آٹھویں قسط

256 15 2
                                    

"دعا کیجیے گا۔" گاڑی سے اترتے ہوئے اس نے آس بھری نگاہوں سے ساویز کو دیکھا۔ وہ اس کی بات پر بنھویں اچکاتا، تاثرات جانچنے لگا۔
"ہاں۔۔ کچھ نہیں ہوگا۔۔ اور تمہارے پاس تو ایک بہترین وجہ بھی ہے۔" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ غنایہ کو کچھ امید ملی تو مبہم سا مسکراتی، گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گئی۔
جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوئی، ساویز دیکھتا رہا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے وہ ایک بار پھر مڑ کر دیکھنے لگی۔ اسی دم ساویز بھی مسکرادیا۔ بھوری آنکھیں آپس میں ملیں تو دل میں شرارت دوڑنے لگی۔ وہ زبردستی اس کی جانب سے نظریں ہٹاتی اندر چلی گئی۔۔ البتہ ساویز اب بھی اس دروازے کو دیکھ رہا تھا۔۔پیچھے گاڑی کے ہارن کی چنگھاڑتی آواز نے اسے چونکنے میں مدد دی۔ سرے سے اسے سوچتا ہوا وہ گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیسے ہو؟۔" پرس میز رکھتے ہوئے وہ دونوں کہنیاں ٹکاتے ہوئے بولی۔ میرویس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔
"ششدر ہوں، حیران ہوں۔" نگاہ ایک پل بھی عشنا کے چہرے سے نہ ہٹ سکی۔
"کیوں؟۔" حیرانی اس بار عشنا کو ہوئی۔
"اس بار عشنا ابرار نے مجھے خود بلایا ہے۔ کم از کم یہ حادثاتی ملاقات نہیں!۔" ٹانگ پر ٹانگ جمائے، کرسی کی پشت سے کمر ٹکائی ہوئی تھی۔ شہادت کی انگلی میں چابی تھی جسے وہ گول گول گھما رہا تھا۔
عشنا کھلکھلا دی۔
"اس بات کی مجھے بھی امید نہیں تھی۔ دیکھو اب مجھے بھی تمہاری ضرورت پڑ رہی ہے۔" میرویس ہمیشہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ لے آتا تھا۔
ویٹر نے دونوں کے آگے کافی لاکر رکھی۔
"کیا یہاں چائے نہیں؟۔" کافی کا مگ دیکھتے ہی عشنا نے جھٹ سے پوچھا۔
"نہیں میم! ہمارے مینیو میں چائے کا آپشن نہیں۔" وہ معذرت کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ کافی کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے میر نے اس کا چہرہ بغور دیکھا۔
"تمہیں کافی نہیں پسند؟۔" اگر وہ جواب نفی میں دیتی تو میرویس کو بڑی حیرت ہوتی۔
"نہیں۔۔ میں چائے کو زیادہ اہمیت دیتی ہوں۔" کافی کا مگ، چائے کی طلب میں اضافہ کر رہا تھا۔
"یعنی اس بارے میں ہماری پسند ذرا نہیں ملتی۔" ہلکی مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔
"مجھے کافی میں دلچسپی نہیں۔۔ مگر شاید تمہیں ہے!۔" مگ کو خود سے تھوڑے فاصلے پر رکھتے ہوئے اس نے موبائل میں وقت دیکھا۔ "مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے میرویس۔۔ اور شاید یہ بہت اہم ہے۔" وہ اصل بات کی جانب بڑھی۔
"ہاں میں سن رہا ہوں۔" اس کے یوں 'اہم' کہنے کے بعد بھی وہ غیر سنجیدہ بیٹھا تھا۔ کبھی جو عشنا کی بات وہ اہم سمجھے!
"کمپنی کا کانٹریکٹ! کیا اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں؟۔"
"تبدیلی؟ مطلب؟۔" وہ سمجھا نہیں تھا۔
"کل رات مینجر کی کال آئی تھی۔ فاری کمپنی کے ساتھ جو ہمارا کانٹریکٹ تھا، اس حوالے سے بہت پریشان تھے۔ کہیں تم اس دن ہوئے تماشے کے بعد اس کانٹریکٹ کے حوالے سے ہم سے کچھ مختلف تو نہیں سوچ رہے؟۔"
کافی کی سب لیتے ہوئے میرویس نے اسے بے حد غور سے دیکھا۔
"تم سنجیدہ باتیں بھی کرتی ہو؟۔" اس موقع پر یہ ٹیڑھا سوال تھا۔ عشنا نے دانت پیس کر اس کا چہرہ دیکھا۔
"تم نے مجھے اتنا غیر سنجیدہ سمجھا ہوا ہے؟۔"
"ابھی تک تو یہی سمجھا ہوا تھا۔" یکدم ہی وہ مسکرا دیا۔ "باس کراچی میں نہیں ہیں عشنا۔۔ اس دن جو کچھ ہوا وہ میرے سامنے ہوا تھا۔ اگر باس کے سامنے ہوتا تو پھر سیدھا کانٹریکٹ کینسل ہوجاتا۔ تمہاری کمپنی کا پہلا امپریشن کیا پڑا ہے جانتی ہو؟ غیر ذمہ دار ایمپلائز۔۔ جہاں رافع جیسے مردوں کو اب بھی رکھا ہوا ہے۔" اس کی بات عشنا کو خاموش کر گئی۔
"انہوں نے کہا ہے کہ وہ رافع کو فائر کردیں گے مگر اس کے لیے انہیں کچھ وقت چاہئے۔" ہونٹ خشک ہونے لگے تو اس نے زبان پھیری۔
"تمہارا دو نمبر مینجر صرف تم سے کام نکلوارہا ہے عاشی! ایک بار یہ کانٹریکٹ ہو جانے دو، پھر نہ تو وہ رافع کو فائر کرے گا اور نہ تمہیں کچھ کہنے کا موقع دے گا۔" کافی کا مگ تھاما ہوا تھا۔ بے حد سکون سے اپنی بات کرتے ہوئے اس نے جواب طلب کیا۔ عشنا نے نگاہ پھیر لی۔
"تمہیں لگتا ہے کہ تم ہی بہتر ہو؟ کوئی اپنی ڈیوٹی صحیح سے نہیں نبھا رہا سوائے تمہارے؟ ایک اچھے بھائی، بیٹے، دوست، اور اپنی کمپنی کے لیے بہترین مینجر ہو تو کیا کسی دوسرے کی کوئی اہمیت نہیں؟ تم کسی پر الزام نہیں لگا سکتے۔" اس کی بات پر عشنا کو یکدم ہی غصہ آیا تھا۔ میر نے لب بھینچے۔
"میں الزام نہیں لگا رہا ہوں عاشی! بتا رہا ہوں۔ وہ ایسا ہی کرے گا۔ ٹھیک ہے اگر دو منٹ کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ تمہارا استعمال نہیں کر رہا تو اس بات کو کیسے جھٹلاؤ گی کہ رافع کی حرکتوں سے وہ پہلے ہی واقف تھا؟۔" کافی کا مگ خالی ہوچکا تھا۔ البتہ عشنا چونک اٹھی تھی۔
"تم کیسے جانتے ہو؟۔" بات حیرانی کی تو تھی۔
"تمہارا کولیگ نعمان! ہماری اچھی بات چیت ہے۔ میں نے اس سے ہی سب معلومات لی تھیں۔ اس نے ہی بتایا کہ مینجر سب جانتا تھا۔۔ کیا اب بتا سکتی ہو کہ تمہارے پیارے مینجر صاحب نے اس وقت کیوں نہیں نکالا؟ بلکہ وہ تو اب بھی نہیں نکالے گا۔ ایک بار اس کا کام تو ہوجانے دو۔۔۔" لبوں پر مسکراہٹ جیسے چپکی ہوئی تھی۔ عشنا کا چہرہ یکدم ہی سرخ ہوا۔
"تو تم اب میرے آفس کے معاملات میں دخل دینے لگے ہو۔ ہمارے درمیان کچھ نہیں ہے میرویس! کون ہو تم میرے؟ محض ایک سرسری سے دوست! جس کا چہرہ میں نے پانچ سال بعد دیکھا ہے۔ تمہیں لگتا ہے مجھے تمہاری ضرورت ہے؟ رافع سے مجھے بچانا اور پھر گاڑی کا بھی خراب ہوجانا۔۔ ہاں تم نے میری مدد کی اور اس کا میں شکریہ کر چکی ہو۔۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم میری جاسوسی کرو۔ میں جانتی ہوں کہ مینجر اور تمہاری ذرا نہیں بنتی مگر ان پر الزام لگانے کی تمہیں ضرورت نہیں!!۔" غصے سے سرخ چہرہ اور پھر بھڑاس کا یوں نکل جانا۔ ارد گرد بیٹھے لوگ انہیں دیکھنے لگے۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
میرویس اس پوری بات کے دوران خاموش رہا تھا۔ غیر سنجیدہ لہجہ سپاٹ ہو چکا تھا۔
"یہ کانٹریکٹ نہیں ہوگا۔" نگاہیں اس کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ اس کا یوں کہنا میرویس کے دل میں تکلیف کو جنم دے چکا تھا۔
"ہاں نہ ہو میری بلا سے!! میں اپنے اسٹاف کے بارے میں کچھ نہیں سنوں گی۔۔ مینجر کبھی ایسا نہیں کریں گے جیسا تم کہتے ہو۔" نجانے وہ کیوں اتنا کچھ کہہ پڑی تھی۔ اپنا پرس اٹھاتی وہ باہر نکل گئی۔ البتہ میرویس وہیں بے حد سنجیدگی سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ بل کے ساتھ پیسے رکھتے ہوئے وہ تیزی سے جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں تم سے ناراض نہیں ہوں غنایہ! مجھے تم پر غصہ ہے!۔" باسمہ کی گھورتی آنکھیں، غنایہ کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئیں۔
"یہ سب بہت ہی جلدی میں ہوا۔ باصم کی دھمکیاں بڑھتی چلی گئیں اور پھر ابا نے ساویز سے میرے نکاح کا سوچا۔ جانتی ہو کتنی جلدی میں نکاح ہوا؟ اور پھر اس کے بعد میں یونیورسٹی بھی نہیں آسکی۔"
"بہرحال! ساویز بھائی کیسے ہیں؟ اگر تم مجھے یہ بتادیتی کہ تم آج آنے والی ہو تو میں تمہیں ریسیو کرنے باہر ہی آجاتی۔ تاکہ ساویز بھائی کو دیکھ سکوں!۔" وہ مسکرادی۔
"ساویز بہت اچھے ہیں باسمہ! مجھے ایسا لگا نہیں تھا مگر۔۔۔ وہ بہت اچھے ہیں۔" یہ الفاظ اس نے دل سے کہے تھے۔
"کیا تمہارے موبائل میں ان کی کوئی تصویر موجود ہے؟۔" وہ دیکھنا چاہتی تھی۔
"نہیں۔۔ لیکن جب وہ مجھے لینے آئیں گے تب تم دیکھ لینا۔" کلاس کا وقت ہونے والا تھا۔ وہ دونوں ڈپارٹمنٹ کے باہر گارڈن میں بیٹھی تھیں۔
"تم آج بہت بدلی ہوئی محسوس ہورہی ہو۔"
غنایہ کے لبوں پر ہلکی مبہم مسکراہٹ چمکی۔
"کیسے؟۔"
"تم مسکرا رہی ہو۔" باسمہ کو یاد تھا کہ شادی سے پہلے وہ بہت کم مسکرایا کرتی تھی۔ مختصر بولنا اور ڈرا سہما، سنجیدہ لہجہ۔۔
"یہ مسکراہٹ ساویز کی پسند ہے۔ انہوں نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔" اسے شوہر یاد آیا تو رخسار سرخ ہونے لگے۔ باسمہ کھلکھلا دی۔
"پھر تو یہ ایک بہت اچھا بدلاؤ ہے! مجھے خوشی ہے کہ ساویز بھائی نے تمہیں سمجھا۔" دوسرے اسٹوڈنٹس کو ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ دونوں بھی کھڑے ہوگئے تھے۔ ہاتھ میں رکھے موبائل پر بپ ہوئی تو غنایہ نے نوٹفکیشن پڑھنے کے لیے لاک کھولا۔
"گڈ لک۔" ساویز کی جانب سے موصول ہونے والا یہ میسج اس کی مسکراہٹ گہری کر گیا۔ وہ موبائل جیب میں رکھ کر آگے بڑھنے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں نے کوشش کی ہے سر! مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ مانے گا۔ اپنی جانب سے میں نے پوری کوشش کی ہے۔" سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ اپنی چئیر پر جا بیٹھی۔
"اس نے کیا کہا؟۔" مینجر سب کام چھوڑ کر اس کے پاس آیا تھا۔
"کچھ نہیں کہا۔۔" یونہی بات چھپا لی گئی۔ "مگر میں نے اپنی بات مکمل کردی تھی۔ میں نہیں جانتی وہ کیا کرنے والا ہے۔" میرویس کے ساتھ بحث کے بعد اسے کسی سے بھی بات کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
"اوہ۔۔" مینجر کی پیشانی پر پریشانی کے بل پھیلے۔
"اگر وہ کانٹریکٹ ہو جائے گا تو آپ باس کو سب کچھ بتا کر رافع کو فائر کردیں گے!۔" میر کی بات کو کنفرم کرنے کے لیے اس نے مینجر سے پوچھا۔
"ہاں مس عشنا! ایسا ہی ہوگا۔" اس نے فوراً سے ہامی بھری۔ "یہ تو ہمارے درمیان ہونے والی ڈیل تھی۔۔ کہ اگر کنٹریکٹ سائن ہوگیا تو رافع کو فارغ کردیں گے۔" اس کا مسکراتا لہجہ سچ کہہ رہا تھا۔ اس دم ہی عشنا کو میرویس پر مزید غصہ آیا۔ نجانے اس نے ایسا کیوں کہا کہ مینجر صرف اس کا استعمال کر رہا ہے اور وہ رافع کو کبھی آفس سے نہیں نکالے گا۔
"تھینک یو سر۔" وہ مسکرانا چاہتی تھی مگر مسکرا نہ سکی۔۔ کیسے بتاتی کہ میرویس وہ کانٹریکٹ نہیں ہونے دینا چاہتا۔ عشنا کو لگا تھا کہ وہ اس کی بات مان لے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ زبردستی گہری سانس اندر کھینچتی وہ اپنے سامنے رکھا سسٹم آن کرنے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"وجاہت گھر پر ہے؟۔" وہ راہداری پار کرتے ہوئے لاونج میں داخل ہو رہی تھی جب اسے مردانہ بھاری آواز اندر سے سنائی دی۔ لبوں پر یکدم ہی مسکراہٹ چمکی تھی۔
"نہیں وہ آج آفس گیا ہے۔" لبوں پر مسکراہٹ کا قیام تھا۔ اس شخص نے کائنہ کی ہری آنکھوں کو دیکھتے ہوئے دوسری جانب نگاہ مرکوز کی۔
"ٹھیک ہے۔۔ پھر میں چلتا ہوں۔" وہ یہاں مزید ٹھہر کر اس کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔
"رکو ساویز۔۔" اس کا یوں جلدی چلے جانا وہ کیسے سہہ سکتی تھی۔ لمبی چوڑی پشت تکتے ہوئے تیزی سے بولی۔ ساویز رکا اور پھر دھیرے سے مڑا۔ چہرے کے تاثرات صاف بتاتے تھے کہ وہ اس کی کوئی بات نہیں سننا چاہتا۔
"میں تمہارے لیے کافی بنادیتی ہوں۔ وجاہت کچھ دیر میں آجائے گا جب تک تم اس کا انتظار کر سکتے ہو۔" اسے جو کہنا پڑا، وہ بولی۔۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں! میں وجاہت کے آفس جا رہا ہوں۔" سنجیدہ، ٹھہرا ہوا لہجہ۔ وہ مزید ٹھہرے بنا آگے بڑھ گیا۔
"اس کو مجھ سے بات کرنے میں دلچسپی کیوں محسوس نہیں ہوتی!!!۔" پیر پٹخ کر کہتے ہوئے وہ اندر بڑھ گئی۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے کھڑکی سے نیچے ساویز کو گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دیکھا۔
"اوہ ساویز۔۔ پلیز ایک بار تو مجھے میرے نام سے مخاطب کرو۔" چوکیدار سے کوئی بات کر کے مسکراتا ساویز اسے سیدھا اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔ کھلے لمبے بال کمر سے نیچے تک آتے تھے۔ ہری خوبصورت آنکھیں اس پر ٹکی ہوئی تھی۔ وہ اب آنکھوں پر سن گلاسز لگاتا ہوا، گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔
"وجاہت کی بہن سے دور بھاگنا آسان نہیں۔" وہ مسکرائی اور پھر ہنس دی۔۔ کائنہ کو جو چاہئیے تھا، اسے وہ مل جائے گا، ایک یقین تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"وہ ساویز بھائی ہیں؟؟۔" باسمہ کی آنکھیں پھیلیں۔
"ہاں۔" وہ غنایہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔
"اور تم کہتی ہو کہ ساویز بھائی نے تمہیں دیکھے بغیر ہی رشتہ دیا تھا؟۔" اسے کافی حیرانی ہوئی۔ وہ ایک پروقار اور خوبصورت مرد معلوم ہوتا تھا۔۔
"ہاں باسمہ!۔"
"اللہ نے تمہیں تمہارے صبر کا بہت اچھا صلہ دیا ہے۔۔ مگر مجھے اب بھی حیرت ہے!۔" وہ مسکرا دی۔
"یہ کتنا خواب سا معلوم ہوتا ہے نا؟۔" غنایہ کا کھلکھلانا ساویز نے بہت دور سے محسوس کیا تھا۔
وہ سوچتا تھا کہ وہ کھلکھلاتی ہوئی کیسی معلوم ہوتی تھی۔۔ آج اس نے دیکھ بھی لیا تھا۔
"میں اب چلتی ہوں۔ تم سے کل ملاقات ہوگی۔" اسے خدا حافظ کہتی ہوئی وہ سڑک پار کرتے ہوئے ساویز کی جانب بڑھی۔
"اسلام علیکم۔" گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ اندر بیٹھی۔
"وعلیکم اسلام۔" اسے دیکھتے ہی لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ "کیسا گزرا دن؟ لگتا تو نہیں کہ پروفیسر نے ڈانٹا ہوگا۔" وہ اس کی بھوری میں دیکھ رہا تھا جن کا رنگ دھوپ میں مزید ہلکا ہوگیا تھا۔
"پروفیسر نے مجھے کچھ نہیں کہا۔۔" اس کا دل چاہا کہ کھلکھلا دے۔
"میں پہلے ہی جانتا تھا۔" گاڑی آگے بڑھنے لگی۔
