چوتھی قسط

162 14 0
                                    

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟۔" میر برابر چیخا۔ اسے وہ لڑکی بہت کچھ یاد کرا گئی۔ "تو اس عشنا کی بات کر رہا تھا؟؟۔" اس نے ساویز کو گھورا۔
"کیا تم لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہو؟۔" اس کے سوال پر دونوں نے ایک دوسرے کو برا سا منہ بنا کر دیکھا۔
"تمہیں یاد ہوگا یہ وہ ہی لڑکی ہے جو یونیورسٹی میں میری جونئیر تھی؟ پاگل تھا اس وقت جو اس عجیب لڑکی سے محبت کر بیٹھا تھا۔ شکر ہے وقت گزرا اور مجھے اپنی بےوقوفی کا احساس ہوگیا۔" اس کی خونخوار نگاہیں عشنا کو گھور رہی تھیں۔ "تو نے اس کی بہن سے شادی کر کے بہت بڑی غلطی کر ڈالی میرے یار!۔" جنگ چھڑ چکی تھی۔ عشنا نے اسے دانت پیس کر دیکھا۔ دوسری طرف ساویز سب سمجھ چکا تھا کہ وہ کون ہے۔۔
"ہاں وہی عجیب لڑکی جس کو اپنانے کے لیے تم پاگل ہوئے جا رہے تھے اور تو اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے میرے ساتھ کیا کیا تھا بھول گئے؟۔" دانت پیس کر وہ اس کو ماضی یاد دلانے لگی۔۔
"کیا کیا تھا سے مطلب؟۔" ساویز نے چونک کر میر کو دیکھتے ہوئے عشنا سے پوچھا۔ میر کی آنکھیں پھٹیں اور گلا خشک ہونے لگا۔ اس نے عشنا کو آنکھیں دکھانی چاہیں کہ وہ اسے کچھ نہ بتائے۔
'اوہ! اس کا مطلب تھا کہ یہ بات ساویز کے علم میں نہیں تھی۔' وہ دل ہی دل میں مسکرائی۔ یہی تو وقت تھا سارا بدلہ لینے کا۔۔ میر کو اس کے تاثرات راز افشاں کرنے والے لگے تو ہاتھ اشارے اور آنکھوں کے تاثرات سے ہی اسے دھمکانے لگا کہ اگر اس نے ایسا کچھ کیا تو بہت برا ہوگا۔
"اس نے مجھے کڈنیپ کیا اور ایک کمرے میں تالا لگا کر بند کردیا تھا۔ اس کی ضد تھی کہ وہ یہ دروازہ تب ہی کھولے گا جب میں اس سے شادی کے لیے راضی ہوجاؤں گی۔" اس کی آنکھیں میر کو گھور رہی تھیں جبکہ میر ایک طرف شرمندہ ہوتا اور دوسری طرف عشنا کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ "مگر میں بھی عشنا ہوں۔۔ اس کے سامنے قسم کھائی تھی کہ جب باہر آؤں گی تو پورے تین تھپڑ ماروں گی۔" آنکھیں میر کی جانب تھیں۔ ساویز ششدر ہوتا ہوا بےیقینی سے میرویس کو دیکھنے لگا جو اس سے آنکھیں پھیر رہا تھا۔
"تم خاموش رہ سکتی تھی؟۔" میر نے الفاظ پیس کر ادا کیے۔
"بلکل نہیں! آج ہی تو موقع ہاتھ آیا تھا۔" وہی دل جلانے مسکراہٹ۔۔۔
"میر؟۔" ساویز نے اسے ناقابلِ یقین لہجے میں دیکھا۔ "تم نے کبھی ایسا بھی کیا تھا؟؟ اور اس بارے میں مجھے کبھی نہیں بتایا حالانکہ ہم تو یونیورسٹی میں بھی ساتھ تھے۔" میرویس کو بے جا شرمندگی محسوس ہوئی مگر وہ غصہ نہیں ہوا۔۔ مسکرادیا۔
"کہا تھا نا مت بتانا۔۔ اب تم صرف پچھتاؤ گی!۔" گہری مسکراہٹ لبوں پر صاف قائم تھی۔
"اب تو لگتا ہے ہم بار بار ملنے والے ہیں۔ میرا تو کافی ادھار بھی رہتا ہے۔۔ سارا چکاؤں گی۔" وہ بھی اپنے نام کی تھی۔ میر کی مسکراہٹ میں مزید اضافہ کر گئی۔
میرویس شاطرانہ انداز سے مسکراتا ہوا اسے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
"کیسی ہیں آپ؟۔" اس کے جانے بعد ساویز نے بات شروع کرنی چاہئیے۔
"تو آپ ہیں ساویز خانزادہ! میری بہن سے نکاح کیا ہے تو اسے نبھائیں بھی۔۔ جانتے بھی ہیں کہ اس پر کیا گزر رہی ہے؟ مگر نہیں شاید آپ کو اس بات کی پرواہ نہیں۔۔" اس کا لہجہ ساویز کے کان کھڑے کر گیا۔
"کیا ہوا ہے؟ غنایہ ٹھیک ہے؟۔" وہ اسے گھبراہٹ میں مبتلا ہی تو کر گئی۔ عشنا نے اس کے یوں اچانک فکرمند ہونے پر ایک آئبرو اچکا کر اوپر سے نیچے تک دیکھا۔
"آپ واقعی فکرمند ہیں؟۔"
"وہ اب میری بیوی ہے۔۔۔" وہ بےجا شرمندہ ہوا۔
"یہی بات تو میں آپ کو یاد کروانے آئی ہوں کہ وہ آپ کی بیوی ہے اور جو اس کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بلکل ٹھیک نہیں۔۔ وہ لڑکا گھر کے چکر لگا رہا ہے اور اس بار اس کے ارادے پہلے سے زیادہ خطرناک ہیں۔ میں علیحدہ رہتی ہوں اور میرے ماں باپ میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس کے آگے جم کر کھڑے ہوسکیں۔" اس نے مضبوط میں لہجے میں آرام سے بات کی تھی۔ ساویز کی بنھویں آپس میں ملیں۔۔
"کیا مطلب وہ گھر آیا تھا؟ مگر کیوں؟! غنایہ کیسی ہیں؟۔" ایک عجیب سی پریشانی دل میں جاگنے لگی۔ دل فکرمند ہوگیا۔ جو بھی تھا وہ اب اس کی بیوی تھی۔۔
"وہ بہت کم ہمت اور بھولی لڑکی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوجانے والی۔۔ اس کا خیال رکھیں کیونکہ وہ آپ سے نکاح کے بعد خود کو محفوظ سمجھنے لگی ہے۔ اس کا مان مت ٹوٹنے دیں۔" وہ رکی نہیں تھی۔۔ مسکراتے ساتھ پلٹ گئی تھی۔ اسے وہ اتنا برا نہیں لگا تھا جتنا وہ سمجھی تھی۔۔ اتنا تو محسوس کر ہی لیا تھا کہ وہ غنایہ کی فکر کرتا ہے۔ میرویس جا چکا تھا اور اب ساویز سن کھڑا تھا۔ شام کے سائے لمبے ہورہے تھے۔ عشنا کی باتوں نے اسے ذہنی طور پر مفلوج کردیا۔۔۔ قدم ٹھہر سے گئے اور اسے لگا جیسے اس سے بہت بڑی کوتاہی ہوگئی ہے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کے ہاتھ میں ایک بریسلیٹ تھا جسے وہ اپنی انگلی موڑ کر روشنی میں دیکھ رہا تھا۔
