قسط ٢

315 42 29
                                    

غلام رسول صحن میں چارپائی پر لیٹا ہوا تھا. ہاتھ سر کے نیچے رکھے وہ آسمان پر ٹمٹماتے ننھے تاروں کا خوبصورت منظر دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہلکی ہلکی خنک ہوا اس کو چھو کر گزرتی۔ ایسے ہی ایک ہوا کا جھونکا آیا اور اس کے ذہن میں ماضی کی طرف لے جانے والے کواڑ وا کر گیا۔

                   ☆☆☆☆
وہ معمول کے مطابق نماز پڑھنے کے بعد گھر جا رہا تھا۔ آسمان پر ہلکا ہلکا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔اسے جلد از جلد گھر پہنچنا تھا۔ اس کے بیٹے اور بیوی کھانے پر اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔اس کی سوچوں کے تسلسل کو کسی کے رونے کی آواز نے توڑا۔ آواز اس کے دائیں جانب موجود پارک سے آ رہی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا پارک میں داخل ہوا۔پارک کے بیچوں بیچ موجود برگد کے پیڑ کے نیچے سات سال کی معصوم س بچی، بالوں کی دو پونیاں بنائے ،سسکتے ہوئے  شہادت کی انگلی سے زمین پر گول دائرے بنا رہی تھی. اس کی اسکائی بلیو فراک پر جگہ جگہ گیلی مٹی کے دھبے لگے تھے۔ بال بھی الجھے  ہوئے تھے.
"بیٹا۔۔۔"
غلام رسول نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ بچی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔کیا کچھ نہیں تھا اس ایک نگاہ میں۔۔۔۔ دکھ،تکلیف،شکوہ،کچھ چھن  جانے کا احساس۔۔۔ غلام رسول کو سمجھ نہ  آئی کہ کیا کہے۔  اسے اس بچی پر بے پناہ پیار آیا۔
"بیٹا آپ یہاں کیوں بیٹھی ہو؟آپ کے ماں بابا کہاں ہیں؟"
اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔
"مر گئے وہ"
بچی نے تلخی سے سر جھٹکا . غلام رسول کو اس قدر تلخ جواب کی امید نہیں تھی..... وہ بھی اتنی چھوٹی بچی سے ....وہ لمحے بھر کو چپ ہوگیا .
"اچھا آپ کا گھر کہاں ہے؟ میں آپ کو ادھر چھوڑ دوں؟"
لمحے کے توقف کے بعد اس نے پوچھا۔
"میرا تو کوئی گھر بھی نہیں ہے۔۔۔ "
بچی نے کندھے اچکائے اور کہہ کر دوبارہ رونا شروع کر دیا .
"اچھا اچھا آپ رو تو نہیں ۔۔۔۔"
غلام رسول پریشان ہو گیا۔
"تو آپ کہاں رہتی ہو؟"
بچی کے چپ کرنے پر وہ دوبارہ گویا ہوا۔
"میرے ماں باپ نے مجھے پیدا ہوتے ہی یتیم خانے میں چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔میں وہاں ہی بڑی ہوئی ہوں لیکن وہ لوگ مجھے اتنا مارتے تھے تو میں وہاں سے بھاگ آئی۔۔۔ "
وہ معصومیت سے کہہ کر پھر سے رونا شروع ہوگئی۔ اس کی بات سن کر غلام رسول کی آنکھوں میں بھی نمی اتر آئی .
"اچھا آپ کا نام کیا ہے؟"
اس نے بچی سے پوچھا۔
" میری(Mary)"    
                               
