قسط نمبر 11

2.7K 164 179
                                    

پچھلے تین دن سے وہ اپنے کمرے میں ہی تھی۔اس نے کسی سے بات کرنے کی یا ملنے کی زحمت نہیں کی۔شفاقت صاحب بھی خود اس سے ملنے اس کے کمرے میں آجاتے تو ٹھیک ورنہ وہ اکیلی بیٹھی رہتی۔ وہ زمین پر بیٹھی بیڈ سے ٹیک لگائے ہوئے ابھی بھی سوچوں کے سمندر میں اتری ہوئی تھی۔وہ انعم کی حالت کا سوچ سوچ کر سارا دن خود کو کوستی رہتی اور یونہی دن تمام ہوجاتا۔اس بار تو اسے بھی ان کی عادت ہوگئی تھی۔ پہلی بار اس نے ماں سی چاہت ۔۔محبت کو محسوس کیا تھا۔

اس نے سیدھے ہوتے ہوئے اپنے ساتھ ہی زمین پر پڑا موبائل اٹھایا اور اس پر نمبر ملانے کے بعد کان کو لگا لیا۔

ایک منٹ سے بھی کم کی بات کے بعد وہ فون سائیڈ پر رکھتی پھر سے بیڈ کی پشت کے ساتھ سر ٹیک گئی۔

"کاش ابیرہ۔۔کاش تم خود پر تھوڑا اور جبر کرلیتی تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔۔ایک بار پھر جانے انجانے میں تم ان کی تکلیف کا باعث بن گئی ۔۔تم اتنی جزباتی کیسے ہوگئی۔۔" خود سے سوال کرتی وہ ماضی میں اتر گئی۔

ماضی:

اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا تب سے ننھیال کے نام پر صرف اپنے ایک ماموں کو ہی پایا تھا جو اس سے ملنے آتے رہتے تھے۔اگرچہ شفاقت علی کو کسی صورت صبحانی صاحب کا یوں وہاں آنا اور ابیرہ سے ملنا، اس کیلئے تحائف لانا کسی صورت پسند نہیں تھا جس کا اظہار وہ اپنے رویے سے کرتے رہتے تھے اور یہ بات ابیرہ بھی محسوس کرتی تھی لیکن اس نے کبھی اتنی سی بات کیلئے اپنے باپ کے ساتھالجھنا مناسب نہیں سمجھا۔صبحانی صاحب کی یقین دہانی یا پھر اس بار ان کی دھمکی نے ان کو روک دیا تھا ۔یہ ان کی دھمکی کا ہی شاید اثر تھا کہ انہوں نے صبحانی صاحب کو اپنے گھر آنے اور ابیرہ کے ساتھ ملنے سے منع نہیں کیا۔مگر صرف اتنی اجازت تھی کہ وہ مہینےمیں ایک آدھ بار اس سے ملنے آسکتے ہیں ۔۔

شفاقت علی نے ظلم کیا تھا اور ظلم انسان کو اپنی ذات کے اندر خوفزدہ کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہورہا تھا۔اپنے ظلم کی داستاں عام ہونے کا خوف انہیں ڈرا رہا تھا۔کئی سالوں سے جو وہ اپنی بیٹی کی نظروں میں خود کو معتبر دیکھتے آئے تھے اب انہیں اس رتبے کو کھونے کا خوف لاحق رہنے لگا تھا۔

صبحانی صاحب کو اس سے ملنے کی اجازت مل گئی یا انہوں نے زبردستی لے لی ۔وہ اسی بات پر صبر کا دامن تھام گئے کہ جب وہ بڑی ہوگی ۔۔سوال جواب کرنے کے اہل ہوگی۔۔جب اس کو رشتوں کی کمی محسوس ہونے لگے گی تو وہ اپنے باپ سے ضرور کہے گی۔

بچپن سے اس کے اندر اک ہرک تھی ۔اک محرومی تھی مخلص رشتوں کے نہ ہونے کی ۔۔اپنی ماں سے وابستہ لوگوں سے دوری۔۔سکول میں جب اس کی دوستیں اپنی چھٹیوں کا بتاتی تو اس نے اکثر کو یہی کہتے پایا کہ وہ چھٹیوں میں اپنے ننھیال جائیں گے۔دل میں خواہش ہونے کے باوجود بھی وہ خآموش رہتی کیونکہ وہ اپنے باپ کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔لیکن جب وہ کالج میں آئ اور عمر کے اس حصے میں پہنچی جہاں عقل کی کمی اور خواہشات کی زیادتی ہوتی ہے تو اس نے بھی اس کا بھرپور مظاہرہ دکھایا۔

شبِ غم گزار آئے Shab E Gham Guzar ayeWhere stories live. Discover now