دو دن پہلے۔۔۔۔۔۔
ہر سو اندھیرا تھا۔۔۔صرف چاند کی روشنی تھی۔۔۔
کتوں کے بھونکنے کی آواز چاروں طرف سے آرہی تھی۔۔۔
گہرا جنگل اور اس میں کوئی بھاگ رہا تھا بکھرے ہوئے بال جو بار بار اس کے چہرے پر آ رہے تھے۔۔۔۔
وہ ذےروح بار بار گبھرا کر پیچھے دیکھ رہا تھا۔۔۔جیسے خوف ہو کہ کوئی اسے پکڑ لے گا۔۔۔۔
بچاو۔۔۔۔کوئی ہے۔۔۔۔بچاو مجھے۔۔۔۔لڑکی چیختے ہوئے بھاگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔تھک کر ایک درخت کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔۔۔اچانک کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔کہیں سے روشنی آئی اور اس لڑکی کا چہرہ نظر آیا۔۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔
ا۔۔۔۔یمان۔۔۔۔۔۔مزمل چیختا ہوا اٹھا۔۔۔۔۔کمرہ اندھیرے
میں ڈھوبا ہوا تھا۔۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔
فجر کی آواز آئی۔۔۔۔
یااللہ یہ کیسا خواب تھا۔۔۔۔مزمل کا پورا وجود پسینے میں ڈھوبا ہوا تھا۔۔۔۔مزمل نے کھڑکی سے آسمان میں چمکتے ہوئے چاند کو دیکھا۔
"ایمان"۔۔۔۔
مزمل نے زیر لب کہا۔۔۔۔اور اپنے ہاتھ کو بال میں پھیرا۔
بچاو۔۔۔۔کوئی ہے۔۔۔بچاو۔۔۔ایمان مسلسل خواب میں کسی کو پکار رہی تھی۔۔۔۔
ایمان میری جان ہوش کرو۔۔۔۔سمیہ بیگم نے ایمان پر کچھ پڑھ کر پھونکا۔۔
ایمان کل سے ہوش وحواس سے بیگانہ تھی۔۔۔۔۔
یااللہ میری۔۔۔۔بچی پر رحم کر۔۔۔۔میں بہت مجبور ہوں میرے مالک۔۔۔۔۔میری مدد کر۔۔۔سمیہ بیگم نے روتے ہوئے اپنے رب سے فریاد کی اور جھک کر بےچین ایمان کے دھکتے ہوئے ماتھے کو چوما۔۔۔۔۔
_________________________
غفار صاحب آپ کب تک عروج سے یہ سب چھپائے گیں۔۔۔۔فرحت بیگم نے غفار کو دوائی دیتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا۔۔۔
کیا ہو گیا ہے بیگم۔۔۔۔۔جب تک میری زندگی ہے تب تک میری سانسیں چلنی ہیں تم کیوں ہلکان کرتی ہو خود کو۔۔۔
غفار صاحب نے پرسکون لہجے میں کہا۔۔
آپ میری بات کبھی نہیں سنتے۔۔۔کہا بھی ہے باہر سے علاج کروا لیتے ہیں۔۔۔آپ کی بیماری اتنی بھی بڑی نہیں ہے۔۔۔
میں جانتا ہوں تمہیں میری کینسر کی بیماری بھی چھوٹی لگتی ہے۔۔۔۔مگر میرے پاس اب وقت تھوڑا ہے میں چاہتا ہوں کہ عروج کی شادی کردوں۔۔بڑی ہو گئی ہے اور میں جانتا ہون میری بیٹی بہت سمجھدار اور ہمت والی ہے سب سنبھال لے گی۔۔۔۔
غفار صاحب نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
آپ۔۔۔۔کو۔۔۔یہ۔۔سب اتنا آسان لگتا ہے۔۔۔۔بس میں اب یہ حقیقت عروج سے نہیں چھپاوں گی۔۔۔فرحت بیگم نے روتے ہوئے کہا۔
جب تک میری زندگی ہے تب تک عروج کو کچھ نہیں بتاو گی یہ میرا حکم سمجھ لو یا میری وصیت سمجھ لو۔۔۔اب غفارصاحب نے غصے سے کہا اور سائڈ لمپ بند کر دیا۔۔۔۔۔
فرحت بیگم روتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔
یہ سلسلہ پچھلے دو مہینوں سے چل رہا تھا مگر ہر بار غفار صاحب عروج کو اپنی بیماری کا بتانے سے منا کر دیتے تھے شائد وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی جان سی پیاری بیٹی کو ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
_____________________________
بابا سائیں اس زمین والے مسلے کا کیا حل ہوا۔۔۔۔زبیر خان نے ناشتہ کرتے ہوئے دراب خان سے پوچھا۔۔۔
اکبر نے کہا کہ وہ سنبھال لے گا۔۔۔یہ کوئی خاص مسلہ نہیں ہے۔۔۔دراب خان نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
