قسط ١٦ (حصہ اول)

758 87 78
                                    


انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 16 (1)####

"مہمل بچے خیال رکھنا اپنا۔" رقیہ بیگم نے پلٹ کر پھر کہا تو مہمل نے آگے بڑھ کر انکا ہاتھ تھام لیا۔
"امی اگر میں آپ کے ساتھ چلی بھی جاتی تو مجھے پڑھائی کے لیے واپس آنا پڑتا اس لیے آپ یہی سمجھیں کہ میں پڑھائی کی وجہ سے یہاں رکی ہوں۔" مہمل نے نرمی سے انھیں کہا اور پھر وہ وہاں سے چلی گئیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
مہمل پارک میں ایک بینچ پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔
" کیا سوچا جا رہا ہے؟" مشوانی اسکے ساتھ آ کر بیٹھا تھا۔
" کچھ نہیں!" مہمل کا انداز اسے نظر انداز کرنے والا تھا۔
"مہمل میں جانتا ہوں یہ تمہارے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے جہانگیر انکل......" مشوانی سامنے دیکھتے ہوئے اس سے بات کر رہا تھا جب مہمل نے اسکی بات کاٹ دی۔
"کسی روایتی تعزیت کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔ اس سے میرا باپ واپس نہیں آئے گا۔"
"ہممم تم پشاور نہیں گئی داجی کے ساتھ؟" مشوانی نے اس سے سوال کیا۔
" چلی بھی جاتی تو پڑھائی کے لیے واپس آنا تھا۔ اس لیے یہیں ٹھیک ہوں۔" مہمل کے چہرے پر الجھن تھی۔
"لگتا ہے کہ تمہیں میرا تمہارے ساتھ بات کرنا پسند نہیں آ رہا۔" مشوانی نے اسکی الجھن محسوس کی تھی۔
"کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے آگے میری مرضی سے سب کرتے ہو۔" مہمل نے طنز کیا تھا جس پر مشوانی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی تھی۔
"اگر کہو تو تمہاری مرضی سے سب کر لیتا ہوں لیکن پہلے بھی تم اپنی مرضی چلاتی ہو۔" مشوانی نے جواباً لطیف سا طنز کیا تھا۔
"نہیں مجھے کیا ضرورت ہے تم پر مرضی چلانے کی؟" مہمل تپ گئی تھی۔
"خیر یہ لمبی بحث ہے۔ تم یہ بتاؤ کیا تمہیں داجی کی خواہش کے بارے میں علم ہے؟" مشوانی نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا جو کندھے اچکا کر رہ گئی تھی۔
مشوانی نے اسکے انداز دیکھتے ہوئے دوبارہ بات شروع کرتے ہوئے کہا:
"اگر نہیں پتہ تو میں بتاتا ہوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ میری........ "
"کہ میری اور تمہاری شادی کر دی جائے۔" مہمل نے اٹھتے ہوئے اسکا جملہ پورا کر دیا۔
مہمل نے اپنا بیگ اٹھایا اور پارک کے داخلہ دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔
"مہمل بات تو سنو!" مشوانی اسکے پیچھے بھاگا تھا۔
"جو کہنا ہے کہہ دو!میں نے تمہاری زبان تو نہیں پکڑی ہوئی۔" مہمل نے چلتے ہوئے ہی اسے جواب دیا تھا۔
"تم کیوں ہماری شادی کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی؟" مشوانی نے اسکے ہمقدم ہوتے ہوئے کہا۔
"کیوں کہ میرے ارادوں میں ایسی کوئی بات ابھی تک شامل نہیں ہے۔" مہمل نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اسے صاف جواب دیا تھا۔
" مہمل!!!!!!!" مشوانی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا تھا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے داؤد خان مشوانی۔ہاتھ چھوڑو میرا۔" مہمل نے غراتے ہوئے کہا تھا۔
"تم سب جانتی ہو کہ میں کیا چاہتا ہوں۔اتنے عرصے سے تم میرے صبر کا امتحان لے رہی ہو تمہیں مجھ پہ ترس نہیں آتا۔" مشوانی نے غصے سے کہا تھا۔
"میں نے کوئی عہد و پیمان کیا تھا؟ کوئی اشارہ دیا کبھی؟ نہیں نا! تو پھر تم کیوں انتظار کر رہے ہو آگے بڑھ جاؤ۔" مہمل نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
