دوپہر کے دو بج رہے تھے جب وہ کرسی لگا کر اس کے سرہانے بیٹھی ساویز کا چہرہ تک رہی تھی۔
"ساویز۔۔" اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ ساویز کو ذرا فرق نہ پڑا۔ وہ اوندھا منہ لیٹا اب بھی گہری نیند میں تھا۔ ساری رات کا جاگا ساویز، آفس کا کام مکمل کر کے صبح دس بجے ہی سویا تھا۔ غنایہ آدھے گھنٹے سے اسے یوں ہی وقفے وقفے سے پکار رہی تھی۔ دس منٹ بعد اس نے کروٹ لینے کے غرض سے ذرا دیر کو آنکھیں کھولی تھیں جب اسے غنایہ کا چہرہ نظر آیا۔
"کیا ہوا؟۔" اسے یوں اچانک اپنے سامنے پاکر وہ فکرمند ہوا۔
"آپ نے کہا تھا جانا ہے۔" انگلیاں مڑوڑی جا رہی تھیں۔ ساویز نیند سے چندھیائی آنکھیں اس کی انگلیوں پر ڈالتا اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹھہرنے کو کہا۔
"ایسا مت کرو غنایہ۔"
"تو پھر؟۔"
"کہاں جانا تھا۔" وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"امی کے گھر۔۔ آپ نے کہا تھا کہ آج کتابیں لینے جائیں گے۔ پھر رات میں مہمان بھی آجائیں گے تو وقت نہیں ملے گا۔" پیشانی پر پریشانی کے بل نمودار تھے۔ ساویز کو خود پر حیرانی ہوئی۔ کیا وہ اتنی دیر تک سو کر اٹھا تھا کہ غنایہ خود اسے اٹھانے آگئی تھی؟۔
"اچھا وقت کیا ہورہا ہے؟۔" پیروں میں چپل ڈالتا ہوا وہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔
"دو بج رہے ہیں۔" اس کا کہنا تھا کہ ساویز کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
"دو؟ دو بج رہے ہیں؟۔" لہجہ حیران و پریشاں تھا۔
"ہاں۔۔ آدھے گھنٹے سے اٹھا رہی ہوں آپ کو ساویز۔۔" کسی دکھ سے بتا کر وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی جبکہ ساویز کو لگا اسے سننے میں ایک بار پھر غلطی ہوگئی ہے۔
یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ وہ دس بجے ہی سویا تھا، غنایہ نے اسے اتنی جلدی اٹھا دیا تھا۔
"میں تیار ہو رہی ہوں۔" مختصر جواب دے کر سنگھار میز کی جانب بڑھی۔ ساویز نے اس کے حلیے ہر غور کیا۔ لان کا نیا سوٹ پہنے وہ ایک دم فریش تھی۔ بال نہانے کی وجہ سے گیلے ہو رہے تھے۔
اس کو اپنا آپ وجدان سا لگنے لگا جو اپنی بیوی کے کہنے پر صبح چھ بجے بھی اٹھ جایا کرتا تھا۔ چاہے صبح کے چھ بجے ہوں یا دوپہر کے دو۔۔ دونوں ہی صورت میں نیند پوری نہیں ہوئی تھی۔ ایک دم خیال کو جھٹکتے ہوئے وہ نیند میں واش روم کی جانب بڑھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میرو؟۔" اس کی دی گئی ایک ہی آواز پر میرویس کی آنکھ کھلی تھی۔
"ہاں۔" دیوار پر لگی گھڑی سے وقت دیکھتے ہوئے اس نے جواب دیا۔
"تم آدھی رات کو لاونج میں کیوں آئے تھے؟۔" تفتیشی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ بستر پر بیٹھی۔
"میں؟۔" اس کی آنکھیں حیرانی سے پوری کھلیں۔ "میں کب آیا؟۔"
"کل رات تم فریج کے پاس کھڑے تھے۔ مجھے لگا پانی پی رہے ہوگے مگر فریج کا دروازہ بند تھا۔ کیوں آئے تھے رات میں باہر؟۔" لبوں پر شریر مسکراہٹ قائم تھی۔ میرویس کو اچانک ہی یاد آیا۔
"میں پانی پینے ہی آیا تھا مگر گلاس نہ پاکر مڑ گیا۔ تم کیوں جاگ رہی تھی اتنی رات کو؟۔" وہ موضوع جان کر تبدیل کرتے ہوئے ڈپٹنے والے انداز میں اس سے پوچھنے لگا۔
"بات کو کسی اور رخ پر نہ موڑو۔۔ تم نیند میں چل رہے تھے نا رات میں؟؟۔" وہ زور سے ہنسی۔ "پھر میں نے تمہیں جھنجھوڑ کر ہوش دلایا تو تم نیند سے اٹھ کر چونکے اور کمرے میں چلے گئے۔ تم اب بھی نیند میں چلتے ہو۔" وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور میرویس شرمندگی سے کچھ کہہ بھی نہ پایا۔
"اچھا بس کرو!۔" گہری سانس خارج کرتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھ گیا کیونکہ اب دوبارہ نیند آنی ہی نہیں تھی!۔ "میرا موبائل اٹھا کر دو۔" اس نے اپنے لاوارث موبائل کو دیکھا جو بیچارہ اتنی تشدد کے بعد بھی اچھا چل جاتا تھا۔
"اور یہ سامان بھی روز کی طرح نیچے پڑا ہے۔" روما نے باری باری سب کچھ اس کی جانب اچھالا۔ "میں چائے بنا رہی ہوں۔ باہر آجاؤ!۔" ایک نگاہ اس پر ڈالتی وہ باہر نکل گئی۔ میرویس شرمندگی سے تکیے پر مکا مارتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہوا۔ موبائل کھول کر موصول ہوئے میسجز کو چیک کرتے ہوئے وہ سنگھار میز کی جانب بڑھ رہا تھا جب ایک نوٹیفکیشن پر وہ ٹھٹکا۔ عشنا کا نام اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔
"ساویز نے بتایا کہ آج ڈنر میں تم بھی شامل ہو۔ کل جو ہوا اس کے بارے میں غنایہ کو مت بتانا پلیز۔۔ یہ میری
ریکویسٹ سمجھو!۔" میسج پڑھ کر وہ مبہم سا مسکرادیا۔
"میرے اور تمہارے درمیان کی بات ہمیشہ میں نے محفوظ ہی رکھی ہے۔ چاہے وہ پانچ سال پرانی ہوں یا ابھی کی۔۔ ساویز کو تب ہی پتا چلا جب تم نے اس سے ملاقات میں خود بتایا۔۔ ورنہ یہ راز، راز ہی رہ جاتا۔" میسج ٹائپ کر کے اس نے سینڈ کیا اور مسکراتا ہوا واش روم کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا ابھی آنا ضروری تھا بیٹا؟۔" امی حیرانی تھیں۔ غنایہ اپنی کتابیں جمع کرتے ہوئے ایک نظر انہیں دیکھنے مڑی۔
"انہوں نے کہا تھا آج چلیں گے۔ رات میں عشنا اور میرویس بھائی کا ہمارے ساتھ ڈنر ہے اس لیے پھر انہیں شاید وقت نہ ملے۔" وہ بے دھیانی میں بول پڑی۔
"میرویس کون؟۔" عفت چونکی۔ "یہ وہی لڑکا ہے نا جو عشنا کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا؟۔" انہوں نے میرویس کو شادی میں ہی دیکھا تھا جس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ ساویز کا دوست ہے۔
"ہاں امی۔" وہ مختصراً بولی۔
"تمہارے بابا کو وہ عشنا کی وجہ سے نہیں پسند! یاد نہیں کیسے عشنا اس کی پہلے باتیں کیا کرتی تھی؟۔" عام سے لہجے میں کہتی ہوئیں وہ وہیں بستر پر بیٹھ گئیں۔
"میں ان سے ولیمے کے روز ملی ہوں۔ یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی میرویس ہیں جنہیں عشنا کوسا کرتی تھی۔ اتنے گڈلکنگ اور نرم مزاج شخص ہیں!۔"
"اچھا بہرحال اپنے ابا کو مت بتانا کہ آج میرویس کے ساتھ عشنا بھی ڈنر میں شامل ہے۔" وہ اسے تاکید کرتیں مسکرا کر بولیں۔
"ساویز ڈرائنگ روم میں ہیں؟۔" ان کو یہاں آئے آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا۔
"ہاں اور نیند میں صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موند کر بیٹھا ہے۔۔ جب ہی میں تم سے سوال کرنے آگئی کہ ابھی آنا ضروری تھا۔ کیا اس کی نیند پوری نہیں ہوئی؟۔" وہ اسے گھور کر دیکھتے ہوئے مبہم سا مسکرا رہی تھی۔
"وہ سو گئے؟۔" غنایہ احساسِ شرمندگی کے مارے بولی۔ "ساویز آج کافی دیر سے سوئے تھے۔ میں انہیں کبھی نہ اٹھاتی اگر کتابوں کا مسلہ نہ ہوتا۔"
"اچھا خیر تم جاؤ اور اس سے چائے کا پوچھو۔۔ ورنہ کہو کہ تمہارے کمرے میں آکر لیٹ جائے۔ سامان سمیٹنے میں تمہیں کافی وقت لگے گا اور اس کا یوں صوفے پر سونا جسم میں تکلیف پیدا کرے گا۔" ان کے یوں کہنے پر وہ کچھ بول نہ سکی۔ کیا ہی انہیں بتاتی کہ اس کی وجہ سے وہ صوفے پر ہی سوتے ہیں۔ ماں کا حکم مانتے ہوئے وہ اپنے بستر کی چادر صاف کرتی ڈرائنگ روم کا رخ کرنے باہر بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے علم نہیں تھا کہ تمہارے لیے یہ راز اہم ہوگا۔ میں معذرت چاہتی ہوں اگر میرا ساویز کو یوں بتانا تمہیں ناگوار گزرا ہو۔۔" ایک نیا میسج۔۔
"میرویس ابھی بے حس نہیں ہوا کہ وہ تم سے معافی کا طلب گار بنے۔۔ اگر تم یوں کہو گی تو مجھے دکھ ہوگا۔" جھینپ کر کہا گیا تھا۔
"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یوں تم سے معافی مانگوں گی۔" بات بڑھ رہی تھی۔
"اب تم سے کیا معذرت کہلوانا۔۔" ان چند لفظوں میں جذبات چھپے تھے۔ وہ کسی خوبصورت انداز میں پڑھ کر مسکرا دی۔
"تم ذرا نہیں بدلے میرویس۔۔" اس نے کھلکھلاتے ہوئے ٹیکسٹ کیا۔
"وقت آگے بڑھ گیا مگر تم وہیں پر ٹھہری ہو۔"
"تمہیں لگتا ہے تم بدل گئے ہو؟ ذرا نہیں بدلے۔۔ ہاں دیکھنے میں زیادہ اچھے ہوچکے ہو مگر عادتیں اور باتیں تو پہلی سی ہیں۔"
"اگر یہی سب تم مجھے پانچ سال پہلے کہتی تو میں تمہارے لیے شاید دیوانہ ہوجاتا۔" قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے کچھ سوچ کر میسج سینڈ کیا۔
"مگر اب ہم بڑے ہوگئے ہیں۔"
"ہم اس وقت بھی بڑے تھے عاشی! مگر اس وقت یہ پانچ سال درمیان میں نہیں تھے جو اب آ کھڑے ہوئے ہیں۔"
اس کے یوں عاشی لکھنے پر عشنا جی بھر کو چونکی تھی۔ اسے یاد تھا یہ نام میرویس نے ہی رکھا تھا اور اس کے بعد سے ہی سب اسے عاشی کے نام سے پکارنے لگے تھے۔
"تمہیں اب بھی وہ نام یاد ہے؟۔" حیرانی سے پوچھا گیا۔
"میں بھولا ہی کب تھا۔۔"
"تمہارا شکریہ۔۔"
"تمہارا نام یاد رکھنے پر؟۔" کچھ چونک کر پوچھا۔
"نہیں میرویس! کل میری مدد کرنے پر۔۔"
"اس کی ضرورت نہیں۔۔"
"اس بارے میں غنایہ کو کچھ نہیں بتانا۔ میری التجا ہے۔" وہ یہ بات غلطی سے بھی غنایہ کو نہیں پتا چلنے دینا چاہتی تھی۔ اس لیے دوبارہ لکھ پڑی۔
"ان پانچ سالوں میں یہ بھی بھول گئی ہو کہ میرویس تمہاری باتیں آگے نہیں کرتا؟۔" وہ ہنس کر بولا تھا اور عشنا اس میسج سے مکمل مطمئن ہوچکی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ساویز۔۔" اس کی پہلی ہی آواز میں وہ چونک کر اٹھا تھا۔
"ہاں۔" آنکھیں رگڑتے ہوئے وہ سیدھا ہوا۔
"آپ کمرے میں آجائیں۔" اس نے دھیمی آواز میں التجا کی۔
"کیوں خیریت؟۔" وہ اپنے یوں سوجانے ہر پہلے ہی شرمندہ ہو رہا تھا۔
"میرے بستر پر لیٹ جائیں۔"
"نہیں مجھے نیند ہے۔۔ بس آنکھ لگ گئی تھی۔ تمہارا کام ہوگیا؟۔"
"ہاں ہوگیا۔۔" اس نے جھوٹ کہا۔ نجانے کیوں وہ سچ کہہ کر اسے مزید اس صوفے پر سونے کی تکلیف نہیں دے سکی۔
"کتابوں کا بیگ لے آؤ۔ میں اٹھا لوں گا۔" وہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ غنایہ ایک نظر اسے دیکھتی کمرے میں چلی آئی۔ ضروری کتابیں اور اسائمنٹس اٹھا کر تیزی سے بیگ میں ڈالے اور باہر نکلنے لگی۔
"امی میں باقی چیزیں بعد میں لے جاؤں گی۔" آہستگی سے عفت کو اطلاع دیتے ہوئے وہ ساویز کو بیگ دینے بڑھی۔ نیند سے سرخ آنکھوں کو دیکھ کر غنایہ نے لب بھینچے۔ دل پھر کسی احساسِ شرمندگی سے بھاری ہونے لگا۔ وہ خاموش کھڑا اس کی بات پر اثبات میں سر ہلاتا ہوا، اس کی جانب بڑھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کہاں جا رہے ہو؟۔" اسے دل جمعی سے تیار ہوتا دیکھ کر وہ حیرانی سے بولی۔ سیاہ کالر والی شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے میرویس نے روما کو دیکھا تھا۔
"ساویز کے گھر۔۔" بالوں کو سلیقے سے بناتے ہوئے کلائی میں گھڑی باندھی اور پرفیوم چھڑکنے لگا۔