"امتحان ہونے میں زیادہ وقت نہیں۔۔ میں تیاری تو کرسکوں گی نا؟۔" پتا نہیں کیوں مگر وہ یہ سوال اس سے پوچھ رہی تھی جیسے وہ جانتا ہو۔۔ ہاں مگر ایک یقین تھا کہ وہ اسے ہمت دلائے گا۔
"میں بھی تمہاری پڑھنے میں مدد کر سکتا ہوں اگر میری بیوی چاہے تو۔۔" گاڑی سگنل پر تھوڑے وقت کے لیے رکی۔
"ہاں ساویز! ہم آج سے ہی امتحان کی تیاری کریں گے۔"
غنایہ کا یوں اس کا نام لینا، ساویز کو بھایا۔
"میں رات کو آفس سے لوٹوں گا تو ڈنر کرنے کے بعد تمہیں ٹیوشن دوں گا۔ پھر تم میرے پیسے دے دینا۔ ٹھیک ہے؟۔" اسے چھیڑنا اچھا لگ رہا تھا۔
"پیسے؟۔" وہ چونکی۔ "سچ میں پیسے دینے پڑیں گے؟۔"
ساویز زور سے ہنس پڑا۔
"ہاں! میں نے کبھی کسی کو بغیر معاوضے کے نہیں پڑھایا۔ مجھے یاد کہ جب جب مجھ سے روما پڑھنے آیا کرتی تھی، میرے لیے چھوٹا سا کیک لایا کرتی تھی۔"
غنایہ کو اس کی بات سوچنے پر مجبور کر گئی۔
یکدم ہی کسی نے کھڑکی بجائی تو ساویز نے دیکھتے ہوئے شیشہ نیچے کیا۔ خوبصورت تازہ گجرے بیچنے والے نے اس سے یہ پھول خریدنے کی التجا کی۔ ساویز نے بنا کچھ کہے گجرے کی جوڑی اس کے ہاتھوں سے لے کر، اس آدمی کو پیسے ادا کیے۔ غنایہ دل ہی دل میں مسکرائی۔ اب وہ یقینا پھول اسے پہنانے والا تھا۔ شیشہ دوبارہ چڑھا کر وہ غنایہ کی جانب مڑا۔
"اس بار تو منع نہیں کرو گی؟۔" پیشانی پر ہلکے ہلکے امید کے بل تھے۔ وہ خاموش رہی مگر پھر مسکرادی۔ دھیرے سے کلائی اس کے آگے کرتے ہوئے اس نے ساویز کے تاثرات دیکھے۔ چہرے پر تبسم پھیل گیا۔
آہستگی سے اس کی دونوں کلائیوں میں پھول پہناتے ہوئے وہ اب بے حد محبت سے اسے تک رہا تھا۔
"اس کی خوشبو کتنی اچھی ہے۔" پھولوں کو چہرے کے نزدیک کر کے وہ انہیں سونگھتے ہوئے بولی۔
"بلکل تمہاری جیسی ہے۔۔ خوبصورت!۔" گاڑی آگے بڑھنے لگی جبکہ غنایہ اس کے جملے پر ٹھہر گئی۔ ابھی گاڑی اس نے موڑی ہی تھی کہ کسی گاڑی نے اسے پوری قوت سے پیچھے کی جانب ہٹ کیا۔ غنایہ کا سر ڈیش بورڈ پر لگتا اگر ساویز تیزی سے ڈیش بورڈ پر ہاتھ نہ رکھتا۔ البتہ ساویز کا سر اسٹیئرنگ پر لگا تھا مگر اچھی بات یہ تھی کہ وہ زخمی نہیں ہوا تھا۔ اس نے تیزی سے پلٹ کر پیچھے گاڑی میں دیکھا۔ وہی دو لوگ اور وہی خباثت سے مسکراتے چہرے۔۔ ساویز نے دانت پیس کر دونوں کو باری باری دیکھا۔ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اس نے تیزی سے آگے بڑھائی۔
"یہ کیا ہوا تھا؟؟۔" غنایہ کے حواس بوکھلائے۔
"کچھ نہیں بس ایک چھوٹا سا ایکسیڈنٹ تھا۔" وہ رک نہیں سکتا تھا۔
"آپ گاڑی اتنی تیز کیوں چلا رہے ہیں ساویز۔۔" وہ اس قدر گھبرا گئی تھی کہ ساویز کے بازو کی جانب سے کوٹ مٹھی میں بھینچ لیا تھا۔ ساویز نے بیک مرر سے پیچھے دیکھا جہاں وہ گاڑیاں اوجھل ہوچکی تھیں۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔" آنکھیں نم ہونے میں ذرا وقت نہیں لگا تھا۔ دل میں خوف پھیلنے لگا۔
"اس میں ڈرنے والی کوئی بات نہیں۔۔ تم اکیلی نہیں ہو۔ تمہارا شوہر تمہارے ساتھ ہے۔۔" گاڑی سیدھا گھر کے سامنے رکی تھی۔ اس کی جانب کا دروازہ کھولنے بعد وہ گاڑی کے پیچھے کی طرف آیا اور حالت دیکھنے لگا۔ شکر تھا کہ وہ زیادہ خراب نہیں ہوئی تھی۔
"تم ٹھیک ہو؟۔" وہ غنایہ سے مخاطب تھا۔ جس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"آپ اب بھی آفس جائیں گے؟۔" اس نے سہم کر پوچھا۔
"یہ ایک چھوٹا سا ایکسیڈنٹ تھا غنایہ۔ جانے کون لوگ تھے۔ بہرحال تم اندر جاؤ اور آرام کرو۔ ہمیں رات میں امتحانوں کی تیاری بھی کرنی ہے۔" اس واقعے کو یکثر بھلاتے ہوئے وہ زبردستی مسکرایا۔
"آپ ٹھیک ہیں؟۔" اسے تشویش ہوئی۔
"تمہاری یہ فکرمندی میرے لیے خوشی کا باعٹ ہے۔" وہ اس کے لیے پریشان ہوئی تھی یہ عجیب اور نیا احساس تھا۔ غنایہ اس کے یوں کہنے پر دھیما سا مسکرادی۔
"مگر میری بات کا جواب؟۔"
"میں ٹھیک ہوں۔" یہ کہتے وہ اپنے سر درد کی تکلیف کو بھول چکا تھا۔ اسٹیئرنگ پر سر بہت مضبوطی سے لگا تھا جس کی وجہ سے اب اس کا سر دکھ رہا تھا۔
"تم اندر جاؤ کیونکہ مجھے میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے۔ آج باریال نے کھانا بنایا ہے۔ تمہیں یقیناً اچھا لگے گا۔" ارد گرد دیکھتا ہوا وہ اسے اندر جانے کی تاکید کرنے لگا۔ اسے خدا حافظ کہتی وہ اندر بڑھ گئی جبکہ ساویز چوکیدار کے پاس چلا آیا۔
"وجاہت کے آدمی پھر آئے تھے۔ میں آفس جا رہا ہوں آپ گھر کا خیال رکھیے گا۔" فکرمندی سے کہتا ہوا وہ گاڑی میں بیٹھنے بڑھا۔ اب بیوی کا ساتھ ہے۔۔ پہلے وہ ان معاملوں میں بے فکر تھا مگر اب غنایہ کا اس کی زندگی میں ہونا، اس کی فکر بڑھا چکا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے لگتا ہے کہ ہمیں باس کو بتا دینا چاہئیے کہ جن کے ساتھ یہ کانٹریکٹ سائن ہونے چلا ہے، وہ دراصل کیسے لوگ ہیں۔" رابعہ کی آواز پر وہ چونکا۔ بات سنتے ہوئے اس نے میز سے کافی کا مگ اٹھایا۔ اس موضوع پر بات کرنے کا نجانے کیوں دل نہ کیا۔ خاموشی ہی بہتر تھی۔
"جن کلائنٹ کے ساتھ ہفتے کو میٹنگ تھی، ان کا کیا ہوا؟۔" اس کی بات کا جواب دیے بغیر اس نے نیلی فائل کھولی اور پروگریس دیکھنے لگا۔
"وہ ہماری دی گئی ڈیل سے خوش ہیں۔ ان چار پانچ سالوں میں کمپنی کہاں سے کہاں چکی گئی۔۔" وہ خوش تھی جبکہ میرویس محض مسکرا کر رہ گیا تھا۔ "ملک کمپنی ہم سے اب بھی بہت پیچھے ہے! تمہیں لگتا ہے ہمیں ان کے ساتھ کانٹریکٹ کرنا بھی چاہئیے؟ یہ گھاٹے کا سودا ہوگا۔"
"میں یہ کانٹریکٹ نہیں چاہتا۔" آج کی بحث کے بعد میرویس کو غصہ تھا۔
"میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ کیوں نہ باس کو بتایا جائے؟۔"
"ہاں۔." اس نے سرسری جواب دیا۔
"ملک کمپنی تمہارے لیے اہم ہے؟۔" رابعہ ذو معنی لہجے میں کہتی ہوئی اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ وہ ٹھٹھکا۔
"کیا مطلب؟۔" یہ سوال کچھ عجیب تھا۔
"سوال سادہ ہے میرویس! ملک کمپنی اہم یا ان کی ایک خوبصورت سی امپلائی؟۔" لبوں پر شریر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میرویس نے لب بھینچ کر اسے دیکھا اور کندھے اچکا لیے۔
" تمہارا سوال اب بھی میری سمجھ سے پرے ہے رابعہ!۔" سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی وہ کیسے معصوم بن رہا تھا۔
"تم چھپا سکتے ہو مگر تمہارے انداز نہیں! اگر میری جگہ کوئی بھی شخص تمہارے ساتھ ہفتے کو جاتا تو وہ بھی یہی سمجھتا جو میں ابھی سمجھ رہی ہوں۔" چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ سب جانتی ہے۔
"مجھے اس پر غصہ ہے!۔" میرویس بول پڑا۔ پیشانی پر گہرے بل پھیل گئے۔
"اور وہ تمہیں پسند ہے!۔" رابعہ نے گویا جملہ مکمل کیا۔
"مجھے بس ابھی غصہ ہے!۔" میز پر مکا بنا کر مارتے ہوئے اس نے کرسی کی پشت سے کمر ٹکائی۔
"تمہیں واقعی اس پر غصہ ہے؟۔"
اس سوال پر وہ پہلی بار ٹھہرا۔۔ رابعہ کو دیکھا اور سوچ میں پڑگیا۔
"پتا نہیں۔۔ شاید نہیں!۔" ایک یہی جواب نکلتا تھا۔ لب بھینچ کر اس نے آنکھیں موند لیں۔ "مجھے اس پر غصہ نہیں آتا۔۔ مگر اس کا یوں کہنا میرے لیے تکلیف کے باعث بنا ہے۔"
"اس نے کیا کہا میرویس؟۔"
"اس نے کہا کہ میں اس کی جاسوسی کرتا ہوں۔۔ مگر میں ایسا نہیں کرتا رابعہ! اس کے کولیگ رافع نے جو اس کے ساتھ ریسٹورینٹ میں کیا، اس کے بعد سے بس میں تھوڑا ڈسٹرب سا ہوں۔۔ اور چاہتا ہوں کہ اسے آئیندہ یہ سب نہ سہنا پڑے۔ کیا یہ غلط ہے؟۔" رابعہ کو یہ سب بتانے کی بھی ایک وجہ تھی۔ وہ سلجھی ہوئی سمجھدار لڑکی تھی اور میرویس کو اس پر طرح سے اعتبار تھا۔
"تمہیں وہ اچھی لگتی ہے؟۔" اس نے سوال پر سوال کیا۔ میرویس کی خاموشی رابعہ کو سب سمجھا گئی۔
"پانچ سال گزر گئے ہیں اس بات کو۔۔"
"مگر تمہیں اب بھی وہ پسند ہے!۔"
"تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو؟۔"
"تمہیں یاد نہیں دو سال قبل، آفس پارٹی میں جب پورا اسٹاف اپنے ہم سفر کے ساتھ آیا تھا تو اس پارٹی میں صرف میں اور تم ہی اکیلے تھے! اور تب میں نے تم سے پوچھا تھا کہ تم شادی کب کرنے والے ہو! تمہیں اپنا جواب یاد ہوگا۔۔ 'میرویس کے دل کا دروازہ بار بار کھلا نہیں کرتا۔۔ جو عرصے سے قید ہے، اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔' میں جانتی ہوں تم نے ابھی تک اپنی پسند نہیں بدلی!۔" رابعہ کے چہرے پر تبسم پھیلا تھا جبکہ میرویس بری طرح چونکا اٹھا۔
"دو سال۔۔۔ تمہیں اب بھی وہ بات یاد ہے!۔" یہ حیرانی کی بات واقع ہوئی تھی۔
"مجھے یاد ہے میرویس۔۔ اور مجھے اس لیے بھی یاد ہے کیونکہ میں نے وہاں پر کھڑے ہو کر اس لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔"
میرویس نے لب بھینچے اور مسکرا دیا۔ وقت بھی بیت گیا مگر انداز ویسے ہی رہے۔
"کیا لڑکی ہو تم رابعہ!۔"
"میں بھی یہی سوچتی ہوں۔" وہ کھلکھلا دی۔ "باس کل آئیں گے اور ہمیں ان سے کانٹریکٹ کے متعلق بات کرنی ہے۔ یاد رکھنا۔" وہ فائل سمیٹتے ہوئے بولی جبکہ میرویس کی سوئی کسی کے ذکر پر ٹھہر گئی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ گھبرائی سی گیسٹ روم کے آگے سے گزر کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہی تھی جب گیسٹ روم کے کمرے سے باہر آتے باریال کی اس سے ٹکر ہوتے ہوتے بچی۔ وہ دونوں فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوئے۔
"کہاں بھاگی جا رہی ہیں غنایہ باجی؟۔" ہاتھ میں پکڑی کورس کی کتاب چہرے سے ہٹاتا ہوا وہ کچھ شریر لہجے میں بولا۔ اس نے غنایہ کے ہاتھ میں سفید اور گلابی رنگ کے گجرے دیکھے تو مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ "ساویز بھائی کی جانب سے دیے گئے یہ پھول واقعی خوبصورت ہیں!۔"
"ساویز مجھے گھر چھوڑ رہے تھے جب کسی نے گاڑی کو بہت زور سے ہٹ کیا۔" اس کی گھبراہٹ محسوس کرتا ہوا وہ اس کی بات مکمل سننے لگا۔ "اب وہ گھر آنے کے بجائے دوبارہ آفس چلے گئے۔ مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے۔"
ساویز کے لیے فکرمندی فطری تھی۔ باریال چوکنا ہوا۔
"گاڑی نے ہٹ کیا؟۔" وہ کچھ کچھ سمجھ رہا تھا۔
"ہاں۔۔ مگر ساویز نے گاڑی روک کر اس کی خبر نہیں لی۔ بلکہ رفتار تیز کرتے ہوئے مجھے گھر چھوڑ دیا۔" غنایہ کا یہ کہنا باریال کے لیے کافی تھا۔ بات کی تہہ تک پہنچ کر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
" انہیں کچھ نہیں ہوگا ان شاءاللہ۔ آپ کچھ دیر آرام کریں اور پھر انہیں کال کر کے خیریت معلوم کر لے گا۔" اسے تسلی دیتا ہوا وہ دوبارہ اپنی کتاب چہرے کے آگے کرتا، اندر بڑھ گیا۔ غنایہ کو کچھ حیرت ہوئی۔ اس کا یوں عام سے لہجے میں کہہ کر کمرے میں چلے جانا کچھ مشکوک سا تھا۔ وہ خیال کو جھٹکتے ہوئی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
بستر پر لیٹتے ہوئے وہ گہری سوچوں میں غرق تھا۔ بھوک ہونے کے باوجود بھی کچھ کھانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔
"ہمارے درمیان کچھ نہیں ہے میرویس! کون ہو تم میرے؟ محض ایک سرسری سے دوست۔۔۔" اس کے الفاظ یاد آئے تو دل کی تکلیف بڑھ گئی۔ موبائل کھول کر اس نے پانچ سال پرانی عشنا کی وہ تصویر نکالی جسے دیکھ کر آج بھی وہ ٹھہر جایا کرتا تھا۔ مسکراتا چہرہ اور پرکشش نظریں۔۔ اسے یاد نہیں وہ کب اس کی تصویر دیکھتے دیکھتے نیند کی وادی میں اتر گیا۔۔۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ آج اس نے جوتے بھی نہیں اتارے تھے۔۔ کوٹ صوفے پر رکھا تھا جبکہ گھڑی اب بھی کلائی میں بندھی تھی۔ نجانے اس سے غلطی کس موڑ پر ہوئی تھی۔۔ کہ اس کی سزا وہ اب بھی سہہ رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"یہ سب اتنا مشکل تو نہیں!۔" اس کی فائل پر نگاہ دوڑاتا ہوا وہ صفحے پلٹنے لگا۔
"یہ مشکل ہے ساویز۔۔" دونوں ہی بڑے صوفے پر بیٹھے کتابوں کا معائنہ کر رہے تھے۔ "اچھا اب مجھے پڑھنے دیں۔" اس کی ہاتھ سے فائل لیتی غنایہ، بال پوائنٹ اٹھا کر فائل پر لکھنے لگی۔
صوفے کی پشت پر بازو رکھتا ہوا وہ اسے محبت سے تک رہا تھا۔ کیچر ہونے کے باوجود بھی زلفیں کھلی ہوئی تھیں۔ لمبے بال کندھے سے آگے ہوکر نیچے لہرانے لگے۔
"بال کھول کر کون پڑھتا ہے؟۔" اسے چھیڑنے کا دل چاہا، تو بول پڑا۔ غنایہ نے بھوری آنکھیں اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھا۔
"کیچر لگایا ہوا ہے۔" اس کی شریر مسکراہٹ پر ہونٹ سکیڑ کر جواب دیا۔
"مجھے نہیں لگتا کہ یہ کیچر کوئی کام کر رہا ہوگا۔" کیا قیامت تھا اس کی آنکھوں میں دیکھنا۔
""میں زیادہ سختی سے بال نہیں بناتی۔۔ سر دکھنے لگتا ہے۔"
"اور یہ زلفیں۔۔" اس کی لٹوں کو چھوتے ہوئے وہ دھیرے سے بولا۔
"کچھ نہیں کرتیں یہ زلفیں۔۔" اس نے بھی جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔ ایک بار پھر سے وہ کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئی تھی۔ گھڑی رات کے بارہ بجا رہی تھی مگر وہ دونوں اب تک جاگے ہوئے تھے۔
پورے پانچ منٹ بعد اس نے فائل سے نگاہ اٹھا کر ساویز کو دیکھا جس کی نظریں اسے ہی تک رہی تھی۔ دل میں ایک عجیب سا احساس پیدا ہوا۔
"جانتی ہو کتنا اچھا محسوس ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ جسے میں ابھی اتنے وثوق سے دیکھ رہا ہوں، وہ اب میری بیوی ہے۔۔ یعنی میری ہے!۔" اس کی باتیں غنایہ کا تسلسل توڑنے لگیں۔ آنکھوں کے آگے آتی زلف کو ساویز نے دھیرے سے کان کے پیچھے کیا۔
"آپ ایسے دیکھیں گے تو میں پڑھ نہیں پاؤں گی ساویز۔۔" الفاظ بمشکل ادا ہوئے۔
"میں تو روز تمہیں ایسے ہی دیکھتا ہوں۔" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"مگر ابھی مت دیکھیں۔" خفا خفا سا لہجہ۔۔
"تمہیں اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع ذرا کم نصیب ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے ذرا بغور دیکھنے دو۔"اس کی بات پر وہ ناچاہتے ہوئے ہنس پڑی۔
