تیسری قسط

170 15 0
                                    

"اور پھر میں نے اس کے موبائل پر خوبصورت چہرے والی لڑکی دیکھی۔" کسی دکھ سے بتاتے ہوئے وہ نظریں جھکا گئی۔
"اوہ روما میرا دل ڈوب رہا ہے۔ میرو صرف میرا ہے! میں نے اسے بہت چاہا ہے۔" اس کی نم آنکھوں روما کے دکھ میں اضافہ کر گئیں۔
"تم فکر مت کرو۔۔ میں اسے تمہاری جگہ کبھی نہیں لینے دوں گی۔ وہ جو کوئی بھی ہے اسے میرو کی زندگی سے جانا ہوگا یار!۔" اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہ اسے تسلی دینے لگی۔ سومیہ نے آنسو اندر لیے۔
"تمہاری بھابھی صرف میں ہی بنوں گی نا؟۔" درد کو کم کرنے کے لیے یہ ایک تسلی ہی کافی تھی۔
"ہاں بس اب تم پریشان مت ہو۔۔" نجانے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ وہ کچھ سوچتی ہوئی اس کے ساتھ کلاس میں بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آج آخری تاریخ ہے اسائمنٹ جمع کروانے کی۔ اگر نہیں گئی تو اسائمنٹ نہیں جمع کروا پاؤں گی بابا۔" اس کے ہاتھ میں اسائمنٹ کی فائل تھی۔ صبح کے آٹھ بجے وہ یونیورسٹی جانے کے لیے ماں باپ کو راضی کر رہی تھی۔
"باصم کو ہر چیز کی خبر ہے۔ جانتی ہو نا بھابھی کیا کہہ کر گئی تھیں! ان کا آوارہ بیٹا کہیں نہ کہیں اپنا غصہ ضرور اتارے گا اور ہم یہ قطعی برداشت نہیں کرسکتے۔ تمہارے بابا چلنے پھرنے قابل نہیں ورنہ وہ آج تمہیں یونیورسٹی سے لانا لے جانا کرلیتے غنایہ۔۔" عفت پریشان تھیں۔
"مگر امی پروفیسر ذاکر بہت غصے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو اسائمنٹ نہیں بنائے گا اسے امتحانوں میں مارکس نہیں ملیں گے۔ آج نہیں جا پائی تو دو ہفتے بعد ہونے والے پرچوں میں فیل ہوجاؤں گی۔ مجھے جانے دیں۔۔" اس کی آواز مزید دھیمی اور آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ ابرار نے بیٹی کو قدرے دکھ سے دیکھا۔ انہیں کوئی حل نظر نہ آیا۔
"اپنی بہن سے کہو اگر وہ تمہیں لے کر جاسکے۔" ذہنی تھکن سے آنکھیں موند لی گئیں۔
"آج جمعرات ہے بابا۔ وہ آفس میں ہوگی۔ مجھے دس بجے تک جانا ہے اور کاشی نو بجے ہی آفس کے لیے نکل جاتی ہے۔" اس کی آنکھیں اب بھی گیلی تھیں۔ وہ اپنے اسائمنٹ کے لیے بہت پریشان تھی۔
"وہ کچھ بھی کرسکتا ہے غنایہ۔" انہیں گھبراہٹ تھی۔
"میں باسمہ کے ساتھ رکشے میں آجاؤں گی امی!۔" اس نے آخری بار کوشش کی۔۔
"ٹھیک ہے۔۔ تم جاؤ اور دھیان سے جانا۔" ابرار کا دل راضی نہیں تھا مگر وہ مجبور تھے۔ عفت نے شوہر کو دیکھا۔ وہ خوش ہوتی کمرے میں بڑھ گئی۔
"مگر میرا دل عجیب سا گھبرا رہا ہے ابرار۔۔ اسے روک لیں۔"
"ہم بھی مجبور ہیں۔۔ روک لیا تو دل کو تو تسلی مل جائے گی مگر اس کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ اور اگر جانے دیا تو ایک عجیب سی پھانس دل میں چھبتی ہوئی محسوس ہوگی جب تک وہ لوٹ نہیں آئے گی۔" انہوں نے تکیے پر سر رکھ کر آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔
"آپ ساویز کی انکوائری کب کروا رہے ہیں؟ سب کچھ اگلے ہفتے سے پہلے کرنا ہے۔ اور پھر انکوائری میں بھی وقت لگتا ہے۔" عفت اتنا اچھا لڑکا ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی تھیں۔
"دفتر کے دوست سرور صاحب سے کہہ کر چھوٹی موٹی انکوائری کروائی تھی۔ ان کے پاس وقت نہیں تھا اس لیے کہا کہ جتنی چھان بین کرسکتے ہیں کر کے بتادیں۔ سوچا تھا جب تک میں صحت پکڑ لوں گا تو بقایہ چھان بین خود کرلوں گا۔۔ مگر صحت گرتی جا رہی ہے۔ بہرحال ان کا کہنا ہے کہ لڑکا درست ہے۔ اس نے اپنے آفس، گھر اور فیملی کے بارے میں ٹھیک بتایا تھا۔۔"
عفت کا چہرہ چمکا۔
"اگر اللہ نے اس کا نصیب ہماری غنایہ کے ساتھ رکھا ہے تو دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگیں۔ وہ لڑکا کتنا قابل ہے۔ اپنا بزنس ہے اور خود مختار ہے۔ ہر اچھی خوبیوں کا مالک اور شکل و صورت میں بھی خوبصورت!۔" وہ نجانے کیوں اسے اپنی بیٹی کے ساتھ خیالوں میں دیکھ کر خوش ہونے لگیں۔
"عفت جائیں اور غنایہ کو ناشتے کا کہیں۔۔ یہ لڑکی ناشتہ بلکل نہیں کرتی۔" وہ تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتے تھے۔ عفت اثبات میں سرہلاتیں غنایہ کے پاس جانے مڑ گئیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اگلے ہفتے مینجر پارٹی دے رہے ہیں۔" صوفیہ نے اسے خبر سنائی تھی۔
"مینجر؟ مینجر کیوں دے رہے ہیں؟۔" اسے کافی حیرانی ہوئی۔ بھلا وہ غصے والا خرانٹ آدمی بھی پارٹی منعقد کرسکتا تھا؟۔
"کچھ دنوں میں کمپنی کی پندرہ سالہ انیورسری ہے اور باس چاہتے ہیں کہ وہ دن جوش و خروش سے منایا جائے۔ پھر ہمارے مینجر صاحب نے بھی اپنے گھر پارٹی منعقد کر لی۔ یعنی سمجھو اس مہینے دو دو پارٹیز اٹینڈ کرنی ہوں گی۔"
"باس کی طرف سے ہونے والی پارٹی سمجھ بھی آتی مگر مینجر؟ وہ کس خوشی میں پارٹی دے رہے ہیں؟۔"
"یہ بات وہ آکر خود بتائیں گے۔ تم بےفکر رہو!۔" صوفیہ چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
"کام چھوڑ کر سب میری بات سنو!۔" اسی دم مینجر کی آواز پر وہ سب متوجہ ہوئے تھے۔ "یہ مہینہ واقعی بہت تھکا دینے والا تھا۔ اتنا کام کا بوجھ اور لمبی لمبی ڈیوٹیز! تو میں نے اور باس نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ ایک پارٹی رکھی جائے تاکہ سب انجوائے کرسکیں۔ اگلے ہفتے کی کوئی تاریخ رکھ لیتے ہیں۔ پھر کیا کہتے ہو دوستوں؟۔" وہ اب بےحد خوشی سے سب سے ڈسکس کر رہا تھا۔ سب نے ہی ہاں میں ہاں ملائی تھی جبکہ عاشی آئبرو آچکا کر گہری سانس خارج کرتی رہ گئی۔
"کم از کم میں نہیں جانے والی!۔" خود ہی بڑبڑاتی ہوئی وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