"ملنے جا رہے ہو؟۔" سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہوچکی تھی۔
"ڈنر رکھا ہے۔" وہ زیادہ بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اس لیے مختصر بتانے لگا۔
"ساویز بھائی نے؟۔" وہ اب حیرانی سے اس کے پیچھے پیچھے جا رہی تھی جو باہر نکل رہا تھا۔
"ہاں یار! اتنے سوالات کیوں پوچھ رہی ہو؟۔" گھر کے دروازے پر پہنچ کر اس نے مڑ دیکھا۔
"ساویز بھائی نے بلایا ہے تو مجھے بھی جانا چاہئیے۔ ان کی دلہن کو دیکھوں گی۔" تیزی سے بھاگتے ہوئے وہ اندر سے ضروری سامان باہر لے کر آئی اور اپنی سینڈل پہننے لگی۔
"مگر اس نے تمہیں نہیں بلایا۔" وہ ششدر ہوا۔
"کبھی ان سے پوچھ کر گھر گئی ہوں جو اب جاؤں گی؟۔" ذرا سی دیر میں وہ تیار تھی۔
"روما مگر یہ بہت غلط بات ہے! میں تمہیں یوں نہیں لے کر جاسکتا۔" عشنا کی وجہ سے وہ اسے لے کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ روما کو یقینا عشنا کی تصویر یاد ہوگی جو میرویس کے موبائل میں قید ہے۔ نجانے وہ کیا سوچے۔۔
"بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب ہمیں چلنا چاہئیے۔" دروازہ کھول کر وہ باہر نکل گئی تھی جبکہ میر اسے گہری سانس خارج کرتا بےبسی سے تکتا رہ گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے علم نہیں تھا کہ یہ رنگ تم پر اتنا اچھا لگتا ہوگا۔" اس کے بستر پر بیٹھتے ہوئے وہ اپنے پاؤں کا درد دور کرتے ہوئے بولی۔
"چند دنوں پہلے ساویز لائے تھے۔ انہوں نے آج کہا کہ مجھے یہ پہننا چاہئیے۔" بہن کی آمد پر خوش ہوتی وہ سنگھار میز کی کرسی پر بیٹھی۔ ساویز کے ذکر پر عشنا کو کچھ یاد آیا۔ اسے ولیمے کے روز غنایہ کا یوں ساویز سے ہاتھ چھڑانا اور دور ہٹ جانا کافی عجیب محسوس ہوا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ غنایہ سے ضرور بات کرے گی مگر پھر نہ وقت ملا اور نہ موقع۔۔ یوں اچانک بات کرنا مناسب نہیں تھا اس لیے وہ موقع ڈھونڈنے لگی۔
"میرویس بھائی آگئے؟۔" غنایہ کی آواز پر وہ چونکی۔
"نہیں مجھے علم نہیں۔۔ میں سیدھا تمہارے کمرے میں آئی ہوں۔ کیا ابا کو معلوم تھا کہ میرویس بھی آج میرے ساتھ اس ڈنر پر انوائیٹڈ ہے؟۔"
"امی کو بتایا تھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے ابا کو اس بارے میں نہیں بتانا چاہئیے ورنہ وہ میرویس کی موجودگی پر غصہ ہوں گے۔" اس کے کانوں میں خوبصورت چھوٹی جھمکیاں تھیں۔ ہاتھوں میں پستا رنگ کی کانچ کی چوڑیاں جو ہلنے پر کھنکھنانے لگتیں اور لبوں پر ہلکی سرخ لپ اسٹک۔۔ وہ کبھی یہ سب نہ کرتی اگر ساویز اس کی دراز سے خود میک اپ کا سامان نکال کر میز پر نہ رکھتا۔ اس کا یہ اشارہ ہی غنایہ کے لیے کافی تھا۔
"میرویس اتنا بھی برا نہیں کہ ابا غصہ کریں۔" اسے ابا کا رویہ بلکل اچھا نہیں لگا تھا۔
"یہ تم کہہ رہی ہو؟۔" غنایہ نے حیرانی سے بھنویں اچکائیں۔ "ماضی میں تم نے میرویس بھائی کی برائیاں کر کے سب کا دل برا کیا ہے حالانکہ میرویس بھائی مجھے کہیں سے برے محسوس نہ ہوئے۔۔ اچھے خاصے ہینڈسم اور خوش اخلاق ہیں۔ اب چاہتی ہو ابا پھر وہی کریں جو تم کہو گی؟۔"
"میں برائیاں نہیں کرتی تھی غنایہ بلکہ جو غصہ مجھے اس پر تھا وہ گھر آکر اسے کوستے ہوئے اتارا کرتی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ ابا اس حد سنجیدہ لے لیں گے کہ پانچ سال بعد بھی انہیں میرویس یاد رہے گا۔" پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی۔
"اس بارے میں بات کرنا بیکار ہے۔" وہ دھیما سا مسکرا دی۔ عشنا نے گہری سانس لی اور اس کے نزدیک آکر بیٹھ گئی۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور ساویز شاید نیچے تھا۔
"مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔" سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس نے غنایہ کے تاثرات دیکھنے چاہے۔
"ہاں میں سن رہی ہوں۔" پیشانی پر جستجو کے ہلکے بل نمودار ہوئے۔
"مگر وعدہ کرو تم سچ کہو گی! بہن سے کوئی غلط بیانی نہیں کرو گی۔" سات سال بڑی بہن ہونے کے ناطے اس کا لہجہ کچھ حکمیہ تھا۔ غنایہ الجھ سی گئی۔
"ہاں ٹھیک ہے۔۔ تم جانتی ہو میں جھوٹ کا سہارا نہیں لیتی۔"
"جن حالات میں تمہاری ساویز سے شادی ہوئی، میں کچھ نہ کر سکی۔ مگر کئی بار مجھے ایسا محسوس ہوا کہ تم دونوں کے درمیان کچھ ٹھیک نہیں۔۔ ولیمے والے دن تمہارا وہ رویہ بہت مختلف تھا غنایہ۔۔ یوں ہاتھ جھٹک کر پیچھے ہٹ جانا اور سہمنا۔۔۔ ساویز نے بھی کچھ نہیں کہا اور باہر چلا گیا تھا۔ میں جان گئی ہوں کہ تمہارا اس سے رشتہ عام بیویوں والا نہیں ہے۔ مجھے بتاؤ کیا معاملہ ہے؟ کیا تم ساویز کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی؟۔" چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہوئے۔ غنایہ کے چہرے پر ایک رنگ آکر گیا تھا۔ اس نے تیزی سے پہلو بدلا۔۔ اس کے لیے یہ موضوع اس قدر حساس تھا کہ آنکھیں نم ہونے میں وقت نہیں لگا۔ نگاہ اٹھا کر بہن کو دیکھا تو عشنا کو اپنا دل چیرتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کی آنکھوں کے آنسو مزید اذیت دینے لگے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
گاڑی گیراج میں پارک کرتے ہوئے وہ دروازہ کھول کر باہر نکلنے رہا تھا۔
"ارے دیکھو ذرا کون آیا ہے!۔" ساویز کسی کی موجودگی محسوس کرتا ہوا لاؤنج سے باہر نکلا تھا۔
"میں آئی ہوں!!۔" روما خوشی سے چہکتی ہوئی گاڑی سے آئی۔
"یہ تو واقعی ایک اچھا سرپرائز ہے!۔" خوشگوار لہجے میں کہتے ہوئے وہ ایک نظر میر کو دیکھتا ہوا بولا جو گاڑی لاک کرکے باہر نکل رہا تھا۔
"حالانکہ میری دعوت بھی نہیں تھی۔۔" وہ ہنس پڑی۔ ساویز نے میرویس کو دیکھا جو گاڑی کی چھت پر دونوں بازو رکھ کر اب اسے کندھے اچکائے دیکھ رہا تھا۔
"تمہیں دعوت کی ضرورت نہیں روما! تم جب چاہو آسکتی ہو۔۔" پیار سے کہتے ہوئے وہ روما کو اچھا لگا۔
"مگر آپ نے تو مجھے شادی پر بھی نہیں بلایا ساویز بھائی!۔" یکدم ہی اسے یاد آیا تو وہ خفا خفا سے لہجے میں بولی۔ ساویز چونکا۔ اس نے یوں ہی میرویس کو آئبرو آچکا کر دیکھا جو اب اسے آنکھیں دکھا رہا تھا کہ ایسا کچھ نہ کہنا کہ وہ میرو پر برس پڑے۔
روما نے دونوں کو باری باری دیکھا۔ ساویز نے بےچارگی سے میر کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔
"ایسا ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں نہ بلاؤں؟ میں نے کہا بھی تھا میر سے مگر وہ تمہیں نہیں لے کر آیا۔" میر کو ڈانٹنے والے انداز میں گھورتے ہوئے قدرے بے بسی سے بولا۔
"کیا؟۔" روما کا ششدر ہونا میرویس کے چھکے چھڑا گیا۔ "اس نے مجھ سے کہا تھا کہ ساویز بھائی نے تمہیں شادی پر نہیں بلایا۔" وہ تقریبا دانت پیس کر کہتی بھائی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔
"مجھے علم نہیں تھا ورنہ میں تمہیں علیحدہ سے کال کرلیتا!۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ اندر آجاؤ اور ذرا اپنی بھابھی سے اب ملاقات ہی کرلو۔۔" ان دونوں کے ہمراہ وہ لاونج کی جانب بڑھ گیا۔ میرویس آہستگی سے ان سے دور آگے بڑھ رہا تھا۔ ہاتھ میں گاڑی کی چابی اور قدرے بیزار لہجہ۔۔
"غنایہ بھابھی کہاں ہیں؟۔" لاونج خالی تھا البتہ اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔
"لگتا ہے میں پہلے آگیا۔" پیشانی مسلتے ہوئے وہ دھپ سے صوفے پر بیٹھا۔ ساویز نے میر کی آنکھوں میں دیکھا۔
"خاص مہمان بھی آچکے ہیں۔" اس کا ذو معنی لہجہ، میرویس کے چہرے پر مسکراہٹ لے آیا۔ "میں غنایہ اور عشنا کو بلا کر لاتا ہوں۔" انہیں وہیں چھوڑ کر وہ اوپر بڑھ رہا تھا، جب اسے کچھ یاد آیا۔ لاونج میں رکھی میز سے گجروں کی تھیلی نکال کر مسکراتا ہوا وہ اوپر بڑھا۔ ولیمے کے بعد سے اب تک کافی کچھ بدل گیا تھا۔۔ اسے امید تھی کہ اس بار غنایہ اس سے نہیں کترائے گی۔ زینے چڑھتا ہوا وہ ابھی کھلے کمرے میں داخل ہوتا ہی کہ غنایہ کی نم آواز پر ساکت ہوا۔
"مجھے اب بھی ڈر لگتا ہے عشنا۔۔ یہ شادی ایک مجبوری تھی جو مجھے کرنی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ بس ایک بار باصم سے جان چھوٹ جائے گی تو زندگی آسان ہو جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔۔ میں غلط تھی۔۔ اب بھی اگر وہ میرا ہاتھ پکڑتے ہیں تو مجھے بہت عجیب محسوس ہوتا ہے۔ ہم عام میاں بیوی کی طرح نہیں ہیں۔۔ میں جانتی میرا یوں کترانا، گھبرانا اور ان سے سہمنا ٹھیک نہیں ہے مگر میں کیا کروں عشنا۔۔ ساویز بہت اچھے ہیں مگر مجھے ان سے محبت نہیں ہے۔۔" اس کی آواز آخری میں لرزی تھی اور ساویز کو محسوس ہوا تھا کہ وہ سانس نہیں لے پائے گا۔
"میں محبت نہیں کرنا چاہتی عشنا۔ مجھے اپنوں کے علاؤہ سب سے خوف محسوس ہوتا ہے اور ساویز سے مجھے اپنائیت بھی محسوس نہیں ہوتی۔" اس بات پر وہ مزید سسکی تھی۔ ساویز کا چہرہ یکدم سپاٹ ہوا۔ دل ڈوب رہا تھا اور سانسیں رکنے لگی تھیں۔ "وہ بہت اچھے ہیں کہ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا کہ شاید میں ہی ان کے قابل نہیں ہوں۔۔ وہ جب سوتے ہیں، کب جاگتے ہیں، ان کے اصول، پابندی کسی سے واقف نہیں ہوں۔۔ مجھے کوئی جذبہ محسوس نہیں ہوتا۔ نہ ان سے نفرت محسوس ہوتی ہے نہ محبت۔۔ میں بس زندگی گزار رہی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ ایک دن ساویز بھی اکتا جائیں گے۔ پھر یا تو وہ دوسری شادی کرلیں گے یا مجھے چھوڑ دیں گے۔" آنکھیں بہہ رہی تھیں اور عشنا کو اسے سنبھالنا مشکل ہورہا تھا۔
"کیا انہیں تم سے محبت ہے؟۔" نجانے کیوں اس نے یہ پوچھا۔
"مجھے نہیں معلوم۔۔ میں نے کبھی محبت نہیں کی اور نہ مجھے نصیب ہوئی۔ ان کی پیار بھری نظریں مجھے پل پل شرمندہ کرتی ہیں کہ میں انہیں بدلے میں محبت نہیں دے پا رہی ہوں۔ مجھے نہیں ہے محبت۔۔ میں کیوں ان کے ساتھ رہ رہی ہوں مجھے نہیں علم۔۔ مگر میں ان کی احسان مند ہوں۔ انہوں نے مجھ سے شادی کر کے پناہ دی۔ میرا خیال رکھا اور محفوظ محسوس کروایا۔ یہ احسان میں کبھی نہیں اتار سکتی۔ مستقبل روشن نہیں ہے عشنا! آگے سب کچھ تاریک ہے۔۔ یوں ہی زندگی کے سفر میں منزل پر پہنچنے سے پہلے ہمارا ہاتھ چھوٹ جائے گا۔"
ایک نظر ہاتھ میں رکھے گجروں کی تھیلی دیکھتے ہوئے اس نے لب بھینچ لیے۔ وہ ایک مضبوط مرد خود کو سب سے ہارا ہوا مرد سمجھنے لگا۔ سانسیں لینا کافی دشوار محسوس ہو رہا تھا۔ دوسرے ہی لمحے اس نے وہ تھیلی جیب میں رکھ دی۔۔ یہ دل بھی کتنا پاگل تھا۔۔ یا بے وقوف! جو سمجھ رہا تھا کہ اب شاید بات پہلی جیسی نہیں رہے گی! مگر اب بھی سب پہلے ہی جیسا تھا۔ وہ دوریاں، وہ اجنبیت اب بھی وہیں کھڑی تھی۔