"آپ نے کہا تھا آپ مجھے پڑھتے ہوئے بلکل تنگ نہیں کریں گے مگر ایک گھنٹے سے میرے پاس بیٹھ کر مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ ایسے میں کیسے پڑھوں گی ساویز؟۔" مسکراہٹ کی جگہ اب ہونٹ سکیڑے ہوئے تھے۔ ماتھے پر ہلکے ہلکے بل نمودار تھے جسے دیکھ کر ساویز بے اختیار مسکرایا تھا۔
"ایک گھنٹے سے تمہارے پاس بیٹھا ہوں، مگر ایک کام بھی تم نے مجھے نہیں دیا۔" کالر والی شرٹ کا پہلا بٹن کھلا ہوا تھا۔ آستین کے کف فولڈ ہو کر کہنیوں تک چڑھے ہوئے تھے۔ غنایہ نے اس کے جبڑے کی ہڈی نمایاں ہوکر غائب ہوتے دیکھی۔
"میں ابھی یہ والا ٹاپک مکمل کرلوں، پھر آپ کو دوسرا ٹاپک پڑھنے کے لیے دوں گی۔ مجھے وہ ذرا سمجھ نہیں آیا۔ آپ سمجھا دیں گے نا؟۔" دونوں پاؤں صوفے کے اوپر، سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔
"ہاں مگر تب تک یوں بیٹھا رہوں گا تو تھک جاؤں گا۔ آفس میں بھی پورا دن کرسی پر بیٹھ کر گزارا ہے۔" پیچھے گدی پر ہاتھ رکھ وہ کمر سیدھی کرتا ہوا بولا۔ پیشانی پر تھکاوٹ کے آثار تھے۔ غنایہ کو اس کی فکر تھی۔
"آپ بستر پر لیٹ جائیں۔ میرا یہ کام ہو جائے گا تو آپ کو آواز دے دوں گی۔" اسے احساس ہوا۔ صرف اس کے لیے ہی تو وہ اپنی نیند قربان کیے، ساتھ بیٹھا تھا۔
"مگر میں تو صوفے پر سوتا ہوں؟۔" مسکراہٹ ایک دم شریر ہوئی۔ وہ ابھی کچھ کہتی ہی کہ وہ گھوم کر اپنا سر اس کی گود میں رکھتے ہوئے لیٹ گیا۔ غنایہ ہڑبڑاتے ہوئے ایک دم سرخ ہوئی۔
"مم۔میں بستر پر بیٹھ جاتی ہوں۔" تیزی سے اٹھنا چاہا مگر اس کی دونوں کلائیاں، گود میں سر رکھ کر لیٹے ساویز نے پکڑ لی تھیں۔
"بیٹھی رہو یہیں پر۔۔"
غنایہ کو گویا چپ لگ گئی۔ وہ حیرت سے ہونق بیٹھی اس کا چہرہ دیکھنے لگی جو اب اپنے موبائل پر آئی نوٹیفکیشنز چیک کر رہا تھا۔
"تمہیں کیوں خاموشی لگ گئی؟ اپنا پڑھ سکتی ہو! باخدا اب تنگ نہیں کروں گا۔" نگاہ اوپر کرتے ہوئے اس نے غنایہ کو دیکھا جس کا چہرہ حیا کے باعث سرخ ہو رہا تھا۔ اس کی انگھوٹی والے ہاتھوں پر نگاہ پڑی تو اس نے دھیرے سے اس کی ہتھیلی پکڑ کر اپنے نزدیک کی۔ "یہ انگھوٹی تم پر بہت اچھی لگ رہی ہے غنایہ۔۔"
"یہ ایک بے حد عام سی انگھوٹی ہے ساویز۔۔" وہ جھینپ سے گئی۔ "کیا آپ نے کبھی کسی لڑکی کو انگھوٹی پہنے نہیں دیکھا؟۔"
"اتنے نزدیک سے نہیں دیکھا۔۔" مسکراہٹ گہری ہوئی۔ جملے کی تصحیح کرتا ہوا وہ اس کا چہرہ تکنے لگا۔ لب کاٹتے ہوئے وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
"کسی کو بھی نہیں؟۔" اسے حیرت ہوئی۔
"کبھی ضرورت نہیں پڑی اور نہ کسی کو اہم سمجھا۔۔" اس کی انگھوٹی کو چھوتے ہوئے، محبت میں دیوانہ بولا۔
"اور آپ کی امی؟۔" اس نے یکدم پوچھا۔
وہ افسوس سے مسکرایا۔
"میں انہیں مزید دیکھ کر اپنا دل بھرنا چاہتا تھا مگر میری خواہش ادھوری ہی رہ گئی۔ خدا نے انہیں بلا لیا۔"
غنایہ کو اس کے لیے بے حد برا لگ رہا تھا۔
"ان کی یاد آتی ہوگی۔" پنکھے کی تیز ہوا کے باعث، ساویز کے بال آنکھوں تک آرہے تھے۔
"ماں ہے۔۔ یاد تو آتی ہی ہے۔ میں چار سال کا تھا اور امی مجھے روز پارک لے کر جاتی تھیں۔ جہاں باپ کا ہونا ضروری ہوتا ہے وہاں میری ماں، میرے ساتھ رہی۔"
"اور بابا؟۔"
"بابا اکثر بزنس ٹرپ پر ہی ہوتے تھے۔ کبھی خاص توجہ نہیں ملی اور نہ میری ماں نے یہ کمی مجھے محسوس ہونے دی۔ وہ چلی گئیں تو خیال آیا کہ میرا ایک باپ بھی ہے۔۔ بابا نے وقتی طور پر بزنس ٹرپ میری وجہ سے کم کردیے۔ میں ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا، مگر وہ وقت کبھی نہیں آیا۔ انہیں شاید دلچسپی نہیں تھی۔۔ گویا میں ان کے لیے ایک زنجیر کی مانند تھا جس کی وجہ سے بابا پاکستان میں ٹھہرے تھے۔ وہ امی کی زندگی میں انہیں چھوڑ کر ہی باہر چلے جاتے اگر میں نہ ہوتا۔ میں نے یہ وقت دوستوں میں گزارا ہے غنایہ۔۔ انیس سال کا ہونے والا تھا جب بابا نے کہا کہ وہ اب لمبے وقت کے لیے باہر جا رہے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان سے گہری محبت نہیں تھی، مگر ان کے پاس ہونے کا احساس تھا۔۔ خوب رویا اور کھانے پینے کا بائیکاٹ کردیا۔ بابا نے مجھے تسلی دی اور کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ جس دن انیس سال کا ہوا اسی دن بابا چلے گئے۔ مجھے لگا وہ میرے لیے کوئی زبردست سا سرپرائز پلان کر رہے ہوں گے کیونکہ پچھلے ایک مہینے سے وہ مجھے زیادہ سے زیادہ وقت دے رہے تھے۔ ان کا جانا سرپرائز ہی تھا۔۔ مگر زبردست نہیں۔۔" وہ مسکرایا اور پھر زور سے ہنس پڑا۔ اس ساری بات میں اگر کسی کی آنکھیں نم ہوئیں تو وہ غنایہ تھی۔ اسے حیرت تھی۔۔ بے یقینی تھی کہ اس سب کے باوجود ساویز نے خود کو سنبھالا۔ وہ کبھی خود کو اپنے ماں باپ کے بغیر سوچ نہیں سکتی تھی۔
"مگر ایک بات کہوں غنایہ؟ میری بات مانو گی؟۔" نگاہ اوپر کرتے ہوئے اس نے غنایہ کو دیکھا جو نظریں جھکائے اس کا چہرہ ہی تک رہی تھی۔
"جی میں مانوں گی۔" اس نے تیزی سے ہامی بھری۔
"میرے باپ کو برا مت سمجھنا۔۔ اور نہ انہیں کبھی برا کہنا۔۔ وہ میرا باپ ہے۔۔ جیسا بھی ہے مگر میرا ہے۔" بھوری آنکھیں، بھوری آنکھوں سے ٹکرائی تھیں۔ غنایہ کی چمکتی آنکھوں سے مسکرائی۔
"میں ایسا کبھی نہیں کہوں گی۔"
"تم البم دیکھنا چاہو گی؟ کبھی موقع ملا تو ضرور دکھاؤں گا۔"
"کل؟۔" اس کی ہلکی ہلکی شیو غنایہ کو بہت بھلی معلوم ہوئی۔
"لگتا ہے تمہارا پڑھنے کا ذرا دل نہیں!۔" وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"آپ نے مجھے باتوں میں لگایا ساویز!۔" وہ گھور کر الزام نہ سہتی ہوئی بولی۔
"تم مجھے اپنے دل کے قریب محسوس ہوتی ہو۔ دل چاہتا ہے دیکھتا ہی رہوں!۔" اس کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر وہ خوابی کیفیت میں کہنے لگا۔ غنایہ حیا کے مارے آنکھیں موند گئی۔
"مجھے پڑھنے دیں نا۔" یہ شخص اسے کبھی پڑھنے نہیں دے سکتا تھا، اتنا تو وہ جان ہی چکی تھی۔ "آئیندہ سے میں باہر ٹیرس کے جھولے پر بیٹھ کر پڑھا کروں گی۔" گویا یہ ایک دھمکی تھی جو واقعی ساویز پر اثر کر چکی تھی۔
"میں اب واقعی کچھ نہیں کر رہا۔۔ مگر میں یوں فارغ بیٹھ کر کیا کروں گا؟۔" حد درجہ معصوم لہجہ کہ غنایہ کا دل چاہا غصہ کرنے کے بجائے زور سے ہنس دے۔
"یہ رہے دوسرے ٹاپک کے نوٹس! اسے سمجھ لیں، تاکہ مجھے تھوڑی دیر بعد سمجھا سکیں۔" اسے جلدی سے نوٹس دیتے ہوئے، کام میں الجھانے لگی۔
صفحے الٹ پلٹ کر دیکھتا ساویز نوٹس پڑھنے لگا۔ غنایہ کو گویا تسلی ہوئی۔ ایک بار پھر فائل اپنے چہرے کے آگے کرتی ہوئی وہ یاد کی ہوئی تحریر دوبارہ دہرانے لگی۔ ماحول میں اب خاموشی کا عالم تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسے ہلکے خراٹوں کی آواز آئی۔ آواز محسوس کرتے ہوئے اس نے نگاہوں سے فائلز ہٹائی اور جھٹ سے ساویز کو دیکھا جس کے چہرے پر اس کے وہ نوٹس رکھے تھے جو غنایہ نے دیے تھے۔ وہ نوٹس اپنے چہرے پر رکھ کر سوچکا تھا۔ وہ بنا آواز کے ہنس پڑی۔ دھیرے سے ہاتھ اس کی پیشانی پر پھیرا اور چہرے سے نوٹس ہٹا کر اسے بغور دیکھنے لگی۔ ساویز کے شاید علم میں بھی نہیں ہوگا کہ غنایہ کبھی اسے اشتیاق بھرے لہجے میں دیکھے گی۔ صبح کا جاگا بلآخر تھک کر سو گیا تھا۔ ٹھنڈ محسوس کرتے ہوئے اس نے وہیں رکھی چادر اسے اوڑھائی۔ ابھی کافی کچھ پڑھنا باقی تھا اس لیے اس نے وہی بیٹھنے کا ارادہ کیا۔۔ شاید یہی بہتر تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم بہت خوبصورت ہو۔۔" گانے کے تیز شور کے باوجود اسے بھاری آواز سنائی دی تھی۔
"میں جانتی ہوں! تم وہ بات بتاؤ جس کا مجھے علم نہ ہو۔" آئبرو آچکا کر ایک ادا سے کہا گیا۔ ہاتھ میں موجود جلتی سگریٹ لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے شیشے کا گلاس اٹھایا۔
"کیا ہو اگر میں تم سے کہوں کہ مجھے تم چاہئیے ہو؟۔" اس کی گھمبیر آواز پر کائنہ نے نگاہ اٹھائی۔ ہاں بلاشبہ وہ ایک ہینڈسم اور پرکشش مرد تھا۔۔ مگر اس کی پسند نہیں تھا۔
"مگر مجھے تم نہیں چاہئیے ہو۔۔" کیا انداز تھا، غرور تھا۔۔ اس شخص کی مسکراہٹ سمٹی۔ "مجھے جو شخص چاہئیے، اسے کیسے پانا ہے میں جانتی ہوں۔" ساویز کا چہرہ خیالوں میں ابھرا تھا اور اس نے برابر بیٹھی ساشا کو دیکھا۔
"اور تمہارا پسندیدہ شخص تمہیں حاصل کرنے کی خواہش نہیں رکھتا۔" ساشا ہنس کر گویا اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولی۔ کائنی کا چہرہ سرخ ہوا۔
"ساویز خانزادہ صرف کائنہ سلطان کا ہے اور اسی کا رہے گا۔" دانت پیس کر الفاظ ادا کیے تھے۔ "وجاہت نے مجھ سے پوچھا ہے کہ میں کس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔ اور میں نے نام بتادیا۔ جانتی ہو پہلے وہ کتنا حیران ہوا تھا؟ مگر پھر وہ مسکرا دیا کیونکہ ساویز اس کا بہترین اور گہرا دوست ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کہ وہ اپنی بہن کی شادی، اپنے دوست سے کروادے۔"
"اس کی آنکھوں میں کبھی تمہارے لیے محبت نہیں نظر آتی۔۔ بلکہ وہ تو کبھی تمہیں خود سے مخاطب بھی نہیں کرتا۔ بھلا تمہاری اس خوبصورتی کا کیا فائدہ جو تمہارے محبوب پر اثر نہ کرسکی۔"
"جانے خانزادہ چاہتا کیا ہے۔ اگر وہ خوبصورتی کا خواہشمند ہوتا تو اب تک میرا ہوچکا ہوتا۔ کاش کہ مجھے پتا چل جائے کہ اسے کیا چیز بھاتی ہے۔ بہرحال جو بھی ہو۔۔ مجھے اپنی محبت حاصل کرنا آتی ہے۔۔ وجاہت سلطان کی بہن ہوں! میں کچھ بھی کرسکتی ہوں!۔" آخری جملہ اس نے اپنی گہری دوست کی آنکھوں میں دیکھ کر ادا کیا تھا۔ "کچھ بھی۔۔" یہ بات نظر انداز کردینے والی نہیں تھی۔۔ ہاں وہ کچھ بھی کرسکتی تھی۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
صبح کے کوئی گیارہ بجے تھے جب ساویز کی آنکھ کھلی تھی۔ اسے یکدم ہی گزری رات کا خیال آیا تو کہنی کے بل تھوڑا اٹھ کر ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ اس کا سر اب بھی غنایہ کی گود میں تھا۔ وہ بری طرح چونک اٹھا۔ غنایہ اسی انداز میں بیٹھی، اپنا سر صوفے کے ہینڈل پر ٹکائے بے سدھ سو رہی تھی۔ اس موقع پر ساویز کا ششدر ہوجانا واجبی تھا۔ کیا وہ پوری رات اس کی وجہ یوں ہی بیٹھی رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں اسے اپنے اوپر چادر کا احساس ہوا۔ ساویز کو یاد تھا کہ سونے سے قبل وہ چادر اوڑھ کر نہیں سویا تھا۔ اس گھتی سلجھانا مشکل نہیں تھا۔۔ یہ غنایہ ہی ہوسکتی تھی۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے غنایہ کے معصوم چہرہ دیکھا۔
"غنایہ۔۔" اس کی دھیمی مگر بھاری آواز گونجی۔ غنایہ کو کوئی فرق نہ پڑا۔ اس نے ایک بار پھر آواز دی مگر ساتھ ہی اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔ ساویز کا لمس محسوس کرتی ہوئی وہ الجھتے ہوئے اٹھی۔ اس کا چہرہ دیکھا تو حیران ہوتی ارد گرد کا نظارہ کرنے لگی۔ ساویز کا دل چاہا ہنس پڑے۔۔ وہ بھی اس کی طرح گھنٹوں پرانا وقت یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ سیدھا ہوتے ہوئے اٹھ کر بیٹھا۔
"تم رات بھر یوں ہی سوتی رہی ہو؟۔" اس نے پہل کی
"نہیں میں پڑھ رہی تھی۔ یاد نہیں کب آنکھ لگ گئی۔" سو کر اٹھنے کی وجہ سے آواز کچھ بدلی بدلی سے تھی۔
"آئم سوری! میں تمہیں پڑھانے کے لیے رات ساتھ بیٹھا تھا۔۔ مگر نیند ایسی حاوی ہوئی کہ میں خود کو قابو نہ کرسکا۔" سر کجھاتے ہوئے وہ کچھ شرمندگی سے معافی مانگ رہا تھا۔ وہ اسے ٹکٹی باندھے تک رہی تھی۔
"آپ معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟۔"
"کل رات تمہارا کافی وقت ضائع کیا۔ خوامخواہ اپنا ماضی لے کر بیٹھ گیا اور پڑھائی کا وقت برباد کردیا۔" وہ نیند پوری کر کے اٹھا تھا جبکہ غنایہ کی آنکھوں میں اب بھی ڈھیروں نیند جمع تھی۔
"ایسا مت کہیں۔۔ مجھے وہ سب کچھ سن کر بہت اچھا لگا۔ میں آپ کے بارے میں پہلے سے جاننا چاہتی تھی۔" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ ہنس پڑا۔
"تم میرے بارے میں جاننا چاہتی تھی؟۔"
"ہاں۔۔ کیونکہ آپ نے کبھی اپنی امی کے بارے میں بتایا نہیں تھا اس لیے بس جاننے کا ایک تجسس تھا۔"
وہ جواباً دھیما سا مسکرا کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ یہ لڑکی اسے محبت کرنے کے لیے خود مجبور کرتی تھی۔
"رات کب سوئی؟۔"
"صبح سات بجے۔۔" اس نے اپنی کتابیں جمع کرتے ہوئے سمیٹا۔
"صبح؟۔" اسے لگا جیسے سننے میں غلطی ہوئی ہو۔
"ہاں میں نے چار ٹاپک یاد کر لیے ہیں۔۔ دوسرا ٹاپک آپ کے لیے چھوڑ دیا ہے تاکہ آپ مجھے پڑھا سکیں۔" وہ اب چادر تہہ کر رہی تھی۔ آنکھیں اب بھی ادھ کھلی تھیں۔
"تم نیند میں ہو غنایہ۔۔" اس نے غنایہ کے ہاتھ چادر پکڑی۔
"پانی آنکھوں پر ماروں گی تو ٹھیک ہوجاؤں گی۔ کلاس کا وقت تو نکل ہی گیا ہے۔ ناشتہ کر کے پھر پڑھنے بیٹھ جاتی ہوں۔" امتحانوں وقت زیادہ نہیں تھا اس لیے وہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہورہی تھی جب ساویز نے اس کا ہاتھ پکڑا کر اپنے قریب بٹھایا۔
"مجھے لگا تھا کہ تم اپنی نیند صرف چاند کے لیے ہی برباد کرتی ہوگی۔ میں نہیں چاہتا تم زبردستی خود کو جگا کر اپنی صحت خراب کرو۔ سوجاؤ غنایہ! میں ویسے بھی آفس جانے والا ہوں۔" اس کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے وہ بے حد نرمی سے بولا۔
"مگر۔۔" وہ تیزی سے کچھ کہتے رکی۔
"مگر کیا؟۔"
"مگر میں آپ کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہتی ہوں۔" نجانے یہ نئی اور دل خوش کردینے والی خواہش اس کے من میں کب جاگی تھی۔ ساویز نے خوشگوار حیرت سے اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔۔ جیسے بےیقین ہو۔۔ خود پر یا اس کے جملے پر۔۔ غنایہ نے نگاہ جھکا لی۔ وہ اس سے کیوں کہے کہ ساویز اب اس کے لیے اہم بنتا جا رہا ہے۔۔ وہ کیوں کہے کہ اب غنایہ اسے اجنبی لوگوں میں شمار نہیں کیا کرتی۔
"میرے ساتھ؟۔"
"ہاں۔" وہ ہنس دی۔
"تم مجھے بار بار اپنی باتوں سے چونکنے پر مجبور کر رہی ہو۔۔ اور اب تو مجھے لگنے لگا ہے جیسے یہ حقیقت سے دور ایک خواب ہو!۔" بھاری گھمبیر آواز غنایہ کے کانوں میں رس گھول گئی۔
