وعدہ
آزثوبیہ عابد
حالاسے یونیورسٹی میں آئے کافی وقت ہو چکا تھا۔ وہ کلاس کی ذہین اور قابل لڑکی کے نام سے مشہور ہو چکی تھی۔اس کا فلسفی مزاج اسے سب سے منفرد بناۓ ھوۓ تھا۔ اس کی دونوں سہیلیاں وہ جولی ٹائپ تھیں اور اسکی روم میٹس بھی۔۔۔
ُاُمِ مریم اور روزالیہ انجم۔۔۔۔اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔۔۔۔
دوست اگر اچھے ہوں تو زندگی سنور جاتی ہے ۔ اگر یہی اگر آزمائش بن جائیں تو انسان کہیں کا نہیں رہتا۔۔۔
زارا کی زندگی دوستوں کی وجہ سے آزمائش بھی بنی تھی اور ساتھ دوست اسکی زندگی کی بے دم فضا میں آسائش کا ساماں بنے ہوئےتھے ۔۔اسکی یہی ادا بڑی پیاری تھی وہ اس سب کے باوجود نہ امید نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔مگر اندر سے خالی ہو گئ تھی۔۔۔وہ خالی پن ایک ہی شخص تھا۔۔۔۔اس کی یہ خلا قدرت نے پیدا کی تھی اب وہی اسے پوری کر سکتی تھی۔۔۔
وہ دعا ، قدرت اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے والوں میں سے تھی مگر اب وہ پہلے سے کہیں ذیادہ محتاط تھی زندگی کی آزمائش نے جہاں لاکھڑا کیا تھا
کیسے اس نے خود کو سنھبالا صرف وہی جانتی تھی وہ اس جنگ میں تنہا رہی تھی اور جب تنہا آدمی خود کو سنھبالتا ہے تو اس جیسا مضبوط انسان کوئی نہیں ہوتا۔
اب ایک وعدہ خود سے کر چکی تھی کبھی بھی۔۔۔کسی صورت وہ ماضی کو نہیں دھوراۓ گی ہرگز نہیں۔۔۔روزی محترمہ بڑی جھلی ھیں آپ کس نے کہا تھا آئن سٹائں بنے کو کرا دی نہ عزت افزائی مل گیا سکون ؟۔۔۔اب کیسا فیل کر ری ہیں آپ۔۔۔۔مریم نے بریانی کا چمچ کھاتے ہوۓ مزاق اُڑایا۔۔۔۔
روزی ہاتھ کی مٹھی بناۓ منہ کے نیچے رکھے اُسے گھور رہی تھی۔۔۔۔
تم نہ بچ جاؤ میرے ہاتھوں۔۔۔میں نے تمہیں کچا چبا جانا ہے۔۔۔۔اور اتنی بری حالت کر دینی کہ تمہیں دیکھ کر تمھارا منگیتر بھاگ جاۓ گا۔۔۔۔پھر روتی رہنا سر پکڑکر۔۔۔روزی نے دونوں ہاتھ میز پر مارتے کہازارا جو فون کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی طرف متوجہ اپنی ہنسی کو روکے ہوۓ تھی آخری بات پر ہی مشکل ثابت ہوا۔۔۔وہ کھلکھلا اُٹھی۔۔۔
اس کی ذات سب کے لیے معمہ تھی۔۔۔خود اسکے اپنے لیے بھی اسے سمجھنا مشکل تھا۔۔۔
وہ مسکراتے ہوۓ انھیں دیکھ رہی تھیوہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئیں ۔۔۔
اتنی بڑی سزا۔۔۔۔اسکے منگیتر کا کیا قصور ہے؟۔۔۔۔اُسے کیوں جیتے جی مارنا چاہتی ہو۔۔۔۔زارا نے ہنسی روکے۔۔۔سنجیدہ ہونے کی ناکام ایکٹنگ کرتےکہا۔۔
مریم نے اسے ایک گھوری ڈالی۔۔۔اور وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی جب زارا نے فوراً روک دیا۔۔۔۔وہ جانتی تھی یہ پھر شروع ہو گئیں تو روکنا مشکل ہو گا۔۔ویٹ ویٹ۔ویٹ۔۔دونوں بلکل چپ ہو جاؤ۔۔۔یہ فینش کرو ہمیں ہاسٹل واپس جانا ہے۔۔۔زارا نے بریانی کی پلیٹ کی طرف اشارا کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے کو گھورتے بریانی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔۔ان کی یہ نوک جھوک ان کی زندگی کا حصہ تھی۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ تینوں اپنے کمرے میں موجود تھیں ۔۔۔
شکر اللہ پاک کا آج صرف دو لیکچر ہوۓ۔۔۔روزی نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے انداز میں اپنے چہرے پر پھرتے ہوۓ کہا۔۔۔
مریم جو الماری میں اپنے کپڑے سیٹ کر رہی تھی اور زارا پین اور کاپی لیے کچھ سوچنے میں مصروف تھی۔۔۔دونوں اسکی بات اور انداز پر ہنس پڑیں۔۔۔۔
ہاں ہاں صحیح کہا!۔۔ ورنہ مزید دو لیکچر میں ہمیں آئن سٹائن سے فیض یاب ہونا پڑتا۔۔۔مریم نے زارا کی طرف ایک آنکھ دباتے روزی کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
جس پر روزی نے کوشن اٹھا کر اس کی طرف پھینکا۔۔۔جسے مریم نے بڑی مہارت سے کیچ کرتے ہوۓ واپس اسکی طرف اچھال دیا وہ سیدھا اسکے سر پر لگا ۔۔۔ اور وہ منہ کھولے مریم کو گھور رہی تھی وہ بھی اپنی کمر پر ہاتھ رکھے اسی کی طرف متوجہ تھی۔۔۔۔
مریم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
روزی نے دانت پستے ہوئے کہا۔۔۔۔اور اسکے پیچھے ددوڑ لگا دی۔۔
مریم ایک بیڈ سے دوسرے سے تیسرے ۔۔۔۔پھر کرسیوں سے ہوتے ہوۓ۔۔۔ پردے اسکی طرف اُچھالتی اسکی پہنچ سے دور تھی۔۔۔
تم دونوں اپنی لڑائی میں ہمیشہ مجھے بھول جاتی ہو۔۔۔زارا نے منہ پھولاۓ کہا۔۔۔
یہ لو آجاؤ تم بھی ۔۔۔۔۔روزی نے تکیہ اسکے سر پر مارتے ہوۓ کہا۔۔۔۔اب وہ تینوں آگے پیچھے تھے۔۔۔ان تینوں نے ایک دوسرے کو تکیہ مار مار اسےتار تار کر دیا تھا۔۔۔ جو فضا میں اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔۔۔۔
اب وہ تھک کر بیڈ پر لیٹی اپنا سانسس بحال کرنے میں مصروف تھیں۔۔
اچھا بس اب جلدی کرو یہ صاف بھی کرنا ہے۔۔۔ وارڈن نے دیکھ لیا نا تویہی حال ہمارا ہو گا۔۔۔زارا نے تار تار ہوۓ تکیے کی طرف اشارا کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
وہ تینوں صفائی میں جت گئیں۔۔۔
وقت گزرتا چلا گیا۔۔۔انکی دوستی مزید گہری ہو گئ
وقت کی یہی ادا اچھی ہے کہ وہ گزر جا تا ہے۔۔۔۔
اور بہت سے زخم بھر بھی جاتے ہیں مگر اکثرو بیشتر نہیں۔۔۔