قسط ١٣

730 85 78
                                    

انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 13####

"کہاں ہو؟" اسنے پوچھا۔
"جہنم میں!" نور نے تپ کے فون پر نامعلوم نمبر دیکھا جو کہ یقیناً اس فضول بندے کا ہی تھا۔ ایسے کال کرنا شاید اسی کا مشغلہ تھا۔
"ارے واہ پھر دوزخ کے داروغے کو میرا سلام کہنا!" اسنے قہقہہ لگاتے  ہوئے نور کو پیغام دیا۔
"تم نے فون کیوں کیا ہے؟" نور نے گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
"ایسے ہی! سوچا پوچھ لوں کہ پہنچ گئی جہنم کے داروغے کے پاس...سو سوری میرا مطلب ہے پشاور پہنچ گئی؟" اسنے نچلا لب دبایا  تھا۔
"کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے میرے موبائل اور لیپ ٹاپ کو ٹریس تم کرتے ہی نہیں۔" نور نے طنز کیا۔
"مطلب کی بات کرو!" نور نے روکھے لہجے میں کہا۔
مطلب کی بات یہ ہے کہ اس ناہنجار مفرور یعنی اس فکر کا ٹھیکہ اٹھائے رکھنے والے کا فون مت اٹھانا۔ میں نہیں چاہتا کوئی مسئلہ ہو۔" اسنے ہمیشہ کی طرح مطلب کہ بات کہی اور فون بند کر دیا جبکہ نور بس آنکھیں موند کر سر سیٹ سے ٹکا گئی ۔
کبھی کبھار نور کو لگتا تھا کہ وہ اس زندگی سے جیسے تھک گئی ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک بھاگتے ہوئے اب جب وہ منزل پر پہنچنے والی تھی، تو کوئی چیز تھی جو اسے منزل سے پیچھے کھینچتی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"کچھ نہیں بیٹا بس ماضی کی بھول بھلیوں میں گم گئی تھی۔ ویسے اگر میں نہ ہوتی تو آج تمہارے بابا اس حال میں نہ ہوتے۔" رقیہ بیگم نے سرد آہ بھر کر کہا۔
"امی کیوں فکر کرتی ہیں؟ میں کچھ نہ کچھ کر لونگی۔ اب بس اللہ پر بھروسہ رکھیں۔" مہمل کی آواز ایک پل کو لڑکھڑائی تھی۔
"ہمم!" رقیہ بیگم نے کہا اور مہمل انکو ہسپتال کے کوریڈور میں چھوڑتی پیسوں کا انتظام کرنے کے لئے باہر چلی گئی جبکہ وہ ایک بار پھر ماضی کو سوچنے لگیں۔
ماضی:-
زرینہ گل کو قدرت نے بدلہ لینے کا موقع دیا تو انھوں نے ظلم کے پہاڑ ہی توڑ دیے۔
جہانگیر خان کو بہانے سے کھانے میں زہر ملا کر دیا اور وہ ساری زندگی کے لئیے مفلوج ہو گئے وہ اپنی انگلی تک ہلا نہیں پاتے تھے۔
یہ سانحہ رقیہ بیگم کو توڑ گیا لیکن انھیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس سب کے پیچھے انکی جیٹھانی زرینہ گل ہونگی،
رقیہ بیگم اپنے شوہر کی تیمارداری میں لگ گئیں اور علاج کے لیے کراچی لے کر آئیں اور اپنے بچے جیٹھانی کے حوالے کر دیے۔
سب سے بڑی مومنہ جو اس وقت گیارہ سال کی تھی اور پھر  مومنہ سے تین سال چھوٹے جڑواں مہمل اور دانیال تھے اس وقت زرینہ گل کا بیٹا میر یوسفزئی چودہ سال کا تھا اور صرف وہی ایک تھا جو سب جانتے ہوئے بھی چپ تھا۔
وہ اگر سب بتاتا تو جرگہ اسکی ماں کو سزا سناتا۔
وہ ماں کی محبت میں چچا کے خاندان کی تباہی دیکھ رہا تھا۔
سب سے پہلے مومنہ انکے عتاب کا نشانہ بنی اور انھوں نے اسے اپنے وفادار ملازم کے ہاتھوں قتل کروا دیا۔
