Mehram Episode 7

60 5 4
                                    

جلدی کرو فاطمہ کھانا کب تک بنے گا۔۔۔۔میرا پتر اتنی دیر بعد گھر آ رہا ہے۔۔۔۔سلمہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔۔۔
اماں جان۔۔۔۔کیوں پریشان ہو رہیں ہیں۔۔۔نوری نے سب کر لیا ہے۔
کمرہ دیکھا یے نوری نے۔۔۔
جی۔۔۔۔۔میں نے خود مزمل لالہ کا کمرہ خود سیٹ کروا دیا ہے۔۔۔
فاطمہ نے پیار سے کہا۔
اچھا پھر کب تک آئے گا۔۔۔۔سلمہ بیگم نے بےچینی سے ٹہلتے ہوئے کہا۔۔
اماں جان۔۔۔میری پیاری اماں۔۔۔ابھی آجائے گے مزمل لالہ۔۔۔
ڈیرے پر لوگ آئے ہوں گے ملنے۔۔۔۔جانتی تو ہیں الیکشن شروع ہونے والے ہیں۔۔۔بابا سائیں کے امیدوار
لالہ سے مل رہے ہوں گے۔۔
فاطمہ نے سلمہ بیگم کو سمجاتے ہوئے بیٹھایا۔۔
میرا دل نہیں لگ رہا نہ۔۔۔جا میری دھی فون کر زبیر کو۔۔۔۔سلمہ بیگم نے بےقراری سے فاطمہ کو کہا۔
اچھا۔۔۔پیاری اماں میں ابھی جاتی ہوں۔۔۔فاطمہ کہتے ہوئے کمرے میں فون کرنے چلی گئی۔
یار بابا سائیں نے آج تو تمہیں تھکا دیا ہو گا نہ۔۔۔زبیر نے گاڑی چلاتے ہوئے مزمل سے کہا۔۔۔۔
مزمل جو صبح ہی گاوں پہنچ گیا تھا مگر بابا سائیں سے ملنے ڈیرے پر چلا گیا جہاں آج بابا سائیں نے اجلاس رکھا تھا جس وجہ سے وہ صبح سے وہی پر تھا اور اب شام ہونے کو تھی۔۔۔
نہیں لالہ میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔مزمل نے گھم سم سا کہا۔۔
کیا بات ہے بہت خاموش ہو اور کچھ پریشان سے بھی لگ رہے ہو۔۔۔زبیر جو صبح سے مزمل کو خاموش دیکھ رہا تھا آخر پوچھ ہی لیا۔۔
ایسا تو کچھ نہیں ہے لالہ۔۔۔۔پہلے میں کون سا زیادہ بولتا تھا۔۔۔مزمل نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
ہاں نہیں بولتے تھے۔۔۔مگر چہرہ تو پرسکون ہوتا تھا نہ۔۔۔اگر صوبیہ کی وجہ سے پریشان ہو یا کسی کو پسند کرتے ہو تو مجھے دوست سمجھ کر بتا سکتے ہو۔۔
زبیر نے مزمل کو دیکھ کر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ آفر کی۔۔
ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔مزمل نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
ہممم۔۔۔تو پھر تم نے اب تک مجھ سے صوبیہ کے بارے میں کیوں کچھ نہیں پوچھا۔۔۔زبیر نے مزمل کو گھورتے ہوئے کہا۔۔
آپ جانتے ہیں بھائی مجھے کسی بھی عورت کو ڈسکس کرنا اچھا نہیں لگتا۔۔۔سو پلیز لیو دس ٹوپک۔۔۔۔مزمل نے مضبوط لہجےمیں کہا۔۔
سب جانتے تھے کہ مزمل کسی بھی عورت کے مطلق کوئی بات برداشت نہیں کرتا۔۔
اس لیے ابھی تک کبھی بھی مزمل نے کسی بھی لڑکی میں دلچسپی نہیں لی تھی۔۔۔۔مگر ایمان کو دیکھ کر وہ کیوں خود کو بےبس محسوس کرتا تھا
اس بات پر اسے خود پر بھی غصہ آتا تھا۔۔۔۔
اچھا میرے شیر۔۔۔۔۔ اس سے پہلے زبیر اپنی بات مکمل کرتا فاطمہ کی کال آگئی۔۔۔
لو تمہاری بھابی کی کال آگئی ۔۔۔۔زبیر چونکہ گاڑی چلا رہا تھا اس لیے فون سپیکر پر ڈال دیا۔۔۔۔
اسلام علیکم!۔۔۔زبیر نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔
مزمل خاموشی سے بیٹھا اپنے بھائی کی کاروائی
دیکھ رہا تھا۔