"میرا بس دل چاہ رہا ہے کہ ہم ناشتہ ساتھ کریں۔"
"مجھے تو یاد بھی نہیں آخری بار ہم نے ساتھ ناشتہ کب کیا تھا۔" ساویز اٹھ کھڑا ہوا۔
"تو کیا آج ہم ناشتہ ساتھ کریں؟۔" اس کی آنکھیں چمکیں۔
"میں ایسا ہی چاہتا ہوں مگر۔۔" وہ لمحے بھر کو ٹھہرا۔ "تمہاری نیند پوری نہیں ہوئی اور مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ناشتے کے بعد تم سونے کے بجائے پھر پڑھنے بیٹھ جاؤ گی۔ اس لیے چاہتا ہوں کہ تم سو جاؤ غنایہ! ہم کل ناشتہ ساتھ کریں گے۔" اس کے ہاتھ کی پشت پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ قدرے محبت سے بولا۔ غنایہ کی مسکراہٹ دھیمی ہوئی۔
"کیا آپ واقعی ایسا چاہتے ہیں؟ اچھی بیویاں ایسی تو نہیں ہوتیں۔ آپ آفس کب جاتے ہیں مجھے اکثر پتا نہیں چلتا۔ ناشتہ کیا یا نہیں! کچھ علم ہی نہیں ہوتا۔ مگر میں اب آپ کا خیال رکھنا چاہتی ہوں ساویز۔" اس کے اندر یہ تبدیلی بہت الگ اور بے حد خوبصورت تھی۔ اب بھلا کون مان سکتا تھا کہ یہ وہی غنایہ ہے جو سب سے زیادہ اپنے شوہر سے خوف کھایا کرتی تھی۔ فرش پر کھڑے ہوتے ہوئے اس نے چپلوں میں پیر اڑسے۔
ساویز نے دونوں شانوں سے اسے تھام کر اپنے بے حد قریب کیا۔
"تم ایک اچھی بیوی ہو غنایہ! یہ جانتے ہوئے بھی میں کیوں بے حس ہوجاؤں کہ تمہارے امتحانات قریب ہیں اور تم تیاری میں مشغول ہو۔۔ پھر میں تم سے کیوں کہوں کہ میرے لیے اٹھو اور میرے آفس جانے تک جاگی رہو! اگر ایک اچھی بیوی ہونا ضروری ہے تو ایک اچھا شوہر بننا ضروری نہیں؟۔" وہ اسے چھوٹی لڑکی کی طرح محسوس ہوتی۔ جو کسی معصومیت سے اسے پکارا کرتی تھی۔۔ خیر وہ اس سے چھوٹی تو تھی ہی۔۔ آٹھ سال چھوٹی۔۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھتا تھا۔
"آپ بہت اچھے ہیں ساویز!۔" اسے یقین نہ آیا کہ ساویز اس کے نصیب کا حصہ ہے۔۔ اتنا خوبصورت حصہ۔۔
یکدم ہی اسے اپنے نصیب پر رشک ہونے لگا۔ سارے دکھوں، غموں کا ازالہ ہونے لگا۔ ہر نماز کے بعد دعا میں اس نے ہمیشہ اللہ سے اچھا نصیب مانگا تھا۔۔ اور اللہ نے اسے ساویز جیسے مرد سے نوازا جو اپنی عورت کی قدر کرنا جانتا تھا۔
اسے یاد تھا کہ نیند سے بھری آنکھوں پر آہستگی سے ہاتھ پھیر کر ساویز نے اسے بستر پر لٹایا تھا۔۔ اس کا یوں مسکرانا غنایہ کو یاد تھا۔ نجانے کب تک وہ بالوں پر ہاتھ پھیرتا رہا تھا، وہ محسوس کرتی رہی تھی۔۔ اور نیند کی وادیوں میں اترنے سے پہلے اس نے ایک سوال کیا تھا۔
"آپ نے کہا تھا کہ اپنے بابا کو شادی کا بتادیں گے۔ کیا آپ نے بتادیا؟۔" نجانے یہ سوال اس کے ذہن میں اچانک کیوں ابھرا تھا۔
"میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا غنایہ۔۔ اگر میں انہیں بتادوں تو شاید ایک قیامت آجائے۔" وہ ہنس کر گویا ہوا تھا۔ "مگر تم فکر مت کرو۔ سب ٹھیک ہوگا۔" یہ آخری جملہ تھا جو غنایہ نے سنا تھا۔ نیند حاوی ہونے لگی اور وہ اب مطمئن تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اس نے کہا وہ مینجر صرف میرا استعمال کر رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اسے ایسا کہنا چاہئیے تھا! اور جب تب دونوں کمپنیوں کے درمیان کانٹریکٹ سائن ہونے والا ہے۔ اتنا تو میں جان گئی ہو کہ اسے مینجر نہیں پسند۔۔" وہ کہتے ہوئے اپنے سسٹم کی جانب متوجہ ہوئی۔
"مینجر بھلا ایسا کیوں کریں گے۔ اگر انہوں نے کہا ہے تو لازمی رافع کو فارغ کرنا ہی ہوگا۔۔ لیکن اب تو رافع کہیں نہیں جانے والا۔ تم ہی نے تو کہا تھا کہ میرویس نے کانٹریکٹ کے لیے انکار کردیا ہے۔ پھر یقیناً وہ اب تک اپنے باس کو سب کچھ بتا چکا ہوگا۔" صوفیہ نے اپنی کافی کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔
"مجھے اس سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ یوں میرے ہی سامنے میرے اسٹاف کو برا کہے گا۔ ایک دفعہ یہ سب کچھ ہو جانے دو پھر میں اسے ثابت کر کے دکھاؤں گی مینجر اس کے کہے کے مطابق نہیں۔۔۔ ہاں وہ اپنی کمپنی کے لیے اچھا مینجر ہے مگر خود کو ہی بہترین سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔" آخری جملہ اس نے افسوس سے کہا تھا۔ صوفیہ نے کندھے اچکائے۔ وہ اب مزید اس بات کو ڈسکس نہیں کرنا چاہتی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تجھے دوست یاد نہیں آتا؟۔" اس کی آفس ٹیبل پر چابی رگڑتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
"ہیلو!۔" ساویز لیپ ٹاپ پر نگاہ ڈالتا ہوا فون کی جانب بڑھا۔ "میں نے نیلی فائل کے لیے کال کی ہے۔ جیسے ہی وہ مکمل ہوجائے، میرے پاس بجھوادیں۔" دوسری طرف کمپنی کا ایمپلائی تھا۔ میرویس گہری سانس خارج کرتا ہوا ساویز کو تکتا ہی رہ گیا۔
"تجھے دوست یاد نہیں آتا؟۔" اس بار کچھ دانت پیس کر پوچھا۔
"وہ نوٹ پیڈ پکڑانا۔" ساویز اسے اس بار پھر نظر انداز کر چکا تھا۔ میرویس نے اپنے جانب رکھا نوٹ پیڈ اس کی جانب تقریبا پھینکا تھا۔ پانچ منٹ مزید انتظار کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"ہاں تو تم کچھ کہہ رہے تھے۔" لیپ ٹاپ بند کر کے اس نے کھڑے ہوتے میرویس کو دیکھا۔
"میرا یار بدل گیا۔" میر نے بے حد افسوس سے اسے دیکھا۔ "بیوی نے کہا تھا کہ آفس میں کسی بات نہیں کرو گے؟۔"
ساویز کا قہقہہ گونجا۔
"نہیں یار۔۔ وہ بیچاری کیا کہے گی۔ تم کیوں اٹھ گئے؟ بیٹھ جاؤ!۔"
"آفس جانا ہے مجھے! آج باس آنے والے ہیں۔ میں نے سوچا تھا جم کی واپسی پر تم سے مل کر چلا جاؤں گا مگر تمہارے کام! یار واقعی بدل گیا ہے۔" جان کر افسوس سے کہتا وہ اپنی چابی اٹھاتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گیا۔ ساویز کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
"میں تم سے ملنے آؤں گا۔ میرا انتظار کرنا۔" کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔ میرویس نے اثبات میں سر ہلایا اور باہر نکل گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں خود اس سے بات کرتا اگر میرے اس کے ساتھ تعلقات اچھے ہوتے۔۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں کی ہی آپس میں نہیں بنتی۔ اس دن جو کچھ ہوا مجھے صرف اس کمپنی کے کانٹریکٹ کے خاطر اسے مخاطب کرنا پڑا۔۔ یاد نہیں ہے کیسے غصے میں ہمارے ایمپلائیز کے بارے میں کہا تھا؟۔" روم سے آتی آوازیں باہر کھڑی عشنا کو سننے پر مجبور کر گئیں۔ وہ جو اپنے لیے چائے بنانے آئی تھی، وہیں ٹھہر کر مزید سننے لگی۔ مینجر کی بات پر وہ ٹھٹھکی۔۔
"تو تمہیں کیا لگتا ہے؟ کنٹریکٹ ہوجائے گا؟۔" اسسٹنٹ کی آواز کانوں پر پڑی۔
"عشنا نے کوئی خاص جواب نہیں دیا۔ یہ کوئی چھوٹا کانٹریکٹ نہیں! اگر ہاتھ سے نکل گیا تو باس بہت خفا ہوں گے۔" یہ آخری بات تھی جو اس نے مینجر کی سنی تھی۔ بھرا ہوا مگ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے کیبن کی جانب بڑھ گئی۔ دماغ مسلسل کئی سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔ نجانے آگے کیا ہونے والا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
ڈوپٹہ درست کرتے ہوئے وہ کچن میں داخل ہوئی تھی جہاں باریال پہلے سے کھڑا تھا۔ چائے دو مگ میں نکالتا ہوا وہ ذرا ٹھہر کر مسکرایا۔
"یہ ایک کپ تمہارے لیے۔۔" وہ جب سے آیا تھا کوئی نہ کوئی کام اس کے کرنے سے پہلے کردیا کرتا تھا۔ غنایہ سوچتی ہی رہ گئی تھی کہ آخر وہ اس سے چاہتا کیا تھا۔
"میرے لیے کیوں؟۔"
"کیونکہ تمہیں چائے پینا اچھا لگتا ہے اور تم ناشتہ میں ضرور چائے لیتی ہو۔ میں ناشتہ بنانے آیا تو سوچا تمہارے لیے بھی بنادوں۔" پیچھے سے ایک پلیٹ اٹھا کر اس نے غنایہ کے قریب رکھی۔ غنایہ کو عجیب سی حیرت ہوئی۔ دو ابلے ہوئے انڈوں کے ساتھ چند بریڈ کے سلائس تھے۔
"مگر میرے لیے ناشتہ کیوں بنایا باریال بھائی!۔" اس نے ایک بار پھر پوچھا۔
"شاید اس لیے کیونکہ آج کل ہم دونوں ہی پڑھائی میں مصروف ہیں۔۔ اور ہم دونوں کو ہی وقت پر ناشتہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اچھے سے پڑھ سکیں۔" اس کے پاس کوئی جواب نہ بن سکا اس لیے یہی بول پڑا۔
"تھینک یو۔" وہ دھیما سا مسکرائی اور ٹرے تھام کر باہر چلی گئی۔ پیشانی پر بندھا کپڑا مزید ٹائٹ کرتا ہوا وہ ذرا سا مسکرایا تھا۔ اس کا یوں پہلی بار خود کی طرف دیکھ کر مسکرانا اسے اچھا لگا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے وقت دیکھتے ہوئے سنگھار میز کے آئینے میں خود کو دیکھا۔ ساویز آنے والا تھا اور وہ بلکل تیار کھڑی تھی۔ خوبصورت گلابی رنگ کی شرٹ پر ویسا ہی ڈوپٹہ اس پر اچھا لگ رہا تھا۔ اسے شوخ رنگ کبھی اتنے نہیں بھائے جتنے شادی کے بعد اچھے لگنے لگے تھے۔
"تم یہ جھمکے پہنو۔۔ یہ زیادہ بڑے بھی نہیں اور تم پر اچھے لگیں گے۔" ملازمہ خالہ اس کی بیوٹی باکس سے گولڈن جھمکیاں نکالتی ہوئی بولیں۔
"یہ سب بہت زیادہ نہیں ہوجائے گا خالہ؟ مطلب یہ سوٹ کافی نہیں؟ اور ہلکا پھلکا میک اپ تو کر ہی چکی ہوں۔" اس نے ایک بار پھر خود کو آئینے میں دیکھا۔ عجیب عجیب سے خیالات دماغ میں جاگنے لگے۔۔ کیا ہو اگر وہ ساویز کو پسند ہی نہ آئے؟ اس کے لیے یوں پہلی بار اتنا تیار ہوتے ہوئے وہ بہت شرم محسوس کر رہی تھی۔
"نہیں بیٹا۔ یہ سب تیاریاں شوہر کے لیے ہی تو ہوتی ہیں۔ اسے اچھا لگے گا۔" وہ ٹھیک کہتی تھیں۔ جھمکیاں بڑی نہیں تھی۔۔ بلکہ چھوٹی چھوٹی خوبصورت نگینوں والی یہ جھمکیاں اسے واقعی اچھی لگنے لگیں۔ ساویز کی گاڑی کا ہارن بجا ہی تھا کہ غنایہ کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ ایک عجیب سی شرم، جھجھک اور خوف سا پھیل گیا۔ ملازمہ خالہ نیچے چلی گئی تھیں اور وہ اپنے ڈولتے دل کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"کاش کہ میں گم ہو جاؤں۔" شرم کے مارے الفاظ پورے ادا نہ ہوسکے۔ انگلیاں مڑوڑتے ہوئے سنگھار کے آگے ہی کھڑی ہوگئی۔
"پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے جب ساویز کمرے میں داخل ہوا تھا۔ آنکھیں گویا پھیلی تھیں اور ہاتھ سے لیپ ٹاپ بیگ چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔
گہرے رنگ کے گلابی کپڑوں میں ملبوس وہ لڑکی اسے اپنے دل کے بے حد قریب محسوس ہوئی۔ دوسری جانب کھڑی غنایہ سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ نگاہ جھکا چکی تھی۔ دونوں کے درمیان خاموشی ہی پھیلی تھی۔ نہ ساویز بولا اور نہ غنایہ نے ہمت کی۔ وہ اسے تقریباً پھٹی آنکھوں سے سر تا پیر دیکھ رہا تھا۔ جب خاموشی لمبی ہونے لگی تو غنایہ نے ساویز کو دیکھا۔ کیا وہ اسے اچھی نہیں لگی تھی؟
"آج تم پہلے سے زیادہ میرے دل کے قریب محسوس ہو رہی ہو۔" کانوں کی جھمکیاں اس کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ یہ جملہ تھا کہ کوئی منتر۔۔ لبوں پر غنایہ کے مسکراہٹ پھیل گئی۔۔ خوبصورت سی شرمیلی سی۔۔
انہماک سے اسے دیکھتا ہوا وہ لیپ ٹاپ بیگ اور بازو میں لٹکا کوٹ وہیں رکھ کر اس کی جانب بڑھا۔ دل موہ لینے والی صورت اس کی توجہ کھینچ رہی تھی۔ اس کی جھمکیوں کو چھوتا ہوا وہ غنایہ کی بھوری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
"اگر آج دل بے قابو ہوگیا تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔۔" لبوں پر محبت بھری ایک خوبصورت مسکراہٹ قائم تھی۔ اس کا دل بے قابو ہونے سے پہلے غنایہ کی مسکراہٹ بے قابو ہوگئی۔ وہ حیا کے باعث نمودار ہونے والی رخسار کی سرخی کم کرنے کی کوشش کرنے لگی، مگر یہ سب جیسے ناممکن سا محسوس ہوا۔ اس کی حرکت نوٹ کرتا وہ زور سے ہنس دیا۔
"یہ تیاری میرے لیے ہے؟۔" لٹ اس کی آنکھوں سے دور کرتا ہوا وہ کان پیچھے کرنے لگا۔
"میں آپ کی ایک ہی بیوی ہوں۔" اس نے جواب دوسرے انداز میں جواب دینا چاہا تھا۔
"کیوں؟ تم سوکن لانا چاہ رہی ہو؟۔" لہجہ شریر ہوگیا۔ وہ لمبا چوڑا اس کی کلائی تھامے، نزدیک کھڑا تھا۔ بازوؤں کے ابھرے مسلز واضح محسوس ہو رہے تھے۔
"اللہ نہ کرے۔" وہ یکدم ہی بولی، مگر پھر احساس ہوا کہ وہ جلدی ہی بول گئی۔ ساویز کا قہقہہ گونجا تھا جب کہ وہ کھلکھلا دی تھی۔
"مجھے یہ سب خواب سا کیوں محسوس ہو رہا ہے غنایہ؟۔" اس کی تعریف وہ جتنا کرتا، کم تھا۔
اس کا انتظار، صبر رائیگاں نہیں گیا تھا۔ وہ جو چاہتا تھا اسے مل گیا تھا۔۔ ایک محبت اور فکر کرنے والی بیوی جو اب بھی اسے دیکھ کر اپنائیت سے مسکرا رہی تھی۔ ایک ایسی بیوی جسے دیکھ کر محبت کم نہیں ہوتی تھی۔۔ بلکہ مزید بڑھ جایا کرتی تھی۔
اگر وہ خود کو خوش قسمت لوگوں میں شامل کرتا تو شاید اپنا نام سے اونچا اور اور سب سے پہلے لکھتا۔
وہ آج بلا جھجھک اس کی کلائی تھامے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اور غنایہ نے ایک بار بھی اس سے نظریں نہیں چرائی تھیں۔۔ وہ بدک کر دور نہیں ہٹی تھی۔ خوف زدہ نگاہوں کی جگہ محبت نے لے لی تھی۔
اسی دم ساویز نے کرسی پر رکھے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ باہر نکالا تھا۔ کلائی نرمی سے تھام کر اپنی جانب کی اور گجرے کھول کر اس کی کلائی میں ڈالنے لگا۔ دل خوش کردینے والی مہک کمرے میں پھیل رہی تھی۔ گلاب اور چنبیلی کے گہرے بھاری گجرے، اس کا دل مٹھی میں جکڑ گئے۔ انہیں گھروں کے درمیان سے ساویز نے گلاب کا حصہ توڑا تھا۔۔ یہ ایک چھوٹا سا پھول تھا جسے اب وہ غنایہ کے کان کے پیچھے لگا رہا تھا۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔ یہ احساس پہلے سے زیادہ خوبصورت اور نیا تھا۔۔ ساویز ٹھیک کہتا تھا۔ یہ سب خواب کی مانند ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی نیند سے جاگ جائیں گے اور پھر نہ غنایہ ہوگی، اور نہ ساویز۔۔
"یہ سنگھار صرف آپ کے لیے ہے!۔" گویا محبت کا کلام پھونکا گیا ہو۔ وہ نہال ہوگیا۔
"میں ساری زندگی کا ساتھ چاہتا ہوں غنایہ۔" آواز دھیمی تھی۔۔ مگر بلا کی گھمبیر!
