سیکنڈ لاسٹ قسط ١٧

918 100 74
                                    

انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 17####
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"السلام علیکم خالہ!" مہمل نے اندر آتے ہوئے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام!" خالہ نے اس پر ایک سرسری سی نظر ڈالی تھی۔
"خالہ کہیں جا رہیں ہیں کیا؟" مہمل نے خالہ کو سامان باندھتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
"ہاں بچے کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر جا رہی ہوں۔" انکے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
"مگر کیوں خالہ؟" مہمل جھنجھلائی تھی۔
"بیٹا مجھے یاد آ رہی ہے اپنے بچوں کی اور ویسے بھی تمہارے کالج سے تو چھٹیاں ہو گئیں ہیں۔ دو ہفتے بعد امتحان ہیں تمہارے تو تم یہ دو ہفتے پشاور میں گزارو گی۔ تو میں یہاں کیا کرونگی؟" خالہ نے اسے وہ ساری تفصیل بتائی جس سے وہ ناواقف تھی۔
"مجھے دو ہفتے چھٹیاں ہیں امتحان کی تیاری کے لیے مگر یہ کس کے کہا کہ میں یہ چھٹیاں پشاور میں گزاروں گی؟" مہمل حیران و پریشان کھڑی تھی۔
"ارے وہ آج فون آیا تھا نا رقیہ کا وہ کہہ رہی تھی کہ کل صبح تم یہاں سے نکلو گی۔" خالہ نے تحت پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"میں کہیں نہیں جا رہی۔" مہمل نے کہا اور کچن میں چلی گئی۔
"تمہاری ماں یاد کر رہی ہے تمہیں ایک تم ہی تو اسکی کل کائنات ہو۔ ترس نہیں آتا تجھے اپنی ماں پر؟ چل ضد نہ کر سامان باندھ لے کل صبح تجھے وہ بچہ لینے آئے گا اور اب مجھے ایک لفظ نہیں سننا۔" خالہ نے گویا حکم سنایا تھا۔
"کون بچہ؟" مہمل نے کچن سے آواز لگائی تھی۔
"ارے وہ داؤد! بڑا فرمانبردار بچہ ہے۔" خالہ نے بتایا اور پھر اپنے کام میں لگ گئیں۔ جبکہ کچن کے اندر موجود مہمل اسکا نام سن کر کلس کر رہ گئی تھی۔
"ہاں وہی رہ گیا ہے فرمانبردار ایک دنیا میں!" اس نے تلخی سے سوچا۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
"مشوانی!" شاہ اسکے گھر میں اسے آواز دے رہا تھا۔ مگر وہ چپ چاپ گھر کی پچھلی طرف موجود لان میں بیٹھا تھا۔
"ابے بہرہ ہو گیا ہے کیا کب سے آوازیں دے رہا ہوں تجھے۔" شاہ نے جب اسے عقبی حصے میں موجود لان میں بیٹھے دیکھا تو اپنا ماتھا پیٹ لیا۔
"کیوں کیا ہو گیا ہے؟" مشوانی نے پوچھا۔
"کچھ نہیں سوچا تمہیں مل آؤں اور امریز لالہ کی منگنی کی مبارک بھی دے دوں۔ مگر تو کیوں اداس مجنوں بنا بیٹھا ہے؟" شاہ نے اسکی حالت پر طنز کیا تھا۔
"دے دی مبارک نا! مبارک! اب کان نہیں کھاؤ یار!" مشوانی تپا تھا۔
"یہ کیا کر رہا ہے؟ چھوڑ دے ادھر! آئندہ بعد یہ بے ہودہ حرکت نہ کرنا تم! " شاہ نے اسکے ہاتھ سے سگریٹ چھینا تھا جو اسنے ابھی ابھی اسکے سامنے سلگایا تھا۔
"شاہ تو مجھے نہیں سمجھتا۔ مجھے سکون نہیں ملتا۔ کس عذاب میں پھنس گیا ہوں میں؟" مشوانی اب سیدھا ہوا تھا۔
"لگتا ہے چچازاد سے تو اب مجھے ملنا چاہیے اسکی زیادتیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔" شاہ نے پرسوچ انداز میں کہا۔
"تم اسکے قریب نظر نہ آئیں شاہ میں جانتا ہوں کہ اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو مرے گا یا وہ اور میں دونوں کو کھونا نہیں چاہتا۔ وہ میری محبت ہے تماور تم میرے جان سے عزیز دوست۔ تجھے میری قسم ہے تو اس سے دور رہ اسکی جاسوسی مت کیا کر۔" داؤد کا لہجہ سپاٹ تھا۔ یہ دونوں اسے عجیب دوراہے پر کھڑا کر چکے تھے اور اسے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے۔
"کل جانا ہے اسکے ساتھ تم نے مگر یہ کیسا سفر ہے جو ساتھ ہو کر بھی ساتھ نہیں کرو گے تم لوگ؟" شاہ نے دونوں ٹانگیں سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
"کیا کہوں اب میں؟" مشوانی نے اس سے پوچھا تو شاہ تاسف سے سر ہلانے لگا۔
"چھوڑ دے یہ سب مجھے تو پتہ نہیں چلتا کہ تو کر کیا رہا ہے؟" شاہ کو اس پہ اب غصہ آنا شروع ہو چکا تھا۔
"انتظار!" مشوانی کے اس یک لفظی جواب میں بڑا درد چھپا تھا، جس کو محسوس کرتے ہوئے شاہ نا چاہتے ہوئے بھی خاموش ہو گیا۔
مشوانی اب سیدھا بیٹھا آسمان کو گھور رہا تھا۔
نجانے اس انتظار کا انجام کیا ہے؟

انتقامِ وفا (مکمل) Donde viven las historias. Descúbrelo ahora