زبیر کہاں ہیں آپ۔۔۔پتا بھی ہے امی مزمل لالہ کا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔پھر بھی آپ لوگوں نے اتنی دیر لگا دی۔۔۔
فاطمہ نے غصے سے کہا۔۔
زبیر نے چور نگاہوں سے مزمل کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر دن بھر میں پہلی بار مسکراہٹ آئی جسے بڑے کمال سے اس نے دبا لیا۔۔
بیگم بریک پر پاوں رکھیں۔۔۔۔موبائل سپیکر پر ہے۔۔۔اور میں اور مزمل گھر ہی آرہے ہیں۔۔۔۔
دوسری طرف بلکل خاموشی ہوگئی۔۔۔۔۔۔
فاطمہ سے شرمندگی سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔
اللہ حافظ۔۔۔۔فاطمہ سے جب کوئی جواب نہ بنا تو اس نے صرف اتنا کہہ کر فون بند کر دیا۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔دیکھ رہے ہو اپنی بھابی کا روعب مجھ بچارے پر۔۔۔زبیر نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
ویسے اتنا روعب تو بنتا ہے بھابی کا۔۔۔مزمل نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
لے لو مزے جب صوبیہ آئے گی نہ پھر پوچھوں گا۔۔۔۔ماشااللہ سے وہ فاطمہ سے بھی چار ہاتھ آگے ہے۔۔۔۔۔زبیر نے ہنستے ہوئے کہا۔
مزمل کے مسکراتے ہوئٹ اچانک تھم گئے۔۔۔۔
اس بات کو تو آپ وقت پر چھوڑ دیں۔۔۔۔مزمل نے سنجیدگی سے کہا۔۔
حویلی کا گیٹ کھولا اور زبیر نے گاڑی اندر کی طرف بڑھا دی۔۔
**************************
آپی کروا دیں اک ملاقات نہ اب کیا مسلہ ہے اب تو ایمان میری منگیتر ہے۔۔۔۔عمر مسلسل کل رات سے سدرہ سے ایمان سے ملنے کی ضد کر رہا تھا مگر سدرہ نے منا کر دیا مگر اب صبح ہی عمر کا فون
آگیا۔۔۔
کیوں تنگ کر رہے ہو کچھ دیر صبر کر لو گے تو کیا ہو جائے گا۔۔۔
سدرہ نے تنگ آکر کہا۔۔۔
مجھے ملنا ہے بس کہہ دیا نہ میں نے۔۔۔۔حالات کیسے پیدا کرنے ہیں یہ تم جانتی ہو۔۔
عمر نے اٹل لہجے میں کہا۔۔
یعنی تم نے باز نہیں آنا۔۔۔۔سدرہ نے ہار مانتے ہوئے کہا۔۔
بلکل نہیں۔۔۔ڈھٹائی سے جواب آیا۔
اچھا۔۔۔پھر سنو میری بات دیہاں سے۔۔۔سدرہ نے ساری بات عمر کو سمجھا دی۔۔
میں جانتا تھا کہ میری بہن کوئی نہ کوئی
حل ضرور نکال لے گی۔۔۔عمر نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
اچھا بس کر ۔۔۔۔کل ٹائم سے پہنچ جانا۔۔۔۔زیادہ ٹائم نہیں ہوگا ہمارے پاس۔۔۔
سدرہ نے کہا۔۔
ٹھیک ہے پہنچ جاوں گا۔۔۔دوسری جانب سے جواب آیا اور فون بند ہو گیا۔۔۔
***************************
شکر ہے تم آگئی ہو ۔۔۔۔کیسی ہو اب۔۔۔عروج نے ایمان کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر پوچھا۔۔۔کل رات عروج کے بار بار کہنے کے باوجود ایمان واشروم سے باہر نہ آئی۔۔۔۔
اس لیے عروج اسے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی اور اب ایمان لیٹ کالج آئی تو عروج ایمان سے بات نہ کر سکی مگر اب ان کا آخری لیکچر تھا اس لیے عروج فورا ایمان کے پاس چلی آئی۔۔۔
ٹھیک ہوں۔۔ایمان نے تھکے لہجے میں کہا۔
کیا ہوا ہے تمہیں اتنی۔۔۔۔۔۔۔ ویک کیوں لگ رہی ہو۔۔۔عروج نے ایمان کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
کچھ نہیں ہوا۔۔۔اہمان نے بیزاریت سے عروج کا ہاتھ جھکٹا۔۔
