دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب!
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہوشورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت، جس پر تقریر بھی فدا ہومرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کہ ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو-اقبال
_____________"یہ نکاح کبھی نہیں ہوگا مِعراف!"
وہ آخری الفاظ نہیں تھے جو اس رات سب کی سماعتوں سے ٹکڑا کر زندگی کا ایک نیا باب کھول گئے تھے۔
یوشفات غصے میں گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر جا بیٹھا تھا جسکے ساتھ پیسنجر سیٹ پر مرے قدموں سے ایزل آبیٹھی تھی۔ مِعراف اور یوشفات ایک دوسرے کی جانب ابھی تک سخت نظروں سے متوجہ تھے۔ ڈالیا بغور ان تینوں کو اور پھر نیتھن کو دیکھنے لگی جو اس ہی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اسکی نظروں میں دبا غصہ اور شکایت تھی۔ جیسے، اسے کم از کم اتنا بھروسہ تو کرنا چاہیئے تھا کہ ایزل کے بغیر بھی وہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچاتا اور تو اور یوشفات سے تعاقب کروا کر بھی بنے بنائے ثبوت کا ہر ذرہ مٹا دیا۔ اب وہ دونوں ہی نہیں جان پائیں گے کہ ایزل کے ساتھ ہوا کیا پچھلے پندرہ منٹ میں۔ نہ کوئی چیخنے چلانے، شور کی آواز بس دونوں کا اچانک نمودار ہونا اور نکاح کا اعلان کر دینا۔
ان تینوں کی گاڑی جا چکی تھی۔ معراف دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا کسی سوچ میں تھا جب نیتھن نے اپنی گاڑی کی طرف چلنے کی بجائے پلٹ کر اسے دیکھا۔ بیک وقت نظریں ملیں اور وہ تیزی سے واپس اسکی جانب بھاگا تھا۔
"نیتھن کیا بکواس حرکت ہے؟" وہ معراف کو دھکیل کر کمرے کے دروازے کی طرف لپکا جب مِعراف نے پچھلی جیب سے پسٹل نکال کر گن شاٹ سیدھا دیوار کی طرف گاڑھ دی۔ وہ کمرہ ہی نہیں یہ پورا فلیٹ یا پھر شاید مخصوص اسکا فلیٹ ساؤنڈ پروف تھا۔ دروازے کے باہر اندر ہونے والی کوئی بھی آواز باہر نہیں جاسکی تھی اور زیر زمین اس مخصوص کمرے کی تو کسی صورت ہی باہر والوں کو نہ جاسکتی تھیں۔ نیتھن اپنی جگہ پر ساکت جم گیا۔ آہستہ سے مڑا اور بےیقینی سے اسے دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں حیرت اور دکھ کی ملی جلی کیفیت تھی۔