"کوئی نئی خبر؟۔" اس کا بھاری آواز گونجی۔
"نہیں باس۔۔" خرم اس کے پیچھے کھڑا تھا۔۔ اس کا خاص بندہ۔۔
"ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔ مجھے کچھ گڑبڑ محسوس ہو رہی ہے۔" سلور بریسلٹ پر گلابی رنگ کی موتیاں جڑی تھیں۔ اس مہنگا اور خوبصورت بریسلیٹ کو دیکھتا ہوا وہ ایک طرف سے مسکرایا۔ بائیں رخسار کا ڈمپل گہرا ہوا۔
"جانتے ہو اس بریسلیٹ کی قیمت کتنی ہے؟۔" لبوں کے ساتھ آنکھیں بھی مسکرا رہی تھی۔ نگاہیں اس بریسلٹ سے ہٹنے پر آمادہ نہیں تھیں۔
"میں جانتا ہوں سر! اس دن ہم دونوں جیولری شاپ گئے تھے اور یہ بریسلٹ آپ کو ان کے لیے بہت پسند آیا تھا۔" خرم دور سے اس بریسلٹ کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
وجاہت نے لبی گہری سانس اندر کھینچی۔۔۔
"میری کائنہ۔۔" دل سے دھیرے سے الفاظ نکلے۔ "اسے یہ تحفہ بہت پسند تھا۔ یاد ہے جب اس نے یہ بریسلٹ گھمایا تھا تو کتنا روئی تھی۔۔ نجانے کتنے سال ہوگئے اس بات کو۔۔" آخری جملہ کہتے ہوئے اس نے ہونٹ سکیڑے۔ خرم نے لب بھینچ لیے۔ میز پر رکھی تصویر پر نظر پڑی تو ہٹنا بھول گئی۔
"میں نے اسے بہت پیار سے رکھا تھا۔۔ بےحد لاڈ سے۔۔ ممی بابا کے ایکسیڈنٹ سے وفات کے بعد سب کچھ بدل گیا اور کائنہ۔۔ کائنہ میرے لیے سب کچھ بن گئی۔ سب سے بڑھ کر میرا آخری سہارا۔۔ دس سال کی تھی جب ممی بابا کے حادثے کا سنا تھا۔۔ اور پندرہ سال کے وجاہت کو یاد رہی تو کائنہ!۔" آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ خرم پیچھے کھڑا اس کی باتیں سن رہا تھا۔ میز پر رکھی تصویر کو دیکھتے ہی اس نے آنکھیں چرائی تھیں۔
"اگر وہ مجھ سے میری جان بھی مانگتی تو شاید میں دے دیتا۔" وہ کہتے ہوئے لمحہ بھر کو ٹھہرا۔
"سارا سال گھر میں گارڈز ہوتے ہیں مگر اس کے قتل کے وقت کوئی گارڈ کیسے موجود نہیں تھا۔ یہ گھتی میں سلجھا نہیں پارہا۔"
"باس میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ کائنہ میم نے بہت رات ہونے کی وجہ سے سب کو بھیج دیا تھا۔" خرم تیزی سے بولا۔ وجاہت نے غصے سے میز پر ہاتھ مارا اور پھر خود ہی نڈھال ہوگیا۔
"میری بہن۔۔" تصویر میں مسکراتا چہرہ وجاہت کے آنسو نہ روک سکا۔ دوسرے ہی پل وہ آنسو صاف کرتا وحشت زدہ چہرے سے خرم کو دیکھنے لگا۔۔
"ساویز کا پتا کرواؤ! میں یوں آرام سے نہیں بیٹھ سکتا۔" اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے وہ تیزی سے وہاں سے نکل نکلتا چلاگیا۔ خرم نے ایک بار پھر لب بھینچ کر جاتے ہوئے وجاہت کو دیکھا اور جیب سے موبائل نکالنے لگا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تمہیں مجھ سے شادی تو کرنی ہی ہوگی۔" کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا وہ مسکراتے ہوئے بول رہا تھا۔
"تم سے شادی؟ کبھی نہیں!! میرویس دروازہ کھولو ابھی فوراً۔" دروازے کے اس پار لڑکی بپھری بیٹھی تھی۔
"پیار سے کہو! میرویس میں شادی کے لیے تیار ہوں۔" دروازے سے لگ کر کھڑا وہ آگے سے جواب آنے کا انتظار کر رہا تھا۔
"یہ بات میں کبھی غصے میں بھی نہ کہوں! ایک بار دروازہ کھلنے دو! قسم کھا کہتی ہوں کہ پورے تین تھپڑ ماروں گی۔" مسلسل دروازہ بجایا جا رہا تھا۔
"ہاہاہا ایسے تو نہیں کھلنے والا یہ دروازہ۔ محبت کی ہے تم سے اب مجھ سے شادی تو کرنی پڑے گی۔" اسے ذرا دکھ نہیں تھا۔ مسکراتے ہوئے اپنی منوانے کی کوشش کر رہا تھا۔
"کیا محبت شرط ہے شادی کی؟ افف!! بس کرو میرویس۔۔ مجھے گھر بھی جانا ہے اور کل سر کو اسائمنٹ بھی سمبٹ کروانا ہے۔ ہاں میں ایک کام کرسکتی ہوں۔ تمہارے پروفیسر کا اسائمنٹ بنادوں گی۔"
"تم نکاح نامہ پر دستخط کرنے کو تیار ہوجاؤ پھر اسائمنٹ میں تمہارا بنادوں گا۔" اب بھلا وہ اپنی محبت ضائع ہوتے تو نہیں دیکھ سکتا تھا۔
"تم دروازہ کھولو ابھی فورا!۔" وہی غصہ۔۔ میر چڑ کر رہ گیا۔
"شادی کے لیے راضی ہو؟۔" اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اپنی گھمبیر آواز میں گویا ہوا۔
"بلکل نہیں۔۔" عشنا ترخ کر بولی۔
"پھر اندر ہی بند رہو۔۔ میں جا رہا ہوں۔" جان کر ایسا کہتے ہوئے وہ دروازہ سے دور ہٹ کر کھڑا ہوا۔ لبوں پر مسکراہٹ قائم تھی۔ وہ جانتا تھا یہ ترکیب کام کر جائے گی۔
"نہیں نہیں میرویس! مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔" وہ تیزی سے کہتی التجا کرنے لگی۔ میر کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔
"تو جانِ جاناں یعنی آپ شادی کے لیے مان گئی ہیں؟۔"
جبکہ اندر بیٹھی عشنا حیرت سے دروازے کو تکتے ہوئے سوچنے لگی کہ اس نے ایسا کب کہا؟۔
"ہاں ٹھیک ہے میں۔۔ میں تیار ہوں۔ اب دروازہ کھولو مجھے گھر بھی جانا ہے۔" دماغ میں نجانے کیا چل رہا تھا۔ میر کے دروازہ کھولتے ہی وہ تیزی سے باہر آئی تھی۔ سب سے پہلی گہری گہری سانسیں بھر کر اس نے اپنی حالت بحال کی اور قسم کے مطابق پوری قوت سے ایک تھپڑ میر کے رخسار پر مارا تھا۔ وہ بوکھلا کر رہ گیا۔