یہ کچھ نہیں ہے اتنا تیز بخار ہو ریا ہے تمہیں۔۔۔کتنی دیر رات کو پانی میں بیٹھی رہی ہو۔۔۔۔۔عروج نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔۔
ایمان تھک کر گارڈن میں بیٹھ گئی۔۔۔
ٹھیک ہوں۔۔۔ہلکا سا بخار ہے ہو جائے گا ٹھیک۔۔۔۔ایمان نے آنکھیں جھکا کر کہا۔۔
ادھر دیکھو۔۔۔کیوں کر رہی ہو ایسا۔۔۔عروج نے ایمان کی تھوڑی پکڑتے ہوئے کہا۔۔
کیا کر رہی ہوں۔۔کچھ بھی تو نہیں کیا۔۔۔ایمان نے عروج سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔
اچھا کچھ نہیں کیا تو پھر یہ کیا ہے۔۔۔عروج نے ایمان کا ہاتھ اسے دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔جہان رنگ والی انگلی کو ایمان نے زخمی کیا ہوا تھا جو اب بلکل لال ہو چکی تھی۔۔۔۔
چھوڑ دو۔۔۔ایمان نے اپنا ہاتھ اپنی چادر میں چھپاتے ہوئے کہا۔۔
اٹھو ہم جا رہے ہیں۔۔۔عروج نے ایمان کو اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔
کہاں۔۔۔ایمان نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
ڈاکٹر کے پاس تمہارا چیک اپ کروانے ویسے تو تم نے میڈیسن بھی نہیں لینی۔۔۔عروج نے ضدی لہجے میں کہا۔۔
یار ابھی رک جاو۔۔۔مجھے اپنی کاپی چیک کروانی ہے سر سے۔۔۔ایمان نے اپنا بیگ کھولتے ہوئے کہا۔۔۔
میری کاپی کہاں گئی۔۔۔ایمان نے پریشانی سے اپنا بیگ چیک کیا۔۔۔
وہ تمہارے بیگ میں نہیں ہے میرے پاس ہے۔۔۔عروج نے اپنے بیگ سے کاپی نکال کر ایمان کو دی۔۔۔
یہ تمہارے پاس کیسے آئی۔۔۔ایمان نے حیرت سے پوچھا۔۔
میڈم بولکھڑ۔۔۔آپ نے ہی دی تھی مجھے۔۔۔اور میں نے سر مزمل سے چیک بھی کروادی ہے۔۔۔۔اب تو سر چلے بھی گئے لیو پر۔۔۔۔
عروج نے ایمان کی کنپٹی پر انگلی رکھ کر کہا۔۔۔
کیا۔۔۔۔۔ایمان نے حیرت سے کہا۔
اس میں حیرانی والی کیا بات ہے سب کو ہی پتا تھا کہ سر نے جانا ہے۔۔۔۔۔۔
کل تو فیئر ول ہے اتنا مزا آئے گا اور تم ہو کے بیمار ہو کر بیٹھ گئی ہو۔۔۔۔۔ایمان نے خوشی سے کہا۔۔
کیا۔۔۔۔کل ہے۔۔۔فیئر ول ۔۔۔۔۔ایمان نے بیزاریت کے ساتھ پوچھا۔۔۔
یاں جی کل ہی ہے اب میں کوئی بہانا نا سنوں اٹھو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔عروج نے ایمان کا بازو پکڑتے ہوئے اسے اٹھایا۔۔
اچھا چلتی ہوں۔۔۔۔ ایمان تھکے ہوئے انداز عروج کے پیچھے چلنے لگی۔۔
کیا وہ کبھی دوبارہ نہیں ملیں گے۔۔۔۔۔۔کیا یہ سفر بھی ختم ہو گیا۔۔۔
ایمان سوچتے ہوئے عروج کے ساتھ کالج سے ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔۔۔
***************************
اسلام علیکم!۔۔۔۔اماں جان ۔۔۔۔۔۔مزمل نے آگے ہو کر سلمہ بیگم کو گلے لگایا۔۔۔
میرا پتھر ۔۔۔کیسا ہے تو۔۔۔۔
میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔مزمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کہاں سے ٹھیک ہے۔۔۔۔۔سوکھ سا گیا ہے۔۔۔۔شہر میں کھانا نہیں کھاتا تھا۔۔
سلمہ بیگم نے بے چینی سے پوچھا۔۔۔۔
میں جتنا بھی خیال رکھ لوں خود کا آپ کو کمزور ہی لگوں گا۔۔مزمل نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
چل۔۔۔مکھن لگا رہا ہے ماں کو۔۔۔۔۔اپنا خیال رکھا کر سوہنے۔۔۔۔۔۔سلمہ بیگم نے مزمل کو پیار کرتے ہوئے کہا