"ایسا نہیں ہوگا۔۔ تم ایک بہت اچھی بیٹی اور بہن ہو غنایہ! جلد ایک اچھی بیوی بھی بن جاؤ گی اور ساویز کو تمہاری فکر ہے! وہ جانتے ہیں کہ تم حالات سے کتنا ڈسٹرب لڑکی ہو۔" وہ ابھی مزید کچھ کہتی کہ ساویز نے ہمت کرتے ہوئے آگے بڑھ کر دروازہ بجایا اور داخل ہوا۔
"لڑکیوں کی باتیں ختم کروانا مشکل کام ہے مگر میں بتانے آیا ہوں کہ میرویس بھی آگیا۔" بمشکل مسکراتے ہوئے وہ عشنا کو دیکھتے ہوئے بولا۔ نجانے کیوں غنایہ کو دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔
"وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔۔ شاید اس لیے کہ کافی دنوں بعد ہماری ملاقات ہوئی ہے۔" وہ ہنستے ہوئے غنایہ کے آگے کھڑی ہوئی تاکہ وہ آپنے آنسو صاف کر سکے۔ ساویز نے محسوس کرتے ہوئے عشنا کو دیکھا۔
"تم آتے رہا کرو عشنا۔ غنایہ کا دل بہلا رہے گا۔"
عشنا نے اس کے لہجے میں غنایہ کے لیے فکرمندی محسوس کی تھی۔
"مگر میں ہی کیوں؟ آپ کبھی غنایہ کو میرے گھر بھی لے کر آئیے گا۔" مبہم سی مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔ اگر غنایہ کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ ساویز جیسے مرد کی بیوی ہونے پر خدا کی شکرگزار ہوتی۔۔
"ضرور کیوں نہیں۔۔" جواباً وہ بھی مسکرادیا۔
"میں نیچے جا رہی ہوں۔ آپ لوگ بھی آجائیں۔" یوں مزید کمرے میں ٹھہرنا درست نہ لگا تو وہ نیچے کی جانب بڑھ گئی۔ ساویز نے مڑ کر اسے زینے اترتے دیکھا اور کمرے کا دروازہ دھیرے سے بند کرتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔ وہ آنسو صاف کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی اور اب کھڑے ہوکر اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ چلتا ہوا اس کے بلکل آگے کھڑا ہوا۔
"پہچانی نہ جاؤ اس لیے آنسو تو چھپالیے مگر ان کی سرخی کیسے چھپاؤ گی غنایہ؟۔" اس کی دل آزاری ہوئی تھی۔ غنایہ نے ساکت ہو کر اسے دیکھا۔ دل میں خوف جاگنے لگا کہ کہیں اس نے گفتگو تو نہیں سن لی۔
"کیا مطلب؟۔" وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔ ساویز ہنس پڑا۔
"بلآخر تم نے مجھے احساس دلا ہی دیا کہ جو میں محبت میں کرتا آرہا تھا وہ دراصل احسان تھے۔۔ کتنا بےوقوف ہے ساویز! احسان کے لیے غنایہ سے شادی کرلی اور محبت۔۔ محبت تو کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔ یہ سب احسان تھا۔۔" دل بھاری ہونے لگا۔ غنایہ کو اپنی دھڑکنیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ چہرہ ششدر اور کچھ غلط ہوجانے کی خوف سے سفید پڑگیا۔
"آئیندہ دل کی بات کسی سے کرتے ہوئے دروازہ بند کردے گا۔۔ کہ کہیں پھر سے آپ ساویز کی دل آزاری کی وجہ نہ بن سکیں۔۔" اس سے قبل کہ آنکھیں مزید سرخ ہوجاتیں وہ پلٹ گیا مگر غنایہ وہیں ٹھہر گئی۔ ساکت نظریں ساویز کی پشت کو تک رہی تھیں جو باہر نکل رہا تھا۔ یہ کیا ہوگیا تھا۔۔ وہ اب کیسے اس کا سامنا کرے گی۔ ایک اذیت، خوف اس کے دل میں بیٹھنے لگی۔۔ یکدم ہی موبائل میز پر رکھتے ہوئے وہ اٹھی اور تیزی سے باہر نکلتے آنسو پوچھنے لگی۔ شادی کے اتنے دنوں بعد اس میں اتنی تو ہمت آہی گئی تھی کہ وہ ساویز کو مخاطب کرسکے۔ دروازہ اپنے پیچھے بند کرتے ہوئے وہ باہر نکلی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
میرویس کو موبائل پر ٹیکسٹ کرتے دیکھ کر وہ اس کے موبائل میں جھانک رہی تھی، جب کسی کے زینے سے اترنے کی آواز پر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ سیاہ کرتی میں ملبوس ایک لڑکی زینے اترتے ہوئے نیچے آرہی تھی۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہی روما کو دھچکا لگا تھا۔
"یہ تو وہی لڑکی ہے!!!۔" حیرانی سے منہ کھلا۔ میر اس کی آواز پر نگاہوں کے تعاقب میں دیکھنے لگا۔
"ہششش!!! اس کے سامنے مت کہنا۔" اسی وقت سے تو وہ گھبراتا آرہا تھا۔ عشنا انہیں باتیں کرتا دیکھ چکی تھی۔
"اسلام علیکم۔" اس چھوٹی لڑکی کو دیکھ کر اس نے میرویس کو سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔" مردانہ بھاری آواز عشنا کے کانوں پر پڑی۔
"یہ چھوٹی لڑکی کون ہے؟۔" لبوں پر مسکراہٹ سی پھیل گئی۔
"آپ تو وہیں تصویر والی لڑکی ہیں!!۔" میرو کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ جھٹ سے بولی۔ عشنا الجھی جبکہ میرویس کا دل چاہا اپنا آپ کہیں گم کردے۔
"کون سی تصویر والی لڑکی؟۔" پیشانی پر کچھ نہ سمجھنے کی تاثرات نمودار ہوئے۔
"خاموش رہو روما!!۔" میرویس موبائل برابر میں پھینکتا ہوا برہم ہوتے ہوئے بولا۔
"وہی جو میرو کے موبائل میں تصویر ہے! مجھے یقین ہے وہ پیلے جوڑے والی تصویر آپ کی ہے!!۔" وہ تجسس کے مارے عشنا کا جواب سننے لگی جبکہ عشنا ششدر کھڑی تھی۔
"تم میرو کی کون ہو؟۔" وہ اس پیاری سی لڑکی کو دیکھ کر یکدم بولی۔
"یہ میرو کی بہن ہے۔۔" اس بار میرویس بولا تھا۔
"اور میرو کون ہے؟۔" اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ روما اور میرویس بہن بھائی ہیں۔۔
"میں ہوں۔۔" شرمندگی کے مارے وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھتا صوفے کی پشت پر سر ٹکاتے ہوئے کسی مجرم کی طرح بولا۔ عشنا کی آنکھیں پھیلیں۔ میرویس کے موبائل میں اس کی تصویر؟؟ اور یہ چھوٹی لڑکی اس کی بہن؟؟
"کیا کہا؟۔" وہ حیرت و بے یقینی سے تقریباً چیخی تھی۔ میرویس نے کان میں انگلی گھمائی۔
"اس میں چیخنے والی کوئی بات نہیں تھی عشنا۔" لاحول پڑھتے ہوئے وہ کچھ گھور کر بولا۔
"تم اس چھوٹی سی لڑکی کے بھائی کیسے ہوسکتے ہو؟۔" یہ سمجھنا کتنا مشکل تھا۔۔ وہ لڑکی بمشکل تیرہ چودہ سال کی تھی اور میرویس خود انتیس! اسے آج تک لگتا رہا کہ میرویس اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے۔
"میں روما ہوں۔۔ روما چوہدری!۔" مسکراہٹ لبوں پر پھیلی۔ اس نے اٹھ کر عشنا کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ بےیقین کھڑی عشنا نے چونک کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اثبات میں سر ہلانے لگی۔
"میں نے ناممکن، ممکن کر دکھایا۔۔ اور دیکھ لو۔۔ پندرہ سال چھوٹی بہن بھی ہے۔" لبوں پر شرارت سی پھیل گئی۔ "اور ہاں! میں جانتا ہوں یہ ایک کافی بڑا گیپ ہے مگر اس میں کوئی قباحت نہیں!۔"
"جتنی تمہاری عمر ہے اگر تم اسے اپنی بیٹی بھی کہتے تو بھی میں یقین کر لیتی۔۔" اس نے بھی بدلے میں شرارت سے کہا مگر یہ بات میرویس کا دل جلا گئی۔
"یہ نا ممکن ہے! اس کے لیے مجھے چودہ سال کی عمر میں شادی کرنی پڑتی۔" وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
"یہ کون ہیں تمہاری میرو؟ میں نے جب تصویر دیکھ کر پوچھا تھا تو تم نے موضوع بدل دیا تھا۔ اب مجھے بھی بتاؤ کہ یہ کون ہے۔" اسے وہ لڑکی تصویر میں جتنی بری لگی تھی سامنے سے اتنی ہی خوبصورت اور نرم مزاج معلوم ہوئی تھی۔ تصویر کے دوبارہ ذکر کر عشنا نے چونک کر میر کو دیکھا جو ذو معنی لہجے میں اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"میری تصویر؟۔" لہجہ اب کچھ دھیما تھا۔ وہ اب بھی میرویس کو دیکھ رہی جبکہ میرویس اس کے سوال پر چہرے کا رخ تبدیل کر چکا تھا۔
"ہاں آپ کی تصویر۔۔ مگر اس تصویر میں آپ کے بال کندھوں تک آتے تھے۔" روما نے اس کے بال دیکھے جو کافی لمبے تھے۔ عشنا پل بھر میں سمجھ گئی کہ تصویر پرانی ہے۔
"مجھے علم نہیں تھا۔" وہ مروتاً مسکرائی۔
"میں آپ کو ڈھونڈ کر دکھاتی ہوں۔" میرویس کے ہاتھ سے وہ موبائل لیتی ہی کہ میرویس نے ہاتھ اونچا کر کے اس کی کوشش کو ناکامیاب بنایا۔
"بس روما! بہت ہوا۔۔" آئبرو آچکا کر سمجھاتے ہوئے اس نے موبائل جیب میں رکھ دیا۔ عشنا اس کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہی تھی۔ اس تصویر کے ذکر پر خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔ زینے اترتا ساویز اور اس کے پیچھے غنایہ کو دیکھ کر وہ ان کی جانب مسکراتے ہوئے بڑھنے لگے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میری دوست چاہتی ہے کہ تم اس سے بات کرو۔" خوبصورت نازک آواز اس کے کانوں پر پڑی تو وہ مسکرا دیا۔
"اس سے کہو کہ وجاہت کے لیے پریزے ہی کافی ہے۔" چائے کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے وجاہت ایک انداز سے بولا۔
"تم اس سے بھی خوبصورت لڑکی ڈیزرو کرتے ہو۔"
"تم پریزے سے خوبصورت کوئی بتلاؤ تو بات ہو!۔" اسے یقین تھا اس لیے بے فکر مسکرا رہا تھا۔
"اگر حسین لفظ کا کوئی مطلب ہے تو فبیہا ہے۔ وہ میری بہت خوبصورت دوستوں میں سے ایک ہے۔" کہتے ساتھ اس نے دور سے ہی وجاہت کو تصویر دکھائی۔ وہ ہنسا اور پھر قہقہہ لگانے لگا۔
"تمہارے نزدیک ظاہری خوبصورتی اہم ہوگی مگر میرا دل اس کے اندر کی خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ دیکھنے میں تو پریزے بھی کم نہیں۔۔ ایک خوبصورت، نازک مزاج اور حسین لڑکی ہے جس کے سوچ کا محور صرف اور صرف تمہارا بھائی ہے۔" اس کی مسکراتی پریزے۔۔
"تمہیں وہ کتنی پسند ہے وجاہت؟۔" کائنہ کی آواز پر وہ چونکا اور پھر زیر لب مسکرا دیا۔
"اس دنیا میں مجھے چند لوگوں سے ہی تو محبت ہے۔" اور وہ "چند لوگ" کائنہ اچھے سے جانتی تھی۔
"تو کیا ان دو یاروں میں ایک ساویز بھی ہے؟۔" نجانے کیوں وہ اس نام پر مسکرائی تھی۔
"اور میرویس بھی ہے!۔" وہ دوبارہ موبائل پر مصروف ہوگیا تھا جبکہ کائنہ کے رخسار سرخ ہونے لگے۔ وہ چہرے کے سامنے میگزین ڈال کر چہرہ چھپانے لگی۔
"تمہیں کیا ہوا؟۔" وہ اس کی حرکت نوٹ کر چکا تھا۔
"نہیں کچھ نہیں۔۔" وہ بنا چہرہ دکھائے گڑبڑا کر بولی۔ اس کے یوں کہنے پر وہ ہنس کر چلتے ہوئے اس کے پاس آیا۔
"میں آفس جا رہا ہوں۔" میگزین ہٹاتے ہوئے اس کا رخسار کھینچتے ساتھ بولا۔
"مجھے آج پارٹی میں جانا ہے۔" ہری آنکھیں اٹھا کر اس نے بھائی کو دیکھا۔
"گارڈز باہر ہی کھڑے ہیں۔" وہ باہر نکلنے لگا۔
"مگر مجھے گارڈز کے ساتھ نہیں جانا وجاہت!۔" ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔
"کیوں؟ تم جانتی ہو نا کہ یہ گارڈز میں نے صرف اور صرف تمہارے لیے رکھے ہیں؟ تاکہ تم جہاں بھی ہو، مجھے تسلی رہے۔" اسے یاد تھا کہ کائنہ کتنے دنوں سے بغیر گارڈز کے آنا جانا کر رہی تھی۔
"میں اپنی دوست کی پارٹی میں گارڈز لے کر نہیں جاؤں گی! ایسا لگتا ہے جیسے تم مجھے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہو وجاہت!۔" اس کی سفید رنگت غصے سے سرخ ہونے لگی۔
"میں تمہیں کنٹرول کرتا ہوں؟۔" وہ ششدر ہی تو رہ گیا۔ "میں نے تمہیں کبھی کہیں جانے سے نہیں روکا کائنہ۔۔ تم لیٹ نائٹ پارٹیز میں جاتی ہو، گھومتی پھرتی ہو کبھی میں نے تمہیں روکا؟ بس کہتا ہوں کہ گارڈز ساتھ رکھا کرو تاکہ مجھے تسلی رہے۔ تم جانتی ہو آج کل کتنا زیادہ کام ہے؟ آفس میں وقت کا اندازہ بھی نہیں ہوتا ایسے میں اگر میں تمہارے لیے پریشان رہوں تو کیا یہ زیادتی نہیں؟ صرف تمہاری حفاظت چاہتا ہوں یار۔۔" اس مہینے میں وہ تیسری بار اس موضوع پر بات کر رہا تھا۔