"میں ساری زندگی ساتھ رہوں گی ساویز۔" ایک مان تھا۔۔ احساس تھا۔۔ ایک یقین تھا۔۔
اتنے عرصے میں وہ جان چکی تھی کہ مضبوط سایہ دار دیوار کسے کہتے۔۔ صحیح معنوں میں حفاظت کسے کہتے ہیں۔۔ اسے فخر تھا اپنے باپ پر جس نے بہت سے مردوں میں اسے کے لیے ساویز کو ہی چنا۔۔
محبت سے دیکھتے ہوئے وہ ساویز کو اپنا اسیر کر رہی تھی۔ اس کی زندگی کی پہلی ایسی لڑکی جس پر وہ اب جان دیتا تھا۔ دونوں ہی قید تھے۔۔ ایک دوسرے کی محبت نے دونوں کے پیروں میں زنجیر ڈال دی تھی۔۔
جو دل کو اچھے لگتے ہوں انہیں زبردستی قید نہیں رکھتے۔۔ کہ جن کو آپ سے محبت ہوتی ہے، وہ خود ہی قید رہتے ہیں۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
موبائل پر آتی کال کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی تھی۔ کروٹ لیتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھا۔ غنایہ کہیں نہیں تھی ایک نگاہ صبح کے گیارہ بجاتی گھڑی پر ڈال کر اس نے بجتا موبائل اٹھایا۔
اسکرین پر نگاہ پڑی ہی تھی کہ آنکھیں حیرت سے ابل کر باہر نکلنے کو ہوئی۔ ایسے میں غنایہ کمرے میں داخل ہوئی۔ موبائل مسلسل بج رہا تھا مگر ساویز ششدر موبائل کو گھور رہا تھا۔
"آپ کال کیوں نہیں اٹھا رہے ساویز؟۔" وہ بھی کچھ حیران ہوئی۔
"بب۔بابا۔" ہکلاتے ہوئے الفاظ ادا ہوئے۔ وہ حیران ہونے کے بجائے مسکرا دی۔
"یہ تو اچھی بات ہے کہ ان کی اتنے وقتوں بعد خود کال آگئی۔ آپ کال پِک کریں ورنہ بند ہو جائے گی۔" نیلے لان کا سوٹ پہنی غنایہ فریش تھی۔ البتہ ساویز بکھرے بالوں اور نیند سے اڑا چہرہ لیے بیٹھا تھا۔
غنایہ جانتی نہیں تھی کہ کیا قیامت آنے والی ہے۔
گہری سانس خارج کرتے ہوئے ساویز نے کچھ سہم کر کال اٹھائی۔
"ہیلو۔۔" آواز نیند سے اٹھنے کی وجہ سے قدرے بھاری تھی۔
"الو کے پٹھے!!۔" دوسری جانب سے دھاڑ گونجی تھی اور ساویز نے موبائل کان سے دور کیا تھا۔
"کیا کہا انہوں نے؟۔" اسے یوں موبائل کان سے دور کرتے دیکھ کر سنگھار میز کی طرف کھڑی غنایہ نے جلدی سے پوچھا۔
"کہہ رہے ہیں 'میرے بچے'۔" لبوں پر زبردستی مسکراہٹ لائی گئی۔ اس نے دوبارہ موبائل کان سے لگایا۔
"تھینک یو بابا۔" کمبل خود پر سے ہٹاتے ہوئے بستر سے اتر کر فرش پر کھڑا ہوا۔
"تو نے شادی کرلی ہے؟؟ مجھے ابھی میرے اسسٹنٹ نے بتایا ہے۔" وہ غصے میں چیخ رہے تھے اور غنایہ حیرانی سے فون سے باہر آتی ان کی آواز سن رہی تھی۔
"بابا وہ۔۔۔" وہ ابھی مزید کچھ کہتا کہ آگے سے ان کی کان پھاڑ دینے والی آواز ابھری۔
"آیک لفظ مزید نہیں!۔" ان کی شخصیت کا ایک رعب تھا جو ساویز پر اب بھی قائم تھا۔ گویا اسے چپ لگ گئی۔ غنایہ اتنا تو جان چکی تھی کہ گفتگو خوشگوار نہیں۔۔
ساویز نے لب بھینچ کر ٹیرس کے کھلے دروازے کی جانب دیکھا۔ "میں آرہا ہوں پرسوں کی فلائٹ سے پاکستان! دیکھتا ہوں وہاں آکر تمہیں!۔" ان کی سنجیدہ آواز ساویز کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئی۔ اب یقیناً جو ہونے والا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا! بابا ہمیشہ غصے کے تیز رہے تھے۔۔ فون بیڈ پر پھینکتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر غنایہ کو دیکھنا چاہا۔۔ مگر وہ وہاں کہیں نہیں تھی جس کا مطلب تھا کہ وہ نیچے جا چکی۔ گہری سانس خارج کرتا ہوا وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا وہ چلا گیا؟۔" اندھیرے کمرے میں ملگجی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایک ہاتھ میں موجود سفید چھوٹے کپڑے سے دوسرے ہاتھ میں موجود پستول صاف کر رہا تھا۔
"نہیں! عادل کا کوئی فون نہیں آیا باس!۔" خرم نے ایک نگاہ فون پر ڈالی۔
"عادل سے کہنا ہمارا وہیں انتظار کرے۔" پیشانی پر ہلکے بل نمودار تھے اور ہری آنکھیں سنجیدگی کے باعث آدھی کھلی تھیں۔
"اس کے گھر میں ایک لڑکے کا اضافہ ہوا ہے۔" اس نے بتانا ضروری سمجھا۔
"باریال؟۔" ایک آئبرو اچکائی گئی۔
"ہاں شاید۔۔ عادل نے یہی نام بتایا تھا۔"
وجاہت کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تو بائیں گال کا ڈمپل گہرا ہوگیا۔
"وہ کوئی بڑی بات نہیں!۔"
"مگر ساویز کی بیوی کے علاؤہ چار لوگ ہیں باس! ایک بوڑھی عورت، ایک چھوٹا لڑکا، چوکیدار اور باریال!۔" وہ چاہتا تھا کہ وجاہت اس بارے میں سوچے اور آج جانے کا سلسلہ ملتوی کردے! اتنے سارے لوگوں کو قابو میں کرنا مشکل ہوگا۔
"وجاہت کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا۔" یکدم ہی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ خرم کی جانب اپنی چمکتی پستول اچھالی اور کرسی کی پشت سے کوٹ اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ آفس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب ساویز کی کال سے موبائل بج اٹھا۔ ایک نظر وقت دیکھتے ہوئے وہ کال اٹھانے بڑھا۔
"اسلام علیکم۔"
"وعلیکم اسلام! کیا ہم مل سکتے ہیں؟۔" وہ پریشانی سے گویا ہوا۔
"سب خیریت ہے؟۔" اس کا یوں ملنے کا کہنا یقینا کوئی ایمرجنسی لایا ہوگا۔
"یہ ابھی بتانے کا فائدہ نہیں۔۔ آدھے گھنٹے میں رایل ریسٹورینٹ پہنچ جانا۔ میں ناشتے کی میز پر جا رہا ہوں۔" اس نے تاکید کرتے ہوئے کال رکھی اور موبائل میں جیب میں ڈالتا ہوا نیچے بڑھ گیا۔
"تم آج یونیورسٹی نہیں جاؤ گی؟۔" غنایہ کچن میں تھی جب اس نے زینے اترتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"نہیں! میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ہفتہ گھر میں گزار کر امتحان کی تیاری کروں۔" کچن کی کے دروازے سے غنایہ نے سر نکال کر جواب دیا۔
اس کی آواز سن کر وہ مسکراتا ہوا اب مزید بہتر محسوس کرنے لگا۔ میز پر ناشتے کے لوازمات سجائے ہوئے تھے۔
"میز تو سجی ہوئی ہے مگر میز سجانے والی کہاں ہے؟۔" کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے کچن میں مڑ کر دیکھا۔ ساویز کی گھمبیر آواز گونجی۔ غنایہ دھیما سا مسکراتے ہوئے کچن سے باہر آئی۔
"آپ کافی پیتے ہیں یا چائے؟۔" اسے معلوم نہیں تھا اس لیے کچن کے دروازے پر کھڑے ہو کر پوچھنے لگی۔
"میں محبت کا جام پیتا ہوں۔" شریر سی مسکراہٹ لبوں کا حصہ بنی تھی۔ وہ اٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے میز کی جانب لے کر آیا اور اس کے لیے کرسی کھینچنے لگا۔
"محبت کا جام پینے سے محبت ہوجاتی ہے؟۔" اس کی ہلکی ہلکی شیو دیکھتے ہوئے کچھ مختلف انداز میں بولی۔
"مجھے تو تم سے ہوجاتی ہے محبت! اور جب میری جانب مسکرا کر دیکھتی ہو تو یہ مزید بڑھ جاتی ہے۔" بریڈ کا لقمہ توڑ کر اس نے غنایہ کے لبوں کے آگے کیا۔ وہ کچھ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔ مقصد سمجھنے پر حیا سی آنے لگی۔ ساویز نے بنھویں اچکائیں۔ غنایہ نے دھیما سا مسکرا کر اس کے ہاتھ سے ناشتے کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالا۔
"اب اتنا شرماؤ گی تو میں تمہیں یونہی دیکھتا رہوں گا۔" وہ جواباً ہنس کر ناشتہ شروع کر چکا تھا۔
"مجھے بہت شرم آتی ہے۔" اس بات پر وہ مزید شرم سے نگاہیں نیچی کر گئی۔
"چند ماہ میں یہ شرم بھی مٹ جائے گی جب تمہیں میری محبت اور اس کے اظہار کی عادت ہوجائے گی۔" اس کے آگے ناشتے کی پلیٹ رکھتا ہوا وہ بریڈ کے سلائس نکالنے لگا۔
"نہیں! مجھے ہمیشہ آپ سے یونہی شرم آئے گی ساویز۔ مجھے یقین ہے!۔"
"ایک سال بعد بھی؟۔" وہ کچھ حیران ہوا۔
"پانچ سال بعد بھی!۔" اور غنایہ اسے مزید حیران کر گئی۔
"مجھے حیرانی ہے۔"
"اور مجھے بھوک!۔" اس کے جواب پر وہ دونوں ہی مسکرا دیے۔ وہ اب مزید انتظار نہ کرتے ہوئے ساویز کے ساتھ ناشتہ کرنے لگی۔ "آپ کی بابا سے کیا بات ہوئی؟ کیا وہ غصہ تھے؟۔" وہ اس بارے میں کافی دیر سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔
"انہیں شادی کے بارے میں پتا چل گیا ہے۔ اگر میں انہیں خود پہلے بتا دیتا تو شاید وہ کبھی اتنا غصہ نہ کرتے۔" اس نے خشک لبوں پر پھیری۔
"کیا یہ فکرمندی کی بات ہے؟۔" وہ جلدی ہی پریشانی ہوجاتی تھی۔ ساویز نے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر چاہ کر بھی نظر نہ ہٹا سکا۔ تازہ دم، نیلے رنگ کے سادے سے لان کے سوٹ میں ملبوس وہ اسے ہمیشہ کی طرح پیاری لگی۔ پیشانی پر ہلکی ہلکی پریشانی کی شکنیں تھیں، جو ہمیشہ جلد ہی نمودار ہوجایا کرتی تھیں۔
"فکر کی بات ہوگی تو اسے میں سنبھالوں گا غنایہ! تم میری بیوی ہو۔۔ ہمیشہ ان سب سے محفوظ رہو گی۔" اس کے لہجے میں ایک یقین تھا کہ کبھی وہ غنایہ کو پریشانی/ تکلیف سہنے کا موقع ہی نہیں دے گا۔ ہونٹوں پر مطمئن مسکراہٹ سی پھیل گئی۔ ساویز نے ناشتہ ختم کر کے ٹھنڈے پانی کی جانب ہاتھ بڑھایا۔
"آپ آفس چلے جائیں گے تو میں آپ کے لوٹ آنے کا انتظار کروں گی۔" اس نے آخری لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
"اور میں تمہارے اس انتظار کا انتظار کروں گا۔" وہ کیا لڑکی تھی۔۔ پل بھر میں روپ بدل لینے والی۔۔ مگر ہاں یہ روپ زیادہ سہانا تھا کہ وہ ساری زندگی غنایہ کے اس روپ کے ساتھ ہی گزار دینا چاہتا تھا۔
"آپ کی باتوں سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے مجھے ایک مضبوط مرد کا ساتھ دیا ہے۔" نگاہیں میز کو تک رہی تھیں۔ وہ مسکرا نہیں رہی تھی۔۔ یہ اس کے جذبات تھے۔
"ایک بے پناہ محبت کرنے والا شوہر بھی۔۔" خود سے ہی جملے میں اضافہ کرتا ہوا وہ اس کی ٹھوڑی چھوتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ غنایہ ہنسی نہیں تھی۔۔ وہ خاموش رہی کیونکہ وہ ساویز کی بات سے اتفاق کرتی تھی۔
اس کے ساتھ چلتے ہوئے وہ گیراج تک آئی۔ ساویز نے اپنا لیپ ٹاپ بیگ گاڑی میں رکھا اور اس کی جانب بڑھا۔ وہ اس کو یوں پلٹتا دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئی تھی۔
"کچھ رہ گیا ہے کیا؟۔" یہ سوچ کر کہ اگر کچھ رہ گیا ہوگا تو وہ اوپر سے لے آئے گی، پوچھ بیٹھی۔
"ہاں۔۔" کہتے ساتھ ہی اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے، بھوری آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے بھورے رنگ میں ایک خاص بات تھی جو ساویز کو کبھی اپنی آنکھوں کے رنگ میں نہ ملی۔ وہ رنگ ہمیشہ روشنی میں آکر مزید ہلکا ہوجایا کرتا تھا۔۔ دھوپ پڑنے سے پہلے ہی۔۔
"تمہارا شکریہ غنایہ۔۔ تم نے خود کو میرے لیے بدلا ہے۔" اس کے ہاتھ کی پشت سہلاتا ہوا وہ قدرے محبت سے بولا۔
"میں نے یہ بدلاؤ اپنے لیے بھی کیا ہے ساویز۔۔ میں بھی ایک سکون بھری اور خوبصورت زندگی کی خواہشمند تھی۔ اللہ نے میرے دل میں آپ کی جانب سے اطمینان ڈال دیا۔" غنایہ کو خود بھی امید نہیں تھی کہ وہ یہ سب ساویز سے کہہ رہی ہے۔ وہ مسکرایا تھا اور جانے سے پہلے ایک آخری بار صحیح سے دیکھ رہا تھا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے نجانے اس کا دل کیوں چاہا کہ وہ ٹھہر جائے۔ ایک عجیب سا احساس دل میں پیدا ہونے لگا۔۔ گاڑی کا سیاہ شیشہ نیچے کرتے ہوئے اس نے کچھ ہی دور کھڑی مسکراتی غنایہ کو دیکھا تو شدت سے دل چاہا کہ اسے رک جانا چاہئیے۔ دل بے سکون ہونے لگا۔ چوکیدار کو خدا حافظ کرتے ہوئے گاڑی باہر سڑک پر لے آیا۔ دروازہ بند ہورہا تھا جب ساویز نے ایک بار پھر غنایہ کو دیکھا۔۔ اس کی غنایہ!
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا؟؟۔" میرویس نے چونک کر کافی کا مگ میز پر رکھا۔ "مگر کیسے اور کیوں؟ اتنے سالوں میں تو ایک بار چکر نہیں لگایا اور اب اچانک سے دو دن بعد پاکستان آرہے ہیں؟۔" آنکھیں حیرت پھٹی ہوئی تھیں۔
"مجھے نہیں علم تھا کہ بات میری کمپنی سے سنگاپور پہنچ جائے گی! ظاہر ہے یہ بات تو چلنی ہی تھی۔ اس لیے میں فالحال آفس میں بتانا نہیں چاہتا تھا۔ تم نہیں جانتے کیا ہنگامہ ہونے والا ہے!۔" ٹانگ پر ٹانگ جماتے ہوئے پیشانی رگڑتا ہوا بولا۔
"زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وہ غصہ کریں گے، چند گالیوں سے نوازیں گے۔۔ تم یہ سب برداشت کرلینا۔" میرویس جو کبھی ٹینشن میں آیا ہو۔ اس کے پاس تو مشوروں کی ایک فہرست تھی۔ ساویز نے گہری سانس بھری۔
"میں نے بھی کچھ یہی سوچا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ بات زیادہ نہیں بڑھے گی۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "مجھے آفس کے لیے نکلنا ہے اس لیے مزید نہیں رک سکتا۔" اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا۔
"ہاں! اور ویسے بھی اگلی ملاقات تو لگتا ہے انکل کے آنے پر ہو ہی جائے گی۔" مسکراہٹ گہری ہوئی تو ساویز محض بےبسی میں سر ہلاتا رہ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"باریال بھائی میں ناشتہ کر چکی ہوں۔ آپ میرے لیے ناشتہ مت بنائے گا۔" میز سے ناشتے کے برتن سمیٹتے ہوئے وہ، کمرے سے باہر آتے باریال سے بولی۔
"یعنی آج مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔" وہ مسکراتے ساتھ وہیں میز کے ساتھ لگی کرسی پر بیٹھ گیا۔
"آپ کہیں گے تو میں آپ کا ناشتہ بنادوں گی۔" موڈ آج بے حد خوش گوار تھا۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں غنایہ! بلکہ ایک کام کرتے ہیں! دوپہر کا کھانا میں بنانے کا سوچ رہا ہوں۔ تو بتاؤ کیا کھانا چاہو گی؟۔" پیشانی پر اب بھی سیاہ کپڑا بندھا ہوا تھا۔
"ملازمہ خالہ بنادیں گی باریال بھائی۔ آپ کے امتحانات چل رہے ہیں۔" اسے یاد تو وہ کیسے دو، تین پرچے ان چند دنوں میں دے کر آیا تھا۔
"ارے بس کرو! میں کل رات کا جاگا ہوا ہوں اور پڑھ پڑھ کر اب تھک گیا ہوں۔ کل آخری امتحان ہے اور اب میں سوچ رہا ہوں کہ آج بریانی بنا لینی چاہئیے۔"
غنایہ مسکرا دی۔
"پھر تو میں بھی بریانی ہی کھانا چاہوں گی۔" وہ برتنوں کو کچن میں رکھ کر باہر آئی۔
"خالہ کہاں ہیں؟۔" اسے یکدم ہی یاد آیا تو پوچھ بیٹھا۔
"وہ اسٹور روم میں کوئی کام کر رہی ہیں۔ آتی ہوں گی۔" غنایہ زینے کی جانب بڑھ رہی تھی جب کسی سوال نے اس کے قدم روکے۔ "آپ سے ایک بات پوچھوں؟۔" نگاہ اس کی پیشانی پر بندھے سیاہ کپڑے کی جانب تھی۔
"ہاں۔"
"یہ کالا کپڑا کیوں باندھتے ہیں آپ؟۔" ایک عجیب سا تجسس تھا۔۔
"اوہ یہ!۔" اس نے کپڑا اتار کر میز پر رکھا۔ "میں جب کھیت میں ابا کے ساتھ کام کرتا تھا تو یہ کپڑا بندھا کرتا تھا۔ بس تب سے ہی عادت ہے۔"
"ویسے آپ اس کالے کپڑے کے بغیر بھی اچھے لگتے ہیں۔" وہ مسکراتی ہوئی اوپر بڑھنے لگی۔ "میں پڑھنے جا رہی ہوں۔ میری ضرورت پڑے تو بلا لے گا۔"
عشنا سے بات ہوئے عرصہ ہوگیا تھا۔ موقع ملا تو سوچا کیوں نہ بات کر لی جائے۔ ارادہ کرتی ہوئی وہ اوپر بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"عجیب مصیبت ہے! مجھے سمجھ نہیں آتا جب یہ اپنے ایمپلائیز سے اتنا کام لیتے ہیں تو انہیں اتنا معاوضہ کیوں نہیں دیتے! اتنی مہنگائی ہوگئی ہے۔ اب تو میں ہر ہفتے میک ڈونلڈز بھی نہیں کھا پاتی!۔" جانے غصہ کس بات کا تھا۔ مہنگائی کا یا میک ڈونلڈز نہ کھانے کا۔
"میرے خرچے تو سراقہ دیکھتا ہے۔" صوفیہ مزے میں بولی۔
"تو پھر تمہاری سیلری؟۔" عشنا نے آنکھیں پھاڑیں۔ "پھر تو تم وہ سیلری صرف اپنی ذات پر ہی خرچ کرتی ہوگی۔" ایک آہ بھری گئی۔
"نہیں۔۔ میں سیونگز کر رہی ہوں۔ سیلری سیدھا میرے بینک اکاؤنٹ میں جاتی ہے۔ میری خواہشات اور ضروریات پوری کرنے والا موجود ہے۔" وہ اپنے شوہر کو سوچتے ہوئے مسکرائی۔
"سراقہ کتنا اچھا ہے۔" اسے اپنے خرچے یاد آنے لگے۔ گھر کے بل اور گروسری اس کی آدھی سے زیادہ سیلری کھا جاتی تھی۔
"سراقہ میرا شوہر ہے عشنا۔ یہ سب اس کی ہی ذمہ داری ہے۔ اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرنا شوہر پر فرض ہے۔ اس لیے تو میں کہتی ہوں کہ تم بھی شادی کرلو۔"
"افف اب تم مجھے میرا دل شادی کی طرف راغب کر رہی ہو۔" صوفیہ کی باتیں ہمیشہ اس کا دل شادی کی جانب موڑ دیتی تھیں۔ وہ ابھی مزید اس بارے میں بات کرتی اگر غنایہ کی کال اسے موبائل کی جانب متوجہ نہ کرتی۔ لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کال اٹھا کر موبائل کان سے لگایا۔
"ہیلو؟۔"
"کیسی ہو عشنا؟۔" دھیمی خوشگوار آواز ابھری۔
"میں ٹھیک ہوں۔ تم بتاؤ؟ آواز سے بہت اچھی محسوس لگ رہی ہو۔"
