قسط ٢

1K 97 99
                                    

انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 2####

"مومی مومی!" آواز کی پکار بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
اسے یوں لگا کہ دانی اسے پکار رہا ہے، مگر دانی اسے کہیں نظر نہیں آیا تھا۔
"مومی میری طرف دیکھو!" آواز آئی تھی۔
اسکے پورے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی۔
"ک.... ککک...... ککو... ککون؟" اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
"مومی مجھے نہیں پہچانتی؟"
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ آواز کہاں سے آرہی تھی،
"نہیں!" اسنے ہمت کر کے کہا تو کمرے میں قہقہہ گونجا تھا۔
" میں تمہارے خاندان کی بربادی ہوں مومی بچے!" آواز اب کی بار کھڑکی کی طرف سے آئی تھی۔
مومی نے مڑ کر کھڑکی کی طرف دیکھا تو وہ اچھل کر رہ گئی تھی ڈر کے مارے اسکی زبان سے کچھ بھی نہیں نکل رہا تھا۔
" مومی مجھ سے کیوں ڈر رہی ہو؟" اس درندہ صفت یوسفزئی خاندان کے وفادار نے اس سے پوچھا تو وہ جو تھر تھر کانپ رہی تھی پیچھے ہٹنے لگی۔
وہ شخص آگے بڑھا تھا اور اسے پکڑ کر بجلی کی تار سے اسے جھٹکے دینے لگا جس پر اس معصوم کی چیخیں اس خون آشام حویلی میں گونج رہیں تھیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"امی امی کہاں ہیں آپ؟" مہمل کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی۔
"کیا ہو گیا ہے مہمل کیوں شور کر رہی ہو؟" رقیہ بیگم باہر آتی ہوئی بولیں۔
"امی مجھے  جناح میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا!" مہمل نے مسکراہٹ کے ساتھ بتایا،
"لیکن تم تو کنگ ایڈورڈ میں جانا چاہتی تھی۔" رقیہ بیگم نے اس سے پوچھا تو وہ نظریں چرا کر بولی۔ "نہیں امی مجھے وہاں نہیں جانا۔"
" آخر مسئلہ کیا ہے بچے وہاں فیس بھی تھوڑی ہے اور وہ بہترین کالج ہے تمہارا میرٹ بھی بن چکا ہے۔ تو اب یہ کیا پاگل پن ہے؟تم جانتی ہو میں بوڑھی تمہاری اس کالج میں پڑھائ کا خرچہ نہیں اٹھا سکتی۔" رقیہ بیگم نے اس سے پوچھا۔
"بس امی لاہور اتنے دور نہیں جانا یہاں رہوں گی آپ کے پاس بابا کے پاس اور خرچے کی فکر نہ کریں یہاں بہت سے لوگ اچھے طلباء کی مدد کرتے ہیں۔" مہمل نے منہ پھیر کر کہا۔
" ادھر دیکھو مہمل جب تم اپنے خرچے پر کنگ ایڈورڈ میں  پڑھ سکتی ہو تو خیرات کے پیسوں سے کیوں پڑھنا چاہتی ہو۔" رقیہ بیگم نے کڑے تیوروں سے اس سے سوال کیا تھا۔
"امی ایسا کچھ نہیں ہوتا خیرات نہیں ہوتی لوگ مدد کرتے ہیں اچھے طلباء کی انکی صلاحیتوں کی بنا پر اور جب وہ طلباء کہیں پہنچ جاتے ہیں تو وہی طلباء ان سے لی گئی رقم انھیں لوٹا دیتے ہیں۔" مہمل انکے سامنے نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھتی ہوئی بولی۔
"کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ یہ فیصلہ کیوں کیا ہے تم نے؟" رقیہ بیگم اسکی ماں تھیں جانتی تھیں کہ کچھ تو دال میں کالا ہے ۔
" امی یوسفزئی خاندان کے لاڈلے عمیر یوسفزئی کا داخلہ جناح میڈیکل کالج میں ہوا ہے۔" مہمل نے کہا تو رقیہ بیگم اپنی جگہ سن ہو گئی تھیں۔
مہمل سے انھیں کبھی کبھی بہت خوف آتا تھا وہ اتنی سر کش کیوں تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھیں۔
"مہمل تم یوسفزئی خاندان کی خبر کیسے رکھتی ہو؟" رقیہ بیگم نے اب کی بار اونچی آواز سے پوچھا تھا اور شاید زندگی میں پہلی بار وہ اس پر غصہ ہو رہیں تھیں۔