"میری دوستوں کو لگتا ہے کہ وجاہت کو اپنی بہن پر بھروسہ نہیں اس لئے یہ گارڈز ساتھ بھیجتا ہے۔ کوئی پارٹی ہو یا ایونٹ! ہر جگہ یہ میرے ساتھ ساتھ گھومتے ہیں اور اب مجھے تھوڑے وقت کے کھلی فضا میں سانس لینی ہے! مجھے نہیں چاہئیے یہ تحافظ!۔" وہ غصے میں بولی۔
"کون کہہ رہا تھا کہ وجاہت کو کائنہ پر بھروسہ نہیں؟۔" وجاہت نے ایک آئبرو اچکائی۔
"اس سے فرق نہیں پڑتا وجاہت۔ اور ہاں! خرم 'تمہارا' خاص بندہ ہے۔ میرا نہیں! اس لیے اسے اپنے ساتھ رکھا کرو نہ کہ ان دوسرے گارڈز کے ساتھ شامل کر کے میرے پیچھے کرو۔" وہ پیلے رنگ کے ٹاپ پر نیچے بلو جینز پہنی ہوئی تھی۔ سنہرے بال کھل کر شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ خوبصورت سنہری رنگت پر لمبی گھنی پلکیں اس کی خوبصورت کو مزید بڑھا رہی تھی۔
"میری بات مان لو کائنہ۔۔" وہ گہری سانس خارج کرتا ہوا بےبسی سے بولا۔ یہ محبت ہی تھی کہ وہ اس کی ضد کے آگے کچھ کہہ ہی نہ پاتا تھا۔
"آج نہیں وجاہت!۔" کائنہ منہ پھیر کر صوفے پر بیٹھی۔
"تم پہلے بھی تین بار ضد کر کے بغیر گارڈز کے چلی گئی تھی۔ میں مزید یہ اور کیسے برداشت کرسکتا ہوں۔ اس فکرمندی پر میں کام پر توجہ بھی نہیں دے پاتا کہ اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو؟۔" اپنی بات مکمل کرتے ہوئے وہ جواب کا انتظار کرنے لگا۔ کائنہ دوسری طرف چہرہ کیے بیٹھی رہی جیسے اس سوال کا جواب وہ نہیں دینا چاہتی ہو۔ کافی دیر تک جواب کا انتظار کرنے کے بعد اس نے گہری سانس اندر کھینچی۔ "اچھا یوں ناراض مت ہو! چلی جانا۔ مگر مجھے کال ضرور کردینا۔" بہن کو محبت سے دیکھتے ہوئے بے حد پیار سے بولا۔ یہی وہ وقت جب کائنہ مسکرائی تھی۔
"میں میسج بھی کردوں گی۔" آنکھوں میں معصومیت پھیلی۔ بہن کو مسکراتا دیکھ کر وہ قدرے مطمئن ہوگیا تھا۔
"مسکراتی رہا کرو۔ میرا دل مطمئن رہتا ہے۔" لہجے میں محبت تھی۔ کائنہ کا مسکراتے رہنا ہی اس کا دل مطمئن کرنے کے لیے کافی تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کھانا لگادوں؟۔" وہ جان کر میرویس اور عشنا کے ساتھ کھڑے ساویز کے پاس آئی تھی۔ جوس پیتے ہوئے اس نے خالی نظر غنایہ پر ڈالی۔
"ملازمہ کر لے گی۔ تمہیں اس کی ضرورت نہیں۔۔" اسے دیکھے بغیر روکھے لہجے میں کہا۔ آواز دھیمی تھی کہ غنایہ کی علاؤہ کوئی اور نہ سن سکے۔ وہ اسے بے یقینی سے تکتی رہ گئی۔ ساویز اس کی نگاہیں خود پر محسوس کرتا ہوا وہاں سے لاونج میں چلا آیا۔
"میں برتن نکال دیتی ہوں۔" غنایہ اس سے کہتی کچن میں جانے لگی جب ساویز نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی جانب کیا۔
"میں نے کہا ہے کہ تمہیں اس کی ضرورت نہیں غنایہ۔" بنا کسی تاثر کے اسے دیکھتے ہوئے وہ عام سے لہجے میں بولا۔ نرمی سے کہا گیا یہ جملہ بھی غنایہ کو سخت محسوس ہوا۔ اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔۔ احساسِ شرمندگی اسے اندر سے مار رہی تھی۔ یہ پہلی اور آخری کوشش تھی جو اس نے ساویز کی ناراضگی دور کرنے کے لیے کی تھی۔ اس ناکامی کے بعد وہ دوبارہ کچھ نہ بولی۔ ساویز ملازمہ کو ہدایات دیتا رہا اور وہ روما کے ساتھ صوفے پر بیٹھی دل کی تکلیف دور کرنے کے لیے اس سے باتیں کرنے لگی۔
"آپ بہت اچھی ہیں بھابھی!۔" اس کو پیار سے دیکھتے ہوئے وہ دل سے بولی۔
"تم مجھے باجی بھی کہہ سکتی ہو۔۔" غنایہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
"آپ دونوں بہنیں ہیں نا؟۔" اس کا اشارہ عشنا کی جانب تھا جو میر کے ساتھ کھڑی تھی۔
"ہاں۔۔ وہ میری بڑی بہن ہے۔" لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ دور کھڑے ساویز نے مڑ کر اس کا چہرہ دیکھا تھا جو روما سے بات کرتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ دل کی تکلیف کے باوجود وہ ٹھہر کر دیکھنے لگا۔۔ یکدم ہی اسے وہ الفاظ دوبارہ یاد آئے تو سانس خارج کرتا اندر چلا گیا۔
"تو کیا وہ بھی آپ کو میرو کی طرح تنگ کرتی ہیں؟۔" دونوں کے اپنے بہن بھائیوں کی عمروں میں خاصا فرق تھا، جس سے روما کو لگا کہ غنایہ اور اس کی باتیں کافی ملتی ہوں گی۔
وہ ہنس دی۔
"میرویس بھائی تمہیں تنگ کرتے ہیں؟۔"
"وہ اب مجھ سے ملنے نہیں آتا۔ اس کی جاب اسے تھکادیتی ہے غنایہ باجی۔۔ اور جب میں اسے کہتی ہوں کہ تم مجھ سے اتنی دنوں بعد ملنے کیوں آئے ہو تو میرو کہتا ہے کہ اگلی بار وہ جلدی آئے گا۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں آئے گا میں یقین کرلیتی ہوں۔" وہ اسے اپنے دکھ سنا رہی تھی۔
"عشنا بھی یہی کرتی ہے۔" غنایہ نے اس کے گال پر اپنی انگلی پھیری۔ "وہ بھی کہتی ہے کہ اگلی بار جلد ملاقات کرے گی مگر جاب کی تھکاوٹ کی وجہ سے بھول جاتی ہے۔۔ مگر ہم ان کا احساس نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟۔" اس موقع پر سمجھانا زیادہ بہتر تھا۔
"پھر آپ کیا کرتی ہیں؟۔" روما کو تجسس ہوا۔
"میں اسے کال کرتی ہوں اور پھر ڈھیر ساری باتیں کرکے اپنا دل بہلا لیتی ہوں۔ ملاقاتیں ضروری تو نہیں۔۔ اپنوں کی آواز ہی آپ کا دل سراب کر دیتی ہیں۔"
"مگر میرو کو وقت نہیں ملتا۔۔" چہرہ اداس ہوگیا۔
"اچھا چلو تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں اپنے بھائی سے کتنی محبت ہے؟۔" بات کا موضوع تبدیل کرتے ہوئے وہ کسی تجسس سے بولی۔ روما سوچ میں پڑ گئی۔
"میں بتا نہیں سکتی غنایہ باجی۔۔ اگر میں نے بتانا شروع کیا تو میرو کے بارے میں ہی بولتی رہوں گی۔ بس میں جب بھی اپنے بابا کو سوچنے کی کوشش کرتی ہوں مجھے میرا میرو یاد آجاتا ہے۔ میں بس چاہتی ہوں کہ اسے روز روز دیکھوں۔۔ اس سے باتیں کروں۔ وہ جب گھر آتا ہے تو میں سوچنے لگتی ہوں کہ ایک دن بعد وہ پھر سے چلا جائے گا۔۔ پھر ایک لمبا سا انتظار کروں گی۔ دل بہت اداس ہوجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے دوست بنانے چاہئیں مگر وہ میرا دوست ہے باجی! پتا ہے جس دن اس نے اپارٹمنٹ خریدا تھا اس دن میں بہت روئی تھی کہ اب میرو چلا جائے گا۔ مزید نہ رکنے کا ارادہ ترک کر کے وہ مزید دو دن میرے پاس ہی ٹھہر گیا تھا۔ بہت سارا سمجھایا اور پھر چلا گیا۔ اس وقت میں روز رات میں رویا کرتی تھی اور میرو سے رات رات بھر کال پر بات کیا کرتی تھی۔" اس نے دور کھڑے بھائی کی پشت دیکھی جو لان میں کھڑا تھا۔
"تمہیں بہت زیادہ محبت ہے!۔" غنایہ حیرانی سے مسکرائی۔ روما نے جواباً اس کا ہاتھ تھام لیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے اس تصویر کا علم نہیں تھا۔" عشنا نے جان کر یہ ذکر نکالا۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈال کر کھڑے میرویس کا دل چاہا اپنا سر شرمندگی کے مارے کسی دیوار پر دے مارے۔
"اور مجھے علم نہیں تھا کہ روما یوں ہی کہہ دے گی۔" اس نے افسوس سے سانس خارج کی۔
"کم از کم وہ میرے علم میں اضافہ تو کر گئی۔" عشنا نے گردن پھیر کر لاونج میں بیٹھی روما کو دیکھا جو غنایہ کے ساتھ مصروف تھی۔
"وہ تصویر پانچ سال پرانی ہے۔ مجھے اب یاد بھی نہیں کہ میں نے یہ کب اپنے موبائل میں محفوظ کی تھی۔۔" آستین کے کف فولڈ کرتے ہوئے اس نے کندھے اچکا کر بتایا۔
"مگر اس تصویر کا تمہارے موبائل میں ہونا پوچھنے کے لائق ہے۔"
میر مسکرا دیا۔
"تم تو سب جانتی ہو۔۔" کہتے ہوئے نگاہ اس کی جانب اٹھی۔ لہجہ ذو معنی تھا۔ "پانچ سال پرانی باتیں اب اتنی بھی پرانی نہیں عشنا۔۔ کچھ وقت پہلے روما نے میرے موبائل سے یہ تصویر ڈھونڈ نکالی اور سچ کہوں تو اس سے زیادہ حیران میں ہوا تھا۔۔ اتنے سالوں سے یہ تصویر میرے موبائل میں تھی اور میں بھول چکا تھا۔ تصویر نظر آئی تو پانچ سال پہلے کا پرانا وقت یاد آیا اور پھر۔۔" وہ تیزی سے جملہ مکمل ہی کرتا کہ ٹھہر سا گیا۔ احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی بولنے لگا تھا۔ عشنا اس کے یوں ٹھہرنے پر فوراً چونکی۔
"پھر؟؟۔" پوچھے بنا وہ نہ رہ سکی۔
"پھر میں نے تم سے ملاقات کی خواہش کی۔۔" وہ یہ کیوں کہہ رہا تھا اسے خود نہیں پتا تھا۔ نگاہ اس کے چہرے کے بجائے نیچے گھانس پر تھی۔ عشنا نے اس کے چہرے سے نظر ہٹائی۔ ساکت کھلی آنکھیں لاجواب تھیں۔
"اور ہم آج ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔" عشنا نے جملہ مکمل کیا۔ میرویس چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکا۔۔ کاش کہ وہ بتا سکتا کہ اس کا دل اس بارے میں کیا سوچتا ہے۔
"تم ذرا نہیں بدلی۔۔ جیسے سوچتا تھا، ویسی ہی ہو۔" کافی دیر کے وقفے کے بعد وہ بے خودی سے بولا۔ عشنا نے نچلا لب کاٹا۔
"کیسا سوچتے تھے؟۔"
"یہی کہ تم جو کہتی تھی اپنی باتوں پر پورا اترو گی۔۔ ایک الگ زندگی، جاب، بہادری۔۔ جیسا سوچا تھا بلکل ویسی ہو۔" مبہم سی مسکراہٹ لبوں پر قائم تھی۔ عشنا یک دم شرمندہ ہوئی۔
"تم تو جانتے ہو۔۔ پھر بھی بہادر کہہ رہے ہو؟۔"
وہ مسکرایا اور پھر ہنس دیا۔ اس کا اشارہ اس دن ہوئے رافع والے واقعے کی جانب تھا۔
"میرا مذاق اڑا رہے ہو؟۔" عشنا اس کے یوں ہنسنے پر چونکی۔ میر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
"تم ڈراما کرتی ہو یا واقعی مجھے نہیں جانتی؟۔" ایک آئبرو اچکا کر سوال کیا۔
"میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔" وہ گڑبڑائی تھی۔ میر نے گہری سانس بھر کر اسے دیکھا۔
"میرویس نے کبھی تمہارا مذاق نہیں اڑایا عشنا۔" کیا اسے یاد نہیں تھا کہ میر نے اس کے ساتھ کبھی ایسا نہیں کیا۔۔
"اب تو وقت بدل گیا ہے نا۔۔" دھیمی آواز میں کہتے ہوئے اس نے نگاہ جھکا لی۔
"وقت بدلا ہے یا میرویس؟۔" یہ سوال اچانک تھا۔ وہ ہڑبڑی میں اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"وقت۔۔"
"تو میرویس کیسے بدلا؟ میں نے کبھی تمہارے بارے میں برا نہیں سوچا۔۔ مذاق نہیں اڑایا۔۔ تم تو سب جانتی ہو عاشی۔۔" ان کے درمیان یہ جملہ ہی سب کچھ تھا۔۔
'تم سب جانتے ہو۔۔' جو ان کی ایک دوسرے سے واقفیت کو بتاتا ہے۔
"تم نے شادی کیوں نہیں کی؟۔" یہ سوال یکدم تھا۔ میر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
"کیونکہ میرویس اپنی پسند تبدیل نہیں کرتا۔" ذو معنی لہجے میں کہتے ہوئے میر کی بات عشنا کے سیدھا دل پر لگی تھی۔ کتنے واضح طور پر اس نے چھپی ہوئی بات کہی تھی اور آگے بڑھ گیا تھا۔۔ ہاں وہ وہیں ٹھہر گئی تھی۔۔ ساکت اور اس کے جملے پر غور کرتے ہوئے۔ تو کیا وہ اتنے سالوں بعد بھی اسے ہی سوچا کرتا تھا؟ کیا شخص تھا جو اتنے مواقعوں کے باوجود بھی یہیں ٹھہرا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