"امید ہے سب آئیں گے!۔" اس کی بڑبڑاہٹ کچھ ہی فاصلے پر کھڑے مینجر نے سن لی تھی۔ عاشی نے چونک کر اسے دیکھا جو اب اپنی نظریں دوسری طرف مرکوز کر چکا تھا۔ دل ہی دل میں خود کو کوستی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"آپ کہیں جا رہی ہیں مس؟۔" اسے وہاں سے جاتا دیکھ کر مینجر جھٹ بولا۔
"جی میں فریش ہو کر آرہی ہوں!۔" اب وہ تب تک واپس نہیں آنے والی تھی جب تک یہ ٹاپک بند نہیں ہوجاتا۔
"کیا کہا اس نے؟ کیا وہ آئے گی؟۔" اسے جاتا دیکھ کر رافع صوفیہ سے پوچھنے لگا۔
"نہیں۔۔ وہ نہیں آئے گی۔" مینجر جا چکا تھا اور اب رافع افسوس سے صوفیہ کو دیکھ رہا تھا۔
"کیا تم اسے آنے کے لیے منا سکتی ہو؟۔"
"میں اسے ویسے بھی پارٹی کے لیے منانے والی ہوں۔ تمہارے لیے نہیں! بلکہ اپنے لیے!۔" اس کی حرکتوں سے صوفیہ اچھی طرح واقف تھی اس لیے دو ٹوک لہجے میں کہہ کر اپنے بیگ میں فائل ڈھونڈنے لگی۔ رافع کے لبوں پر مسکراہٹ چمکی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مینجر صاحب یہ ڈاکومنٹ میں کل ہی مکمل کر کے دے چکا تھا۔" وہ آدمی آدھے گھنٹے سے اس کا دماغ چاٹ رہا تھا۔
"میں نے آپ سے کہا نا کہ وہ مجھے ریسیو نہیں ہوئی۔ آپ کو ایک بار چیک کرلینا چاہئیے۔" سختی سے کہتے ہوئے وہ دوسری میز پر پہنچا۔
"رابعہ اناوسمنٹ کردو کہ جو میٹنگ باس نے آج رکھی تھی وہ کینسل ہوچکی ہے۔" اسے حکم دیتا وہ آگے بڑھ رہا تھا جب رابعہ کی آواز نے اسے روکا۔
"مگر ایسا کیوں؟ آج تو بڑی میٹنگ تھی۔" وہ حیرانی سے بولی۔
"ہاں مگر باس آج آفس نہیں آئیں گے۔ تم یہ اناوسمنٹ کردو تاکہ جو میٹنگ کی تیاری کر رہے ہیں وہ سن لیں۔"
"اوہ شکر! ہماری مسز فاروق سے میٹنگ کب طے پائی ہے؟۔" وہ کیبورڈ پر تیزی سے ہاتھ چلا رہی تھی۔
"ان کی طرف سے کوئی تاریخ نہیں آئی ہے اس لیے باس چاہتے ہیں کہ تاریخ ہم خود طے کریں۔ میں سوچ رہا ہوں اس ماہ کے آخر میں یہ کام سر انجام دیں کیوں کہ اب بھی ایسے کافی کام ہیں جنہیں توجہ کی ضرورت ہے۔" وہ عام سے لہجے میں اسے آگاہ کر رہا تھا۔ رابعہ مسکرائی۔
"امید ہے تم اس بار اچھے ریسٹورینٹ میں میٹنگ رکھو گے۔" وہ اسے بہت کچھ یاد دلا گئی۔ میر کا قہقہہ گونجا۔
"آخری بار مسٹر اکمل کے ساتھ میٹنگ تھی اور انہوں نے ملاقات کی جگہ بھی خود طے کی تھی اس لیے یہ الزام مجھے نہ دو! اس بار یہ موقع ہمارے ہاتھ میں ہے اس لیے تم بےفکر رہو! ایسے ریسٹورینٹ میں لے کر جاؤں گا جہاں تمہیں بلیک کافی آسانی سے مل جائے اور مجھے پچھلی بار کی طرح شرمندہ نہ ہونا پڑے۔" اسے پچھلی ملاقات یاد آئی تو ہنس کر کہتا آگے بڑھ گیا۔ رابعہ اب اناوسمنٹ کر رہی تھی۔ ایک نظر سب پر ڈالتا وہ اپنے روم میں چلا گیا۔ چھ بج رہے تھے اور اب بھی کافی ایسے کام تھے جو اسے پورے کرنے تھے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ میٹنگ روم سے باہر نکل کر اپنے آفس روم میں داخل ہوا تھا۔ ذہن عجیب سی سوچوں میں الجھا تھا۔ اسے کبھی اپنے فیصلوں پر عمل کرنے بعد افسوس نہیں ہوا مگر یہ فیصلہ اسے عجیب سے احساس سے دوچار کر رہا تھا۔ نجانے اس کا یہ فیصلہ ٹھیک تھا کہ نہیں؟ ابرار صاحب اگر اپنی بیٹی کے لیے نہ مانے؟ وہ کسی طرح کی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"باس کیا کوئی پرابلم ہے؟۔" اسے گم صم دیوار تکتا دیکھ کر مینجر بولا۔
