Mehram Episode 9

32 4 5
                                    

قسط نمبر 9:
کہاں ہے ایمان؟۔۔۔۔۔اختر نے قریب پڑی کرسی کو غصے سے لات ماری۔
سمیہ بیگم ایمان کو رخصت کر کے گھر آگئی مگر جانتی تھی کہ اب تک سدرہ اختر کو بہت کچھ سیکھا چکی ہوگی۔۔۔۔
جہاں بھی ہے۔۔بہت سکون سے ہے۔۔۔اور میں ہی چھوڑ کر آئی ہوں۔۔۔سمیہ بیگم نے اطمینان سے جائے نماز بچھاتے ہوئے کہا۔۔
رہنے دیں اختر۔۔۔ایک تو دونوں ماں بیٹی نے مل کر میرے بھائی کو اس افسر سے مروایا اور اب کیسے معصوم بن رہیں ہیں۔۔
اختر غصے سے آگ بگولہ ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھا۔۔
سمیہ بیگم نے کسی بات کا جواب نہیں دیا اور خاموشی سے اٹھ کر وضو کیا۔۔
میں بہت لحاض کر رہا ہوں آپکا۔۔۔کل ایمان کا نکاح ہے عمر کے ساتھ۔۔۔آرام سے بتا دیں کہاں چھوڑ کر آئیں ہیں۔۔۔میں خود ہی عمر اور پھوپھو کو سنبھال لوں گا۔۔اختر نے اب تحمل سے بات کرنے کی کوشش کی۔۔
"افسوس ہے مجھے خود پر کہ میں اپنے بیٹے کو اس کی بہن کا محافظ نہ بنا سکی"
سمیہ بیگم نے شکوہ نگاہ سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔
میں آپ سے کیا پوچھ رہا۔۔۔کہاں ہے ایمممان۔۔۔۔اختر نے چلاتے ہوئے کہا۔
میں نے ایمان کا نکاح کر دیا ہے اور اس وقت وہ اپنے شوہر کے گھر ہے۔۔سمیہ بیگم نے پرسکون ہو کر کہا اور جائے نماز پر کھڑی ہو گئی۔۔آج یہ خوشی اور اطمینان اللہ نے دیا تھا جو سمیہ بیگم کے چہرے پر جھلک رہو تھا۔
سمیہ کی بات سن کر اختر سکتے میں چلا گیا اور سدرہ نے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔
شکر ہے نا بانس بچا نا بانسری۔۔۔اب تو ویسی ہی ساری جائیداد میری ہوجانی ہے۔۔۔سدرہ نے مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا۔۔۔
ویسے آپ پہلی ماں ہوں گیں جو اپنی بیٹی کو خود بھگا کر آئی ہیں۔۔۔ونڈرفل۔۔۔سدرہ نے کھڑے ہو کر تالی مار کر کہا۔
یہ کیا بکواس ہے امی۔۔آپ جانتی ہیں نہ کل ایمان کا نکاح ہے میں سب کو بتا چکا ہوں۔۔۔اختر نے غصے سے کہا۔
میں جو کہنا چاہتی تھی میں نے کہہ دیا اب تم دونوں جاو یہاں سے مجھے شکرانے کے نفل ادا کرنے ہیں۔۔۔سمیہ بیگم نے کہتے ہوئے نفل شروع کیے۔
اختر نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا جو کتنے آرام سے ان کے سر پر بم پھوڑ کر شکرانے کے نفل پڑھ رہی تھی۔
آجائیں ہوش میں۔۔۔آپ کی ماں ہی دن کے اجالے میں آپ کی بہن کو بھگا آئیں ہیں۔۔
سدرہ نخوت سے کہتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔۔اختر بھی غصے سے گھر سے نکل گیا شاید آج رات وہ باہر ہی رہتا مگر آج سمیہ بیگم کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کوئی کیا ردعمل دیتا وہ خود کو اپنی بیٹی کیلیے مضبوط کر چکی تھیں۔۔
شکرانے کے نفل ادا کر کہ سمیہ بیگم نے اللہ کے حضور ہاتھ اٹھائے۔۔
یااللہ! میرے بھائی کو ایمان اور مزمل کے ذریعے مجھ سے ملوا دے۔۔۔۔ان کا دل میرے لیے صاف کر دے۔۔۔جس طرح آج آپ نے مزمل کو معجزہ بنا کر بھیجا ہے۔۔۔مجھ سے میرے بھائی کو بھی ملوا دے۔۔۔۔۔۔
یااللہ !۔۔میں نے اپنی بیٹی کو تیرے امان میں دیا ہے اس کا خیال رکھنا۔۔
سمیہ بیگم نے اللہ سے فریاد کرنے کے بعد آج پرسکون نیند سوئی۔۔۔
                   _____________________