پوری محفل میں ایک بار بھی ساویز نے غنایہ کو خود سے نہیں پکارا تھا۔ نہ بلا ضرورت اس کو اپنی آنکھوں کا مرکز بنایا۔ یہی بات غنایہ کو تکلیف دے رہی تھی۔ عجیب بات تھی۔۔ پہلے جب وہ یوں پکارا اور دیکھا کرتا تھا تو غنایہ کو کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا مگر اب وہ ایک ایک بات محسوس کر رہی تھی۔ کھانے کا دور ختم ہوچکا تھا۔ ملازمہ برتن سمیٹ رہی تھی اور عشنا غنایہ سے گفتگو کر رہی تھی جب روما نے غنایہ کی جانب انگھوٹی بڑھائی۔
"ساویز بھائی نے بھیجی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آپ اپنی انگھوٹی لان میں ہی بھول آئیں۔" کہتے ہوئے وہ پلٹتی ہی کہ عشنا نے اسے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ غنایہ نے اس انگھوٹی کو بغور دیکھا تھا۔ وہ خود بھی تو دے سکتا تھا۔۔
"میں بیٹھ جاؤں؟۔" اس نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہاں روما کیوں نہیں۔۔ تم بھی بیٹھ سکتی ہو۔" میز کی کرسی کھینچ کر اس نے بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ وہ مسکرائی اور پھر کرسی پر بیٹھ گئی۔
"آپ میرو کی یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں؟۔" روما نے جب سے اسے دیکھا تھا، اس کے بارے میں جاننے کی چاہ بڑھ گئی تھی۔۔ کہ آخر یہ میرو کی کون ہے اور وہ اس کے بھائی کو کیسے جانتی ہے۔
"ہاں میں اس کی جونئیر تھی۔ ہم دونوں اچھے دوست تھے۔" لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
"پھر آپ اس کی منگنی پر کیوں نہیں آئی تھیں؟۔" اسے عجیب لگا۔۔ بھلا دوست بھی تھی اور میرو کے بڑے دن پر بھی نہیں آئی تھی۔ روما کا کہنا تھا کہ اس کی آنکھیں پھیلیں۔ اسے لگا سننے میں غلطی ہوگئی۔
"منگنی؟۔" لہجہ الجھا ہوا تھا۔
"ہاں! میرو کے تو سب دوست آئے تھے۔ میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا۔"
اس نے آنکھیں اس بار تقریباً پھاڑی تھیں۔ تو وہ منگنی شدہ تھا۔ مڑ کر ایک نظر میرویس کو دیکھا جو باہر لان میں ساویز کے ساتھ بیٹھا تھا۔ یعنی غلط بیانی کی گئی تھی! عشنا کو میر کے الفاظ یاد آئے۔
'میرویس اپنی پسند تبدیل نہیں کرتا۔' اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ کتنی صفائی سے جھوٹ کہا گیا تھا۔ گھڑی میں گیارہ بجتے دیکھا تو اپنا پرس اٹھاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ روما کے رخسار پر پیار کرتے ہوئے وہ لمحے بھر کو مسکرائی تھی۔
"میں چلتی ہوں غنایہ۔۔ پھر کل آفس بھی جانا ہے۔" گلے لگتے ہوئے اس نے ڈھیروں دعائیں دی تھیں۔
"ٹھیک ہے۔ میں باہر تک چھوڑ دیتی ہوں۔"
"نہیں اس کی ضرورت نہیں۔۔ تمہیں بھی کل یونیورسٹی جانا ہے تو اب تم بھی آرام کرو۔" روما کے منہ سے یہ بات جاننے کے بعد وہ مزید ٹھہرنا نہیں چاہتی تھی۔ لاونج سے ابھی نکل ہی رہی تھی جب ساویز اندر داخل ہوا۔
"اس دعوت کا شکریہ ساویز۔۔!۔" وہ ٹھہری۔۔
"ان شاء اللہ جلد دوبارہ ملاقات ہوگی۔" ساویز کی آواز پر وہ مروتاً مسکرائی۔
"ان شاء اللہ۔۔" خدا حافظ کہتے ہوئے وہ باہر نکلی جہاں لان میں میز کے ساتھ کرسی لگائے بیٹھا میر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ نجانے وہ یہ کیوں سوچ رہا تھا کہ اس سے بات کرنے کے لیے بھی عشنا ٹھہرے گی۔۔ مگر عشنا نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں سمجھا تھا۔ وہ ابھی لان پار کر رہی تھی جب میرویس کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔
"تم مجھے بھی خدا حافظ کہہ سکتی ہو۔" کہتے ساتھ دونوں پاؤں اس نے میز پر رکھے۔ ہاتھ میں موجود لائٹر جل بجھا رہا تھا۔
"کیوں کہوں میں تم سے کچھ؟۔" سپاٹ سنجیدہ لہجہ۔۔ وہ بوکھلایا تھا۔ ایک آئبرو آچکا کر اس نے عشنا کو دیکھا۔
"کیا ہوا ہے؟۔"
"مجھ سے پوچھ رہے ہو کیا ہوا ہے؟ میں نہیں بدلی مگر تم بہت بدل گئے میرویس! اب جھوٹ بھی کہنے لگے ہو۔" تڑخ کر کہتے ہوئے وہ تیزی سے باہر نکل گئی جبکہ وہ بھونچکا رہ گیا۔ ایک نظر آئبرو اچکاتے ہوئے اس جگہ کو دیکھا جہاں سے گیراج کی جانب بڑھی تھی۔ ابھی کچھ سوچتا ہی کہ روما کی آواز پر چونکا۔
"ہم گھر کب جائیں گے میرو؟ بہت رات ہوگئی ہے اور کل میرا اسپورٹس ڈے بھی ہے۔ تمہیں یاد ہے نا کہ کل تمہیں آنا ہے؟۔" وہ اس کے نزدیک آتے ہوئے بولی۔۔
"تم نے عشنا سے کچھ کہا ہے؟۔" یہ روما ہی ہوسکتی تھی جو بنا سوچے سمجھے بول دیا کرتی تھی۔
"میں نے ان سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔۔ کیا ہوا ہے؟۔" وہ ناسمجھی میں بولی۔
"کچھ نہیں ہوا بس سرسری پوچھ رہا ہوں۔۔ کیا بات ہوئی ہے؟۔" لان میں وہ دونوں اکیلے تھے۔
"انہوں نے کہا کہ وہ تمہاری دوست ہیں۔۔ اس لیے میں نے پوچھ لیا کہ وہ پھر تمہاری منگنی میں کیوں نہیں آئی تھیں۔" اس کا کہنا تھا کہ میرویس نے لب بھینچ لیے۔
"اس نے کیا جواب دیا؟۔" یہ جاننا زیادہ ضروری تھا۔
"کچھ بھی نہیں۔۔ بلکہ مجھے پیار کر کے جانے کے لیے اٹھ گئیں۔" اس نے کندھے اچکائے جبکہ میرویس بات کی تہہ تک پہنچ چکا تھا۔
"میں کیا ہی کروں تمہارا روما!۔" اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے وہ بیچارگی سے نفی میں سر ہلانے لگا۔ "ہر بات ہر کسی کے آگے نہیں بولا کرتے!۔" اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا وہ محبت سے سمجھا رہا تھا۔
"کیا مجھ سے غلطی ہوگئی؟۔" اسے احساس ہوا۔۔
"کوئی بات نہیں!۔" رخسار پر چومتے ہوئے وہ اس کی ٹھوڑی پکڑتا ہوا بولا۔ "تم پر سب معاف ہے۔" میر کی مسکراہٹ ابھری تھی اور روما کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ بستر پر سونے کے لیے بیٹھی ساویز کا کمرے میں انتظار کر رہی تھی۔ اس کا عشنا سے کہے وہ جملے دل چیر رہے تھے۔ صوفے پر ساویز کا تکیہ رکھا تھا اور ایک چادر جو غنایہ نے الماری سے نکال کر رکھ دی تھی۔ دل عجیب سا بوجھل ہو رہا تھا۔ شرمندگی اندر سے مار رہی تھی۔ اس نے بستر کی دوسری طرف خالی جگہ دیکھی۔ ایک کامیاب مضبوط مرد صرف ایک عورت کی محبت میں اپنا آرام و سکون بھی بھول گیا تھا۔ دل رو رہا تھا۔۔ کاش کہ وہ یہ سب پہلے سمجھ لیتی۔۔ مگر ایک ٹھوکر ہی انسان کو سب سمجھا دیتی ہے۔ اس کے سخت الفاظ ساویز نے کس دل سے سنے ہوں گے۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے ساویز کو اندر داخل ہوتے دیکھا۔ وہ ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے دروازہ بند کرنے لگا۔ اسے حیرانی تھی کہ غنایہ اب تک سوئی نہیں تھی۔ بنا کچھ کہے وہ وارڈروب سے کپڑے نکال کر تبدیل کر آیا۔ غنایہ اب بھی اسے دیکھ رہی تھی۔
"میں صوفے پر سو جاؤں؟۔" اس نے جان کر پہل کی۔ اس کی بات پر وہ چونکا اور آئینے کے عکس میں اسے دیکھنے لگا۔
"تاکہ میں زمین پر سوجاؤں؟۔" ایک آئبرو آچکا کر کہا گیا۔
"نہیں۔۔" نجانے وہ کیا سمجھ رہا تھا۔ "بستر پر سوجائیں۔" کاش وہ اس کی بات مان لے۔۔ کاش کہ وہ پہلے جیسا ہوجائے۔ اپنا لیپ ٹاپ میز سے اٹھا کر وہ اسے دیکھتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا۔ غنایہ کو اس کی نظریں مزید پچھتاوے میں گھیر گئیں۔ اس کی بات کا جواب دیے بغیر وہ لیپ ٹاپ پر مصروف ہوچکا تھا۔
آنکھیں نم ہونے لگیں تو وہ سسکتی ہوئی جھٹکے سے تکیے پر سر رکھتی آنکھیں موند گئی۔ سردی کا احساس ماحول میں آج پچھلے دن سے بڑھ کر تھا۔ ہاتھ پاؤں برف پڑنے لگے مگر اس نے چادر اوڑھنا ضروری نہ سمجھا۔ ساویز نے لیپ ٹاپ سے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ سسکنے کی آواز وہ پہلے ہی سن چکا تھا۔ پندرہ منٹ بعد جب تک وہ سو نہ گئی، لیپ ٹاپ برابر رکھتے ہوئے وہ اٹھ کر اس کی جانب بڑھا۔ چادر اسے اوڑھاتے ہوئے وہ اس کی جانب جھکا تھا۔ آنکھیں بند تھیں جس کی وجہ سے اس کی پلکیں واضح نظر آرہی تھیں۔ رخسار پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے نمی کا احساس ہوا تو وہ بھاری ہوتے دل سے سانس خارج کر گیا۔ دراز سے گجرے نکالتے ہوئے وہ اس کی جانب کچھ جھک کر پاؤں کے بل بیٹھا اور اسے دیکھنے لگا۔
"تم کہتی ہو تمہیں محبت کا علم نہیں۔۔ پھر مجھے کیسے ہونے لگی ہے تم سے محبت؟ پہلی محبت۔۔" دھیمی بھاری آواز میں کہتے ہوئے وہ اس کی پلکوں کو دیکھ رہا تھا۔ کھڑکی سے آتی ہوا میں خاصا زور تھا۔۔ اس کے چہرے کو چھوتی ہوئی وہ اس کے بالوں کو بار بار چہرے پر لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ساویز نے ہاتھ میں موجود مہکتے گجرے دیکھے جو اب بھی تازہ تھے۔ انہیں کھولتے ہوئے اس نے دھیرے سے غنایہ کی دونوں کلائیوں میں پہنائے اور گلاب کی خوشبو کو سونگھنے لگا۔ ہاں وہ الفاظ ساویز کے لیے بے حد تکلیف دہ تھے مگر وہ اپنی تکلیف میں اس کا خیال نہیں بھولا تھا۔
"مجھے تم پسند ہو غنایہ۔۔" پیشانی سے اس کے بال پیچھے کرتا ہوا وہ اسے بے حد انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ "تم سے شادی کا صحیح فیصلہ تھا یا غلط۔۔ مگر میں اب تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں! اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔" کلائی تھام کر اسے چومتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سانسیں تھم سی رہی تھیں مگر اب وہ اسے زندگی بھر کے لیے چاہئیے تھی۔ چنبیلی اور گلاب کی مہک ماحول کو اپنا اسیر بنانے لگی۔ اسے جو کہنا تھا، وہ کہہ چکا تھا۔ ہاں جذبات اظہار مانگتے ہیں مگر غنایہ زندگی کے جس موڑ پر کھڑی تھی، وہ شاید ان جذبات کا احترام نہ کرسکے۔ حلق کی گلٹی نمودار ہوکر غائب ہوئی تھی اور وہ اسے دیکھتے ہوئے مڑ گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کے موبائل پر الارم بجا ہی تھا کہ وہ اس کی تیز آواز سے آنکھیں کھول کر الارم بند کرنے لگی۔ ابھی وہ لیٹے ہی موبائل میں وقت دیکھ کر اسکرین بند ہی کر رہی تھی جب اپنی کلائی پر نگاہ پڑی۔ اس کے الارم پر سنگھار میز کے آگے تیار ہوتے ساویز نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ بھلا اسے کیا ضرورت پڑی تھی الارم لگا کر جلدی اٹھ جائے۔
اپنی دونوں کلائیوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے وہ تقریباً حیرانی سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے اٹھ کر بیٹھی تھی۔ بوکھلائی، الجھی الجھی۔۔ ساویز ایک نظر آئینے کے عکس میں اسے دیکھتا ہوا اپنی تیاری میں مصروف ہوگیا۔
"یہ گجرے۔۔؟۔" بے حد الجھا ہوا معصوم لہجہ۔
"کون سے؟۔" اس نے بظاہر چونکنے کی اداکاری کی۔ غنایہ نے دونوں کلائیاں اس کے آگے پھیلائیں۔ ساویز دیکھتا ہوا لب بھینچ کر آئینے کی طرف مڑ گیا۔
"احسان صاحب آئے ہوں گے باہر سے۔۔ پہنا کر چلے گئے۔" کیا میٹھا طنز تھا۔ غنایہ کے چہرے کی رنگت سفید پڑی۔ کون احسان صاحب؟.
