اسے یاد نہیں تھا کب اس کو پہاڑ سے دھکا دیا گیا اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی نیچے گر پڑی۔ آنکھ کھلی تو مناظر کچھ مختلف تھا۔۔ پہاڑ جتنا اونچا اب اسے اپنا بستر نظر آرہا تھا۔ فرش پر گر کر لیٹی عشنا تھوڑی دیر کے لیے ساکت رہ گئی۔ ہلکی ہلکی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ خواب کی کیفیت ختم ہوئی تو اس نے حالات پر نظر دوڑائی۔ بستر پر لیٹا میرویس مطمئن سو رہا تھا۔ اگر جاگ رہی تھی تو عاشی! گہری سانس بھرتے ہوئے اسے میرویس کی غلطی سمجھ کر وہ دوبارہ تکیہ اٹھائے بستر پر لیٹ گئی۔ نیند سے آنکھیں بوجھل تھیں سو اسے گہری نیند میں اترتے ہوئے ذرا وقت نہ لگا۔ نیند اس قدر حاوی تھی کہ اس بار میرویس کے خراٹے بھی اسے نہ جگا سکے۔ نہ جانے وہ اس سے کون سے جرم کا انتقام لے رہا تھا۔ صبح کے دس بجنے لگے تھے جب میرویس کے کروٹ نے اسے پوری قوت سے دھکا دیا تھا اور ایک بار پھر وہ فرش کے نذر ہوئی تھی۔ سر فرش پر لگنے کے بعد اس نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ اب اٹھ کر بستر پر لیٹنے کی نہ ہمت تھی اور نہ وہ مزید رسک لے سکتی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہنے کو تھے۔ نیند آنکھوں سے اب کوسوں دور تھی کہ پانچ منٹ انتظار کرنے کے باوجود بھی وہ سو نہ سکی۔ نیچے سے اٹھتے ہوئے وہ اس بار اوپر نہیں لیٹی تھی۔ تکیہ پوری قوت سے غصے کے مارے میرویس پر پھینکا تھا۔ وہ جو پہلے ہی ذرا سی آواز پر اٹھ جایا کرتا تھا، آنکھیں کھول کر عشنا کو دیکھنے لگا۔
"اس لسٹ میں ایک جملے کا اضافہ ہوچکا ہے۔" کلس کر کہتی ہوئی بالوں کا جوڑا بنانے لگی۔
"کون سی لسٹ میں؟۔" نیند سے بھری آنکھوں کو حیرانی سے پھیلاتے ہوئے وہ کچھ اٹھ کر بیٹھا۔
"میرویس سے شادی کے نقصانات!۔" دانت پیس کر کہا گیا۔۔ جبکہ میرویس بوکھلایا۔
"کیا ہوا ہے؟۔" پھولوں سے سجا ہوا کمرہ سورج کی روشنی میں بھلا لگ رہا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟ تمہیں پتا نہیں چلا کہ کیا ہوا ہے؟۔" اس کے برعکس وہ بوکھلائی۔ بھلا ایسا کیسے ممکن تھا۔
"میں تو سو رہا تھا۔" پیشانی کجھاتے ہوئے جھینپ کر اطلاع دی گئی۔
"میں بھی سو رہی تھی۔" جواباً اس نے دانت کچکچائے۔ "مگر تم نے مجھے نیچے پھینک دیا۔۔ وہ بھی دو بار!!۔" کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے وہ اپنے سوٹ کیس کی جانب بڑھ گئی۔ میرویس ششدر رہ گیا۔ اس نے فرش پر نگاہ دوڑائی جہاں پہلے ہی اس کا موبائل اور عشنا کا تکیہ موجود تھا۔ پیشانی پر ہاتھ مارتے وہ کسی شرمندگی سے دوچار ہوا تھا۔
"یا اللہ یہ مجھ سے کیا ہوگیا۔" سونے سے قبل اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ صبح اس طرح بھی ہو سکتی ہے۔
"سوری۔" کپڑے نکالتی عشنا سے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ اس کی گھمبیر آواز کانوں پر پڑی تو غصہ کم ہوگیا۔ دل نرمی سے اس کے لفظ پر اٹک گیا۔
"تم ایسا ہی کرتے ہو؟۔" اس نے پلٹ کر سادے سے لہجے میں پوچھا۔
"میں جان کر نہیں کرتا۔" مسہری سے ٹیک لگا کر وہ اسے پورے انہماک سے دیکھ رہا تھا۔
"کوئی بات نہیں۔۔ غلطی ہوجاتی ہے۔" اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے اس نے پیلے رنگ کا جوڑا بیگ سے نکالا۔
میرویس نے تھوک نگلا۔۔ یہ غلطی تو روز ہوتی تھی۔
یکدم ہی اماں نے دروازہ بجا کر باہر آنے کے لیے آواز لگائی۔ وہ تیزی سے بستر سے اتر کر اس کی جانب بڑھا۔
"ہم آرہے ہیں اماں۔" ہاتھ سے پیلے رنگ کا جوڑا چھین کر سرخ رنگ کا سوٹ نکالنے لگا۔
"یہ پیلا رنگ اچھا ہے میرویس۔" اس نے حیرانی سے اس کے ہاتھ سے جوڑا چھیننا چاہا مگر وہ اسے ہاتھ اٹھا کر اونچا کر چکا تھا۔
"تم میری پسند کا پہنو گی تو اور بھی اچھی لگو گی۔ یہ سرخ رنگ کا جوڑا تم پر بہت زیادہ کھلے گا۔ باخدا!۔" سرخ کام والا جوڑا اس کے آگے رکھتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا۔ البتہ عشنا خفا خفا سی نظریں اس پر ٹکا کر بھولے پن سے اسے دیکھنے لگی۔
"تم بہت بدتمیز ہو۔" ہاتھ سے جوڑا تقریبا کھینچتے ہوئے پکڑا تھا۔
"اور تم بہت خوبصورت۔۔" ہلکا سا ہنس کر محبت سے سرگوشی کی گئی۔ وہ یکدم ہی میرویس کے سامنے سرخ ہوتی اگر جان کر چہرہ نہ پھیر لیتی۔
"شرم نام کی کوئی چیز تمہارے اندر نہیں؟ تھوڑا شرما کر شوہر کو دیکھ لو گی تو مجھے بھی اچھا لگے گا۔" قہقہہ لگا کر اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔
"میں تم سے کیوں شرماؤں؟ نہیں آتی مجھے تم سے شرم!۔" جان کر مسکراہٹ چھپاتے ہوئے وہ اب میچنجگ کی جیولری نکال رہی تھی۔
"ذرا سی بھی نہیں آتی؟۔" وہ حیران ہوا۔
"اتنی سی بھی نہیں آتی۔" عشنا نے بھی ہاتھوں کی انگلیوں کے ذریعے اشارہ کر کے بتایا۔
"بڑی بے شرم ہو تم تو۔۔" یکدم ہی بول پڑا۔ عشنا کھلکھلا دی۔
"اب جیسی بھی ہوں تمہیں گزارا کرنا ہے۔"
"اماں ٹھیک ہی کہتی تھیں۔" منہ بنا کر دیکھتے ہوئے بستر پر لیٹ گیا۔
"کیا کہتی تھیں تمہاری اماں؟۔" وہ انجوائے کرنے لگی۔
"کہہ رہی تھیں بڑی عمر کی لڑکی زبان کی تیز ہوگی۔ میری بات بھی نہیں مانے گی۔۔ لگتا ہے فیصلہ غلط ہوگیا۔" اسے چھیڑتے ہوئے وہ وہیں لیٹ گیا۔
عشنا کچھ پل ٹھہر کر خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔ کیا واقعی اماں اس کے بارے میں ایسا سوچتی تھیں؟۔
"زبان کی تیزی کا تو علم نہیں لیکن ہاں تمہارے غلط فیصلے میں نہیں مانوں گی۔۔ اور اگر یہ غلط فیصلہ ہے تو آؤ ابھی درست فیصلہ لے لیتے ہیں۔" درازوں میں جیولری سینت کر رکھتے ہوئے اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
"میں مذاق کر رہا ہوں یار۔۔" اسے یکدم ہی کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ عشنا سنجیدہ ہو چکی تھی۔ "تمہیں برا لگا؟۔"
"تمہاری اماں نے مجھے تیز زبان کہا مجھے ان کی یہ بات بہت زیادہ پسند آئی۔" کیا یہ طنز تھا؟ وہ سٹپٹایا۔ غلط موقع پر بے حد غلط بات کردی تھی۔ احساس ہوا تو وہ ایک بار پھر شرمندہ ہوگیا۔ اسے اماں کی بات عشنا کو نہیں بتانا چاہئیے تھی۔
"ایسا نہیں ہے۔ میں بس تمہیں چھیڑ رہا تھا۔" اسے اب برا لگنے لگا۔
"ہوں۔ تمہیں شاور نہیں لینا؟ بلکہ پہلے میں ہو آتی ہوں۔ مجھے اپنے کپڑے بتادو۔ میں وہ بھی نکال لیتی ہوں۔" وہ جلدی جلدی سب سمیٹتے ہوئی اٹھنے لگی۔ میرویس چلتا ہوا اس کی طرف آیا۔
"تمہیں برا لگا ہے نا؟۔" دونوں شانوں سے اسے دھیرے سے تھام کر وہ احساسِ شرمندگی میں بولا۔ عشنا اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانکنے لگی جو واقعی افسوس سے گھری تھیں۔ "میں تمہیں اداس نہیں کرنا چاہتا تھا عاشی! تم جانتی ہو نا تم میرے لیے کیا ہو؟۔" اسے خود سے نزدیک کرتے ہوئے وہ پیار سے بولا۔
"تمہیں سچ میں لگا کہ مجھے آنٹی کا وہ سب کہنا برا لگا؟۔" زور دار ہنستے ہوئے وہ میرویس کو ششدر کر گئی۔
"تمہیں برا نہیں لگا؟۔" کیا عجیب بات تھی۔
"تمہاری اماں مجھے چڑیل بھی کہیں گی تو بھی مجھے برا نہیں لگے گا۔ ذرا ذرا سی بات پر خفا ہونے کے لیے تم سے شادی کی تھی؟۔" وہ الٹا اس سے پوچھنے لگی۔ ہنستے مسکراتے لب میرویس کو تسکین پہنچانے لگے۔
"تم بہت بری ہو۔" برہم لہجہ اپناتے ہوئے دور ہٹا۔ "مجھے لگا میری بات سے تمہیں تکلیف ہوئی ہوگی۔ گھبرا گیا تھا یار۔"
"تم جب سے اٹھے ہو مجھے تنگ کر رہے ہو؟ اب اگر میں نے تنگ کردیا ہے تو تمہیں خفا ہونے کی ضرورت نہیں! سمجھے؟۔" ایک بار پھر بات نے ہنسی کا رخ کیا۔ میرویس اپنی مسکراہٹ نہ چھپا سکا۔ "بستر پر اب نہ لیٹنا۔ مجھے اپنے کپڑے بتاؤ۔" اس نے جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ وہ بستر پر دھپ سے گرا۔ ایک بار پھر عشنا کلس پر رہ گئی۔
"مجھے نیند آرہی ہے۔"
"میں نے کہا میرویس اٹھو اور اپنے کپڑے نکالنے میں میری مدد کرو!۔" وہ بھی برابر غصے میں بولی۔ میرویس دانت پیس کر زچ ہوتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"تم کیوں بار بار مجھے احساس دلا رہی ہو کہ میں اب شادی شدہ ہوں؟۔" وہ جو کسی کی آواز پر نہ اٹھتا تھا چار و ناچار بیوی کی پہلی آواز پر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"کیونکہ تم شادی شدہ ہو!۔" میرویس کی وارڈروب کھول کر وہ اس کے کپڑے دیکھنے لگی۔
"کچھ بھی نکال دو۔"
"کرتا نکال رہی ہوں۔ میں نے تمہیں کبھی کرتے میں نہیں دیکھا۔" لبوں پر دھیمی سے مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کے پاس صرف ایک ہی کرتا تھا۔ پوری وارڈروب پینٹ، ٹی شرٹس اور کوٹ سے بھری ہوئی تھی۔
"مجھے کرتا شلوار نہیں پسند! تم کچھ اور بھی دیکھ سکتی ہو۔" اندر سے بھورے رنگ کی ٹی شرٹ وہ ابھی باہر نکال ہی رہا تھا جب عشنا نے اس کا ہاتھ روکا۔
"مگر مجھے پسند ہے۔ جانتے ہو مرد کرتا شلوار میں کتنے اچھے لگتے ہیں؟ پھر جب وہ آستین کے کف فولڈ کر کے کہنیوں تک چڑھاتے ہیں۔" وہ کسی حسرت سے سوچتے ہوئے بولی۔ وارڈروب پر ایک کہنی ٹکائے کھڑے میرویس نے اس کا چہرہ دیکھا۔
"کتنے مردوں کو دیکھ چکی ہو؟۔" شریر لہجہ۔۔
"کل ساویز اور وہاج کتنے اچھے لگ رہے تھے۔ تم نے دیکھا نہیں ان کی شخصیت میں کتنا وقار معلوم ہو رہا تھا۔" دوسروں کی خوبیاں گنواتے ہوئے میرویس کو جلا کر راکھ کر گئی۔
"دوسروں کی اولادوں کو دیکھنے سے بہتر ہے کہ تم میری ماں کی اولاد پر توجہ دو۔ وہ بھی کسی سے کم نہیں۔۔" اس کے ہاتھ سے ہینگر چھینتے ہوئے وہ واش روم کی جانب بڑھا۔ عشنا دھیما سا مسکراتی رہ گئی۔ وہ اسی کو تو توجہ دے رہی تھی۔ عشنا کو یاد تھا کہ کیسے رات سے اب تک اس کی توجہ کا مرکز صرف میرویس تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ امی کے ساتھ آج حسبِ معمول بازار آئی تھی۔
"میں نے عشنا سے کہا تھا مگر اس نے ناشتے کے لیے منع کردیا تھا۔ شاید وہ شادی کی پہلی صبح اپنی ساس کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔" سفید پردوں کی تھیلی غنایہ کو تھما کر وہ اب رکشے کا انتظار کر رہی تھیں۔
"مجھے گھر پر ہی اتار دیجئے گا۔" پیشانی پر نمودار ہوتے پسینے صاف کرتے ہوئے ہوئے اس نے ماں سے کہا۔
"ساویز تو گھر پر نہیں ہے۔ پھر کیوں جانا چاہ رہی ہو؟۔"
"اماں ان کے لوٹنے سے پہلے میں گھر کی صفائی کر لوں گی اور کھانا بھی بنادوں گی۔" ماحول میں ہلکی ٹھنڈ ہونے کے باجود اسے بھیڑ کی وجہ سے پسینہ آرہا تھا۔
نگاہ ارد گرد ڈالتے ہوئے وہ اماں کو رکشہ روکتے دیکھنے لگی۔ ابھی مزید انتظار کرتی ہی کہ موٹر سائیکل اس کے آگے کسی نے جھٹکے سے روکی۔ مٹی کا دھواں اٹھا تو آنکھوں میں جانے سے روکنے کے لیے تیزی سے ہاتھ ہلانے لگی۔
"سنا ہے اس چھوٹے سے علاقے میں تم دوبارہ لوٹ آئی۔" اس کی آواز پر غنایہ کا دم گھٹنے لگا۔ وہ اماں کی طرف ہو کر کھڑی ہوگئی۔
"تم یہاں کیوں آئے ہو۔" اس بار اماں نے جواب دیا تھا۔
"مجھے تو لگا چچی کہ تم نے اسے بڑے گھر میں بیاہ دیا ہوگا۔۔ یا پھر اس بیچارے قسمت کے مارے کو بھی تمہاری بیٹی کے نصیب نے کنگال کردیا؟۔" باصم کا زور دار قہقہہ غنایہ کی نفرت کے باعث بنا۔
"دور ہٹو اور دفع ہو یہاں سے!۔" انہوں نے اپنے اندر کافی ہمت جمع کر کے اسے جھڑکا۔
"کتنا دور؟۔" خباثت بھری مسکراہٹ لبوں سے ٹکرائی۔ "مجھے لگا اب بھی اس اونچی عمارت والے گھر میں یہ چڑیا رہتی ہوگی۔۔ تمہیں کیا لگا تھا تمہارے گھر کا پتہ نہیں نکلوا سکوں گا؟۔" بائیک پر ریس دیتے ہوئے وہ کمینگی سے بول رہا تھا۔ "میرا انتظار کرنا۔ نہ آیا تمہارے گھر اور نہ تمہارے شوہر کے سامنے تمہارا کردار خراب کیا تو میرا نام بھی باصم نہیں۔۔" دوسری طرف تھوکتے ہوئے وہ اپنی سگریٹ جیب سے نکالتا سلگانے لگا۔ غنایہ کے ہونٹ لرز اٹھے۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے ماں کا پلو جکڑا۔
"شرم کر باصم! اب تو شرم! اتنی بدنامی کے بعد بھی میری بیٹی پر نظر رکھے ہوئے ہو۔ اس کے شوہر کو علم ہوا تو تجھے نہیں چھوڑے گا۔" امی کو طیش آیا۔ اب وہ پہلی جیسی خاموش عفت نہیں تھیں۔ بیٹیوں کی شادی کے بعد کچھ دلیری تو ان کی ذات کا حصہ بن چکی تھی۔
"تیری بیٹی کا پیچھا چھوڑا ہی تو تھا۔ جب ہی تو نے اس چڑیا کی شادی کسی اور سے کردی۔۔ مگر تم لوگ یہ بھول گئے ہو کہ میں بھی باصم ہوں۔ اپنی بیٹی سے کہنا کسی دن اپنے گھر پر میرا انتظار کرے۔" ذو معنی لہجے میں کہتے ہوئے بائیک بڑھا کر لے گیا۔ غنایہ سر تا پیر کانپ اٹھی۔ عفت بھی رکشہ تیزی سے روکتے ہوئے غنایہ کو لیے اس میں بیٹھ گئیں۔ مزید ٹھہرنا درست نہیں تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
سرخ رنگ کے جوڑے میں ملبوس، کلائیوں میں سرخ چوڑیاں اور لبوں پر گہرے رنگ کی لال لپ اسٹک۔۔ آنچل کندھے پر لٹکاتے ہوئے اس نے باہر جا رخ کیا۔ کمرہ میرویس کی موجودگی سے خالی تھا۔ وہ اس کے تیار ہونے سے قبل خود تیار ہو کر باہر نکل چکا تھا۔
"اسلام علیکم۔" کچن میں ہی اسے اماں کھڑی ملیں۔
اماں نے پلٹ کر اسے سر تا پیر دیکھا۔
"وعلیکم سلام۔" سنجیدہ لہجہ۔ وہ میرویس کے لائے ناشتے کو پلیٹ میں نکال رہی تھیں۔
تھوڑی دیر انہیں یوں کام کرتا دیکھ کر اسے یکدم ہی خیال آیا۔
