بحث کے بعد وہ سٹڈی روم میں چلا گیا اور ابیرہ کمرے میں ۔کچھ گھنٹوں کے بعد جب وہ خود کو سمیٹنے میں کامیاب ہوگیا تو کمرے کی جانب چلا آیا۔
ہمارے ارد گرد جانے کتنے ہی لوگ خود سے روز کتنی ہی جنگیں لڑرتے ہیں مگر ہم انجان رہنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم محض قیاس پر چلنے والے لوگ ہیں۔جو دکھا دیا گیا اسی پر قیاس کیا اور اسی کو لے کرچلتے رہے اس بات سے بے خبر کہ ہم نے وہی گمان کیا ہے جو سامنے والے نے گمان کروانا چاہا ہے ۔
کسی کی مضبوط شخصیت کے پیچھے چھپے بکھرے پن کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔اپنی ذات سے باہر نکل ہی نہیں پاتے یا شاید نکلنا نہیں چاہتے۔سمجھ ہی نہیں پاتے کہ۔۔ عین ممکن ہے ہمارے علاوہ بھی کوئی آزمائش سے گزر رہا ہو۔۔ مضبوط نظر آنے والا شخص ذاتی زوال کی انتہا پر ہو۔۔ممکن ہے وہ اپنے ہر غم کو پس پشت ڈال کر مدت ایام کو گزارنے کے چکر میں ہو۔۔
نہ تو خوشیاں بکھیرتا ہر چہرہ خوش ہوتا ہے اور نہ ہی زندگی جینے والا ہر شخص زندگی کی چاہ میں ۔
چہرے بھی رازونیاز کرتے ہیں ۔۔
خاموشی سے لمبی مسافتوں کی داستان بیان کرتے ہیں۔۔
عزہ اقبال
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو ابیرہ اپنے بازو پر اؤئنٹمنٹ لگا رہی تھی ۔اس کی نظر ان ذخموں پر پڑی جو کچھ دیر پہلے ہی اس نے اسے دئے تھے تو ناچاہتے ہوئے بھی لہجہ نرم پڑ گیا۔
"اب کیسا ہے زخم۔۔" وہ آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس آگیا ۔
"کن زخموں کی بات کر رہے ہیں۔۔ جسمانی زخم یا جو روح پر آئے ہیں۔۔؟ اگر جسمانی کی تو اب تک مجھے ان کی عادت ہوجانی چاہیے۔۔ ہاں روح کے زخموں سے پیپ ابل رہا ہے۔۔" آنسوؤں نے اس کے چہرے کو پھر سے بھگو دیا تھا۔
"یہ کارڈ ہے۔۔کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اسےاستعمال کرلینا۔۔" زرار نے اس کے سامنے کاڑڈ رکھ دیا۔
" مسٹر میر زرار علی ان ذخموں پر اپنے پیسوں کا مرحم رکھنے آئے ہیں ۔۔ یا یہ بتانے کہ مجھے اب اسی زلت کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اور پھر آپ کے آگے ہی ہاتھ پھیلانے ہیں۔"
وہ جاتے جاتے رک گیا۔اس نے اس کو تکلیف پہنچائ تھی اتنی سی سننا تو بنتا تھا۔چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ ابیرہ نے نفرت سے نظریں پھیر لیں جس پر وہ تلخ سا مسکرا دیا۔
" ہر بار۔۔ ہر بار ہونہی نظریں پھیر لیتی ہو۔۔ "
اس نے اک سرد آہ بھری۔
" ابیرہ۔۔ تم نہیں جانتی میں کس تکلیف سے گزر رہا ہوں ۔۔ میں نے بہت مشکل سے اپنے اندر کے شیطان کو سلایا ہے۔ جو روز مجھے بدلے کیلئے اکساتا ہے، میں اس سے لڑ لڑ کر تھک رہا ہوں۔۔ مجھے مجبور نہ کرو کہ میں اپنے اندر کے شیطان کے سامنے ہار جاؤں اور پھر ہمارے پاس جو بچ گیا ہے اسے بھی ہار دیں۔۔"
YOU ARE READING
شبِ غم گزار آئے Shab E Gham Guzar aye
Fantasyنفرت کی راہ میں ڈگمگاتے ہوئے قدموں کی محبت کے دیس میں حاضری کی عکس بندی کرنے کی کوشش کی گئی ہے.. بار بار دھتکارے جانے پر بھی اک ہی در پر خود کو کھڑا پانے کی اک داستان.. مشکلات میں ہاتھ جھٹک جانے والوں کے لوٹنے کی داستان.. میر زرار علی کے دکھ سے ابیر...