"احسان صاحب؟۔" کچھ سہم کر پوچھا۔
"وہی جنہوں نے تم پر احسان کیا اور تم سے شادی کی۔۔" اس نے بات جس طرح گھوم پھر کر مکمل کی تھی، غنایہ کو سمجھنے میں وقت لگا تھا۔ جیسے ہی ذہن پر زور دیا تو اس کی بات کا مطلب سمجھ آیا۔ وہ اب پہلے سے زیادہ حیران ہوئی تھی۔
"آپ نے پہنائے ہیں؟؟۔" دل میں ایک عجیب سی ہلچل مچی۔۔ آج کا دن کل سے کچھ مختلف تھا۔
"مجھے اپنا نام 'احسان' رکھ لینا چاہئیے۔۔ اچھا ہے تاکہ جب جب تم پکارو مجھے یاد رہے کہ میں نے تم پر احسان کیا ہے۔" آج تو وہ کچھ بدلا ہوا ہی نظر آتا تھا۔۔ طنز کے بعد طنز۔۔ وہ بوکھلا سی گئی مگر اب کی بار اس کی باتیں غنایہ کا دل بوجھل نہیں کر گئی تھیں۔ اسے اچھا لگا ساویز کا یوں سب کہنا۔۔ نگاہ دوبارہ ان گجروں پر اٹک گئیں۔ پھول سوکھ کر روکھے ہوگئے تھے مگر ان کی خوشبو وہ اب بھی محسوس کر سکتی تھی۔ یہ گجرے ساویز نے اسے رات میں پہنائے ہوں گے۔۔ یہ سوچ کر ہی لبوں پر مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ نجانے کیوں مگر اس بار وہ بلکل نہیں گھبرائی تھی۔ یہ سب یکدم ہی اچھا لگنے لگا۔۔ وہ رات ایسی کیا تبدیلی لائی تھی کہ آج وہ اس پھول اور پھول پہنانے والے کو بہت شوق سے دیکھ رہی تھی۔
"تھینک یو۔" مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اس نے ساویز کو دیکھا۔
"تمہیں ایک اور جملے کا اضافہ کرنا چاہئیے۔" وہ جانے کے لیے تیار تھا۔
"جی؟ کون سا؟۔" غنایہ سوچ میں پڑ گئی۔
"میں ساویز کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔" عام سے لہجے میں ایک اور میٹھا طنز۔۔ اس نے لب بھینچ لیے۔
"کل والی بات پر آپ بہت زیادہ خفا ہیں۔" پوچھا جا رہا تھا یا بتایا جا رہا تھا۔ ساویز نے چاہ کر بھی کچھ نہ کہا۔ گاڑی کی چابی اٹھا کر ایک نظر اس کی جانب دیکھا۔
"میں جا رہا ہوں۔" وہ رکے بغیر باہر نکل گیا اور غنایہ لب کاٹتے ہوئے رہ گئی۔ ساویز کے جانے کے بعد اسے یونیورسٹی جانے کا ہوش آیا۔ پیشانی پر ہاتھ مار کر اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ ساویز گاڑی سڑک پر نکال چکا تھا۔۔ وہ اس سے باتوں کے درمیان کیسے بھول سکتی تھی کہ ساویز ہی تو اسے یونیورسٹی چھوڑنے والا تھا۔ خود پر افسوس کرتے ہوئے وہ واش روم کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
روما اسکول میں تھی اور اب گیارہ بجے وہ وعدے کے مطابق ڈرائیو کرتے ہوئے اس کے اسکول جا رہا تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک معمول سے زیادہ تھا جبکہ دھوپ آج نہ ہونے کے برابر تھی۔ عشنا کا گھر روما کے اسکول کے راستے میں پڑتا تھا۔ سامنے سے گزرتے ہوئے اس نے ایک نگاہ عشنا کے گھر پر ماری تھی۔ مسکرا کر سر جھٹکتے ہوئے اس نے اپنی گاڑی کی رفتار دھیرے کی۔۔ وہ اس کے گھر سے پانچ منٹ آگے نکل چکا تھا جب اس نے سڑک کنارے کچھ ہلکے آسمانی رنگ کی وہ گاڑی دیکھی جس کی چھت پر دونوں بازو ٹکائے عشنا منہ لٹکائے کھڑی تھی۔ میرویس کو قدرے حیرانی ہوئی۔ اس کے قریب پہنچ کر اس نے بریک لگائے۔
"لگتا ہے تمہاری ڈارلا کو زکام ہوگیا ہے۔" لبوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔۔ وہی مسکراہٹ جو عشنا کو دیکھ کر لبوں پر آجاتی تھی۔ عشنا نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا۔ وہ اپنی سیاہ گاڑی درمیان سڑک میں روکے اس سے بات کر رہا تھا۔۔یکدم عشنا کو خوشی محسوس ہوئی مگر اگلے پل اسے رات ہوا واقعی یاد آگیا۔ "میں کیسے مدد کرسکتا ہوں؟۔" آنکھوں سے سیاہ چشمے ہٹا کر اس کے تاثرات کا معائنہ کیا۔
"میری ڈارلا۔۔۔" دل دکھی ہوگیا۔
"انتقال؟۔" افسوس بھرا لہجہ۔۔
"نہیں میرویس۔۔ مجھے لگتا ہے اس کا انجن گڑبڑ کر گیا ہے۔ دھواں اٹھ رہا تھا۔" اب وہ آفس کیسے جائے گی؟ یہ سوچ سوچ کر اسے مزید رونا آنے لگا۔۔ وہ کھڑوس مینجر یقیناً اب اسے نوکری سے نکلوادے گا۔ "کیا تم آگے سے مکینک میری طرف بھیج سکتے ہو؟۔"
"اس کا مکینک لینے مجھے انیسویں صدی جانا ہوگا۔ کیا ہے کہ اب اس کھٹارا کو ٹھیک کرنے والے پیدا نہیں ہوتے۔"
عشنا نے اس کی جانب سے منہ پھیر لیا۔
"تم سے بات کرنا بیکار ہے! اب میں آفس کیسے جاؤں گی۔۔" اس کا چہرہ رونے والا ہوگیا۔ میرویس نے معائنہ کیا۔
"کانفیڈنٹ لڑکی رو رہی ہے؟۔" لہجہ مزید شریر ہوگیا۔
"تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟۔"
"نہیں میں کہہ رہا کہہ رہا ہوں کہ میں گاڑی میں آجاؤ۔ میں چھوڑ دیتا ہوں۔"
وہ چونکی۔
"مگر ڈارلا؟۔"
"انجن کا مسلہ ہے اور اتنی جلدی نہیں سلجھے گا۔ آجاؤ۔" اس نے آفر دی۔ عشنا کو کل رات والی بات بھولی نہیں تھی مگر اس کا آفس جانا بھی ضروری تھا۔
"ٹھیک ہے۔" اپنا پرس اور فائلز گاڑی سے سمیٹتے ہوئے وہ میرویس کی سیاہ گاڑی کی جانب بڑھی۔ فائلز میرویس نے کھڑکی سے ہی لے کر پیچھے سیٹ رکھ دی تھیں۔ وہ گھوم کر دوسری طرف آبیٹھی۔ خود سے وعدہ کیا ہے کہ پورے راستے میرویس سے کوئی بات نہیں کرے گی۔ گاڑی ایک بار پھر سے آگے بڑھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک بڑے اسکول روکی گئی جسے دیکھ کر اس نے میر کے سامنے, بھنویں اچکائیں۔
"میرا آفس؟۔" اسے میرویس کے ارادوں کا علم نہیں تھا۔
"ہاں وہاں بھی جائیں گے مگر ایک گھنٹے بعد۔۔" گاڑی کا لاک کھولتے ہوئے وہ باہر نکلا۔ عشنا ششدر ہوئی۔
"کیا مطلب تمہاری بات کا؟۔"
"روما کا اسپورٹس ڈے ہے۔ ایک گھنٹے میں ہم لوٹ آئیں گے۔" وہ گھوم کر اس کی جانب آیا اور دروازہ کھول کر باہر آنے کا اشارہ کرنے لگا۔
"مگر میں کیوں؟۔" وہ اب تک حیران تھی۔
"کیونکہ تم میرے ساتھ ہو۔۔"
کیا شخص تھا! عشنا کا دل چاہا اس کی گردن مڑوڑدے۔
"کاش میں تمہاری گاڑی میں بیٹھتی ہی نہیں!!۔" دانت کچکچا کر کہتی ہوئی وہ پرس جھٹکتے ہوئے باہر نکلی۔
گاڑی لاک کرتے ہوئے اس نے ایک نظر عشنا کو دیکھا تھا۔ یہ شہر کا نامور بڑا اسکول تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے وہ دونوں ٹیچرز کے سمجھانے پر بلآخر اس جگہ پہنچ ہی گئے جہاں اسپورٹس کا انتظام کیا گیا تھا۔ پیرنٹس اور بچوں کے گھر والوں کے لیے ایک اچھا بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ لوگوں کے ہجوم میں کھو جانے کے ڈر سے اسے میرویس کے بازو کی طرف سے اس کا کوٹ پکڑنا پڑا۔
پندرہ منٹ میں کھیل کا آغاز کیا جانے والا تھا۔ وہ دونوں اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ چکے تھے۔ صوفیہ کی کال آنے پر عشنا نے اسے اپنے لیٹ آنے کا بتایا۔ اب وہ پہلے سے مطمئن تھی۔
"کل رات تم نے ایسا کیوں کہا کہ میں جھوٹ کہنے لگا ہوں؟۔" عشنا کو اس کا یہ سوال یکدم محسوس ہوا۔
"تم منگنی شدہ ہو! حالانکہ کل تمہاری باتیں کسی اور طرف اشارہ کر رہی تھیں۔" سپاٹ لہجہ۔۔
"اور یہ بات تمہیں کس نے بتائی؟۔"
"میں تمہیں کیوں بتاؤں؟ اگر میں نے بتایا تو یقینا اسے بہت ڈانٹو گے اور میں یہی نہیں چاہتی!۔"
"پہلی بات میں کسی کے لیے اپنی بہن کو ڈانٹتا نہیں۔۔ حتی کہ اپنے لیے بھی نہیں!۔" اس کی بات کی تصحیح کرتے ہوئے وہ بنھویں آچکا کر بولا۔
عشنا کو حیرانی ہوئی۔ وہ جانتا تھا کہ روما نے اسے بتایا تھا۔
"بہرحال مجھے تم سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنی۔" اس نے نگاہیں سامنے کرلیں۔
"مگر میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔"
عشنا نے گہری سانس بھری۔
"کہو تمہیں کیا کہنا ہے؟۔"
"اگر یہ سب اس سے سنا ہی تھا تو یہ بھی سن لیتی کہ منگنی ٹوٹ چکی تھی۔ شاید دس دن میں ہی۔۔"
یہ بات جہاں عشنا کو حیران کر گئی تھی وہیں دوسری طرف وہ کچھ مطمئن ہوگئی۔
"میں تم سے یہ نہیں کہوں گی کہ تم نے مجھ سے کیوں چھپایا کیونکہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔۔ اور یوں پوچھنا بھی عجیب ہے۔" حالانکہ عشنا کے دماغ میں ایک اور سوال گھوم رہا تھا۔ 'منگنی ٹوٹنے کی وجہ؟۔'
"میرے لیے وہ ایک اہم موضوع نہیں جس کا ذکر میں سب سے کروں۔ اب بھی اسی جملے پر قائم ہوں کہ میرویس اپنی پسند بدلا نہیں کرتا۔" ایک گہری سپاٹ نگاہ اس پر ڈال کر وہ سامنے دیکھتے ہوئے بیٹھ گیا۔ عشنا نے کچھ کہنا درست نہ سمجھا تو خاموش رہی۔ پندرہ منٹ میں کھیل کا آغاز ہوچکا تھا۔ اسٹوڈنٹس قطار بناتے ہوئے باہر آنے لگے تو عشنا ان میں روما کو ڈھونڈنے لگی۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ زینے اترتے ہوئے نیچے لاونج میں پہنچی تھی جب اسے ملازمہ خالہ سبزی کاٹتے ہوئے نظر آئیں۔
"کیسی ہیں آپ؟۔" ان گجروں کی خوشبو اس کا موڈ بحال کر گئی تھی۔ خالہ نے کافی حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ آج سے قبل اس نے کبھی یوں نہیں پوچھا تھا۔
"میں ٹھیک ہو بیٹا۔" خوشگواری سے جواب دیا۔
"آپ کیا بنا رہی ہیں؟۔" وہ شاید بھنڈی کاٹ رہی تھیں۔
"باریال کا بھنڈی کھانے کا دل کر رہا ہے۔ اس کے لیے بھنڈی کاٹ رہی ہوں۔" لبوں پر میٹھی سی مسکراہٹ عیاں ہوئی جبکہ غنایہ نے سانس بھر کر انہیں دیکھا۔