پھر مہمل اور دانیال کو انھوں نے حویلی کے پچھواڑے میں موجود کمروں میں بند کر دیا۔ جہاں روز دانیال پر ظلم ہوتا اور وہ مومی بچاؤ مومی بچاؤ کی پکار لگاتا لیکن اس معصوم کی آواز حویلی کے زنان خانے تک نہ پہنچ پاتی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"لالہ آپ کے مہمانوں کے لیے مہمان خانے کو تیار کر دیا ہے۔" عمیر نے میر یوسفزئی عرف شاہ کو کہا۔
شاہ جو کل شام ہی اسوہ کی شادی میں شرکت کے لیے پہنچا تھا عمیر کی بات پر سر ہلا گیا۔
"لالہ آپ نے زنان خانے میں بھی دو کمرے تیار کروائے ہیں ایک تو ڈاکٹر ماریہ کے لیے دوسرا کس کے لیے ہے؟" عمیر نے پوچھا۔
" بچے وہ ڈاکٹر نور کے لیے ہیں جو ہسپتال میں نئی آئیں ہیں۔" شاہ نے بتایا۔
"اچھا یہ بتاؤ خان بابا کدھر ہیں؟" شاہ نے اپنے والد کے بارے میں پوچھا۔"
"خان بابا تو چار دن پہلے کوئٹہ گئے تھے۔ آج شام تک آجائیں گے۔" عمیر نے کہا تو شاہ چونک کر بولا۔
" یوں اچانک مجھے بتائے بغیر وہ کوئٹہ کیسے چلے گئے ہیں؟"
"ارے لالہ بات یہ ہے کہ انکو کوئٹہ میں موجود اپنے دوست کی بیٹی زرمینہ آپ کے لیے پسند آ گئی تو رشتہ مانگنے گئے ہیں۔" عمیر نے ہنستے ہوئے بات کھولی تو شاہ ہکا بکا رہ گیا۔
"کیا خان بابا نے مجھے بتائے بغیر..." شاہ ابھی بول رہا تھا کہ عمیر نے ٹوکا۔
" ابھی تو وہ صرف اشاروں کنایوں میں بات کریں گے۔  صحیح رشتہ تو وہ دھوم دھام سے آپ کو بتا کر لے کر جائیں گے۔" عمیر نے خوشی سے کہا لیکن شاہ وہاں سے اٹھ کر باہر آ گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"مومی بچاؤ!!! مومی بچاؤ!"
یہ صدا اسکے کان پھاڑ رہی تھی لیکن وہ کمرے کا دروازہ کھول نہیں پا رہی تھی۔
" دانی میں قید ہوں میں کیا کروں دانی تم حوصلہ کرو امی واپس آئیں گی۔ وہ ہمیں نکال لیں گی۔" مومی نے روتے ہوئے کہا۔
"مومی............!!!" ایک چیخ اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔
مہمل خواب سے ایک دم جاگی تو اسکے منہ سے ایک لفظ نکلا تھا۔
"دانی!!"
اور پھر مہمل کو وہ رات یاد آنے لگی جو اسے سکون سے سونے نہیں دیتی تھی جو اسکو انتقام پر اکساتی تھی۔
ماضی :-
اس رات ہمیشہ کی طرح دانیال پر ظلم ہو رہا تھا اور اپنے ماں جائے کہ تکلیف اس سے برداشت نہیں ہو پارہی تھی۔ جب آٹھ سالہ دانیال زرینہ گل کے وفادار کتوں سے الجھا تھا اور پھر اسکو مار دیا گیا تھا۔
مہمل نے اپنے جڑواں بھائی کی لاش اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور وہ رات اسے آج تک نہیں بھولتی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
مہمل صبح پھر سے ہسپتال سے باہر نکلتی پیسوں کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کا سوچ رہی تھی جب اسفر سعید اسکے سامنے آیا۔
"مہمل! معافی چاہتا ہوں میں کچھ مشکل میں تھا۔ لیکن اس سے نکلتے ہی فوراً تمہارے پاس آیا ہوں۔" اسفر نے کہا۔
"ہمم کوئی کام ہے کیا؟" مہمل نے کہا۔