"تم جانتی ہو میں کتنا ضدی ہوں میری ضد کو ہوا مت دو۔" مشوانی نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
" تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہوں اور چھوڑو میرا ہاتھ سب لوگ متوجہ ہو رہے ہیں تماشہ بن رہا ہے۔" مہمل آگے پیچھے کچھ لوگوں کو متوجہ دیکھ کر غرائی تھی۔
"تماشہ لگانے کا شوق تمہیں ہی ہے کبھی سیدھا نہیں سوچتی تم دوسروں کے دل و دماغ سے کھیلنا چاہتی ہو۔" مشوانی نے دانت پیسے تھے۔
"یہ فضول کا رعب کسی اور پر جھاڑنا۔ مہمل خان کبھی فضول باتوں میں نہیں آتی" مہمل نے اپنا ہاتھ چھڑایا تھا اور فوراً پارک سے باہر نکلی تھی۔
مشوانی اسکے پیچھے بھاگا تھا مگر وہ پارک سے نکل کر فوراً ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر کی طرف جا چکی تھی جبکہ پیچھے مشوانی غصے سے دانت پیس کر رہ گیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
آج اسوہ کی مہندی تھی۔
یوسفزئی حویلی کسی دلہن کی طرح سجی تھی۔
نور یوسفزئی اپنے کمرے کی کھڑکی میں تیار ہو کر کھڑی سب انتظام دیکھ رہی تھی۔
آہستہ آہستہ نور کا کام آسان ہو رہا تھا مگر نور کو ڈر تھا کہ کہیں عمیر اسکے راستے کی دیوار نہ بن جائے۔
"ڈاکٹرنی جی وہ گل بی بی کہہ رہیں ہیں کہ آپ نیچے آ جائیں۔" ملازمہ نے اسے آ کر پیغام دیا تو وہ کمرے سے باہر نکلی۔
حویلی کے لان میں آج بہار لگی تھی جب کے حویلی کی عمارت کے اندرونی حصے میں سناٹا تھا۔ سب لوگ لان میں موجود تھے سوائے اسوہ کے اور کچھ لڑکیوں کے جو اسکے کمرے میں اسے تیار کر رہیں تھیں۔
نور نیم اندھیرے میں سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آئی تھی۔ وہ لان کی طرف جا رہی تھی کہ اسے یاد آیا کہ وہ اپنا فون کمرے میں بھول آئی ہے۔ وہ فوراً واپس پلٹی لیکن جب وہ اوپر آ کر کمرے کی دروازہ کھولنے لگی تو اسے کمرے سے کھٹ پٹ کی آواز آ رہی تھی۔
اسنے آرام سے آہستہ سے دروازہ کھولا تو کوئی الماری کے سامنے کھڑا اسکے سامان کی تلاشی لے رہا تھا۔
نور آرام سے دبے پاؤں اپنے کمرے میں پڑی میز کی طرف بڑھی۔ دل ہی دل میں وہ شکر کر رہی تھی کہ ہیلز نہیں پہنیں ورنہ مسئلہ ہونا تھا لیکن دل اسکا ابھی بھی دھک دھک کر رہا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"ہیلو!" مہمل اپنے دوستوں کے گروپ میں بیٹھی تو عمیر اسکی طرف متوجہ ہوا تھا۔
"مہمل کیسی ہیں آپ؟" عمیر نے پوچھا تھا۔
"میں بلکل ٹھیک آپ بتائیں آپ کیسے ہیں مسٹر عمیر خان یوسفزئی۔" مہمل نے اسے جواب دیا۔
"میں ٹھیک۔ بہت افسوس ہوا آپ کے والد کی وفات کا سن کر۔" عمیر نے تعزیت کی تو مہمل کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری تھی جسے اسنے فوراً چھپا لیا۔
"ارے کیوں سب سنجیدہ ہو گیے؟ مہمل اتنے دنوں بعد آئی ہے کالج اسکا کتنا کام باقی ہے۔ اس میں اسکی مدد کرو نا۔" سدا کی پڑھاکو رمشا نے کہا۔
" ارے پہلے اسکا مائنڈ ریلیکس تو ہونے دو پھر ہو جائے گی پڑھائی۔" عاکف نے رمشا کی بات سے تنگ ہوتے ہوئے جواب دیا۔
"ویسے مہمل تم پٹھانوں کے ساتھ ہی زیادہ دوستی رکھتی ہو، جیسے یہ عمیر بھی پٹھان ہے یہ عاکف بھی پٹھان ہےاور وہ جو کمپنی تمہاری پڑھائی سپانسر کر رہی ہے مشوانی گروپ آگ انڈسٹریز اسکا اونر بھی پٹھان‌! ایسا کیوں ہے؟" ملیحہ نے پوچھا.
"کیونکہ میں خود پٹھان ہوں۔" مہمل نے مسکرا کر کہا جس پر سب ہنس دیے اور پھر کلاس لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
نور نے میز پر پڑی چھڑی اٹھائی لیکن تب تک اگلے کو اسکی آمد کی خبر ہو چکی تھی۔