                        ☆☆☆☆☆

"میں نے فیصلہ کر لیا ہے بس !!!"
غلام رسول نے ہاتھ اٹھا کر اپنے بڑے بیٹے کو خاموش کرایا۔
"میری اب یہیں رہے گی۔ وہ آج سے اس گھر کی بیٹی ہے۔۔۔۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو تم اس گھر سے جا سکتے ہو۔۔۔۔۔"
اس نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے بیٹوں کو جانے کا کہہ تو دیا لیکن دل کو دھڑکا بھی لگا ہوا تھا کہ اگر وہ واقعی چلے گئے تو ؟؟؟
احمد اور قاسم  دونوں ہی میری کو گھر میں رکھنے کے خلاف تھے۔                           
"بابا۔۔۔۔۔" غم کی زیادتی سے احمد کے منہ سے بس یہی نکلا۔
" آپ ایک ایسی لڑکی کے لئے جو عیسائی ہے۔۔۔۔   اوپر سے پتہ نہیں اس کے ماں باپ اس کو کیوں یتیم خانے چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔ ہمیں بے دخل کر رہے ہیں؟؟؟"
احمد نے خود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھا۔ اس کا اشارہ کس طرف تھا یہ غلام رسول اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔
"  مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔۔۔۔ تم بتاؤ کیا تم اسے اپنی بہن ماننے کے لئے تیار ہو؟؟؟"
"قطعا نہیں۔۔۔۔۔ لیکن ہم اسی گھر میں رہیں گے تب تک۔۔۔۔ جب تک ہم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوجاتے کیونکہ۔۔۔۔۔ یہ ہمارا شرعی حق ہے "
قاسم نے اپنی ماں کی طرف دیکھ کر کہا جو آنکھوں میں نمی اور التجا لئے ان سے نہ جانے کی درخواست کر رہی تھی۔
" جیسی تمہاری مرضی۔۔۔"
وہ کندھے اچکا کر میری کا ہاتھ پکڑے کمرے کی طرف چل دیا۔ خدیجہ نے بھی اپنے دونوں بیٹوں کو پیار کر کے کمرے کا رخ کیا۔ میری کو دیکھ کر اس کے دل میں بیٹی ہونے کی جو خواہش دبی ہوئی تھی وہ دوبارہ سر اٹھانے لگی تھی لیکن اب احمد اور قاسم کو کون سمجھاتا۔۔۔۔۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو غلام رسول ہاتھوں میں سر دیے بیٹھا تھا۔وہ آہستہ سے اس کے پاس آئی اور اس کے کندھے پر اپنا سر ٹکا دیا۔
" میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔"
اس نے دھیرے سے کہا۔
"وہاں اتنی چھوٹی بچی کو اکیلے چھوڑنا وہ بھی رات میں ۔۔۔۔مجھے مناسب نہیں لگا ۔۔۔۔۔"
اس نے سوئی ہوئی میری کی طرف دیکھ کر کہا۔
" بالکل ٹھیک کیا آپ نے۔۔۔"
خدیجہ نے نرمی سے اس کا ہاتھ دبایا اور سوئی ہوئی میری کو پیار کیا۔ غلام رسول کھل  کر مسکرا دیا.

                         ☆☆☆

غلام رسول نے اگلے ہی دن خدیجہ کے ساتھ یتیم خانے جا کر  میری کو ایڈاپٹ کر لیا تھا۔ وہ معصوم سی بچی انہیں اپنا ماں باپ ماننے لگی تھی اور وہ بھی اسے اپنے سگے بچوں  سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے ۔ اس کی معصوم باتیں سب کا دل موہ لیتی تھیں۔مگر نہ جانے کیوں احمد اور قاسم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔وہ ان کا بازو پکڑ کر کوئی فرمائش کرتی  تو وہ اسے جھڑک دیتے اور میری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ بچی تھی۔۔۔۔۔ جانتی نہ تھی کہ بھائیوں کی نفرت کے پیچھے کیا وجہ ہے۔۔۔۔۔ لیکن خدیجہ اور غلام رسول اس پر اپنا سارا پیار لٹا کر احمد اور قاسم کی نفرت کا اثر زائل کر دیتے تھے. احمد اور قاسم اسی بات سے نالاں تھے اور جیسے ہی انہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا۔۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ سے الگ ہوگئے۔وجہ بظاہر معمولی تھی ۔۔۔۔۔لیکن ان کے لیے بہت بڑی تھی ۔وقت تیزی سے گزرتا رہا۔۔۔۔۔ میری اسکول سے کالج میں چلی گئی ۔وہیں اس کی دوستی اقراء سے ہوئی .

Deewani (دیوانی)Where stories live. Discover now