"تمہارے والد کے علاج کا خرچہ میں اٹھاؤں گا۔ تم قرض سمجھ کے ابھی مجھ سے لے لو۔" اسفر نے اس سے کہا ۔ اسکے سر پر پٹی تھی جو اس بات کی ثبوت تھی کہ وہ واقعی ہی مشکل میں تھا۔
" میں تمہارا شکریہ کس منہ سے ادا کروں۔" مہمل نے مشکور لہجے میں کہا۔
" رہنے دو تم کھڑوس ہی اچھی لگتی ہو۔" اسفر نے ہنس کر کہا تو وہ بس اسے پھیکی سی مسکراہٹ دے پائی اسے اپنے والد کی پریشانی میں کچھ یاد نہیں تھا۔
"اوہ یاد آیا کہ چوٹ کیسے آئی؟" مہمل نے اسکی چوٹ کا پوچھا۔
" بس وکیل ایماندار غریب کا کیس لڑ کر جیت جائے تو پھر انعام تو ملتا ہے نا۔" اسفر نے طنز کرتے ہوئے کہا۔
اور پھر وہ لوگ آپریشن کے لیے پیسے جمع کرانے لگے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
ماضی:-
رقیہ بیگم مایوس ہو کر مفلوج ہوئے جہانگیر خان کے ساتھ حویلی پہنچی تو آگے کا حال انکی ہمت توڑ گیا۔
اپنی پہلی اولاد مومنہ اور اکلوتے بیٹے کی موت کا صدمہ انکے اعصاب شل کر گیا تھا۔
مہمل سے بھی ان کو زرینہ گل نے ملنے نہیں دیا۔
زرینہ گل نے اس دن رقیہ بیگم سے اپنا بدلہ لیا تھا۔
مہمل پر روز تشدد ہوتا تھا لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا تھا سوائے میر یوسفزئی کے لیکن وہ اپنی ماں کی وجہ سے خاموش تھا۔
رقیہ گل سارا دن ملازمہ کی طرح حویلی کا کام کرتی تھیں۔
دو مہینوں میں سب بدل گیا تھا اب ایک مہینے بعد جہانداد خان نے واپس آنا تھا زرینہ گل اس سے پہلے یہ قصہ ختم کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن قسمت نے اس بار زرینہ گل کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
ڈاکٹرز نے فوراً جہانگیر خان کا آپریشن کیا لیکن انھیں جہانگیر خان کی صحت سے کچھ زیادہ امید نہیں۔
تین ہفتے سے وہ کومہ میں تھے اور مہمل میڈیکل کالج جاتی اور واپسی پر ہسپتال آتی تھی۔ اسے تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا تھا اس مشینی روٹین سے وہ ہر جذبے ہر احساس سے عاری ہو چکی تھی۔
آج اسفر نے بہت مشکلوں سے رات کو گھر بھیجا تھا کہ وہ اور رقیہ بیگم جہانگیر خان کے پاس رکیں گے۔
صبح مہمل اٹھ کر میڈیکل کالج کے لیے نکلنے ہی والی تھی کہ اچانک گھر کے گیٹ پر دستک ہوئی۔
مہمل نے جا کر دروازہ کھولا لیکن اسکے بعد وہ ہل نہ سکی۔
اسکے سارے احساس آج منجمند ہوئے یا پھر سارے احساس آج ہی جاگے تھے۔
اسے نہیں معلوم کہ وہ زندگی میں کبھی یوں گم صم ہوئی ہو جیسے آج وہ منظر دیکھ کر وہ ہو چکی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"کچھ ہے جو غلط ہے تم چھپا رہے ہو کچھ!" اسنے غصے سے کہا۔
"میں بھلا کیا چھپاؤں گا ابھی مجھے مشن پر جانا ہے۔ بعد میں بتاتا ہوں۔" دوسرے نے کہا اور ہڈی پہن کر رات کے اندھیرے میں گم ہو کر اپنا کام کرنے کے لیے چل پڑا۔
شاید قسمت ان سب کے ساتھ کھیل رہی ہے!
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -

جاری ہے!!!

Stay tuned!!!

انتقامِ وفا (مکمل) Where stories live. Discover now