"امی میں وہی کروں گی جو میرے انتقام کی تکمیل کا ذریعہ ہوگا۔" مہمل ٹھ کر اندر جانے لگی تھی۔
"مہمل انتقام کس چیز کا کس بات کا انتقام لینا ہے تمہیں؟" رقیہ بیگم بہت مشکل سے خود پر ضبط کر رہیں تھیں۔
"امی انتقام کا پوچھ رہیں ہیں آپ تو سن لیں مجھے اپنی محرومیوں کا، اپنے باپ کی اس حالت کا انتقام لینا ہے۔ مجھے انتقام لینا ہے کیونکہ آج میں اپنے بھائی دانیال اور مومنہ سے اس یوسفزئی خاندان کی وجہ سے دور ہوں اور اس انتقام کی راہ میں آنے والی ہر دیوار میں توڑ کر رکھ دوں گی۔" مہمل جواب دے کر اندر چلی گئی تھی جبکہ پیچھے رقیہ بیگم ساکت کھڑی رہ گئیں تھیں مہمل کا لہجہ آنچ دیتا ہوا تھا اس کے الفاظ آگ کے شعلوں سے زیادہ گرمی رکھتے تھے۔
وہ ڈرتی تھیں کہ کہیں قسمت انکی آخری اولاد کو بھی دور نہ کر دے ان سے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"ہیلو شاہ سپیکنگ!" ڈاکٹر شاہ نے فون اٹھایا مگر دوسری طرف موجود داؤد کی آواز اسے چونکا گئی تھی۔
"خیر ہے داؤد صاحب آج ہمیں کیسے یاد کیا؟" شاہ نے چبا چبا کر لفظ ادا کئے.،مگر وہ بھول رہا تھا کہ داؤد اسے کم اور وہ داؤد کو زیادہ یاد کرتا تھا جب بھی وہ فارغ ہوتا وہ داؤد کو کال ملا کر اسے طیش دلاتا تھا۔
"کہنا یہ تھا ڈاکٹر صاحب کہ تمہارے عزیز یوسفزئی خاندان کی بربادی کا آغاز ہونے والا ہے۔" داؤد نے ہنستے ہوئے کہا۔
صاف صاف کہو جو کہنا چاہتے ہو۔" شاہ کا پارہ ہائی ہو رہا تھا۔
" عمیر یوسفزئی کی تباہی تو ہو گی مگر یوسفزئی خاندان کی اکلوتی لاڈلی بیٹی......" داؤد نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔
"داؤد میں تمہاری جان لے لوں گا اگر کچھ ایسا ویسا ہوا تو جانتے نہیں ہو تم ابھی مجھے۔" شاہ غرایا تھا۔
"ارے نہیں شاہ جی غصہ کیوں کرتے ہیں اور آپ کیا جان لیں گے ہماری آپ کے یوسفزئی خاندان کی جان کچھ ہی برسوں میں ختم ہو جائے گی۔ ماضی میں ہمارا تمہارا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن تم نے مسئلہ پیدا کیا تھا جس کا انجام بھگتنا ہوگا کیونکہ اب کی بار شطرنج کی بازی میرے ہاتھ ہے کیونکہ رانی میرے پاس ہے۔"
داؤد نے فون بند کر دیا تھا جبکہ شاہ کے چہرے پر پریشانی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ آج اسے سمجھ آرہی تھی کہ چھ سال پہلے جس داؤد کی وجہ سے مہمل خان کا ہر قدم اس کو معلوم ہو جاتا تھا اب شاہ کی غلطی کی وجہ سے اسکا دشمن بن چکا تھا۔
گزرے برسوں میں مہمل کے انتقام کی آگ بڑھ چکی تھی،
داؤد بھی اب اسکے ساتھ تھا مگر شاہ نے مہمل کو دیکھا نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ کر بھی نہیں پا رہا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
مہمل صبح گھر سے نکلی تھی اور اب تک نجانے وہ کتنے لوگوں کے پاس سے سوال کے کر گئی تھی مگر یہ معاشرہ ان جیسی باصلاحیت لڑکیوں کیلئے نہیں تھا۔
وہ ادارے جو ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہم طلباء کو خیرات نہیں انکے صلاحیتوں کا انعام دیں گے۔ جب طلباء انکے پاس جائیں تو وہ انھیں نامراد لوٹا دیتے ہیں۔
شام ہو چکی تھی یوں در در کی خاک چھان کر مہمل کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ وہ سڑک کنارے بیٹھ چکی تھی کراچی کی ٹریفک دیکھنے لائق تھی مگر وہ دور خلا میں کچھ گھورے جا رہی تھی۔