اماں جان۔۔۔۔اب اس کی شادی ہو جائے گی تو دیہان رکھنے والی بھی آجائے گی۔۔۔۔۔زبیر نے مزمل کو چھیڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
انشاءاللہ۔۔۔۔۔سلمہ بیگم نے کہا۔۔۔
اسلام علیکم لالہ۔۔۔فاطمہ نے آہستہ آواز میں کہا۔۔
فاطمہ جو کب سے وہاں کھڑی تھی مگر زبیر نے ایک بار بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تو فاطمہ پریشان ہو گئی ۔۔۔۔فاطمہ اپنی فون والی حرکت پر بہت شرمندگی تھی۔۔۔۔پتا نہیں مزمل لالہ کیا سوچ رہے ہوں گے۔۔۔۔۔
وعلیکم اسلام۔۔۔۔کیسی ہیں آپ۔۔۔مزمل نے نظریں جھکا کر احترام سے پوچھا۔۔۔
میں بلکل ٹھیک۔۔۔فاطمہ نے زبیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو فاطمہ سے بلکل بےنیاز ہو کر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
جاو میرے شیر۔۔۔تیار ہو جاو پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔اکرم صاحب آنے والے ہیں۔۔۔۔۔
زبیر نے مزمل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
جی۔۔۔مزمل کہتے ہوئے کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
اماں جان۔۔۔میں بھی ذرا آرام کر لوں۔۔۔زبیر نے فاطمہ کو اگنور کیے سلمہ بیگم سے کہا۔۔
جا میرا پتھر۔۔۔۔۔
زبیر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جا میری بیٹی تو بھی دیکھ لے کوئی کام تو نہیں رہ گیا۔۔
جی۔۔۔۔فاطمہ جو گہری سوچ میں تھی ہوش میں آتے ہی اک نظر زبیر کی پشت پر ڈال کر کیچن میں چلی گئی۔
********************
شاہ بہت اچھی خبر لایا ہوں تیرے لیے۔۔۔دل خوش ہو جانا تیرا۔۔۔۔بہرام نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا۔۔
اچھا۔۔۔۔پھر سنا۔۔۔جلدی۔۔شاہ جو شراب کے نشے میں ڈھوبا ہوا تھا اس نے بےچینی سے کہا۔
گڑیا اسی گاوں میں ہے۔۔۔گھر بھی بہت بڑا ہے۔۔۔۔۔وڈیروں کا خاندان ہے۔۔۔۔۔۔۔اور شوہر بھی بہت امیر ہے۔۔۔ہماری گڑیا پر فل لٹو ہے۔۔
بہرام نے بائیں آنکھ مارتے اور داڑھی خجاتے ہوئے کہا۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔میں جانتا تھا میری گڑیا اپنی خوبصورتی کو ضرور کیش کروائے گی۔۔
شاہ نے شراب سے بھرا گلاس حلق سے اتارا۔۔
کوئی بات نہی۔۔۔اب ہم کروائیں گے اپنی گڑیا کو کیش۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔دونوں اللہ کے قہر کو بھولے ہوئے شراب کر مزے میں گھم ہو گئے۔
**********************
ایمان میری جان۔۔۔۔۔کھانا تو کھاو۔۔۔کتنی کمزور ہو گئی ہو۔۔
سدرہ نے ایمان کو کھانے کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو لہجے میں محبت سمائے بولی۔۔
ایمان نے آنکھیں اٹھا کر اپنی بھابی کی طرف دیکھا جو آنکھیں مٹکا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی یعنی کہ اب پھر کچھ ہونے والا تھا۔
جی کھا رہی ہوں۔۔۔۔ایمان نے چاول کا چمچ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
اس وقت اختر اور سمیہ بیگم بھی ڈائینگ پر ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔۔
یہ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا ہے۔۔۔اختر نے ایمان کی انگلی کو پٹی ہوئے دیکھا تو پوچھا۔
ایمان کے لاکھ منا کرنے کے باوجود عروج نے ایمان کے زخم کی ڈریسنگ کروادی کیونکہ زخم بہت گہرا تھا۔
کچھ نہیں بھائی وہ کالج میں گھر گئی تھی۔۔ایمان نے مدہم لہجے میں کہا۔۔
تو پھر پٹی کس کے ساتھ جا کر کروائی تم تو گھر سے کہیں گئی ہی نہیں امی کے ساتھ۔۔سدرہ نے
جان کر اخترکے سامنے ایسی بات کی تاکہ
اسے غصہ آجائے۔۔
وہ۔۔۔۔عروج۔۔۔۔نے۔۔پٹی کی تھی۔۔ایمان نے گھبراتے ہوئے جھوٹ بول دیا۔۔۔۔۔
کبھی ہماری ہی بےاعتباری ہمارے اپنوں ہو ہمیں دھوکہ دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔۔۔۔
اختر نے اک نظر گبھرائی ہوئی ایمان پر اور پھر انگلی کو دیکھا۔۔
چھوٹ کیسے لگی۔۔۔۔اختر نے پوچھا۔۔
وہ۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔۔اس سے پہلے ایمان کچھ کہتی عالیان کے رونے کی آواز آئی۔۔
اسے بھی ابھی ہی رونا تھا منحوس۔۔۔۔سدرہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
جاو ایمان عالی کو دیکھو۔۔۔۔سمیہ بیگم نے ایمان کو
وہاں سے بھیجنے کیلئے کہا۔۔
جی امی۔۔۔کہتے ہوئے عالیاں کے پاس کمرے میں چلی گئی۔۔۔
اختر۔۔۔۔کل عالیان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے۔۔سدرہ نے ایمان کے جاتے ہی مدعے پر آئی۔
کیوں کیا ہوا۔۔۔۔اختر نے پریشانی سے پوچھا۔۔
بخار ہو ریا ہے۔۔۔سوچا ڈاکٹر کو چیک کروا لوں۔۔
ہممم۔۔۔ٹھیک ہے کل چلی جانا عمر کے ساتھ۔۔۔اختر نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔۔
نہیں۔۔۔اسے کوئی ضروری کام ہے۔۔۔اس لیے تو آپ سے کہہ رہی ہوں۔۔۔
او۔۔۔۔۔ہو۔۔۔لیکن امی اکیلی ہو جائے گی۔۔چلیں رہنے دیں۔۔۔
سدرہ نے افسوس لہجے میں کہتے ہوئے کہا اور آنکھیں جھکا لیں۔۔۔۔
ایمان۔۔۔اختر نے آواز دی۔۔۔
جی بھائی۔۔۔ایمان جو عالیان کا فیڈر کیچن میں بنا رہی تھی اختر کی آواز سے باہر آئی۔۔۔
کل تم کالج نہ جانا مجھے اور سدرہ کو عالیان کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔
رہنے دیں اختر میں نے بہت کہا تھا مگر یہ نہیں مانی اسے کیا فرق پڑتا ہے میرے بچہ جیے یا مرے۔۔۔۔۔اسے تو اپنا سوگ منانے سے فرصت نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔۔سدرہ نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔
ایمان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔۔۔۔۔۔ہر بار ایسا ہی ہوتا تھا وہ بے قصور ہو کر بھی قصوروار ٹھہرائی جاتی تھی۔۔۔
ایمان تم جاو یہاں سے کل تم نہیں جاو گی کالج۔۔۔اختر کے چہرے کے بدلنے رنگوں سے خوف کھاتی سمیہ بیگم بول اٹھیں۔۔۔۔
ایمان بھی گھبراتے ہوئے عالی کے پاس چلی گئی۔۔
امی آپ خود ہی سمجھا لیں اسے۔۔۔۔۔۔ جو سوگ منانا ہے منا لے اس کی شادی وہیں ہو گی جہاں میں نے طے کی ہے۔۔۔۔اختر غصے سے کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔
سمیہ بیگم نے سدرہ کی طرف افسوس سے دیکھا جو اب مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔جیسے جو وہ چاہتی تھی اسے مل چکا تھا۔۔۔۔۔۔