"آپ نے کل دوپہر بھی اس کی فرمائش پر پھلی بنائی تھی۔ کیا اس گھر میں دوپہر کے وقت اس کے پسند کے ہی کھانے بنتے ہیں؟۔" عام سے لہجے میں کہتے ہوئے اداسی سے بیٹھ گئی۔
"میں سن رہا ہوں۔" کچن سے مردانہ آواز پر وہ جی بھر کر چونکی۔ یعنی کہ وہ کچن میں تھا۔
"یہ اس گھر سے اب کب جائے گا؟۔" اس بار آواز دھیمی تھی۔ وہ ایک سنجیدہ سوال ملازمہ خالہ سے کر رہی تھی جسے وہ سن چکا تھا۔
"میں نے یہ بھی سن لیا ہے۔" دوبارہ وہ گھمبیر آواز ابھری۔ ملازمہ خالہ جہاں زور سے ہنسیں وہیں غنایہ گڑبڑا سی گئی۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد خالہ خود ہی بول پڑیں۔
"تم جو کھانا چاہتی ہو مجھے بتادو۔ میں ابھی بنادیتی ہوں۔" اس کے بالوں پر پیار سے ہاتھ ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگیں۔۔ غنایہ نے مسکراتے ہوئے گھڑی دیکھی جو بارہ بجا رہی تھی۔
"مجھے بھوک نہیں۔۔ میں چائے بنا لیتی ہوں۔" کہتے ساتھ ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"بھوک کیوں نہیں؟ تم نے کچھ کھایا بھی ہے؟۔"
'طنز۔۔' اس کا دل چاہا بنا کسی جھجھک کر بتادے کہ ساویز کے طنز کھائے ہیں۔
"رات کھانا بہت دیر سے کھایا تھا۔ اب بس چائے پیوں گی۔" انہیں تسلی دیتے ہوئے اس نے پیروں میں چپل ڈالی اور کچن کی طرف بڑھنے لگی۔
"کیا میں بنادوں؟۔"
"نہیں مجھے شرمندہ مت کریں۔ آپ بڑی ہیں اور آپ سے کام کرواتے ہوئے مجھے اچھا محسوس نہیں ہوگا۔" وہ ابھی کچن میں داخل ہی ہوتی کہ باریال اسے دیکھتا ہوا باہر نکلا۔
"خالہ بھنڈی کٹ گئی ہے تو دے دیں۔ مسالہ تیار ہے۔" وہ شاید خود کھانا بنا رہا تھا۔ اس کے سائڈ سے ہوتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئی۔ یہ ایک بڑا اور کشادہ کچن تھا جس میں ہر چیز سلیقے سے رکھی تھی۔ ایک چولہے پر باریال کا مسالہ چڑھا تھا جبکہ دوسرے پر اس کے چائے کی چھوٹی پتیلی چڑھی تھی۔ ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے وہ دودھ کے ڈبے کی جانب بڑھی جو باہر سلیپ پر ہی رکھا تھا۔ ڈبہ ابھی اٹھایا ہی تھا کہ اسے اس کے خالی ہونے کا احساس ہوا۔ ڈبے میں دودھ نہ ہونے کے برابر تھا۔۔ وہ باہر نکل رہی تھی جب باریال کٹی ہوئی بھنڈی لے کر اندر داخل ہوا۔
"خالہ ڈبے میں دودھ نہیں ہے۔۔ کیا دودھ ختم ہوگیا؟۔" چال میں سستی کی وجہ سے اسے چائے کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔
"جب میں کچن سے باہر آرہی تھی تب ہی میں نے اچھا خاصا دودھ ڈبے میں دیکھا تھا۔ اسے استعمال کون کرسکتا ہے اتنی جلدی؟۔" پیشانی پر بل نمودار ہوئی۔
"باریال صاحب نے اپنی چائے میں استعمال کر لیا ہے خالہ۔۔" لب کاٹتے ہوئے وہ افسوس سے بولی۔
"ابھی نوفل باہر سے آتا ہے تو اسے کہتی ہوں کہ ہوٹل سے تمہارے لیے چائے لے آئے۔ تمہیں تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔" کپڑے جھاڑتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"کوئی بات نہیں۔۔" زبردستی مسکراہٹ لبوں پر لاتے ہوئے غنایہ لاونج کے دروازے کی جانب بڑھی۔ کھڑکی سے محسوس ہوتی باہر تیز ہوا کو دیکھتے ہوئے اس نے لاونج کا پورا دروازہ کھول دیا۔ ٹھنڈی تیز ہوا کھلے دروازے سے اندر داخل ہونے لگی۔ آنکھیں موند کر تازہ ہوا اپنے اندر اتاری اور وہیں دروازے پر بیٹھ گئی۔۔ ایک سیڑھی اتر کر سامنے خوبصورت ہرا بھرا لان تھا جو اس کی توجہ اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ پیڑ پودے ہوا کے باعث ہل رہے تھے۔۔ پتوں کی سرسراہٹ کانوں میں رس گھولنے لگی۔۔
"بیٹا یہ تمہارا موبائل کمرے میں بج رہا تھا۔" خالہ نے اس کے ہاتھ میں موبائل پکڑایا۔ وہ شکریہ ادا کرتی ساویز کی ریسیو ہوئی نوٹفکیش دیکھنے لگی۔۔
"آئم سوری۔۔۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ تم آج یونیورسٹی جانے والی تھی۔ کل سے ایسا نہیں ہوگا۔۔" کہنے کو چند ہی لفظ تھے مگر دل پر اثر کر رہے تھے۔ اس کا میسج دیکھ کر وہ کوئی ریپلائی نہ کر پائی۔۔ بس مبہم سی مسکراہٹ لبوں پر پھیلا کر اس نے موبائل اپنے برابر میں رکھ دیا۔ گہرے رنگ کا ہرا ڈوپٹہ ہوا کے باعث لہرا رہا تھا جسے وہ بمشکل قابو کرتے ہوئے اس موسم سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ یکدم ہی ایک آواز پر اس نے آنکھیں کھولتے ہوئے پلٹ کر دیکھا۔ باریال اس سے کچھ فاصلے پر اپنی کھانے کی ٹرے لے کر بیٹھ گیا تھا۔ وہی کالا کپڑا جو پیشانی پر اس نے سختی سے باندھا ہوا تھا۔ غنایہ تھوڑی گھبرائی، مگر خاموش رہی۔ باریال نے اس کے تاثرات جانچتے ہوئے چائے کی پیالی اس کے آگے رکھی اور دو ابلے ہوئے انڈوں کی پلیٹ اس کے آگے رکھنے لگا۔ وہ پریشان ہونے سے زیادہ حیران ہوئی تھی کہ یہ لڑکا ایسا کیوں کر رہا ہے۔ وہ اب اپنی بھنڈی کھانے میں مصروف ہوچکا تھا۔ اتنی بڑی میز چھوڑ کر اس سے کچھ دور فرش پر بیٹھنے کی بھلا کیا تک تھی؟
وہ خاموش رہی اور چہرے کو آگے کی سمت موڑ لیا۔
"یہ ناشتہ تمہارا ہے۔" اس کی آواز ابھری۔
"مگر میں نے نہیں کہا تھا۔۔" دھیمی مخصوص آ,واز۔۔
"میں نے بھی نہیں دینا تھا۔۔" باریال نے تیزی سے کہا۔ "ساویز بھائی نے کہا تھا تو دے دیا۔" جملہ مکمل کرتے ہوئے اس نے لقمہ منہ میں ڈالا۔
"ساویز نے کہا تھا؟۔" وہ حیران ہوئی۔
"ہاں۔۔ کہہ رہے تھے کہ اگر تم ناشتہ نہ کرو تو میں تمہیں دے دوں۔۔ مگر جانتی ہو کون سا ناشتہ سب سے آسانی سے بنتا ہے؟ انڈہ بوائل کر کے روکھا کھالینا۔ قسم سے! ذرا محنت نہیں لگتی۔" وہ اب اس سے گفتگو کر رہا تھا جیسے وہ دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ غنایہ نے اس کی پلیٹ کو دیکھا جو بھنڈی کے سالن سے بھری ہوئی تھی۔۔ وہ شاید غنایہ کے ناشتے میں ہی محنت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"اور یہ چائے؟۔" جانے کیوں لگا کہ اسے اس بارے میں بھی پوچھنا چاہئیے۔
"یہ دوستی کے لیے۔۔" لمبی خاموشی کے بعد آواز آئی۔ غنایہ نے کچھ آنکھیں پھیلائیں۔
"مجھ سے؟۔" بات حیرانی کی تھی۔
"ہاں۔" وہ مسکرا دیا۔ "میرا کوئی بھائی اتنا بڑا نہیں کہ اس کی شادی ہوئی ہو۔۔ اس لیے میری کوئی بھابھی نہیں۔۔ آج پہلی بار مجھے موقع ملا ہے کہ میں کسی کو بھابھی کہہ سکوں۔ ساویز بھائی میرے لیے سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔" وہ اسے اپنی باتیں بتانے لگا۔
"میں نے اپنی اکیس سالہ زندگی میں کبھی کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی۔" وہ سٹپٹائی۔
"تم بھی اکیس کی ہو؟۔" وہ حیران ہوا اور پھر مسکرا دیا۔ "پھر تم مجھ سے بڑی ہو۔۔ مجھے لگا چھوٹی ہوگی۔"
اس کے 'بھی' کہنے پر وہ سمجھ چکی تھی کہ باریال بھی اس کی ہی عمر کا ہے۔۔ مگر پھر یہ بڑا اور چھوٹا کیا تھا؟۔
"آپ بھی میری عمر کے ہیں؟۔"
"ہاں مگر مہینوں میں تم مجھ سے بڑی ہو۔" لبوں پر مسکراہٹ قائم تھی۔ بھلا اس کو کیسے اس کی پیدائش کا مہینہ پتا چلا؟
"مگر میں نے آپ کو اپنی پیدائش کا مہینہ نہیں بتایا۔" نجانے کیوں وہ اس سے باتیں کر رہی تھی۔۔ یا پھر وہ اسے بات کرنے کے لیے اکسا رہا تھا۔ باریال نے چائے کی پیالی اس کی جانب کی اور پینے کا اشارہ دیا۔ اس کے اشارے پر وہ کچھ جھجھک کر چائے کی پیالی کی جانب بڑھی۔
"ہاں مجھے آپ نے نہیں بتایا مگر مجھے میرا مہینہ معلوم ہی ہے۔۔ اکتیس دسمبر۔۔" وہ مسکرایا اور پھر ہنس دیا۔ "اب کہو کہ میں تم سے بڑا ہوں۔"
اس کی ذہانت پر وہ نہ صرف چونکی بلکہ سوچ میں پڑگئی۔۔ واقعی وہ سال کے آخری مہینے اور آخری دن میں پیدا ہوا تھا جس کا مطلب کہ وہ اس سے مہینوں بھر چھوٹا ہے۔ وہ خاموش رہی۔۔
"تو کیا پھر آپ کو غنایہ باجی کہوں؟۔" اس نے پھر ایک سوال کیا۔ غنایہ اس کے سوالات کو محسوس کرنا چاہا۔ وہ واقعی ایسے سوال جان کر کر رہا تھا جس پر ناچاہتے ہوئے غنایہ کو اس کا جواب دینا پڑا۔
"آپ کی مرضی ہے۔۔ مگر میں آپ کو باریال بھائی کہوں گی۔" عام سا لہجہ۔۔ اس نے چائے کا کپ لبوں پر لگایا۔ وہ چائے اب ویسی گرم نہیں رہی تھی اس لیے اس نے جلدی سے اسے ختم کر کے پیالی ٹرے میں رکھی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ مسکرا دیا۔
"جیسا تم چاہو دوست!۔" اس کی آواز پر وہ ذرا ٹھہری تھی۔۔ حالانکہ اس نے تو دوستی کا جواب بھی نہیں دیا تھا۔ بغیر جواب دیے وہ خالہ کی جانب بڑھ گئی جو صوفے پر ہی بیٹھی تھیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ تینوں ہی اسکول کے دروازے سے نکلتے باہر آرہے تھے۔
"میں نے اس سب کے لیے بہت پریکٹس کی تھی۔" آنسوؤں سے آنکھیں بھری ہوئی تھی۔ اس کا ہاتھ میر کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس ہجوم سے بس باہر نکلنا چاہتا تھا۔۔ عشنا نے لب بھینچ کر روما کو دیکھا جو بیٹمنٹن میں ہار گئی تھی۔