"قسم تو تین تھپڑوں کی تھی مگر مارا ابھی صرف ایک ہے۔ باقی ادھار بعد میں پورا کروں گی۔" اسے گھور کر کہتی وہ اپنا بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ ہاں تھپڑوں کا وہی ادھار تھا جس کا ذکر وہ آج بھی کر کے گئی تھی۔ اس وقت تو میر نے اپنا غصہ اپنے کلاس میٹ سے لڑ لڑ کر اتار لیا تھا مگر آج جب وہ لڑکی آنکھوں کے سامنے آئی تو نادان یادیں تازہ کروا گئی۔ بستر پر لیٹا حال کا میر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
"کیا دن تھے وہ بھی۔۔۔" اب تو ماضی پر صرف ہنسی ہی آتی تھی۔۔ جب وہ عشنا کے لیے دیوانہ پھرا کرتا تھا۔ بستر پر لیٹے پرانے دنوں کو سوچتے ہوئے وہ بار بار ہنس رہا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ جب اس کے اور عشنا کے درمیان یہ تکرار ہوئی تھی اس وقت وہ پورے چوبیس سال کا تھا جبکہ عشنا اس سے ایک سال چھوٹی جونئیر تھی جس پر وہ دل ہار بیٹھا تھا۔ تقریباً روز اس کا انتظار کرنا اور صرف اس کے لیے ساویز، اور وجاہت کے ساتھ کیفیٹیریا میں بیٹھنا تاکہ کچھ دور میز پر وہ اسے اپنی دوستوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ سکے۔۔ آج وہ ان باتوں کو سوچتا ہے تو ہنس پڑتا ہے۔ کتنا نادان ہوا کرتا تھا جو ایک لڑکی پر دل ہارنے کے بعد اس سے شادی کی خواہش کیا کرتا تھا۔ عشنا مان جاتی اگر اسے شادی سے لگاؤ ہوتا۔۔ مگر وہ شروع سے ہی کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ تنہا رہ کر خود جاب کرنا اس کی خواہش تھی۔ 
اس نے موبائل نکال کر تصویر کی گیلری کھولی اور اسکرالنگ کرنے لگا۔ پانچ سال پرانی یہ تصویر دیکھ کر آج وہ کھل کر مسکرایا تھا۔ پیلے رنگ کا جوڑا پہنے مسکراتی وہ لڑکی جس کی تصویر آج بھی موبائل میں محفوظ تھی۔ وہ سوچنے لگا پانچ سال پہلے کے مقابلے میں وہ آج بھی ویسی ہی ہے۔۔ وہی پرکشش رنگت اور معصوم چہرہ۔۔ مگر جب بل ماتھے پر نمودار ہوتے تو وہ کوئی خونخوار لڑکی محسوس ہوتی۔ بالآخر پانچ سال بعد ملاقات ہو ہی گئی۔۔
"اب ملے ہی ہیں تو یہ موقع کیوں گنوائیں۔۔" وہ مسکرادیا۔ اسے عشنا سے بدلہ لینا یاد تھا۔۔ ساویز کے سامنے وہ سب کہنا میرویس کو ذرا نہ بھایا۔
"عنقریب وہ یوں راز افشاں کرنے پر پچھتانے والی تھی۔ میر نے ہنستے ہوئے موبائل بند کیا۔
"دوسری ملاقات کے لیے تیار رہو۔"
شیطانی مسکراہٹ بہت کچھ بتلا رہی تھی۔ دماغ میں تیار شدہ منصوبے پر عمل کرنا رہ گیا تھا۔ وہ اوندھا لیٹ کر آنکھیں موند گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کل جب تم آفس سے ہاف ڈے کر کے چلی گئی تھی تو مینجر نے پارٹی کی تفصیلات بتائی تھیں۔" وہ دونوں بریک ٹائم میں کیفیٹیریا میں بیٹھے تھے۔ عشنا نے سمومسے کا ٹکڑا منہ میں ڈالا۔ ساتھ چائے کا کپ رکھا تھا۔ اسے کافی سے کبھی زیادہ لگاؤ نہیں رہا ورنہ آفس کے آدھے سے زیادہ لوگ کافی کے شوقین تھے۔
"سمجھ نہیں آتا کیا ضرورت ہے اس پارٹی کی! باس بھی تو کمپنی کی پندرھویں سالگرہ منانے کے لیے پارٹی دے ہی رہے ہیں۔ یہ مینجر صرف اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔" وہ اب تک اس بات کو بھولی نہیں تھی۔
"افف ہو بس کرو عشنا! خدا کی قسم میں تو بہت خوش ہوں۔ ایک مہینے میں دو دو پارٹیز۔۔" صوفیہ چہک کر بولی۔۔
"یعنی ایک بار پھر شاپنگ!! کہانی کا دوسرا رخ سمجھنے کی کوشش کرو۔۔" ماتھے پر ہاتھ مار کر وہ کوفت زدہ لہجے میں بولی۔ صوفیہ ہنس پڑی۔
"بات تو درست ہے۔ تمہیں تو ویسے بھی شاپنگ کرنی پڑے گی۔ اب جلد بہن کی رخصتی اور ولیمہ ہوگا۔"
"ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ باس کو چاہئیے تھا کہ مہینے کے آغاز میں پارٹی رکھیں۔ تاکہ سیلری بھی ہاتھ میں ہو اور ہم شاپنگ کر سکیں۔۔ مجھے تو ابھی سے اکتاہٹ ہو رہی ہے کہ میں یہ سب کیسے سنبھالوں گی۔" اس نے کہتے ساتھ موبائل پر وقت دیکھا۔ "اوہ بریک ختم ہوگیا ہے۔ ہمیں چلنا چاہئیے اس سے پہلے وہ مینجر آکر ہماری خبر لے۔۔" چائے کا کپ ٹرے میں رکھ کر وہ ہوٹل کے ملازم کو آواز دینے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ غنایہ کی رخصتی کردوں۔ مزید اپنی بیٹی کے لیے کوئی پریشانی نہیں پال سکتا۔" کھانس کر کہتے انہوں نے ساتھ رکھی میز سے پانی سے بھرا گلاس اٹھایا۔
"میں بھی اس بارے میں فکرمندی سے سوچ رہی تھی۔ ہمارے اور غنایہ کے حق میں رخصتی ہی بہتر ہے۔ مگر اتنی جلدی کیا ساویز مان جائے گا؟۔" انہیں ساویز کی جانب سے زیادہ پریشانی تھی۔۔
"آج ہی اس سے بات کروں گا۔ حل صرف نکاح نہیں تھا عفت۔۔ رخصتی معنی رکھتی ہے۔ جب وہ اس کے پاس ہوگی تو اسے احساس ہوگا۔" حلق میں پانی انڈیل کر انہوں کھانسی کو وقفہ دیا تھا۔ "اور دیکھو ذرا اپنی بیٹی کے کارنامے! کیا کہہ کر گیا تھا وہ لڑکا؟ اب وہ اپنی ضد پر آگیا ہے۔۔ ارادے خطرناک ہیں۔۔"