**********************
کہاں ہو جان من۔۔۔۔کتنے دن اور رہنا ہے تم نے۔۔۔۔میرا تو دل ہی نہیں لگ رہا تمہارے بغیر۔۔۔۔اویس کی شوخ آواز فون سے ٹکرائی۔۔۔
آئی ناو۔۔۔۔ڈارلنگ۔۔۔بس تھوڑا سا مسلہ ہو گیا ہے ورنہ اس ویک اینڈ پر میں ضرور آجاتی واپس۔۔۔صوبیہ نے بالوں کی لٹ کو انگلی میں گمھاتے ہوئے کہا۔
یار اب کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔بس اب تم واپس آجاو۔۔۔۔اویس نے مصنوئی غصے سے کہا۔
یار بابا کے اک فرینڈ ہیں جنھوں نے بابا کو الکیشن کیلئے پیسے دیے ہیں اور اب دونوں مل کر الیکشن میں کھڑے ہو رہے ہیں۔۔۔۔ اب وہ بابا سے اپنی دوستی کو پکا کرنے کیلیے میرا رشتہ مانگ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔بلکہ چاہتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے میرا نکاح کر دیں۔۔۔۔بس میں یہ مسلہ حل کرلوں پھر واپس آجاوں گی۔۔۔
صوبیہ نے کندھے اچکاتے ہوئے ایسے کہا جیسے اپنی زندگی کی بات نہیں بلکہ کسی فلم کی سٹوری سنا رہی ہو۔۔۔
واٹ۔۔۔۔تم شادی کر رہی ہو۔۔۔ تم مجھے دھوکہ دے رہی ہو صوبی تم صرف میری ہو یہ بات یاد رکھنا۔۔۔۔۔ اویس کی غصے سے بھری آواز آئی۔۔
ریلکس ڈارلنگ۔۔۔۔ابھی صرف ملنے جارہی ہوں۔۔۔صوبیہ نے اویس کو پرسکون کرنا چاہا۔۔
سوچنا بھی مت۔۔۔۔تم کسی سے نہیں ملنے جاو گی۔۔۔۔۔اویس کبھی بھی اپنے جال میں پھنسی لڑکی کو نکلنے دینا نہیں چاہتا تھا۔۔
یار کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔میں تو بس ملنے جاوں گی اور آکر کہہ دوں گی مجھے لڑکا نہیں پسند۔۔۔۔سمپل۔۔صوبیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
اچانک اویس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔اسے اب لگ رہا تھا کہ اس کے اتنے سالوں کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔۔۔۔۔
اینٹیلیجنٹ گرل۔۔۔۔اسے لیے تو تمہیں پسند کرتا ہوں ۔۔۔۔آئی لو یو بس جلدی سے آجاو ۔۔۔۔۔اویس نے محبت سے چور لہجے میں کہا۔۔۔
ٹھک ٹھک۔۔۔۔۔بی بی جی صاحب آپ کو نیچے بلا رہے ہیں۔۔۔۔باہر سے کسی نوکر کی آواز آئی۔
آئی لو یو ٹو مائی ڈارلنگ۔۔۔۔بابا بلا رہے ہیں میں جارہی ہوں۔۔۔۔۔۔بائے۔۔۔۔۔۔صوبیہ فون بند کر کے خود کا آئینے میں جائیزہ لیا اور باہر چلی گئی۔
*******************
آٹھ منٹ ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔عروج نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔کہاں رہ گئے ہیں۔۔۔
عروج کیا کر رہی ہو بیٹا اندر آو۔۔۔۔فرحت بیگم نے عروج کو گیراج میں ٹہلتے ہوئے دیکھا تو پیار سے کہا۔۔۔
ماما آپ بس تین کپ چائے تیار رکھیں۔۔۔میں آرہی ہوں۔۔۔۔عروج نے بےچینی سے ٹہلتے ہوئے کہا۔۔۔
چائے تیار ہے آجاو۔۔۔فرحت بیگم کہتے ہوئے پلٹی۔۔۔تین کپ۔۔۔۔انھوں نے سوچا۔۔۔۔
عروج۔۔۔۔۔فرحت بیگم غصے سے عروج کے پاس آئیں اور اس کا کان پکڑلیا۔۔۔
تم نے پھر اپنے بابا سے کوئی فرمائش کی ہے جو وہ جلدی آرہے ہیں۔۔۔بولو۔۔۔فرحت نے غصے سے پوچھا۔۔۔
ہائے اللہ جی۔۔۔مجھے میری ظالم ماں سے بچالے۔۔۔۔ماما چھوڑیں مجھے فئر ویل کیلئے نیو ڈریس چاہیے تھا اس لیے فون کیا تھا۔۔۔۔عروج نے فرحت بیگم سے اپنا کان چڑواتے ہوئے کہا مگر انھوں نے گرفت اور مضبوط کرلی۔۔۔۔۔