"تمہارا اندازہ بلکل ٹھیک ہے۔ اب سب کچھ بہتر ہے۔۔ ساویز کے لیے میرے دل میں محبت بڑھ رہی ہے۔" آواز میں خوشی واضح تھی۔
"یہ تو واقعی ایک بے حد اچھی بات ہے! مجھے تم دونوں کے لیے خوشی ہے۔" ساتھ ساتھ کیبورڈ پر انگلیاں بھی چل رہی تھیں۔
"انہوں نے کہا ہے وہ میرا ساتھ تمام عمر کے لیے چاہتے ہیں۔ تم جانتی ہو یہ جملہ کتنا گہرا محسوس ہوتا ہے۔" جہاں غنایہ خوش تھی وہیں عشنا کو عجیب سا محسوس ہوا۔
"نہیں میں نہیں جانتی۔۔" کچھ عجیب سے تاثرات چہرے پر پھیلے۔ "تم جانتی ہو مجھے کبھی محبت نہیں ہوئی اس لیے یہ جملے مجھے بلکل نہیں بھاتے۔"
اس کی بات پر غنایہ کھلاکھلا دی تھی جبکہ عشنا مسکرا دی۔
"اب تمہیں بھی شادی کرلینی چاہئیے!۔" اس نے کچھ سوچ کر کہا۔ عشنا کا جھنجھلانا وہ فون کے اس پار محسوس کر سکتی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کون؟۔" دروازہ بجنے پر چوکیدار نے دروازے کے سوراخ سے باہر جھانک کر پوچھا۔ عادل بندوق کو ہاتھ سے کمر کے پیچھے چھپائے کھڑا آواز پر ہوشیار ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ دروازے کے سوراخ سے چوکیدار اسے دیکھ سکتا ہے۔
"میں ساویز صاحب کے آفس سے آیا ہوں۔ انہوں نے مجھے پیلی فائل لینے گھر بھیجا ہے۔" بظاہر بے چارگی سے کہتا ہوئے وہ اسے جال میں پھنسانے لگا۔ کچھ ہی دور اپنی سیاہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا وجاہت، عادل کی اداکاری پر مسکرایا۔
"مگر صاحب جی کا اس متعلق کوئی فون تو نہیں آیا۔" دروازے کے پار کھڑے چوکیدار کی پیشانی پر پریشانی کے تاثرات ابھرے۔ اس سے قبل وہ یہ کہتا کہ میں گھر کے ٹیلیفون سے ساویز کو کال کرتا ہوں، عادل نے موبائل نکال کر کچھ الٹا سیدھا ٹائپ کیا اور موبائل کان سے لگا لیا۔
"ہیلو باس! میں گھر آیا ہوں مگر چوکیدار اندر نہیں آنے دے رہا۔ اگر آپ اپنے گارڈ سے بات کرلیں تو وہ شاید مجھے وہ فائل لینے دے۔"
چوکیدار اسے چھوٹے سے سوراخ سے اب بھی جھانک رہا تھا۔
"اوہ اچھا!۔" عادل نے مہارت سے موبائل کان سے ہٹایا اور دروازے کی جانب نگاہ مرکوز کی۔
"اگر آپ کو یقین نہیں تو یہ لیں۔۔ ساویز صاحب سے بات کرسکتے ہیں، وہ کال پر ہی ہیں۔ انہوں نے کہا ارجنٹ میٹنگ کی وجہ سے وہ آپ کو آگاہ نہیں کرسکے تھے۔" اس کی بات پر جہاں چوکیدار کے شک دور ہوئے وہیں دور کھڑے خرم نے گاڑی سے ٹیک لگائے وجاہت کی جانب مسکرا کر دیکھا تھا۔ وجاہت کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ خرم کے ہاتھ سے چنوں کی تھیلی لیتے ہوئے اس نے ایک ساتھ کئی چنے منہ میں ڈالے۔
"ساویز صاحب اب بھی کال پر ہیں؟۔" اسے شک تھا۔۔ مگر وہ یہ سوچنے لگا کہ اگر اس نے شک کی بنیاد پر باہر کھڑے اس آدمی کو مشکوک سمجھا اور ساویز صاحب واقعی کال پر ہوئے تو بے حد غلط بات ہوجائے گی۔ بظاہر دروازہ کھول کر کال پر بات کرنے کی ہامی بھرتے ہوئے وہ دروازے کا لاک کھولنے لگا۔
"بے وقوف آدمی!۔" وجاہت استہزایہ ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگا۔ عادل نے مڑ کر دونوں کو سرسری نگاہ دیکھا تھا جیسے کہہ رہا ہوں کہ کام بن رہا ہے۔ وہ ابھی مسکرا نہیں سکتا تھا کیونکہ چوکیدار اس سوراخ سے اسے دیکھ رہا تھا۔
دروازہ کھلنا ہی تھا کہ باہر آتے چوکیدار کی پیشانی پر عادل نے پستول رکھی۔
"اندر چلو!۔" سختی سے کہتے ہوئے اس نے گھبرائے چوکیدار کو دروازے کے اندر کیا اور خود بھی اندر بڑھ گیا۔ وجاہت نے چنوں کی تھیلی خرم کو تھمائی اور دروازے کے اندر بڑھ گیا۔ وہ چوکیدار سہم کر کھڑا اس سے التجا کر رہا تھا۔
"خدارا ایسا مت کریں!۔" دروازہ کھولنا اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
"بندوق گاڑی میں رکھ کر آؤ! اندر ایک چھوٹا بچہ بھی ہے۔" بھاری آواز میں اس نے عادل سے کہا۔ خرم نے اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پستول کو محسوس کیا۔ عادل نے اثبات میں سر ہلایا اور چوکیدار کو خرم کے حوالے کر کے گاڑی میں بندوق رکھنے بڑھا۔
"اندر ساتھ چل ہمارے!۔" بوڑھے چوکیدار کو بازو سے پکڑ کر خرم نے آگے دکھیلا۔
وجاہت ان دونوں سے آگے لاؤنج کی جانب بڑھ رہا تھا۔ لان خالی تھا۔ وہ ہر چیز کو بے حد غور سے دیکھ رہا تھا۔ یکدم ہی ملازمہ خالہ وجاہت کو دیکھ کر خوف سے چیخیں۔ ان کی چیخ پر باریال اپنے کمرے سے باہر آیا اور پھٹیں آنکھوں سے وجاہت کو دیکھ رہا تھا۔ اسے باریال سمیت کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ عادل نے پستول دکھا کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
"تم کہاں چلے آرہے ہو۔" باریال اس کی جانب بڑھ رہا تھا جب خرم نے اس کے سینے پر بازو رکھ کر، اسے روکا۔
"خاموش!!۔" وہ چیخا۔ تیرہ چودہ سال کا نوفل گھبرا گیا۔ اس نے لاونج کے دروازے سے باہر بھاگنا چاہا تھا جب خرم نے تیزی سے پکڑ کر اسے پیچھے زمین پر دھکا دیا۔ وہ بری طرح پلٹی کھا کر زمین پر گرا تھا۔
"دھیرے خرم! کسی کو زخمی نہیں ہونے دینا۔" وجاہت نے اس موقع پر پہلی بار کچھ کہا۔ اس کا رخ سیڑھیوں کی جانب تھا۔
"وجاہت تم ایسا نہیں کرسکتے!!۔" باریال نے اس بار التجا کی۔ سانسیں پھولی ہوئی تھی۔ وہ کسی طور اسے اوپر جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
وجاہت مسکرایا اور پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔
"وجاہت ایسا کرسکتا ہے باریال! بلکہ یہ کہو کہ وجاہت 'ہی' ایسا کرسکتا ہے۔ تم فکر نہیں کرو! غنایہ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ چند باتیں کر کے پلٹ جاؤں گا۔" مسکراہٹ گہری ہوئی تو ڈمپل واضح ہونے لگے۔ باریال نے لب بھینچ لیے۔۔ "پستول کا بلکل استعمال نہ ہو! خیال رکھنا۔" ایک نظر عادل اور خرم پر ڈالتا ہوا وہ اوپر کی جانب بڑھ گیا۔ نوفل اٹھ کر دوبارہ بھاگنے کی کوشش کرنے لگا جب خرم نے غصے سے مکا اس کی ناک پر مارا۔ وہ ایک بار پھر لڑھک کر گرا تھا۔ ناک سے بہتا خون فرش پر ٹپکنے لگا تو باریال نے اذیت سے خرم کو دیکھا۔
"تمہاری یہ ہمت!!۔" قدم اس کی جانب بڑھے جب اس نے باریال کو گریبان سے پکڑ کر سر پر پستول ماری تھی۔
"اب کچھ نہیں بولے گا!۔" استہزایہ ہنس کر وہ دور ہٹا۔
باریال دیوار کے سہارے اپنا سر پکڑ کر نیچے بیٹھ گیا۔
"ایسا مت کرو خدارا! تم لوگوں کے گھروں میں مائیں بہنیں نہیں ہیں؟۔" خالہ خوف سے رو پڑیں۔
"خاموشی سے کونے میں پڑے رہو! یہ پستول چل بھی سکتی ہے۔" اس بار عادل منہ بگاڑ کر بولا تھا۔ گویا ماحول میں خاموشی چھا گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"امی ابا سے ملنے کب جاؤ گی؟ وہ پوچھ رہی تھیں تمہارا۔"
"ابھی وقت نہیں۔۔ کوشش کروں گی کہ اتوار کو چلی جاؤں۔"
"اور مجھ سے ملنے کب آؤ گی؟۔" لہجے میں اپنائیت تھی۔
"جب حالات ہمیں ملوادیں۔" اس بار عشنا کھلکھلائی تھی۔ وہ ابھی مزید کچھ کہتی کہ فون کی دوسری طرف اسے چیخ و پکار کی آواز سنائی دی۔ "یہ کیا ہورہا ہے؟۔" وہ چونکی۔
"یہ تو باریال بھائی کی آواز تھی۔" غنایہ کو بوکھلانا عشنا کی پریشانی میں اضافہ کر گیا۔ اس کے ساتھ ہی مزید چیخنے کی آوازیں آنے لگیں تو وہ بری طرح گھبرا گئی۔ "میں دیکھتی ہوں۔" کمرے کا دروازہ لاک تھا۔
"کال مت کاٹنا۔ میرے ساتھ رابطے میں رہو۔" اس نے تیزی سے تنبیہ کی۔
غنایہ ابھی دروازے کی جانب بڑھتی ہی کہ کسی نے دستک دے کر تیزی سے دروازہ کھولا۔ اجنبی چہرے کو دیکھ کر وہ خوف سے چیخ اٹھی۔ وجاہت نے اسے بری طرح بدک کر دور ہٹتے ہوئے دیکھا۔ کانوں سے لگا فون فرش پر گر کر ٹوٹ گیا۔ آہستگی سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔
"میرے قریب مت آنا۔" وہ چیخ کر گھبراتی ہوئی دیوار سے لگ گئی۔ ہونٹ لرزنے لگے۔
"کیسی ہو غنایہ۔" وہی مخصوص مسکراہٹ۔
"تت۔تم کون ہو؟۔" وہ زور سے چیخ کر بولی۔
"میں؟۔" اس نے اپنی طرف اشارہ کیا۔ "تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔۔ میں ساویز کا پرانا دوست ہوں!۔" ہاتھ میں پکڑ پستول پر اس نے انگلی رگڑی۔ غنایہ نے اس کی ہری آنکھوں میں ایک غصہ دیکھا۔
"میرے قریب مت آنا خدارا! میں مر جاؤں گی۔" ہونے کپکپا رہے تھے جس کی وجہ سے الفاظ صحیح سے ادا نہیں ہوسکے۔ آنسوؤں نے رخسار کا رخ کیا۔ وہ دیوار سے گویا چپک کر کھڑی تھی۔ اس کے کنارے سے ہوتے ہوئے وہ باہر کی جانب بھاگنے لگی جب وجاہت تیزی سے اس کے آگے آکر کھڑا ہوا۔
"میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کروں گا غنایہ! کم از کم میں بے غیرت نہیں!۔" چہرہ بلا کا سنجیدہ تھا۔
"مجھے مت مارو۔۔" ہچکیوں کے درمیان وہ اس کی پستول کو دیکھتے ہوئے بولی۔ سنگھار میز کی کرسی کھینچ کر اس نے غنایہ کی طرف کچھ دور فاصلے پر رکھی، اور بیٹھ گیا۔
"یہ پستول۔۔۔" وہ ٹھہرا اور اپنے ہاتھ میں موجود پستول دیکھنے لگا۔ "یہ پستول میں کیوں لایا ہوں مجھے سمجھ نہیں آرہا۔ تم غلط سمجھ رہی ہو! میں ساویز نہیں ہوں جو کسی لڑکی کا قتل کردوں۔" اس کا کہنا تھا کہ غنایہ کی آنکھیں ششدر ہوتے ہوئے پھٹیں۔ "تم محفوظ ہو۔۔ بس چند باتیں ہیں! جو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں۔"
"کون سی بات؟۔" وہ سسکتے ہوئے دور ہٹی۔
وجاہت مسکرایا تھا۔۔ مگر یہ مسکراہٹ بھی عارضی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ ماند پڑ گئی۔
"چلو پھر میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں! سنو گی؟۔" اس کا لہجہ بے حد ٹھہرا ہوا تھا۔ آخری میں اس نے سوال کیا مگر غنایہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ہنس پڑا۔ "اس سوال کی کوئی تک نہیں! تمہیں یہ کہانی سننی ہی پڑے گی۔"
"میری ایک بہن ہے۔۔ کائنہ!۔" لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ پھیلی۔۔ شاید یہ بہن کے ذکر کا جادو تھا۔ غنایہ پیشانی پر الجھے تاثرات پھیلائے اسے دیکھنے لگی۔ "کائنہ سلطان! ایک بے حد خوبصورت لڑکی جس کے اندر اس کی بھائی کی جان ہے۔ میرے لبوں کی مسکراہٹ ہے۔"
غنایہ کو اس کا یہ سب بتانے کا مقصد سمجھ نہ آیا۔ نجانے کیوں وہ اس کی کہانی بہت غور سے سن رہی تھی۔
"میری اکلوتی بہن! جس کے منہ سے نکلے ہر لفظ کو میں نے پورا کیا ہے۔۔ اور اس کو اپنے ہاتھوں سے ہی دفنا دیا۔" آخری جملے میں غنایہ کی آنکھیں بے یقین سے پوری کھلیں۔ وہ سہم سی گئی۔ یہ چھوٹی سی داستان کتنی خوفناک معلوم ہوتی تھی۔
"وہ مر گئی۔۔" زخمی مسکراہٹ کے سہارے وہ کہہ پڑا۔ "مگر اسے مارا گیا تھا۔ اس کے سینے میں ایک اور کندھوں پر دو گولیاں گھسی ہوئی تھیں۔" آنکھیں سرخ ہونے لگیں اور اسے لگا وہ جلد آنسوؤں سے بھر جائیں گی۔ غنایہ کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا۔
"جانتی ہو اس کا قتل کس نے کیا؟ ساویز خانزادہ نے!۔" اس نے دانت پیس کر الفاظ ادا کیے۔ غنایہ کو اپنے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس کوئی۔ حیرت اور بے یقینی کا ایک پہاڑ اس کے سر پر ٹوٹا تھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر الفاظ حلق میں اٹک گئے۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا! ساویز کسی کرائم میں ملوث ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔ اتنے عرصے میں وہ اس کی فطرت، عادات اور مزاج سب جان چکی تھی اور اسے ساویز کے کسی بھی روپ میں 'قاتل' نظر نہیں آیا تھا۔
"جھوٹ کہتے ہو تم!!۔" وہ کپکپاتے ہوئے بولی۔ "میں جانتی ہوں انہیں، ساویز کبھی ایسا نہیں کرسکتے! یہ بہتان ہے۔" وہ سسکتے ہوئے رو پڑی۔
"کوئی میری بات کا یقین ہی نہیں کرتا۔۔ سب کہتے وجاہت جھوٹ کہتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میں ایک مضبوط ثبوت نہیں دے پایا۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں ساویز کو قتل نہیں کر پاتا۔" وہ ضبط کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"قتل؟۔" آواز حلق سے گھٹتے ہوئے نکلی۔ "تم ایسا نہیں کرو گے۔" وہ حلق کے بل چیخی۔ وجاہت کی یہ بات اس کا ہر خوف لمحے بھر کے لیے دور کر گئی۔ وہ بنا کچھ سوچے سمجھے چیخ پڑی۔
"اگر بنا سوچے سمجھے مجھے قتل ہی کرنا ہوتا تو اس وقت کا انتظار نہیں کرتا۔ جانتی ہو تم اس کی بیوی کیوں ہو؟ کیونکہ وجاہت سلطان اس کا دشمن ہے۔" سرخ ہوتی آنکھوں کے باجود وہ انتقاماً مسکرایا۔ "اگر وجاہت نہ ہوتا تو غنایہ بھی یہاں نہ ہوتی۔"
"تم ایسا کر بھی نہیں سکتے۔۔ کیونکہ تم جھوٹ کہتے ہو۔" وہ کسی صورت اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وجاہت نے مڑ کا اس کا سفید پڑتا چہرہ دیکھا۔ یکدم ہی کمرے میں زور دار قہقہے کی آواز گونجنے لگی۔
"اپنا چہرہ دیکھو۔۔" پستول کی نوک سے اس نے غنایہ کے چہرے کی جانب اشارہ کیا۔ "یہ بات تمہارے دل میں ٹھہر چکی ہے مگر تم اسے ماننا نہیں چاہتی۔ محبت واقعی ایک ظالم چیز ہے۔" اس نے بے چارگی سے نفی میں سر ہلایا۔ "محبوب کا قصور بھی ماننے کو جی نہیں چاہتا۔"
"اس بار وہ خاموش رہی۔ وجاہت جانے کو پلٹ رہا تھا جب کسی بات نے اس کے قدم روکے۔
"آج کے بعد سے تم وجاہت سلطان کو اپنی کہانی کا ولن سمجھو گی۔" وہ انکشاف کر رہا تھا۔ ایک افسوس جو وجاہت کے چہرے پر ٹھہر گیا۔ "مگر یہ بھی جاننے کی کوشش کرنا کہ اگر تمہاری کہانی کا ولن 'میں' ہوں! تو وجاہت سلطان کی کہانی کا ولن کون ہوگا؟۔" یہ ایک ذو معنی جملہ تھا جو اس نے ادا کیا تھا۔ قدم پلٹ گئے۔۔ وہ جیسے اوپر آیا تھا نیچے کی جانب بڑھ گیا۔
زینے اترتے ہوئے اس نے لاونج کی صورتحال پر نگاہ دوڑائی۔ چھوٹے بچے کی ناک سے خون اب فرش خراب کر چکا تھا۔ باریال دیوار سے ٹیک لگائے سن بیٹھا تھا۔ ملازمہ خالہ اور چوکیدار صوفے پر سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ وجاہت کا ارادہ رکنے کے بجائے سیدھا باہر نکل جانے کا تھا مگر اس چھوٹے لڑکے نے اسے رکنے پر مجبور کیا۔
"اسے کیوں مارا ہے؟۔" ماتھے پر سختی پھیلی۔ خرم ڈگمگایا۔
"اس نے ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی باس!۔" وہ جانتا تھا کہ اگر وہ یہ جھوٹ نہیں بولے گا تو وجاہت یقیناً خرم پر برس اٹھے گا۔ اس مبالغہ آرائی پر باریال نے خرم کو سر اٹھا کر دیکھا۔
"ایک چھوٹا بچہ تمہیں کیا نقصان پہنچائے گا؟ شرم کرو!۔" باریال نے دانت پیسے۔
وجاہت اس کی بات نہ سمجھتے ہوئے تیزی سے باہر بڑھ گیا۔ وہ جانتا تھا غنایہ چاہے جتنا بھی کہہ دے کہ ساویز مجرم نہیں مگر وجاہت کی یہ بات اس کے دل میں شک پیدا کر گئی ہوگی۔۔ اور یہی تو وجاہت چاہتا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا مطلب ہے؟ بھلا ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟۔" وہ آفس کی عمارت کے باہر کھڑی اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی جو گارڈ لینے گیا تھا۔
"مجھے نہیں معلوم عاشی! اس نے ایسا کیوں کہا۔۔ مگر مجھے یقین ہے۔ ساویز ایسا کبھی نہیں کرسکتے۔ وہ ایسے نہیں ہیں! وہ ٹھنڈے مزاج کے مرد ہیں۔" اس کے رونے کی آواز وہ دوسری جانب بھی سن سکتی تھی۔
عاشی نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
"کیا اس وجاہت نامی شخص نے اپنی مقتولہ بہن کا نام بتایا؟۔" دماغ وہیں جا اٹکا تھا۔ بھلا کوئی بھی شخص کسی پر اتنا بڑا الزام آسانی سے کیسے لگا سکتا ہے؟۔
"کائنہ۔۔" ساتھ ہی ہچکی بندھ گئی۔ "مجھے بہت زیادہ رونا آرہا ہے۔"
"اچھا میں مزید کوئی سوال نہیں پوچھ رہی۔ رونا بند کرو اور اپنا حلیہ ٹھیک کرو۔ ساویز آتے ہی ہوں گے۔" کسی بات کو سوچتے ہوئے اس نے جلدی سے کہا اور پیشانی کجھاتے ہوئی کال رکھ کر اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔ یہ سچ ہے یا جھوٹ!! اس بارے میں ایک شخص ضرور بتا سکتا تھا۔
خدشے جنم لینے لگے۔۔ ایک ڈور تھی جو الجھ رہی تھی۔ موبائل پر کال ملاتے ہوئے اس نے فون کان سے لگایا۔
"ہیلو؟۔" کال اٹھا لی گئی تھی۔ گھمبیر آواز ابھری۔
"مجھے تم سے ابھی فوراً ملنا ہے۔ پلیز منع مت کرنا۔" آخری بار ان کی ملاقات جس طرح اختتام پائی تھی، اس کے بعد عشنا کا التجا کرنا ضروری تھا۔
دوسری جانب چند لمحوں کی خاموشی چھا گئی۔
"کہاں؟۔" مختصر سا سوال۔
