ الماری ٹھیک کرنے میں  مصروف تھی۔ کل رات والی تلخ کلامی کے بعد وہ اسے اگنور کر رہی تھی۔ اس کا دل تو بہت چاہ رہا تھا کہ پوچھے مصطفی سے کہ وہ کہاں تھا صبح سے لیکن پھر ناراضگی کے باعث خاموش ہوگئی۔
"ایک کپ چائے بنا دو۔ "
وہ بیڈ پر بیٹھتا اپنا ماتھا مسلتے ہوئے بولا
"میں مصروف ہوں۔۔۔ نوری سے کہہ دو۔ "
وہ ہنوز اپنے کام میں مصروف اسے ملازمہ کا مشورہ دیتی ہوئی بولی۔
"شادی بھی پھر میں نوری سے ہی کر لیتا۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولا
"آئیڈیا اچھا ہے تمہیں پہلے خیال کیوں نہیں آیا؟ "
"بریرہ دماغ نا چاٹو اس وقت بہت تھکا ہوا ہوں میں پہلے ہی۔ "
وہ آنکھیں موندتے ہوئے بولا
"تو کہاں آوارہ گردی کر رہے تھے صبح سے؟ "
بریرہ مشکوک نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی
"آوارہ گردی نہیں کر رہا یونیورسٹی کے بعد آفس چلا گیا تھا اور اب وہیں جایا کروں گا۔ "
وہ اسے نئی اطلاع دیتے ہوئے بولا تو بریرہ آنکھوں میں حیرت لیے کئی لمحے اسے گھورتی رہی۔
"اب شکل کیا دیکھ رہی ہو جاؤ بھی۔۔ "
وہ اسے وہیں کھڑا دیکھ کر اکتاتے ہوئے بولا تو وہ بغیر کچھ بولے وہاں سے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ چائے بنا کر واپس آئی تو مصطفی اب بھی آنکھیں موندے لیٹا تھا۔
"ایک دن ہوا نہیں تمہیں کام پر جاتے ہوئے اور ڈرامے ایسے کر رہے ہو جیسے سارا آفس تمہارے سر پر ہی تو چل رہا ہے ۔۔ "
وہ اسے لیٹا دیکھ کر بولی۔۔۔ اگر وہ اسے طنز کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا تو وہ بھی اب اسے جلی کٹی سنانے کی عادی ہوگئی تھی۔
"تمہیں اپنی بے عزتی کروانے کی عادت سی نہیں ہو گئی ہے؟ "
مصطفی آنکھیں کھولتا ہوا بولا
"زیادہ زبان نہ چلاؤ چائے اوپر گرا دوں گی۔ "
"تم اتنی بدتمیز کیوں ہوتی جارہی ہو؟ پہلے تو کبھی میری باتوں کا جواب بھی نہیں دیتی تھی اب پورا پورا مقابلہ کرتی ہو۔"
وہ چائے کے گھونٹ بھرتا سنجیدگی سے بولا
"پہلے صرف کزن تھی نا تو تمہاری صحبت کا اثر کچھ کم تھا اب بیوی بن گئی ہوں تو بالکل تمہارے جیسی عادات ہوتی جارہی ہیں میری۔ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی
"کاش عادات کے ساتھ ساتھ شکل و صورت بھی میرے جیسی ہوسکتی۔۔۔ "
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا جبکہ بریرہ کی آنکھوں میں فوراََ سے نمی اتری۔ جسے چھپاتے ہوئے وہ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی لیکن مصطفی نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے دوبارہ بٹھائے بولا
"اچھا یار مذاق کر رہا تھا۔۔ "
"یہ مذاق نہیں بے عزتی ہوتی ہے۔ "
وہ بمشکل آنسو روکتی ہوئی بولی
"اتنی میں کرتا نہیں ہوں۔۔۔ تم بس زیادہ فیل کر لیتی ہو۔۔ "
وہ پھر مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تو بریرہ کے رکے ہوئے آنسو بحال ہوگئے۔ یہ پہلی بار تھا جو وہ شادی کہ بعد اس کے سامنے رو پڑی تھی۔
"اوہ یار رونا تو بند کرو۔۔ میری باتوں کو دل پر کیوں لے جاتی ہو۔۔ "
وہ اس کہ آنسو دیکھ کر بوکھلاتے ہوئے بولا لیکن اس کہ آنسوؤں میں کوئی کمی نا آئی۔
"اچھا یار بس کرو میں ویسے ہی تنگ کر رہا تھا تمہیں۔ "
"تم ہمیشہ ایسے کرتے ہو۔۔ کبھی کسی کا احساس نہیں ہوتا تمہیں اپنے آگے اور کوئی نظر نہیں آتا تمہیں۔ کبھی تم نے سوچا ہے تمہارے نزدیک جو باتیں فقط مزاق ہیں وہ کسی اور کہ دل پر کیا اثر کرتی ہوں گی؟ لیکن نہیں تم کیوں سوچو گے کسی کے بارے میں تم اپنی زات سے باہر نکلو تو تب کوئی نظر آئے نا تمہیں۔ شاید میری ہی بد قسمتی تھی جو میری قسمت میں تم جیسا بے حس انسان لکھا تھا جسے اپنے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔۔ "
وہ آنسوؤں کے درمیان بولی۔۔ شادی سے لے کر اب تک جتنا بھی غبار تھا وہ سب نکال رہی تھی وہ۔
"اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔ اتنا بھی برا نہیں ہوں میں دیکھو آفس تمہارے لیے ہی جانا شروع کیا ہے ورنہ مجھے تو بالکل شوق نہیں۔ "
وہ منہ بناتے ہوئے بولا
"میری وجہ سے نہیں اپنی انا کی وجہ سے جانا شروع کیا ہے تم نے۔ چونکہ تمہاری انا یہ بات گوارہ نہیں کرتی کہ تمہاری بیوی گھر سے باہر نکلے اس لیے تم نے آفس جانا شروع کیا ہے۔ اور اگر میں تمہیں کل احساس نا دلاتی تو تمہیں خود بھی کبھی خیال نہیں آنا تھا۔ "
اس کہ آنسو اب بھی بہہ رہے تھے۔
"اچھا تم رونا تو بند کرو۔۔ "
اس کی سوئی ابھی بھی اس کہ آنسوؤں میں ہی اٹکی تھی۔ بریرہ کے آنسو اس سے برداشت نہیں ہورہے تھے۔ آج سے پہلے اس نے کبھی اسے یوں آنسو بہاتے نہیں دیکھا تھا اب اس کہ آنسو سیدھا مصطفی کے دل پر اثر کر رہے تھے اس لیے وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہورہا تھا۔
"تمہیں کیا فرق پڑتا ہے میرے رونے سے؟ "
وہ غصے سے کہتی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے سے باہر جانے لگی۔
"اب جا کہاں رہی ہو؟ "
اسے باہر جاتا دیکھ کر بولا
"جہنم میں جا رہی ہوں۔ آجاؤ تم بھی۔ "
کڑھ کر کہتی وہ باہر چلی گئی جبکہ وہ حیران پریشان سا وہیں کھڑا رہ گیا۔
"عجیب۔۔ "
بریرہ کے رویے کو دیکھ کر فلحال وہ یہیں کہہ سکتا تھا۔ آج سے پہلے وہ بریرہ پر زیادہ بڑے طنز کرتا آیا تھا لیکن وہ کبھی بھی ایسا ردعمل نہیں دیتی تھی لیکن پچھلے کچھ دنوں سے وہ بہت چڑچڑی ہورہی تھی۔ ۔۔ مصطفی کے چھوٹے سے طنز کا بھی برا منا جایا کرتی تھی۔۔
وہ سر جھٹکتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا تو گھر میں خاموشی تھی سب اپنے اپنے کمروں میں تھے وہ بریرہ کو ڈھونڈتا ہوا آگے جارہا تھا جب اسے زینب کی آواز آئی۔
"بھائی جان آپ کو دادا جان بلا رہے ہیں اور نہایت غصے میں بھی ہیں۔ "
وہ اسے اطلاع دیتی ہوئی چلی گئی جبکہ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"لو جی اب میں نے ایسا کیا کردیا کہ آج ابا کہ دربار میں حاضری لگی ہے۔ "