کتنے منٹ ہو گئے ہیں۔۔۔۔فرحت بیگم نے غصے سے پوچھا۔۔۔۔
دس منٹ۔۔۔۔عروج نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
اتنے میں دروازہ کھلا اور غفار صاحب کی گاڑی پورچ میں داخل ہوئی۔۔۔۔
بابا۔۔۔۔عروج نے مظلوم سی شکل بنا کر گاڑی سے نکلتے ہوئے غفار صاحب کو آواز دی۔۔۔۔۔۔
فرحت بیگم نے بھی عروج کو چھوڑ دیا اور ایک غصے سے بھری نگاہ غفار صاحب پر ڈالی۔۔۔۔
بیگم کیوں میری بچے پر ظلم ہو رہا تھا۔۔۔غفار صاحب نے عروج کو گلے لگاتے ہوئے فرحت بیگم سے کہا۔۔۔۔۔
میرے کبھی ایک فون پر تو نہیں آئے۔۔۔۔۔بیٹی فون کرے تو دس منٹ میں گھر ہوتے ہیں۔۔۔۔فرحت بیگم غصے سے کہتے ہوئے اندر چلی گئی۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔لگتا ہے میری بیگم جیلس ہو رہی ہے۔۔۔غفار
صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
تو آجایا کریں نہ ان کے بھی ایک فون پر۔۔۔اب بھگتیں۔۔۔عروج نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
اچھا تو اب ٹیم بدلی جائے گی۔۔۔۔غفار صاحب نے مسنوئی غصہ دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
بلکل۔۔۔اب آپ کے پاس پندرہ منٹ ہیں اپنی پیگم کو منانے کیلئے پھر مجھے شوپنگ پر جانا ہے۔۔۔۔عروج نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
دس منٹ بہت ہیں مجھے اپنی بیگم کو منانے کیلئے۔۔۔۔بس دو کپ چائے میرے کمرے میں بھجوا دو اور دس منٹ بعد ہم چلیں گے۔۔۔۔جہاں میری بیٹی کہے گی۔۔۔غفار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ڈن۔۔۔عروج نے اپنی ہتھیلی آگے کی۔۔۔
ڈن۔۔۔عفار نے بھی اپنا ہاتھ عروج کے ہاتھ پر رکھا۔۔۔پھر دونوں مسکراتے ہوئے قسمت سے انجان اندر کی چلے گئے۔۔۔
************************
اسلام علیکم! رعب دار آواز آئی۔
ستائیس سالہ مزمل خان،چھ فٹ کا قد،چوڑے شانے،رنگ جو مردوں کا ہونا چاہیے نہ ذیادہ گورا نا سانوالہ،چہرے پر بھری ہوئی شیو جو ہونٹوں کے قریب سے شروع ہوتی تھی،بلا کا مضبوط جسامت کا مرد،چہرے پر نور ایسا کہ عورت تو عورت دیکھنے والے مرد کی نظر بھی ایک بار ٹہر جاتی تھی۔
سامنے بیٹھا ہر شخص اس کی پروقار شخصیت سے متاثر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ایک منٹ کیلئے تو صوبیہ کی نظر بھی ٹہر گئی۔۔۔
کوئی اتنا پروقار شخصیت کا حامل کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔
آو بیٹا۔۔۔۔ادھر بیٹھو میرے پاس۔۔۔اکرم صاحب نے مزمل کو اپنے پاس صوفے پر بیٹھنے کا کہا۔۔
مزمل صوفے پر بیٹھ گیا اور اک نظر سامنے بیٹھی جینز اور کرتا پہنے بالوں کو پونی میں باندھے دوپٹہ گلے میں مفلر کی طرح لیے مغرور لڑکی کو دیکھا پھر اک نظر بیٹھک میں پیٹھے مردوں پر ڈالی تو نگاہیں شرم سے جھکا لیں۔۔۔۔
آنکھوں میں ایمان کی حیا والی آنکھیں ۔۔۔۔۔ چادر میں لپٹا وجود یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔
دراب خان میری بیٹی بن ماں کے پلی ہے۔۔۔تھوڑی سی غصے والی ہے۔۔۔مگر دل کی بہت اچھی ہے۔۔۔اکرم صاحب نے دراب خان کو دیکھتے مزمل سے کہا جو ہنوز نظریں جھکائیں اپنی پوری آب و تاب سے براجمان تھا۔۔۔
اب یہ میری بیٹی ہے۔۔۔تم کیوں فکر کرتے ہو۔۔۔دراب خان نے خوشگوار لہجے میں کہا۔۔
میں جانتا ہوں کہ مزمل میری بیٹی کا بہت خیال رکھے گا۔۔۔اکرم صاحب نے مزمل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر۔۔۔۔
بابا مجھے حویلی دیکھنی ہے۔۔۔صوبیہ جو کب سے بور ہورہی تھی اچانک کھڑی ہو کر بول پڑی۔۔
کیوں نہیں بیٹا۔۔۔۔۔جاو بہو بیٹی کو حویلی دکھا آو۔۔۔۔دراب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
جی بابا سائیں۔۔۔۔فاطمہ صوبیہ کو لے کر چلی گئی۔۔۔
معزرت بابا سائیں اک ضروری کال ہے کیا سن لوں۔۔۔مزمل نے سعاد کی کال دیکھ کر دراب خان سے کہا۔۔
ہاں۔۔ہاں۔۔جاو۔۔۔
شکریہ۔۔مزمل کہتا ہوا باہر باغ میں چلا گیا۔۔۔
ہاں بول۔۔۔مزمل نے فون اٹھاتے ہی سعاد سے کہا۔
یار اک مسلہ ہو گیا۔۔۔۔۔سعاد نے افسردہ لہجے میں کہا۔۔
کیا ہوا۔۔۔۔مزمل نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
یار مجھے ایک لڑکی نے تنگ کیا ہوا ہے۔۔۔نہ سونے دیتی ہے سکوں سے نہ ہی کام کرنے دیتی ہے۔۔۔سعاد نے مظلوم لہجے میں کہا۔
ہممم۔۔۔مسلہ تو بہت بڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔سوچتے ہیں اس بارے میں ابھی پروجیکٹ پر دھیان دے۔۔مزمل نے ہنوز سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
یار کیا مطلب تو کیا چاہتا ہے کہ میں تمہاری طرح انتظار میں رہوں کہ وہ کسی اور کی ہو جائے۔۔۔
لعنت تجھ پر سعاد۔۔۔۔۔۔۔سعاد نے غصے میں مزمل پر طنز کیا مگر جب اپنی غلطی سمجھ آئی تو تو خود کو کوسنے لگا۔۔۔
دوسری طرف بلکل خاموشی ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔
یار سوری غلطی ہو گئی اصل میں مجھے عروج اچھی لگتی ہے میں نے تجھے پہلے بھی
بتایا تھا۔۔۔اک قاتل حسینہ کے بارے میں۔۔۔عروج وہی لڑکی ہے۔۔۔ مجھے وہ بہت پسند ہے۔۔۔۔مجھے اس کے بارے میں انفارمیشن نکلوا دے۔۔۔۔
سعاد نے پہلے تو شرافت سے ساری بات بتائی پھر آخر میں منت سماجت سے کہا۔۔۔
تمہیں تو ہر لڑکی پسند آجاتی ہے۔۔۔تو کیا ہر لڑکی کی انفارمیشن نکلوانے لگ جاوں۔۔۔مزمل نے سعاد نے منت کرنے پر اسے اور تنگ کرنے کیلیے کہا۔۔
یار یہ سچی والی اچھی لگی ہے۔۔۔۔باقی تو ایوی ہی اچھی لگتی تھی یہ تو دل پر لگی ہے۔۔۔۔سعاد نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔
پہلے تو اک بار پھر سوچ لے بعد میں کوئی اور ہی دل کو لگ جائے تمہارا کیا بھروسہ عروج بہت اچھی لڑکی ہے میں اس کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں چاہتا اس لیےابھی میٹنگ پر دھیان دے پھر کریں گے اس متعلق بات۔۔۔مزمل نے سنجیدگی سے کہا۔۔
ٹھیک ہے اگر میں یہ پروجیکٹ لے کر آیا تو آگے کا سارا معاملہ تو سنبھالے گا۔۔۔سعاد نے مسکراتے ہوئے پختہ لہجے میں کہا۔۔
مجھے منظور ہے۔۔۔
مزمل بھی سعاد کے جزبوں کی سچائی دیکھنا چاہتا تھا اس لیے فورا مان گیا۔۔۔۔۔۔

Mehram by Tahreem FarooqHikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin