نویں قسط

184 14 0
                                    

اس ایک ہفتے میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ ساویز اور غنایہ، میرویس کے منع کرنے کے باوجود بھی دو کمروں کے ایک گھر میں شفٹ ہوگئے۔ وہ چاہتا تھا کہ ساویز اس کے اپارٹمنٹ میں چند دن گزار کر کوئی اچھی جاب ڈھونڈے اور نوکری ملتے ہی جہاں چاہے شفٹ ہوجائے۔ اسے یوں حالات سے لڑتا دیکھ کر تکلیف ہوتی تھی۔ گویا حالات ہی بدل گئے۔ عشنا اور میرویس کے درمیان اب پہلے سے زیادہ خوشگوار باتیں ہونے لگیں۔ وہ بس اب عشنا کو اپنا لینا چاہتا تھا اور دوسری طرف اماں بھی تھیں جو بقول ان کے عشنا نامی چڑیل کو دیکھنا چاہتی تھیں جس نے ان کا معصوم بچہ پھنسایا تھا۔
"میں مزید انتظار نہیں کرنا چاہتا۔ اماں کو بھی جواب دینا ہے عاشی!۔" وہی جذباتی لہجہ۔۔
"تم سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ ابا سے ملاقات کرو۔" عشنا نے تقریباً گھورتے ہوئے کہا۔ وہ یہ بات اسے آٹھویں بار کہہ رہی تھی۔
"ابا سے؟۔" وہ گڑبڑایا۔ "ابا سے ملاقات کرنا ضروری ہے؟۔" ایک یہی کام تھا جس سے وہ بچنا چاہتا تھا۔
"تم یہ جانتے بھی نہیں کہ لڑکی کا رشتہ کیسے مانگا جاتا ہے؟ ابا سے بات کرنی لازمی ہے۔ وہ ایسے ہی تمہیں اپنی بیٹی نہیں دیں گے۔"
"وہ مجھے ویسے بھی اپنی بیٹی نہیں دیں گے۔ خار کھاتے ہیں تمہارے ابا مجھ سے! کیا یہ شادی دوسری طرح سے نہیں ہوسکتی؟۔" پیشانی کجھاتے ہوئے وہ قدرے پریشانی سے بولا۔
"دوسرا راستہ یہی ہے کہ شادی ہی نہ کی جائے۔۔" لبوں پر پرسکون سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
"دے دیا مشورہ؟۔" وہ برہم ہوا۔ "میں بس تم سے ایک بات پوچھ رہا ہوں۔ اگر وہ نہ مانے تو؟۔"
"وہ مان جائیں گے۔" عشنا مختصراً بولی۔
"مجھے نہیں پتا تھا تم سے شادی کرنا اتنا مشکل ہوگا۔" پیشانی پر انگلی رگڑی گئی۔
" مجھے لگتا ہے میں تم سے شادی کر کے پچھتانے والی ہوں۔" عشنا نے لب بھینچ لیے۔
"تو کیوں نا شادی کر کے ساتھ پچھتایا جائے؟۔" لبوں پر دل جلا دینے والی مسکراہٹ پھیلی۔ وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔
"تم ذرا نہیں بدل سکتے۔ ابا کو کیا کہوں؟۔" وہ تاریخ پوچھنے لگی۔
"کہہ دو گھر آکر میرویس سے مل لیں۔" رعب دار لہجہ۔ عشنا نے دانت پیسے۔
"میں مذاق نہیں کر رہی! کب آؤ گے ابا سے ملنے؟ یہ ساری اکڑ اس دن ہی نکل جائے گی جس دن ابا سے ملنے آؤ گے۔" وہ ابا کا خوف دلانے لگی جو پہلے سے ہی دل میں تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔ میں اتوار کو گھر آتا ہوں۔ اماں کو دوسری ملاقات پر لاؤں گا۔ اچھا ہے پہلے سسر اور داماد کی دوستی ہوجائے۔"
"ایک بات پوچھوں؟۔" یہ شہر کے کنارے ایک بے حد کھلا ریسٹورینٹ تھا۔
"تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ سوال کرنے کے لیے تمہیں مجھ سے پوچھنا پڑے گا؟۔" لبوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔
"تمہاری منگنی کیسے ٹوٹی تھی؟۔" یہ ایک ایسا سوال تھا جو اس کے دل میں کسی پھانس کی طرح چبھ رہا تھا۔
"ہم اس سوال کو یہی روک کر آگے بڑھتے ہیں۔" وہ تیزی سے بولا۔
"مجھے جاننا ہے میرویس۔۔ اور اب تو جاننے کا حق بھی رکھتی ہوں۔" میز پر دونوں کہنیاں جماتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔
اس کے تجسس پر وہ ہنس پڑا۔
"اسے میں پسند نہیں تھا۔ اس لیے وہ مجھے چھوڑ گئی۔" یہ وہی جملہ تھا جس سے وہ ساویز کو اکثر بہلایا کرتا تھا۔
عشنا کا منہ کھلا رہ گیا۔
"ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اسے تم پسند نہ آئے ہو اور وہ تمہیں اس لیے چھوڑ گئی ہو۔" یہ ایک تیز گھوری تھی جس سے عشنا نے میرویس کو نوازی تھی۔
"اوہ کیا واقعی۔" اس تعریف پر میرویس نے اپنی ہلکی ہلکی شیو پر ہاتھ پھیرا۔
"میں یہ تمہاری خوبصورتی سے متاثر ہو کر نہیں کہہ رہی۔ بلکہ 'لاجک' بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اگر اسے تم پسند ہی نہیں تھے تو اس نے منگنی کی ہی کیوں؟ یہ سراسر جھوٹ ہے۔۔ صحیح وجہ بتاؤ۔"
میرویس چونکا۔۔ وہ کیسے اس کا جھوٹ پکڑ گئی تھی۔۔ وہ سوچنے لگا کہ پھر ساویز کے دماغ میں یہ سوال کیوں نہیں ابھرا۔ بلآخر اس نے سانس خارج کی۔
"میری دی ہوئی انگھوٹی اسے ذرا پسند نہیں آئی۔ وہ وہی انگھوٹی میرے منہ پر مار کر چلی گئی۔" ایک نئی کہانی۔