"نہیں ایسی بات نہیں فارس! بس کچھ سوچ رہا تھا۔" وہ سیدھا ہوکر کرسی کی پشت سے ٹیک لگانے لگا۔
"آپ نے جن میلز کا کہا تھا وہ میں نہیں کر پایا۔ آئم سوری۔" وہ شرمندہ کھڑا تھا۔ ساویز نے اسے بغور دیکھا۔
"مگر اس کی وجہ؟۔"
"بیٹے کی کل پیدائش ہوئی ہے اور اس سے منسلک لاتعداد کاموں میں پھنسا ہوا تھا۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ جلد یہ کام سر انجام دے دوں۔" اس کا لہجہ اس قدر خوشی سے بھرا تھا کہ یہ تھکا دینے والا دن بھی اس پر کوئی اثر نہیں کر پایا۔ وہ چونک اٹھا۔
"تمہارا بیٹا ہوا ہے؟ اور تم آفس میں ہو؟ ایک بار مجھ سے بات تو کی ہوتی!۔" اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ "ٹھیک ہے تم دو دن کی چھٹی پر جاؤ اور بیٹے کے ساتھ رہو! یہ میلز زیادہ اہم نہیں مگر یہ کام تم کسی کو دے جانا۔"
فارس کے لبوں پر مسکراہٹ کھلی۔
"تھینک یو سو مچ سر! میں یہی کروں گا۔" فائل اس کے میز پر رکھتے ہوئے خوشگواری سے کہتا ہوا مڑنے لگا۔
"اور ہاں!۔" ساویز نے آواز دی۔ "بہت مبارک ہو تمہیں!۔"
فارس نے مڑ کر ایک نظر ساویز کو دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی باتوں اور اچھی عادتوں کی وجہ سے ہر جگہ مقبول تھا۔ فارس ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ اسائمنٹ جمع کروا کر باہر کی جانب بڑھ رہی تھی۔ کندھے پر لٹکتے ہینڈ بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے اس نے ارد گرد دیکھا۔ دل عجیب سا گھبرا رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ امی ابا کو یہ جھوٹ نہ بولتی کہ باسمہ یونیورسٹی آئے گی تو وہ اسے کبھی نہ جانے دیتے۔ مگر وہ گھر بیٹھ کر اپنا مستقبل برباد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسے لگا ہر بار کی طرح باصم جب اسے تنگ کرے گا تو وہ رو دھو کر چپ ہو جائے گی مگر سہہ لے گی! لیکن وہ شاید یہ بھول گئی تھی کہ اب بات پہلی جیسی نہیں رہی! اس دن اتنا تماشہ ہو جانے کے بعد اب باصم اسے ایسے ہی نہیں چھوڑے گا۔
یہ اس کی بےوقوفی تھی یا فکرمندی کہ وہ یوں گھر سے نکل گئی تھی۔
سڑک پار کر کے وہ اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگی۔ ہر دن ایک ہی خوف! یہ خوف صرف باصم کے لیے نہیں تھا۔ یوں گھر سے تنہا نکلنے کی عادت نہیں تھی اور وہ اب یونیورسٹی سے گھر جا رہی تھی۔ دل عجیب گھبرا رہا تھا۔ جیسے جیسے قدم گھر سے قریب ہو رہے تھے اس کی گھبراہٹ میں کمی آرہی تھی۔ وہ جلد گھر پہنچ جائے گی اس کو یقین تھا۔ اس نے پہلے کبھی بس یا رکشے کی سواری نہیں کی تھی اس لیے ابھی پیدل جانا ہی بہتر تھا۔ گھر کے قریب چھوٹے بازار کے آگے سے وہ گزر رہی تھی جب سامنے بائیک سے اتر کر آتا باصم اس کی روح فنا کر گیا۔ چہرہ یکدم ہی فق ہوا تھا۔ اس نے پیچھے ہٹنا چاہا مگر مصیبت کے وقت پاؤں بھاری ہوگئے۔ اسے لگا وہ ایک قدم بھی ہل نہیں سکے گی۔ دل زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ اپنے گھر سے ایک گلی دور تھی۔ باصم کا چہرہ دیکھا جو خطرناک حد تک پھیلا ہوا تھا۔ بھنویں آپس میں مل چکی تھیں اور چہرے کے زاویے اس کے غصے کا پتا بتا رہے تھے۔ وہ پھٹی خوفناک آنکھوں سے پیچھے ہٹتی جب باصم نے اس کا بازو سختی سے تھاما۔
"کہا تھا نا تمہیں کہ اگر کسی اور کی زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کی تو بیچ بازار سے کھینچ کر لے جاؤں گا؟۔" آنکھیں شعلہ اگل رہی تھیں۔ گلے میں آوارہ لڑکوں کی طرح ایک کالا کپڑا بندھا ہوا تھا۔ غنایہ کے بولنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوا۔ الفاظ حلق میں پھنس گئے اور اسے لگا جیسے یہ لب کبھی نہیں کھلیں گے۔ وہ بس اپنا بازو چھڑانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ ارد گرد تمام لوگ انہیں دیکھنے لگے۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ غنایہ کے حق میں بول سکتا۔ باصم کی موجودگی کے باعث سب کے چہروں پر دہشت قائم تھی۔
"تمہیں لگا تھا کہ باصم کے خبر ہونے تک رخصت ہوجاؤ گی؟ میں بتاتا ہوں کہ نکاح کیسے ہوتا ہے۔" ہاتھوں کی گرفت اس کے بازو پر سخت تھی۔ رنگت سفید لٹھے کی مانند ہورہی تھی۔ قریب تھا کہ وہ منہ کے بل گرجائے گی۔ فاصلے پر کھڑے لوگ غنایہ کو پہچان گئے تھے۔ نجانے کس نے ابرار کو خبر دی اور وہ اس بیماری میں بھی تقریبا بھاگتے ہوئے آئے تھے۔ باصم بازو کھینچتا اسے وہاں سے گھسیٹتا ہوا لے کر جا رہا تھا اور وہ ہچکیاں لے کر روتی اپنے حق میں بولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ابرار درمیان میں کئی بار لڑکھڑائے اور خود میں ہمت جمع کرتے آگے بڑھنے لگے۔
"میری بیٹی کو چھوڑو۔" وہ چیخ کر اس کی جانب بڑھے اور غنایہ کا بازو چھڑانے لگے۔
"اوہ چاچا لگتا ہے تم بھول گئے ہو! کہا تھا نا تمہاری بیٹی مجھ سے بیاہی گی؟ سوچا بھی کیسے کہ محلے میں بیاہ دو گے اور باصم کو خبر بھی نہیں ہوگی۔" اس کا ہاتھ ابرار غنایہ سے دور کر چکے تھے۔ غنایہ باپ کے ساتھ لگ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے پر خوف پھیلا تھا۔
"تم نے غنایہ کا ہاتھ بھی کیسے پکڑا یوں سر بازار؟۔" ان کا دل پھٹ جانے کے قریب ہوا۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد باصم نے جیب سے پستول نکال کر اس کا رخ ابرار صاحب کی جانب کیا۔ ارد گرد کھڑے چند لوگ اس پستول کے خوف سے انہیں وہیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ ابرار نے ایک نظر پیچھے ساتھ لگ کر سسکتی بیٹی کو دیکھا اور پھر نجانے کیا سوچنے لگے۔
