قسط نمبر 12:
عروج!۔۔۔سعاد نے فاطمہ کو گھر چھوڑنے کے بعد عروج کو ایمان اور مزمل کی ساری کہانی بڑے ڈرامیٹیکلی انداز میں سنائی پھر اک نظر عروج کو دیکھا جو یوں لگ رہا تھا کہ ابھی رو دے گی۔
تم رو نہ مزمل بہت اچھا لڑکا ہے اللہ کو یہی منظور تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔۔۔سعاد نے مسنوئی ہمدردی سے کہا۔۔
اسے یوں لگ رہا تھا کہ عروج ایمان کیلیے پریشانی میں ابھی رو دے گی۔
پیچھے ہٹو۔۔۔روئے میرے دشمن یہ تو خوشی کے آنسو ہیں ایمان نے جتنا کچھ سہا ہے اور جتنا صبر کیا ہے اسے سر مزمل جیسا پھل ہی ملنا چاہیے تھا۔
عروج نے سعاد کے ہاتھ کو جھکٹتے ہوئے کہا جو اس کے کندھے تک رسائی کرنے ہی والا تھا۔
مجھے یقین ہے سر مزمل ایمان کو لے آئیں گے سہی سلامت انشاءاللہ۔۔۔اب تو بس میری اک ہی دعا ہے۔۔۔
سعاد نے تعجب سے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کیا۔۔۔
یااللہ جیسے تو نے ایمان کو اس کے صبر کا پھل دیا ہے مجھے بھی میرے صبر کا پھل دے دے۔۔۔۔
عروج نے کہتے ہوئے دعائی انداز مین ہاتھ اٹھائی اور چہرے پر ہاتھ پھیر لیے۔
ہاہاہاہا۔۔۔سعاد کا بےساختہ قہقہ گاڑی میں گونجا۔
عروج نے ظنزیہ گھوری سے سعاد کو دیکھا۔
سوری سوری۔۔۔سعاد نے کہا مگر اپنی ہنسی کو روک نہ سکا۔۔۔
جتنا تم نے صبر کیا ہے نا اتنے میں، میں ہی ملوں گا اور جلد ہی تمہارا انتطار ختم کردوں گا۔۔سعاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
تم تو ہو ہی فضول آدمی عروج نے غصے سے کہتے ہوئے گاڑی سے نکلتے گھر کی طرف چلی گئی۔
فضول شخص۔۔۔عروج کہتے ہوئے اپنے گالوں پر ہاتھ رکھا جو یقینا بلش کر رہے تھے۔۔۔
سنو!۔۔۔۔
سعاد نے گاڑی سے نکلتے آواز لگائی۔۔
عروج نے گیٹ سے مڑ کر دیکھا۔
بلش کرتی پیاری لگتی ہو۔۔۔سعاد نے کہتے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
عروج مسکراتے ہوئے واپس مڑی اور اندر چلی گئی۔۔
●●●●●●●●●●●
محبت بھی اک تحفہ ہوتی ہے
ملتی تو سب کو ہے
مگر زندگی بھر اس کا ساتھ
کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے
(●بقلم تحریم فاروق)خان!۔۔۔ایمان نے اپنے سلب ہوتے ہواسوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
ایمان!۔۔۔مزمل نے آواز دی اور گہری سانس بھرتے ہوئے آگ میں لپٹا ہوا دروازہ نیچے گرا دیا سامنے کا منظر مزمل کی جان فنا کرنے کیلیے کافی تھا۔
ایمان رسیوں میں جکڑی زمین بوس تھی۔
ایمان آنلھیں کھولو!۔۔۔مزمل نے آگے بڑھ کر ایمان کو تھامتے ہوئے کہا اور باہر کا راستہ ڈھونڈنے لگا۔
●●●●●●●●●●
مزمل اٹھو نماز پڑھنے چلتے ہیں۔۔۔نرس پاس ہے ایمان کے اور ڈاکٹر سے بھی مل کر آیا ہوں میں ایمان خطرے سے باہر ہے اب۔۔۔زبیر نے مزمل کو ایمان کے پاس سے اٹھاتے ہوئے کہا جو کل رات سے وہی بیٹھا ایمان کو تکے جا رہا تھا۔
ہممم۔۔۔آپ چلیں میں آرہا ہوں۔۔۔مزمل نے خود کو ہوش دلاتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے۔۔۔زبیر کہتا باہر چلا گیا۔
ایمان اٹھ جاو اب میں تھک گیا ہوں ۔۔۔۔۔مزمل نے بےبسی سے کہا۔۔۔