وہ فوراً وہاں سے باہر نکلا اور کمرے میں موجود اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دروازے سے باہر جانے لگا لیکن نور نے فوراً اسے کھینچ کر دیوار کے ساتھ لگایا تھا اور چھری اسکے گلے پر رکھی تھی۔
"ارے واہ بڑی پھرتیلی ہیں آپ ڈاکٹر نور!" عمیر نے طنز کیا تھا۔
"بکواس بند! کیا کر رہے تھے تم یہاں!" نور نے غصے سے پوچھا۔
"تمہاری اصلیت کھولنے کے لیے ثبوت ڈھونڈ رہا تھا۔ لیکن بڑا پکا کام کیا ہے تم نے۔" عمیر نے زہر خند لہجے میں اسے کہا۔
"میں بتا رہی ہوں اگر تم نے زبان کھولی تو جانتے ہو نا کہ تمہاری پیاری، تمہارے دل کی دھڑکن ہے جو اسکی جان بھی لے سکتی ہوں میں؟ جانتے ہو نا؟" نور کے چہرے پر اس وقت کی سفاکیت تھی۔
"میں بتا رہا ہوں کہ تم پچھتاؤ گی! لکھ کے رکھ لو میرے الفاظ!" عمیر زچ ہو رہا تھا۔
"تم سے کسی نے کچھ پوچھا ہے جو بک بک کیے جا رہے ہو ابھی دفعہ ہو جاؤ یہاں سے لیکن آئندہ کچھ الٹا کیا تو یاد رکھنا نور یوسفزئی حساب نہیں رکھتی پھر۔" نور نے اسے جانے کا راستہ دیتے ہوئے کہا تو وہ باہر نکلا لیکن پھر پلٹا۔
عمیر کے ماتھے پر پسینہ دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ دانت پیس کر بولا:
"لالہ نہیں سمجھ رہے کہ تم ایک ناگن ہو لیکن ایک دن تمہارا انجام برا ہوگا۔"
عمیر کے جانے کے بعد نور کمرے میں گئی فون اٹھایا اور باہر آ گئی۔ مگر اسکا ذہن ابھی بھی  آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
مہمل پچھلے دو ہفتے سے پڑھ پڑھ کر تھک چکی تھی لیکن کام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
بعض دفعہ اسے غصہ آتا کہ میڈیکل رکھی ہی کیوں لیکن پھر وہ دوبارہ سے پڑھائی میں مشغول ہوجاتی تھی۔
اسفر کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔
مہمل کا فون بج رہا تھا اسنے دیکھا تو مشوانی کی کال تھی۔
اسکے چہرے پر کسی گہری سوچ کی پرچھائی آئی تھی جو غائب بھی ہو گئی تھی۔
مہمل نے فون ویسے ہی سائلنٹ پر لگا کر چھوڑ دیا تا کہ بجتا رہے۔
اسنے دن کو بھی کھانا نہیں کھایا تھا اور ابھی رات کو بھی اسکا کھانا کھانے کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا تھا۔ اسے بھوک لگ رہی تھی لیکن وہ خود کو ایسے ہی اذیت دے رہی تھی۔
اسکے دروازے پر دستک ہوئی تو اسے حیرت ہوئی کہ رات کو کون آ گیا۔
اسنے آٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے شبنم خالہ کھڑی تھیں۔
"خالہ آپ!" مہمل نے انھیں اندر آنے کا راستہ دیا۔
"ارے وہ جنکے ساتھ رقیہ بہن گئی ہے انکا بیٹا آیا تھا ابھی کوئی آدھا گھنٹہ پہلے۔کہہ رہا تھا کہ مہمل اکیلی ہوتی ہے تو آپ اسکے ساتھ رات کو سو جایا کریں، رقیہ خالہ نے بھی یہی کہا تھا۔ تو بیٹا میں آ گئی ویسے بھی میرا بیٹا تو شکر ہی کرتا ہے کہ ماں گھر سے جائے۔ اسکی بیوی نے اس پر جادو جو کیا ہوا ہے۔خیر یہ کھانا ہے برتنوں میں ڈال کر لے آؤ۔ دونوں خالہ بھتیجی کھاتے ہیں ۔بڑا ہی اچھا نیک اور سلجھا ہوا بچہ ہے کھانا بھی خود ہی دے کر چلا گیا۔" حسب معمول خالہ نے لمبی داستان ایک ہی دفعہ سنائی تھی۔
مہمل انکی بات پر سر ہلاتی کچن میں چلی گئی اور پھر نہ نہ کرتے بھی خالہ نے اسے اچھا خاصا کھلا دیا تھا۔ خالہ کے آنے سے وہ ہلکی پھلکی ہو گئی تھی۔
جب وہ سونے کے لیے بیڈ پر لیٹی تو موبائل دیکھا جس پر اڑتالیس مس کالز تھیں مشوانی کی لیکن اسے رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی۔ اسنے واٹس ایپ کھولا تو وہاں مشوانی کا میسج آیا ہوا تھا
کبھی کبھی تیری بے نیازی سے خوف کھا کر
میں سوچتا ہوں تو میرا انتخاب کیوں ہے؟؟
(محسن نقوی)