"لائیں میں آپ کی مدد کر دیتی ہوں۔" ان کے روکھے رویے کو بہت اندر تک محسوس کر رہی تھی۔
"مجھے لگا تھا ناشتہ تمہارے گھر سے آئے گا۔" کانچ کی پلیٹیں کیبنٹ سے نکالتی ہوئی وہ عشنا کے ساتھ ساتھ پیچھے داخل ہوتے میرویس کو چونکا گئیں۔ "میں اور روما تو انتظار بھی کر رہے تھے۔"
"جی وہ میرویس نے منع کردیا تھا۔" اسے میرویس کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔ ہچکچا کر بات بتاتے ہوئے اس نے پراٹھوں کی تھیلی اپنی جانب کھینچی تاکہ ہاٹ پاٹ میں رکھ سکے۔
"میرویس نے منع کیا تھا؟۔" وہ الجھیں۔
"ہاں اماں۔۔ میں نے سوچا تھا کہ شادی کی پہلی صبح صرف ہم چند لوگ ہی ساتھ ناشتہ کریں۔" بیوی کے تاثرات محسوس کرتے ہوئے اس نے طرف داری کی۔ وہ گھبرائی ہوئی کھڑی تھی۔ اماں نے اثبات میں سر ہلایا۔
"انہیں میز پر رکھ دو دلہن۔" اسے ہاٹ پاٹ پکڑاتے ہوئے باہر جانے کا اشارہ دینے لگیں۔
"میں چائے بنا دیتی ہوں۔" دوبارہ کچن میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہوئے وہ باہر کی جانب بڑھی۔
"نہیں نہیں۔۔ روما چائے بنا دے گی۔ اب تم ایک دن کی دلہن ہو کر کام کرو گی تو اچھا نہیں لگے گا۔" یہ جملہ بھی انہوں نے سنجیدگی سے ہی ادا کیا تھا۔ ان کی بات پر عشنا نے ٹھہر کر بجھتے چہرے سے شوہر کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔
تقریباً دس منٹ بعد میز کے ساتھ لگی کرسیوں پر بیٹھتے ہوئے عشنا نے میرویس کو دیکھا تھا۔
"انہیں شاید اچھا نہیں لگا۔" ہونٹ کی کھال اکھیرتے ہوئے معصوم لہجہ میں گویا ہوئی۔ "میں امی اور غنایہ سے کہہ دیتی ہوں۔ وہ دونوں ناشتے کا سامان لے آئیں گی۔" اماں کے لہجے سے وہ اداس ہو چکی تھی۔ البتہ میرویس بیوی کے چہرے پر اداسی نوٹ کر چکا تھا۔
"تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔۔ وہ بس سرسری پوچھ رہی تھیں کیونکہ انہیں یہی لگا تھا کہ ناشتہ آئے گا۔ کچھ میری بھی غلطی ہے۔ مجھے بتادینا چاہئیے تھا کہ میں تم سے ناشتے کا منع کروا چکا ہوں۔" آستین کے کف فولڈ کرتے ہوئے اس نے تسلی دی۔ عشنا کی نگاہیں اس کے انداز پر ہی اٹک گئیں۔ سفید کرتے پر سلیقے سے بال بنائے ہوئے تھے۔ ایک ہاتھ کی کلائی میں گھڑی بندھی تھی اور اس ی ہاتھ سے دوسری آستین کے کف فولڈ کیے جا رہے تجے۔ لمبا چوڑا اور کشادہ سینہ۔۔ وہ لمحہ بھر کو ٹھہر سی گئی۔
"تم بہت اچھے لگ رہے ہو۔" بجھے لہجے کی جگہ اب مسکراہٹ نے لے لی۔ وہ کچھ چونک کر اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔
"تمہیں میں اس ڈریسنگ میں اچھا لگا؟۔" وہ الٹا اس سے پوچھنے لگا۔
"تم پر یہ ڈریسنگ بہت اچھی لگتی ہے۔ آج سے قبل میں نے کبھی تمہیں ایسے نہیں دیکھا۔" مبہم سی دل موہ لینے والی مسکراہٹ۔۔
میرویس مسکرا دیا۔ مسکراہٹ اس قدر گہری تھی کہ لبوں سے جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ عشنا کے لبوں سے یہ تعریف وہ زندگی بھر یاد رکھنے والا تھا۔
"بھابھی آپ کتنی زیادہ پیاری لگ رہی ہیں۔" بالوں کی چٹیا بنائے روما کچن کے دروازے سے باہر نکلی۔ نگاہ اس کی مہندی سے بھرے ہاتھوں پر ہی ٹک گئی۔ "یہ مہندی بھی کتنی بھری بھری اور خوبصورت ہے۔۔ آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں بھابھی۔" وہ اس کے تھامے بغور دیکھ رہی تھی۔ اس کی لپ اسٹک، سرخ نگوں والی انگھوٹی، گلے میں باریک چین، چوڑیاں، ہلکے ہلکے جھمکے اور آنکھوں میں لگا کاجل۔۔ یہ سب کسی کی بھی توجہ کھینچ سکتے تھے اور میرویس کی بھی۔۔
"تم بھی بہت پیاری ہو روما۔۔ کل شادی میں بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔" اس کے گال کھینچتے ہوئے وہ اسے بلکل چھوٹے بچوں کی طرح ٹریٹ کر رہی تھی۔
"چلو اب تم لوگ ناشتہ کرلو۔ میں دوپہر تک روما کو ساتھ لے کر گھر چلی جاؤں گی۔ اب ماشاءاللہ دونوں میاں بیوی ہو اور زندگی ساتھ گزارنی ہے۔ جلد تم لوگوں کو نئی روٹین کی عادت ہوجائے گی۔" چائے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے وہ کوئی بات سمجھا رہی تھیں۔ "تمہارا ولیمے کا کب ارادہ ہے؟۔" انہوں نے میر سے پوچھا۔
"ابھی نہیں۔۔ ایک ہفتے بعد۔۔ ابھی کافی کچھ کام نمٹانے ہیں۔" ہاتھ آپس میں رگڑتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
"کیا تم شادی کے بعد بھی نوکری کرو گی؟۔" انہوں نے یکدم ہی سوال کیا۔ وہ بری طرح چونک اٹھی۔ یہ سوال کتنا عجیب تھا۔
"جی۔" اس نے میرویس کو دیکھ کر جواب دیا۔ میرویس نے ایک نظر ماں کو دیکھا، پھر عشنا کو۔۔ چائے کا مگ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔
اماں نے اس کا چہرہ تکتی رہ گئیں۔ موڈ یکدم ہی خراب ہوا اور انہوں نے کچھ بگڑ کر بیٹے کو دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں 'لو دیکھ لو۔۔ کہا تھا نا یہ لڑکی ایسا ہی کرے گی'
حالانکہ سب باتوں کو سنتا میرویس مطمئن تھا۔ روما کے آگے پلیٹ رکھتے ہوئے اس نے ہاٹ پاٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا۔
اماں کے یوں میرویس کی جانب دیکھنے پر عشنا بوکھلائی تھی۔ تو کیا اس کی جاب کرنے پر اماں کو اعتراض تھا۔
"مجھے لگا تھا تم شادی کے بعد اپنے یہ کام چھوڑ دو گی۔" روکھا لہجہ۔۔
"اماں وہ اتنے سالوں سے جاب کر رہی ہے۔" اس بار میرویس گویا ہوا۔
"تو شادی کے بعد بات مختلف ہوجاتی ہے نا بیٹا۔" اماں نے پہلے میرویس کو آنکھیں دکھانی چاہیں۔ وہ ابھی کچھ کہتا ہی کہ اماں نے چپ کروایا۔ "میرے آگے کچھ نہ کہنا۔" میرویس نے خود پر بمشکل ضبط کیا۔ عشنا کا چہرہ روہانسا ہوگیا۔ وہ سامنے پلیٹ میں رکھا پراٹھا تکتی رہ گئی۔ البتہ روما کو اماں کا یوں اس کی نئی اور پیاری بھابھی کو یہ سب کہنا اچھا نہ لگا۔ وہ اس کا ہاتھ سہلاتی ہوئی جوس کا گلاس اس کی جانب بڑھانے لگی۔ میرویس کو تکلیف محسوس ہوئی۔ اس کا دل چاہا میز چھوڑ کر کمرے میں چلے جائے مگر وہ یوں کر کے عشنا کے سامنے اماں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میر جانتا تھا عشنا خاموش رہنے والوں میں سے نہیں۔۔ وہ چاہے تو اماں کو جواب دے سکتی تھی مگر اس کی نظر میں اماں کے لیے ایک احترام اور عزت تھی۔ عشنا روما کی حرکت پر جی جان سے مسکرائی۔ کافی دیر ہوچکی تھی۔ بات کو ایک دم دباتے ہوئے اس نے پراٹھے کی جانب ہاتھ بڑھائے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں نہیں جانتا وہ اب بھی میرے ہی پیچھے کیوں پڑا ہے؟ الزام کتنا بے وقوفانہ ہے۔ اس کی بہن کا قتل اس کے ہی گھر پر؟ تم جانتے ہی ہو جو گھر پہلے ہی گارڈز سے گھرا ہو وہاں کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔" پیشانی پر الجھنیں پھیلی ہوئی تھیں۔
"میں جانتا ہوں یہ سب۔۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ اس قتل کا ذمہ دار تمہیں ہی کیوں ٹھہرانا چاہتا ہے۔" لہجہ کچھ عجیب سا تھا۔ وہاج کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی تو اس نے زور لگا کر اندر سانس کھینچی۔
"میں نہیں جانتا۔" اس نے نگاہ وہاج پر ڈالی۔
"میں اسٹوڈنٹس کی کلاس لے رہا تھا جب مجھے میرویس نے کائنہ کے قتل کا بتایا۔" آنکھیں کی پتلیاں آسمان ٹک گئیں۔ "مجھے لگا جیسے میرا وجود سر تا پیر لرزا ہو۔" نگاہ ساکت تھی۔ وہ چاہ کر بھی ہٹا نہ سکا۔ ساویز نے کچھ عجیب نگاہوں سے اسے دیکھا۔ وہ اس طرح سے کائنہ کا ذکر کیوں کر رہا تھا۔
"اور مجھے علم نہیں تھا کہ اس دن کے بعد سے میری زندگی ہوں جہنم بنے گی۔" کنکر کو ٹھوکر مارتے ہوئے اس نے جھٹکے سے کہا۔ وہاج اس کا چہرہ تکتا رہ گیا۔
"میں وجاہت سے کل ملنے جاؤں گا۔ حیرت ہے وہ ان چند دنوں میں ایک بار بھی نظر نہ آیا۔" لہجہ سنجیدہ تھا۔
"میں نہیں جانتا اس کے دماغ میں اب کیا چل رہا ہے۔" کندھے اچکائے گئے۔ "تم لاہور کب جانے والے ہو؟۔"
"چار سال سے اپنے ماں باپ کو نہیں دیکھا۔ باہر کی زندگی بہت مختلف ہوتی ہے۔ ہر سال بس یہی سوچتے رہنا کہ اب کی بار چھٹیوں پر ملنے جاؤں گا۔ بلآخر مجھے موقع مل ہی گیا۔ مزید کچھ دن ٹھہر کر میں لاہور چلا جاؤں گا۔ کچھ وقت ان کے ساتھ گزار کر پھر پردیس لوٹنا پڑے گا مگر تم فکر مت کرو۔۔ میں تمہاری پریشانی سلجھا کر جاؤں گا۔" لبوں پر دھیمی سے مسکراہٹ پھیل گئی۔ ساویز جواباً مسکرادیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں سوچ رہی تھی شادی کے دو روز بعد سے ہی جاب کا آغاز کردوں گی۔ جب سے تم نے بتایا کہ تمہیں شادی کے لیے صرف دو روز کی چھٹیاں ملی ہیں تو میں نے بھی یہی سوچ لیا تھا کہ تمہارے ساتھ ہی دو روز مکمل کرکے آفس جانے لگوں گی۔" مسہری سے ٹیک لگاتے ہوئے لب کچلتے ساتھ بولی۔ اماں دوسرے کمرے میں گھر جانے کے لیے بیگ باندھ رہی تھیں۔ سنگھار میز کے آگے کھڑے ہوتے میرویس نے آئینے کے عکس میں اس کا چہرہ دیکھا۔
"تمہیں جاب کرنے سے کوئی منع نہیں کر رہا عاشی۔" صبح سے دوپہر ہو آئی تھی اور وہ اس کا اداس چہرہ کتنے گھنٹوں سے نوٹ کر رہا تھا۔
"مگر مجھے لگتا ہے تمہاری اماں نہیں چاہتیں۔"
"تمہارے نزدیک میری بات کی زیادہ اہمیت ہونی چاہئیے۔ جب میں نے کہہ دیا کہ میری جانب سے کوئی روک ٹوک نہیں تو بلاوجہ کی پریشانی کیوں؟۔" وہ چلتے ہوئے اس کے نزدیک آکر بیٹھا۔
عشنا مسکرا دی۔ اگر ایک جگہ 'میرویس سے شادی کے نقصانات' کی لسٹ وہ تیار کر رہی تھی تو دوسری جگہ خوف بخود 'میرویس سے شادی کے فوائد' والی لسٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔
"رات کا کھانا اماں کی طرف ہے۔ تمہیں یاد ہے نا؟۔" کھلے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ جوڑا باندھنے کی تیاری کرنے لگی۔ ابھی وہ بالوں کو گھماتی ہی کہ میرویس نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"بالوں کو کھلا رہنے دو۔ مجھے یاد نہیں آج سے پہلے میں نے تمہیں کب کھلے بالوں میں دیکھا تھا۔ شاید چھ سال قبل جب یونیورسٹی میں فیشن ایونٹ تھا اور تم تیار ہو کر آئی تھی۔۔ تب میں نے تمہیں سیدھا اپنے دل میں اترتا محسوس کیا تھا۔" اس کی باتیں دل موہ لینے والی تھیں۔ گھٹنوں پر ہاتھ بچھا کر اس نے اپنا سر ٹکایا۔ میرویس کی سیاہ آنکھوں میں اس کا ہی عکس تھا۔
"مینجر کی دی گئی پارٹی میں بھی میں بال کھول کر ہی گئی تھی۔۔" اس نے یاد دلایا۔
"نہیں۔۔ تم نے ہلکا کیچر لگا کر اپنے بال ذرا سے باندھے ہوئے تھے۔ بھلا میری نگاہوں سے تمہارا دیدار کیسے چھوٹ سکتا تھا۔" وہ آج بھی بے یقین تھا۔ ایک لڑکی اس کے سامنے تھی۔۔ مسکراتی ہوئی اس کی باتوں پر کچھ حیرانی سے اسے تکتی ہوئی۔
"تمہیں یاد ہے؟ اتنی پرانی باتیں؟۔" حیران ہونا فطری تھا۔ چھ سال پرانا قصہ اب بھی اس کی زبان پر تھا۔
"مجھے سب یاد ہے عاشی۔" اس کی زلف کو چھوتے ہوئے وہ بے پناہ محبت سے بولا۔
"اچھا بتاؤ اس دن میں نے کون سے رنگ کا سوٹ پہنا تھا؟۔" امتحان لینے کا وقت ہوا جاتا تھا۔ اسے لگا وہ دل ہی دل میں گھبرا گیا ہوگا۔
"تم نے میکسی پہنی تھی۔ جامنی رنگ کی۔۔ بال کھولے ہوئے تھے۔ تم میری محبت کو ایسے نہیں آزما سکتی۔" ناک چھوتے ہوئے وہ سرگوشی کر گیا۔
"میں دیکھنا چاہتی ہوں تمہاری محبت کتنی گہری ہے۔" عاشی جواباً ہنس دی۔
"میری محبت کا کوئی اختتام نہیں۔۔ یہ بس تم سے ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔۔"
"اور اگر میں تمہیں چھوڑ کر چلی گئی تو؟۔" یہ سوال اس نے شرارت میں کیا تھا مگر میرویس کا ساکت ہوتا چہرہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہو سکا۔ وہ ٹھہر سا گیا تھا۔ اس کا چہرہ تکتے ہوئے ہر تاثرات سے عاری، اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم مجھے کیوں چھوڑ کر جاؤ گی۔ میں نے تو کچھ غلط نہیں کیا۔" عشنا کو وہ اس لمحے ایک معصوم بچے کی مانند لگا جو سزا سے قبل کہتا ہے کہ اس نے تو کوئی غلطی نہیں کی۔۔ پھر اسے کیوں سزا دی جارہی ہے۔
عشنا کچھ بھی نہ کہہ سی۔
"فرض کرو مستقبل میں تم نے میرا دل بری طرح دکھایا تو؟ تو پھر بھی تم چاہو گے کہ عشنا تمہارے ساتھ ہی رہے؟۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
"میں تمہارا دل دکھا ہی نہیں سکتا۔" وہ یہ کبھی نہیں مان سکتا تھا۔
"کچھ بھی ہوسکتا ہے میرویس۔۔"
"پھر تم مجھے ڈانٹ دینا۔" اسے مزید کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر وہ تیزی سے بولا۔ "ویسے بھی تم بلکل پروفیسر کریم کی طرح ڈانٹتی ہو۔" اس نے یونیورسٹی کے پروفیسر کی مثال دی۔ عشنا مسکرا دی۔ "لیکن مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ ہم جتنا بھی لڑیں گے، ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑنے کی بات نہیں کریں گے عاشی۔۔ میرے پانچ سال کا انتظار ہو تم۔۔ ملن کے بعد یہ بچھڑنے کی باتیں برداشت کرنا میرے لیے مشکل ہیں۔" اس کے ہاتھ کی پشت سہلاتے ہوئے وہ کھوئے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ عاشی پیار سے اسے دیکھنے لگی جس کی باتیں واقعی اس کے دل میں اپنی محبت کا جال بچھا رہی تھیں۔
