کیا تم جانتے ہو اعراف والے کون ہیں؟ وہ جنت اور جہنم کے بیچ حجاب ہے۔ اور وہ ہر گروہ کو پہچانتے ہونگے ان کی پیشانیوں سے۔ وہ پکار کر جنتیوں کو سلام کہیں گے۔ یہ داخل نہیں ہوئے ہونگے جنت میں مگر اس کے خواہشمند ہوں گیں۔ اور جب ان کی آنکھیں دوزخیوں کی طرف پھریں گیں تو کہیں گے، اے ہمارے رب ہمیں ظالموں کے ساتھ نہ کر۔
(اعراف 48)
جنہوں نے بنا لیا تھا دین کو کھیل تماشا اور فریب میں مبتلا کر رکھا تھا ان کو دنیاوی زندگی نے سو آج بھلا دیں گیں ہم ان کو جس طرح وہ بھولے تھے اپنے پیش ہونے کو۔
(اعراف 53)
___________________
وہ نماز پڑھ کر کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا چکی تھی جب اسکا خیال یک دم سے اپنے تحفے پر گیا۔ وہ ابھی تک سٹڈی ٹیبل پر رکھے تھے۔ اس نے لیمپ کی روشنی میں سلیمان صاحب کا دیا ہوا تحفہ پکڑا۔ وہ ایک بہت خوبصورت کاغذ میں سلیقے سے پیک تھا۔ لال ریبن سے بندھا۔ ایزل نے ریبن کھول کر کاغذ الگ کیا۔ ایک درمیانے سایز جتنا کالے رنگ کا ڈبہ تھا۔ اسے کھولا تو اندر ایک کتاب رکھی تھی۔ وہ پرانی ڈائری تھی اور ساتھ ایک گہرے لال رنگ کی چھوٹی سی ڈبیا تھی۔ ایزل نے اسے پہلے کھولا۔
"ایزل کی شادی کا تحفہ، اسکی والدہ کی طرف سے"
لکھائی سلیمان صاحب کی تھی۔ وہ پہچانتی تھی۔
اسکی دھڑکن رک کر چلی تھی۔وہ ایک سونے کی چین تھی چس کے لاکٹ پر سورج بنا تھا۔ سورج کی کرن ہر سمت تھی۔ اسکی آنکھیں نم ہوئیں۔ یہ شہرزاد، اسکی امّی کا لاکٹ تھا۔ یہ وہ پہنا کرتی تھیں۔ یہ اسکے ابا نے سنبھال کر رکھا تھا۔ کب سے؟ اسے علم نہیں تھا۔
کتاب کی جلد آسمانی نیلے رنگ کی تھی، پرانی مگر مضبوط اور قائم۔ سیاہ ہندسے ایک لفظ بنا رہے تھے۔