"ٹھیک ہے میں غنایہ کی شادی تم سے کردوں گا۔" یہ الفاظ غنایہ کو ششدر اور باصم کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئے۔ غنایہ نے بے یقینی کے عالم میں باپ کو دیکھا۔
"ابا نہیں۔۔۔" بےیقین آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ بنا آواز کے پھٹی آنکھوں سے رو رہی تھی۔
"بیٹا مجھے بھی اپنی زندگی عزیز ہے۔" بھاری گیلا لہجہ۔۔ غنایہ کمزور پڑنے لگی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
"اماں نے بتایا تو ہوگا کہ اگلے ہفتے ہم آرہے ہیں؟ اگلے ہفتے! قاضی کے ساتھ ہمارا استقبال کیجیے گا۔" تو بلآخر اس کے چچا نے بھی ہار مان لی۔ نگاہیں غنایہ کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔
"مگر اس سے ایک دن بھی پہلے نہیں!۔"
"چلو کیا یاد رکھو گے چچا! آج تمہاری بات مان ہی لیتا ہوں۔" وہ قہقہہ لگا کر کہتا دور کھڑی اپنی بائیک پر جا بیٹھ گیا۔ جب تک وہ چلا نہ گیا ابرار اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ ارد گرد لوگ ایک بار پھر سے جمع ہونے لگے۔ ابرار نے چکر کھا کر لڑکھڑاتی غنایہ کا بازو پکڑا اور تیزی سے آگے نکلتے گھر کی طرف بڑھ گئے۔
"مجھے اس سے شادی نہیں کرنی ابا۔" وہ کھنچتی چلی جا رہی تھی۔ ابرار آس پاس کھڑے لوگوں کو دیکھ کر اپنی آج ہوئی عزت افزائی کے بارے میں سوچنے لگے۔ گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور عفت پریشانی سے ٹہل رہی تھیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی عفت کو کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر انہوں نے غنایہ کا بازو انہیں تھمایا۔
"کیا ہوا غنایہ؟۔" پریشان آنکھیں گیلی ہونے لگیں۔ وہ بیٹی کا فق چہرہ دیکھ کر گھبرا گئیں تھیں۔
"مجھے باصم سے شادی نہیں کرنی! خدارا میرے ساتھ یہ ظلم نہ ہونے دیں امی۔ میں اپنی زندگی عذاب نہیں کرنا چاہتی۔" وہ ہچکیوں سمیت رو دی۔
"یہ کیا کہہ رہی ہے آپ کچھ بولتے کیوں نہیں ابرار۔" وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ابرار کو دیکھنے لگیں جو انہیں ایک نظر دیکھ کر اپنا موبائل اٹھا کے کسی کو کال ملا رہے تھے۔ بیل جا رہی تھی اور موبائل کان پر ٹکا تھا۔ غنایہ اور عفت کی نظریں ابرار پر تھیں۔
"اسلام علیکم! ساویز؟۔" ان کی آواز ابھری۔ غنایہ کی حیرانی سے بنھویں اٹھیں جبکہ ابرار ان دونوں کی طرف پشت کیے آگے سے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آج رات تم مجھ سے ملنے آجانا میرو۔" وہ موبائل کان پر لگائے معصومیت سے خواہش کا اظہار کر رہی تھی۔
"آج؟ اور وہ رات؟ روما جانتی ہو نا ورکنگ سے اور رات میں تو کبھی ممکن نہیں! میں آفس سے لیٹ آتا ہوں۔ کیسے آسکوں گا تم سے ملنے؟۔" نرمی سے سمجھاتا ہوا وہ دور کولیگ کو اشارے سے کام سمجھا کر آگے بڑھ گیا۔
"ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ تم مجھ سے نہیں ملے۔" لہجہ بجھا بجھا تھا۔
"میں ملنا چاہتا ہوں مگر۔۔" وہ خود ہی جملہ ادھورا چھوڑ گیا۔
"مگر؟۔" اس نے جلدی سے بات کو پکڑا۔
"مگر مل نہیں پاتا۔"
"میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گی۔ بس ساتھ کچھ باتیں کریں گے اور پھر تم چلے جانا۔" وہ بھائی سے ملنے کے لیے کتنا تڑپ رہی تھی میر جانتا تھا۔ کبھی کبھی کچھ باتیں آپ کئ مرضی کے خلاف ہوجاتی ہیں اور آپ کچھ کر بھی نہیں پاتے۔۔
"میں تم سے وعدہ نہیں کر رہا مگر میں صرف کوشش کروں گا۔" وہ اسے صاف انکار نہیں کر پایا۔ دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔
"صرف کوشش کافی نہیں ہوتی۔" دھیمی آواز مزید دھیمی ہوگئی۔ میر کا دل کٹ کر رہ گیا۔
"تم جانتی ہو میرو بھی تم سے ملنا چاہتا ہے مگر وقت اسے ملنے نہیں دے رہا۔ میں ویک اینڈ پر اس بار لازمی آؤں گا۔"
"تم نہیں آؤ۔۔ چھوڑ دو۔" دل بوجھل سا ہوگیا تو کال رکھ دی گئی۔ میر نے گہری سانس چھوڑ کر ہوا میں تحلیل کی۔ یہ وہ وقت تھا کہ میر اسے دوبارہ کال بھی نہیں کرسکتا تھا۔ موبائل جیب میں رکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"وعلیکم سلام! جی سر۔" ان کی کال پر وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوا۔
"ہم نکاح کے لیے راضی ہیں۔ آج ہی پڑھادیں گے اگر تم آجاؤ۔" ان کی بات جہاں ساویز کے لیے خوشی کا باعث بنی، دوسری طرف وہ حیران بھی ہوگیا۔ آج؟ اتنی جلدی؟
"آج تو میرے لیے ممکن نہیں۔۔ مگر میں کل آجاؤں گا۔ کیا میں اس جلدی کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟۔" لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"میرا بھیتجا باصم آج بھی ہمیں دھمکانے آیا تھا۔ میں مزید اور برداشت نہیں کر سکتا۔" ان کی آواز سے ان کی گھبراہٹ کا واضح پتا لگایا جاسکتا تھا۔ "تم اپنے ساتھ گواہ لے آنا۔"
"جی بہتر۔" اس نے کال رکھ کر گلاس ڈور کے باہر دیکھا۔ جس دم مسکراہٹ گہری ہوئی اگلے دم ہونٹ سکڑ گئے۔
"گواہ!!۔" ایک اور پریشانی! میر کو اس نے نکاح کے بارے میں بتایا نہیں تھا۔ اب گواہ کہاں سے اکھٹے کرے؟ اسے اپنے کچھ پرانے دوست یاد آئے۔۔ کچھ آفس کے لوگ! میر کو بتانا ابھی صحیح نہیں تھا اس لیے وہ کچھ سوچ کر گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ یوں اچانک ان کی کال اس کے کام میں اضافہ کر گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں غنایہ کا ساویز سے نکاح پڑھادوں۔" وہ اب تھک گئے تھے۔ آنکھیں نم تھیں۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ سرِ بازار ان کی عزت کا یوں تماشہ بنے گا۔ غنایہ اب پر سکون اپنے کمرے میں سو رہی تھی۔
"وہ بہت ڈر گئی تھی جب آپ نے باصم اور اس کی شادی کا کہا۔" عفت ان کے نزدیک کرسی رکھ کر بیٹھیں۔