"غنایہ اس کی شروع سے ضد تھی ابرار۔۔ اور اگر کل آپ کی بیٹی ہی اسے وہ تھپڑ نہ مارتی تو وہ غنایہ تک پہنچ جاتا۔" آج زندگی میں پہلی بار انہیں عشنا کا یوں کرنا برا نہیں لگا تھا۔۔ وہ بات کچھ مختلف تھی کہ باصم اب مزید خطرناک ارادوں سے پلٹے گا۔۔ ابرار سانس اندر کھینچ کر اپنے موبائل پر ساویز کو کال ملانے لگے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تو پھر تم نے کیا سوچا ہے؟۔" میرویس جمائی روکنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ ساویز ایک نظر خود کو بیک مرر میں دیکھتے ہوئے سامنے دیکھنے لگا۔
"تمہارا یا غنایہ کا؟۔" اس کا تیز لہجہ میر کو فون کے دوسری طرف چونکا گیا۔
"میرا کیوں؟۔"
"تجھے تو میں بعد میں بتاؤں گا۔ وجہ تو جانتے ہی ہو۔" ذو معنی لہجے میں کہتے ہوئے اس نے گاڑی سیدھے طرف موڑی۔ میر اس کی بات سمجھتے ہوئے عشنا کو سوچتے ہوئے دانت پیسنے لگا جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا تھا۔
"ٹھیک ہے مجھے بعد میں بتانا۔ ابھی غنایہ کا بتادو!۔"
"میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ آج آفس کے بعد اس سے ملنے جاؤں گا۔ ابرار صاحب سے رخصتی کی بات بھی کروں گا۔ بس اب اور نہیں۔۔ پہلے رخصتی خیال نہیں آیا اور اب میں اسے وہاں مزید ٹھہرنے نہیں دینا چاہتا۔ جو بھی ہے اب وہ میری بیوی ہے۔ کاش ایک دفعہ وہ لڑکا باصم ٹکرا جائے۔" باصم کا ذکر کرتے ہوئے اس کی پیشانی پر بل نمودار ہوئے تھے۔
"اگر میں  تمہاری جگہ ہوتا تو یہی کرتا۔ جو بھی ہو جب ایک لڑکی بیوی بن جائے تو اس پر ویسے بھی کوئی بات برداشت ہوتی۔" میر کی باتوں میں دم تھا۔۔ ساویز نے مسکراتا رہ گیا۔
"تجھے بڑا اندازہ ہے کنوارے!۔" میر کو چھیڑنے کا موقع کم ہی نصیب ہوتا تھا کیونکہ آدھے سے زیادہ وقت میر یہ کام کیا کرتا تھا۔
"یہ کنوارہ میں اپنی مرضی سے ہوں۔ شادی کرنی ہوگی تو کرلوں گا۔" دانت پیس کر یاد دہانی کروائی تھی۔
"خیر تم ابھی شادی شدہ دو بچوں کے باپ ہوتے اگر پانچ سال پہلے اس دن عشنا مان جاتی۔ مگر ہائے رے تمہاری قسمت! اس بات پر میں تمہاری بعد میں خبر لوں گا کیو۔۔" وہ ابھی مزید کہتا کہ موبائل پر ابرار صاحب کی کال آنے لگی۔ "میر میں بعد میں کرتا ہوں۔ ابرار صاحب کی کال آرہی ہے۔" کال کاٹ کر اس نے ابرار کی کال اٹھائی۔
"اسلام علیکم سر۔۔"
"وعلیکم سلام بیٹا۔۔ یہ سر کیوں کہہ رہے ہو؟ نکاح ہوگیا ہے اور اب ماشاءاللہ سے تم میرے بیٹے ہو۔۔" ان کی آواز ابھری۔ ساویز جھینپ سا گیا۔
"میں معذرت چاہتا ہوں۔ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اور اس کے لیے میں گھر آنا چاہتا ہوں۔" آفس کے آگے گاڑی روک کر وہ گارڈ وہ اپنی طرف آتا دیکھ رہا تھا۔
"کیوں نہیں بیٹا یہ تمہارا ہی گھر ہے۔۔ بلا جھجھک آؤ۔ مجھے بھی تم سے ایک اہم بات کرنی ہے۔ اگر تم شام میں آجاؤ تو اچھا رہے گا۔" ان کی آواز سے نڈھال پن کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔
"ٹھیک ہے۔ میں ان شاءاللہ آپ کے کہے کے مطابق شام میں آجاؤں گا۔" مخصوص بھاری آواز میں کہتے ہوئے اس نے بات ختم کر کے موبائل جیب میں  رکھا اور کچھ سوچتے ہوئے گاڑی سے اترنے لگا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے ایک لڑکی کی معلومات چاہئیے۔ کیا یہ ممکن ہے؟۔" اس کے موبائل پر عشنا کی تصویر کھلی تھی۔۔
"ٹھیک ہے مینجر صاحب۔۔ مگر کیسی معلومات چاہئیے؟۔" حاشر کے لیے یہ کام کرنا اتنا مشکل نہیں تھا اس لیے حامی بھرلی۔
عشنا کا نمبر بھی میر کے پاس محفوظ تھا۔۔ سالوں پرانا یہ نمبر اسے شک میں مبتلا کر گیا تھا۔۔ کہ کہیں ان کچھ سالوں میں عشنا یہ نمبر تبدیل تو نہیں کرلیا مگر وہ میر تھا۔۔ میرویس! جس کے پاس ہر مسلے کا حل موجود ہوتا تھا۔ کسی نہ کسی طرح ساویز کا موبائل قابو میں کر کے وہ عشنا کا نمبر اپنے موبائل پر موجود نمبر سے میچ کر چکا تھا۔
"زیادہ کچھ نہیں بس مجھے اس کے گھر پتا کروانا ہے۔" وہ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف تھا کہ وہ اپنے گھر نہیں رہتی۔
"ممکن ہے۔۔ میں رات تک کر کوشش کر کے بتادوں گا۔" ایک نظر عشنا کی تصویر دیکھ کر اس نے وہ نمبر رکھ لیا۔ میر کے لبوں پر شاطرانہ مسکراہٹ پھیلی۔ شیطانی دماغ تو پہلے ہی تھا مگر اب شیطانی منصوبے بھی بنانے لگا تھا۔ 'دیکھتے ہیں مس عشنا! صحیح معنوں میں پچھتاتا کون ہے' خیالوں میں سوچتے ہوئے وہ آگے بڑھ تھا۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ابا نے ساویز کو شام میں بلایا ہے۔ وہ رخصتی کی بات کرنے والے ہیں۔" اس کا دل عجیب سا گھبرا رہا تھا۔۔ کیا ہوگا اگر ساویز نے ابھی فوراً رخصتی سے انکار کردیا تو۔۔
"یہی بہتر ہے۔ اب نکاح کیا ہے تو نبھانا تو پڑے گا۔" عشنا کو اب تک اس نکاح پر ایک عجیب سا غصہ تھا۔ "اور اب جو بھی خود بھگتنا۔" اس کی غصے میں آواز ابھری۔ یہ لڑکی کبھی جو غصے کے بغیر بات کرلے۔۔
"اچھا مجھ پر مت ہو غصہ۔۔ ساویز سے ابا کی گفتگو کے بعد تمہیں صورتحال کال پر سنادوں گی۔" بھوری آنکھوں پریشانی ٹھہری تھی۔۔ وہ لب کاٹتی ہوئی ساویز کو سوچنے لگی۔
"میاں صاحب آرہے ہیں اچھے سے تیار ہوجانا۔ دیدار کر کے جائیں گے اور پھر ایک ہفتے بعد ہی آئیں گے۔" طنزیہ لہجے میں ساتھ ساتھ مشورہ بھی دیا گیا۔
غنایہ ہنس دی۔
