سہے تھے کچھ درد ایسے کہ پھر یاد کچھ نظرانے آئے
ملے تھے جو تم سے راہ سفر میں
پھر گزری ہوئی شاموں کو سجاتے ہوئے آئے
بیٹھے ہیں آج تنہا اس ویرانے میں
تم دور کہیں سے یادوں کی شمع جلاتے ہوئے آئے
بہت انجان بنا لیا ہے اب نگاہوں کو
کسی طرح خود کو ان سے بچاتے ہوئے آئے
نہ سمجھ ہیں نادان ہیں
سب جانتے ہوئے بھی دلدار بناتے ہوئے آئے
نہ بدلا تو صدیوں میں بھی فارس
اس کے شہر میں شب غم گرازرتے ہوئے آئے
یلدا فارس
وہ جب تیار ہونے کے بعد نیچے آیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے قدم رک گئے۔وہ صوفے پر سمٹی سی بیٹھی سوچکی تھی۔وہ اس کے انتظار میں تھی مگر طویل انتظار اسے تھکا گیا تھا۔وہ اس کی منتظر تھی۔۔مگر وہ بے خبر تھا۔۔
چادر اوڑھے ہونے کے باوجود بھی اس کا یوں خود میں سمٹنا بتا رہا تھا کہ ٹھنڈ کا احساس اسے بےسکون کئے ہوئے ہے۔وہ اپنا موبائل کوٹ کی پاکٹ میں رکھتا واپس پلٹ گیا۔جلد ہی اس کی واپسی ہوئی تھی۔ہاتھ میں کمفرٹر اٹھائے اس نے اس کی جانب پیش قدمی کی ۔ کمفرٹر اس کے اوپر ڈالنے کے بعد پلٹنے لگا تو جانے کیا دل میں کیا سمائی کہ وہیں اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کچھ پل خاموشی سے صرف اس کے چہرے کو تکتا رہا۔
"ابیرہ۔۔کاش۔۔کاش۔۔تم ایک بار عہد وفا کر لو۔۔کاش تم ایک بار کہہ دو کہ تم اب کبھی بیچ راستے میں چھوڑ کر نہیں جاو گی۔۔اب سے تمہاری وفا کا حقدار سب سے پہلے میں ٹہروں گا۔۔تمہاری محبتیں ۔۔چاہتیں مجھ سے ہوتے ہوئے کسی اور تک پہنچیں گی۔۔"
اپنے ہاتھ کی پشت سے آہستہ آہستہ اس کا گال سہلاتے ہوئے وہ دل میں چھپی خواہشوں کو الفاط دیتے ہوئے اس کے چہرے کو یوں تک رہا تھا جیسے کوئی بچہ من پسند مگر دسترس سے دور چیز کو آنکھوں میں چمک اور اداسی کے ملے جلے تاثرات لئے تکتا ہے۔
"کیا میرا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ اس بار تم پہل کردو۔۔یقین جانو تمہارے بڑھے ہاتھ کو کبھی نہیں جھٹکوں گا۔۔فقط ایک بار۔۔ایک بار کہہ دو کہ تمہاری وفا سب سے پہلے میرے لئے ہے۔۔قسم کھاتا ہوں تمہارے قول کی سچائی کو برقرار رکھنے کیلئے تمہیں کبھی کسی امتحان میں نہیں ڈالوں گا۔۔"
مزید کچھ پل یوں ہی اپنی نظروں سے اس کا ہر نقش دل میں اتار نے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا اور پھر بغیر چاپ پیدا کئے باہر کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آنکھ چیزوں کے تسادم سے پیدا ہونے والی آواز پرکھلی تھی۔نوراں بوا اپنی جانب سے کافی احتیاط تو برت رہی تھیں مگر اتنی احتیاط کے باوجود بھی ڈیکوریٹڈ گلاس گلاس ٹیبل سے ٹکرانے پر آواز پیدا کرگیا تھا۔ اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے اردگرد کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔
YOU ARE READING
شبِ غم گزار آئے Shab E Gham Guzar aye
Fantasyنفرت کی راہ میں ڈگمگاتے ہوئے قدموں کی محبت کے دیس میں حاضری کی عکس بندی کرنے کی کوشش کی گئی ہے.. بار بار دھتکارے جانے پر بھی اک ہی در پر خود کو کھڑا پانے کی اک داستان.. مشکلات میں ہاتھ جھٹک جانے والوں کے لوٹنے کی داستان.. میر زرار علی کے دکھ سے ابیر...