کچھ دیر تم سے باتیں کرنا چاہتا ہوں اپنے دل میں چھپے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ۔۔۔مزمل نے ایمان کے ہاتھ کو تھاما۔۔۔تمہیں بتانا چاہتا ہوں تم چھوٹی سی جان میری مکمل جان بن گئی ہو۔۔مزمل کہتے ہوئے اٹھا ایمان کا ماتھا چوما اور نماز کیلیے نکل گیا۔
●●●●●●●●●●●
سعاد جلدی کرو ہمیں نکلنا بھی ہے۔۔۔فاطمہ نے ہوسپیٹل لے جانے کیلیے ناشتہ تیار کرتے ہوئے کہا۔
آگیا بھابی بس دو منٹ۔۔۔سعاد نے بالوں کو جل سے سیٹ کرتے ہوئے کہا۔
اس لڑکے کا کچھ نہیں ہو سکتا اسے تو عروج بھی۔۔۔عروج کے نام سے اچانک رات والی ہمدرد سی پیاری سے لڑکی آنکھوں کے سامنے آئی۔۔۔لڑکی تو اچھی لگ رہی تھی اب اس کا بھی بندوبست کرتے ہیں۔
فاطمہ نے سوچتے ہوئے کام مکمل کیا۔۔۔رات کو جب سے یہ خبر ملی ےھی کہ یہ سب کچھ ایمان کے کزن نے کیا ہے فاطمہ کو سکون سا ہوگیا کہ اب شاہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں رہا اس کی جان چھوٹ گئی ہے مگر یہ سب اس کا وہم ہی تھا بس۔۔
ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔۔شلف پر پڑے موبائل پر خطرے کی گھنٹی بجی۔۔
اک نیا نمبر۔۔۔فاطمہ نے سوچتے ہوئے کہا۔
صبح بخیر۔۔۔پیاری بہن۔۔۔شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
فاطمہ کے چہرے پر آئی مسکراہٹ ایک دم غائب ہوگئی۔
میں ہی ہوں پیاری فاطمہ۔۔۔چپ کیوں ہوگئی۔۔۔ہاں سوچ رہی ہو گی اب جان چھوٹ گئی شاہ سے مگر چچ چچ۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا کبھی۔۔۔شاہ نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔
میں آج ملنے آوں گا اپنی بہن سے انتظار کرنا۔
بھابی کس کا فون ہے۔۔سعاد نے کیچن میں فاطمہ کو کسی سے بات کرتے دیکھ اور چہرے کا رنگ بدلتا دیکھ کر پوچھا۔
فاطمہ نے فورا فون رکھ دیا کچھ نہیں سعاد چلو چلیں۔۔۔فاطمہ نے ہاتھون سے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
آپ ٹھیک ہیں بھابی۔۔۔سعاد نے پریشانی سے پوچھا۔
ہمم۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔چلو چلیں۔۔۔فاطمہ کہتے ہوئے کیچن سے نکل گئی۔
●●●●●●●●●●●●
لالہ آپ اور بھابی چلے جائیں۔۔۔میں سنبھال لوں گا بعد میں سب۔۔مزمل نے پرسکون سا گہرا سانس لے کیفے ٹیریا میں بیٹھے زبیر اور فاطمہ سے کہا۔
کیسے سنبھالو گے تم۔۔۔ ہاں کیسے سنبھالو گے زبیر نے غصے سے کہا۔۔۔بابا سائیں نے کیا کہا ہے فون پر تم نے سنا نہیں "دو ہفتے"صرف "دو ہفتے" بعد تمھارا نکاح فکس ہو گیا ہے اور ساتھ رخصتی بھی ہے۔۔۔تمہیں ساتھ لے کر آنے کا حکم دیا ہے بابا سائیں نے اور تم کہتے ہو سب سنبھال لو گے۔۔۔
دراب خان کے آنے والے نئے حکم نے دونوں کو ہی پریشان کر دیا تھا۔
میں ایمان کے ٹھیک ہوتے ہی ایمان کو لے کر گاوں آجاوں گا۔۔۔۔میں نے ایمان کو مخلص ہوکر اپنایا ہے اور اب یوں اس کی ذات کی نفی کبھی برداشت نہیں کروں گا۔
مزمل نے اک عظم سے کہا آنکھوں میں جذبات تھے جن کا اظہار وہ ایمان کے سامنے کرنے سے ابھی تک قاصر تھا۔
میرے خیال سے مزمل لالہ ٹھیک کہہ رہے ہیں زبیر۔۔۔چھپ کر بیٹھ جانے سے بات کا کوئی حل نہیں