"میں ایڈرس بھیج دیتی ہوں۔ جتنی جلدی ہو سکے وہاں پہنچنے کی کوشش کرنا۔" بات مکمل کر کے اس نے کال کاٹی اور ایڈرس اسے سینڈ کیا۔ پیشانی پر اس بات کو لے کر عجیب تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص گھر میں گھس کر اس کی بیوی کو خبر دے۔ بھلا وہ ایسا کیوں کرے گا؟ طرح طرح کے سوالات اس کے سر پر سوار ہونے لگے تو وہ سر جھٹکتی ہوئی گاڑی اسٹارٹ کرنے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اس نے غنایہ کو صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا۔ جوتے اتارے بغیر ہی وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا اور پاس بیٹھ گیا۔ ہلکی ہلکی سسکیاں اب بھی گونج رہی تھیں جو اس بات کی گواہ تھیں کہ غنایہ گہری نیند میں نہیں ہے۔ شاید وہ روتے روتے اب نیند کی وادیوں میں داخل ہو رہی تھی۔ رخسار پر ٹھہرا آنسو پرانا نہیں تھا۔ ساویز بنا کچھ سوچے ہی اس کے رخسار پر ہاتھ پھیرا۔ وہ کسی کی موجودگی محسوس کرتی ہوئی خوف سے اٹھ کر بدکتے ہوئے دور ہٹی۔ وجاہت کا خوف اب بھی اس کے حواسوں پر سوار تھا۔ آنکھیں کھلتے ہی ساویز کا چہرہ نظر آیا تو آنسوؤں کا لمبا سلسلہ دوبارہ سے جاری ہوگیا۔
"تم ٹھیک ہو؟۔" وہ زیادہ کچھ کہہ بھی نہ سکا۔
"وہ جھوٹ کہتا ہے کہ آپ نے اس کی بہن کا قتل کیا ہے۔" یہی ایک جملہ وہ بار بار دہرا رہی تھی۔۔ نجانے وجاہت کے کہنے میں کون سی سچائی تھی کہ وہ مزید کچھ سوچ نہیں پا رہی تھی۔
ساویز ششدر ہوا۔ چہرہ سفید پڑنے لگا تو وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔
"وجاہت نے تم سے۔۔۔ یہ کہا ہے؟۔" جس بات کا ڈر تھا گویا وہ مکمل ہی ہوگئی تھی۔ غنایہ نے تیزی سے اثبات میں سر ہلایا۔
"آپ نے ایسا کیا ہے؟۔" وہ اب اس سے جاننا چاہتی تھی۔ چہرہ صاف تھا۔۔ آنسو خود ہی صاف کرتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے ساویز کو دیکھا جو بے یقینی سے غنایہ کو دیکھ رہا تھا۔
ایک یہی سوال۔۔ جس کو وہ مزید نہیں سہنا چاہتا تھا اور آج غنایہ نے بھی اس سے یہی سوال کیا تھا۔ آنکھیں سرخی مائل ہوگئیں۔
"تمہیں کیا لگتا ہے؟۔" اس نے جان کر غنایہ سے پوچھنا چاہا کہ وہ اس بارے میں کیا سوچتی ہے۔
"یہ سب الزام ہے! ہے نا؟۔"
"ساویز نے اس کو موت کی گھاٹ نہیں اتارا غنایہ۔۔" وہ بے خودی میں بولا۔ غنایہ کا دل سکون سے بھرنے لگا۔
"میں جانتی ہوں مگر اس نے ایسا کیوں کہا ساویز۔۔"
"اسے لگتا ہے کہ کائنہ کو میں نے مارا ہے۔۔ حالانکہ اس بات کا ایک مضبوط ثبوت اس کے پاس بھی نہیں۔ کیا کوئی قاتل ایسی سکون بھری زندگی گزار سکتا ہے؟ اس قدر اطمینان سے؟۔" غنایہ اس کی زندگی کی پہلی لڑکی تھی جس کے آگے وہ سب واضح دے رہا تھا۔۔ اپنے کردار کی صفائی دے رہا تھا۔
"میں جانتی تھی! آپ ایسا نہیں کرسکتے۔۔ وہ شخص ہمارا رشتہ خراب چاہتا ہے محض کچھ بھی نہیں۔" اس کے پیچھے وہ بھی کھڑی ہوئی۔ ساویز نے اس کو کلائی سے تھام کر اپنے نزدیک کیا۔
"تم ٹھیک ہو؟ میں بہت زیادہ گھبرا گیا تھا۔" دل کی تکلیف کا اندازہ ہوا تو اس کی زلفوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"خالہ نے بتایا کہ باریال بھائی نوفل کو ہسپتال لے کر گئے ہیں۔۔ جانے وہ گھر میں کیسے گھس آئے اور اس کے پاس پستول بھی تھی۔ میں بھی بہت ڈر گئی تھی ساویز۔۔" آنکھوں میں جگنو چمکے۔
"اور میں تمہارے ڈر سے ڈر گیا تھا۔ تمہیں کہا تھا نا میں نے کہ کوئی ساویز کی بیوی کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے۔" اس کا سر اپنے سینے سے ٹکاتے ہوئے وہ بےحد جذب سے بولا۔
"میں اب خوفزدہ نہیں ہوں کیونکہ آپ آگئے ہیں۔ آفس تو نہیں جائیں گے دوبارہ؟۔" دل مطمئن ہوگیا۔
"مجھے جانا ہے۔۔ مگر آفس نہیں!۔"
"کہاں؟۔" وہ گھبرائی۔
"اسی سلسلے میں کسی سے ملنا ہے لیکن تم فکر مت کرو! زیادہ دیر باہر نہیں رہوں گا اور تمہارے پاس دوبارہ آجاؤں گا۔ تم اب مزید نہیں رو گی۔ اب خطرہ نہیں ہے۔۔" وہ بھوری آنکھیں اور معصوم چہرہ اس کی جان لینے لگا۔ اس نے رخ موڑ کر خود کو سنگھار میز کے آئینے میں دیکھا۔ آنکھیں شدت ضبط سے لال ہو رہی تھیں۔ چہرے پر بلا کی سختی اور سنجیدگی تھی۔
"میں آپ کا انتظار کروں گی۔ نوفل کیسا ہے؟۔" شاید کہ اسے معلوم ہو۔
"اس کی ناک پر چوٹ آئی ہے۔ باریال بھی گھر آجائے گا اور تم مزید کمرے میں مت ٹھہرنا۔ یہاں رہو گی تو ان سب باتوں کو سوچتی رہو گی۔ میں خالہ کو سمجھا جاتا ہوں۔" وہ اس سے دور نہیں ہٹنا چاہتی تھی مگر ساویز کو جانا تھا۔ وہ مزید یہاں فالحال نہیں رکنا چاہتا تھا۔ میز سے چابی اٹھاتے ہوئے اس نے ایک نظر آئینے کے عکس میں بستر پر بیٹھتی غنایہ کو دیکھا۔ پر مطمئن تاثرات کے ساتھ وہ لیٹ کر آنکھیں موند گئی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم اب بھی ناراض ہو؟۔" پانچ منٹ اوپر ہوگئے تھے مگر دونوں کے درمیان اب تک کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
"پتا نہیں۔۔ کیا یہ کافی نہیں کہ تمہاری پہلی آواز پر تم سے ملنے چلا آیا؟۔" ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھے ہوئے میرویس نے کچھ سنجیدگی سے کہا۔
"عجیب ہے۔۔" یہ سب واقعی عجیب تھا۔
"بہت عجیب۔۔"
"مجھے برا لگا تھا۔"
"اور مجھے خوشی نہیں ہوئی تھی۔"
"میں تمہیں ثابت کر کے دکھاؤں گی کہ مینجر بلکل ٹھیک کہتے ہیں۔ وہ کانٹریکٹ کے بعد رافع کو نکالیں گے۔"
"اگر کل کنٹریکٹ ہوا تو۔۔۔" میرویس نے دھیرے دھیرے الفاظ مکمل کیے۔ وہ چونکی اور پھر شرمندہ ہوگئی۔
"ہاں اگر وہ ہوگیا۔" اس دن میرویس یہ بات واضح کر چکا تھا کہ وہ کانٹریکٹ نہیں ہونے دے گا۔ "مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔"
"تمہیں اجازت لینے کی ضرورت کب سے پڑنے لگی؟۔"
"مجھے لگتا ہے میں تمہیں بہت جلد بازی میں بلا لیا۔ حالانکہ ابھی غنایہ سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے! وہ محض کچھ الزامات ہیں مگر میرا دل مطمئن نہیں ہو رہا۔"
"سب ٹھیک ہے؟۔" وہ چوکنا ہوا۔
"وجاہت سلطان کون ہے میرویس؟۔" یہ اس کا پہلا سوال تھا۔ وہ ٹھہر کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا ہے؟۔" خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ تو کیا غنایہ اور عشنا دونوں کو ہی معلوم ہوگیا تھا؟۔
"میرے سوال کا جواب دو۔"
"میرا اور ساویز کا یونیورسٹی فیلو ہے۔ ہم تینوں بہت گہرے دوست رہ چکے ہیں۔۔ ولیمے والے دن وہ ہال میں اپنے گارڈز کے ساتھ آیا تھا۔" وہ پہچان جانے کے قریب تھی۔
"کیا وہ ہری آنکھوں والا؟۔"
"ہاں۔" اس نے گہری سانس خارج کی۔
"اس کی بہن کیسے مری تھی؟ میں جاننا چاہتی ہوں۔" سوالوں میں سب سے اہم سوال۔۔
"ہوا کیا ہے؟ میں اب جواب نہیں دوں گا اگر تم نے نہیں بتایا۔" اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی۔
"وجاہت نے کہا کہ اس کی بہن کا قتل ساویز نے کیا ہے! میں ہمارے رشتے کو کیا نام دوں سمجھ نہیں آرہا مگر مجھے سچ جاننا ہے میرویس! غنایہ نے مجھے سب بتایا ہے اور میں بہت پریشان ہوں۔" حالانکہ غنایہ نے کچھ دیر پہلے کال کر کے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ساویز سے سب کچھ پوچھ چکی ہے اور یہ سب جھوٹ ہے۔
"پہلی بات! ساویز نے اس کی بہن کا قتل نہیں کیا ہے۔"
"مگر یہ کوئی عام سی بات نہیں کہ کوئی بھی اٹھ کر الزام لگادے۔" عشنا نے تیزی سے کہا۔
"ہاں مگر کوئی کیوں یقین کرے جب وجاہت کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں؟ تمہیں اس بکواس میں نہیں پڑنا چاہئیے بس یہ یاد رکھو کہ یہ جھوٹ ہے، کہانی ہے! وہ غلط سمجھتا ہے اور یقینا اسے مستقبل میں اپنے لگائے گئے الزام پر افسوس بھی ہوگا۔" وہ گویا بات ختم کرنے کے انداز میں بولا۔ عشنا لاجواب ہوئی۔
"تم سچ کہہ رہے ہو نا؟۔" ایک عجیب سا ڈر دل میں پیدا ہوا۔ کافی پیتے میرویس نے ایک آئبرو اچکا کر اسے حیرت سے دیکھا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے؟۔" اسے میرویس پر بھروسہ تھا یا نہیں۔۔
"تم جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔" وہ ٹھہر کر بولی۔ میرویس دل ہی دل میں مبہم سا مسکرادیا۔
"میرا یقین کرو۔۔ اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا عاشی! ساویز ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ وہ لڑکی اسے پسند کرتی تھی مگر ساویز نہیں۔۔ تو کیا ساویز نے اسے اس لیے مارا؟ حد ہے۔۔"
"بس میں تھوڑا گھبرا سی گئی تھی۔۔ غنایہ بہن ہے میری شاید اس لیے۔۔ تمہارا بہت شکریہ!۔" وہ مبہم سا مسکرا دی۔ اب ایک اور پہاڑ سر کرنا تھا۔۔ عشنا کے پوچھنے کی بھی ہمت نہ ہوئی کہ کیا اس کی کمپنی کانٹریکٹ کرے گی؟ یا نہیں۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں داخل ہونے کی۔۔" وجاہت کا گریبان اس کے ہاتھ میں تھا۔ دھاڑ پورے کمرے میں گونجنے لگی۔ وجاہت نے ساویز کی جانب لپکتے گارڈز جو رکنے کا اشارہ دیا۔
"حالانکہ تمہیں تو شکریہ ادا کرنا چاہئیے کہ میں نے اسے مارا نہیں۔۔" ذو معنی لہجے میں کہتا ہوا وہ دھیرے سے مسکرایا۔ "تمہیں برا لگا؟۔"
"کیا لگتا ہے تمہیں؟ کائنہ کو میں نے مارا ہے؟ ٹھیک ہے مارو مجھے! رکھو یہ پستول میری کنپٹی پر اور چلاؤ گولی۔۔ لیکن اگر میرے گھر کی عورت پر نگاہ رکھی تو میں چھوڑوں گا نہیں وجاہت!۔" وہ اس کا گریبان چھوڑ کر دور ہٹا اور پوری قوت سے چیخا۔ اس کے روم کے باہر بیٹھے ایمپلائز ساویز کی آواز پر حیران تھے۔ وجاہت کے اشارے پر عادل نے گلاس وال پر پردے گرائے تاکہ باہر کی عوام اندر نہ دیکھ سکے۔ "مگر جانتے ہو سچ کیا ہے؟ تم مجھے مار ہی نہیں سکتے کیونکہ تمہارے اندر ہمت ہی نہیں ہے۔ اس رات جس شخص کو تم نے دیکھا وہ کوئی بھی ہوسکتا تھا۔۔ یہ پیچھے کھڑا تمہارا گارڈ عادل بھی ہوسکتا تھا اور تمہارا سب سے 'بہترین' اور خفیہ بندہ 'خرم' بھی۔۔" اس نے کہتے ساتھ ہی مڑ کر خرم کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر ایک رنگ آکر گیا تھا۔ ساویز نے اسے ذو معنی نظروں سے گھورا۔ "میری بیوی سے دور رہو وجاہت ورنہ بیوی تو تمہاری بھی ہے۔۔" یہ جملہ جتنا عام سا تھا اتنا ہی گہرا ثابت ہوا۔
"پریزے کا نام بھی مت لینا۔" وجاہت کا چہرہ یکدم ہی سرخ ہوا۔ "میں وجاہت نہیں ہوں جو کسی سے انتقام کے چکر میں ان کی کمزوریوں کا استعمال کروں۔" تڑخ کر کہا گیا۔ "کب تک یوں اپنے گناہوں کو چھپا تک رہوں گے مسٹر خانزادہ! یہ بات کیسے ثابت کرسکتے ہو کہ جو گولی کائنہ کو مجھ سے دور کر گئی وہ اس پستول کی تھی جو میں نے اس دن تمہیں تھمائی تھی۔" ہری آنکھوں میں سرخی پھیل رہی تھی۔
"ایک اور کمزور ثبوت! یہ بات تمہیں اپنے خاص بندوں پوچھنا چاہئیے کیونکہ ان کے پاس اس سب کا جواب موجود ہوگا۔ تم جنہیں مخلص سمجھتے ہو، وہی تمہیں اندر سے کھا رہے ہیں۔" اس نے اپنا کوٹ اٹھا کر بے دردی سے پکڑا اور خرم کو دیکھتا ہوا پاس سے گزر کر باہر نکل گیا۔ خرم نے وجاہت کو دیکھا جس نے میز پر پوری قوت سے مکا مارا تھا۔
"وہ کبھی نہیں مانے گا باس!۔" خرم نے ہمت جمع کرتے ہوئے بلآخر کہا۔
"وہ کیوں نہیں اپنا جرم قبول کرتا۔" میز پر رکھے لیپ ٹاپ کو اس نے ہاتھ مار کر نیچے پھینکا۔
"ہمیں اسے شوٹ کردینا چاہئیے۔ اگر آپ کہیں گے تو یہ کام میں کردوں گا۔" اس کے دماغ میں بہت سی باتیں چل رہی تھیں۔ آج اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد وہ کم از کم ساویز کو مزید کچھ بولنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔۔ جبکہ دور کھڑا عادل خرم کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے کا بدلتا رنگ وجاہت کی نظروں میں نہ آسکا مگر پاس کھڑا عادل اسے نوٹ کر گیا تھا۔
"یہ ناممکن ہے۔ اس کے کچھ بھی قبول کرنے سے پہلے میں ایسا نہیں کرسکتا۔" وہ وہیں کرسی پر بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔پریزے نے اسے صرف ایک موقع دیا تھا اور اس کے بعد بھی وجاہت کا کام نہیں نکل سکا۔ ایک بار پھر ناکامی پر اس نے پوری قوت سے میز پر مارا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
ایک مشکل ٹلی نہیں تھی کہ دوسری آکھڑی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھ صبح بارہ بجے بابا کی دھاڑ پر کھلی تھی۔ ان کے آج پاکستان آنے کا وہ یکثر ہی بھول چکا تھا۔ غنایہ کو اوپر ہی ٹھہرنے کا کہہ کر وہ نیچے کی جانب بڑھا۔
"اسلام علیکم۔" انہیں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا دیکھ کر وہ ان کے سامنے کھڑا ہوا۔ کوٹ اور پینٹ میں ملبوس تقی خانزادہ نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
بکھرے بال، اور آنکھوں میں نیند جمع کیے وہ انہیں بغور دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ان کتنے سالوں میں ان کے چہرے پر مزید پختگی آگئی تھی۔ پہلے سے بھی زیادہ سنجیدے اور غصے والے معلوم ہوتے۔ باپ کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے اس نے نگاہ جھکا لی۔
"کون ہے وہ لڑکی؟۔" ایک ایک لفظ سختی سے ادا کیا گیا تھا۔ غنایہ سب سے اوپر والی سیڑھی پر کھڑی انہیں کنارے سے دیکھ رہی تھی جسے ساویز تو دیکھ سکتا تھا مگر تقی نہیں۔۔
"غنایہ نام ہے۔" اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اتنے سالوں بعد انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو اس سے حال چال دریافت کیوں نہیں کی۔ وہ یہ سوچ کر سر جھٹک گیا کہ کون سا اسے فرق پڑتا ہے۔
"بلاؤ اسے!۔" اس بار انہوں نے بلند آواز میں کہا۔ غنایہ کو سانسیں اکھڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ ساویز نے نگاہ اٹھا کر غنایہ کو دیکھا جس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار کافی نمایاں تھے۔
"آپ اس سے کچھ کہنے والے ہیں؟۔" پیشانی پر بل نمودار ہوئے۔
"ہاں!۔" انہوں نے آنکھیں دکھائیں۔ "مجھے بھی تو پتا چلے کہ جس پر پہلے سے ہی ایک قتل کا الزام لگا ہوا ہے اس سے شادی کیسے کر لی جاتی ہے۔ کون سا باپ ہوتا ہے جو اپنی بیٹی کو یوں بنا سوچے سمجھے بیاہ دیتا ہے۔" ان کا مزاج ویسا ہی تھا۔۔ اکھڑا اکھڑا۔۔ ایک بات تو طے تھی۔ وہ کبھی نہیں بدل سکتے تھے۔
ساویز کے کان کی لو سرخ ہوئی۔ وجاہت سے گفتگو کے بعد دماغ پہلے ہی الجھا ہوا تھا۔
"کم از کم وہ اپنی اولاد کو چھوٹی عمر میں تنہا نہیں کر جاتے ہیں۔" زندگی میں پہلی بار وہ بلآخر بول پڑا۔ اسے تکلیف ہوئی جب اس کے باپ نے قتل کے الزام کا خود ذکر کیا۔
"تو اتنے بڑے ہوگئے ہو کہ باپ کے آگے کھڑے ہو کر اس کو جواب دو گے؟۔" وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑے ہوئے۔ "یاد ہے یا بھول گئے یہ گھر کس کا ہے اور یہ بزنس جس کے حاکم بنے تم پھرتے ہو؟؟۔" لہجہ حاکمانہ تھا۔
ساویز نے بمشکل ضبط کیا۔
"میں جانتا ہوں بابا۔ یہ سب آپ کا ہے۔۔ مگر یہ سب میرے لیے اتنا ضروری نہیں کہ میں کوئی الزام برداشت کرسکوں۔" لہجہ دھیما مگر گھمبیر تھا۔
"تو یعنی تم گھر چھوڑ کر بھی جا سکتے ہو؟۔"
"اگر ضرورت پڑی تو۔۔" اس کا یہ کہنا ہی کافی تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
پوری رات اس ٹینشن میں گزار دینے کے بعد کہ کیا فاری کمپنی کے ساتھ کنٹریکٹ ہو سکے گا یا نہیں، وہ بلآخر آفس کے کیفیٹیریا میں بیٹھی تھی۔
"تم دیکھ لینا۔۔ وہ نہیں آئے گا۔ بہت خوددار ہے! میرے اتنے برا بھلا کہنے کے بعد تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ اپنے باس کے آگے خاموش رہے گا؟ یقینا اس نے ہماری کمپنی کے بارے میں شکایت کردی ہوگی۔" پریشانی سے پیشانی مسلتے ہوئی وہ صوفیہ کی مسکراہٹ گہری کر گئی۔
"تم اگر اس سے سنبھل کر بات کرتی تو شاید وہ ایسا نہیں کرتا۔ آؤ کیبن میں چلتے ہیں۔ بہت وقت ہوگیا ہے ہمیں کیفیٹیریا میں۔۔" اس کی کافی ختم ہوئے آدھا گھنٹہ ہوچکا تھا۔
"اوہ نہیں! بلکل بھی نہیں۔۔ مینجر دیکھ لیا تو پوچھ بیٹھیں گے کہ کیا صورتحال ہے اور میں ان سے کیسے کہوں گی یہ سب؟۔" دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر وہ میز کو تکنے لگی۔
"تو بلآخر فیصلہ ہوا کہ رافع اسی آفس میں ٹھہرنے والا ہے۔ بہرحال تم جو بھی کہو! اب تو مجھے میرویس پر بھی تھوڑا تھوڑا یقین ہو رہا ہے۔ اگر مینجر چاہتا تو باس سے کہلوا کر رافع کو فائر کرسکتا تھا۔ بلکہ یہ تو ایک اچھا قدم ہے۔ اس سے باس فاری کمپنی سے خود ریکویسٹ کرتے اور معاملہ بحال ہوجاتا۔" وہ اس کا ہاتھ تھتھپاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ عشنا نے اس کا چہرہ اور سوچ میں پڑ گئی۔
"میرا دل چاہ رہا ہے میں رو پڑوں! یہ کانٹریکٹ تو میری جان پر بن آیا ہے۔" صوفیہ کے ہمراہ وہ اندر کی جانب بڑھ رہی تھی۔
"سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا عشنا۔ تم دماغ پر زیادہ سوار کر رہی ہوں۔ پریشانیوں کو ڈیل کرنا آنا چاہئیے یار۔۔"
سامنے میٹنگ روم تھا اور ادھر پورا اسٹاف اپنا کام کر رہا تھا۔ وہ اس کی بات کا ابھی کوئی جواب ہی دیتی جب میٹنگ روم سے نکلتے گہرے نیلے رنگ کے کوٹ میں ملبوس میرویس پر نگاہ پڑی۔ نگاہ ساکت ہوئی تھی جبکہ قدم ٹھہر گئے تھے۔ صوفیہ نے بھی کافی چونک کر اسے دیکھا۔ پلکیں جھپکیں اور پھر ایک اور بار آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں فائل تھی جس پر نگاہ دوڑاتے ہوئے اس نے بند کی اور ارد گرد نگاہ دوڑانے لگا۔ نظر اس پر پڑی تو ٹھہر سی گئی۔ پیشانی پر سنجیدگی کے بل نمایاں تھے۔ نعمان کے پکارنے پر اس کی جانب متوجہ ہوتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔
"کانٹریکٹ۔" صوفیہ نے بےخودی میں مختصراً کہا۔
"وہ آگیا صوفیہ۔۔ اس سب کے باوجود بھی وہ آگیا۔" عشنا کو یہ سب بے یقین سا لگا۔
"وہ خوددار ضرور ہے مگر بے حس نہیں۔۔ اسے تمہاری پرواہ ہے۔" ایک نگاہ عشنا پر مسکراتے ہوئے ڈالتی، وہ اپنے کیبن کی جانب بڑھ گئی۔ میٹنگ روم میں یقیناً کانٹریکٹ پر بات ہو رہی تھی۔ اسے وہ لڑکی رابعہ بھی نظر آئی جو میرویس کے ساتھ اسے ریسٹورینٹ میں دکھی تھی۔ تو گویا سب کچھ اس کی پسند کا ہو رہا تھا۔ دل یکدم ہی ڈھیروں اطمینان سے بھر گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"طلاق دو اس لڑکی کو! میں یہ سب اس گھر میں برداشت نہیں کرسکتا۔ تمہیں لگا تھا یوں چھپ کر نکاح کرو گے اور خبر تک نہ ہوگی؟ جس آفس میں باس کی حیثیت سے کام کرتے ہو وہ میرا ہی ہے۔ اندر کام کرنے والے لوگ بھی میرے ہیں!۔" ایک غصہ تھا جو ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
غنایہ کا وجود لمحہ بھر کو کپکپایا۔
"جہاں اتنے سالوں سے باہر تھے، وہاں اب ایک خبر سن کر پاکستان چلے آئے؟؟۔" وہ ایسا نہیں کہنا چاہتا تھا۔ "میں مروں یا جیوں آپ کو کبھی کوئی غرض نہیں رہا تو اب کیوں حق جتا رہے ہیں بابا؟ آپ کو کبھی فیملی نہیں چاہئیے تھی! آپ امی سے شادی کے بعد بھی اکیلے ہی تھے اور امی کے بعد بھی اکیلے ہی ہیں! مگر میں آپ جیسا نہیں۔۔ مجھے سکون بھری زندگی چاہئیے۔ میری زندگی میں جو کمیاں تھیں وہ میری بیوی پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔۔ اب مجھے اس کے سوا کچھ نہیں چاہئیے۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں اس طلاق کے لفظ میں کیسے نہیں چیخ پڑا۔ شاید آپ میرے باپ ہیں۔۔ اور میں آپ کی عزت کرتا ہوں۔" چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک پھیلے ہوئے تھے۔
"مجھے لگا تھا تم اپنے کیرئیر کو ترجیح دو گے۔"
"کون سا کیرئیر بابا؟ پڑھائی مکمل ہوگئی اور بزنس تو ساتھ ساتھ چل ہی رہا تھا۔ جس بزنس پر میں نے اپنے کتنے سال برباد کیے اور آج مجھے کہا جا رہا ہے کہ وہ میرا تھا ہی نہیں۔۔ میں نے اس کاروبار کو آگے بڑھایا حالانکہ آپ کے جانے کے بعد کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اپنی محنت، اپنا وقت، اپنی طاقت لگادی مگر مجھے کیا ملا؟ بلآخر آپ نے احساس دلا دیا کہ نہ یہ گھر میرا اور نہ وہ بزنس۔۔ میں بس ہاتھوں میں نچانے والا کھیل کا حصہ بن گیا۔" چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ اتنے سالوں کی محنت باپ کے الفاظوں سے ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔ "مجھے سکون چاہئیے۔۔ صرف سکون! جو مجھے ان چوبیس پچیس سالوں میں کبھی حاصل نہیں ہوا۔ ایک سے بڑھ کر ایک مشکل کا سامنا کرتے کرتے میں بھی گیا ہوں۔ نہیں چاہئیے یہ گھر اور نہ ہوس ہے اس بزنس کی۔۔ ایک سکون بھری زندگی کا طلب گار ہی رہ گیا ساویز۔۔ بدقسمت ساویز۔۔" ہونٹ لرز اٹھے۔
"تو جاؤ اور دفع ہو جاؤ اس گھر سے! کچھ دن دور رہو گے سے تو عقل ٹھکانے آجائے گی کہ پیسوں کے بنا زندگی نہیں گزرتی۔ پاکستان سے باہر ہو کر بھی میں بزنس پر نظر رکھ رہا تھا۔ جانے کیا کمال ہے تمہارا! بیوی نہیں چھوڑ سکتے تو گھر سے جا سکتے ہو۔" شخصیت میں ہمیشہ سے ایک رعب تھا۔ وہ کبھی کسی کی بات کو اپنے آگے ٹھہرنے نہیں دیتے تھے۔۔ تو یہی کچھ ساویز کے ساتھ ہوا۔ وہ لمحے بھر کو ششدر ہوا اور پھر ٹھہر کر انہیں دیکھنے لگا۔ ہمیشہ سے اپنی انا کے اشاروں پر چلنے والے تقی خانزادہ اس بار بھی اپنی انا کے ہاتھوں ہی مجبور ہو گئے تھے۔ ساویز نے نگاہ اٹھا کر غنایہ کو دیکھا جو پھٹی آنکھوں سے ساویز کو ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک خوف تھا۔۔ اب کیا ہوگا؟ کیسے گزرے گی زندگی؟
البتہ تقی خانزادہ کا دل عجیب طرح سے لرزا تھا مگر انا کا پلڑا زیادہ بھاری تھا۔
"جاہل نہیں ہوں میں۔۔ ایک بہترین ڈگری میرے پاس موجود ہے۔ اچھی جاب مل سکتی ہے مجھے۔۔ جو کماؤں گا اسی کے سہارے زندگی جیوں گا اور جی کر دکھاؤں گا۔" لہجہ دھیما اور بے حد عام سا تھا۔ وہ بس ایک بات کہہ رہا تھا جسے وہ سچ کر کے دکھانے والا تھا۔ "مجھے ان سب کی ضرورت نہیں۔۔ البتہ آپ کو میری یاد آئے تو پکار سکتے ہیں۔" دل بوجھل ہوگیا۔۔ اداس۔۔ خوابوں کی کرچیاں کبھی ایسے بھی ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔ غنایہ نے اسے بغور دیکھا۔ باپ کے اتنا چیخنے پر وہ ایک بار بھی جواباً نہیں چیخا تھا نہ اپنی بات منوانے کی کوشش کی تھی۔ وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگا جب ان کی آواز نے اسے پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کیا۔
"تو یعنی تم یہ عیاشیاں چھوڑ سکتے ہو مگر بیوی نہیں؟۔"
"سکون کیسے چھوڑ دوں؟۔" یہ چار لفظ عام سے تھے مگر بلا کے گہرے۔۔ کہ تقی بھی اس کا چہرہ ہی دیکھتے رہ گئے تھے۔ ساویز نے باپ کو دکھی دل سے دیکھا تھا اور اوپر کی جانب بڑھ گیا۔۔ کہ چلو زندگی کو یہ منظور ہے تو یہی سہی۔۔ وہ ایک ایک بات ثابت کر کے دکھائے گا کہ پیسے سے آپ سکون نہیں خرید سکتے مگر ہاں محبت سے خرید سکتے ہیں!۔
۔۔۔★★★۔۔۔
تمام فائلز اکھٹی کر کے اس نے مینجر کے کمرے کا رخ کیا۔
"یہ میں دے آتی ہوں۔ مجھے بھی کام کی وجہ سے مینجر کے روم کی طرف جانا ہے۔" صوفیہ کی آواز پر وہ مڑی۔
"نہیں مجھے ان سے اب رافع کے بارے میں بھی بات کرنی ہے۔ میٹنگ ختم ہونے والی ہے اور مینجر ابھی ابھی میٹنگ روم سے باہر آئے ہیں۔ شاید یہ صحیح موقع ہے۔" اسے سمجھاتے ہوئے وہ دوبارہ آگے کی جانب بڑھ گئی۔
وہ کوئی چار پانچ بھاری فائلز تھیں جنہیں بمشکل تھام کر وہ مینجر کے روم کے باہر پہنچی تھی۔
"کیسے ہو سکتا ہے؟۔" رافع کی ادھوری بات اس کے کانوں پر پڑی۔ عشنا چونکی۔ بھلا رافع مینجر کے روم میں کیا کر رہا تھا۔
"تم کہیں نہیں جا رہے بے فکر رہو! میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ مس عشنا کو کہتا کہ میرویس سے بات کرے۔" مزاج بہت اچھا تھا۔ عشنا جہاں کی تہاں رہ گئی۔
"اسے لگتا ہے کہ وہ رافع کو نکلوائے گی؟۔" رافع کے ہنسنے کی آواز اس نے واضح سنی۔ دماغ یکدم ہی سن ہو گیا۔
"کانٹریکٹ سائن ہوگیا ہے اور میٹنگ بس ختم ہی ہونے والی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد وہ میرے پاس ضرور آئے گی مگر میں بہلا دوں گا۔ اس کمپنی کو تمہاری ضرورت ہے اور تمہیں کوئی نہیں نکال سکتا۔" مینجر کے قہقہے نے جیسے عشنا کے رخسار پر شرمندگی کا طمانچہ مارا تھا۔ وہ اپنے ہی کمپنی کے مینجر کے ہاتھوں بے وقوف بن گئی تھی۔ چال ڈھیلی پڑنے لگی تو وہ فائلز وہیں پھینکتی ہوئی اپنے کیبن کی جانب بڑھی۔
"کیا ہوا ہے؟۔" صوفیہ نے اسے پرس میں چیزیں رکھتے دیکھا تو کچھ حیران ہوئی۔
اعتماد، بھروسہ سب ٹوٹ کر بکھر گیا تھا۔۔ اب رہ گیا تو صرف پچھتاوا اور شرمندگی۔۔
آنکھیں نم ہونے میں ذرا وقت لگا تھا مگر اس سے قبل ہی وہ جان چکی تھی کہ میرویس کی کہی تمام باتیں درست تھیں۔
"تم رو رہی ہو؟ ہوا کہا ہے عاشی؟۔" صوفیہ کا پریشان ہونا جوابی تھا۔
"مجھے ابھی جانے دو۔" پلکیں گیلی ہونے لگیں تو وہ پرس کندھوں پر لٹکاتی گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے تیزی سے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"یہ کیسے ہوگا ساویز۔۔" گھٹی گھٹی سی آواز حلق سے نکلی۔
"کچھ ضروری سامان پیک کر لو۔ میں کسی سے وقتی طور پر گھر کا کہتا ہوں۔" وہ موبائل پر کسی کا نمبر ملا رہا تھا۔
"امی ابا؟۔" وہ انہیں کیا بتائے گی۔ اس کے لفظوں پر وہ ٹھہر کر غنایہ کو دیکھنے لگا۔
"انہیں خود بتاؤ گی یا پھر میں بتادوں؟۔" یہ سب اس لیے کہا گیا تاکہ وہ اس کے تاثرات جانچ سکے۔
"میں بتادوں گی۔۔ مگر آپ مجھے طلاق تو نہیں دیں گے نا؟۔" ایک خوف کے بعد ایک اور خوف میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
"یہ ناممکن کی فہرست میں ہے۔ تمہارے لیے سب چھوڑ رہا ہوں۔ بس میرا ساتھ مت چھوڑنا۔" دونوں کے دل ہی غم سے بوجھل تھے۔
"اگر کسی گھر کا انتظام نہ ہوا تو؟۔"
"میرے کافی تعلقات ہیں۔ یہ کام بھی ہوجائے گا۔"
"اگر نہ ہوا تو ہم امی ابا کے گھر کچھ دن ٹھہر سکتے ہیں۔" اس کا یہ مشورہ ساویز کا دل ڈگمگا گیا۔
"نہیں بلکل نہیں! ہم روکھی سوکھی سے گزارا کر لیں گے مگر کسی کا احسان لے کر ان پر بوجھ نہیں بنیں گے۔ تم ساتھ دو گی؟۔" کہیں وہ اس بات پر آمادہ ہی نہ ہو۔
"ہاں۔" ان حالات میں بھی وہ اپنے لبوں پر مسکراہٹ لے آئی تھی۔ مزید دل اداس کر کے وہ ساویز کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تمہیں کیا لگا تھا مجھے آفس سے نکلوانے کے لیے کامیاب ہوجاؤ گی؟۔" وہ استہزایہ انداز میں کہتے ہوئے اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ عشنا جو آفس کی اس خالی منزل سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی، ٹھہر سی گئی۔ "بہت بہادر بننے کی کوشش کرتی ہو؟ جیسے تم جو کہو گی وہ سب مان لیں گے۔" اس کا ایک ایک لفظ عشنا کا دل چھلنی کر رہا تھا۔ اس موقع پر یاد آیا تو میرویس۔۔ وہ ٹھیک کہتا تھا۔۔ اس کا ایک ایک لفظ سچ تھا۔ یہ سب ایک دھوکا تھا۔
"تمہارا دو نمبر مینجر صرف تم سے کام نکلوارہا ہے عاشی! ایک بار یہ کانٹریکٹ ہو جانے دو، پھر نہ تو وہ رافع کو فائر کرے گا اور نہ تمہیں کچھ کہنے کا موقع دے گا۔" میرویس کے یہ الفاظ اس کی آنکھیں نم کر گئے۔ وہ اس بار بھی ہار گئی تھی۔
"میں اس بار تمہارے ساتھ کچھ نہیں کروں گا۔" لبوں پر چلاکی سے مسکراہٹ ابھری۔ "یہ آنسو میرے دل کو تسکین پہنچا رہے ہیں۔ مینجر ہمیشہ سے جانتا تھا کہ میں تمہارے پیچھے ہوں! اس نے تب کچھ نہیں کیا تو اب کیا کرے گا۔۔" فلک شگاف قہقہہ عشنا کی جان کھینچنے لگا۔ آنکھوں میں ڈھیروں آنسو ایک ساتھ بھر آئے۔ وہ اپنا پرس مضبوطی سے پکڑتی تیزی سے باہر کی جانب بھاگی۔ رافع کی ہنسی کی آواز اسے بہت دور سے سنائی دینے لگی۔ وہ عمارت سے باہر نکل رہی تھی جب مردانہ آواز کانوں پر پڑی۔
"کہاں جا رہی ہو۔" اس کی بھیگی آنکھیں وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ آواز پر وہ ساکت ہوئی۔ گردن موڑ کر اسے دیکھا اور پھر ضبط مزید نہ ٹھہر سکا۔ آنکھوں سے آنسو رخسار پر بہنے لگے۔ میرویس نے اندر سانس کھینچی۔
"رک جاؤ۔" اس نے روکنا چاہا مگر وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے پارکنگ ایریا کی جانب بڑھ گئی۔ میرویس تیزی سے لوگوں کے درمیان سے نکلتا اس کے پیچھے بڑھا۔
"آپ کی گاڑی لے آؤں مس عسنا؟۔" گارڈ کی آواز پر میرویس نے دونوں کو باری باری دیکھا۔
"نہیں! فالحال یہ میرے ساتھ جا رہی ہیں۔" جیب سے گاڑی کی چابی نکالتے ہوئے اس نے عشنا کے تاثرات دیکھے۔
"مجھے تم سے ابھی کوئی بات نہیں کرنی میرویس۔" اس نے آج سے قبل کبھی خود کو یوں کمزور محسوس نہیں کیا تھا۔
"تمہیں نہیں لگتا کہ تم نے اپنی بہت من مانی کر لی؟ کبھی کبھار سامنے والے شخص کی بات سن لینا بھی اچھا ہوتا ہے۔" لہجہ قدرے دھیما تھا۔ اس نے اپنی گاڑی کا دروازہ عشنا کے لیے کھولا۔
وہ مزید اپنی نہ کرسکی۔ سست قدم اٹھاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ میرویس نے لب کاٹتے ہوئے اسے دیکھا تھا اور گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"سب غلط ہوگیا۔" آنکھیں رو رو کر تھک چکی تھیں۔ "تم نے ٹھیک کہا تھا۔"
آگے کی جانب گہری کھائی تھی اور پیچھے کچھ دور ہوٹل۔۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں وہ دونوں پانچ سال بعد پہلی بار ملے تھے۔
"اس نے کیا کہا؟۔"
"میں نے رافع کے ساتھ اس کی گفتگو سنی۔ جانتے وہ کیا کہہ رہا تھا؟ یہی کہ وہ اسے کبھی نہیں نکالے گا۔ اس نے میرا استعمال کیا ہے میرویس۔"
میرویس نے نگاہوں کا مرکز کھلے آسمان کو بنا لیا۔
"تم مجھے کچھ کہو گے نہیں؟۔" تھوڑی دیر بعد عشنا نے حیرانی سے پوچھا۔
"کیا کہوں؟۔" وہ خود بھی چونک پڑا تھا۔
"مطلب میں نے تمہاری بات نہیں مانی اور تمہیں یوں برا بھلا کہا۔۔"
"نہیں۔۔ میں تمہیں بھلا کچھ کیوں کہوں گا۔" پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ سیدھا کھڑا ہوا۔
"مجھے تو سمجھ بھی نہیں آتا کہ کیا کہوں جب لوگ مجھ سے تمہارا پوچھتے ہیں۔۔ دوست کہوں یا ایک ایسا شخص جو میری مدد کرنے چلا آتا ہے۔"
میرویس نے ہلکا سا مسکرا کر اسے دیکھا۔
"کوئی تم سے پوچھے کون ہوں میں
تم کہہ دینا کوئی خاص نہیں
ایک دوست ہے کچا پکا سا
ایک جھوٹ ہے آدھا سچا سا
ایک خواب ادھورا پورا سا
ایک پھول ہے روکھا سوکھا سا
ایک سپنا ہے بن سوچا سا
ایک اپنا ہے اندیکھا سا
ایک رشتہ ہے انجانہ سا
حقیقت میں فسانہ سا
کچھ پاگل سا دیوانہ سا
ہے کوئی انجانہ سا
جیون کا ایسا ساتھی ہے
جو دور ہو تو کچھ پاس نہیں"
آخری جملہ اس نے عشنا کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا۔
کیا انداز تھا۔۔ وہ ساکت رہ تھی۔۔ کیا احساس تھا۔۔ اس کا دل ڈولنے لگا۔
"مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس بے نام رشتے کو ختم کردینا چاہئیے میرویس۔۔ جانے یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ایک عجیب سا تعلق ہے جو ہمارے درمیان قائم ہے۔۔ اور ویسے بھی۔۔ تمہیں جتنا برا میں نے کہا اس کے بعد تو کچھ بچتا ہی نہیں۔" وہ پرس تھامتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ "اللہ حافظ میرویس۔۔" اس نے بمشکل تھوک نگلا۔ "شاید یہی بہتر ہے۔۔"
میرویس کی سانسیں رکنے لگی۔ وہ رکی نہیں۔۔ اسے وہیں کھڑا چھوڑ کر پلٹ گئی۔
"پانچ سالوں بعد اگر اب ہم بچھڑیں گے تو کبھی نہیں مل پائیں ہے۔" گھمبیر آواز اس کے قدموں میں زنجیر ڈال گئی۔ دل میں عجیب کچھاؤ سا محسوس ہوا۔ "میرویس اب کھو گیا تو لوٹ نہیں سکے گا۔" یہ الفاظ اپنے اندر سحر رکھتے تھے۔ یکدم ہی اس نے پلٹ کر میرویس کو دیکھا۔۔ جیسے وہ ایسا نہ چاہتی ہو۔۔
"تو کیوں نا راہیں جدا ہی نہ کی جائیں؟۔" وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔
"میرویس۔۔" وہ یکدم ہی بولی۔
"میں دوریاں نہیں چاہتا۔۔ تمہیں ارادہ کرنا ہے۔۔ میرا یقین کرو۔ تمہارا ایک فیصلہ میرویس کو تمہاری نگاہوں سے اوجھل بھی کرسکتا ہے، اور تمہارے قریب بھی کرسکتا ہے، گر تم چاہو تو۔۔" ایک امید تھی۔۔ ایک آرزو۔۔ اسے بغور دیکھتے ہوئے وہ کچھ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ عشنا کی نظریں اس کے چہرے پر ٹک کر اس کے الفاظوں کو محسوس کر رہی تھیں۔
"میں کیا چاہتی ہوں۔۔ مجھے کچھ علم ہی نہیں۔" ایک بار پھر تھوک نگل کر کہا۔ میرویس دھیما سا مسکرایا۔
"کیا یہ 'ہاں' ہے؟۔"
"یہ 'ناں' بھی نہیں۔۔" جانے وہ کیوں اتنے اچانک سے مان گئی۔۔ بس یاد رہا تو یہ کہ وہ میرویس کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میرویس لب بھینچ کر مسکرایا۔ شاید یہ یقین کرنے کا ایک طریقہ تھا۔۔ وہ لڑکی اس کی نگاہوں کے سامنے کھڑی تھی جس کے لیے وہ پانچ سال بھی ٹھہر گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔

تو دل سے نہ اتر سکاWhere stories live. Discover now