"اماں نے بھی یہی کہا ہے۔ خود ہلکا پھلکا میک اپ کا سامان سنگھار میز پر رکھ کر گئی ہیں تاکہ میں انہیں استعمال کروں۔"
"خیال رکھنا کہیں آج ہی نہ رخصت کردیں۔" بہن کی ہنسی پر وہ مزید غصے میں نہ رہ سکی۔ ہلکی مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔
"کتنا غلط سوچتی ہو تم ان کے بارے میں۔۔ امی ابا ایسا کچھ نہیں کریں گے۔" پوری آنکھیں کھول کر سمجھایا گیا۔ "اچھا اب میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔ شام ہونے لگی ہے اور مجھے تیار بھی ہونا ہے۔" اس کے آخری جملے پر عشنا کلس کر رہ گئی۔ اسے ساویز کے ذکر پر میرویس یاد آگیا تھا۔ کال رکھ کر اس نے میر کو سوچنا چاہا۔ وہ جب بھی اسے سوچتی ماضی یاد آنے لگتا۔ وہ نادانیاں اور شرارتیں۔۔ یکدم ہی ہنسی کا فوارا چھوٹا۔۔ نجانے وہ اب اس سے بدلہ لینے کے لیے کیا کرنے والا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اسلام علیکم۔۔" شام کے تقریباً پانچ بج رہے تھے جب وہ ابرار صاحب کے گھر میں کھڑا تھا۔
"وعلیکم سلام بیٹا۔۔ اندر آجاؤ۔۔" اسے دیکھتے ہی لبوں پر مسکراہٹ پھیل جایا کرتی تھی۔ ہرے بھرے پودوں پر نگاہ ڈالتا وہ ان کے ہمراہ اندر پہنچا۔
"ہم تمہارا ہی انتظار نہ کر رہے تھے۔" عفت کی خوشگوار اس کے کانوں میں پڑی تو وہ بےاختیار مسکرانے لگا۔
"مجھے خوشی ہے۔"
"آفس سے تھک کر آئے ہوگے۔ میں تمہارے لیے کھانے کے لیے کچھ لاتی ہوں۔" جلدی  سے کہتیں وہ جھٹ کچن کی جانب بڑھیں۔ دوچار باتوں کے بعد ابرار اہم بات کی جانب بڑھے۔
"مجھے نہیں معلوم تھا کہ وقت اتنا مجبور کردے گا کہ مجھے تم سے یہ سب کہنا پڑے گا۔" وہ شرمندہ تھے۔ نجانے داماد کیا سوچے گا۔
"نہیں ایسی بات نہیں۔۔ آپ نے ہی مجھے اپنا بیٹا مانا ہے۔ یوں شرمندہ مت کریں۔" ساویز واقعی جھینپ سا گیا۔
"میں چاہتا ہوں کہ تم غنایہ کو رخصت کر کے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ اس کا یہاں رہنا خطرے کے باعث ہے۔ کل بھی باصم آیا تھا اور کچھ پتا نہیں کے آگے بھی آجائے۔ میں کچھ برا ہونے سے پہلے تمہیں خبردار کر رہا ہوں۔" آنکھیں ڈھلی ہوئی تھیں۔۔ پریشانیوں اور تکلیفوں نے انہیں ہڈیوں کا ڈھانچہ کردیا تھا۔ وہ کمزور سیاہ پڑتے چہرے کے ساتھ بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے اور ساویز سوچنے لگا کہ وہ یہی تو چاہتا تھا۔
"آپ بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ جب سے عشنا نے مجھے باصم کے آنے کا بتایا ہے میں اس بارے میں سختی سے سوچ رہا ہوں۔ مزید انتظار نہیں ممکن۔۔ میں اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔" بات مکمل کر کے وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگا جو الجھے دماغ سے اسے دیکھ رہے تھے۔
"عشنا نے؟ کیا عشنا سے تمہاری کوئی بات ہوئی ہے؟۔"
"اوہ ہاں۔۔ کل وہ مجھ سے ملنے آئی تھیں اور انہوں نے بھی مجھے باصم کا بتایا جس کے بعد میں غنایہ کے لیے کافی فکرمند ہوں۔" اس کے گمان میں نہیں تھا کہ ابرار صاحب کو عشنا کا علم نہیں ہوگا۔
"اچھا اچھا۔۔" انہیں تھوڑا سکون ہوا۔ "میں چاہتا ہوں تم ابھی غنایہ سے ملو اور دونوں مل کر اس موضوع پر بات کرو۔ پھر جو فیصلہ ہو مجھے بتادینا۔" وہ اٹھ کھڑا ہوئے اور عفت کو آواز دینے لگے۔
"غنایہ کو بھیجو۔"
ساویز کے دل میں عجیب سا احساس پیدا ہوا۔
"تم اگر چاہو تو باہر کھلی ہوا میں چلے جاؤ۔ میں اسے باہر بھیج دیتا ہوں۔" ان کے مشورے پر وہ اثبات میں سر ہلاتا باہر چلا آیا۔ ہرے ہرے پودے ٹھنڈی تیز فضا کے باعث ہلتے ہوئے آواز پیدا کر رہے تھے۔ سورج کی ٹھنڈی شعائیں اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ اس نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا۔
لاونج کے دروازے سے غنایہ باہر نکلی تھی۔ ساویز کی اس کی جانب پشت تھی۔۔ دونوں بازو پینٹ کی جیبوں میں تھے اور وہ شاید پھول پودوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنا گلابی ڈوپٹہ درست کیا۔۔ بے حد نفاست سے ڈوپٹہ سر پر ڈالا تھا۔ ہاتھ میں پہنی چوڑیاں آواز کرنے لگیں تو ساویز نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ نگاہیں آپس میں ملیں اور غنایہ کو لگا اس کی سانسیں رک جائیں گی۔ اس نے آنکھیں نیچی کرلیں جبکہ ساویز نگاہ ہٹا ہی نہ پایا۔ اس کے یوں آنکھیں نیچے کرنے پر لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی تھی۔ گلابی رنگ کے سادے سوٹ میں اس کی سنہری رنگت کھل رہی تھی۔ سیاہ کالے بال کھل کر شانوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ نجانے اسے کیوں سب ٹھیک نہیں لگا۔ وہ اسے سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اب کئی سوال ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ بھلا ایک مرد ایک ایسی لڑکی سے کیسے شادی کر سکتا ہے جس کے پیچھے ایک لڑکا ہو۔۔ کیا اس کے دل میں طرح طرح کے خدشے نہیں ہوں گے؟ کیا وہ اسے عزت دے پائے گا؟ وہ جو ہمیشہ باہر کی دنیا سے ڈرتی آئی تھی آج ساویز سے بھی سہم کر کچھ پیچھے ہوئی۔ وہ بھی دنیا والوں کا حصہ تھا۔۔ کہیں وہ بھی باقی مردوں جیسا تو نہیں۔۔ اس نے تھوک نگل کر فرش پر نظریں گڑائیں۔