چھنک!۔۔۔۔۔کی آواز میں پانی سے بھرا گلاس زمین بوس ہوا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔
یااللہ آج بچا لے!۔۔۔مزمل نے سعاد کی شعلہ برساتی آنکھوں کو دیکھتے دل ہی دل میں اللہ سے دعا کی۔
مزمل!۔۔۔۔سعاد نے حیرت سے کہا۔۔۔۔جیسے پوچھ رہا ہو یہ کون ہے اور آپ کی گود میں کیوں آرام کر رہیں ہیں۔۔
مزمل نظریں چراتے ہوئے ایمان کو لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور احتیاط سے اسے بیڈ پر لٹایا۔
کمرے کے پردے برابر کیے ایمان پر لحاف دیا۔
چلو مزمل آپ کا عدالت میں انتظار ہورہا ہے۔۔۔مزمل دل ہی دل میں خود کو کہتا نیچے لاونج میں آیا۔
سعاد ہاتھ باندھے سامنے ٹیبل پر ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھے مزمل کو سوالیہ  نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
مزمل نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔اور سعاد کے سامنے والے صوفے پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔
میں آپ کے بولنے کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔اپنے دفاع میں کچھ بولنا چاہیں گے آپ۔۔۔سعاد نے مہذب انداز سے مزمل سے کہا۔۔
مزمل نے ایک تھکن بھری سانس بھری اور ساری بات سعاد کو سنا دی۔۔
مزمل نے اپنی بات کے بعد نظر اٹھا کر دیکھا تو سعاد غصے سے لال ہو رہا تھا۔۔۔ایک دم مزمل کو ڈر لگا کہیں اس نے سعاد کے بغیر نکاح کر کے اسے ناراض تو نہیں کر دیا۔۔۔
سعاد میری بات سن!۔۔۔سعاد غصے سے اٹھا اور ادھر ادھر چکر لگانے لگا۔۔
مزمل بھی کھڑا ہو گیا۔۔
یار جو ہوا بہت جلدی میں ہوا۔۔۔۔
بس کر! سعاد نے ہاتھ اٹھا کر مزمل کو بولنے سے منع کر دیا۔
نہیں مطلب کیا اس سب بات کا۔۔۔میں یہاں اپنی ساس کو گاڑی سے ٹکڑ مارتا پھر رہا ہوں کہ کہیں میری بات بن جائے۔۔۔اور اک تیری ساس ہے دو گھنٹے میں نکاح کروا کر رخصتی بھی کر دی۔۔۔سعاد نے رونے والا منہ بنا کر کہا۔۔
مزمل جو سعاد کے رویہ سے پریشان ہو رہا تھا اس کی سن کر اور سمجھ کر دل کیا کہ سعاد کو چھت سے دھکا دے دے۔۔
تو اس وجہ سے ناراض نہیں ہے کہ میں نے تیرے بغیر نکاح کر لیا بلکہ اس وجہ سے ناراض ہے کہ میرا نکاح اتنے آرام سے کیسے ہوگیا۔۔۔مزمل نے حیرت سے پوچھا۔۔
میں کیوں ناراض ہوں گا تو نے کون سا بھاگ کر نکاح کیا ہے ماشااللہ سے ساس نے خود کروایا ہے۔۔سعاد نے منہ بنا کر کہا۔
تیرے جیسے دوست ہوں تو یقینا مجھے دشمنوں کی ضرورت نہیں ہو سکتی۔۔۔مزمل نے سعاد کا منہ بنا دیکھ کر مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا۔
چل یہ بتا کس کو ٹکڑ مار کر آیا ہے اور فون کیوں آف تھا تیرا۔۔۔مزمل نے تحمل سے پوچھا۔
سعاد نے نخرہ دیکھاتے دیکھاتے آہستہ آہستہ ساری بات بتا دی۔۔
ہمم۔۔۔مزمل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
یار اب میرے لیے بھی کچھ کردے میں پروجیکٹ بھی لے آیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔خود تو تم سیدھا پتنگ کاٹ کر لے آئے ہو۔۔۔۔اپنی معصوم بھائی کے بارے میں بھی کچھ سوچ لے۔۔
سعاد نے التجائی نظروں سے مزمل کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
پتنگ لفظ پر مزمل نے سعاد کو اک گھوری سے نوازا جیسے کہہ رہا ہو بکواس نہ کر سعاد فورا مزمل کی بات سمجھ گیا۔