ہوگا۔۔۔۔۔یہ بات جتنی جلدی سامنے آئے گی بابا سائیں کو سنبگالنا آساں ہوگا۔۔فاطمہ نے کہا۔
ٹھیک ہے تم تین چار دن تک آجاو گاوں مگر اس سے دیر مت کرنا میں کوشش کرتا ہوں تمہارے نکاح کی خبر ابھی نہ پھیلے ورنہ الیکشن مین مسلے ہوں گیں اور پھر بابا سائیں کو منانا مشکل ہو جائے گا۔
زبیر کہتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔۔
ہمم۔۔۔ٹھیک ہے میں آجاوں گا۔۔۔آپ ادھر سب سنبھال لینا۔۔۔مزمل کہتے ہوئے زبیر کے گلے لگا جو گاوں کیلیے نکلنے لگے تھے۔
کوئی میری طرف بھی دیکھ لے۔۔۔۔۔سعاد نے معصومیت سے دہائی دی جو کب سے خاموش بیٹھا سب سن رہا تھا۔
ہاہا ہاہا۔۔۔تمہارے بارے میں بھی کچھ سوچتے ہیں۔۔زبیر نے ہنستے ہوئے کہا۔
لالہ بس سوچنا نہیں اب کی بار مجھے پکا سرٹیفیکیٹ لے کر دیں۔۔۔۔سعاد نے منہ بنا کر کہا۔
لالہ میں تو کہتا ہوں میری جگہ اس کا نکاح کر دیتے ہیں صوبیہ سے کیوں سعاد۔۔مزمل نے سعاد کو چھیڑتے ہوئے کہا۔۔۔جس کے چہرے کا رنگ دیکھنے والا تھا۔
لالہ مجھے لگتا میں ابھی صبر کر سکتا ہوں آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔۔۔سعاد نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
ہاہا ہاہا ۔۔۔۔آگیا نا لائن پر۔۔۔مزمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
چلو ہم نکلتے ہیں تم ایمان کا خیال رکھنا۔۔۔۔زبیر کہتا ہوا فاطمہ کے ساتھ باہر کی طرف نکل گیا۔
کوریڈور سے گزرتے ہوئے فاطمہ کو محسوس ہوا کوئی اس کے پیچھے ہے جیسے ہی اس نے مڑ کر دیکھا تو اگلا سانس لینا مشکل ہوگیا شاہ!۔۔۔۔۔فاطمہ نے اک نظر زبیر پر ڈالی اور پھر دوسری نظر دور کھڑے مسکراتے ہوئت سگریٹ پیتے شاہ پر پڑی جیسے کہہ رہا ہو مین نے اپنا کہا پورا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے لگا سب کچھ اردگرد گھوم رہا ہے۔۔۔زبیر!
فاطمہ اس سے پہلے چکرا کر زمین پر گرتی قریب ہی دیوار کا سہارا لینے کیلیے رک گئی۔
زبیر تو اپنی ہی رو میں چلتا ہوا جارہا تھا کہ فاطمہ کی آواز سے پلٹا اور جلدی سے فاطمہ کے قریب پہنچا۔
فاطمہ کیا ہوا ہے ٹھیک ہو تم۔۔زبیر نے تھامتے ہی اسے اپنے حصار میں سنبھالیا اور چہرہ تپتپانے لگا۔
فاطمہ کا چہرہ زرد پڑا ہوا تھا۔
میں ٹھیک ہوں زبیر۔۔۔فاطمہ نے ہوش سنبھالتے ہوئے کہا۔
کہاں ٹھیک ہو ادھر بیٹھو میں پانی لے کر آیا۔۔۔زبیر نے اسے بینچ پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔کتنے ہی روز سے فاطمہ کی طبیعت خراب تھی مگر وہ اپنا خیال نہیں رکھ رہی تھی۔
زبیر میں ٹھیک ہوں بس مجھے یہاں سے لے جائیں میرا دل گھبرا رہا ہے۔۔فاطمہ نے بےچینی سے کہا۔
بلکل نہیں کتنے دنوں سے میں کہہ رہا ہوں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں مگر نہیں تم سنتی کہاں ہو۔۔۔۔زبیر نے چہرے کے تاثرات کو نرم رکھتے ہوئے غصے سے کہا۔
اگر آپ نہیں لے کر جائیں گے تو مین خود چلی جاوں گی۔۔فاطمہ کہتے ہوئے باہر کی طرف جانے لگی۔
فاطمہ! یہ کیا بچپنہ ہے۔۔۔روکو۔۔زبیر فاطمہ کے پیچھے باہر کی طرف چلا گیا جو یقینا پارکنگ کی طرف جا رہی تھی۔
●●●●●●●●●●●
سنو!