آنسو اس کی آنکھ سے نکلنا چاہتے تھے مگر وہ انیس سالہ لڑکی خود کو پتھر بنا چکی تھی وہ شدت سے رونا چاہتی بھی تھی مگر آنسوؤں کو اپنے اندر اتار رہی تھی وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کیلئے خود سے لڑے جا رہی تھی کہ اچانک ایک گاڑی اسکے پاس آ کر رکی تھی جس سے ایک نہایت ہی با وقار شخص نکل کر مہمل کے پاس آیا تھا۔
"مہمل!"مہمل نے سر اٹھایا تو داؤد مشوانی کو اپنے سامنے پایا تھا۔
"مشوانی صاحب آپ یہاں؟" مہمل نے اسے کہا۔
"پھر یہاں بیٹھی خود کو، قسمت کو کوس رہی ہوگی اور یوسفزئی خاندان کو بد دعائیں دے رہی ہو گی۔" اس نے مسکرا کر کہا جس پر وہ تپ کر بولی تھی "تو اور کیا کروں؟"
"مہمل تمہیں نہیں لگتا تمہیں یوسفزئی خاندان کو معاف کرنا چاہیے۔" داؤد نے نرمی سے پوچھا۔
" نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا اور آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں آپ کا قبیلہ بھی تو ان کے خلاف ہے۔" مہمل نے اس سے سوال پوچھا
"ہمارا قبیلہ انکے خلاف ہے مگر ہم صرف تب ان کے خلاف ہوتے ہیں جب وہ ہمیں تنگ کریں اور دوسرا یہ کہ ہمارا قبیلہ ان سے لڑ سکتا ہے تم نہیں لڑ سکتی۔" مہمل داؤد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا مگر مہمل پہلے تو اسے یک ٹک دیکھتی رہی اور پھر اٹھ کر رکشہ روک کر اس میں بیٹھ کر چلی گئی۔
داؤد کچھ دیر تو سوچتا رہا اور پھر شاہ کو بتانے لگا کہ آگ بجھ نہیں پا رہی تو اب وہ کیا کرے مگر وہی شاہ جسکی دوستی کی خاطر وہ آج اسے سب بتا رہا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا سب سے بڑا  دشمن ہو گا۔
وہی شاہ جسکو وہ بچاتا یے مہمل کے حملوں سے کل کو اسی کا مان توڑ جائے گا۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
ڈاکٹر نور کے ساتھ وہ ہسپتال کا راؤنڈ لگا رہا تھا لیکن اس کا سارا دھیان اس وقت نور یوسفزئی پر تھا۔
جبکہ نور کوئی تاثر دئے بغیر کسی روبوٹ کی طرح اس کے ساتھ چل رہی تھی۔
"نور آپ میرے آفس میں آئیں۔" شاہ نے کہا اور چلا گیا جبکہ وہ وہیں کھڑی کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر آفس میں چلی گئی۔
"آپ نے بلایا مجھے!" نور نے بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ اس کو دیکھ کر رہ گیا جو بغیر اس کے کہے بیٹھ چکی تھی۔
"آپ یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یوسفزئی خاندان کے سردار کہ  اکلوتی بیٹی کا علاج کر کے کیسا محسوس کریں گی۔" شاہ نے اس سے پوچھا۔
"میرا خاندان یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے لیکن میرے بابا کراچی نوکری کرنے آئے تو ہم سب لوگ بھی ان کے ساتھ یہاں آگئے۔ اس لئے مجھے یوسفزئی خاندان سے کوئی انسیت نہیں وہ میرے نام کی حد تک میری ذات کا حصہ ہے اور بس اس لئے مجھ سے کوئی توقع نہیں کریں آپ!" نور نے اسے صاف صاف کہا اور اٹھ کر چل دی۔
" نور آپ کی آنکھیں اتنی سرد کیوں ہیں؟ "
شاہ نے اس سے سوال کیا تو وہ جو دروازہ کھول رہی تھی مڑی اور اسے دیکھا۔
وہیں سرد آنکھیں اب شاہ کے چہرے پر جمی تھی۔ لیکن وہ آنکھیں ہٹاتی ہوئی بولی
" آپ کا لہجہ اتنا روبوٹک کیوں ہے؟ جب میں نے یہ کبھی نہیں پوچھا تو آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟" اور وہ چلی گئی تھی۔
جبکہ شاہ اسکے جواب پہ حیران رہ گیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
مہمل جب گھر سے کچھ فاصلے پر اتری اور آگے بڑھنے لگی، تو اسے کچھ لڑکے اپنا پیچھا کرتے محسوس ہوئے تھے۔
جس پر اس کو انتہائی شدید غصہ آیا تھا۔