"تم کیوں جھٹ بول رہے ہو؟ کیسے پسند نہیں آئی اسے وہ انگھوٹی؟ دو ٹکے کی تھی؟۔" زچ ہو کر کہا گیا۔
"دو ٹکے کی نہیں تھی۔" وہ برہم ہوا۔
"تو پھر؟؟۔" عشنا کی ہمت جواب دینے لگی۔
"تین ٹکے کی تھی۔۔" کہتے ہی وہ آخر میں بیچارگی سے مسکرایا۔ عشنا جہاں کی تہاں رہ گئی۔۔ اگر یہ مذاق تھا تو بڑا بیہودہ تھا۔ مگر اس سب کے باوجود وہ جان گئی تھی میرویس کچھ چھپا رہا ہے۔ ایک بات تو طے تھی۔۔ میرویس کبھی سچ نہیں بتا سکتا تھا۔
"تم میری سمجھ سے باہر ہو!۔" گویا ہمتیں جواب دے گئی۔
"اس لیے میں چاہتا ہوں کہ پوری زندگی تم مجھے پڑھنے میں گزار دو۔" نگاہیں اس کی آنکھوں پر ٹھہر گئیں۔ اس کی بات پر وہ غصہ بھی نہ کر سکی۔ دل ایک عجیب سے احساس میں ڈوب کر ابھرا تو اس نے نگاہ پھیر لی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آپ گھر کے لیے گروسری کب لائیں گے؟ بازار کا کھانا کھا کر اب تھک چکی ہوں۔" یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کا بستر وہ صاف کر رہی تھی۔ اس کے علاؤہ کمرے میں ایک سنگھار میز اور ایک چھوٹی سی الماری تھی جو ساویز نے کم وقت میں خریدی تھی۔ پیسوں کا حساب کرتا ساویز، اس کی بات پر نگاہ اٹھا کر دیکھنے لگا۔ "کافی پیسے خرچ ہوگئے ہیں۔ ذرا حساب کرلوں تو اندازہ ہوجائے گا۔ کل گروسری لے آؤں گا۔"
"ایک بات پوچھوں؟۔" وہ اس کے ساتھ بستر پر بیٹھ گئی۔
"ہاں۔" ہاتھوں میں ہزار ہزار کی کئی نوٹیں تھیں۔
"آپ گاڑی بھی نہیں لائے اور اپنا اہم سامان بھی۔۔"
"وہ سب بابا کے بزنس کے پیسوں کا تھا۔۔ صرف وہ سامان لایا ہوں جو میری اپنی ذاتی کمائی سے خریدا تھا۔" نجانے کیوں اس نے تھوک نگلا۔۔ شاید اسے کبھی امید نہیں تھی کہ وہ ایک دن اتنا مجبور ہوجائے گا۔
"یہ پیسے بھی جلد ختم ہو جائیں گے ساویز۔" وہ پریشان تھی۔۔ ساویز نے اس کی پیشانی پر بل پھیلتے ہوئے دیکھے۔
"میں جاب کے لیے ایپلائی کر رہا ہوں۔ امید ہے جلد جواب آجائے گا اور پھر ہمیں یوں پیسوں کے لیے پریشان نہیں ہونا پڑے گا۔" دل میں ایک خوف تھا کہ کیا ہو اگر جاب ملنے سے پہلے ہی یہ بچی کچی رقم بھی ختم ہو جائے۔
"الماری میں پیسہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم سوٹ کیس میں ہی کپڑے رکھ سکتے تھے۔" اسے اب ضروری سامان بھی غیر ضروری لگ رہا تھا۔ ساویز اس مشکل میں بھی مسکرا دیا۔
"تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔" اس کے رخسار کو چھوتے ہوئے وہ دوبارہ پیسوں کے حساب میں الجھ گیا۔ غنایہ کے لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ ابھری۔ ساویز کا ایک جملہ واقعی اس کے دل کو پرسکون کر گیا۔
"آپ کب تک جاگنے والے ہیں؟ مجھے اب نیند آرہی ہے۔" جمائی لیتے ہوئے وہ بمشکل بولی۔ کمرہ کا حال اب پہلے سے کافی بہتر تھا۔ گرد دھول مٹی کا نشان اب کہیں بھی نہیں تھا۔ ملگجی سی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔
"میرا انتظار مت کرو۔ آج تم نے بہت کام کیا ہے اس لیے اب آرام کرنا زیادہ بہتر ہے۔" نجانے دماغ میں کیا چل رہا تھا اس نے لیمپ بند کرنے کے ارادے سے گردن گھمائی اور پھر ٹھہر سا گیا۔ بھلا لیمپ اس گھر میں کیسے آسکتا تھا۔ وہ خود ہی زور سے ہنس پڑا۔ "تم لائٹ بند کردو۔۔ گیلری سے آتی بلب کی روشنی ہی میرے لیے کافی ہے۔"
غنایہ نے بات سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
کبھی کبھی زندگی آپ کو اپنا وہ رخ بھی دیکھاتی ہے جس کے بارے میں آپ نے سوچنا بھی نہیں چاہا ہوتا۔۔ کچھ غیر ضروری کام، ضروری بن جاتے ہیں۔ کبھی اپنی عادت کے خلاف کوئی کام کرنا پڑجاتا ہے اور یہ آپ کی زندگی کا سب سے مشکل ترین لمحہ ہوتا ہے۔۔ اللہ نوازتا بھی ہے اور آزماتا بھی ہے۔۔ اس امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے والا کامیاب ہوجاتا ہے۔ یاد رہتا ہے تو بس اتنا کہ اللہ نے آپ کو یاد رکھا۔۔
بچپن سے لے کر جوانی تک کبھی ذہن میں خیال نہ آیا کہ زندگی کا ایک حصہ ایسے بھی گزارنا پڑے گا۔ پیسوں کا اس قدر حساب رکھنا پڑے گا کہ کہیں ان کا فضول استعمال نہ ہوجائے۔ اسے اس چھوٹے کمرے میں گھٹن محسوس ہو رہی تھی مگر وہ غنایہ کو بتا کر اس کی نیند خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پوری رات کسی سوچ میں گزار دی۔