"جب میں نے تم سے شادی کا کہا تھا تو ابا بڑے خفا ہوئے تھے۔ پھر بھی میں نے تم سے شادی کی۔۔ کیا ہم کوئی ٹین ایجرز ہیں جو جذباتی فیصلہ لے کر اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کریں گے؟ تم میرے شوہر ہو اور میں تمہاری بیوی! ہم لڑیں گے بھی اور پیار بھری باتیں بھی کریں گے۔۔ مگر کوشش کریں گے کہ لڑائی کبھی اس حد تک نہ بڑھے کہ ہم علیحدگی کا سوچیں۔۔" اس کی تازہ تازہ شیو عاشی کو بھلی معلوم ہوئی۔ وہ مسکرادیا۔ یہ مسکراہٹ پہلے سے زیادہ گہری تھی۔
"ہم شادی کے اگلے روز علیحدگی کا ذکر کر رہے ہیں۔" وہ قہقہہ لگا کر گویا ہوا تو عشنا بھی ہنس پڑی۔ اس نے شوہر کی خوشی کے لیے بال نہیں باندھے تھے۔ شانوں پر لہراتے بال میرویس کی توجہ کے مرکز تھے۔ وہ انہیں دھیرے دھیرے سلجھا رہی تھی اور میرویس کی نگاہ اس کے بالوں پر ہی ٹکی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
چائے کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے آنگن میں اترتی شام محسوس کی۔۔ آج کا دن گزرے دن سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ ہاں بس ایک فرق تھا۔۔ غنایہ نے واشنگ مشین لگائی تھی۔ چند ہی کپڑے تھے جنہیں وہ آج ہی دھو لینا چاہتی تھی۔ آج کا کام کل پر ڈالنا اس کی عادت میں شمار نہیں تھا۔
"تمہارے امتحان کب سے ہیں؟۔" وہ چلتا ہوا باہر صحن میں آگیا۔
"اگلے ہفتے سے۔۔" اگلا سمیسٹر کا آغاز ہونے والا تھا۔ غنایہ نے اس سے ایک بار بھی یہ نہ پوچھا کہ وہ اس کے سمیسٹر کی فیس بھر پائے گا بھی یا نہیں۔۔
وہ اس کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نوٹ کر رہا تھا۔ آدھے گھنٹے سے اوپر ہو چلا آیا تھا مگر یہ 'چند' کپڑے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ یہی وہ پل تھا جب ساویز نے خود کو کمزور سا محسوس کیا۔ نجانے کیا کیا خواہشات تھیں۔۔ کیا خواب تھے جو اب نہیں تھے۔ اس نے غنایہ کے لیے کیا کیا سوچا تھا اور کیا ہو چلا تھا۔
"تم تھک گئی ہو۔" گھمبیر آواز ابھری۔ پوچھا نہیں جا رہا تھا۔۔ غنایہ نے نگاہ اٹھا کر شوہر کو دیکھا۔ کرتی کا دامن بھیگا ہوا تھا۔ ڈوپٹہ کام کے درمیان آنے لگا تو اس نے اتار کر رسی پر لٹکا دیا۔
"ابھی تھوڑا کام باقی ہے ساویز۔۔ یہاں کافی زیادہ پانی ہو رہا ہے۔ آپ کمرے میں بیٹھ جائیں ورنہ پانی کے چھینٹے کپڑوں پر لگیں گی۔" صحن بڑا نہیں تھا۔۔
کافی دیر تک بیوی کو تکنے کے بعد بلآخر وہ کھڑا ہوگیا۔ مگ کھڑکی پر رکھا اور شرٹ درست کرتا ہوا واشنگ مشین تک آیا۔ زمین پر رکھے کپڑوں کو خالی گھومتی واشنگ مشین میں ڈالتے ہوئے اس نے غنایہ کو دیکھا جو آنکھیں پوری کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ میں کرلوں گی۔" آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں۔
"اتنی حیرانی کی بات تو نہیں زوجہ محترمہ! جتنا آپ حیران ہو رہی ہیں۔" لبوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔ اس نے دھلے ہوئے گیلے کپڑوں کو کرسی سے اٹھایا۔
"نہیں ساویز۔۔ میں یہ سب کرلوں گی۔ آپ کیوں خود کو تھکا رہے ہیں۔" اس نے کپڑے ہاتھ سے چھیننے چاہے مگر وہ ساویز کی گرفت میں تھے۔
"میں نے کہا نا حیران مت ہو۔ میں بھی تمہاری مدد کروں گا۔" وہ اسے اکیلے کام کرنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ دوسرا یہ کہ وہ یوں فارغ رہ کر اب تھک چکا تھا۔
"نہیں! میں آپ کو کیسے اجازت دوں کہ میرے ساتھ کپڑے دھوئیں؟ بلکل نہیں۔۔" غنایہ نے اپنی جانب سے زور لگا کر کپڑے کھینچے جو ساویز رسی پر ڈالنے جا رہا تھا۔
"مجھے اچھا لگتا ہے تمہاری مدد کرنا۔۔ اب چھوڑو چلو! مجھے بی سیکھاؤ یہ کپڑے کیسے دھلتے ہیں۔ میرے پاس ویسے بھی ابھی کوئی کام نہیں۔۔" ساویز نے اپنی جانب وہ گیلے کپڑے کھینچے۔ دونوں میں ہی اب بحث شروع ہو گئی۔ دونوں کی پیشانی پر ایک سے بل نمودار تھے۔
"آپ نے کبھی کپڑے نہیں دھوئے!۔"
"ہاں مگر میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔"
"آپ کے کپڑوں بھیگ جائیں گے۔"
"تو بھیگ جائیں۔۔ میں تبدیل کرلوں گا۔" اسی کھینچا تانی میں کب غنایہ کے ہاتھ سے کپڑا چھوٹا اور کب ساویز جھٹکے سے دور ہٹا دونوں کو اندازہ نہ ہو سکا۔ دونوں ہی جھٹکے سے دور ہٹ کر زمین پر گر گئے۔ ساویز کمر اور کہنی سہلاتے ہوئے سیدھا ہوا۔ نگاہ غنایہ سے پر پڑی تو وہ بھی بازو پکڑے بیٹھی تھی۔ نظریں ملیں تو قہقہے کا چھوٹ گیا۔ وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے وہیں لیٹ گئی جبکہ ساویز دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
"سب آپ کی وجہ سے ہوا تھا۔" ہنسی رکی تو اس نے خفا خفا سی نگاہ اس پر ڈالی۔
"میری وجہ سے؟ تم نے زبردستی مجھ سے کپڑے چھیننے چاہے۔" کپڑوں کا ذکر کرتے ہی اسے وہ یاد آئے۔ نگاہ ادھر ادھر ڈالی تو ٹھہر سی گئی۔ دونوں کا ہی منہ حیرت سے کھل گیا۔ وہ گیلے کپڑے گرد سے اٹے گملے کے اوپر پڑے تھے۔
"کام بڑھادیا آپ نے۔۔" وہ جھنجلا اٹھی۔
"تم نے!! میں تو رسی پر ڈال رہا تھا۔" وہ بھی اسے گھورتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ کپڑے اٹھائے اور انہیں باری باری دوبارہ چلتی واشنگ مشین میں ڈال دیے۔ غنایہ یکدم ہی غم سے چیخی۔
"یہ کیا کیا آپ نے؟؟؟۔" پیشانی پر زور سے ہاتھ مار کر وہ اب بے بسی سے ساویز کو دیکھ رہی تھی۔
"تمہاری مدد کرنے کے لیے یہ کپڑے دوبارہ ڈال دیے ہیں۔ اب یہ دھل جائیں گے تو میں رسی پر ڈال دوں گا۔" بھرے بھرے بازو پر ہاتھ پھیرتا ہوا سنجیدگی سے بولا۔
"مشین اتنے سارے کپڑے کیسے ایک ساتھ دھوئے گی؟ یا اللہ!! اس میں پہلے ہی اتنے کپڑے ہیں آپ نے اوپر اور ڈال دیے۔ ایسے نہیں دھلا کرتے میرے پیار شوہر۔۔" اس نے اٹھ کر مشین بند کی اور کچھ کپڑے باہر نکالنے لگی۔ ساویز حیران ہوتا ہوا اسے یہ عمل کرتے دیکھنے لگا۔
"اب اس کا الزام مجھے مت دو۔ یہ تم نے مجھے نہیں بتایا تھا۔" اس نے برابر بیوی کا گھورا۔
"ساری خطا ہماری ہے سرکار۔۔ آپ بیٹھ جائیں اور مجھے صرف کام کرتے ہوئے دیکھیں۔ ورنہ آپ کے ساتھ میرا ایک گھنٹے کا کام چار گھنٹے میں ہوگا۔" اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے وہ اسے دور کر رہی تھی مگر ساویز جیسا کھڑا تھا ویسا ہی رہا۔
"اچھا میں کپڑے رسی پر تو ڈال سکتا ہوں نا؟۔" یہ کام آسان تھا۔ وہ ہنس پڑی۔
"کرسی پر رکھے ہیں۔" اس نے کپڑوں کی جانب اشارہ کیا۔ ساویز مبہم سا مسکراتے ہوئے کپڑے رسی پر ڈالنے لگا۔
"تم جانتی بھی ہو کہ یہ تمہارے بھیگے کپڑے تمہیں بیمار کر سکتے ہیں مگر پھر بھی اس ٹھنڈک میں کام کر رہی ہو۔" وہ کچھ حیران تھا۔ ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے غنایہ کا ڈوپٹہ رسی ہر پھیلایا۔
"اب کام تو روکے نہیں جاسکتے نا ساویز۔۔ آپ بھی تو بھیگ گئے ہیں۔ مجھے تو اس کھلی فضا میں کام کرنا اچھا لگ رہا ہے۔" وہ مشین چلا کر اسے کپڑے ڈالتا دیکھ رہی تھی۔
"اور مجھے تمہارے ساتھ۔۔ جانتی ہو میں نے کبھی اپنے بھی کپڑے نہیں دھوئے۔۔ ذرا سی ٹی شرٹ بھی نہیں! مگر تمہارے ساتھ تو ہر کام لطف محسوس ہوتا ہے۔" لہجے پر دھیمی سی مسکراہٹ بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ "اب میں چائے بنانا بھی سیکھ گیا ہوں۔" وہ بلکل کسی چھوٹے بچے کی طرح اپنے نئے کام بتا رہا تھا۔ غنایہ کی نظروں میں اس کے لیے بے پناہ محبت تھی کہ وہ پوری شام اس کو دیکھنے میں بھی گزار سکتی تھی۔
"میں آپ کو سب سیکھا دوں گی۔" آواز میں لگن تھی۔
"مجھے تم سے انسیت ہے غنایہ۔۔ مجھے لگتا ہے اب تمہارے بنا نہیں رہ سکوں گا۔۔ کبھی بھی نہیں۔" بھوری آنکھوں میں ایک چمک تھی۔
"اور اگر کبھی رہنا پڑ گیا تو؟۔" اس نے دلچسپی سے پوچھا۔۔
"مشکل ہے۔۔ بہت دشوار ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔ اور سوچنا بھی نہیں چاہتا۔۔" اس نے سر جھٹک کر جواب دیا۔
"میں امی کے گھر ایک رات رکنے جانا چاہتی ہوں۔" اس نے اب تک باصم کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور وہ اسے بتانا بھی نہیں چاہتی تھی۔
ساویز نے وہیں سے سر گھما کر اسے دیکھا۔ آنکھیں پھیلنے لگیں اور بنھویں چڑھ گئیں۔
"تم مجھے چھوڑ کر جانا چاہتی ہو؟۔" غم سا محسوس ہوا۔ غنایہ چونکی۔
"چھوڑ کر؟ میں بس اماں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتی ہوں۔ ایک رات گزار کر صبح آجاؤں گی۔" اس نے واضح کیا۔
"ایک ہی بات ہے۔" نگاہیں پھیر لی گئیں۔
"میں وعدہ کر رہی ہوں بس ایک رات گزاروں گی ساویز۔۔ بھلے سے صبح ہوتے ہی آپ مجھے لے آئے گا۔" اب منانا تو تھا۔
"ایک رات؟ میں تمہیں رات کا کچھ حصہ بھی نہ گزارنے دوں غنایہ۔۔ میرے ساتھ زندگی گزارنے کی باتیں کرتی ہو اور مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی؟ جانتی ہو تمہارے بنا ایک رات بھی کرب اذیت ہے۔ یہ گھر تو ویسے ہی تمہارا بنا کھنڈر ہے غنایہ۔۔ میں یہاں کیا کروں گا۔ پوری رات دیواروں کو تکتے ہوئے گزاروں گا؟۔" خفا خفا سا لہجہ۔۔ وہ ٹھیک کہتا تھا۔۔ یہ گھر تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک رہ جائے تو شاید تنہائی سے مرجائے۔ "تم جتنی دفعہ چاہو دن میں اپنی امی کے گھر جا سکتی ہو مگر رات نہیں۔۔ پلیز مجھے فورس مت کرنا۔" اس نے گزارش کی۔ غنایہ حیرت سے دیکھتے ساتھ ہی مسکرادی۔
"ٹھیک ہے۔" ہاتھ ساویز کے بازو پر رکھا۔ "اب آپ اندر جائیں۔۔ یہ کام بس ختم ہوگیا ہے۔ میں بھی اندر آرہی ہوں۔" گیلے کپڑوں سے ٹپکتا پانی ساویز کی ٹی شرٹ بھگا گیا تھا۔ خون جمانے والی ہوا کا دور چلا تو ساویز اسے لیے ساتھ ہی اندر بڑھ گیا۔۔ وہ اسے بیماری کی دہلیز پر کھڑا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔" عفت والہانہ انداز میں کہتی ہوئیں میرویس کے گال پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔ وہ ان کی محبت پر مسکراتا عشنا کے ہمراہ چھوٹے سے لاؤنج میں داخل ہوا۔
"پہلی بار تمہارے ابا نے اتنی عزت دے کر گھر کے اندر بلایا ہے۔۔ ورنہ ہر بار ڈرائنگ روم سے رخصت کردیتے تھے۔" ترچھی نگاہ ابا پر تھی اور کانوں میں سرگوشی وہ عاشی کے کانوں میں کر رہا تھا۔
عشنا نے اسے جواباً گھور کر خاموش رہنے کو کہا۔ ابا پیچھے ہی ان کے ساتھ لاؤنج میں بڑھنے لگے۔
"میں نے تم لوگوں کے لیے کھانے کا بہترین اہتمام کیا ہے۔ تم لوگوں کو پسند آئے گا۔" میز پہلے سے ہی سجی ہوئی تھی۔
"اس کی کیا ضرورت تھی آنٹی۔ آپ بس سادہ سا کھانا بنا لیتیں۔ اب تو میں بھی گھر کا ہی فرد ہوں۔" اس نے کہتے ساتھ ہی ابرار کا چہرہ دیکھا جو سنجیدہ تھا۔ 'ایک تو یہ انکل کبھی مجھے اپنے گھر کا فرد نہیں مانیں گے'۔ وہ دل ہی دل میں گویا ہوا۔
"ہاں میرے بچے! اب تم گھر کا ہی فرد ہو مگر ذرا ہمیں بھی تو موقع تو خاطر مدارت کرنے کا۔۔۔" عفت کا انداز ہمیشہ کی طرح محبت بھرا تھا۔
عفت کے کھانوں میں ذائقہ تھا۔ اس نے پہلا لقمہ لیتے ہوئے عشنا کو دیکھا تھا جو اس کے ساتھ کھانے میں مصروف تھی۔
"تم بھی ایسا ہی ذائقہ دار کھانا بناتی ہوگی؟۔" اب ظاہر تھا۔۔ اماں اتنا اچھا کھانا بناتی تھیں تو عشنا کے ہاتھ بھی ذائقہ ہوگا۔ عشنا گڑبڑا گئی۔
"ہ۔ہاں۔" اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو جلدی سے کہہ پڑی۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا تھا کہ عشنا کو کھانا بنانا آتا ہی نہیں۔۔۔ پھر ذائقہ کس بات کا۔۔ وہ ہمیشہ سے کوئی نہ کوئی ڈش جلا دینے کی عادی تھی۔
کھانے کا دور ختم ہوا تو ابرار صاحب اندر چلے گئے۔ اسے بھی اگلی صبح جاب پر جانا تھا اور وہ رک نہیں سکتا تھا۔ تین گھنٹے گزار کر وہ دوبارہ اپارٹمنٹ لوٹ آئے۔
"تم ابا کے بارے میں اتنا سوچا مت کرو۔ کچھ وقت گزرے گا تو وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔" اسے لیپ ٹاپ پر کام کرتا دیکھتے ہوئے وہ ٹھہر کر بولی۔ عجیب سی بات تھی۔۔ وہ شادی کے اگلے روز ہی آفس کا کام کر رہا تھا۔
"تمہیں لگتا ہے میرویس برا مانے گا؟۔" میر ہنس پڑا۔ "مجھے بس اس حوالے سے تمہیں تنگ کرنا پسند ہے۔ سو وہ میں کرتا ہوں۔" عشنا کپڑے تبدیل کر چکی تھی۔ سادہ سا لان کا سوٹ پہن کر وہ اس کے بہت قریب سامنے بیٹھ گئی۔
"تم کل آفس چلے جاؤ گے۔" معصوم لہجہ۔۔ میرویس اس کے جملے سے زیادہ اس کے لہجے پر چونکا۔
"ہاں۔"
"میں گھر میں نہیں بیٹھنا چاہتی۔" جانے وہ اب رافع کی وجہ سے اسے وہاں جاب کرنے دے بھی یا نہیں۔۔
"ہمارے درمیان یہ بات پہلے ہی ہوچکی ہے۔ تم اپنی مرضی کے مطابق جاب کرسکتی ہو۔" وہ سمجھ نہ سکا۔
"ہاں مگر کل جب تم چلے جاؤ گے تو میں اکیلی ہوجاؤں گی۔ میں سوچ رہی ہوں مجھے بھی کل سے جوائن کرلینا چاہئیے۔"
میرویس اس کا چہرہ تکتا رہ گیا۔
"میرا آفس کل سے جوائن کرنا مجبوری ہے عاشی۔۔ مگر تمہاری تو کوئی مجبوری نہیں ہے۔ چند دن میرے ساتھ گزارو اور اس اپارٹمنٹ کو اپنے مطابق سنوارو۔۔ دو تین دنوں میں جوائن کر لینا۔"
"جب تم گھر میں ہوگے ہی نہیں تو کیسے گزاروں گی تمہارے ساتھ وقت؟۔" خفا خفا سا لہجہ۔۔
"دو چار دنوں تک روز جلدی آیا کروں گا۔ تم کچھ وقت خود کے ساتھ بھی گزارو۔۔ اپنا سوٹ کیس کھول کر وارڈروب سیٹ کرو۔ اپارٹمنٹ بھی ٹھیک طریقے سے نہیں دیکھا۔ میں جتنی جلدی آنے کی کوشش کرسکتا ہوں، کروں گا۔" اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ سمجھانے کے انداز میں بولا۔ عشنا اس کا چہرہ بغور دیکھ رہی تھی۔