مہمل کا جواب دینے کو دل نہیں تھا لیکن پھر بھی اسنے میسج لکھا
ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے
(محسن نقوی)

مہمل نے پانچ منٹ بعد دیکھا تو مشوانی آن لائن تھا اور اسکا میسج آیا ہوا تھا
شمار اسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ  بانٹتا  پھرتا  ہے  چھین  کر  آنکھیں!!!
(محسن نقوی)
"محبت کیا جرم ہے مہمل خان یوسفزئی؟"

مہمل کچھ دیر تو اسکا سوال دیکھتی رہی اور پھر لکھا
پہلے خوشبو کے مزاجوں کو سمجھ لو محسن
پھر  گلستان  میں  کسی  گل  سے  محبت  کرنا
(محسن نقوی)

مہمل نے کچھ دیر بعد دیکھا تو ایک غزل آئی ہوئی تھی
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے
ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے
آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے
میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے
(راحت اندوروی)
مہمل کو غصہ آیا اور اسنے لکھا تھا کہ "بند کرو اردو ادب کہ کلاس! مجھے سونا ہے ابھی۔"
اسکے بعد مشوانی نے کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن مہمل کی نیند اڑ چکی تھی
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"کیسی لگی ہماری مہمان نوازی؟" نور چپ چاپ ایک کونے میں کھڑی تھی جب شاہ اسکے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا۔
"اوہ ڈاکٹر شاہ آپ ہیں!" نور نے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا جس پر شاہ سامنے آ کر بولا۔
"کیوں آپ کو کیا لگا تھا کہ کون ہوگا؟"
"نہیں وہ ایسے ہی مجھے امید نہیں تھی نا کہ آپ اس مصروف ترین فنکشن میں بات کریں گے۔" نور نے اسے جواب دیا۔
"آپ کے لیے تو انسان وقت نکال ہی سکتا ہے۔" شاہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"جی؟" نور حیران ہوئی تھی۔
"میرا مطلب ہے کہ اچھی لگ رہی ہیں۔" شاہ خجل ہوا تھا۔
نور وہاں سے ہٹنے لگی تو شاہ نے اسے روکا۔
" مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے نور!"
"جی کہئے!" نور متوجہ ہوئی تھی۔
"مجھ سے لمبی تمہید نہیں باندھی جاتی صاف کہوں تو آپ مجھے بہت اچھی لگی۔ مجھے کبھی کسی لڑکی کو دیکھ کر اچھا محسوس نہیں ہوا لیکن آپ کو دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ آپ کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے، اس لیے آپ سے کہہ رہا ہوں یہ بات! قصہ مختصر یہی ہے کہ میں چاہوں گا کہ آپ مجھ سے شادی کر لیں۔" نور شاہ کی بات سن کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔
وہ یہی چاہتی تھی لیکن اسے امید نہیں تھی کہ شاہ یوں اچانک سب کہہ دے گا لیکن پھر بھی اسنے خود کو نارمل کیا اور سوچنے کی مہلت مانگ کر دوسری طرف چلی گئی۔ لیکن اسکا دماغ ہل کر رہ گیا تھا۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آئی تھی کہ کب اسوہ کو لایا گیا اور کب کونسی رسم کی جارہی ہے؟ وہ ہر چیز سے لاتعلق بیٹھی تھی۔
اسکا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔
جو وہ چاہ رہی تھی ویسا ہی ہو رہا تھا لیکن کہیں کوئی خلش باقی تھی۔ اسکا دل یہ سب قبول نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ایسے میں اسکے کانوں میں کسی کے الفاظ گونجے تھے اور وہ سن ہو کر رہ گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!

Stay tuned!!

انتقامِ وفا (مکمل) Onde histórias criam vida. Descubra agora