چھوٹے خان تم کب تک واپس آرہے ہو۔۔۔مزمل جو ناشتہ کھانا کھانے میں مگن تھا دراب خان کی آواز سے ہوش میں آیا۔۔
بابا سائیں ابھی تو میرا کام شروع ہوا ہے۔۔۔۔
کیا مطلب تم شہر رہو گے۔۔۔۔۔۔دراب خان نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
بابا ابھی کچھ وقت میں وہیں رہوں گا پھر آجاوں گا۔۔۔۔۔۔مزمل نے نپکن سے منہ صاف کرتے ہوئےکہا۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہوگا میں رخصتی جلدی چاہتا ہوں۔۔۔۔۔اپنا کام جلدی سمیٹو۔۔۔۔۔۔۔اب میں کوئی بہانا نہیں سنوں گا۔۔۔۔۔۔دراب خان نے کہتے ہوئے چائے کا گھونٹ پیا۔۔
ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔۔مزمل کچھ کہنے ہی والا تھا فون کی آواز سے خاموش ہو گیا۔۔۔
اسلام علیکم!۔۔۔۔۔کیاااااا۔۔۔۔۔تم لوگوں کو کوئی ہوش ہے۔۔۔مزمل غصے سے کہتا ہوا ٹیبل سے اٹھا۔۔۔
اللہ خیر کرے۔۔۔سلمہ بیگم نے گبھراتے ہوئے کہا۔۔۔
دراب خان نے بھی مزمل کی طرف حیرانگی سے دیکھا جو ان کی موجودگی میں یوں کسی سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔ورنہ آج تک مزمل نے دراب خان کے سامنے اونچے لہجے میں کسی سے بات نہیں کی تھی۔۔
تم لوگوں سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔میں آرہا ہوں۔۔۔مزمل نے کہتے ہوئے گاڑی کی چابی اپنی جیب سے نکالی۔۔۔
خیر تو ہے چھوٹے خان۔۔۔زبیر نے مزمل کے روکتے ہوئے پوچھا۔
خیریت نہیں ہے لالہ شہر جانا ہوگا۔۔۔مزمل نے پریشانی سے کہا۔۔
ابھی تو آئے ہو یار۔۔۔زبیر نے افسوس سے کہتے ہوئے مزمل کو گلے لگایا۔
لالہ جانا ضروری ہے ورنہ کبھی نا جاتا۔۔۔
کیا ہوا ہے خان۔۔۔۔۔۔دراب خان نے مزمل کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
معزرت بابا سائیں کمپنی میں مسلہ ہو گیا ہے اور اس وقت سعاد بھی نہیں ہے تو مجھے جانا ہوگا۔۔۔مزمل نے آگے ہو کر دراب خان کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا
جاو برخودار خیر سے جاو۔۔۔۔دراب خان نے مزمل کو کندھا تپتپاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مزمل سلمہ بیگم کے پاس آیا اور گھٹنوں کے بل ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔۔
بہت تنگ کرتے ہو چھوٹے خان اب اس بوڑھے جسم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہارا انتظار کرتی رہوں۔۔۔۔۔سلمہ بیگم نے اپنی جھلیوں والی ملائم مامتا سے بھری ہتھیلی کو مزمل کے چہرے پر پھیرتے ہوئے نم آنکھوں کے ساتھ کہا۔۔
اماں جان اگلی بار آوں گا تو آپ کے سارے گلے ختم کر دون گا۔۔۔اب مجھے دعا دیں تاکہ میرا سفر اچھا ہو سکے مزمل نے مسکراتے ہوئے کہا سلمہ بیگم نے ہتھیلی کو چوما۔۔
جا میرے پتھر اللہ تیرے دل کی ہر مراد تیرے قدمون میں بچھا دے۔۔۔سلمہ بیگم نے مزمل کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
مزمل سب سے مل کر پورچ میں آیا اپنی گاڑی میں سوار ہوا اور واپسی کی منزل پر گامزن ہو گیا جو شاید اس کی زندگی کی سب سے خوبصورت منزل بنے والی تھی
_______________________________
امی پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔۔میں۔۔۔سب۔۔۔کچھ۔۔۔قربان کر سکتی۔۔۔ہوں۔۔۔لیکن۔۔۔ اپنے۔۔۔بابا۔۔کا خواب قربان نہیں سکتی ہوں۔۔۔ایمان نے ہچکی کے ساتھ روتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ایمان کو ابھی ہوش آیا ہی تھا تو اسے معلوم ہوا کہ اختر نے اس کی پڑھائی بند کر دی ہے مگر وہ پھر بھی کالج سے رول نمبر سلپ لانے کی ضد کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