اسے یاد تھا جب اس نے تقی سے کہا کہ وہ انہیں پیسوں کے بنا خوش رہ کر دیکھائے گا۔۔ یہ سب کہنا کتنا آسان تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ واقعی ایسا کر سکتا ہے۔۔ یہ سب اتنا مشکل نہیں مگر اب احساس ہورہا تھا کہ یہ سب کتنا دشوار ہوتا ہے۔۔ اور جب ساتھ ایک ایسے شخص کا ہو جو مستقل آپ پر ڈیپینڈ ہو۔۔ حساس ہو اور آپ کا ہو۔۔
ایک ہاتھ اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ اسے یاد نہیں کہ گزری رات سونے سے قبل اس نے غنایہ کا ہاتھ کیوں پکڑا تھا۔۔ وہ کیوں اس کا ہاتھ تھام کر سویا اور جاگتے ہوئے بھی وہ ہاتھ اس کے ہاتھوں میں تھا۔ دونوں ہی گہری نیند میں تھے جب کسی تیز آواز پر آنکھ کھلی۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟۔" ساویز اس "دھڑ دھڑ" پر تیزی سے اٹھ کر بیٹھا۔ چہرے پر ہڑبڑاہٹ کے تاثرات نمایاں تھے۔
"کوئی دروازہ بجا رہا ہے۔ میں دیکھتی ہوں۔" ڈوپٹہ اٹھا کر پہنتے ہوئے اس نے اپنے بال درست کیے اور باہر کی جانب بڑھنے لگی۔
"مگر کوئی اس طرح دروازہ کیوں بجائے گا غنایہ۔۔" اس کی آنکھیں اب ششدر پھٹی ہوئی تھیں۔ پریشانی میں اس کے پیچھے آتے ہوئے وہ تیزی سے بولا۔
غنایہ نے جواب دیے بغیر 'جی کون' پوچھا۔
"جی میں اوپر سے آئی ہوں۔۔" نازک سی آواز کانوں پر پڑی تھی۔ ساویز جہاں مزید حیران ہوا وہیں غنایہ مطمئن ہوئی۔ اس نے ساویز کو اندر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ دروازہ کھولا۔
کچھ اندر ہوتے ہوئے وہ کنارے سے غنایہ کو دیکھنے لگا۔
وہ ایک خوبصورت سی لڑکی تھی جو اب بے حد مسکرا رہی تھی۔
"اسلام علیکم۔" غنایہ نے مسکراتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔ "آئیں اندر آجائیں۔" اس کے اندر آنے کا راستہ بناتے ہوئے وہ اس کو راہ دیکھانے لگی۔
"ساویز برآمدے میں ہی ٹھہر گیا۔
"وعلیکم سلام۔ آپ کو آئے دو تین دن تو ہوئے ہی چلے ہیں تو میں نے سوچا آج آپ سے مل آؤں۔" وہ اب غنایہ کے پیچھے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"یہ تو آپ نے بہت ہی اچھا کیا۔" بستر کی چادر ٹھیک کرتے ہوئے اس نے لڑکی کو بیٹھایا۔ یہ دو کمروں کی ایک چھوٹی سی منزل تھی۔ اس بیڈروم کے سوا دوسرا کمرا بلکہ خالی تھا۔ ساویز اس کمرے کے لیے صوفہ خریدنا چاہتا تھا مگر غنایہ نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ ان سب چیزوں میں پیسہ خرچ کر کے وہ بعد کے وقت کے لیے مشکلات نہیں چاہتی تھی۔ مجبوراً اس لڑکی کو بیڈروم میں بیٹھانا پڑا۔
"میرا نام آبگینہ ہے۔ جب بابا نے بتایا کہ کرائے دار میں ایک میری عمر کی لڑکی بھی ہے تو بس سوچا ملنے چلی آؤں۔" پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے کہا۔
باہر کھڑا ساویز اس کی بلند آوازیں سنتا ہوا کچن سے پانی پینے لگا۔ یہ لڑکی اس کی نیند خراب کر چکی تھی۔
"اگر آپ نہ آتیں تو میں خود چلی آتی۔" غنایہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ "میں نے سوچا تھا ایک دو دن میں خود بھی ملنے آؤں گی۔"
وہ کیسے مہمان کو سنبھال رہی تھی، باہر کھڑا ساویز قدرے امپریس ہوا۔
"ارے کیوں نہیں! آپ بھی آئے گا۔۔ پھر ساتھ ہی محفل لگائیں گے۔" وہ لڑکی پرجوش ہوئی۔
"ان شاء اللہ۔۔ ذرا یہ گھر کی سیٹنگ ایک بار مکمل ہوجائے تو میں ضرور چکر لگاتی ہوں۔"
"میں انتظار کروں گی۔ بھائی صاحب کا نام کیا ہے؟۔" اس نے ابھی تک ساویز کو صرف ایک ہی بار دیکھا تھا جب وہ گھر میں داخل ہو رہا تھا۔
"ان کا نام ساویز ہے۔۔ میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔" یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ گھر میں 'پتی' نام کی کوئی چیز نہیں ہے، وہ بولتے ہوئے باہر بڑھنے لگی۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں غنایہ۔ میں بس ہلکی پھلکی ملاقات کے لیے آئی تھی۔ ابا کا ناشتہ بنانا ہے اور کام والی بھی ابھی تک نہیں آئی۔" بستر سے اتر کر اس نے چپلوں میں پیر اڑسے۔
"مجھے لگا آپ مزید ٹھہریں گی۔"
"اب میں آپ کے آنے کا انتظار کروں گی۔ مجھے مایوس مت کیجیے گا۔" مزاجاً شوخ چنچل سی لڑکی اسے اچھی لگی۔ غنایہ جواباً مسکرادی اور اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے باہر کی طرف گئی۔ راستے میں نگاہ ساویز پر پڑی تو وہ رک کر اسے مخاطب کرنے لگی۔
"اسلام علیکم بھائی صاحب۔"
ساویز اس کی آواز پر بوکھلایا۔
"وعلیکم سلام۔" زبردستی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔
"میں اوپر سے آئی ہوں۔" وہی ایک جملہ۔۔ نجانے کیوں یہ جملہ اسے ایک بار پھر عجیب لگا۔
"اس کا نام آبگینہ ہے۔" ساویز کی جانب سے جواب نہ پا کر غنایہ نے اسے پھر متوجہ کروایا۔
"اوہ ہاں۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔" وہ کہتے ساتھ پھر مسکرایا۔ رکے بنا آبگینہ بھی چلی گئی تھی۔
"بھلا اس وقت کون آتا ہے؟۔" گھڑی نو بجا رہی تھی۔ وہ حیرانی سے وقت دیکھتا ہوا بستر پر گرا۔
"آپ کو عادت نہیں نو بجے اٹھنے کی مگر ہم بھی جلدی ہی اٹھا کرتے تھے۔" غنایہ مبہم سا مسکرائی۔
"اور یہ دروازہ پیٹنے سے کیا ہوتا ہے؟ مجھے لگا نجانے کون آدمی دروازہ بجا رہا ہے۔۔"
"یہ سب اتنا برا بھی نہیں ہے ساویز۔۔" اس بار وہ زور سے ہنسی تھی۔
"مگر میری نیند تو اڑ گئی نا۔۔" خفا خفا سے لہجے میں کہتے ہوئے وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولنے لگا۔ "ایک تو کوئی شخص برابر والے گھر کا دروازہ بھی بجائے تو لگتا ہے کہ اپنے گھر کا دروازہ بجا ہے۔ ایسے ہوا تو میں کبھی سو ہی نہ سکوں گا۔"
"کچھ دنوں میں آپ کو عادت ہوجائے گی پھر کوئی کمرے کا دروازہ بھی پیٹے گا تو بھی آپ کی گہری نیند میں آنچ نہیں آئے گی۔" شرارت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتی ہوئی وہ خود ہی ہنس پڑی۔ ساویز کا قہقہہ جاندار تھا۔
"میں ایسے وقت سے پناہ مانگتا ہوں۔"
ریسیو ہوئی جاب کی میلز دیکھتے ہوئے اس نے مسہری سے ٹیک لگایا۔
"گروسری لینے جائیں تو چائے کا سامان ضرور لائے گا۔ لوگ ملنے آتے رہیں گے تو ان کے آگے پیش کرنے کے لیے چائے ضروری ہے۔" بالوں کو ایک بار پھر سے کھول کر وہ سرے سے سلجھانے لگی۔
"ہوں۔" اس کی تمام تر توجہ کا مرکز ریسیو ہوئی میلز تھیں۔ جن لوگوں کو اس نے اپنی سی وی میل کی تھی اب وہاں سے جواب آیا تھا۔ جلد سے جلد اسے جاب چاہئیے تھی اور وہ اب مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میرویس آج ابا سے ملنے آئے گا۔" یہ کہنا بھی کتنا مشکل تھا۔
"تمہارے ابا پہلے ہی غصے میں ہیں! اب بار بار یہ ایک بات دہرا کر مزید غصہ مت دلاؤ۔" عفت نے ڈپٹا۔
"اس میں کیا برا ہے؟ آپ لوگ ہی چاہتے ہیں نا کہ میں شادی کرلوں؟ اور اب چونکہ میں کر رہی ہوں تو پھر کیا برائی ہے؟۔"
"تمہارے بابا کو تم سے نہیں میرویس سے مسلہ ہے۔ آخر میرویس ہی کیوں؟ پہلے تم نے اس کی برائیاں کر کر کے اپنے ابا کا دل برا کیا اور اب اس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟۔" یہ لڑکی کتنی عجیب تھی۔
"ان پرانی باتوں کا کیا فائدہ امی؟ بہرحال وہ آج ملنے آئے گا۔ ابا سے کہئیے گا کہ پلیز اس کے ساتھ برا برتاؤ نہ رکھیں۔"
"اتنی جلدی کیوں؟ اس سے کہو اتوار کے روز آئے تاکہ ابا کو منانے کے لیے میرے پاس زیادہ وقت ہو۔" عفت کلس کر رہ گئیں۔
"میں نے ہی اس سے کہا ہے کہ آج ملنے آجائے۔ اس کی اماں بھی اب اس کی شادی کے لیے زیادہ انتظار نہیں کریں گی۔" اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ میرویس کی اماں بھی عشنا کو بہو نہیں بنانا چاہتیں۔
"کون آرہا ہے؟۔" پیچھے سے ابا داخل ہوئے تو عشنا کی سٹی گم ہوگئی۔ وہ اس سے ہی مخاطب تھے۔
"ابا وہ آج میرویس آپ سے ملنے آئے گا۔" خوف بھی تھا مگر بتانا بھی ضروری تھا۔ عفت نے بیٹی کو غصے سے دیکھا۔
ابرار کے تاثرات میں سختی آئی۔
"یعنی تمہارا فیصلہ حتمی ہے؟۔" سخت آواز پر اس کا دل تھوڑی دیر ڈگمگایا۔
"ابا کیا برائی ہے اس میں۔۔" جب اپنا مطلب آیا تو لہجہ معصوم ہوگیا۔۔ اس کے اندر کا شیر اب بلی بن چکا تھا۔
"تم ہی کہتی تھیں کہ وہ بلکل اچھا نہیں بلکہ تمہیں چھیڑتا رہتا ہے۔۔ ارے میں کہتا ہوں ان پانچ سالوں میں کیا ہی بدل گیا جو تم نے اب اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟؟۔" لہجہ قدرے برہم ہوا۔
"ابا وہ اب بہت بدل گیا۔ (حالانکہ وہ ذرا نہیں بدلا تھا) فاری کمپنی کا مینجر ہے۔۔ سلیقے مند (بلکل نہیں) اور سلجھا ہوا (مبالغہ آرائی) مرد ہے۔" ایک ایک خوبیاں جڑوں سے نکالتے ہوئے گنوانے لگی۔
"میں اس سے صرف تمہاری وجہ سے ملاقات کر رہا ہوں حالانکہ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔" وہ یہ بات پہلے بھی کہہ چکے تھے مگر عشنا مطمئن تھی۔ شادی تو اسی سے ہونی تو پھر پریشانی کس بات کی لی جائے۔ اس نے اٹھتے ہوئے میرویس کو کال ملائی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ہیلو۔" موبائل پر آتی کال نے اس کی نیند میں خلل پیدا کیا تھا۔ وہ چندھیائی ہوئی آنکھوں سے کالر کا نام پڑھتے ہوئے چونک اٹھا۔ کان سے فون لگاتے ہوئے نیند بھری آواز میں آغاز کیا۔
"تم سو رہے ہو؟۔" عشنا اس کی آواز پر جی بھر کر چونکی۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے اور دو گھنٹوں میں ہی ابا کے ساتھ اس کی ملاقات طے پائی تھی۔
"ہاں سب خیریت ہے؟۔" وہ اٹھ کر بیٹھا۔ آواز قدرے بھاری تھی۔
"تم بھول گئے ہو کہ تمہیں آج ابا سے ملنے آنا ہے؟۔" وہ یکدم ہی برہم ہوئی۔ "میں کہہ دے رہی ہوں اگر تم ملنے نہیں آئے میں خود شادی سے انکار کردوں گی۔" اس نے کہتے ساتھ ہی کال کاٹ دی۔ اسے حیرت تھی کہ وہ اب تک سو رہا تھا۔۔ چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا تو دانت پیستے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔
جبکہ دوسری طرف میرویس کا دل چاہا بے بسی سے رو پڑے۔۔ عشنا سے شادی کرنے کے لیے 'ابا' جیسے اتنے بڑے امتحان سے گزرنا پڑے گا اسے اندازہ اب ہو رہا تھا۔
"یا اللہ میری عزت رکھ لینا۔" کہتے ساتھ ہی وہ فرش پر گرا سامان اٹھانے بڑھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"افف اتنا زیادہ رش تھا۔۔" اس نے آٹے کے خاکی تھیلے کو کنستر میں الٹا۔ اسے یاد نہیں تھا کہ اس سے پہلے وہ آخری بار گھر کی گروسری خود کب لایا تھا۔
"میں سوچ رہی ہوں آج گوشت کا سالن بنالوں۔" وہ پتیلی میں پانی بھر رہی تھی۔
"گوشت۔۔" وہ چونکا اور پھر پیشانی کجھاتے رہ گیا۔ "میں وہ نہیں لایا۔۔ ان دو تین دنوں میں اتنا زیادہ خرچا ہوگیا ہے۔ گھر کا فرنیچر، گروسری اور اب لگتا ہے کہ پیسے زیادہ دن نہیں چل سکیں گے۔ امید ہے مجھے جلد ہی نوکری مل جائے گی۔۔ تم فکر مت کرو! آہستہ آہستہ سب اپنی جگہ پر آجائے گا۔" وہ غنایہ کو بہلانے لگا جو اسے حیرت سے نوٹ کر رہی تھی۔ بھلا اسے غنایہ کو بہلانے کی ضرورت کب سے پیش آنے لگی تھی؟ کیا وہ حالات کو نہیں جانتی تھی یا ساویز کا مشکل وقت میں ہاتھ چھوڑ دینے کا ارادہ رکھتی تھی؟
"آپ اتنی وضاحتیں کیوں دے رہے ہیں۔ میں نے بس یونہی کہہ دیا۔۔ ویسے میں گوشت کے بنا کام چلا سکتی ہوں، دال بنا کر مگر آپ نہیں۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولی تو ساویز نے آئبرو اچکائی۔
"تمہیں لگتا ہے میں سادہ کھانا نہیں کھا سکتا؟۔" گویا ایک چیلنج تھا۔ غنایہ نے ہنستے ہوئے کندھے اچکائے۔
"مجھے لگتا ہے۔"
"چلو دیکھتے ہیں۔۔ میں ثابت کر کے دکھاؤں گا کہ ساویز خانزادہ کوئی نواب کا بچہ نہیں جو کسی بھی ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکتا۔" بازوؤں کے ابھرے مسلز پر ہاتھ پھیرتا ہوا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
"ٹھیک ہے پھر میں دال ہی بنا لیتی ہوں۔ شام میں سبزیاں لے آئے گا تاکہ رات میں کوئی سبزی بنالوں۔"
"تم مجھے لسٹ بنا کر دے دو۔۔ مجھے لگتا ہے میں اب بھی کئی چیزیں بھول آیا ہوں۔" اتنے بھاری تھیلے گھر تک اٹھا کر اس کا کندھا درد کر رہا تھا۔ اپنے کندھے پر زور ڈالتا ہوا وہ باہر کی جانب بڑھنے لگا۔
"ساویز اب کتنا کیش رہتا ہے آپ کے پاس؟۔" وہ جانتی تھی یہ گروسری کتنی زیادہ مہنگی آئی ہوگی۔۔ اور ساویز کے پاس زیادہ کیش نہیں تھا کہ گروسری کے بعد زیادہ کچھ بچتا۔
"ابھی کافی ہیں اور آگے کے اخراجات بھی پورے ہوجائیں گے۔ اللہ مالک ہے۔" اسے دیکھے بنا ہی وہ مطمئن لہجے میں جلدی سے کہتا اندر بڑھ گیا۔ غنایہ کافی دیر اسی رخ پر کھڑی جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں سے ساویز گزرا تھا۔۔ ان دو تین دنوں میں ساویز نے اسے ایک بار بھی نہیں بتایا تھا کہ ان خرچوں میں کتنا پیسہ خرچ ہوا اور اب کتنے باقی ہیں۔۔ باقی ہیں بھی کہ نہیں۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
میرویس کی آتی کال پر اس نے گھر کا دروازہ کھولا۔ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑے میرویس نے دونوں بندھے ہاتھ کھولے اور سانس خارج کرتے ہوئے اس کی جانب بڑھنے لگا۔
"مجھے لگا تھا دروازہ انکل کھولنے والے ہیں۔" لبوں پر شریر مسکراہٹ ابھری۔
"وہ تم سے ملاقات کر رہے ہیں اتنا ہی کافی ہے۔۔ ان کی زیادہ محبت سہہ نہیں پاؤ گے۔" ذو معنی لہجے میں کہتی وہ اس کو پیچھے آنے کا اشارہ دینے لگی۔
"ان سے کہو میرویس کو محبت کی عادت نہیں۔۔" برہم ہوتے ہوئے اس نے ارد گرد نظریں دوڑائیں کہ کہیں ابا نہ کھڑے مل جائیں۔
"اس لیے طیش میں بیٹھے ہیں۔" اس نے گہری سانس اندر کھینچی۔ میرویس چونکا ہوا جبکہ عشنا اس کا چہرہ دیکھتی ہوئی بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگی۔
"مذاق کر سکتا ہوں؟۔" وہ مزید گھبرا گیا۔
عشنا نے آئبرو اچکا کر اسے کچھ چونکتے ہوئے دیکھا۔
"مذاق کیوں؟۔"
"ان کا موڈ اچھا کرنے کے لیے۔۔" کندھے اچکائے۔
"ان پانچ سالوں کی کہانی سنا دینا۔۔ یہ سب ان کے لیے مذاق ہی ہوگا اور شاید وہ ہنس بھی جائیں۔" وہ مزید درمیان میں رکھتی ہوئی طنزیہ لہجے میں بولی۔ میرویس کا چہرہ سرخ ہوا۔
"وہ میری محبت تھی۔۔"
"مگر ان کے لیے مذاق!۔"
"تم میرا دل دکھا رہی ہو۔" اسے اب واقعی برا لگنے لگا۔
"میں دل نہیں دکھا رہی بلکہ سچ کہہ رہی ہوں! وہ کبھی اس بات کو نہیں مانیں گے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ تم میری زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہو، اس لیے خدارا کوئی ایسی بات نہیں کرنا۔ میں نے ان سے یہی کہا ہے کہ وہ جلدی شادی کی خواہش رکھتا ہے کیونکہ اس کی اماں کا بہت زور ہے۔" اسے سمجھاتے ہوئی وہ باہر نکلنے لگی جب ابا کمرے میں داخل ہوئے۔ میرویس ادب سے کھڑا ہوچکا تھا البتہ وہ دعا کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ اماں چادر لپٹتے ہوئے اسکارف باندھ رہی تھیں جب اس نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
"آپ کہاں جا رہی ہیں؟۔"
"تمہارا یہ مسلہ تو چلتا ہی رہے گا۔ سوچا ہے ذرا غنایہ سے مل آؤں۔ اس کا نیا گھر بھی نہیں دیکھا۔" اپنا پرس اٹھاتی ہوئی وہ ایک آخری بار خود کو آئینے میں دیکھنے لگیں۔
"مگر میرویس ابا سے گفتگو کر رہا ہے کہیں ابا کسی بات پر طیش میں نہ آجائیں۔ میں کیسے سنبھالوں گی؟۔" وہ ششدر رہ گئی۔
"سمجھا دیا ہے میں نے تمہارے ابا کو۔۔ وہ غصہ نہیں کریں گے۔۔ اور اگر معاملہ بگڑنے لگے تو غنایہ کے نمبر پر کال کردینا۔ اس کا گھر یہاں سے زیادہ دور نہیں۔۔ میں جلدی آجاؤں گی۔" کہتے ساتھ ہی وہ کمرے سے باہر نکل گئیں جبکہ وہ تھک کر وہیں بستر پر گر گئی۔۔ نجانے ملاقات کیسی جا رہی ہوگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا کرتے ہو تم؟۔" ان کی شخصیت پر رعب واضح ہوا۔
"ایک بڑی کمپنی میں مینجر ہوں۔" دونوں ہتھیلوں کو آپس میں رگڑتا ہوا وہ بظاہر خود نارمل لہجے میں بولا۔
"اور گھر میں کون ہوتا ہے؟ ماں باپ اور بہن بھائی؟۔" وہ سب جانتے تھے مگر پھر بھی پوچھ رہے تھے۔
"آفس گھر سے کافی دور تھا اس لیے میں اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوگیا۔ گھر میں ایک چھوٹی بہن ہے اور اماں ہیں۔ ابا کا کافی سالوں پہلے انتقال ہوگیا تھا۔"
"اللہ مغفرت فرمائے۔ یعنی گھر تم چلاتے ہو؟۔" وہی چڑھی ہوئی بنھویں۔۔
"جی اپنی اماں کا فالحال صرف میں سہارا ہوں۔" وہ بے حد سنجیدہ تھا۔۔
"عشنا تم سے شادی کرنا چاہتی ہے حالانکہ میں۔۔۔" وہ کہتے کہتے رک سے گئے۔ باہر کھڑی عشنا نے لب بھینچ لیے۔
"میں جانتا ہوں آپ ایسا نہیں چاہتے۔" اس نے مضبوط نگاہ ان پر ڈالی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
جب بھوک بھڑکی ہوئی ہو تو دال بھی مزہ دیتی ہے۔ پہلا لقمہ لینے کے بعد ہی ساویز کو احساس ہوا کہ غنایہ ٹھیک کہتی تھی۔۔ وہ کھانے میں دال نہیں کھا سکتا۔ خانزادہ ولا یاد آیا تو اس نے سوچ کو جھٹکا اور کھانے میں مصروف ہوگیا۔
"کیسی بنی ہے؟۔"
"بھوک اور تھکان بہت ہے۔۔ البتہ دال بہت مزیدار ہے۔" مسکراتے ہوئے اس نے غنایہ کا دل مطمئن کیا۔
وہ جسے اپنے بستر کے سوا کسی اور جگہ بہت مشکل سے نیند آتی تھی وہ گزشتہ رات بڑی دیر تک اس بستر پر سویا تھا۔
طور طریقے بدل رہے تھے۔
"میں سوجاؤں گا۔ امید ہے اس کے بعد کوئی دروازہ نہیں پیٹے گا۔" آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ غنایہ نے اثبات میں سر ہلا کر جھوٹے برتن اٹھائے۔
"آپ شاور لے لیں گے تو زیادہ اچھے سے سو سکیں گے۔ ساری رات گرمی میں کروٹیں بدلتے رہے ہیں۔"
"تمہیں گرمی نہیں لگتی؟۔" اسے یاد تھا وہ کیسے پرسکون سو رہی تھی۔
"مجھے عادت ہے ساویز۔۔ میں ہر ماحول میں ایڈجسٹ ہوجاتی ہوں۔" مسکراتے ساتھ کہتے ہوئے وہ کچن میں چلی گئی تھی اور ساویز شاور لینے۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میرا کچھ بھی کہنا فضول ہی ہے۔۔ یہ لڑکی میری نہیں سنتی اور کیونکہ اسے شادی ہی تم سے کرنی ہے تو یہ پوچھ تاچھ، ملاقات کوئی فائدہ نہیں۔۔" ابرار اٹھ کھڑے ہوئے۔ میرویس خاموش رہا۔ عشنا خود پر ضبط کیے کھڑی تھی۔ یہ ملاقات خوشگوار تو نہیں تھی۔۔
میرویس ان کی بات کو فراموش کر کے ایک جملے پر دل میں مسکرایا تھا۔ 'اسے شادی ہی تم سے کرنی ہے۔'
ان کے باہر جاتے ہی عشنا اندر داخل ہوئی۔
"گفتگو کیسی رہی؟۔" اس نے جھینپتے ہوئے پوچھا۔ میرویس اس کا چہرہ دیکھتے ہی ہنس پڑا۔
"بہت خوش ہیں انکل۔۔ کہہ رہے ہیں کل کی دلہن آج ہی نکاح کر کے لے جاؤ۔۔ اتنا خوش میں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔"
اس کی بات پر عشنا نے اسے خفا خفا سے انداز میں گھورا۔
"ابا کے بارے میں ایسا مت کہو۔"
"میں نے کچھ کہا ہی کب۔۔ چلو خیر مجھے کون سا تمہارے خاندان والوں سے شادی کرنی ہے۔ ایک بار شادی ہوجائے باخدا سارے مسلے سلجھ جائیں گے۔" وہ اٹھ کر اس کے پیچھے نکلنے لگا۔
"یہاں اگر میرے ابا خوش نہیں تو وہاں تمہاری اماں بھی اس شادی کے لیے دل سے راضی نہیں۔۔ ہم دونوں ہی ایک کشتی کے مسافر ہیں۔"
اماں کے ذکر پر میرویس نے گہری سانس خارج کی۔
"میں اماں کو جلد لانے کی کوشش کروں گا۔۔ ابھی گھر جا رہا ہوں تاکہ بات کر سکوں۔ تم اپنی امی کو بتا دینا عاشی!۔"اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔ وہ چاہتا تھا اماں کی ملاقات ابرار صاحب کے بجائے عفت سے ہو۔۔ عشنا نے اثبات میں سر ہلا کر اسے مطمئن کیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ساویز پریشان ہے؟۔" چائے کی دھیرے سے گھونٹ بھرتے ہوئے اماں فکرمندی سے گویا ہوئیں۔
"وہ بہت پریشان ہیں۔۔ انہیں لگتا ہے کہ اپنی پریشانیاں مجھ سے چھپائیں گے اور میں انہیں جان نہیں پاؤ گی تو ایسا تو ممکن نہیں نا امی؟ میں جانتی ہوں انہیں فکر ہے کہ اگر جاب ملنے سے قبل بچے کچے پیسے بھی ختم ہوگئے تو۔۔" اسے خوشی تھی کہ عفت ملنے چلی آئیں۔ اس بہانے شاید وہ اپنی تکلیف انہیں سنا کر کچھ کم کرسکے۔
"اللہ سب بہتر کرے گا۔ اسے شاید یہ ماحول تنگ کرے مگر تم مضبوط رہنا۔ وہ ان سب کا عادی نہیں اس لیے جلد تھکنے لگے گا۔"
"ساویز پریشان ہیں مگر کمزور نہیں۔۔ وہ جانتے ہیں حالات کو کیسے سنبھالنا ہے۔ ان کی جیب میں موجود پیسے زیادہ نہیں مگر جب بھی میں ان سے پوچھتی ہوں کہ گھر کے خرچے کے لیے کتنے پیسے رہتے ہیں تو وہ مجھے یہ کہہ کر کہ "اللہ مالک ہے" مطمئن کر دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں اپنی عورت کو سنبھالنا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے مجھے بتا دیا تو میں پریشان ہوجاؤں گی اور ساویز ایسا نہیں چاہتے۔۔ مرد کو اللہ نے کتنا مضبوط بنایا ہے یہ مجھے ان چند دنوں میں معلوم ہوا۔ مضبوط فیصلے جن میں دراڑ کی امید نہیں۔۔" چائے کا کپ خالی ہوچکا تھا مگر اس کا دل ساویز کی ڈھیروں محبت سے لبا لب بھرا ہوا تھا۔
عفت نے بہت محبت سے بیٹی کو دیکھا۔
"تمہیں یاد ہے جب تم بارہ سال کی تھیں اور ابرار کی نوکری چھوٹ گئی تھی؟ ہم نے وہ وقت کتنا مشکل میں گزارا تھا کہ جب تمہارا باپ ایک سال کے لیے بے روزگار ہوگیا تھا۔۔ لیکن اس وقت بھی اللہ نے ہمیں اچھے سے اچھا کھلایا اور اچھے سے اچھا پہنایا۔ پالنے والی ذات اللہ کی ہے۔۔ انسان تو بس ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ تمہیں اس وقت اللہ کو مضبوطی سے تھام لینا ہے۔" محبت سے اس کے چہرے پر ہاتھ ہوئے وہ سمجھانے لگیں۔
"جی امی۔۔"
"میں اس بار کچھ رقم ساتھ لائی ہوں تاکہ تمہیں دے سکوں۔" اس بات پر غنایہ نے تیزی سے سر اٹھایا۔
"نہیں امی۔۔ ساویز کو اچھا نہیں لگے گا۔ وہ کبھی کسی سے اپنی ضرورت کی لیے پیسے نہیں مانگیں گے۔" اس کو فخر تھا کہ ساویز ایک خوددار مرد تھا۔۔ کم از کم ایک ایسے مرد سے لاکھ درجہ بہتر جو دوسروں کی کمائی پر زندگی بسر کرتے ہیں۔
عفت نے پرس سے ایک سفید لفافہ نکالا۔ غنایہ کی سانسیں اٹکنے لگیں۔
"ساویز کو کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں تمہارے ہاتھ میں رکھ رہی۔ اسے مت بتانا کہ پیسے کہاں سے آئے۔۔ اپنی طرف سے دے دینا۔"
وہ کوئی زیادہ موٹا لفافہ نہیں تھا مگر ایک اچھی رقم تھی۔
"میں شرمندگی سے مرجاؤں گی اگر انہیں پتا چل گیا کہ یہ پیسے میرے نہیں۔" اس کا دل گھٹنے لگا۔ دل عجیب سا ہورہا تھا۔
"تو کیا چاہتی ہو کہ وہ پیسوں کے معاملے پریشان رہے؟ چاہو تو یہ رقم مجھے بعد میں لوٹادینا مگر ابھی رکھ لو اپنی ماں کی خاطر۔۔" اس کا ہاتھ سہلاتی ہوئیں وہ اسے سمجھانے لگیں۔ ایک فکرمندی تھی، احساس تھا۔۔ بیٹی کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی تھیں۔ غنایہ کو لگا وہ اس بےبسی پر رو دے گی۔۔ یہ نہ تھی اس کی قسمت۔۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آج تو ویک اینڈ بھی نہیں اور تم ملنے بھی آگئے۔" باچھیں کھلی کھلی تھیں۔
"اماں سے ضروری بات کرنی ہے۔" وہ جوتے اتار رہا تھا۔
"اماں کمرے میں ہیں۔ آتی ہی ہوں گی۔" بھائی کے آگے ٹھنڈے پانی کا گلاس رکھتے ہوئے وہ برابر میں بیٹھ گئی۔
"میں کمرے میں چلا جاتا ہوں۔ تم پیچھے مت آنا مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔" اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے وہ اندر بڑھ گیا جبکہ روما نے اس کے جانے پر منہ بنایا تھا۔
اماں چپل پیر میں پہن کر باہر ہی آرہی تھیں جب میرویس اندر داخل ہوا۔
"اسلام علیکم! کیسی ہیں۔" ان کی ناراضگی ذہن میں رکھتا ہوا وہ بستر پر بیٹھا۔
"وعلیکم سلام۔" انہوں نے اس کے سوال کا جواب نہ دیتے ہوئے بے رخی سے دیکھا۔
"کیسی ہیں؟۔" وہ پھر سے بولا۔ کوٹ پینٹ میں ملبوس، بال سلیقے سے بنائے ہوئے وہ نکھرا نکھرا محسوس ہوتا تھا۔
"کیوں پوچھ رہے ہو؟۔" بنھویں چڑھ گئیں۔ میرویس کو شرمندگی محسوس ہوئی۔
"آپ اماں ہیں میری اور مجھے فکر ہے۔"
"تمہیں فکر ہے؟ فکر ہوتی تو اس لڑکی کا نام لے کر میرا دل خراب نہ کرتے۔" منہ پھیر کر وہ بستر کے دوسری طرف بیٹھ گئیں۔
"شادی تو کرنی ہی ہے۔۔ تو پھر عاشی کیوں نہیں؟۔" وہ اس موضوع پر دوبارہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"مجھے لگا تم میری پسند کو تسلیم کر کے رائمہ کے لیے حامی بھرو گے!۔" بھانجی کی محبت زیادہ حاوی تھی۔
"نہیں کرنی آپ کی بھانجی سے شادی۔۔ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ اگر میں اپنی من پسند لڑکی کا نام بتاؤں گا تو آپ مان جائیں گی۔ چھ سات سال سے اس کی محبت مجھ پر حاوی ہے مگر آپ پر تو آپ کی بھانجی کی محبت زیادہ معنی رکھتی ہے۔" وہ غصہ نہیں کر رہا تھا۔۔ ماتھے پر بل نمودار ہوگئے تھے۔ بس اپنی بھڑاس نکالتے ہوئے خود کو اطمینان بخش رہا تھا۔
"کون ہے وہ لڑکی؟ ایک الگ گھر میں رہتی ہے! بھلا کون مان باپ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی دوسرے گھر میں تنہا رہے؟ یقیناً زبان کی تیز ہوگی۔۔ عمر میں بھی اتنی بڑی ہے! پھر کیسے خوش ہوجاؤں؟۔" یہ سب وہ باتیں تھیں جو اماں کو یہ رشتہ نہ ماننے پر مجبور کرتی تھیں۔
"عمر میں بڑی؟۔" وہ چونکا۔۔ یہ ان کا نیا جملہ تھا۔ "آپ کا بیٹا بھی کوئی بائیس، چوبیس سال کا نہیں ہے اماں۔۔ انتیس کا ہوں اور وہ مجھ سے بھی ایک سال چھوٹی ہے۔ پھر کیسے بڑی ہوسکتی ہے؟۔"
"دیکھ بیٹا تو نہیں سمجھتا۔۔ یہ اٹھائیس سال کی لڑکی کوئی چھوٹی نہیں ہوتی۔ رائمہ بیس سال کی ہے۔ معصوم ہے بھولی بھالی ہے! جو تو کہے گا، وہ کرے گی۔ خاموشی سے ساری بات مانے گی۔ اب بھلا بتا یہ اٹھائیس سال کی لڑکی میں کون سی معصومیت؟ تیری بات ماننے کے بجائے تجھ سے الٹا جھگڑے گی۔" محبت سے سمجھاتے ہوئے وہ بہت آرام سے الفاظوں کا استعمال کر رہی تھیں۔ میرویس کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہوچکا تھا۔
"بس کریں اماں! انتیس سال کا مرد بیس سال کی لڑکی لائے کیونکہ وہ اس کے رنگ میں رنگ سکتی ہے؟ میری زندگی کو عاشی کی ضرورت ہے۔۔ یہ سب پانچ سال پہلے بھی ممکن نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "پلیز اماں! ساری زندگی آپ کا حکم مانا ہے مگر یہ شادی کا اختیار صرف میرے پاس رہنے دیں۔ میں چاہتا ہوں آپ عشنا کی امی سے ملاقات کریں ان دو دنوں میں۔۔"
اس بار اس کے چہرے پر اپنے فیصلے کی پختگی تھی۔

تو دل سے نہ اتر سکاWhere stories live. Discover now