"غنایہ؟۔" وہ بھاری آواز میں گویا ہوا۔ اس کا یوں پیچھے ہٹنا وہ بلکل سمجھ نہیں پایا۔
"جج۔جی۔" وہ بوکھلائی۔ اسے نظریں اٹھا کر دیکھنا پڑا۔ وہ اس سے قدرے لمبا تھا۔۔ اتنا کہ غنایہ کو سر اٹھا کر بات کرنی پڑی تھی۔
"آپ ٹھیک ہیں؟۔" اس نے ایک قدم آگے بڑھایا تو وہ تیزی سے ایک قدم پیچھے ہٹی۔
"جج۔جی۔" بچپن سے جو خوف اس کے دل ڈالا گیا تھا وہ اب تک وہیں تھا۔۔ ساویز بہت کچھ سمجھ چکا تھا۔
"کیا آپ کو میں ٹھیک نہیں لگا؟۔" یہ سوال اس نے جان کر کیا تھا تاکہ بات جاری رکھنے کا موقع مل سکے۔
غنایہ نے جھٹ اس کا چہرہ دیکھا۔ ان آنکھوں میں ایک خاص بات تھی۔ وہ جتنے وثوق سے کسی کو دیکھا کرتا سارے جذبات آنکھوں پر دیکھائی دینے لگتے۔۔ غنایہ بھی جان گئی تھی کہ جتنے وثوق سے وہ اس کو دیکھ رہا ہے اس کی آنکھوں میں دلچسپی صاف نظر آرہی تھی۔ ہلکی ہلکی مونچھیں اور بکھری شیو۔۔ اس کو تکتی بھوری آنکھیں اور چوڑا سینہ۔۔ کیا وہ واقعی اس سے شادی کے لیے بنا کچھ سوچے سمجھے تیار ہوگیا تھا؟ کیا یہ کوئی گیم تو نہیں؟ اور اگر حقیقت ہے۔۔ تو اس کے امیدوں سے کتنی برعکس ہے۔
"نہیں ایسا تو نہیں۔۔" اس کا دل ساویز کا یہ سوال سہہ نہ سکا۔ وہ ڈرنے لگی کہ اگر یہ دل اس کی آنکھوں میں ڈوب گیا تو کیا ہوگا۔۔ اگر وہ بھی دنیا والوں کی طرح نکلا تو اس کے دل کا کیا ہوگا جو دھیرے دھیرے اس کا اسیر ہورہا تھا۔
"آپ کیسی ہیں؟۔" وہ جو پہلے نظریں جھکا گئی تھی اسے اب ہونقوں کی طرح دیکھ تھی۔۔ شاید دونوں کی آنکھیں ہی ایک جیسی بھوری تھیں۔۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ دل بھی ملتے ہوں۔ اس کے دوبارہ سوال پر وہ تیزی سے نگاہیں جھکا گئی۔
"میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟۔" مروتاً اسے بھی پوچھنا پڑا۔ کیا یہ شادی ساویز کے لیے بھی تو مجبوری نہیں؟ وہ اب اس کے نزدیک آرہا تھا لیکن اس بار وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی۔۔ ایسا نہیں تھا کہ قدم جم گئے تھے۔۔ وہ پیچھے ہٹنا چاہتی تھی مگر دوبارہ یوں کرنا اسے درست نہ لگا۔
"آپ کو دیکھ لیا ہے تو۔۔ شاید اب ٹھیک ہو جاؤں۔" ان ظالم بھوری آنکھوں میں دیکھنا بھی کیا قیامت تھا۔ ہوا کے باعث اس کی زلفیں قابو میں نہیں تھیں۔ غنایہ کا دل زور سے دھڑکا۔
"میں معافی چاہتا ہوں آپ سے پہلے ملنے نہ آسکا۔۔" شرمندگی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ غنایہ نے لب بھینچ لیے۔
"کوئی بات نہیں۔۔ آپ مصروف تھے۔" کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے لب کھولے۔ وہ کھل کر مسکرایا۔
"کتنا سمجھتی ہیں نا آپ مجھے۔۔" نجانے کیا شرارت سوجھی کہ وہ جان کر بول پڑا۔ غنایہ نے نگاہ اٹھا کر شوہر کو دیکھا۔۔ تاثرات الجھے ہوئے تھے۔ بھلا پہلی ہی ملاقات میں وہ کیسے سمجھ سکتی تھی؟
"جی۔۔" کہنے میں کیا حرج تھا۔
"میں آپ کو اپنے ساتھ رخصت کروانے آیا ہوں۔"
اس کی بات پر وہ جی بھر چونکی۔۔ گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے۔
"ابھی؟؟۔"
"نہیں ابھی نہیں۔۔" وہ ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی کی آواز غنایہ کے کانوں میں رس گھول گئی۔۔
"تو پھر کب؟۔" اگر اس کی رائے جانی جاتی تو وہ بھی اب اس گھر سے باصم کی وجہ سے جانا چاہتی تھی۔ مزید ذہنی اذیت مول کر کوئی نقصان اٹھانے کا ارادہ نہیں تھا۔
"دو دن بعد۔۔۔ یعنی پرسوں۔۔" کہتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات نوٹ کیے گئے۔ غنایہ کی آنکھیں پھٹیں۔
"اتنی جلدی؟۔" حیرت سے پوچھا گیا۔
"ہاں اتنی جلدی۔۔ مزید یہاں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔ اگلی ملاقات پرسوں ہوگی۔۔ اپنا کچھ ضروری سامان ساتھ رکھ لے گا۔" وہ جس طرح سنجیدگی سے اسے سمجھا رہا تھا غنایہ جو اس کے لہجے میں بہت کچھ محسوس ہوا۔۔ فکرمندی، اپنائیت اور ہاں۔۔۔ شوہر ہونے کا ثبوت۔۔
"ابا اگر اتنی جلدی نہیں مانے؟۔" وہ دونوں اب ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر گفتگو کر رہے تھے۔ وہ یکدم مسکرایا اور ایک قدم بڑھا کر اس کے مزید نزدیک آیا۔
"آپ کا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں؟۔" اجازت طلب کی گئی۔ غنایہ کی سانسیں تھمنے لگیں۔ وہ کافی دیر تک کچھ نہ کہہ سکی۔ چہرہ حیا سے سرخ ہونے لگا۔
"جج۔جی۔" نازک انگلیاں آگے کرتے ہوئے اس نے ہاتھ آگے بڑھایا جسے ساویز نے نرمی سے پکڑا تھا۔ اس کا لمس محسوس کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا جو حیا کے باعث بار بار جھک رہی تھیں۔
"غنایہ ابرار اب غنایہ ساویز ہے۔ ایک خوبصورت زندگی کی شروعات بھی تو کرنی ہے۔ شوہر ہونے کی حیثیت سے میں جلد تمہیں اپنے پاس بلانا چاہتا ہوں۔ صرف نکاح کا ہونا میرے لیے کافی نہیں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اب ہمیں نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہئیے۔۔" اس کی آنکھیں غنایہ کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں جبکہ غنایہ اس کے لفظوں سے اپنا دل سراب کر رہی تھی۔
