باب ١ | بے آواز گلی کوچوں میں

544 40 43
                                    

گرفتہ دِل عندلیب گھائل گُلاب دیکھےمحبتوں نے سبھی رُتوں میں عذاب دیکھے

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

گرفتہ دِل عندلیب گھائل گُلاب دیکھے
محبتوں نے سبھی رُتوں میں عذاب دیکھے

وہ دِن بھی آئے صلیب گر بھی صلیب پر ہوں
یہ شہر اِک روز پھر سے یومِ حساب دیکھے

یہ صبحِ کاذب تو رات سے بھی طویل تر ہے
کہ جیسے صدیاں گزر گئیں آفتاب دیکھے

وہ چشمِ محروم کتنی محروم ہے کہ جس نے
نہ خواب دیکھے نہ رتجگوں کے عذاب دیکھے

کہاں کی آنکھیں کہ اب تو چہروں پہ آبلے ہیں
اور آبلوں سے بھلا کوئی کیسے خواب دیکھے

عجب نہیں ہے جو خوشبوؤں سے ہے شہر خالی
کہ مَیں نے دہلیزِ قاتلاں پر گُلاب دیکھے

یہ ساعتِ دید اور وحشت بڑھا گئی ہے
کہ جیسے کوئی جنوں زدہ ماہتاب دیکھے

مجھے تو ہم مکتبی کے دِن یاد آ گئے ہیں
کہ میں اُسے پڑھ رہا ہُوں اور وہ کتاب دیکھے

احمد فرازؔ
بے آواز گلی کوچوں میں

___________

"ایزل؟"

اسے اپنا نام جیسے کہیں دور سے ایک ہلکی گونج کی طرح سنائی دے رہا تھا- اس سے پہلے کے اسکے حواس بحال ہوتے کسی نے کندھوں سمیت اسے اپنی طرف شدت سے کھینچ کر جھٹکا تھا۔

"ہوش میں آؤ!! روکو انھیں۔ وہ مار دیں گے اسے!"

اسکا زہن مفلوج نہیں تھا پر حرکت کرنے سے بیزار تھا۔ وہ مسلسل اسکا نام چیختی کندھے جھنجھوڑ رہی تھی پر قریب کہیں شامیانے میں بجتی ڈف اسکے کان میں گھر کر رہی تھی۔ جیسے سامنے ہوتا ہوا حادثہ کسی سلو موشن فلم کی شکل اختیار کر گیا ہو۔ ڈف کی آواز گہری ہوتی جا رہی تھی اور نوجوانوں کے ہم آوز گیت گانے کا شور بلند سے بلند تر ہوتا جارہا تھا۔ عجیب منظر تھا- شادی کے گیت پر خوف کا منظر-

کچھ وقت جیسے وقت وقت میں پیچھے گیا اور اسکی آنکھوں کے سامنے کی فلم بدل گئی۔ وہ سامنے اپنے گھر کو آگ کے بلند شعلوں میں لپٹا دیکھ رہی تھی۔ ارد گرد چیخو پکار ہوتے ہوئے بھی گہرا سکوت تھا۔ جنگل کے بیچ کا وحشت زدہ سناٹا۔ اس وقت بچے کی رونے کی آواز اسے حرکت کرنے پر مجبور کر گئی تھی پر آج نہ کوئی بچہ تھا اور نہ ہی کوئی آواز جو بہتے ہوئے وقت کے گرداب سے اسے کھینچ کر باہر نکالتی۔

اع راف Where stories live. Discover now