بلش کرتے پیاری لگتی ہو۔۔
عروج جھولے میں بیٹھی کل رات والی ملاقات میں گھم تھی جب قریب پڑا فون بجا۔
بززز۔۔۔بززز۔۔۔ہائے کون میرے خیالوں میں خلل ڈال رہا ہے۔۔عروج نے کال اٹھاتے ہی دہائی دی۔
میں تو صرف خیالوں میں خلل ڈال رہی ہوں تم تو میری محبت پر ڈاکہ ڈال رہی ہو۔۔۔کیوں کر رہی ہو تم ایسا۔۔۔چھوڑ دو اس کی جان۔۔۔چلی جاو ہم دونوں کے درمیان سے۔۔۔کال کی دوسری طرف سے کسی لڑکی کی روتی ہوئی آواز عروج کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
اوئے رک جاو ڈرامہ کوئیں پہلے اپنا تعارف تو کروا دو پھر کرنا یہ ڈرامہ میرے سامنے۔۔۔عروج نے بھی منہ توڑ جواب دیا۔
میں سعاد کی پہلی اور آخری چاہت ہوں اور تم ہمارے درمیان آگئی ہو۔۔۔کیوں کر رہی ہو ایسا۔۔۔آگے سے بےبسی سے آواز آئی۔
کیا بکواس ہے یہ خبردار جو تم نے اب مجھ سے جھوٹ بولا۔۔عروج نے اب کی بار غصے سے جواب دیا ابھی تو اس نے سعاد کیلیے اچھے خیالات رکھنا شروع کیےتھے پھر یہ سب۔۔۔۔
میرے پاس ثبوت ہے میں خھوٹ کیوں بولوں گی میں آپ کو ہماری پکس دیکھا سکتی ہوں پھر پلیز آپ ہماری جان چھوڑ دیں ہم شادی کرنے والے ہیں۔۔لڑکی نے کہا۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں سعاد جیسے لڑکے کو منہ لگانے کا وہ یقینا تمہارے لیے ہی ہے اب مجھے دوبارہ کال مت کرنا۔۔۔سمجھی!عروج نے غصے سے کہتے کال بند کر دی۔
ہو گیا کام۔۔۔آئلہ نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔۔
گڈ ہوگیا۔۔۔تم نے تو میرا کام آسان کر دیا۔۔حمزہ نے کہا۔
لاو دو اب میرا حصہ۔۔آئلہ نے ہاتھ آگے کیا۔۔۔
دے رہا ہوں۔۔۔حمزہ نے جیب مین ہاتھ ڈالتے اک لفافہ نکالا اور آئلہ کو تھما دیا۔
آئلہ نے جلدی سے اسے تھامہ اور نوٹون کو گنا۔۔یہ کیا۔۔۔یہ کم ہیں۔۔۔آئلہ نے منہ بسور کر کہا۔
بس بس۔۔۔فائل میں نے چوری کی تھی۔۔۔حمزہ نے کہا۔
تو بیچا میں نے تھا اور یہ کال بھی کی اب معاوضہ ڈبل بنتا ہے نکالو جلدی سے۔۔۔آئلہ نے مغرور انداز میں کہا۔
دے رہا ہوں یار۔۔۔حمزہ نے کہتے ہوئے اور پیسے پیسے آئلہ کو تھمائے۔۔۔
میں جارہا ہوں۔۔مجھے اپنی منگنی کی تیاری بگی کرنی ہے اب۔۔حمزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں ہاں جاو۔۔آئلہ نے پیسون کو بیگ میں ڈالتے ہوئے مصروف انداز میں کہا اور خود بھی آفس سے نکل گئی۔
YOU ARE READING
Mehram by Tahreem Farooq
Fanfictionزندگی تو بہت ہلکی پھلکی ہے بوجھ تو سارا خواہشات کا ہے۔۔❤❤ محرم از تحریم فاروق پہلے تو میں اپنا تعارف کروا دیتی ہوں میرا نام تحریم ہے اور یہ میرا پہلا ناول ہے۔ کہانی ہے کئی کرداروں کی۔ جو اپنی اپنی الگ اہمیت رکھتے ہیں۔ تو بس ریلکس ہو کر ہمت سے پڑ...