"ایک دوسرے کے سنگ؟۔" سوالیہ بےیقین آنکھیں۔۔ تو کیا یہ واقعی حقیقت تھی۔۔ یا دھوکا؟ کیا حقیقت میں ایک شخص اس کا ساتھ مانگ رہا تھا؟ ساویز کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا آنکھوں ہی آنکھوں سے اسے یقین دلانے لگا۔ غنایہ نے اسے دیکھتے ہوئے نگاہیں بلکل نیچی کرلیں۔ یہ احساس کتنا زیادہ اچھا تھا۔۔ جو دل کو آہستہ آہستہ سراب کر رہا تھا۔ اس نے یہ سب کبھی کسی کے لیے محسوس نہیں کیا جو آج ساویز کے لئے کر رہی تھی۔ اگر یہ واقعی حقیقیت تھی تو یہ خوبصورت دلکش مرد اس کے نصیب لکھا تھا۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"یہ لیں۔۔ آپ کا کام رات سے پہلے ہی ہوگیا۔" اس کے ہاتھ میں چھوٹی سا کاغذ تھا جس میں عشنا ڈیٹیلز لکھی تھیں۔
"صرف ایک ایڈرس کہا تھا تو نے تو پوری کہانی لکھ ڈالی۔ میرے پاس یہ دوسری معلومات پہلے سے موجود ہیں۔" اس کو بغور دیکھتے ہوئے وہ ایک آئبرو کر بولا۔
"ایک تو بھلائی کرو تو بھی نقص۔۔ بہرحال میں دوبارہ روم میں جا رہا ہوں مینجر صاحب! آپ جاسوسیاں کرتے رہیں۔" پن توڑتے وہ نو دو گیارہ ہوچکا تھا۔۔میر نے دانت پیس کر جاتے حاشر کو دیکھا اور پھر کاغذ فولڈ کرتا جیب میں رکھنے لگا۔
"اب کھیل کھیلنے میں زیادہ مزہ آئے گا۔" مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مگر بیٹا یہ دو دن کچھ جلدی نہیں؟ ہم نے غنایہ کے لیے بہت کچھ جوڑ کر رکھا تھا۔۔ ساری تیاریاں کیسے ہوں گی۔" وہ بوکھلائے بیٹھے تھے۔ صوفے پر بیٹھے ساویز کے پیچھے کھڑی غنایہ کو ایک نظر دیکھتے ہوئے عفت کچھ دور کرسی پر بیٹھیں۔
"نہیں بلکل نہیں انکل۔۔ مجھے وہ کچھ نہیں چاہئیے۔۔ ویسے بھی میرا جو ہے وہ صرف غنایہ کا ہی تو ہے۔" اس نے ایک نظر برابر کھڑی غنایہ کو دیکھا۔ "مجھے آپ لوگوں سے کچھ نہیں چاہئیے۔ ہاں آپ جو غنایہ کو اپنی خوشی سے دینا چاہتے ہیں وہ غنایہ اور آپ کا معاملہ ہے۔۔ ورنہ مجھے نہیں لگتا کہ کسی چیز کی ضرورت پیش آئے گی۔ رخصتی بےحد سادگی سے ہوسکے گی۔ میں آفس کے بعد غنایہ کو لے جاؤں گا۔۔"
"مگر سب کچھ اتنی سادگی سے۔۔۔" عفت کہتے کہتے ٹھہر سی گئیں۔
"ہاں کیونکہ یہ میری مجبوری ہے مگر آپ لوگ بےفکر رہیں۔ ولیمہ اچھا اور بڑا ہوگا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔۔ جس دن میں اسے لینے آؤں گا اس رات آپ ہمارے گھر تشریف لے آئیں۔ اچھا ہے گھر بھی دیکھ لیں گے اور ساتھ ڈنر بھی کرلیں گے۔" لبوں پر ایک طرف سے مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ غنایہ کا چہرہ حیا سے جھک گیا۔ ابرار اور عفت نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ غنایہ لب کاٹنے لگی کہ نجانے امی ابا کا جواب کیا ہوتا ہے۔
"ٹھیک ہے بیٹا جو تمہیں بہتر لگے۔۔ اب تو غنایہ تمہاری ہی ذمہ داری ہے۔" اس سے زیادہ انہیں کیا چاہئیے تھا کہ ان کی بیٹی مطمئن تھی۔ عفت بیٹی کے چہرے کو دیکھنے لگیں جو کافی حد مطمئن تھا۔ ہاں شاید سب بہتر ہوجائے گا۔ ساویز کی پریشانی اور غنایہ کے خوف میں اب کمی آجائے گی۔ ساویز مزید تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا۔ علیحدہ سے غنایہ کو خدا حافظ کر کے سامان پیک کرنے کی تاکید کرتے ہوئے باہر نکل گیا تھا۔ اب سب کے دلوں میں اطمینان کا راج تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
یہ دو دن بھی پلک جھپکتے گزر گئے۔ ساویز نے گھر میں ملازمہ کو دعوت کا اہتمام کرنے کا حکم صبح ہی دے دیا تھا۔ گھر کے چند ملازم ساویز کے کمرے کو ہلکا پھلکا سجانے میں لگے تھے۔ آج ابرار اور عفت پہلے بار اس کے گھر آنے والے تھے اور وہ کسی قسم کی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ معمول سے ہٹ کر وہ آج آفس سے جلدی سے نکل گیا۔
غنایہ کو بھی اپنے آنے کی خبر دی جا چکی تھی۔ گھر کے آگے گاڑی روک کر اس نے ہارن بجایا اور غنایہ کو میسج کرنے لگا۔
"میں باہر ہوں۔" یقیناً اب وہ آنے والی تھی۔ تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا اور ابرار صاحب سوٹ کیس گھسیٹتے باہر نکلے۔ ان کے پیچھے ایک بیگ کاندھوں پر لٹکاتی غنایہ تھی۔ عفت نم آنکھوں سے بیٹی کی پیشانی چومنے لگیں۔ وہ ماں کو دلاسا دے کر مڑ ہی رہی تھی جب اس نے سامنے والے گھر کی کھڑکی پر مومنہ خالہ کو جھانکتا پایا۔
"تو ایسے بیاہ رہے ہو تم لوگ اپنی بیٹی کو؟۔" طنزیہ لہجہ۔ "یہ وہی لڑکا ہے نا جو اس دن گھر میں موجود تھا جب میں اور سعدان رشتے لے کر تمہارے گھر آئے تھے؟۔" چڑھی ہوئی بھنویں مزید بڑھ گئیں۔ ساویز کو ان چیزوں کی کبھی عادت نہیں رہی۔۔ اس کے محلے اور غنایہ کے محلے اچھا خاصا فرق تھا۔ وہاں لوگ کسی کے کام میں دخل نہیں دیتے تھے۔ غنایہ کا رنگ سفید اتر گیا۔ مومنہ خالہ کو اپنی بےعزتی کا بدلہ کہیں نہ کہیں تو اتارنا ہی تھا۔۔ تو چلو یوں اتار لیا۔ عفت نے گھبراہٹ کے مارے ساویز کا چہرہ دیکھا۔ وہ جو گاڑی میں بیوی کا سامان رکھ رہا تھا کچھ نہ بولا۔ غنایہ نے ایک نظر اسے دیکھا جس نے اپنی بیوی کے حق میں ایک جملہ بھی نہ کہا تھا۔ جب سارا سامان رکھ کر پیچھے کا دروازہ بند کردیا تو وہ گھوم کر غنایہ تک آیا۔
"گاڑی میں بیٹھ جائیں۔" اس نے غنایہ کی طرف کا دروازہ کھولا۔ اس کے لیے یہ جملہ کسی تکلیف سے کم نہیں تھا۔ پلٹ کر تیزی سے ماں باپ کو دیکھا جو اسے دیکھ رہے تھے۔۔ وہ جو دنیا والوں سے چھپ کر اپنی امی ابا کے ساتھ رہتی تھی آج انہیں بھی چھوڑ کر جا رہی تھی۔ دل عجیب سا بوجھل ہونے لگا۔۔ اس نے تھوک نگل کر ماں کو دیکھا جس کی نم آنکھیں غنایہ کا دل تکلیف میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھیں۔ اب وہ سب کا کیسے سامنا کرے گی؟
"غنایہ۔۔ دیر ہورہی ہے۔" اسے گھر جا کر انتظامات بھی دیکھنے تھے۔ اسے جب ہوش آیا تو آنکھوں میں نمی کا احساس ہوا۔ ابرار نے اس کی پیشانی چوم کر گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ عفت سے دیکھا نہ گیا تو اندر چلی گئیں۔ وہ اب بھی اس کے لیے دروازہ کھول کر کھڑا تھا۔ اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ساویز نے دروازہ بند کیا اور ابرار صاحب سے ملتا ہوا ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔ دل میں گھبراہٹ کا اضافہ ہونے لگا۔ بار بار خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے وہ باہر دیکھ رہی تھی۔ گاڑی اسٹارٹ ہوچکی تھی۔ ساویز نے آگے بڑھاتے ہوئے ایک نظر اسے دیکھا تھا جو گردن پھیر کر باہر جھانک رہی تھی تاکہ ساویز سے آنکھیں نہ ملا سکے۔۔ نجانے کیوں مگر وہ مسکرا بھی نہ سکا تھا۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
شاپنگ مال اس کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اس لیے فیصلے کے مطابق وہ پیدل ہی جا کر اپنے لیے پارٹی کے ڈریسز لے آئی تھی۔ گھر واپس آتے ہوئے ہاتھ میں ڈھیروں شاپرز تھے۔ سفید رنگ کی کرتی جس پر گلابی کام تھا بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ ساتھ ہی ساتھ گلابی ڈوپٹہ جو آدھا سر پر اور آدھا کندھوں سے لٹک رہا تھا۔
"سنبھالو ذرا اپنا آنچل گلابی" کسی گاڑی میں چلنے والے اس گانے نے اسے چونکایا۔ آواز پیچھے سے آرہی تھی۔ اس نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو ایک سیاہ گاڑی پیچھے سے ہوتی اب برابر سے گزر رہی تھی۔ نصرت فتح علی خان کا یہ گانا اسے چونکا ہی تو گیا تھا۔ اس نے اپنے گلابی رنگ کے ڈوپٹے پر نگاہ ڈالی۔ رات کا یہ وقت اور اندھیرہ کافی تھا۔ اسٹریٹ لائیٹس دور دور لگی ہوئی تھیں جن کی ہلکی روشنی ہی یہاں تک پہنچتی تھی۔ گاڑی کی رفتار قدرے آہستہ تھی۔۔ اس نے نگاہ اٹھا کر اوپر دیکھا تب تک وہ گاڑی اس سے چند قدم آگے جا کر رک گئی تھی۔ عشنا کو خطرے کی بو محسوس ہوئی۔
"اٹھاتے ہیں نظریں تو گرتی ہے بجلی
ادا جو بھی نکلی قیامت ہی نکلی"
وہ ٹھہر سی گئی۔ یوں ہی گاڑی کا دروازہ کھلا اور اندر سے سیاہ کوٹ پینٹ والا لمبا چوڑا مرد باہر نکلا۔ عشنا بوکھلائے اس کے پلٹنے کا انتظار کرنے لگی۔ دونوں کے درمیان فاصلہ کم تھا۔ وہ اس شخص کی گاڑی کے پچھلے حصے کی طرف کھڑی تھی۔
"جہاں تم نے چہرے سے آنچل ہٹایا
وہی اہل دل کو تماشہ بنایا"
وہ شخص ایک انداز سے پلٹا۔ اسے دیکھنا تھا کہ عشنا کی آنکھیں پھیلیں۔
"تم پھر سے؟؟؟۔" وہ پیچھے کو ہٹی۔۔
"ہیلو لیڈی۔۔" لبوں پر اپنی مخصوص مسکراہٹ سجائے وہ اس کی جانب بڑھا۔ اس کا بازو پکڑ کر تیزی سے کھینچتے ہوئے پیچھے والی سیٹ میں ڈالا اور ڈرائیونگ سیٹ پر جلدی سے بیٹھ کر لاک لگا دیا۔ وہ جو اس حرکت پر فوراً سنبھلی نہ تھی چیخ پڑی۔
"یہ کیا حرکت ہے میرویس؟؟ دروازہ کھولو ابھی فوراً۔" ماتھے پر غصے سے لکیریں پھیلیں۔
"پانچ سال پہلے دروازہ کھول کر غلطی کی تھی۔۔ اب چاہتی ہو وہی غلطی دوبارہ کروں۔" آنکھوں پر کالا چشمہ چڑھاتے ہوئے اس نے مڑ کر کہا۔ لبوں پر دل جلانے والی مسکراہٹ۔۔
"میں بتا رہی ہوں یہ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہوگی!!۔" انگلی اٹھا کر غصے سے کہتے ہوئے وہ اسے خبردار کر رہی تھی۔ میر ہنسا اور پھر قہقہہ لگانے لگا۔
"میرویس چوہدری کہتے ہیں مجھے۔۔ اب شاید تمہیں یہ نام یاد رہے گا۔" گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے شاطرانہ انداز سے کہا گیا۔ سیاہ شیشے چڑھے ہوئے تھے۔
"اب میں بتاؤں گا پچھتانا کسے کہتے ہیں میری ماضی کی محبوبہ۔۔" وہ گاڑی ڈرائیو کرنے لیے تیار تھا۔ عشنا نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔ کاش وہ اپنے ساتھ ایک بڑا پتھر رکھ لیتی تاکہ موقع پاکر اسے ہلاک کردیتی۔ دل میں ہلکا ہلکا خوف بھی تھا مگر وہ اسے ظاہر کر کے میرویس کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔ گانے کی آواز مزید تیز ہوگئی تاکہ عشنا کی آواز باہر نہ جا سکے۔ چیختے ہوئے وہ میرویس پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہی تھی اور میر؟ آنکھوں میں کالا چشمہ اور لبوں پر مسکراہٹ۔۔۔ گاڑی اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔

تو دل سے نہ اتر سکاحيث تعيش القصص. اكتشف الآن