"ٹھیک ہے۔ ویسے دو چار دنوں بعد جب میں آفس جانے لگوں گی تو میری ٹائمنگز تم سے کم ہوں گی۔ میں ہمیشہ تم سے جلدی آجایا کروں گی۔" لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے وہ سنگھار میز تک آئی اور بالوں کو کھول دوبارہ سے بنانے لگی۔
"یہ سارے پرفیومز تمہارے ہیں؟۔" میز پر قطار سے چھ سات پرفیوم کی بوتلیں رکھی تھیں جنہیں نوٹ کر کے وہ پل بھر کو حیران ہوئی تھی۔
"میرے علاؤہ یہاں اور کون رہتا تھا عاشی۔" نگاہ لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھی۔
"اب انہیں کنارے پر رکھو۔ میرا سنگھار کہاں جائے گا؟۔" مصنوعی گھوری سے نواز کر وہ اس کا سامان میز کے ایک کنارے پر رکھنے لگی۔ میرویس نے جھٹ اس کا چہرہ دیکھا۔
"میز پر اور بھی کافی جگہ ہے۔ پرفیومز نہ بھی ہٹاؤ تو اپنا سامان رکھ سکتی ہو۔" اس نے بھی جواباً گھورا۔
"میرا سامان یہ پوری سنگھار میز کی جگہ گھیر لے گا۔ پھر تمہیں اپنے یہ پرفیومز وارڈروب میں رکھنے پڑیں گے۔" وہ بس اسے تنگ کر رہی تھی۔
"تم تو ہر موقع پر یہ احساس دلا رہی ہو کہ اب میں شادی شدہ ہوں۔" بے بسی سے نفی میں سر ہلایا۔
عشنا کھل کر مسکرائی۔
"پھر تمہارے پرفیومز کہاں رکھوں؟۔" اس نے چھیڑتے ہوئے پوچھا۔ وہ اس کی کوئی بھی چیز میز نہیں ہٹانے والی تھی مگر چونکہ میرویس اسے صبح سے ہی تنگ کر رہا تھا اس لیے وہ کچھ اپنا فرض بھی ادا کرتے ہوئے اسے چھیڑنے لگی۔
"وارڈروب میں رکھ دو۔۔ اب تم سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔" کی بورڈ پر انگلیاں تیزی سے چل رہی تھیں اور عشنا آئینے کے عکس میں اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ سنگھار میز میرویس کے سامان سے جس طرح سجی ہوئی تھی اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے پرفیومز اور دوسری چند چیزوں کا کتنا خیال رکھتا ہے۔
اس کے پرفیومز ہٹانے کے بجائے اس نے سجاتے ہوئے انہیں اپنے سامان کے ساتھ رکھ دیا۔ وہ مزید اب فارغ بیٹھ کر میرویس کو کام کرتا دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
میر بھی کچھ وقفے سے اسے میز پر سامان رکھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ آئینے کے عکس میں اس کا مسکراتا چہرہ چھپ نہ سکا۔ عشنا نے ایک نگاہ اس پر ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا، اور اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہوگئی۔ میرویس مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
جاب کے لیے آئی میلز چیک کرنے کی نیت سے وہ آج جلدی اٹھا تھا۔ غنایہ باہر رکھے پودوں کو پانی ڈال کر کمرے میں داخل ہوئی۔
گھر کا راشن ختم ہونے کو آیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی ساویز سے یہ نہیں کہہ پارہی تھی کہ راشن دوبارہ خریدنے کا وقت ہوگیا تھا۔ اب کی بار ہاتھ پہلے سے زیادہ تنگ تھے۔
"مجھے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ نہیں مل رہی۔ کہیں وہ بھی تو نہیں دھو دی تم نے؟۔" تہہ شدہ کپڑوں کو باری باری اٹھاتا ہوا وہ اپنی شرٹ ڈھونڈ رہا تھا۔
"میں ڈھونڈ کر دے دیتی ہوں۔" گیلے ہاتھوں کو تولیے سے صاف کرتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ یکدم ہی ساویز کی نظر اس ٹی شرٹ پر پڑی۔
"نہیں مجھے مل گئی۔" کپڑوں کے سب سے نیچے رکھی تھی۔ اسے کھینچ کر الماری سے نکالا اور کھول کر نگاہ دوڑائی گئی۔ وہ ابھی ٹی شرٹ کو بستر پر ہی رکھنے بڑھ رہا تھا جب ایک لفافہ شرٹ پوری کھولنے کی وجہ سے فرش پر گرا۔ جہاں غنایہ کا چہرہ سفید پڑا وہیں ساویز نے کچھ الجھ کر لفافہ اٹھایا۔ غنایہ کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔
"یہ کیا ہے؟۔" پیشانی پر الجھن کے بل نمودار ہوئے۔ کہتے ساتھ ہی لفافہ کھول کر اندر جھانکا۔ نیلے رنگ کی کئی نوٹیں اس میں موجود تھیں۔ ساویز کی آنکھیں پھٹیں۔ بھلا یہ کس کی رقم تھی اور یوں اس کی الماری میں؟ غنایہ کی جانب دماغ ہی نہ گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔۔
"یہ کس کے پیسے ہیں؟۔" یہ بات اسے وہ ہی بتا سکتی تھی۔ الماری میں کپڑے رکھنے اور نکالنے والا کام وہ ہی سر انجام دیتی تھی۔ غنایہ کا سفید چہرہ اس معاملہ کو مزید الجھا گیا۔
"میرے۔۔" وہ جھوٹ نہیں کہہ سکتی تھی۔ تھوک نگل کر اس نے تیزی سے دوسری جانب دیکھا۔ ساویز کو لگا جیسے سننے میں غلطی ہوگئی ہو۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا؟
"تمہارے پیسے؟۔" بنھویں حیرانی سے اٹھیں۔
"جی۔" آواز گھٹی گھٹی سی تھی۔
"یہ کون سے پیسے ہیں؟۔" وہ سیدھے طریقے سے نہ پوچھ سکا کہ 'یہ پیسے کہاں سے آئے؟۔'
غنایہ کی آنکھیں اس پر ٹھہر گئیں۔ وہ کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
"غنایہ؟۔" جواب نہ ملنے پر وہ ذرا شک مبتلا ہوا۔
"امی نے دیے تھے۔" جھوٹ کہنا یا بات چھپانا اسے کبھی درست نہیں لگا۔ ساویز کی نگاہ ساکت ہوئی۔ وہ بغیر پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا۔
"کیوں؟۔" کاش کہ غنایہ وہ نہ کہے جو ساویز سوچ رہا تھا۔
"ہمارے خرچے کے لیے۔۔" وہ یقیناً اس کی بات سے کتنا زیادہ ہرٹ ہوا ہوگا۔
چہرہ سرخ ہوگیا۔ محسوس ہوا جیسے کسی نے مٹھی میں اس کا دل جکڑ لیا ہو۔ حلق کی گلٹی دھیرے سے نمودار ہو کر غائب ہوئی تھی۔ اس نے تیزی سے آنکھیں جھپکیں۔
"کیوں؟۔"
"اس کیوں کا کوئی جواب نہیں ہے میرے پاس۔۔" آنکھوں میں نمی پیدا ہونے لگی تو وہ بستر پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔
ساویز کو لگا جیسے اس کا دل پھٹ رہا ہو۔
"کیا میں تمہارے خرچے پورے کرنے کے لیے کافی نہیں؟۔" چہرہ سخت ہوا۔ وہ سسکتی رہی، کچھ کہہ نہ سکی۔
"ایسا نہیں ہے۔۔ میں جانتی ہوں آپ بہت پریشان ہیں۔ یہ پیسے ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ ہم بعد میں لوٹا دیں گے۔" رخسار گیلے ہو رہے تھے۔ اس کی سسکیاں پورے کمرے میں گونجنے لگیں۔
"میں پریشان ہوں یا ڈپریشن سے مر رہا ہوں! ان پیسوں کی ضرورت پھر بھی نہیں تھی جو آپ نے اپنی امی سے مانگے!۔" خود پر قابو نہ رہا تو وہ سختی سے بلند آواز میں بولا۔ "میرے پیسے کافی نہیں تھے غنایہ؟ کیا تم مجھے یہ احساس دلانا چاہتی تھی کہ میں تمہارے اخراجات اٹھانے کے لیے ناکافی ہوں؟۔" کہتے کہتے کب آنکھیں بھیگ گئیں وہ جان ہی نہ سکا۔ "ڈھونڈ رہا تھا نا میں جاب۔۔ اس ایک ہفتے میں کتنے انٹرویوز دیے ہیں۔ مجھے اپنی فکر نہیں تھی۔ میں تو کسی طرح بھی کرلیتا گزارا۔۔ تمہارے اخراجات، خواہشات پوری کرنے کے لیے ہی تو اتنے پاپڑ بیل رہا ہوں۔۔ صرف اس لیے کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں اور تم نے۔۔" جملہ مکمل نہ ہو سکا۔ آنکھیں نم تھیں۔ غنایہ کے آنسوؤں میں اضافہ ہوا۔ اس کا دل پھٹنے کو ہوا۔ وہ رکا نہیں تھا۔ لفافہ بستر پر پھینکتے ہوئے باہر نکل گیا۔ بستر پر بیٹھی غنایہ وہیں لیٹ گئی۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے تکلیف سے سوچا۔ شدت سے احساس ہوا کہ وہ پیسے امی سے نہیں لینا چاہتے تھے۔ اسی وقت سے وہ ڈرا کرتی تھی۔ نجانے ساویز اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا۔ پیسوں کا وہ لفافہ اس کی تکلیف میں اضافہ کر رہا تھا۔ ہچکیاں کمرے میں گونجنے لگیں تو اس نے تکیے کے نیچے اپنا سر رکھ لیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ ان کے درمیان کوئی ناراضگی پیدا ہوئی تھی۔۔ اور شاید یہی تکلیف دہ بات تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
الارم کی آواز پر میرویس کی آنکھ کھلی تھی۔ نگاہ گھڑی پر ڈال کر کروٹ لی جو سات بجا رہی تھی۔ وہ ٹھہر گیا۔ برابر میں کوئی نہیں تھا۔۔ تو پھر عشنا کہاں تھی؟ دماغ میں جھماکا ہوا تو آنکھیں کسی بات پر پھٹیں۔ اس نے تیزی سے اٹھ کر فرش پر دیکھا جہاں عشنا کے علاؤہ بھی بہت ساری چیزیں تھیں۔
"یا اللہ خیر! میری بیوی۔۔" دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ بستر سے اترتا ہوا وہ اس کی جانب آیا جو گہری نیند میں تھی۔ بیچاری بستر سے گرائے جانے کے بعد بھی سکون سے سو رہی تھی۔ دھیرے سے اسے اٹھاتے ہوئے وہ بستر پر لٹا رہا تھا جب عشنا کی آنکھ کھلی۔
"کیا کر رہے ہو؟ میں سو رہی ہوں نا!۔" اسے یوں اتنے قریب دیکھ کر وہ نیند میں بولی۔ میرویس چونکا۔ تو کیا اسے نہیں پتا تھا کہ وہ بستر کے "اوپر" نہیں تھی۔
"کچھ نہیں۔" اسے لٹاتے ہوئے جلدی سے چادر اوڑھانے لگا۔
"تم کہاں جا رہے ہو؟۔" اسے یاد تھا کہ وہ آج آفس جانے والا تھا۔ سوچا تھا کہ وہ اسے جانے سے قبل اٹھادے گا۔
"کہیں نہیں۔ تمہارے پاس ہوں۔۔" اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ محبت سے بولا۔ عشنا اس کے لہجے پر مسکرائی اور میرویس کے بازو پر ہاتھ مارتے ہوئے آنکھیں موند گئی۔ اس کے انداز پر وہ بھی مسکرادیا۔
کافی دیر یونہی ٹھہر کر اسے دیکھنے کے بعد وہ تیار ہونے واش روم کی جانب بڑھا۔ اسے آٹھ بجے تک آفس پہنچنا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم نے مجھے کیوں نہیں اٹھایا۔" آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ غصہ ضبط کرتی ہوئی بولی۔
"ضروری نہیں سمجھا۔" فون کی دوسری جانب سے بھاری آواز ابھری۔ "تمہاری نیند کیسے خراب کرتا۔"
"تمہیں مجھے اٹھانا چاہئیے تھا۔" آنسو رخسار پر بہنے لگے۔ اس کی بھیگی آواز میرویس کے کانوں پر پڑی تو وہ پریشان سا ہوا۔
"تو کیا ہوا عاشی اگر میں نے تمہیں نہیں اٹھایا تو۔۔" وہ چونک اٹھا تھا۔ بھلا اس میں رونے والی کیا بات تھی۔ اس کا یوں رونا اس لیے بھی عجیب تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عشنا کو اس سے اتنی بھی محبت نہیں کہ وہ اس کے لیے یوں روئے۔
"میں تمہیں ناشتہ دے دیتی۔ تم ناشتہ بھی نہیں کر کے گئے۔ دیکھا ہے میں نے کچن میں۔۔ کچھ بھی نہیں بکھرا ہوا۔ بہت زیادہ بدتمیز ہو۔ خود غرض ہو۔ میں سو رہی تھی تو کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ کبھی نہیں اٹھوں گی؟ کیسے کرسکتے ہو تم ایسا۔۔" جانے وہ کیا کیا بول پڑی۔ آنسوؤں میں روانی تھی اور اس سب میں میرویس کو اندازہ ہوچکا تھا کہ بات کچھ اور ہے۔
"کیا ہوا ہے؟۔" فائل میز پر رکھتا ہوا وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔ عشنا نے سسکی بھری۔
"کچھ بھی نہیں ہوا۔ خدا حافظ!۔" دل مزید بھر آیا۔ وہ کال کاٹنے ہی لگی تھی جب میرویس کی آواز ابھری۔
"کال مت کاٹنا۔"
"مجھے تمہیں کچھ نہیں بتانا ہے!۔"
"مجھے نہیں بتاؤ گی؟۔" وہ جانتا تھا کہ اگر عشنا نے اسے نہیں بتایا تو یقینا وہ پورا دن بے چین رہے گا۔
"مجھے تو۔۔" وہ تیزی سے کہتے کہتے رکی۔۔ خود پر ضبط کیا گیا۔ "مجھے تو تم سے بات بھی نہیں کرنی۔"
"لیکن اگر تم نے نہیں بتایا تو میں پریشان رہوں گا۔ مجھ سے کوئی کام نہیں ہوگا۔ آج اہم میٹنگ بھی ہے۔ میری کبھی پرفارمینس خراب نہیں رہی۔ لیکن تمہارے نہ بتانے سے خراب ہو سکتی ہو۔ تم چاہو گی کہ تمہارا شوہر یوں بے چین اور پریشان رہے؟۔" ایک یہی طریقہ تھا کہ وہ اسے موبائل کے ذریعے سمجھا کر پوچھ سکتا تھا۔
عشنا خاموشی سے سنتی رہی۔ لب کاٹتے ہوئے اس نے ایک بار موبائل کو دیکھا۔
"ان دو دنوں میں اکیلے رہنے کی عادت ختم ہو گئی ہے۔ تمہارے جانے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اکیلی ہوگئی ہوں۔ گھبراہٹ ہو رہی ہے۔" آنسوؤں کے درمیان سب بتادیا۔ وہ خود بھی حیران تھی کہ میرویس کے ساتھ گزارے گئے چند گھنٹے اس کی اتنی جلدی اکیلے رہنے والی عادت ختم کر گئے۔ میرویس کو یہ بات صحیح معنوں میں فکرمند کر گئی۔ "اگر تم مجھے اٹھا دیتے تو ہم تھوڑا وقت ساتھ گزار لیتے۔" کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ میرویس کے لیے اتنا زیادہ روئے گی۔ ایسا نہیں تھا کہہ اسے میرویس سے بے پناہ محبت تھی۔ ہاں مگر اب ایک احساس تھا کسی کے ساتھ ہونے کا۔۔
میرویس مبہم سا مسکرایا۔
یہ کتنا بھلا معلوم ہورہا تھا۔
اس نے آنکھیں موند کر ایک احساس سے دوچار ہوتے ہوئے کھولیں۔
"کہاں بیٹھی ہو؟۔"
"کمرے میں۔۔" سسک کر کہا۔
"ناشتہ کیا؟۔"
"دل نہیں چاہ رہا۔"
"اور بھوک؟۔"
"بھوک لگ رہی ہے۔"
"مگر ناشتہ نہیں کرو گی؟۔"
"نہیں۔۔"
"کرلو۔"
"نہیں کروں گی۔"
"ضد مت کرو۔"
"تمہیں مجھے اٹھانا چاہئیے تھا۔ اب نہیں کروں گی۔" غصہ۔۔
"غلطی ہوگئی۔"
"یہ سب بے فائدہ ہے۔"
"میری باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟۔"
"میں تمہاری باتوں کو اہمیت نہیں دیتی۔"
"کبھی نہیں دو گی؟۔"
"کبھی نہیں دوں گی۔" خفا خفا سا لہجہ۔۔
وہ مسکرایا۔
"اچھا اٹھو اور کھڑکیوں سے پردے ہٹاؤ۔ روشنی کو اندر آنے کا موقع دو۔ کھڑکی کھول دو۔ تازہ ہوا اندر آئے گی تو اچھا محسوس کرو گی۔"
"میں کمرے سے باہر صرف کچن تک گئی تھی۔۔ کچھ دیر پہلے ہی اٹھی ہوں۔" آواز دھیمی ہوگئی۔
"کمرا صاف کرو اور جھاڑو لگاؤ۔" وہ چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔
"بدتمیزی مت کرو۔" وہ برہم ہوئی۔
"اچھا نہیں کرتا۔۔ لیکن تم اٹھ کر کمرا روشن کرو۔"
"کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ میں پھر بھی یونہی تمہارے آنے تک بستر پر بیٹھی رہوں گی۔ پھر کمرہ روشن کرنے کا فائدہ؟۔"