نہ کرو خود پر ظلم میری بیٹی۔۔۔۔سمیہ بیگم سے اپنی بیٹی کا غم دیکھا نہیں جاریا تھا ان کی خود کی آنکھوں سے بھی اشک رواں تھے انھوں نے ایمان کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
امی۔۔۔مجھے لگتا ۔۔۔۔۔میرے ۔۔۔۔۔دل۔۔۔بند ہو جائے گا۔۔مجھ سے یہ درد برداشت نہیں ہو گا میں نے کسی کے ساتھ کیا کیا ہے جو میرے ساتھ اللہ نے ایسا کیا۔۔۔۔۔میں نے تو کبھی کسی غیر مرد سے بات نہیں کی ہمیشہ خود کو بچا کر رکھا مگر اللہ نے میرے کردار کی حفاظت نہیں کی۔۔۔ کیوں امی۔۔۔کیوں۔۔۔امی۔۔
ایمان نے سسکیوں کے ساتھ سمیہ بیگم کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پلیز۔۔۔آپ دعا کریں نہ امی اللہ مجھ سے میری سانسیں لے لے۔۔۔۔۔۔مجھ سے یہ بوجھ برداشت نہیں ہوگا۔۔۔۔
بس کرو میری جان اللہ سے شکوہ نہیں کرتے۔۔۔وہ ناراض ہو جاتا ہے۔۔۔۔ہمیں تو ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔
سمیہ بیگم کو ایمان کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
مگر امی۔۔۔۔اس سے پہلے ایمان اپنی زبان سے کوئی اور شکوہ کرتی سمیہ بیگم نے اس کی بات بیچ میں کاٹ دی ۔۔۔۔
بس باقی باتیں بعد میں چلو اٹھو تم جاو کالج۔۔۔۔۔ورنہ لیٹ ہو جاو گی۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی پیپر دے گی میں اختر سے خود بات کر لوں گی ابھی تمہاری ماں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ تمہارے کردار کی گواہی دے سکے۔۔۔سمیہ بیگم نے ایمان کے آنسو صاف کرتے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ایمان نے بے یقینی سے سمیہ بیگم کی طرف دیکھا۔
سچ۔۔۔میں۔۔۔امی۔۔۔ایمان نے بے دردی سے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔۔
ہاں۔۔۔میری جان۔۔جاو۔۔۔۔مگر جلدی واپس آجانا۔۔
جی امی۔۔ایمان خوشی سے اٹھی چادر میں خود کو لپیٹا اور گھر سے نکل گئی۔۔۔۔۔۔
_ _________________________
مزمل تیزی سے آفس میں داخل ہوا تو ساری ورکرز نے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر مزمل کو سلام۔۔
مگر مزمل رکا نہیں اور سیدھا اپنے آفس میں گیا اور ساری جگہ فائل کو ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔
کہا جا سکتی ہے فائل۔۔۔مزمل نے پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔۔۔
وہ فائل تو۔۔۔۔کالج۔۔۔کالج۔۔
شٹ میں کیسے بھول گیا۔۔۔مزمل نے ٹیبل پر ہاتھ مارا اور گاڑی کی چابی لے کر آفس سے باہر آیا۔۔
سر۔۔۔مزمل کو پیچھے آواز آئی۔
سر میٹنگ کیا کروں۔۔۔۔آئلہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
مس آئلہ کچھ بھی کر کہ کل کی میٹنگ فکس کرواو۔۔۔۔مزمل نے کہتے ہوئے مڑا۔
لیکن سر فائل۔۔۔۔
یہ میرا مسلہ ہے۔۔۔مزمل کہتے ہوئے پارکنک کی طرف چلا گیا۔
__ _____________________________
![](https://img.wattpad.com/cover/275182299-288-k83584.jpg)
YOU ARE READING
Mehram by Tahreem Farooq
Fanfictionزندگی تو بہت ہلکی پھلکی ہے بوجھ تو سارا خواہشات کا ہے۔۔❤❤ محرم از تحریم فاروق پہلے تو میں اپنا تعارف کروا دیتی ہوں میرا نام تحریم ہے اور یہ میرا پہلا ناول ہے۔ کہانی ہے کئی کرداروں کی۔ جو اپنی اپنی الگ اہمیت رکھتے ہیں۔ تو بس ریلکس ہو کر ہمت سے پڑ...