حال:
کاشان اور ولی تمام تیاری کو چیک کر کےواپس اپنے اپارٹمنٹ آۓ۔۔۔دونوں ہی صوفے پر نیم ذراز تھے کھانا انھوں نے باہر سے ہی کھا لیا تھا۔۔۔۔
کاشان پنٹ شڑٹ پہنے ہوۓ۔۔آستیننں کو کہنیوں تک فولڈ کیے ہوۓ تھا اس کے بال ماتھے پر بکھرے ہوۓ تھے۔۔۔اس کا چشمہ جو آنکھوں پر پہرہ دیے ہوۓ تھا۔۔اسے ہٹاۓ سر کو دبانے میں مصروف تھا۔۔۔اس کے سر میں ہلکا ہلکا دردہو رہا تھا۔۔۔۔
وہ اٹھا تو ولی کو چھت کو گھورتے پایا۔۔۔تمہیں کیا ہوا تم کیوں علامہ اقبال بنے ہوۓ ہو؟؟۔۔۔۔ایسا کیا سوچا جا رہا ہے ذرا مجھے بھی پتہ چلے!!۔۔۔۔۔کاشان نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔۔
کچھ نہیں یار بس یہ سوچ رہا تھا۔۔۔کہ مجھے یہاں دوسال ہو چکے ہیں اگر مجھ سے کوئی پوچھ لے ڈاکٹری کے بارے میں مجھے تو ککھ نہیں پتہ۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہہاہاہا۔۔۔کاشان کا قہقہہ گونجا ۔۔۔۔اور وہ ہنستا ہی چلا گیا۔۔۔۔۔
میری مانو تم یہ فیلڈ ہی چھوڑ دو۔۔۔۔واپس گاؤں جا کر جاگیرداری کرنا وہ ذیادہ آسان ہے تمہارے لیے۔۔۔۔۔یار میں سیریس ہوں۔۔۔سب گاؤں والے سمجھتے ہیں میں اچھا ڈاکٹر بنوں گا اور ان کا علاج کروں گا۔۔۔۔۔۔
تم ڈنگر ڈاکٹر بن جانا ۔۔۔کم از کم انسان تو خطرے سے باہر رہیں گے۔۔۔۔
اس کی اس بات پر ولی نے اس کی طرف کُشن اُچھالا۔۔جسے بڑی مہارت سے کاشان سائیڈ پر کر گیا۔۔۔
تم تو چپ ہی رہا کرو۔۔۔ولی نے کہا۔۔۔۔۔۔
تمہیں جانوروں کا بھی احساس نہیں۔۔۔۔
یعنی کے تم جانوروں کا بھی علاج نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔کاشان نے اسکی ہنسی اُڑائی۔۔۔۔۔یار شرم کرو تمہیں تھوڑا سا احساس نہیں اتنی معصوم شکل ہے میری۔۔۔۔ولی نے معصوم سا منہ بنایا۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہاہا۔۔ پچھلے دو سالوں سے یہ سڑا ہوا منہ ہی دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔میری برداشت کو داد دو۔۔۔کاشان پھر اُسے تنگ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
تمہارا قتل میرے ہاتھوں ہی ہوگا۔۔۔قسم لے لو مجھ سے بہت فضول بولتے ہو تم۔۔۔ولی تنک گیا۔۔۔توبہ کرو یار کبھی کبھی چیزیں سچ بھی ہوجایا کرتی ہیں۔۔۔اچھا چھوڑو۔۔۔میں کوفی بنانے جا رہا ہوں تم لو گے؟۔۔۔
ہاں!! اپنے لیے زہر بھی ڈال لینا اس میں۔۔۔ولی کہتا اپنے روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
تمہیں نا ڈال کر دے دوں۔۔۔دھرتی پر بوجھ ختم ہو جاۓ گا۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔دونوں کے قہقہے گونجے تھے۔۔دونوں ایسے ہی تھے پردیس میں دیسی یاری۔۔۔دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔۔۔ایک دوسرے کو سمجھتے تھے لڑتے بھی تھے۔۔۔۔واقعی کسی نے سچ ہی کہا۔۔۔ دوست نعمت ہوتے ہیں۔۔۔
وہ دونوں فریش ہونے کے بعد کوفی پی رہے تھے کاشان وال گلاس سے باہر گھور رہا تھا۔۔۔۔۔
اس کے سر کا درد اب بھی ختم نہیں ہوا تھا۔۔۔
کیا ہوا یار؟۔۔۔۔ولی اس کے چہرے کے نقوش کو تکتا استفسار کرنے لگا۔۔۔۔
سر میں خاصا درد ہے۔۔۔کاشان نے کوفی کا سیپ لیتے ہوۓ کہا۔۔۔
تو سو جاؤ۔۔۔ولی نے نارمل انداز میں کہا۔۔۔۔اس کی اندرونی حالت سے بےخبر۔۔۔۔
نیند آنا محال ہے۔۔۔۔کاشان نے بھی اسی انداز میں کہا۔۔۔وہ واپس صوفے پہ آ بیٹھا