وہ سوچتا ہوا ان کہ کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جیسے دادا جان کہ کمرے میں داخل ہوا وہاں بریرہ کو دیکھ کر ٹھٹکا جس کا چہرہ رونے کے باعث سرخ ہورہا تھا۔ اس کہ سامنے صوفے پر بیٹھے شاہنواز صاحب کو دیکھ کر اسے مزید پریشانی لاحق ہوئی ۔۔۔ چودہ طبق تو اس کہ تب روشن ہوئے جب چچا جان کی موجودگی کا بھی احساس ہوا۔
"اندر بھی آجاؤ صاحب زادے اب باہر کھڑے ہی سب کو گھورتے رہو گے؟ "
دادا جان اسے ہونکوں کی طرح کھڑا دیکھ کر بولے
"آپ نے بلایا تھا ابا؟ "
دادا جان کہ انداز پر اسے خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی۔
"بیٹھو ۔ "
دادا جان سنجیدگی سے بولے تو وہ ایک نظر بریرہ کو دیکھتا ہوا جو سر جھکائے بیٹھی تھی اس کہ سامنے والے صوفے پر جاکر بیٹھ گیا۔
"تم نے بریرہ سے شادی کیوں کی تھی مصطفی؟ "
دادا جان نے سنجیدگی سے پوچھا
"یہ کیسا سوال ہے ابا۔۔۔ "
وہ حیرانی سے بولا
"تم صرف جواب دو۔ "
"پتا نہیں شاید اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا تھا۔ "
وہ آہستگی سے بولا
"غلطی کا ازالہ کرنا چاہتے تھے یا مزید غلطیاں دہرانا چاہتے تھے؟ "
اب کہ چچا جان بولے
"میں سمجھا نہیں چچا جان۔ "
وہ نا سمجھی سے بولا
"ہم نے بریرہ کی شادی تم سے اس لیے تو نہیں کی تھی کہ تم ہر لمحہ اسے طعنے دیتے رہو۔ "
چچا جان غصے سے بولے
"ایسی بات نہیں۔۔۔۔۔ "
اس نے اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے چچا جان اس کی بات کاٹتے ہوئے تیش سے بولے
"مجھے تم پر مان تھا مصطفی۔۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی جو تم نے حرکت کی میں نے اپنی بچی تمہارے حوالے کی لیکن تم نے زرا سا بھی میرا مان نہیں رکھا؟ مجھے پتا ہوتا کہ تم اس کہ ساتھ یہ سب کرو گے تو میں کبھی اسے تمہارے حوالے نا کرتا۔ "
وہ غصے سے کہہ رہے تھے۔
"مجھے شرم آتی ہے مصطفی تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے ۔۔۔۔ کہیں تو میری عزت رکھ لیا کرو مصطفی۔ "
شاہنواز صاحب ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہتے وہاں سے باہر چلے گئے۔
"بریرہ تم جاؤ اپنے کمرے میں اور تم تب تک واپس نہیں آؤگی جب تک اسے اپنی غلطی کا واقعی احساس نہ ہوجائے۔ "
چچا جان غصے سے کہتے وہاں سے چلے گئے جبکہ بریرہ بھی ان کہ پیچھے چل دی۔
"ابا میں نے اسے کچھ بھی نہیں کہا پتا نہیں وہ آپ سب سے کیا کہتی رہی ہے۔ "
مصطفی دادا جان کو اپنی صفائی پیش کرتا ہوا بولا
"اس نے ہم سے کچھ بھی نہیں کہا مصطفی۔۔ میں نے خود دیکھا ہے وہ روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل رہی تھی اور میرے بہت بار پوچھنے پر بتایا ہے اس نے۔ "
وہ سنجیدگی سے بولے تو مصطفی نے ان کی طرف بیچارگی سے دیکھا۔
"میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گا۔ جو بھی کیا ہے تم نے اب خود ٹھیک کرو سب۔ "
اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولے تو وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora