بارھویں قسط (آخری)

334 13 3
                                    

صوفے پر لیٹا وجاہت گیند اوپر اچھالتا ہوا کیچ کر رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے تذبذب کی کیفیت سے گھڑی میں وقت دیکھا۔
کچھ دور غنایہ رخ موڑے بیٹھی تھی۔ آدھے گھنٹے سے اوپر ہونے کو آیا تھا مگر ساویز اب تک نہیں پہنچا تھا۔
"تم نے کہا تھا اگر ساویز نہ آئے تو آدھے ہی گھنٹے میں گھر چھوڑ دو گے۔" بنھویں آپس میں ملی ہوئی تھیں۔
وجاہت اٹھ کر بیٹھا اور غور سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
جو بھی تھا یہ اس کی آخری کوشش کی تھی۔ ساویز آئے نہ آئے مگر اس کا دل بوجھل ہونے لگا تھا۔ اگر وہ نہ آیا تو اس کی یہ آخری کوشش رائیگاں چلی جائے گی۔ مزید پانچ منٹ انتظار کرتے ہوئے سنجیدگی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ایک بار گھڑی میں وقت دیکھا اور تھوک نگل کر غنایہ کو جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"عادل۔" اس نے گارڈ کو پکارا۔
"جی باس۔"
"غنایہ کو گھر چھوڑ آؤ۔" جلد تھا کہ شدت ضبط سے آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔ وہ پلٹ ہی رہا تھا جب کسی کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔
"میری بیوی تک پہنچنے کی ہمت کیسے کرسکتے ہو تم۔۔" دروازے سے اندر داخل ہوتا ساویز دھاڑا تھا۔ وجاہت اس کی آواز پر ٹھہر کر مڑا۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ساویز۔" غنایہ کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔ ساویز نے اسے دیکھا تو نزدیک آیا۔
"تم ٹھیک ہو؟" نگاہوں میں ڈھیروں فکرمندی تھی۔
وجاہت نے امپریس ہوتے ہوئے دونوں کو دیکھا۔
"ہاں۔" وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی۔ ساویز وجاہت کے طرف بڑھا۔
"چاہتے کیا ہو تم؟ تم اپنی بہن کے قتل کا گناہ مجھے کیوں دے رہے ہو؟" چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔
"کیونکہ اسے تم نے مارا ہے۔" وجاہت نفرت انگیز لہجے میں بولا۔
"بس کرو وجاہت! خدا کا واسطہ ہے نکل آؤ خمار سے۔۔ مجھے تمہاری بہن کا قتل کرنا ہی ہوتا تو تمہارے ساتھ دوستی کیوں رکھتا۔"
"کیونکہ وہ تم سے محبت کرتی تھی۔ جان دیتی تھی تم پر اور تم نے اس کی جان لے لی۔" کہتے ساتھ ہی آنکھیں نم ہوگئیں۔
"کیا بس یہی ایک ثبوت ہے؟ زبانی ثبوت؟" وہ چیخا۔ "اگر یہی بات تم کسی سے باہر جا کر کرو گے تو لوگ تمہیں بے وقوف سمجھیں گے وجاہت۔"
"اس رات تم گھر آئے تھے۔" وجاہت نے ماضی دہرایا۔
"ہاں آیا تھا مگر تم سے ملنے اور جب میں تمہارے کمرے میں پہنچا تو تم وہاں نہیں تھے۔ تب ہی اپنے کمرے سے باہر کائنہ نے قدم رکھا تھا اور مجھے تمہاری ناموجودگی کے بارے میں بتایا۔ میں جانے لگا تھا جب اس نے کہا مجھے ٹھہر جانا چاہئیے کیونکہ تم آنے والے تھے۔ میں انتظار کرتا اگر مجھے تمہارے تاخیر سے آنے کا اندازہ نہ ہوتا۔ میں پلٹ گیا وجاہت۔۔ اگر میں اسے مارنا ہی چاہتا تھا تو وہ چیخی کیوں نہیں؟ کیوں نہ آئے تمہارے گارڈز اسے بچانے؟" دانت پیس کر وہ ایک بار پھر یاد دہانی کروا رہا تھا۔ "کیونکہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ تمہیں کیا لگا تھا؟ مجھے نقصان پہنچائے اور میرا ذہنی سکون برباد کرنے کے لیے تم میری بیصی کا استعمال کرو گے اور یوں ساویز کوئی بھی جرم قبول کرلے گا؟" یہ ایک کشادہ بڑا کمرہ تھا جس میں ساویز کی آواز گونج رہی تھی۔ وجاہت ساکت کھڑا تھا۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے گر جاتا اگر عادل نہ اسے تھام لیتا۔ آج پہلی بار اس نے خود کو دنیا کا سب سے ناکامیاب شخص محسوس کیا۔ اس کی بیوی یہاں پر تھی۔ وہ یوں اس موقع پر جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ تو کیا واقعی یہ سچ تھا؟ کیا واقعی وہ بے گناہ تھا؟ اور آج تک جو وہ ساویز کو نقصان پہنچاتا آیا، اس کی بیوی کو بھی معاملے میں شامل کیا۔ کیا وہ سب ایک غلطی بن کر رہ گئی تھی؟ اس نے تھوک نگلا تو حلق کی گلٹی نمودار ہو کر غائب ہوئی۔
"میں نے تم سے کہا تھا نا وجاہت۔۔ ایک دن آئے گا کہ تم پچھتاؤ گے اور یہ بھی کہا تھا کہ اس وقت سے بچو مگر تمہارے اندر لگی انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی تھی۔" ساویز کی گھمبیر آواز وجاہت کو سن کر رہی تھی۔ پریزے ٹھیک کہتی تھی۔۔ اور ساویز بھی۔۔ وہ واقعی پچھتاوے میں گھر گیا تھا۔ انتقام کا یہ چکر اسے اس کی بیوی سے دور لے گیا۔ غنایہ شوہر کے پیچھے کھڑی تھی۔
"جا رہا ہوں میں۔۔ یاد ہے میں نے ایک بار تم سے کیا کہا تھا؟ دوست کا وار سہنے کی بھی ہمت رکھتا ہوں اور دیکھو آج تمہاری دی گئی ہر تکلیف سہہ رہا ہوں۔ تم نے سب کھو دیا وجاہت۔ تم نے سب کو خود سے دور کر دیا۔" وجاہت کو یوں حواسوں سے بیگانہ ہوتے دیکھ کر اسے دکھ ہوا۔ اس کی حالت قابلِ رحم تھی مگر ساویز ایک بار بھی آگے نہیں بڑھا تھا۔
"غنایہ۔" ساویز نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ وہ اسے تھام سکے۔ غنایہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور وجاہت کو دیکھنے لگی۔ اسے لمحہ بھر ٹھہرنے کا اشارہ دیتے ہوئے وجاہت کے نزدیک آئی جسے عادل اب صوفے پر بٹھا چکا تھا۔
"مجھے تم سے پہلے بہت نفرت محسوس ہوتی تھی مگر اب مجھے تمہارے لیے دکھ ہے۔" یہ وہ الفاظ تھے جو غنایہ نے وجاہت سے کہے تھے جس پر وجاہت نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ اسے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے پلٹنے کے بعد وجاہت کی آنکھ سے آنسو نکلا تھا اور وہ خود پر ضبط کرتا رہ گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اللہ اسے غارت کرے جس نے میری بیٹی کی جانب بری نگاہ اٹھائی۔" تقی چیخ نہیں رہے تھے' بلکہ دھاڑ رہے تھے اور ساویز انہیں بار بار یاد دلا رہا تھا کہ وہ دل کے مریض ہیں۔ غنایہ نے نچلا لب دانتوں سے کچلا۔
"مجھے کچھ کہنے سے مت روکو ساویز۔ باپ ہوں تمہارا! غنایہ سے اس کی طبیعت پوچھو۔ اللہ نہ کرے کوئی ایسی ویسی بات ہوجائے۔"
اس سے قبل ساویز کچھ کہتا غنایہ بول پڑی۔
"میں ٹھیک ہوں بابا۔ اس نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ آپ پریشان مت ہوں۔ کہیں دل میں تکلیف نہ اٹھ جائے۔" ان کے پاس آکر وہ قریب ہی بیٹھ گئی۔ پیار سے ہاتھ ان کے کندھے پر پھیرا تو وہ کچھ سکون میں آگئے۔
ساویز قدرے امپریس ہوا۔
"آدھے گھنٹے سے جب میں سمجھا رہا تھا تو آپ مجھے الٹا ڈانٹ رہے تھے۔" کالر والی شرٹ کا پہلا بٹن کھولتے ہوئے وہ بستر پر بیٹھ گیا۔ غنایہ نے اس کی جانب کچھ اتراتے ہوئے دیکھا۔
"بیٹیوں کی بات کچھ اور ہوتی ہے۔" اپنی لٹوں کو انگلیوں پر گھماتے ہوئے اس نے تصدیق کے تحت تقی کو دیکھا تو وہ مسکرا دیے۔
"اس بات سے میں انکار نہیں کر سکتا۔" انہوں نے دھیرے سے اس کے سر ہاتھ پھیرا تو ساویز بھی مسکرا دیا۔
"یہاں میں جیلس ہونے کا حق رکھتا ہوں۔" بہت ہی آرام سے کہتے ہوئے وہ غنایہ کو گھورنے لگا۔ غنایہ کھلکھلا دی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
گروسری گاڑی میں رکتے ہوئے اس نے مسکراتے ہوئے روما کی جانب بسکٹ کا پیکٹ بڑھایا۔ روما نے پہلے اس کے مسکراتے لب دیکھے اور جواباً خود بھی مسکرا دی۔
"تھینک یو بھابھی۔" کریم والے بسکٹس اسے ہمیشہ سے پسند تھے۔
"تم نے اپنی پسند سے کیا لیا؟" ڈرائیونگ سے پر بیٹھتے ہوئے عشنا نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔
"یہ چاکلیٹس اور کسٹرڈ بنانے کا پیکٹ! جب میرو آئے گا تو میں اس کے لئے بناؤں گی۔" چاؤ سے کہتے ہوئے اس نے ڈبے کو دیکھا تو عشنا مسکرا دی۔
"تمہارے بھائی کا دماغ گھٹنوں میں ہے۔" نجانے کیوں وہ طنزیہ بول پڑی۔ روما چونک اٹھی۔
"آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں۔" اگر یہ کہنے والی عشنا نہ ہوتی تو وہ یقیناً غصے میں آچکی ہوتی۔
"کیونکہ ایسا ہی ہے۔" خفا خفا سا لہجہ روما نے بھانپ لیا تھا۔
"انہوں نے آپ کو تکلیف پہنچائی؟"
گاڑی آگے بڑھ رہی تھی۔
"بہت زیادہ۔۔" عشنا کو گزرا وقت یاد آنے لگا۔ "کیا فرق پڑتا ہے۔" اسے غصہ آنے لگا۔
"آپ انہیں یاد کر رہی ہیں بھابھی؟" روما مسکرائی۔
"نہیں بلکل نہیں۔ میں اسے بلکل بھی یاد نہیں کر رہی۔" وہ تیزی سے نفی میں سر ہلانے لگی۔ "مجھے تمہارا بھائی ذرا نہیں پسند۔"
"بھائی اتنا برا ہے؟" اسے برا لگ رہا تھا مگر وہ عشنا کی طرف داری کرنا چاہتی تھی۔
"بہت برا' بہت زیادہ۔ اتنا کہ وہ خود بھی نہیں جانتا۔" نجانے کب آنکھیں نم ہوگئیں اور آواز بھیگنے لگی۔ روما نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ کیا واقعی میرو نے اس کی بھابھی کو اتنا رلایا تھا۔
"بے حس اور بدتمیز ہے۔ جانتی ہو اس نے کہا تھا کہ میرا دل کبھی نہیں دکھا سکتا مگر اس نے ایسا کیا روما۔" اتنی چھوٹی بچی کو وہ یہ کیوں بتا رہی تھی اسے خود بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔
"مجھے یقین نہیں آرہا۔ میرو نے آپ کا دل دکھایا؟ اس نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔" وہ اس جملے پر ٹھٹکی۔
"تمہارا بھائی دو نمبر آدمی ہے جسے میں بلکل پسند نہیں کرتی۔ ذرا نہیں بھاتا ہے۔" گھر کے آگے گاڑی روکتے ہوئے اس کو اندازہ ہوا کہ وہ کیا کیا بول چکی ہے۔ دھیرے سے چہرہ موڑ کر اس نے روما کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی۔
"آئم سوری! میں بس غصے میں تھی۔ جانے کیا کیا بول پڑی۔" سب کچھ گڈ مڈ ہونے لگا تو روما کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے باہر نکل گئی۔
"میں جانتی ہوں آپ میرو کو پسند کرتی ہیں اور ابھی آپ اس سے ناراض ہیں۔" ٹھنڈا لہجہ عشنا کے لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ لے آیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کتنی سمجھدار معلوم ہو رہی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں آگے کیسے پڑھ سکوں گی ساویز؟" مستقبل کے حوالے سے اسے پریشانی تھی۔
"سب ہوجائے گا غنایہ۔ یہ سمیسٹر تمہیں ڈراپ کرنا پڑے گا۔" وہ اس کے گھٹنوں پر سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا۔
"کہنا کتنا آسان ہوتا ہے کہ سمیسٹر ڈراپ کرنا پڑے گا۔" نظریں بھی خفا تھیں۔ "کتنی لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اس حالت میں بھی پڑھتی ہیں۔ میں بھی ایسا کر سکتی ہوں ساویز۔" اس کے کہنے پر ساویز اسے دیکھتا رہ گیا۔ غنایہ نے لمبی خاموشی محسوس کی۔ یکدم ہی ساویز کا قہقہہ گونجا۔
"تمہیں لگتا ہے تم کرسکتی ہو؟ دو دن جا کر دکھا دو' مان جاؤں گا۔ تیسرے دن ہی تم تھک جاؤ گی۔" وہ یقین سے کہہ رہا تھا اور غنایہ اس سے خفا ہو رہی تھی' یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ٹھیک ہی کہتا تھا۔ غنایہ جلد ہی تھک جائے گی۔
"آپ بلکل اچھے نہیں ہیں۔" کلائی میں پہنے گجروں کی خوشبو محسوس کرنے لگی۔ ساویز جانتا تھا کہ یہ اس کی خوشی کا سامان ہے اس لیے اکثر تحفتاً اس کے لیے لے آتا تھا۔
"میں آج پہلی بار بہت ڈر گیا تھا۔" وہ جو دونوں سوچ کر بیٹھے تھے کہ اب ماضی کی باتیں نہیں کریں گے' ساویز ٹھہر نہ سکا۔
"سن کر اچھا لگا مجھے۔۔" اس نے پوری بتیسی دکھائی۔ "میرا شوہر میرے لیے ڈر گیا تھا۔"
ساویز نہ چاہتے ہوئے مسکرا دیا۔
"ہنسو مت' میں سنجیدہ ہوں۔ مجھے لگا تم رو رہی ہوگی مگر تم تو بہادر بن کر بیٹھی تھی۔" سوچتے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"کیونکہ اب مجھے لوگوں کا سامنا کرنا آگیا ہے۔ اب بلاوجہ میں روتی نہیں۔" آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ کسی فخر سے اسے بتانے لگی۔ ساویز کی مسکراہٹ یکدم ہی گہری ہوئی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو پہلے سے زیادہ نکھر گیا تھا۔
"مجھے لگتا ہے ہمیں کچھ وقت ساتھ میں باہر گزارنا چاہئیے۔" اس کا ہاتھ تھام کو وہ پیار سے سہلاتا ہوا بولا۔
"ہم نے شادی کے بعد ایک بار بھی کہیں باہر ساتھ ڈنر نہیں کیا۔" وہ کب سے اس کے ساتھ ایک شام باہر گزارنا چاہتی تھی۔
"ہاں یہ بہترین ہے' مگر چند دنوں تک۔ بابا کی طبیعت مزید بہتر ہوجانے گی تو ہم ڈنر کہیں باہر کریں گے۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگا رہا تھا۔ غنایہ اس کے انداز پر مسکرائی جارہی تھی۔
ساویز کو کچھ یاد آیا تو عشنا کو کال کرنے لگا۔
"اسلام علیکم" عشنا کی آواز ابھری۔
"وعلیکم سلام۔ کیسی ہو عشنا؟"
"الحمداللہ۔ آپ کیسے ہیں؟"
"تمہاری بہن کے ساتھ ہوں۔ اب سمجھ لو کیسا ہوں گا۔" اس نے ٹھہر کر غنایہ کو دیکھا جو حیا سے نگاہ دوسری جانب کر گئی تھی۔
"یعنی میں بہترین سمجھوں؟" اس کی مسکراہٹ وہ دونوں موبائل کے دوسری جانب سے محسوس کر سکتے تھے۔
"ہاں بلکل! تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ میر کراچی میں نہیں ہے اس لیے میں تم سے خیر خیریت معلوم کرتا رہوں گا۔" آواز ہمیشہ کی طرح گھمبیر تھی۔
"شکریہ ساویز مگر مجھے فالحال کسی چیز کی ضرورت نہیں۔" وہ اس کی بات پر مطمئن ہوا تھا۔
"اب مجھے بات کرنی ہے۔ موبائل دیں۔" اس کے ہاتھ سے موبائل زبردستی کے کر اس نے کان پر لگایا۔ البتہ ساویز اسے گھورتا رہ گیا تھا۔ اب دو بہنوں کی طویل اور کبھی نہ ختم ہونے والی گفتگو شروع ہوگئی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
یہ ایک ہفتہ اسے مکمل طور پر پاگل کرنے کے لیے کافی تھا۔ میرویس کے لوٹنے سے ایک دن پہلے تک وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ ہچکیاں بندھ رہی تھیں مگر اسے احساس ہو رہا تھا کہ واقعی میرویس اسے بے بس کر چکا تھا۔ وہ اپنی غیر موجودگی سے اسے بہت اچھی طرح سمجھا چکا تھا کہ عشنا کے لیے وہ کتنا اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اپارٹمنٹ اس کے بنا کچھ نہیں تھا۔ آفس کی چوتھی بار چھٹی کر کے وہ کچن کے باہر رکھی میز کے ساتھ کرسی لگائے بیٹھی تھی۔ کمرے میں جانے سے نجانے اب کیوں وحشت ہوتی تھی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ میرویس بھی نہیں۔۔ رات بستر پر تنہا لیٹتے ہوئے اسے میرویس اتنی شدت سے یاد آیا کہ وہ اٹھ بیٹھی۔ اس کے جانے کے بعد سے ایک رات بھی وہ سکون سے نہ سو سکی۔ آنکھوں کے نیچے نیند نہ ہونے کے باعث حلقے آرہے تھے۔ آخری دو دن اس نے سسکتے سسکتے گزارے۔ دل بھرا بیٹھا تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکل رہی تھی جب صوفے سے پاؤں کی چھوٹی انگلی ٹکرائی۔ درد کی ایک لہر دوڑی تو آنسو نکل آئے۔ مگر یہ آنسو جسمانی تکلیف کے نہیں تھے۔ وہ رو پڑی اور اتنا روئی کے کب وقت گزرا علم بھی نہ ہوسکا۔
اسے لگا روئے گی تو غم کم ہو جائے گا مگر وہ بڑھتا جا رہا تھا۔ میرویس کے لیے محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کا دل چاہا انا کی دیواریں توڑ کر وہ اسے ایک کال ہی کر لے مگر یہ سوچ کر نہ کر سکی کہ جانے اس ایک ہفتے میں اس کی شخصیت میں کیا تبدیلی آئی ہوگی۔
لب مسکرانا بھول رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں میرویس کو پکارنے لگی کہ لوٹ آؤ قبل اس کے کہ یہ لب مسکرانا بھول جائیں۔
اسے خود پر بھی غصہ آیا۔ بھلا کیا ضرورت تھی میرویس سے یہ کہنے کی کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی۔ کیا ضرورت تھی اس سے جھگڑنے کی۔۔
روز ساویز سے میرویس کا حال احوال پوچھ کر وہ خود کو مطمئن کرتی۔ یہ ایک ہفتہ بھی ایک صدی کے برابر محسوس ہو رہا تھا۔ وقت تھا کہ گزرتا ہی نہیں تھا۔ بار دن آفس میں نہ آنے کی وجہ سے صوفیہ بلآخر اسے گھر ملنے آگئی۔ سرخ ادھ کھلی آنکھیں اور ہلکے حلقے اس کی تکلیف دہ حالت بتانے کے لیے کافی تھے۔ صوفیہ سکتے میں کھڑی ہی رہ گئی۔
"یہ سب کیا ہے۔" اس سے آگے الفاظ ہی نہ ملے۔
عشنا کو لگا وہ جلد دوبارہ سے رو دے گی۔
"آج چھٹا دن ہے اور میں آج بھی نہیں سو سکی۔" یکدم ہی سسکی بھری گئی۔ "مجھے اس کی بے پناہ یاد آتی ہے۔ کیا اسے بھی آتی ہوگی؟" آنسو بہنے لگے۔
"وہ تم سے محبت کرتا ہے' لازماً یاد کرتا ہوگا۔" اس کی کمر تھتھپاتے ہوئے وہ بے حد محبت سے بولی۔
"اس نے مجھے ایک بار بھی میسج نہیں کیا حالانکہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا صوفیہ۔ اس نے کبھی مجھے نظر انداز نہیں کیا۔"
"تمہیں اس کی کتنی یاد آرہی ہے۔" صوفیہ نے ذو معنی لہجے میں پوچھا۔
"بہت زیادہ۔۔ اتنی کہ مزید دو دن اس کے بنا رہی تو پاگل ہوجاؤں گی۔ اٹھتے بیٹھتے مجھے اس کی آواز سنائی دے رہی ہیں جیسے وہ مجھے پکار رہا ہو۔ میں سوتی ہوں تو کسی آواز سے جھٹکے سے نیند کھل جاتی ہے اور پھر بقایہ رات جاگتے ہوئے گزر جاتی ہے۔" آنسو پینا مشکل تھے۔
"تمہیں اس سے محبت ہورہی ہے؟" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ہو رہی ہے؟ محبت ہوگئی ہے صوفیہ۔۔ دوریاں احساس دلاتی ہیں کہ وہ شخص آپ کے لیے کتنا اہم ہے۔"
"اسے کال کیوں نہیں کرتی؟" صوفیہ کو غصہ آنے لگا۔ "محبت میں انا کی بات نہیں چلتی۔"
"بس ایک بار وہ مجھے میسج ہی کردے۔ میں اسے سیدھا کال ملا دوں گی۔ بس ایک بار وہ مجھے احساس دلا دے کہ اتنے دنوں میں وہ مجھے بھولا نہیں ہے۔ میں محبت کا اقرار کرلوں گی۔"
صوفیہ اب کی بار کچھ نہ بولی بس خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ بس پیار سے اس کا ہاتھ سہلاتی ہوئی تسلیاں دینے لگی۔
"مجھے یقین ہے وہ تمہیں تنگ کر رہا ہے۔ تم دیکھنا وہ کل جب لوٹے گا تو بلکل ویسا ہی ہوگا۔" آدھا گھنٹہ مزید رکتی اگر عشنا کی ساس اپنی بہو سے ملنے نہ آجاتیں۔ وہ خدا حافظ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
اماں کو دیکھ کر عشنا آنسو صاف کرتی ہوئی تیزی سے اٹھی تھی مگر اس کا اترا ہوا چہرہ ان کی نگاہوں سے چھپ نہیں سکا تھا۔
"اسلام علیکم۔ کیسی ہیں اماں؟" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اماں اس کی حالت دیکھ کر بمشکل مسکرائیں۔ "میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں۔ کافی دنوں بعد آئی ہیں۔" چپل پیر میں پہنتے وہ تیزی سے کہتی ہوئی باہر نکلنے لگی جب روما کی آواز نے اسے روکا۔
"میں بنا دیتی ہوں بھابھی۔" اور تب عشنا کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے آنسو نہ روما سے چھپا پائی ہے اور نہ اماں سے۔۔
"ادھر آؤ بیٹا۔" اماں کی نرم آواز اس کے آنکھیں بھگونے لگیں۔ "روما تم چائے بنادو۔" انہوں نے بیٹی کو بھیجا تو اثبات میں سر ہلاتی ہوئی کچن میں بڑھ گئی۔
"کیسی ہیں آپ؟" وہ اب بھی کوشش کر رہی تھی کہ اپنی حالت اماں سے چھپا سکے۔
"پہلے تم مجھے بتاؤ کہ تم کیسی ہو؟" کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بے حد نرمی سے کہہ رہی تھی۔ ان کا یہ بدلا ہوا لہجہ وہ صاف محسوس کر گئی۔ دل چاہا سارا حال زبانی سنادے۔ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو انڈ آئے۔
"میں تو ٹھیک ہوں۔" ہچکیاں بندھ گئیں۔ وہ بلکل کسی بچوں کی طرح بولی تو اماں اس کی معصومیت پر مسکرا دیں۔ وہ کہیں سے ایک اٹھائیس سال کی لڑکی معلوم نہیں ہو رہی تھی۔ ان کا دل چاہا اسے گلے سے لگا لیں تو انہوں نے عشنا کا چہرہ اپنے کندھے پر ٹکا دیا۔
"تم بہت پیاری بچی ہو۔ میں جانتی ہوں یقیناً میرویس نے ہی تمہارا دل دکھایا ہوگا۔ اپنی طبیعت کا ذرا خیال نہیں رکھتا، اور کوئی رکھے تو اسے بھی نہیں رکھنے دیتا۔" ان کے الفاظ عشنا کو سکون پہنچانے لگے۔
"ایسے کوئی غصہ کرتا ہے اماں؟ اس نے میری خیر خیریت بھی نہیں پوچھی۔ ایک ذرا سا میسج بھی نہیں۔"
"آنے دو ذرا، لوں گی میں خبر اس کی!" ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔ "تم نے دوپہر میں کھانا کھایا تھا؟"
"نہیں۔" وہ سسک کر بولی۔
"اور ناشتہ؟"
"جی۔"
"کیا کھایا تھا؟" اس کی کمزور حالت دیکھ کر وہ قدرے پریشان تھیں۔
"ایک بریڈ کا پیس چائے کے ساتھ۔" اسے گویا اپنے دکھ سننے والا مل گیا۔
"یہ کیا ناشتہ ہوا بھلا؟" انہوں نے آنکھیں پھاڑیں۔
"میرا دل نہیں کرتا اماں۔" اس کا دل کا بوجھ ہلکا ہو رہا تھا۔
"وہ شوہر ہے تمہارا۔ کام سے لوٹ کر تمہارے پاس ہی آئے گا۔ جب دیکھے گا تمہاری کمزور حالت تو اسے بہت دکھ ہوگا۔ کیا تم چاہتی ہو اس کا دل دکھے؟" محبت سے ماتھا چوم کر وہ اسے سمجھانے لگیں۔
"اگر وہ مجھے بھول گیا تو؟" یہ سوچتے ساتھ ہی اس کو ایک بار پھر رونا آنے لگا۔
اماں ہنس دیں۔
"تو پگلا گئی ہے کیا عشنا؟ وہ تجھے بھول سکتا ہے؟ سماج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نے تجھ سے شادی کی ہے یعنی تو اس کے لیے انمول ہے۔ تم دیکھنا یہ بھی اس کی کوئی شرارت ہوگی۔"
عشنا خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی۔
پھر یوں ہوا اماں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے پراٹھے اسے بہت محبت سے کھلائے۔ روما جب تک اپارٹمنٹ میں ٹھہری اسے باتوں میں مشغول کر کے رکھی رہی۔ سونے سے قبل وہ کچھ پرسکون تھی۔ بستر پر لیٹتے ہی اسے ایک بار پھر وحشت ہونے لگی۔ یکدم ہی فون بجنے لگا تو عشنا فوراً موبائل کی جانب لپکی۔ اسکرین پر جگمگاتا نام ہی اس کی زخمی روح کو مرہم لگانے کے لیے کافی تھا۔
"میرویس۔" اس کے لبوں نے جنبش کی۔
کال اٹھا کر کانوں سے فون لگایا اور وہیں سنگھار میز کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اب وہ اسے پکارے گا تو عشنا اسے دھیان سے سنے گی۔ یہ آواز سنے کتنا وقت بیت گیا تھا۔
"عاشی؟" بھاری گھمبیر آواز ابھری تو عشنا نے گہری سانس اندر کھینچی۔ لبوں نے پکارنا چاہا مگر آواز حلق میں دم توڑ گئی۔
"میں جانتا ہوں تم اب بھی خفا ہو۔" جواب نہ پا کر وہ خود سے ہی بول پڑا۔ "کل شام تک آجاؤں گا، آفس مت جانا۔ جلدی جلدی میں اپارٹمنٹ کی چابی وارڈروب میں ہی بھول گیا تھا اس لیے تمہیں دروازہ کھولنا پڑے گا۔"
"میں لینے آجاؤں ائیر پورٹ؟" پھنسی پھنسی سی آواز حلق سے نکلی۔
"تم؟" اس کی آواز پر چونکا۔ تھوڑی بدلی ہوئی تھی۔ "تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟" لہجہ یکدم ہی فکرمند ہوا اور عشنا کو یقین آگیا کہ وہ بدلا نہیں۔۔ ویسا ہی تھا جیسے اس چھوڑ کر گیا تھا۔
"کئی راتوں سے سوئی نہیں ہوں۔ تھکی ہوئی ہوں۔" تھوک نگل کر اس نے اپنا حال سنایا۔ کیسے کہے کہ اس کی یاد عشنا کو ساری رات جگاتی تھی۔
"میں نے غلط وقت پر کال کردی شاید۔۔ رات کے تین بج رہے ہیں مجھے لگا جاگ ہی رہی ہوگی کیونکہ ہم ہمیشہ تین بجے کے بعد ہی سوتے تھے۔" وہ کہتے کہتے رک سا گیا۔ "یہ بھی پرانی بات ہوگئی۔ بہرحال میں کال رکھتا ہوں تاکہ تم نیند لے سکو۔" حلق کی گلٹی دھیرے سے نمایاں ہوئی تھی۔ وہ کال رکھتا ہی کہ عشنا کی آواز ابھری۔
"جب تم آؤ گے پھر سوؤں گی۔ ایسے نیند نہیں آتی۔" اس کے الفاظوں پر میرویس نے خود کو ٹھہرتے ہوئے محسوس کیا۔ کال رکھی جا چکی تھی اور وہ اب بھی موبائل کی روشن اسکرین پر جگمگاتا عشنا کا نام دیکھ رہا تھا۔ کیسے کہتا کہ یہ پل اس نے عشنا کے بنا کس اذیت میں گزارے ہیں۔ موبائل میز پر رکھ کر اس نے کھلا لیپ ٹاپ بند کیا اور اسی میز پر سر رکھ کر آنکھیں موند گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے پریزے سے ملنا ہے۔" لہجہ رندھا ہوا تھا۔ آنکھوں سے گمان ہوتا تھا جیسے وہ کئی راتوں کا جاگا ہوا ہو۔
"اس نے کہا ہے وہ آپ سے ملنا نہیں چاہتی۔" اس کا پیغام پریشے نے تیسری بار بہن تک پہنچایا تھا اور ہر بار پریزے نے جم کر منع کیا تھا۔
"ایسا مت کرو۔ میرا اس سے ملنا ضروری ہے۔" چال لڑکھڑا رہی تھی جبکہ وہ خود تھکا اور نڈھال معلوم ہو رہا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔
"میں نے اسے بہت کہا مگر اب اس نے دروازہ اندر سے لاک کر لیا ہے وجاہت بھائی۔" پریشے کو اس کی یہ حالت نہیں دیکھی جارہی تھی۔ یکدم ہی اسے بہن پر غصہ آنے لگا۔ وجاہت کی سرخ ہوتی ہری آنکھوں کی پلکیں لرز اٹھیں تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔
"اس سے کہنا ایک شوہر کو اپنی بیوی کی ضرورت ہے۔ وہ اسے کھو بھی سکتی ہے۔" اس کی حالت تشویش ناک تھی۔ ہارے ہوئے قدموں سے پلٹ گیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد پریشے تن فن کرتی ہوئی اس کے سر پر آکھڑی ہوئی۔
"تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا۔" پریزے کمبل میں لیٹی بنا آواز کے سسک رہی تھی۔
"کیا یہ سب میں دل سے کر رہی ہوں؟ اس نے میری بات کا ذرا مان نہ رکھا پریشے۔" آنسو تیزی سے بہنے لگے۔
"انہیں پچھتاوا ہے۔ ایک نظر ان کی حالت تو دیکھو۔"
"مجھے اذیت ہو رہی ہے۔ مجھے مت بتاؤ۔" وہ جانتی تھی اگر پریزے نے مزید اسے وجاہت کی خراب حالت کا بتایا تو وہ وجاہت کے پاس جانے سے خود کو روک نہیں پائے گی۔
"تو پھر کب بتاؤں؟ جب وہ مرجائیں گے؟ یا خود کشی کرلیں گے۔" پریزے ششدر ہوئی۔ "ایک بار ان کی حالت پر نگاہ تو ڈالو۔ تمہارا دل پگھل جائے گا۔ انہیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جس کے سامنے وہ رو سکیں اور وہ شخص تم ہو۔ آنکھوں میں ڈھیروں شرمندگی نظر آتی ہے۔ وجاہت بھائی ٹوٹ گئے ہیں۔۔ ان کو سمیٹ لو پریزے۔"

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Aug 21, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

تو دل سے نہ اتر سکاWhere stories live. Discover now