خالی کتابوں کے خالی پنوں پر
کورے کاغذ پر موجود وہ کورا خواب
ایک نیند سے اُترا اور پھر دل کا سفر
وہ جہدِ مسلسل سا اِک حباب
کہانیاں بُنتی کہانیاں پڑھتی وہ لڑکی
ایک کہانی کا انجام ہوئی
وہ ایک ایسے شخص کی رغبت میں پڑی
کہ کوسوں ناکام ہوئی
اپنے حسن سے ۔۔وہ اپنی ادا سے
اپنی زندگی سے اور پھر اپنی قضا سے
وہ ایسے موتی نچوڑ چکی ہے جو
کسی شاعر کا خواب تو کسی مصور کا تصور
کسی عام سے دل پر حکومت یا کسی سلطنت کا تاج
وہ ایسے الفاظ اپنے قلم سے لکھنے لگی ہے کہ
کاتیبین بھی اُس پر رشک کرنے لگے ہیں
اس نے دنیا کے حسین ترین جذبے کو
وہ وسعت اور شناسائی عطا کی ہے کہ
کرنے والے اپنی قسمت پر رشک کریں
پانے والے اپنے مقدر پر نازاں ہوں
اسی پر وہ ایسی کہانی لکھ رہی ہے ساتھ اسے انجام بھی دے رہی ہے
جس کا
آغاز تو آسان تھا مگر وہ اختتام کو آسان نہیں کرتی۔۔۔
وہ دنیا کو کچھ نہیں سمجھتی
اس لیے پانے اور کھونے سے نہیں ڈرتی
وہ اپنی کہانی کا کچھ ایسا انجام چاہتی ہے
جس سے دل شاد ہوں۔ کورے کاغد اور کورے خواب رنگین ہوں۔۔۔۔
آزثوبیہ عابدوعدہ
ازثوبیہ عابدبے یقینی سے گزرتی ہوئی محبت و جنوں کی داستاں۔۔۔۔۔
کوئی وعدہ نہیں پھر بھی انتظار تھا تیرا
دور ہونے پر بھی اعتبار تھا تیرا
نہ جانے کیوں بے رخی کی تو نے ہم سے
کیا کوئی ہم سے بھی زیادہ تھا طلبگار تیراسردیوں کی یہ رات گہری اور سرد تھی ۔موسم سرما کی پہلی بارش تھی ۔ایسے میں وہ وجود کھڑکی میں کھڑا ایک رات پھر سے آنکھوں میں کاٹنے والا تھا ۔اس کی تکلیف کا اندازہ اس کے چہرے پر بکھربے نور رنگ ،اور آنکھوں میں اتری خاموشی ہے بلکتا ہوا جوش کھاتا تھا پشیمان، سسکتی ہوئی اک محبت کا ماتم ،روح میں اتر جانے والی اداسی دے رہی تھی ہر اک آہٹ پر وہ جیسے چونک جاتی تھی ہر آہٹ اس ستم گر کی آمد کا پتا دے رہی تھی کیوں کیا ایسا؟ کیوں؟ کیوں میرے آنکھوں کے نور کو دل کی زمین کی آخری تہ کی خاک بنا دیا میرا پہلو دل سے خالی کر دیا۔؟ شاید زندگی میں خسارے ہی اتنے سونپ دیئے تھے کہ وہ ان پر کئ آنسو بہانے کی طلب گار تھی۔ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں ڈائری کے ورق کو آج بھی اپنے آنسوؤں سے تر کرتی وہ شدت سے رودی۔ پھر دھیرے سے اپنے ہاتھ کی پشت سے بہتے آنسوؤں کو جذب کرکے ڈائری کو قفل لگا دیا۔
وہ صوفے پے دھپ سے گری تھی آنکھوں کو باذو سے چھپائے وہ اپنے غم کو اپنے اندر اتار ری تھی۔
مگر سب بے ثمر ۔۔۔سب بے سبب۔۔۔۔کانچ سی آنکھیں اب بے رونق تھیں۔۔۔۔اُس بے ضرر وجود میں درد ہی درد تھا۔
ایک دُکھی مسکراہٹ لبوں پے لائے وہ صوفے سے اُٹھ کھری ہوئی۔ آگے بھڑتے ہوئے نظر آئینے پر پڑی تو اندر تک اُداسی بھر گئی۔ غم تھا کہ سایہ ہی بن گیا تھا۔ سر جھٹک کر باہر کی جانب بڑھی اب وہ پہلے سے مختلف لگ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا اُس سے ذیادہ خوش کوئی نہ ہو گا۔ اس کے دُکھوں کی راز داں صرف اسکی اپنی تنہائی تھی جو واقعی اُسکی اپنی تھی۔
وہ کیچن کی طرف گئی جہاں کھانے کی تیاریاں عروج پر تھیں خاص دعوت کا اہتمام ہوا تھا۔ خدا خدا کر کے اُن کے دن پھرے تھے
اتنے میں اس کی والدو نے آواز لگائی۔۔۔۔
زارا بچے کہاں مصروف ہو جلدی سے ہا تھ بٹاو guest آنے والے ہیں ۔۔۔
امی جی آپ تو ایسے بول ری جیسے کوئ رشتہ دیکھنے آ را ھو۔۔
وہ یہ کہہ کر خود ہی ہسنے لگی اور امی جی نےسر دائیں بائیں مارا جیسے کہہ رہی ہوں تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔
سدھر جاو زارا۔۔۔۔یہ اُس کی سیسٹر عشل تھی دونوں بہت مختلف تھیں جیسے مشرق اور مغرب۔۔۔۔زارا اسے دادی اماں بلاتی تھی ویسے بھی ان کے والد کے بقول عشل میں ان کی ماں کا عکس تھا۔۔۔۔یعنی ماں کی ساس۔۔۔۔(خوفناک رشتہ)...زارا ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئ آخر کو برداشت کرنا تھا بہن جو ٹھہری۔۔۔۔ہاہاہا