"وارڈروب سے اچھا سا سوٹ نکالو اور کپڑے تبدیل کرو۔ اچھا سا میک اپ کرو اور ہاں۔۔ جو تمہاری ہلکے رنگ کی گلابی لپ اسٹک ہے اسے لگا لینا۔ بال ڈرائے کر کے ڈھیلا جوڑا باندھ لینا۔ میرے پرفیومز کو ہاتھ لگائے بنا سارا سنگھار کرنا۔" ساتھ خبردار بھی کیا گیا۔
"کیوں کروں اور کس لیے کروں؟۔" پھر سے غصہ آنے لگا۔ وہ یہ سوچ کر ہی رہ گیا کہ یہ لڑکی غصہ کیے بنا نہیں رہ سکتی۔
"میری بات مکمل ہونے دو گی؟۔"
عشنا اس کی بات پر ٹھہری۔
"ہاں۔" آواز ایک بار پھر دھیمی ہوگئی۔
"دو کپ چائے بناؤ اور میز پر میرا انتظار کرو۔ پورے تیس منٹ میں تمہیں اپنے پاس ملوں گا۔"
اس کا کہنا تھا کہ عشنا نے آنکھیں پھاڑ کر موبائل کو گھورا۔
"سچ کہہ رہے ہو؟۔"
"میرویس اپنی عاشی سے جھوٹ کیوں کہے گا۔" کہتے ساتھ اس نے مسکراتے ہوئے کال رکھ دی۔ دوسری جانب عشنا پر ایک سکوت طاری ہوگیا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا۔ اس نے وقت دیکھا تو ساڑھے گیارہ ہورہے تھے۔ تیزی سے بستر سے اٹھتے ہوئے وہ وارڈروب کی جانب بڑھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
حالت بحال ہوئی تو اس نے ساویز کے موبائل پر کال ملائی۔ بارہ بجنے کو آئے تھے اور اس کی اب تک کوئی خبر نہیں تھی۔
"ہیلو؟۔" ساویز کی بھاری گھمبیر آواز ابھری۔
"کہاں ہیں آپ؟۔" وہ تڑپ کر بولی۔ دوسری جانب لمبی خاموشی چھا گئی۔
"تھوڑی دیر تک آرہا ہوں۔" روٹھا لہجہ۔
"میں ناشتہ بنا رہی ہوں۔ پلیز جلدی آجائیں۔"
"ہوں۔" مختصر جواب۔۔
"آرہے ہیں نا؟۔" اس کا لہجہ محسوس کرتی ہوئی وہ مزید بات کو بڑھانے لگی۔
"ہوں۔" اسے ساویز کی آواز دور خلا سے آتی محسوس ہوئی۔۔ جیسے وہ گھر ہی نہ آنا چاہتا ہو۔ دل سکڑنے لگا۔
"انتظار کر رہی ہوں۔" آنکھ میں آنسو چمکنے لگا۔
"اچھا۔" یہ کہتے ساتھ ہی کال رکھ دی گئی تھی۔ غنایہ وہیں بیٹھ گئی۔ آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو لیے وہ تکلیف سے رونے لگی۔ ساویز کا دل بہت بری طرح دکھایا گیا تھا۔ غنایہ جانتی تھی کہ وہ کتنا خوددار مرد ہے مگر پھر بھی امی کے فورس کرنے پر وہ لفافہ لے بیٹھی تھی۔ گھڑی میں ایک نظر وقت دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ نگاہ دوڑاتا ہوا اندر داخل ہوا۔ عشنا آس پاس کہیں نظر نہ آئی تو وہ دھیرے سے آگے بڑھتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔ ابھی وہ کمرے میں داخل ہی ہوتا کہ کچن سے آتی آواز نے اسے رکنے پر مجبور کیا۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ یوں ہی ٹرے ہاتھوں میں تھامی وہ کچن سے باہر نکلی۔ آنچل کندھے سے ہوتا زمین کو چھو رہا تھا۔ آنکھوں پر آتی لٹ الجھنے لگی تو سر کو جھٹکا دے کر اسے پیچھے کرتی ہوئی میز کی جانب بڑھنے لگی۔ میرویس اسے دیکھ کر مبہم سا مسکرایا۔ ابھی وہ میز کے نزدیک پہنچتی کہ نگاہ شوہر پر پڑی۔ وہ وہیں چونک کر ٹھہر گئی۔ خوشگوار حیرت سے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا جہاں پورے بارہ بج رہے تھے۔ وہ اپنی بات کا پکا ثابت ہوا تھا۔
"تم آگئے۔" چہرے پر تبسم پھیل گیا۔ وہ واقعی اس کے کہے کے مطابق تیار ہوئی تھی۔ وہی ہلکے رنگ کی گلابی لپ اسٹک تھی۔۔ لان کے سادے مگر خوبصورت سوٹ میں ملبوس عشنا اسے خود بھی خوبصورت معلوم ہوئی۔
"اسلام علیکم۔" وہ چلتا ہوا اس کے نزدیک پہنچ کر گلے لگاتے ہوئے بولا۔
"وعلیکم سلام۔" اس نے ٹرے جلدی سے میز پر رکھی جس میں دو کپ چائے سے لبا لب تھے۔
بازو پر رکھے کوٹ کو اٹھاتے ہوئے میر نے کرسی کی پشت رکھا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
"تم نے کہا تھا تمہاری میٹنگ ہے۔ پھر اس میٹنگ کا کیا ہوا؟۔" لبوں سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
"باس جانتے ہیں کہ میری بیوی نئی نویلی ہے اور اسے میری ضرورت پڑ سکتی ہے۔ سو میری ریکوسٹ پر مجھے اجازت دے دی گئی۔" وہ مسکراتا ہوا ٹرے سے مگ اٹھانے لگا۔ عشنا کو اس پر بے جا پیار آیا۔ "تم اب ٹھیک ہو؟۔" وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ یہ میز چار لوگوں کے حساب سے تھی۔
"ہاں۔۔ اب تم آگئے ہو نا۔" اس نے اپنا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔
"گھبراہٹ کیوں ہو رہی تھی؟۔" وہ اب سنجیدگی سے اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا۔
"گھر میں کوئی نہیں تھا۔ تم نے مجھے آفس جانے سے پہلے بتایا بھی نہیں۔۔ حالانکہ میں ہمیشہ الگ گھر میں تنہا رہی ہوں مگر ایک دن تمہارے ساتھ رہنے کے بعد مجھے نہ جانے کیا ہوا ہے کہ تم بن گھر سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کوئی بھی بات کرنے والا نہیں تھا۔۔" لب کچلتے ہوئے دھیرے سے بات مکمل کی۔
"تو تمہیں پورا دن کوئی بات کرنے والا چاہئیے؟۔" لہجہ شریر ہوا۔
"مجھے تمہاری موجودگی چاہئیے تھی۔ بھلے سے ایک جگہ بیٹھ کر تم اپنے لیپ ٹاپ پر ہی مصروف رہو۔ دل کو ایک سہارا رہے گا کہ تم گھر میں موجود ہو۔" تو اصل وجہ یہ تھی۔۔
"تو تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ تم کسی کے ساتھ کی عادت ہو رہی ہے۔" اسے تو جیسے موقع ملا ہو۔
"ایسا بھی نہیں ہے۔" عشنا نے آنکھیں چرائیں۔
"یوں مت کرو! محبت ہو جائے گی۔"
"مجھے اتنی آسانی سے نہیں ہوگی تم سے محبت! اس لیے خوش فہمی مت پالو۔" مسکراہٹ چھپاتے ہوئے وہ مگ کو دیکھتے ہوئے بولی۔ آنکھوں میں دیکھتی تو ہنس پڑتی۔
"تم نے ناشتہ کیا؟۔" سب باتوں کو نظر انداز کرتا ہوا وہ یاد آنے پر بولا۔
"نہیں۔۔"
میرویس نے سانس خارج کی۔
"اپنی ضد کی پکی ہو۔" کرسی سے اٹھتے ہوئے وہ اپنی ٹائی ڈھیلی کرتا ہوا کچن کی جانب بڑھنے لگا۔
"کہاں جا رہے ہو؟۔" اس نے چونک کر پوچھا۔
"تمہارے لیے ناشتہ بنا رہا ہوں۔ خاموشی کے ساتھ ناشتہ کرلینا ورنہ میں خود اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں گا۔" وہ کچن میں جا چکا تھا اور عشنا حیرت سے اس کے پیچھے لپکی تھی۔ آستین کے کف فولڈ کرتے ہوئے اس نے کہنیوں تک چڑھائے اور فریج سے انڈہ نکالا۔ عشنا نے اس کی ڈریسنگ دیکھی۔ چوڑا کشادہ سینہ اور بھرے بھرے بازو اس کی شرٹ سے نمایاں ہورہے تھے۔ ان بازوؤں کے مسلز پر عشنا کو اپنی نگاہ ٹکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ کوٹ اتار چکا تھا مگر اندر پہنی کالر والی سفید شرٹ اس پر سج رہی تھی۔ سیاہ ٹائی ڈھیلی کردی گئی تھی مگر وہ اب گلے میں جھول رہی تھی۔ بال کچھ بکھرے ہوئے تھے اور بازوؤں کی ابھری رگیں واضح نظر آرہی تھیں۔ وہ اونچا لمبا شخص اب انڈہ پیالہ میں ڈال کر پھینٹ رہا تھا۔ کنارے سے پیاز نکال کر اسے کاٹی اور فرائی پین چولہے پر رکھ جلایا۔
"میں فریج میں رکھے کل کے سینڈوچز کھا لیتی۔ تمہیں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔" عشنا کی بات پر اس نے سر گھما کر اسے دیکھا۔
"تم کیوں کل کا پرانا کھانا کھاتی؟۔"
"تو اس میں کیا برائی ہے۔۔ تم بھی تو کھاتے ہو۔"
"تو وہ میں کھاتا ہوں۔۔ تم تازہ کھانا کھایا کرو۔" بال بکھر کر آنکھوں کے آگے آرہے تھے۔ وہ خاموش رہی۔
"میں تمہاری مدد کردیتی ہوں۔" عشنا جلدی سے اندر داخل ہوتے ہوئے فریج سے گوندھا ہوا آٹا نکالنے لگی۔
"میں کر رہا ہوں نا عاشی۔۔ تم اپنی تیاری خراب کیوں کر رہی ہو۔" نمک مرچ ڈال کر اس نے انڈہ دوبارہ پھینٹا۔
"میں صرف تمہاری مدد کر رہی ہوں۔" خشک آٹا نکال کر اس نے روٹی بیلنی چاہی۔ میرویس انڈہ فرائی پین میں الٹ کر اب اسے روٹی بیلتے دیکھ رہا تھا جو اپنی کوشش میں ناکام ہو رہی تھی۔
"یہ نہیں بن رہی۔" زبردستی اس پر بیلن چلاتے ہوئے وہ ناکامی سے بولی۔ میرویس قدرے امپریس ہوا۔ وہ روٹی کا حشر نشر کر چکی تھی۔
"چھوڑو اسے۔" اس نے دھیرے سے کہا۔ عشنا نے اس کا چہرہ دیکھا اور بیلن سے ہاتھ دور کیے۔ "وہاں جا کر کھڑی ہوجاؤ۔" چولہے سے دور دیوار کے پاس اشارہ کیا۔
"کھڑی کیوں؟۔" وہ نا سمجھی میں بولی۔
"یا پھر کرسی لگا کر بیٹھ جاؤ مگر اس جگہ سے دور ہٹو۔" عام سے لہجے میں اسے دیوار کے پاس جانے کا کہا تو وہ اسے گھورتی رہی گئی۔
"میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔" اس کی بات پر ایک نظر میرویس نے اسے دیکھا اور اس بیچاری روٹی کو۔۔ ایسی مدد؟ وہ کام بڑھتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
"جب میں کچن میں کام کر رہا ہوں تو تم کچن میں نہیں آؤ گی۔ ٹھیک ہے؟۔" عام سے لہجے میں سمجھاتے ہوئے اس نے جواب سننا چاہا۔
"کیوں؟۔"
"کیونکہ یہ وہ ایک ہی جگہ ہے جہاں میں کسی کی شرکت برداشت نہیں کرتا۔ اگر تم کچن میں کام کر رہی ہوگی تو میں نہیں دخل نہیں دوں گا۔۔ اور اگر میں کر رہا ہوں گا تو تم اندر داخل بھی نہیں ہوگی۔"
"تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔" ماتھے پر غصے کے بل نمودار ہوئے۔
"میں جب کھانا بناتا ہوں تو سکون اور آرام سے بناتا ہوں۔ کسی کی دخل اندازی مجھے میرا کام کرنے سے روکتی ہے۔ اس لیے جب بھی میں کچن میں ہوں تم مجھ سے کوئی بات نہیں کرو گی۔" آئبرو اچکا کر پیار سے سمجھایا۔ عشنا اس کی بات پر سانس خارج کرتی دور جا کھڑی ہوئی۔ وہ واقعی ٹھیک کہتا تھا۔ اس کے بعد وہ بے حد خاموشی سے کام کر رہا تھا۔ ماحول میں سکون کی لہر دوڑنے لگی۔ بے حد آرام اور نفاست سے کام کرتے ہوئے وہ ایک بار بھی کچھ نہ بولا تھا۔ فریج سے کوئی چیز نکالنے سے توے پر ڈالنے تک ہر کام وہ خود کر رہا تھا۔ عشنا حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ پراٹھا پلیٹ میں ڈالتے ہوئے اس نے سلیقے سے ٹرے میں دونوں پلیٹیں سجائیں اور ایک ہاتھ سے ٹرے تھامے اس کی جانب بڑھا۔ بائیں ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھاما اور باہر بڑھ گیا۔ عشنا اب تک دنگ تھی۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے میز تک پہنچی تو میرویس نے ٹرے میز پر رکھی۔
"تم یہ ناشتہ پورا کرو۔" وہ یہی رویہ روما کے ساتھ بھی رکھتا تھا۔ اس کے مطابق انسان کو کھانے پر کوئی کامپرامائز نہیں کرنا چاہئیے۔ یعنی کھانا پلیٹ میں چھوڑنا نہیں چاہئیے۔
"تم نے بھی نہیں کیا ناشتہ۔۔" اس نے میرویس کو دیکھا۔
"مجھے بھوک نہیں ہے عاشی۔" اس کی ناک چھوتے ہوئے لمحے بھر کو مسکرایا۔
"ہم ساتھ مل کر یہ ناشتہ کرتے ہیں میر۔۔ میں جانتی ہوں تمہیں بھی بھوک ہے۔" اس کا بازو پکڑتی ہوئی وہ بیٹھنے کا اشارہ دینے لگی تو وہ کرسی دکھیلتے ہوئے بیٹھ گیا۔
"ایسا مت کرو۔ مجھے تمہاری عادت ہوجائے گی۔" میرویس کا بھاری لہجہ عشنا کی ساری توجہ کھینچنے لگا۔ عشنا ایک بار پھر چونکی۔ اگر یہ الفاظ وہ کہتی تو درست رہتا۔۔ اس نے تو صرف میرویس کو ناشتے کی آفر دی تھی۔
"یہ عادتیں اچھی ہوتی ہیں۔ کتنا اچھا ہوجائے گر تمہیں میری عادت ہوجائے۔" پراٹھے کا ٹکڑا آملیٹ میں لپیٹتے ہوئے اس نے میرویس کے قریب کیا۔ میز پر دونوں ہاتھ رکھ کر اس نے سینے پر باندھے ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ تکتے ہوئے وہ محبت سے مسکرایا۔ یہ لڑکی اس دل کا ایک ٹکڑا تھی۔ میرویس نے اس کے ہاتھ سے نوالہ منہ ڈالا۔
"تھینک یو۔"
"کس لیے؟۔" بھاری لہجہ۔۔
"تم میرے لیے آفس سے آئے۔"
اس کی بات پر وہ کھل کر مسکرایا۔
"تمہارے سامنے یہ کچھ بھی نہیں۔۔ میری محبت کا اس بات سے اندازہ نہیں لگانا۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔" اس کی سیاہ و بھوری آنکھیں توجہ کا مرکز بن گئیں۔ وہ انہیں دن رات بھی تکتا تو تھکتا نہیں۔
عشنا نے اس کے ہاتھ کی ابھری رگوں کو دیکھ کر اس کی ہلکی ہلکی شیو پر نگاہ ڈالی۔ پتا وہ اس کی کون سی نیکی کا صلہ تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔" وہ ناشتہ بنا رہی تھی جب ساویز نے کچن سے گزرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ ہاتھ میں پکڑی کفگیر ساکت رہ گئی۔ اس کے پیچھے مڑ کر دیکھنے تک وہ کمرے میں چلا گیا تھا۔ تھکی تھکی سی گہری سانس خارج کرتے ہوئے وہ اپنا موبائل کی جانب باہر میز پر بڑھی۔
"اسلام علیکم۔" کال اٹھا لی گئی تھی۔
"وعلیکم السلام بیٹا۔ کیسی ہو؟۔" عفت کی میٹھی آواز پر وہ لب کاٹتی رہ گئی۔
"میں ٹھیک نہیں ہوں امی۔ اگلی ملاقات پر آپ کو وہ پیسوں کا لفافہ لوٹا دوں گی۔ میں نے کہا تھا نا آپ سے۔۔ وہ خفا ہوگئے ہیں۔ ان کا دل دکھا ہے اماں۔۔" تھوک نگلتے ہوئے اس نے بات مکمل کی۔ "آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔ انہوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے اور اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا۔" کہتے ساتھ ہی اس نے کال رکھ دی۔ تھکی تھکی سی نگاہ اپنے موبائل پر ڈالتی ہوئی وہ کمرے میں بڑھ گئی۔
لیپ ٹاپ پر بے حد سنجیدگی سے مصروف ساویز نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اور دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا تھا۔
"میں نے امی سے کہہ دیا ہے۔ لفافہ لوٹا دوں گی۔" لب کچلتے ہوئے اس نے دھیرے سے بتایا۔ ساویز نے ایک بار پھر نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور جھکا لیں۔
"آپ بات بھی نہیں کریں گے؟۔" اس کا دل بھر آنے لگا۔
"جس جاب کے لیے پچھلے ہفتے انٹرویو دے کر آیا تھا وہاں سے جواب آگیا ہے۔ کل سے جوائن کرنا ہے۔" لہجہ بھی تاثرات کی طرح سنجیدہ تھا۔ غنایہ کی آنکھیں حیرت سے کھلیں۔
"یعنی آپ کو رکھ لیا گیا ہے؟۔"
"ہوں۔" لہجہ اب بھی ناراض ناراض تھا۔ غنایہ کا چہرہ کھل اٹھا۔
"مجھے واقعی یقین نہیں آرہا۔" خوشی سے پکارتی ہوئی وہ اس کے ساتھ آکر بیٹھی۔
"ہاں شاید جب ہی وہ سب ہوا۔" نگاہ لیپ ٹاپ پر ہی چپکی ہوئی تھی۔
غنایہ کی مسکراہٹ مدھم ہوئی۔
"ایسا نہیں ہے۔"
"بہرحال! تمہیں اب پیسوں کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت تھی۔ پہلے بھی خرچہ میں ہی اٹھا رہا تھا اور آگے بھی میں ہی اٹھاؤں گا۔" اپنا لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے وہ ایک نظر اسے دیکھتا ہوا وہ باہر نکل گیا۔ غنایہ نے لب بھینچ کر اسے باہر جاتا دیکھا تو خود کچن میں بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"بادل گرج رہے ہیں۔" کھڑکی سے سیاہ آسمان پر گرجتے بادلوں کو دیکھتے ہوئے وہ مسکرا دی۔ لہجہ خوش باش تھا۔ میرویس نے فائل سے نگاہ اٹھا کر عشنا کو دیکھا جس کے چہرے پر تبسم پھیلا ہوا تھا۔ پردے کھڑکیوں سے ہٹاتے ہوئے عشنا نے ٹھنڈی ہوا کو اندر داخل ہونے کا موقع دیا۔ ٹیرس کا دروازہ وہ پہلے ہی کھول چکی تھی۔ تیز ہوا کی ٹھنڈک خون جمانے کے لیے کافی تھی۔
"کل اماں کے گھر چلیں گے۔" وہ کام کرتے ساتھ بولا۔
"ٹھیک ہے۔" حامی بھرتی وہ اس کی سائڈ میز کی جانب آئی۔
"یہ تمہیں میری چیزوں سے اتنی دلچسپی کیا ہے؟ کبھی میرا وارڈروب کھنگالتی رہتی ہو تو کبھی میری دوسری چیزوں میں گھس کر تلاشی لیتی ہو۔ کرتی کیا ہو تم بی بی؟۔" مصنوعی گھوری سے نوازتے ہوئے وہ نگاہ جھکا کر اسے دیکھنے لگا جو فرش پر ٹانگیں فولڈ کر کے بیٹھی اس کی دراز کھول رہی تھی۔ سائڈ پر رکھا میرویس گا والٹ اور گاڑی کی چابی پر نگاہ ڈالتی ہوئی عشنا نے اسے دیکھا۔
"دیکھتی ہوں کہ کوئی دل بہلانے کی چیز مل جائے۔ تم کتابیں نہیں پڑھتے؟۔" دراز میں موجود اس کی کئی فائلز دیکھ کر اس نے منہ لٹکایا تھا۔
"مجھے کتابوں میں دلچسپی نہیں۔۔" اس گھورتے ہوئے وہ دوبارہ فائل پر جھک گیا۔
"بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ کتابیں پڑھو گے تو تمہارے علم میں اضافہ ہوگا۔" وہ اب اس کی دوسری دراز کھول کر دیکھنے لگی۔
"میں لوگوں کی آنکھیں پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ تاکہ ان کی ذات کی کہانی جان سکوں۔"
"واقعی؟ جب میں پہلی بار تم سے ملی تھی تو تم نے میری آنکھوں میں کیا دیکھا تھا؟۔"
"یہی کہ تمہیں ایک عدد میرویس کی ضرورت ہے۔" کہتے ساتھ ہی شریر مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔ عشنا نے اسے چڑ کر گھورا۔
"مجھے کبھی میرویس کی ضرورت نہیں تھی۔ تنہا اچھی زندگی گزار رہی تھی۔ پتا نہیں کہاں سے تم مل گئے اور نصیب تم سے آ جڑا۔" وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
"ہاں۔۔ جب ہی تو تمہیں آج صبح میرویس کے نام کی گھبراہٹ ہورہی تھی۔" وہ کبھی جو اسے چھیڑنے سے باز آجائے۔
"اب تم میری حالت کا مذاق مت بناؤ۔" نگاہ دراز پر رکھے لائٹر اور سگریٹ پر پڑی تو اس کی ایک آئبرو خود بخود اچک کر اوپر ہوئی۔ "تم یہ اب بھی پیتے ہو؟۔" اس نے سگریٹ کا پیکٹ باہر نکالا۔
"یہ میری محبت ہے۔" سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس نے سگریٹ چھیننی چاہی مگر عشنا نے تیزی سے اسے پیچھے کیا۔
"یہ یہاں کیا کر رہی ہے میرویس؟ میں سنجیدہ ہوں۔" ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔
"محترمہ! آپ میری زندگی میں دو دن پہلے ہی شامل ہوئی ہیں۔ اس لیے تفتیشی نگاہوں سے مجھے دیکھنے کے بجائے انہیں دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیں۔" اس نے رکھنے کا اشارہ دیا۔
"یہ دراز میں نہیں جائیں گی اب۔۔" نفی میں تیزی سے سر ہلاتے ہوئے وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی۔
"تو پھر؟۔" وہ ٹھٹھکا۔ "میں اتنی زیادہ نہیں پیتا یار۔۔ بس ہفتے میں دو تین بار۔۔ باخدا۔۔" اس نے روکنا چاہا۔
"ہفتے میں ایک پیتے ہو یا مہینوں میں۔۔ یہ دراز میں نہیں رہے گی۔" جواباً سختی سے گھورا۔
"اچھا چلو میری وارڈروب میں رکھ دو۔"
اس کی بات پر عشنا نے عجیب طریقے سے منہ کھولا۔ یہ کیا بات تھی بھلا؟
"یہ ڈبہ ڈسٹ بن میں جائے گا میرویس!۔" کہتے ساتھ ہی اس نے ڈسٹ بن میں ڈبہ پھینک دیا۔ میرویس نے لب بھینچ کر اس دشمن جاں کو دیکھا جو آنکھیں پھاڑ کر اسے گھور رہی تھی۔
"تمہیں لگتا ہے یہ ڈبہ پھینک دو گی تو میں سگریٹ چھوڑ دوں گا؟۔" وہ مسکرایا اور پھر ہنس پڑا۔
عشنا کی مسکراہٹ سمٹی۔
"تم سگریٹ اب نہیں پیو گے۔" اس نے خبردار کیا۔
"اچھا؟ تو کیا کرو گی؟۔" دلچسپی سے اسے سنتے ہوئے وہ سینے پر ہاتھ باندھتا ہوا بولا۔ "اور کونسا میں تمہارے سامنے پیوں گا۔ ہوسکتا ہے باہر سے پی کر آجاؤں۔"
"یہ بات تو جانتے ہی ہو گے کہ سگریٹ کی مہک کتنی آسانی سے پتا چل جاتی ہے۔ میں روز تمہیں چیک کروں گی اور اگر کبھی مجھے شک ہوا تو تمہیں باہر کھڑا کر کے اندر سے اپارٹمنٹ کا دروازہ لاک کردوں گی۔" عشنا جواباً غصے میں بولی۔ میرویس قدرے امپریس ہوتا ہوا اسے دیکھنے لگا جس کے ارادے خطرناک تھے۔
"دیکھو عاشی یہ سگریٹ کی لت بہت بری ہوتی ہے۔۔ اور مجھے اس کی لت ہے۔ پچھلے ایک سال میں کتنی کم کی ہے جانتی ہو؟ ایک سال قبل دس گیارہ سگریٹ ایک دن میں پیا کرتا تھا مگر اب خود سے ہی عادت کم کر کے بمشکل ہفتے میں دو تین بار پیتا ہوں۔ اب تم ایسا کرو گی تو ظلم نہیں؟۔"
"تو تم سگریٹ پینا نہیں چھوڑو گے؟۔" اس نے برابر گھورا۔
"میری جان کا پیارا سا عذاب! میں سگریٹ چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کچھ وقت تک مکمل چھوڑ دوں گا مگر یوں تو نہ روکو۔"
التجائیہ نظریں عشنا کا دل موڑنے لگیں۔
"اچھا ٹھیک ہے۔" وہ تھوڑی دیر میں ہی مان گئی۔ "مگر ڈبہ میں نے ڈسٹ بن میں پھینک دی ہے۔"
"یہ کمرے کا ڈسٹ بن ہے اس لیے زیادہ گندا نہیں ہے۔۔ میں پیکٹ اٹھا لوں گا مگر تم اب میرے سامان سے دور رہنا۔ یہ کھوج کے چکر میں تم مجھے پھنسوا دو گی۔" فائلز کھولتے ہوئے وہ دوبارہ مصروف ہوگیا۔ عشنا ناراضگی سے اسے گھورتے ہوئے بستر پر دوسری طرف آبیٹھی۔
"تم سے بات کرنا بیکار ہے۔ اس وقت میرا موڈ خراب کردیا۔ اس سے اچھا ہے کہ میں۔۔۔" دانت پیس کر کہتی وہ میرویس کو اپنی جانب متوجہ ہوتے دیکھ کر ٹھہری۔
"اس سے اچھا ہے کہ؟۔" اس نے بنھویں اچکا کر جملہ مکمل کرنے کو کہا۔
"کہ میں سو ہی جاؤں۔ ہونہہ!۔" رضائی کھولتے ہوئے وہ اس کے برابر کچھ فاصلے سے لیٹ گئی۔ رضائی پورے منہ تک اوڑھ لی تاکہ اب میرویس سے کوئی رابطہ نہ رہے۔ وہ ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلاتا رہ گیا۔ اس لڑکی کا کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ہاہاہا ایک بار پھر میں جیت گیا۔" تاش کے پتے میز پر رکھتے ہوئے وہ کسی جوش سے ہنستے ہوئے بولے۔
"میں آپ سے کبھی بازی نہیں لے سکتا۔" پیشانی پر انگلی رگڑتے ہوئے اس نے کسی پریشانی سے تاش کے پتوں کو دیکھا۔
"لڑکے ہم اس کھیل کے بادشاہ ہیں۔" ساتویں بار جیتنے کے بعد ان کے چہرے پر جیت کا جوش ہے۔
"مجھے نہیں لگتا انکل کہ آپ کو کبھی کوئی ہرا پایا ہوگا۔" ٹانگ پر ٹانگ جماتے ہوئے باریال نے قدرے مسکرا کر دیکھا۔
"ساویز بھی یہی کہتا تھا مگر جانتے ہو وہ مجھے ایک بار مات دے چکا ہے۔" بات مکمل کرتے ساتھ ہی وہ خود ہی خاموش ہوگئے۔ جانے انجانے میں وہ ساویز کا ذکر کر بیٹھے۔ جب یاد آیا تو زبان کو تالے پڑ گئے۔ ایک محرومی کا احساس ہوا تو انہوں نے نگاہ کھلے آسمان کی جانب مرکوز کر لی۔ باریال یکدم ہی مسکرایا۔
"یہ کب کی بات ہے؟۔" اس نے جان کر سوال کیا تاکہ تقی کو جواب دینا پڑے۔
گھڑی صبح کے گیارہ بجا رہی تھی۔ آسمان پر پھیلتے سیاہ بادل اور ہلکی پھوار ماحول کو یکدم ہی خوشگوار کر گئی۔
دل ویران ہوتا ہوا محسوس ہوا تو انہوں نے آنکھیں موند لیں۔
"جب وہ اٹھارہ سال کا تھا۔۔ اس کی ماں کے مرنے کے بعد میں نے اسے اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بنا لیا تھا۔ تب میں نے اسے تاش کھیلنا سکھایا تھا۔" پرانی باتیں دہراتے ہوئے کب لبوں پر مسکراہٹ آئی وہ جان ہی نہ سکے۔ "میں نہیں جانتا تھا کہ جس الو کے پٹھے کو دل جمعی سے تاش سکھا رہا ہوں اگلے دن وہ ہی مجھے اس کھیل میں ہرا دے گا۔" آخری میں قہقہہ چھوٹ گیا اور کب آنسو آنکھوں میں ظاہر ہوئے وہ جان ہی نہ سکے۔ ہوش آیا تو باریال انہیں بغور دیکھ رہا تھا۔ تقی نے اپنی آنکھوں میں نمی محسوس کی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔
"مجھے آرام کرنا ہے۔" دونوں ہاتھ کمر پر باندھتے ہوئے اندر بڑھ گئے جبکہ باریال وہیں ٹھہر گیا۔ یہ گھر کسی کو یاد کر رہا تھا۔۔ شدت سے۔۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
تیز برستی بارش میں شہر بھیگ رہا تھا اور وہ کھڑکی پر دونوں ہاتھ رکھے اس اپارٹمنٹ سے پورے شہر کو دیکھ رہی تھی۔ بچپن کے بعد آج پہلی بار اسے بارش میں بھیگنے کی آرزو ہوئی۔ پہلے بارش اس کی پریشانی میں اضافہ کر دیا کرتی تھی مگر اب اس کو کسی کے ساتھ کی طلب ہونے لگی۔ چار بج رہے تھے اور سورج کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ سیاہ بادلوں میں شہر ڈھکا ہوا تھا۔ دل نے یکدم ہی میرویس کی موجودگی کی خواہش کی۔۔ کاش کہ وہ اس کے پاس ہو اور دونوں ٹیرس میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر اس موسم کا لطف اٹھائیں۔۔ مگر ہر آرزو مکمل نہیں ہوتی۔ وہ کل اس کے لیے جلدی آگیا تھا مگر آج کیسے آ پاتا۔
وہ گزرے ہوئے ان تین دنوں کو سوچنے لگی جو اس نے میرویس کے سنگ گزارے تھے۔ موبائل پر ہوتی بات نے اس کی توجہ کھینچی۔
"بارش ہو رہی ہے۔" میرویس کا میسج تھا۔
"بہت زیادہ تیز۔۔"
"تمہیں اچھا لگ رہا ہے؟۔"
"ہاں۔ میں کھڑکی سے موسم کا مزہ لے رہی ہوں۔"
"ٹیرس میں چلی جاؤ۔ وہاں زیادہ مزہ آئے گا۔"
"نہیں۔۔" وہ اس کے بنا وہاں کیسے چلی جائے؟ اگر کوئی بجلی چمکی یا وہ بارش کا ٹھنڈا پانی برداشت نہ کرسکی تو؟
"آسمان سیاہ ہو رہا ہے۔"
"ایسا لگ رہا ہے جیسے شام کا وقت ختم ہو رہا ہو۔"
"اور میری یاد؟۔"
"تمہاری یاد نہیں آرہی۔" وہ کہہ ہی نہ دے کہ وہ اس موسم میں اسے اپنے ساتھ دیکھنا چاہتی ہے۔
"میرے اس غم پر یہ بادل برس رہے ہیں۔" وہ ہنس پڑا۔
"نہیں۔۔ وہ اس لیے برس رہے ہیں کیونکہ اپنا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔" وہ بھی مسکرا دی۔
"تمہاری یاد آرہی ہے۔"
"بھول سے بھی میری یاد کو نہ بھلانا۔۔ یہ موسم جب بھی آئے گا تمہیں میری یاد یونہی دلائے گا میرویس۔۔" میسج بھیج کر اس نے موبائل میز پر رکھ دیا اور آسمان کو دیکھ کر آنکھیں موند گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"جانے کیا ہوگیا ہے باس کو! آخر دل سے بھی تسلیم کیوں نہیں کرلیتے کہ ان کی بہن کا قاتل ساویز ہی ہے۔" جھنجھلا کر کہتے ہوئے اس نے دیوار پر مکا مارا۔
"تم کیوں پریشان ہوتے ہو۔ باس جو کہیں گے ہمیں صرف وہی کرنا ہے۔ ویسے بھی وہ ٹھیک ہی کر رہے ہیں۔ بلاوجہ کسی کو موت کی گھاٹ اتار دینا کہاں کا انصاف ہوا۔" عادل نے پستول پر کپڑا پھیرا۔
"تم بیوقوف ہو! وہی شخص کائنہ کا قاتل ہے۔۔ بہن تو بہت عزیز تھی انہیں! اب اس کے قاتل کو گولی نہیں ماری جا رہی۔" سر جھٹکتے ہوئے غصے سے چڑتا ہوا بولا۔
"تم چاہتے ہو باس ساویز کی جان لے لیں؟۔" کافی دنوں سے وہ خرم کے لہجے میں کچھ نوٹ کر رہا تھا۔ آئبرو اچکا کر ایک نگاہ اس پر ڈالی۔
"ہاں بس ایک گولی!! ایک گولی ہی اس کا کام تمام کرسکتی ہے۔"
"مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس کو مروانے کے لیے تم کیوں اتنی کوشش کر رہے ہو۔ حالانکہ اس سب سے ہمارا کوئی تعلق نہیں!۔"
خرم گڑبڑایا۔
"نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ زندہ رہا تو باس کے خلاف بھی کوئی سازش کر سکتا ہے۔"
"اور تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ ساویز نے ہی میڈم کا قتل کیا ہے؟ باس اب بھی اس معاملے کو سلجھا نہیں پا رہے۔"
عادل کی نگاہ خرم کو بغور دیکھ رہی تھی جبکہ خرم کو اپنی سانس گھٹتی محسوس ہونے لگی۔
"میں اور دوسرے گارڈز انیکسی میں تھے جب کائنہ کی چیخ کی آواز آئی تھی۔ نہ صرف باس بلکہ میں نے بھی اسے بھاگتے دیکھا تھا۔" جانے یہ کہانی اس نے کتنی جلدی کیسے سنادی تھی۔
"اگر تم نے اسے دیکھ ہی لیا تھا تو اس کے پیچھے کیوں نہیں بھاگے؟۔" یہ وہ سوال تھا جہاں خرم واقعی لاجواب ہوا تھا۔ لمبی خاموشی چھا گئی۔
"بات کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ میں تو بس اتنا کہہ رہا تھا کہ باس کو اب مزید نہیں سوچنا چاہئیے۔ میں ان سے بات کروں گا۔" کہتے ساتھ بنا رکے وہ باہر چلا گیا۔
جبکہ عادل اس کا یوں بات کو گھمانا بہت واضح طور پر محسوس کر گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا جہاں بادل برس کر آگے بڑھ گئے تھے۔ آسمان صاف ہو رہا تھا۔ کمرہ بلکل خالی تھا۔ آج صبح ساویز کو آفس بھیجتے ہوئے وہ بہت خوش تھی۔ اس لیے نہیں کہ اب حالات بہتر ہوجائیں گے۔۔ بلکہ اس لیے کہ ساویز مصروف ہوجائے گا۔۔ اور جب مصروف ہوجائے گا تو وہ گھر بیٹھ کر خرچوں کے معاملے میں پریشان نہیں ہوگا۔ صبح جانے سے قبل وہ خاموش ہی تھا۔ غنایہ نے اسے پہلی بار ٹائی پہنائی تھی جبکہ اسے ٹائی باندھنا آتی بھی نہیں تھی۔
"میں لیٹ ہو رہا ہوں۔" پانچ منٹ سے کھڑی غنایہ اب تک ٹائی کے لیے کوشش کر رہی تھی۔ ساویز نے غنایہ کے ہاتھوں کو دیکھا سنگھار میز کے آئینے میں دیکھنے لگا۔
بہتر پر پریشانی اور الجھنوں کی شکنیں نمودار تھیں۔ وہ کسی طور اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی جبکہ ساویز اب چاہتا کہ وہ ٹائی اس کو خود باندھنے دے۔
"میں کوشش کر رہی ہوں۔"
ساویز نے بنھویں اچکا کر جھکائیں اور پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر آئینے میں دیکھنے لگا۔ کالر ٹائی کے لیے کھڑے کیے ہوئے تھے۔ پانچ منٹ مزید بیتنے کے بعد اس نے غنایہ کا ہاتھ نرمی سے ٹائی سے ہٹایا اور اسے باندھنا سکھانے لگا۔ شاید یہ بھلا طریقہ تھا۔ وہ جلد ہی سیکھ گئی۔ اچھے سے ٹائی پہنا کر اسے رخصت کیا تھا۔ اب پورے گھر کا کام نبٹا کر وہ پڑھنے کے ارادے سے بستر پر بیٹھی تھی۔ چند دنوں میں سمیسٹر کی فیس جانے والی تھی اور اس لیے وہ فکر مند بھی تھی۔ چائے کا کپ سرہانے رکھتی ہوئی بستر پر کتابیں رکھ کر بیٹھ گئی۔ تیز بارش نے اب موسم کو خوشگوار بنا دیا تھا۔ موسم میں مزید ٹھنڈک گھل گئی تھی۔ ہلکی شال میں خود کو ڈھانپ کر اس نے گرم چائے کا گھونٹ بھرا۔
امید ہے اب سب کچھ بہتر ہوجانے گا۔
بڑے گھر کو چھوڑنے کے بعد سے اس نے ایک بار بھی ساویز کے منہ سے تقی کا نام نہیں سنا تھا۔
تو کیا وہ انہیں یاد نہیں کرتا تھا؟
اسے باریال کا خیال آیا جو اب بھی اس گھر میں رہ رہا تھا۔
شاید ساویز محسوس کرتا ہو کہ باریال بھی اس سے ملنے نہ آیا۔
جانے قسمت اب کون سا کھیل کھیلنے والی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
گلابی رنگ کی سادی سی میکسی میں ملبوس وہ ہلکا پھلکا میک اپ کر رہی تھی۔
"کتنا میک اپ کرتی ہو چھی چھی۔" عجیب طرح سے نگاہ اس پر ڈالتا ہوا وہ پرفیوم خود پر چھڑکنے لگا۔
عشنا نے بلش لگاتے ہوئے اسے گھورا۔
"کتنا زیادہ پرفیوم چھڑک رہے ہو چھی چھی۔" اس نے بھی جواباً کہا۔ میرویس مسکرایا۔
"اصلی چہرہ چھپانے کی کیا ضرورت تھی عورت!۔" ٹھوڑی سے اس کا چہرہ پکڑتے ہوئے شریر لہجے میں بولا۔ عشنا نے 'عورت' لفظ پر دانت کچکچائے۔ "اماں کہتی ہیں شادی کے بعد ہر لڑکی عورت کہلاتی ہے۔" وہ جو کوئی موقع ہاتھ سے جانے دے۔
"تم بھی شادی کے بعد سے آدمی لگنے لگے ہو۔" اس کا ہاتھ چھڑاتے ہوئے وہ تیزی سے بلش لگانے لگی۔
"مجھے برا نہیں لگتا۔" وہ کبھی جو برا مانے۔ کندھے اچکاتا ہوا دراز سے لائٹر اور سگریٹ نکالنے لگا۔
"تم ابھی یہ کیوں نکال رہے ہو؟۔" اس نے آئینے کے عکس میں دیکھا۔
"میری ماں بہت ذائقہ دار کھانا بناتی ہے۔" اس نے مسکراہٹ ایسے چھپاتے ہوئے عشنا سے کہا کہ وہ اس کی مسکراہٹ پکڑ گئی تھی۔
"ہاں ہاں تم طنز کرو! مگر میں تمہیں ایک اچھی روٹی بنا کر دکھاؤں گی۔"
میرویس کا قہقہہ جاندار تھا۔
"میں طنز نہیں کر رہا میری عاشی! کہہ رہا ہوں کہ اماں کے ہاتھ کا مزیدار کھانا کھانے کے بعد میں لازمی سگریٹ پیتا ہوں۔ اس لیے اسے رکھ رہا ہوں۔ تم فکر نہ کرو! میں اپنی ماں کے گھر جا کر ہی پیوں گا۔" آئبرو اچکا کر کہتا ہوا وہ چھیڑتے ساتھ باہر نکل گیا۔ عشنا ضبط کرتی رہ گئی۔ "پانچ منٹ میں تیار ہو کر نیچے پہنچو! دروازے پر تالا لگا دینا۔" باہر سے آواز آئی تو تیاری میں تیزی پکڑتے ہوئے جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیسا رہا دن؟۔" اس کی ٹائی ڈھیلی کرتی ہوئی وہ محبت سے بولی۔ باچھیں کھلی کھلی سی تھیں۔
"ٹھیک رہا۔" اس نے ٹائی گلے سے اتار کر بستر پر رکھی۔
"میں پانی لے کر آتی ہوں۔" وہ باہر کی جانب بڑھنے لگی جب ساویز نے اسے روکا۔
"کھانا بھی لگا دو۔ بہت تھک گیا اور بھوک بھی لگی ہے۔ شاور لے کر باہر ہی آرہا ہوں۔" سنگھار میز کے آئینے میں اپنے بالوں کی بکھری حالت دیکھ کر وہ کچھ سوچ کر رہ گیا تھا۔
وہ چلی گئی تھی مگر ساویز اپنی حالت دیکھتا ہوا وہیں ٹھہر گیا تھا۔
یہ سب وہ تو نہیں تھا جو اس نے کبھی سوچا تھا۔ بکھرے بال، تھکاوٹ، پسینہ، اور آفس میں کسی اور کی تابع کرنا۔
شاید وہ خود 'باس' کے خمار سے نکلا نہیں تھا۔
کتنا مشکل تھا۔۔۔
ہاں مگر اب بیوی تھی جس میں اس کی جان تھی۔۔
ایک چھوٹا گھر تھا مگر سکون تھا جس کا وہ متلاشی تھا۔
محبت تھی جو اس نے غنایہ سے پہلے کسی سے نہیں کی تھی۔
اس سب کے سامنے یہ تھکاوٹ، یہ اداسی کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اس کے پاس سکون تو تھا۔۔ اس کا سکون!
کپڑے اٹھاتا ہوا وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اچھی لگ رہی ہو۔" اماں کی آواز پر وہ چونکی۔
"جزاک اللہ آنٹی۔"
لفظ 'آنٹی' پر اماں نے نگاہ اٹھائی۔
"مجھے لگا تھا تم بھی مجھے میرویس کی طرح اماں بولو گی۔ ہاں مگر باہر والی لڑکی سے کیا توقع رکھنا۔" بنا کوئی تاثرات دیے وہ طنزیہ لہجے میں بولیں۔
"نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے آنٹی۔۔ مطلب اماں۔۔ کچھ دنوں میں اماں بولنے کی عادت ہوجائے گی۔" وہ زبردستی مسکرائی۔
"اتنا سج سنور کر کیوں آئی ہو؟۔" نگاہ اب اس کے حلیے پر پڑی۔ "اتنی جیولری پہننے کی کیا ضرورت تھی۔ جانتی ہو نا شہر کے حالات!۔"
عشنا کا دل چھوٹا ہونے لگا۔
"نہیں اماں یہ سونا نہیں ہے۔" اس نے تصحیح کی۔
"میں جانتی ہوں یہ بات۔۔" یہ کہتے ہوئے انہوں نے اسے بغور دیکھا تھا۔ "مگر یہ بلکل سونے کے زیورات معلوم ہوتے ہیں اس لیے احتیاط کیا کرو۔ میرویس کی بھی عقل میں بات نہیں آتی۔ دونوں ہی میاں بیوی باؤلے ہوگئے ہو۔" چادر تہہ کرتے ساتھ وہ غصہ کرنے لگیں۔
اس نے تھوک نگل کر دروازے پر کھڑی روما کو دیکھا جسے عاشی کے لیے برا لگ رہا تھا۔
"بھابھی آئیں میں آپ کو اپنا کمرہ دکھاتی ہوں۔" اس نے جان کر عشنا کو باہر بلایا تھا تاکہ وہ اب اماں سے دور رہے۔
اماں کی غصے بھری آنکھوں نے روما کو بھی گھورا تھا مگر وہ فراموش کرتی باہر نکل گئی۔ عشنا کی جان میں جان آئی۔ اس نے آنکھوں میں آتی ہلکی ہلکی نمی کو جلدی سے سمیٹا۔
ان کا یہ رویہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ چاہ کر بھی ان کے رویے کو ذہن سے جھٹک نہیں پا رہی تھی۔ عشنا جو یہاں آنے کے لیے خوش تھی، اماں کی باتوں نے اس کا مزاج خاموش کردیا۔ وہ کھانے کے دوران بھی زیادہ کچھ نہ بولی۔
ہونٹ ویران پڑے تھے جیسے عرصوں سے اس پر مسکراہٹ نہ کھلی ہو۔ میرویس نے اسے بغور نوٹ کیا تھا مگر یوں سب کے درمیان کچھ پوچھنا نہیں چاہتا تھا۔
"کچھ ہوا ہے روما؟۔" وہ جانے سے پہلے روما کے پاس آیا تھا۔
"اماں کی باتوں نے عشنا بھابھی کا دل دکھا دیا ہے۔" اس کے انکشاف پر وہ بے بسی سے سانس ہی خارج کرتا رہ گیا۔ ایک نظر گاڑی میں بیٹھی عشنا پر ڈالی جو خاموش تھی اور اماں سے ملتا ہوا ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔
"تمہیں کھانا کیسا لگا؟۔" بات کا آغاز ہوا۔ سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھانے لگا۔
"ہوں۔ اچھا تھا۔" پرس گود میں رکھتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیوں پر نگاہ ڈالی۔
"اور میٹھا؟ کھیر کیسی لگی؟۔"
"وہ بھی اچھی تھی۔"
"اور تم بھی اچھی لگ رہی تھی۔"
"نہیں میں نہیں!۔" اس نے آہستہ آہستہ کر کے اپنی ساری انگھوٹیاں اتار کر پرس میں رکھ دیں۔
"کوئی مجھ سے پوچھے!۔" لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔ عشنا خاموش رہی۔ ذہن سوچوں میں ہی الجھا ہوا تھا۔ کھڑکی کھول کر اس نے اپنی پوری توجہ باہر مرکوز کر لی۔ میرویس کو دیکھنے کا بھی دل نہ چاہا۔
منزل پر گاڑی رکی تو وہ اپنا پرس سنبھالتی ہوئی اوپر چلی گئی۔ گاڑی کی چھت پر دونوں ہاتھ رکھ کر اگر کوئی ٹھہر گیا تو میرویس!۔
۔۔۔★★★۔۔۔
ایک ہفتہ مزید بیت گیا۔ وہ آج بلآخر اس سے ملنے چلا آیا تھا۔
شاندار بڑا اور کشادہ آفس۔۔
اس کا گارڈ عادل اپنے ساتھ وجاہت کے روم میں لایا تھا۔
"اسلام علیکم۔" داخل ہوتے ساتھ وہ ذرا سا مسکرایا۔ وجاہت نے فائل سے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ لبوں پر حیرت زدہ گہری مسکراہٹ ابھری۔
"وعلیکم السلام۔۔ تم!۔" اٹھ کر گلے لگتے ہوئے اس نے خوشی کا اظہار کیا۔
"سوچا ملنے چلے آؤں۔"
"بہت اچھا کیا۔ آؤ بیٹھو۔" اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ دے کر وہ خود بھی بیٹھ گیا۔
"کیسا چل رہا ہے تمہارا بزنس؟۔"
"بہت بہترین! تم کراچی کب آئے؟۔" ہاں اسے وہاج کے آنے کا علم ضرور تھا مگر وہ کب کراچی پہنچا یہ نہیں جانتا تھا۔
"میرویس کی شادی سے ایک روز پہلے۔۔ شاید ایک مہینہ مزید ٹھہروں کراچی میں۔۔ پھر لاہور چلا جاؤں گا۔ چند دن اماں ابا کے پاس گزار کر پھر سفر کا سامان باندھ کر انگلینڈ!۔" پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا گیا۔
"تمہیں اپنوں کی یاد آتی ہوگی۔ مجھے بھی آتی ہے۔۔ کچھ اپنوں کی یاد۔" مسکراہٹ اس کا دکھ نہ چھپا سکی۔ وہاج اس کی بات محسوس کرتا ہوا دور اس لڑکی کی تصویر کو دیکھنا لگا۔
اس نے مزید دیکھنا چاہا مگر دل میں ایک تکلیف سی جاگنے تو اس نے نگاہ پھیر لی۔
"مجھے افسوس ہے تمہارے لیے۔۔" سانس لینے میں دشواری ہوئی تھی مگر وہ بظاہر اطمینان بھرے لہجے میں بولا۔
"اس سب سے میری بہن واپس نہیں آسکتی وہاج۔" زخمی مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔
"مگر جو طریقہ تم اپنا رہے ہو وجاہت! تمہاری بہن اس سے بھی واپس نہیں آسکتی۔" لہجہ ذو معنی ہوا۔ وجاہت کو گویا خاموشی لگ گئی۔
"میں جو کر رہا ہوں، مجھے کرنے دو۔" تھوک نگل کر اس نے رخ موڑ لیا۔
"یعنی تم کسی کی جان لینے والے ہو۔" وہاج اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوا۔
"جان؟۔" وہ کہتے ساتھ ہی استہزایہ ہنسا۔ "جان سے مارنا ہوتا تو کائنہ کے مرنے کے اگلے دن ہی اسے موت کی گھاٹ اتار دیتا۔" ڈمپل گہرا ہوا۔ اس کی چال میں وقار تھا کہ جس طرح وہ اٹھ کھڑا ہوا اور شان سے چلتا ہوا گلاس ونڈو تک آیا۔
"اس کی زندگی عذاب مت بناؤ وجاہت! کسی کا بھی ذہنی سکون ڈسٹرب کرنے کا تمہارا کوئی حق نہیں جب تمہارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہی نہیں۔۔ آؤ اور مجھے کوئی ایسا ثبوت دکھاؤ کہ میں آنکھوں دیکھی پر یقین کر لوں۔" وہاج نے گھومنے والی کرسی تھوڑی سی گھما کر اس کی جانب موڑی۔
"اس کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک ہے جو اس رات میں نے دیکھی۔۔"
"یہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔۔ وہ کوئی بھی ہوسکتا تھا۔" اسے لگا جیسا وجاہت انتقام کی آگ میں پاگل ہوگیا ہے۔
"تو پھر کیوں ہے میرا دل اتنا مطمئن؟۔" اس بار آواز بلند تھی۔
"کیونکہ تم مکمل طور پاگل ہوچکے ہو! یہ معاملے دل سے نہیں سلجھائے جاتے! ایسا نہ ہو کہ عنقریب تمہیں اس سب کے لیے پچھتانا پڑے۔" اسے گھورتے ساتھ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"تو تم بھی ساویز کی سفارش کے لیے آئے تھے۔" ہری آنکھوں میں دکھ جبکہ ہونٹوں پر ہنسی۔
"ساویز کو کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ میں جانتا ہوں کائنہ تمہارے لیے کیا تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوتا وجاہت! میرا یقین کرو یہ غلط ہے۔۔ میں اس بات کی آج بھی مزاحمت کرتا ہوں اور کل بھی کروں گا۔ یہ ضرور سوچ لینا کہ اتنے سارے لوگ ایک وقت میں غلط نہیں ہوسکتے۔"
"میں وجاہت سلطان ہمیشہ محبت میں ناکام شخص ہی ٹھہرا ہے۔ ماں باپ کی محبت نصیب نہ ہوئی اور جس سے بیٹی سمجھ کر محبت کی وہ مر گئی۔" آنکھیں کب سرخ ہوگئیں اسے علم نہ ہوا۔ "دوست بچھڑ گئے اور دھوکا دے گئے۔۔ اب جو واحد میری زندگی میں ہے، اس کے حوالے سے ایک ڈر دل میں بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی چھین نہ لے۔۔ مجھ سے دور نہ کردے۔ کیسے جیے گا وجاہت سلطان؟ کتنا ڈرتا ہے یہ وجاہت سلطان! دو گارڈز میں نے صرف اپنی بیوی کے لیے رکھے ہیں تاکہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔" وہ اپنا پاگل پن بتا رہا تھا۔۔ جنونی ہوتے وجاہت کی آنکھوں سے کب پانی نکلا وہ جان نہ سکا۔
"میں جانتا ہوں! کائنہ کا قتل ایک راز رہ گیا ہے۔ اور تم اس راز کو جاننے کے بجائے ایک شخص کے پیچھے مسلسل پڑ گئے ہو۔ اس کہانی میں کوئی ملوث نہیں۔۔ میں جب تک یہاں پر ہوں تمہارے ساتھ معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ مجرم اندر کا آدمی ہی ہوسکتا ہے۔۔ ورنہ کوئی گھر میں داخل ہو اور تمہارے گارڈز کو معلوم نہ ہو ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔" وہ اٹھ کر اس کے نزدیک آیا۔ وجاہت خاموش رہا۔ "تمہیں اپنے گارڈز پر پورا بھروسہ ہے؟۔"
"کافی سالوں کا بھروسہ ہے وہاج! یہ ابھی سے نہیں! بہت پہلے سے میرے لیے کام کر رہے ہیں۔"
"حل ضرور نکلے گا۔۔"
"اگر ایک ماہ میں تم خود بھی اس معاملے کو نہ سلجھا سکے تو مجھ سے امید مت رکھنا کہ میں ساویز کو یوں چھوڑ دوں گا۔"
وہاج نے گہری سانس بھری اور وجاہت کو خدا حافظ کہتا باہر نکل گیا۔
باہر دوسرے گارڈز کے ساتھ کھڑا خرم اس کی توجہ کا مرکز تھا۔ جانے کیوں وہ اسے عجیب لگتا تھا۔
گزرتے ہوئے ایک مشکوک نگاہ اس پر ڈالی تھی جس سے خرم بچ نہیں سکتا تھا۔ وہاج کی خود پر نظریں اسے کچھ مختلف محسوس ہوئی تھیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
ولیمہ امید سے بھی زیادہ بہترین گزرا۔ گھر پہنچ کر جیولری اتارتے ہوئے اس نے آئینے کے عکس میں میرویس کو دیکھا جو اسے تک رہا تھا۔
"ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟۔" اس نے پوچھا۔ "جانتے ہو نا کہ رات کا ایک بجنے آیا ہے اور کل ہم دونوں کو ہی آفس جانا ہے۔" اس نے جھمکے اتارتے ہوئے کیس میں رکھے۔
"تم اچھی لگ رہی ہو۔ اب دیکھوں بھی نہیں؟۔" وہ کوٹ اتار چکا تھا۔ کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھتا ہوا وہ بیٹھ کر اسے فرصت سے دیکھنے لگا۔
"میں کوئی حسین و جمیل دو شیزہ نہیں کہ اس کا شہزادہ اسے ساری تکتا رہے۔" وہ ہنس پڑی۔
"مجھے شہزادہ کہنے کا شکریہ۔" اپنی تعریف اپنے آپ کرتے ہوئے وہ آنکھیں اس کے بالوں پر ٹکایا ہوا تھا۔
"جب میں حسین و جمیل دوشیزہ نہیں تو تم بھی شہزادے نہیں ہو سکتے۔" رخ اس کی جانب موڑ کر وہ پیار سے اسے دیکھنے لگی جو واقعی آج ولیمے میں شہزادہ لگ رہا تھا۔
"جانتی ہو دو لڑکیاں مجھے دیکھ رہی تھیں۔۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں مجھے دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھیں۔"
عشنا نے لڑکیوں کے ذکر پر مسکراتے ہوئے سر اٹھایا۔
"کیا سوچ رہی تھیں؟۔" میرویس کی حرکتیں اتنی رات کو سونے والی نہیں تھیں۔ وہ شاید بیٹھ کر مزید باتیں کرنا چاہتا تھا۔
"شاید یہی کہ یہ لڑکا ہاتھ سے نکل گیا۔۔ چڑیل کھا گئی میرویس کو۔۔" کہتے ساتھ ہی زور دار قہقہہ گونجا۔ وہ خود کو کہنے سے روک نہ پایا۔ عشنا جو گھورنے کا ارادہ رکھتی تھی مسکرا دی۔
"تمہیں صرف میں ہی برداشت کر سکتی ہوں! کوئی اور ہوتی تو روز صبح آنکھ فرش پر کھلنے کی وجہ سے تمہیں چھوڑ چکی ہوتی۔ لیکن دیکھو میں کتنی صابر ہوں! تمہارے ساتھ ہوں۔" اس کے بالوں کو آنکھوں میں آنے سے روکتی ہوئی وہ ہنستے ہوئے بولی۔
"تمہیں مجھ سے محبت ہو رہی ہے؟۔" اس کا ہر انداز والہانہ تھا۔
"نہیں۔۔ مجھے تم پر پیار آرہا ہے۔" چلو وہ سچ تو کہتی تھی کہ اسے ابھی محبت نہیں ہوئی۔
"میرے بغیر رہ سکتی ہو؟۔"
"ابھی تک تو۔۔ آگے کا نہیں پتا۔" اس کے بال کو دھیرے سے کھینچتی ہوئی وہ اسے بغور دیکھنے لگی۔
"یہ آنکھیں مجھے اپنی طرح سیاہ لگتی ہیں۔"
"ان آنکھوں میں ڈوبنا مت!۔" وہ ہنس پڑی۔
"ڈوب ہی تو گیا ہوں اور اب مجھے تیرنا نہیں آرہا۔ لگتا ہے ان آنکھوں کے سمندر میں کھو گیا ہوں۔"
"تمہاری باتیں کسی کا بھی دل مول لینے والی ہیں میرویس۔" ہاں وہ سحر رکھتی تھیں۔
"نہیں۔۔ میں چاہتا ہوں یہ صرف تمہارے دل پر قابض ہوجائیں۔ دنیا جہاں جائے مجھے کیا پرواہ!۔" اس کی باتوں میں سحر تھا تو کیا۔۔ عشنا اپنی سیاہ و بھوری آنکھوں میں سحر رکھتی تھی۔
"تمہاری ان باتوں کا طرز اور انداز بہت مختلف ہے۔ میں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔" جانے اس کی باتوں میں سحر تھا یا عشنا کا دل اس میں لگنے لگا تھا۔
"میں نے کبھی کسی کو یہ سب نہیں کہا۔ تمہیں دیکھتا ہوں تو الفاظ خود بننے لگتے ہیں۔ میں کہہ دیتا ہوں تو تم احساس دلاتی ہو کہ یہ الفاظ بہت حسین ہیں۔"
"یہ الفاظ کسی کا دل اپنی جانب راغب کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ تم ایسی باتیں نہیں کیا کرو میرویس۔ مجھے کبھی کسی کی نہ عادت ہوئی نہ میں نے ہونے دی۔ یہ عادت بہت بری چیز ہوتی ہے۔ دماغ جدائی کو تسلیم کر بھی لے تو دل نہیں کرتا۔ وہ ٹھہر جاتا ہے کسی بھٹکے ہوئے مسافر کی مانند۔۔ اور میں نہیں چاہتی کہ مجھے تمہاری عادت ہو۔ مگر یہ الفاظ مجھے ہر بار تمہاری جانب کھینچتے ہو اور جلد امکان ہے کہ تم میری زندگی کو لازم و ملزوم ہوجاؤ گے۔ اگر عادت ہوگئی تو میں تم سے دو پل بھی دور نہیں رہ پاؤں گی۔ میرے ساتھ ایسا مت کرو۔" اس کے مردانہ بھاری ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی وہ التجا کرنے لگی جبکہ میرویس صرف مسکراتا ہی رہا۔
"مجھے نہیں لگتا میں تمہاری بات مانوں گا۔ مجھے لگتا ہے مطلبی ہوجاؤں گا۔"
اس کی بات پر عشنا نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا تھا۔
"بدتمیز۔۔۔" رخ موڑتے ہوئے وہ دوبارہ آئینے کے عکس میں اسے دیکھنے لگی جو اب پہلے کی طرح صدیوں کی فرصت لیے اسے اشتیاق بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
آج بہت دنوں بعد باریال اور تقی نے تاش کے پتے سجائے تھے۔
"تم جانتے بھی ہو کہ ہار جاؤ گے۔ پھر بھی پتے نئے کھیل کے لیے سجانے لگتے ہو۔" وہ مسکرا رہے تھے۔
"اب ہارنے میں بھی لطف محسوس ہوتا ہے انکل!۔" اس نے پہلا پتا پھینکا۔
"ہوں۔ میں چاہتا ہوں تم ساویز کے گھر جاؤ۔ اس سے مل کر آؤ اور پھر مجھے بتاؤ۔"
"انکل میرا ملنا ضروری نہیں۔۔ مگر آپ کا ہے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ قطع تعلقی بہت طویل ہوگئی ہے؟۔"
تقی کو سانپ سونگھا۔
"وہ میری بات نہیں مانتا۔"
"کوئی اپنی بیوی کیسے چھوڑ سکتا ہے جسے وہ چاہ سے اپنا کر لایا ہو۔" اس نے گہری سانس بھری۔
"کیا باپ کی اہمیت نہیں؟۔" پیشانی پر بل نمودار ہونے لگے۔ باریال تکتا رہ گیا۔
"آپ اس سے ملنے نہیں جائیں گے؟ حالانکہ میں جانتا بھی ہوں کہ آپ کو ساویز بھائی کی یاد آرہی ہے۔"
"نہیں۔۔ ہاں وہ میرا بیٹا ہے مگر میں اس سب کے بعد خود اس سے ملنے نہیں جاؤں گا۔ اسے میری یاد آئے تو چلا آئے گا۔" وہ منہ پھیر کر گویا ہوئے۔
"موقعے ہاتھ سے پھسل جائیں دوبارہ نصیب نہیں ہوتے!۔" یہ جملہ ان کے دماغ میں اٹکا تھا اور وہ خود کو تاش کے پتوں میں الجھاتے رہ گئے تھے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
جانے یہ پروگرام کیسے بنا اور کس نے آغاز کیا۔ وہ آفس ٹیبل پر رکھے نوٹ پیڈ پر کچھ لکھ رہی تھی میرویس نے اسے کال کر کے سب کچھ بتایا۔
"اتنا اچانک پلان؟۔" وہ حیران تھی۔
"ہاں۔ میں آدھے گھنٹے تک تمہیں لینے آجاؤں گا۔ وہاج کی کوئی بیوی تو ہے نہیں کہ اسے میری طرح خوار ہونا پڑے تو وہ ڈائریکٹ وہیں پہنچ جائے گا۔ جب تک تم اپنے اس بےوقوف مینجر سے چھٹی کی درخواست کردو۔" کال رکھی جا چکی تھی اور عشنا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ صوفیہ کو بتاتے ہوئے وہ اپنا سامان سمیٹنے لگی۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں وہ اپنے آفس کے باہر کھڑی تھی۔
"میرے پاس ڈارلا ہے۔ پھر تمہیں آنے کی ضرورت نہیں۔"
"عاشی ہم دونوں الگ الگ گاڑیوں میں جاتے اچھے لگیں گے؟ بہرحال تم گھر آؤ اور اپنی ڈارلا کو پارک کردو۔ میں وہیں آتا ہوں۔" عشنا نے دانت پیسے تھے۔
"تم میری ڈارلا سے شرمندگی محسوس کرتے ہو نا؟ کہ کیا سوچیں گے لوگ اسے دیکھ کر؟۔"
میرویس کی آنکھیں پھٹ کر رہ گئیں۔
"تمہارا دماغ درست ہے؟ میں ایسا کیوں سوچوں گا۔ وقت نہیں ہے یار۔ جلدی آجاؤ۔ میں آفس سے نکل چکا ہوں۔" کال رکھ کر اسے آنے کا حکم دیتے ہوئے وہ عشنا کو مزید جھنجھلا چکا تھا۔ وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
سمندر میں ڈوبتا سورج دیکھنے کا اسے بہت اشتیاق تھا۔ پلٹ کر ساویز کو دیکھا جو ہٹ کی دیوار پر بیٹھا وہاج سے کوئی بات کر رہا تھا۔ دوسری جانب عشنا اور میرویس تھے جو آپس میں ہی لڑ رہے تھے۔ غنایہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ یکدم ہی میرویس کے بلبلا کر چیخنے کی آواز آئی تو ساویز اور وہاج سے پہلے غنایہ نے مڑ دیکھا۔ عشنا نے اس کے بازو پر قوت سے چٹکی کاٹی تھی اور اب تیزی سے لوگوں کو متوجہ ہوتے دیکھ کر اس کے پیر مڑنے کا بہانہ بنا رہی تھی۔
"ان کا پیر مڑ گیا ہے۔" گڑبڑا کر کہا گیا۔ حالانکہ میرویس کی گھورتی نظریں اس کا جھوٹ پکڑنے کے لیے کافی تھیں۔ غنایہ مسکرا کر دوبارہ آگے دیکھنے لگی۔ سمندر کی لہریں اس کے پاؤں کو چھوتی ہوئی پیچھے جا رہی تھیں۔
وہ ساتھ کھانے پینے کا سامان لائی تھی جو ہٹ میں رکھا تھا۔ ساویز اسے دیکھ کر مبہم سا مسکرایا تھا اور وہ نہال ہوگئی تھی۔
پندرہ منٹ بعد منظر کچھ مختلف تھا۔
عشنا اور غنایہ آپس میں گفتگو کر رہی تھیں اور ساویز کھانے کا سامان لگا رہا تھا۔ میرویس کے ساتھ وہاج باتیں کر رہا تھا۔ سورج کچھ اور نیچے آگیا تھا۔
"تم نے شادی کیوں نہیں کی؟۔"
وہاج کے ذہن میں کسی کا چہرہ گھ تمومنے لگا۔ اب وہ اسے کیا ہی بتاتا کہ شادی کوئی گڑیا گڈا کا کھیل نہیں۔۔ انسان اکثر اسی سے شادی کرتا ہے جسے وہ اپنی بعد کی زندگی کے لئے تسلیم کرلیتا ہے۔ اس کی زندگی میں ایک ایسا شخص آکر جا چکا ہے اور اب یہ شادی اس کے بس کی بات نہیں۔ ابھی وہ جواب ہی دیتا کہ عشنا کی دور سے آواز آئی۔
"میں نے تم سے کہا تھا نا کہ کولڈ ڈرنک رکھ لینا؟ لیکن تم تو بیوی کو بھی بیوقوف سمجھتے ہو۔" چڑ کر کہا گیا۔ ایک نظر بیوی کو دیکھا اور وہاج کو۔۔
"اس لیے شادی نہیں کی۔۔" وہاج سنجیدہ ہوا۔ اس کا اشارہ عشنا کی جانب تھا۔ میرویس کا قہقہہ چھوٹتا اگر وہ عشنا کو نہ دیکھ لیتا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آپ پین کیکز نہیں کھاتے؟۔" غنایہ نے نوٹ کرتے ہوئے پوچھا۔
"مجھے یہ سب سے زیادہ پسند ہیں۔۔ مگر صرف امی جان کے ہاتھوں سے بنے ہوئے۔" ماں کا ذکر کرتے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ "اب بھی جاؤں گا تو امی سے پین کیکز ہی فرامائش کروں گا۔" سب ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے اور اسے بغور سن رہے تھے۔
"آپ کی امی آپ کو یاد کرتی ہوں گی۔"
"اور جتنا وہ کرتی ہیں۔۔ میں بھی اتنا ہی کرتا ہوں۔ خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ بلآخر اتنے سالوں بعد میں اپنی ماں سے مل سکوں گا۔" چائے میں بسکٹ میں ڈباتے ہوئے اس نے ایک نظر ڈوبتے سورج پر ڈالی۔
"یہ استاد ہے ہمارا۔۔۔ پیشہ ورانہ طور پر بھی استاد ہی ہے۔" میرویس کے جملے پر ساویز ہنسا۔ اب اس کا یوں 'استاد' کہنا یقیناً وہاج کو نہیں بھایا تھا۔
"میں ایک پروفیسر اور جیسے کوئی پروفیسر کتاب یاد رکھتا ہے اسی طرح میں بھی لوگوں کی باتیں یاد رکھتا ہوں۔۔ اور چہرے بھی۔۔"
عشنا مسکرا دی۔
"آپ پروفیسر ہیں۔ پھر تو یقینا اپنے اسکول، کالج ٹائم پر ٹاپ کیا کرتے ہوں گے۔" عشنا کے سوال جہاں وہاج کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری وہیں میرویس کا قہقہہ گونجا۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا ہوگا۔
"میں نے کبھی ٹاپ نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے کمیسٹری کا پیپر دے کر جب میں کلاس سے نکلا تھا تو میری ہم جماعت نے مجھے ڈانٹا تھا۔ اس کا نام صبا تھا۔ کہنے لگی 'تمہیں شرم نہیں آتی وہاج؟ تمہارے مارکس کتنے کم آتے ہیں' اور میں بس یہی کہتا رہتا تھا کہ مجھے ٹاپ کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ میں اتنا پڑھتا ہوں کہ پاس ہو سکوں! یا جتنی سکت ہے۔۔ سچ کہوں تو مجھے ان سے چڑ ہے۔ ٹیسٹ میں دو نمبر کم لانے پر بھی وہ روتے ہیں اور میں دو نمبر سے پاس بھی ہوجاؤں تو خوشی سے پاگل ہونے لگتا تھا۔" اس کی باتیں واقعی سب کو ہنسا دینے والی تھیں۔
"آدھے گھنٹے میں سامان سمیٹنا ہے۔ اندھیرہ پھیلنے لگا گا۔" ساویز نے غنایہ کے ہاتھوں سے چائے کا کپ تھاما۔ اس کی بات پر سب نے ہی اتفاق کیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آپ مجھ سے اب ناراض تو نہیں ہیں؟ وہ پیسے میں نے خود سے نہیں مانگے تھے۔ امی دینے آئی تھیں۔" رات کو سونے سے قبل غنایہ نے شوہر سے پوچھا تھا۔
"میں پہلے بھی ناراض نہیں تھا غنایہ۔ بس مجھے تکلیف ہوئی تھی۔۔ اور یہ تکلیف کا ہی اثر تھا کہ میرا دل نہیں مان رہا تھا۔" ٹھنڈ بڑھ رہی تھی۔ لحاف میں گھستے ہوئے وہ دھیرے سے اس کا ہاتھ تھامتا ہوا آنکھیں موند کر لیٹ گیا۔
"میں بہت اداس ہوگئی تھی۔"
"اور مجھے تکلیف ہوئی تھی۔۔ مگر میں جانتا ہوں جو تم نے کیا وہ صرف میرے لیے تھا۔" ہاتھوں کی پشت چومی گئی۔ وہ مسکرا دی اور کتاب پڑھنے لگی۔
"لائٹ بند کردوں؟۔" یہ سوچ کر وہ اپنے نوٹس نہیں پڑھ پائے گی ساویز نے منع کردیا۔
"نہیں۔۔ مجھے تو اب ویسے بھی لائٹ میں سونے کی عادت ہوتی جا رہی ہے۔" اس کا ہاتھ اب بھی ہاتھ میں تھا اور آنکھوں میں نیند بھری تھی۔ وہ آنکھیں موندے ساتھ ہی سوگیا تھا اور غنایہ اسے محبت سے تکتی رہ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
ایک مہینہ کب بیتا خبر ہی نہ ہو سکی۔ وہاج جو اپنی وکیشنز کے آخری بیس دن اپنی ماں کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا ساویز اور وجاہت کی وجہ سے دس دن کراچی میں مزید ٹھہر گیا۔ دس دن بعد اب اس کی لاہور کی فلائٹ تھی جہاں ماں کے ساتھ مزید دس دن گزار کر وہ انگلینڈ لوٹ جاتا۔