کال کے دوران وہ گاڑی سے اتر کر گیٹ کے سامنے آچکا تھا۔ اندر آنے کے بعد سب سے علیک سلیک کرچکا تو بوا کے پاس چلا آیا اور ابیرہ کی بابت پوچھا۔ بوا کے بتانے پر کہ وہ اس کے کمرے میں ہے لب بلآختیار ہی پھیل گئے۔وہ وہاں سے سیدھا اپنے کمرے کی جان بڑھ آیا۔جب سے وہ اپنے گھر منتقل ہوا تھا شاید ہی کوئی ایک سے دو بار یہاں رکا ہو گا۔۔وہ وہاں نہیں رکتا تھا اس کے باوجود بھی تہمینہ اس کے کمرے کو ہمیشہ تیار رکھتی تھیں جیسے وہ وہاں رہتا ہو۔
بغیر دستک دئے آہستہ سے دروازہ کھولتے وہ اندر آگیا۔ابیرہ سامنے ہی کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔اس کے بال زیادہ لمبے نہیں تھے بس کندھوں سے تھوڑا سا ہی نیچے تھے۔بالوں کو باندھنے کی زحمت وہ کبھی کبھی ہی کرتی تھی۔۔ابھی بھی ویسے ہی کھلے چھوڑے انہیں پچھلی جانب پھیلائے ہوئے کھڑی تھی۔
زرار آہستہ سے چلتا ہوا اس کے ساتھ آکھڑا ہوا۔۔پھر تھوڑا سا جھکتے ہوئے خود کو اس کے کان کے مزید قریب کیا۔
"ویسے اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو میں کہتا کہ محبت ہوگئی ہے۔۔"
اس نے نظریں اٹھانے کی جسارت نہیں کی۔ اپنے ساتھ کھڑے شخص کی ذات کے متعلق گمان کرتے کرتے وہ خود الجھنے لگی تھی۔ اس کو ان سوالات کا جواب نہیں مل رہا تھا جنہوں نے دماغ کو الجھا رکھا تھا۔اس کا دل اس سے اسی سوال کا جواب طلب کرتا محسوس ہورہا تھا کہ کیسے ممکن ہے جس انسان نے کبھی کسی سے محبت نہ کی ہو اس کی آنکھیں محبت کے نام پر یوں چمکنے لگیں ۔ اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو کسی بھی انسان کو اس کی طرف کھچنے پر مجبور کرسکتا تھا اور اب اسے بھی مجبور کرنے لگا تھا۔
"مگر یہاں تم ہو۔۔ ابیرہ شفاقت ڈاٹر آف شفاقت علی۔۔جو کسی سے بلاوجہ نفرت تو کرسکتی ہے مگر محبت نہیں۔۔"
وہ اسے کوئی جواب کیوں نہیں دے رہی تھی۔اس کی جوابی حملے اسے بھاتے تھے۔۔مگر اب سامنے ٹہرے پانیوں سا سکون تھا۔
"میں نیچے انتظار کررہا ہوں جلدی سے آجاؤ۔۔" اس نے قدم نہیں اٹھائے۔۔جیسے منتظر تھا اس کے کچھ کہنے کا۔
"کدھر۔۔" اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
پھر جلد ہی تصیح کی جو کہ اس سے بھی غلط ثابت ہوئی" کس لیے۔۔مطلب کیوں۔۔"
"کدھر۔۔ ؟ " وہ بے ساختہ اس کے جملے پر ہنسا ۔
" ایک دن میں ہی بھول گئی کہ تمہارا اصلی گھر کون سا ہے۔۔۔ "
"کاش میں بھول پاتی۔۔" وہ آہستگی سے بڑبڑائی۔
" مگر آپ نے کہا تھا کہ میں یہاں رک سکتی ہوں ۔۔"
"ہاں اور اب میں ہی کہہ رہا ہوں کہ گھر چلو۔۔ ویسے میں تمہارے کیوں کا جواب دے تو دوں۔۔ مگر تم مانو گی نہیں۔۔" فیصلہ سامنے والے پر چھوڑا گیا تھا چاہے تو پوچھ کر الجھن کی وادی میں اتر جائے اور چاہے تو انجان رہ کر بے سکونی میں جیتی رہے۔
YOU ARE READING
شبِ غم گزار آئے Shab E Gham Guzar aye
Fantasyنفرت کی راہ میں ڈگمگاتے ہوئے قدموں کی محبت کے دیس میں حاضری کی عکس بندی کرنے کی کوشش کی گئی ہے.. بار بار دھتکارے جانے پر بھی اک ہی در پر خود کو کھڑا پانے کی اک داستان.. مشکلات میں ہاتھ جھٹک جانے والوں کے لوٹنے کی داستان.. میر زرار علی کے دکھ سے ابیر...