"اگر میں وہ سب نہ کہتا تو بیٹی ہمارے پاس ابھی موجود نہ ہوتی۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں ان کے حال چھوڑ دوں تاکہ قیامت کے روز اللہ ہی ہمارا بدلہ ان سے لے سکے۔" آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔
"ساویز کی انکوائری مکمل تو نہیں ہوئی۔ کیا آپ ایسے ہی بیاہ دیں گے؟۔"
"میرے پاس وہ ہمت نہیں اور سرور صاحب نے دل مطمئن کردیا ہے۔ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں عفت! دو راستے ہیں۔۔ یا تو نکاح پڑھادیں یا گھر بٹھادیں۔ مگر کیا گارنٹی ہے کہ ہم نے اگر اسے گھر بٹھا دیا تو باصم نہیں آئے گا؟ کچھ دنوں میں بھابھی پھر آجائیں گی۔" ساویز کو سوچ کر دل میں سکون کی لہر دوڑی۔
"چلیں اس فیصلے میں کوئی بہتری ہی ہوگی۔ کل نکاح ہے تو کیا عاشی کو بلا لوں؟۔"
"خدارا اسے خبر بھی نے ہونے دے گا۔ اس بات پر تو چیخ چیخ کر اپنا گلا خشک کر لے گی۔ جب نکاح ہوجائے گا تو میں خود کال کر کے بتادوں گا۔" ساویز نے کہا تھا کہ سارا انتظار وہ سنبھالے گا۔ وہ جلد از جلد ابھی صرف نکاح کروانا چاہتے تھے اور رخصتی کا انہوں نے ابھی سوچا نہیں تھا۔ "کیا غنایہ ٹھیک ہے؟۔" انہیں وہ وقت یاد آیا جب ان کی بات سن کر غنایہ کا چہرہ فق ہوا تھا۔ وہ کتنا زیادہ سہم گئی۔
"جب سے اسے پتا چلا ہے کہ آپ اس کا نکاح باصم سے نہیں بلکہ ساویز سے کروا رہے ہیں وہ قدرے مطمئن ہوگئی۔ میری بیٹی کو ستانے والے کبھی چین سے نہیں بیٹھیں گے! اللہ بدلہ ضرور لے گا۔" آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو پلو سے صاف کرتی وہ ایک ہی بات دہراتے دہراتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ امید تھی کہ کل کا دن بھی اطمینان سے گزرے گا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تو؟؟۔" آج دس بجے اسے آرام نے نہیں! میر نے اٹھایا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ آنکھیں پھاڑ کر اٹھ بیٹھا۔
"ہاں تو؟ اتنا حیران کیوں ہو رہا ہے؟۔" اس کی حیرانی پر حیران ہوتا وہ بستر کے دوسری طرف دھپ سے گر کر لیٹا۔ آنکھیں چھت کو گھور رہی تھیں۔
"نہیں بس یوں ہی حیران ہوگیا۔" اسے ایک گھنٹے کے اندر اندر ابرار صاحب کے گھر جانا تھا۔
"یوں ہی بھی کیوں حیران ہوا؟۔" میر آفس جانے کے لیے تیار ہوا تھا۔ کوٹ پینٹ، کالی ٹائی اور سیاہ بال جو سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔
"نہیں وہ دراصل تم آٹھ بجے آفس جاتے ہو تو میں یہ سوچ کر حیران ہوا کہ دس بجے تمہارا یہاں کیسے آنا ہوا۔" بہانہ بنا کر کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"باس فیملی ٹرپ پر ہے اور ایک ہفتے تک میں عیاشیاں کرسکتا ہوں۔ بہرحال تھوڑی دیر میں آفس کے لیے نکل جاؤں گا۔"

تو دل سے نہ اتر سکاWhere stories live. Discover now