نہیں میرا مطلب ہے تم خود کو میرے لیے بھابی لے آئے ہو میں بھی چاہتا ہوں کہ تمہارے لیے بھابی لے کر آوں۔۔۔سعاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔پہلے میں تمھاری بھابی کو سنبھال لوں پھر اپنے لیے بھابی بھی لے آوں گا۔۔۔مزمل کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔
یہ ظلم مت کرو مجھ پر۔۔۔۔قیامت کے روز اللہ کو کیا کہو گے۔۔۔سعاد نے بیچارگی کے ساتھ پیچھے سے ہانگ لگائی۔۔
___________________
بارش کی برستی بوندیں آسمان سے نیچے گر رہی تھیں۔۔دیکھنے میں تو اللہ کی رحمت تھی۔۔جو کسی پر رحمت تو کسی کےلیے زحمت بن رہی تھی زندگی بھی ایسی ہی ہے کبھی کسی کے لیے رحمت اور کبھی زحمت بن جاتی ہے۔۔۔
سب کو میری زندگی دور سے کتنی اچھی لگتی ہو گی مگر اندر سے میں کتنی خالی ہوں۔۔۔میرے ہاتھوں میں صرف شوہر کی محبت کی لکیر ہے جو مجھے دل و جان سے عزیز ہے مگر کیا وہ بھی مٹ جائے گی۔۔۔فاطمہ نے اپنی ہاتھوں کو بارش کے پانی سے گزارا اور اپنے ہاتھ کو انگلی کی پوروں سے چھوا۔۔۔
"فاطمہ"۔۔۔زبیر نے فاطمہ کے کندھوں کو ہلایا۔
زبیر جو پچھلے آدھے گھنٹے سے فاطمہ کو نوٹ کر رہا تھا جو بالکنی میں کھڑی بارش میں مگن اپنی ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔
ج۔۔۔جی۔۔۔فاطمہ اپنے گمان سے نکلی۔۔جی آپ کب آئے ہیں۔۔۔فاطمہ نے خود کو پرسکون رکھتے ہوئے کہا وہ نہیں چاہتی تھی کہ زبیر کو اس کی پریشانی کا پتا چلے۔
تبھی آیا تھا جب آپ بارش سے باتوں میں مگن تھی۔۔۔۔۔۔اتنے ٹائم سے دیکھ رہا تھا شاید بیگم آکر کھانے کا پوچھ لے مگر آپ تو پتا نہیں کہاں گھم ہے۔۔۔۔۔زبیر نے فاطمہ کو کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کرتے ہوئے ناراض لہجے میں کہا۔
سوری مجھ۔۔۔۔مجھے۔۔۔پتا۔۔۔نہیں چلا میں ابھی کھانا لاتی ہوں۔۔۔فاطمہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔
اچھا کھلا دینا کھانا مگر ابھی تو مجھے تمہارے ساتھ بارش کو محسوس کرنا ہے۔۔زبیر نے فاطمہ کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔
فاطمہ نے بھی خاموشی سے زبیر کے سینے پر سر رکھ لیا اور گہرا سانس لے کر اپنی آنکھیں موند لیں۔۔ایک سکون اور محبت بھرے احساس نے فاطمہ کے گرد لپٹ گیا۔
ویسے اس بارش سے مجھے جیلسی ہو رہی تھی میری بیگم مجھے چھوڑ کر اس کو ٹائم دے رہی تھی۔۔۔زبیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
آپ بچے ہیں جو بارش سے بھی جیلس ہو رہے تھے۔۔فاطمہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
تمہارے معاملے میں ہوں تھوڑا سا۔۔۔۔زبیر نے ذرا سا جھک کر مدہم آواز میں فاطمہ کے کان سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
ہاہاہا۔۔۔فاطمہ کھلکھلا کر ہنسی۔
اسی طرح مسکراتی رہا کرو۔۔زبیر نے فاطمہ کی ناک کو چھیرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
وہ ایسا ہی تھا فاطمہ کے سارے غم خود میں چھپا لیتا تھا۔۔۔اور اپنے دل کا سکون اس میں ڈال دیتا تھا آج بھی زبیر کی باتوں نے فاطمہ کو سب کو بھلا دیا۔۔۔مگر کل کس نے دیکھی کل کیا ہونے والا تھا اس سے سب بےخبر تھے۔
                _______________________

Mehram by Tahreem FarooqTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang