قسط نمبر ١٣

2.5K 135 122
                                    

ماضی:

ہم مشرقی لوگ جتنی بھی ترقی کرلیں مگر بیٹیوں کے معاملے میں ہماری حساسیت کو نہ تو پیسہ بدل سکتا ہے نہ ہی رتبہ۔ہر باپ اپنی بیٹی کیلئے ویسے ہی حساس ہوتا ہے جیسے ایک مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس باپ۔کچھ رشتے کا اثر ہے اور کچھ معاشرے کی منافقت کا کہ بیٹی کے ہر بڑھتے قدم کے ساتھ جہاں باپ پھولے نہیں سماتا وہیں دل خوف کے ٹھاٹے مارتے سمندر میں ڈولنے لگتا ہے۔کیونکہ وہ اپنی بیٹی کی عزت کا خود کو امین سمجھتا ہے ۔وہ محافظ ہوتا ہے۔۔سوال ہمیشہ محافظ سے ۔۔کفیل سے کیا جاتا ہے۔۔رعایہ کبھی جواب دہ نہیں ہوتی۔ مگر حکمراں ہوتا ہے۔

ہم بھی بڑے عجیب ہیں۔۔محبوب کی بیڑیوں میں قید کسی پروانے کی سی صورت جل کر راکھ ہونے کو تیار ہوتے ہیں مگر اس باپ کا اک حکم۔۔اک خواہش۔۔یا پھر اک التجا پر سر جھکانے کو نہیں جو بغیر کسی غرض کے اپنی زندگی دیان کردیتا ہے۔۔بیٹی اور باپ کا رشتہ تو احترام کا تھا۔۔احساس کا تھا۔۔جس میں باپ اولاد کا احساس کرتے اپنی جان مار دیتا تھا ۔۔اور پھر اولاد والدین کا احساس کرتے ان کی خواہشات کا احترام کرتی تھی۔۔جہاں کبھی والدین نے اپنی خوشیاں واری ہوتیں وہیں اولاد ان کے کہے پر اپنے ارمان نچھاور کردیتی ۔مگر معاشرے کی سنگینی نے احساس کا رس چوس لیا ۔اولاد اور والدین کو مدمقابل لا کھڑا کیا۔جہاں پہلے احساس۔۔محبت تھی ۔۔ وہاں اب طعنہ زنی۔۔شکوےشکایات۔۔خودغرضیاں۔۔ اور محض حقوق رہ گئے۔۔فرائض۔۔فرائض تو کہیں جا سویے۔۔

نہ اولاد والدین کے دل پر حاوی ہوتے خوف کو دیکھ پا رہی ہے اور نہ ہی والدین اولاد کے گرد بڑھتی گھٹن کو محسوس کر رہے ہیں۔اک وقت آئے گا جب والدین کو اپنی قربانیاں یاد رہیں گی اور اولاد کو اپنے تقاضے۔۔کچھ یاد نہیں ہوگا تو وہ احساس کی مٹھاس۔۔

اس نے ماسٹرز باہر جاکر کرنے کی رٹ لگائی تو صبحانی صاحب نے بھی انکار نہیں کیا۔وہ اپنی بیٹی کی آرزو کی کو اپنے خوف کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے تھے۔۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کی چمکتی آنکھیں کبھی ماند پڑجائیں۔ ان سب باتوں کے بعد زرار بھی اس کی حمایت پر اتر آیا تو انکار کی کوئی وجہ ہی نہ بنی ۔وہ بغیر کسی بیساکھی کے زندگی کو تلاشنا چاہتی تھی جگہ اس کیلئے اہم نہیں تھی۔ دیس کے حوالے سے صبحانی صاحب نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو وہ بھی مان گئی۔انہوں نے اپنی بیٹی کا مان رکھا اور بیٹی نے ان کا۔ملک آسٹریلیا اور شہر میل بورن کا انتخاب صبحانی صاحب کا تھا اور مکان اور جگہ کا اس کا۔ آسٹریلیا میں حیدر صاحب تھے تو انہوں نے نورالعین کو آسٹریلیا جانے کی اجازت دے دی۔

جیسے جیسے فاصلے کم ہوتے دکھائی دے رہے تھے امیدیں بڑھتی جارہی تھیں۔جب وہ رخصت ہوا تھا تو اس عہد کے ساتھ ہوا تھا کہ وہ لوٹ کر ضرور آئے گا۔اور یہ اقرار کرکے گیا تھا کہ وہ اپنا دل اس کے پاس چھوڑ کر جارہا ہے۔انائونسمنٹ ہوئی تو دھڑکنوں کی رفتار تیز ہوگئی۔اس نے اپنی سیٹ بیلٹ کھولتے خود سے ہم کلامی کی "تم بھی پاگل ہو نور۔۔لوگ تو دو منٹ پہلے کئے وعدے کا پاس نہ رکھیں اور تم۔۔تم برسوں پہلے اس کے کئے گئے مزاق کو کہاں سے کہاں لے گئی۔۔" جب قریبا سبھی لوگ نکل گئے تو وہ بھی اپنا ہینڈ بیگ بازو میں ڈالتے ایگزٹ ڈور کی جانب بڑھ گئی۔

شبِ غم گزار آئے Shab E Gham Guzar ayeWhere stories live. Discover now