وہ چل رہی تھی مگر پھر اس کا ضبط جواب دے گیا تو وہ مڑی اور بولی
"سالوں مسئلہ کیا ہے یا پھر گولی دینی پڑے گی تم لوگوں کو؟"
"زبان تو بڑی چلتی ہے بھئی!" ایک لڑکے نے کہا اور سب ہنسے تھے جس پر وہ بولی
"میرا ہاتھ بھی بہت چلتا ہے۔"
"اے لڑکی مجھے غصہ نہ دلاؤ ورنہ...." ایک لڑکا آگے بڑھا تھا۔
اس نے مہمل کے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ مہمل کا ہاتھ اٹھا اور اسکے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔
اسکے ساتھ ہی مہمل نے اسے رکھ کر ٹانگ ماری اور اسے مارنے لگی جب باقی تین لڑکے مہمل کی طرف لپکے۔
مہمل نے دو کو تو سیدھا کر دیا اور صحیح رکھ کر مارا تھا کہ اسے تیسرے لڑکے نے انتہائی زور سے دھکا دیا۔
اس سے پہلے کے مہمل نیچے گرتی ایک وجود اسکے پیچھے آیا اور اسے پیچھے سے تھام لیا۔
مہمل نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو داؤد مشوانی اپنے باڈی گارڈز کے ساتھ کھڑا تھا وہ ہر بار اسے سہارا دیتا تھا۔
اسے نہیں یاد کہ اسکی دوستی اس سے کیسے ہوئی مگر وہ اتنا جانتی تھی کہ وہ اس خونی حویلی سے بھاگ کر ان کے قبیلے میں پہنچی تھی اور انھوں نے اس کی مدد کی تب وہ رقیہ بیگم اور اسکے بابا اس حویلی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
لیکن داؤد نے پھر بھی اسکی ہمیشہ خبر رکھی تھی وہ اس سے چھ سال بڑا تھا۔
"ارے لڑکی کیوں ہر وقت غنڈہ گردی کرتی رہتی ہو کتنی بار بچاؤں گا تمہیں میں؟" داؤد نے اسے سہارا دیتے ہوئے کہا جس پر وہ اپنا بازو چھڑاتی نظریں چھڑا گئی تھی۔
داؤد نے باڈی گارڈز کو اشارہ کیا اور وہ ان لڑکوں کو لے کر دوسری گاڑی پر وہاں سے چلے گئے تھے۔
"کیوں آتے ہو تم میرے پیچھے داؤد مشوانی؟" مہمل نے پوچھا تھا اب اس سے اور ساتھ اپنا دوپٹہ بھی صحیح کیا تھا۔
"تم یہ غنڈہ گردی کیوں کر رہی تھی؟" داؤد نے اسے بازو سے ایک بار پھر پکڑا تھا۔
گلی میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا اگر کوئی ہوتا تو مہمل کیلئے بہت مشکل ہو جانی تھی۔
" جناب جب لڑکی اکیلی ہو جائے نا تو اسکے آگے پیچھے کتے اور گیدڑ جمع ہو جاتے ہیں جنکا صفایا اسے کرنا پڑتا ہے۔" مہمل نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔
"تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ باڈی گارڈز لگا دیتا ہوں گھر کے باہر تم سنتی نہیں۔" داؤد نے اب کی بار نرمی سے کہا
" مجھے اس محلے میں اپنا تماشہ نہیں بنانا اور نا ہی امی کو یہ بات معلوم ہونے دینی ہے کہ تم مجھے سب خبریں دیتے ہو مجھے تمہاری اس سے زیادہ مدد نہیں چاہیے۔" مہمل نے اسے کہا تھا۔
"مہمل آئندہ مجھے بتا کر تو نکل سکتی ہو تم؟" داؤد نے امید سے پوچھا تو وہ بولی
"مشوانی صاحب جائیں یہاں سے!"
اور اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کراتی وہ وہاں سے جا چکی تھی اور وہ سانس بھر کر رہ گیا تھا۔
کیونکہ مہمل نے کبھی اسکی نہیں سنی تھی آخر کو جہانگیر خان کی بیٹی جو ٹھہری جب تک وہ گھر میں داخل نہیں ہوئی وہ اسکے پیچھے ہی رہا تھا۔
مہمل کو یہ بات معلوم تھی مگر وہ سب نظر انداز کر رہی تھی۔ نجانے کیسے ہر جگہ جہاں اسے مدد چاہیے ہوتی وہ شخص حاضر ہو جاتا تھا۔
جب سے وہ کراچی شفٹ ہوا تھا وہ اسے کہیں نہ کہیں مل جاتا تھا۔
اسکے جانے کے بعد وہ گاڑی میں بیٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!

Stay tuned!!

انتقامِ وفا (مکمل) Место, где живут истории. Откройте их для себя