"کوئی بات نہیں روما۔۔ ہار جیت کچھ نہیں ہوتا اور ویسے بھی! ہم نے تمہاری اچھی کارکردگی دیکھی ہے۔ یقینا تمہارے بھائی کو تم پر فخر ہوگا۔" اس کے بالوں پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ سمجھانے لگی۔ میرویس دونوں کو سن رہا تھا مگر لب خاموش تھے۔ اتنے ہجوم میں وہ روما کا ہاتھ تو پکڑا ہی ہوا تھا مگر عشنا کی فکر میں مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"دیکھ کر چلو عاشی۔۔ ہجوم کافی ہے۔"
اسٹوڈنٹس اپنے والدین کے ساتھ باہر نکل رہے تھے۔
"میری وجہ سے میری کلاس ہار گئی! انہیں مجھ سے امید تھی۔" چہرہ بجھا بجھا تھا۔
"یہ ایک کھیل ہی تو ہے روما! اور کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ کبھی ایسا سنا ہے کہ ایک شخص ہر بار جیتا آرہا ہو۔۔ اسے بھی ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ہی تو اگلی بار جیتنے میں مزہ آتا ہے۔" وہ تینوں وہاں سے نکل آئے تھے اور اب میرویس کی گاڑی کی جانب بڑھ رہے تھے۔
"مگر میں اداس ہوں۔"
گاڑی کے پاس پہنچ کر میرویس نے اس کا ہاتھ چھوڑا۔
"میرو کو میری ہار کا دکھ ہے۔۔ شاید وہ بھی مجھ سے یہ امید نہیں رکھتا تھا۔" وہ کب سے اپنے دکھ کا اظہار کر رہی تھی مگر میرو نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔ عشنا نے لمبے چوڑے اس شخص کو دیکھا جو واقعی کب سے خاموش تھا۔ میرویس گہری سانس اندر کھینچتا ہوا کچھ جھکا اور روما کو کمر سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے گاڑی کی چھت پر بٹھایا۔
"میں نے کب کہا کہ مجھے تمہاری ہار کا دکھ ہے؟۔" اطمینان بھرا لہجہ۔۔ جبکہ روما یوں گاڑی کے اوپر بٹھائے جانے پر ششدر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ ارد گرد کچھ دور اس کے دوست اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
"میں کوئی چھوٹی بچی ہوں جو تم نے مجھے گاڑی کے اوپر بٹھادیا؟ مجھے جلدی سے اتارو میرو ورنہ میرے دوست مذاق اڑائیں گے۔" وہ اترنے کی کوشش کرنے لگی جب میر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کوشش پر روکا۔ عشنا میرویس کی بہن سے محبت پر مسکرانے لگی۔۔ یہ سب دیکھنا کتنا اچھا لگ رہا تھا۔
"ہششش!! وہ کیوں مذاق بنائیں گے تمہارا؟۔" اس نے ڈانٹنا چاہا۔
"وہ کہیں گے کہ تم اپنے بھائی کے لیے اب تک چھوٹی سی بچی ہو؟ میں چودہ سال کی بڑی لڑکی ہوں میرو۔۔ اب ویسی چھوٹی نہیں رہی کہ تم مجھے اٹھا کر گاڑی کی چھت پر بٹھادو۔" اس کی آنکھیں میرو کو گھورنے لگی۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
"تم ان سے کہا کرو کہ تم میرو کے لیے اب چھوٹی سی بچی جیسی ہو۔۔ جیسے وہ تمہیں تمہارے بچپن میں اٹھایا کرتا تھا ویسے ہی اب بھی اٹھا لیتا ہے۔" اس کے گال محبت سے کھینچتے ہوئے وہ قدرے گھمبیر آواز میں بولا۔ روما کے لبوں پر دھیرے سے مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ "اور جہاں تک بات ہار کی ہے تو بھلا مجھے کیوں افسوس ہوگا؟ تم پچھلے تین سال سے بیٹمنٹن میں ہار رہی ہو اس لیے اب میں نے امیدیں لگانا ہی چھوڑ دیں۔" وہ یہ کہتے ہوئے خود ہی زور سے ہنس پڑا جبکہ عشنا نے کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ روما نے آنکھیں پھیریں۔۔
"مگر میں اگلے سال ضرور جیتوں گی!۔"
"ہاں اور میں اگلی بار بھی آؤں گا۔" یہ ایک ایسا وعدہ تھا جسے وہ بھول کر بھی نہیں توڑا کرتا تھا۔
"آپ بھی آئیں گی نا؟۔" اس نے عشنا کو دیکھا جس کے اس سوال پر ہونٹ سکڑے تھے۔ میرویس نے گردن پھیر کر عشنا کے تاثرات جانچے۔
"ہاں ضرور! میں یہ چانس مس نہ کرنے کی کوشش کروں گی۔" اس کی بات میرو کے لبوں پر مسکراہٹ لے آئی تھی۔ عشنا اس کی مسکراہٹ نہیں دیکھ پائی تھی۔ روما بھائی کی مدد سے نیچے اتری۔
"میں انتظار کروں گی عاشی!۔" اس کا یہ عاشی کہنا میرویس اور عشنا دونوں کو گڑبڑا گیا۔
"یہ لفظ تم نے کہاں سے سنا؟۔" میرویس نے بظاہر سرسری انداز پوچھا۔ وہ اب روما کی طرف کا دروازہ کھول رہا تھا۔
"دروازے سے باہر آتے ہوئے تم نے خود ہی تو کہا تھا۔۔" تیزی سے کہتی ہوئی وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔
عشنا اور میر کی نگاہ آپس میں ملی تھیں اور گاڑی میں بیٹھنے آگے بڑھ گئی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"ساویز کو کھانے میں کیا پسند ہے؟۔" اس نے آج رات کے لیے کچھ اور پلان بنا رکھا تھا۔
"بریانی بہت شوق سے کھاتا ہے ساویز بیٹا۔۔"
غنایہ نے سانس بھری۔۔ کراچی والے ہوں اور بریانی کے شوقین نہ ہو ایسا ناممکن تھا۔
عام طور پر اسے کافی کچھ بنانا آتا تھا مگر بریانی ایک ایسی ڈش تھی جسے وہ بنانا سیکھ رہی تھی۔
"میں سوچ رہی ہوں آج میں بریانی بنالوں۔" اسے علم نہیں تھا کہ پیچھے باریال بھی کھڑا ہے۔ کسی سوچ میں کہتی وہ اپنی خواہش کا اظہار کرنے لگی۔
"بریانی بن رہی ہے؟۔" وہ پیچھے سے بولا۔ غنایہ چونک اٹھی۔
"جی۔۔" خالہ کے جواب نہ دینے پر زبردستی اسے ہی جواب دینا پڑا۔
"تمہیں بریانی بنانی آتی ہے؟۔"۔ باریال نے حیرت اور پریشانی سے اس سے پوچھا۔
"مکمل نہیں مگر تھوڑی بہت۔۔" لہجہ بے حد عام سا تھا۔
"میں باہر کھانا کھا کر آؤں گا خالہ۔" وہ اب تیزی سے کہتا خالہ مخاطب ہوا۔ غنایہ سٹپٹا کر رہ گئی۔ اس نے چاہ کر بھی کچھ نہ کہا حالانکہ دانت تو وہ بھی پیس چکی تھی۔ خالہ نے اسے گھور کر یوں کہنے سے منع کیا تو وہ کندھے اچکاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
"تم بنا لینا بیٹا۔۔ مجھے امید ہے تم اچھا ہی بناؤ گی۔"
ان کی بات سے اسے ڈھیروں حوصلہ ملا تھا۔۔
"آپ ساویز کو مت بتائے گا کہ بریانی میں نے بنائی ہے۔۔" وہ اسے نہیں بتانا چاہتی تھی۔۔ چونکہ محبت کا احساس یہ پہلا پہلا تھا اس لیے قدم کم مگر مضبوط بڑھانا چاہتی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم نے آج کافی دیر کردی ہے۔" وہ دونوں ایک دوسرے کے کیبن میں جھانکتے ہوئے باتیں کر رہی تھیں۔
"تاخیر سے آنا کم از کم چھٹی کرنے سے تو بہتر تھا صوفیہ! میری گاڑی خراب ہوگئی تھی۔۔ وہ تو یونہی میرویس نے مجھے دیکھ لیا تو میری مدد کردی۔"
"تم دو گھنٹے سے اپنی خراب گاڑی کے پاس موجود تھی؟۔" وہ جی بھر کر حیران ہوئی۔
"نہیں۔۔" اب وہ اسے کیسے بتاتی کہ میرویس اسے روما کے اسکول لے کر گیا تھا۔ بلآخر اس نے بتانے کا فیصلہ کیا۔ "اس کی بہن کے اسکول میں ایک بڑا ایونٹ تھا۔ اگر وہ مجھے پہلے آفس چھوڑ کر اسکول جاتا تو شاید ایونٹ ختم ہوجاتا اس لیے اس نے بہت اچھے سے مجھ سے اجازت مانگی کہ کیا میں اس کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے اسکول میں ٹھہر سکتی ہو؟۔" اس کا آخر میں یوں مبالغہ آرائی کرنا خود صوفیہ کو بھی نہ ہضم ہوا۔
"اچھے سے اجازت مانگی؟۔" حیرت سے پوچھتے ہوئے وہ اپنا چشمہ آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے کنفرم کرنے لگی۔
"کیا فرق پڑتا ہے!۔" وہ جھنجھلائی۔
"اس کا مطلب ہے کہ اجازت ہی نہیں مانگی!۔" وہ زور سے ہنس کر دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئی۔ "بہرحال تم نے مجھے پرسوں رات دعوت کی اطلاع دی تھی۔ کیا اس نے ابھی تک کوئی اشارہ دیا؟ مطلب کہ کیا تمہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ اب بھی تم سے محبت کرتا ہے؟۔"
عشنا نے سوچا کہ وہ کبھی صوفیہ کو نہیں بتائے گی کہ میرویس کی کسی سے منگنی رہ چکی ہے۔۔ اگر اس نے یہ بتایا تو شاید وہ میر کی محبت میں کھوٹ سمجھنے لگے۔۔ اس نے لب بھینچ لیے۔
"تم نے ٹھیک کہا تھا صوفیہ۔۔" وہ لمحے بھر کو ٹھہری۔ "وہ اب بھی ویسا ہی ہے۔۔ اس کی باتیں اب بھی میرے ہی گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ جانتی ہو اس نے کیا کہا؟۔" اس نے صوفیہ کو مڑ کر دیکھا۔
"کیا؟۔" اسے جی بھر کر تجسس ہوا۔
"اس نے کہا کہ وہ اپنی پسند بدلا نہیں کرتا۔۔" لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ پھیل گئی۔ "میں نے محسوس کیا ہے۔۔ یہ جملہ بہت گہرا ہے۔ جذبات بدل دیتا ہے اور محبت موڑ دیتا ہے۔"
"تمہیں اس سے محبت ہے!۔"
"نہیں۔۔" وہ ہنس کر صاف انکار کر گئی۔
"میں نہیں مانتی۔"
"مجھے اس سے محبت نہیں ہے صوفیہ جان! مجھے وہ بس ایک اچھا مرد لگتا ہے۔ اس سے قبل اپنے باپ کے علاؤہ مجھے کوئی مرد نہیں بھایا اور اگر اب کوئی اچھا لگ رہا ہے تو وہ میرویس ہے۔۔ ایک اچھا مرد، بیٹا، بھائی اور ہاں۔۔ دوست بھی! تم کہتی ہو مجھے اس سے محبت ہے حالانکہ میری باتیں کوئی بھی سنے تو اسے تمہارے جیسا ہی لگے گا صوفیہ! مگر میں جانتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے۔۔ یہ بس ایک وقتی لگاؤ ہے!۔" وہ سمجھانے لگی۔
"اگر اس نے اب کی بار تمہیں پروپوز کیا تو کیا تم اس کا دل پھر سے دکھادو گی؟۔" اسے میرویس کے لیے برا لگنے لگا۔
"میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ میرویس خودکشی کرسکتا ہے مگر عشنا ابرار کو اب پروپوز نہیں کرسکتا۔ ہاں وہ پہلے جیسا ہے مگر اب بھی کافی باتیں مختلف ہیں۔ اس کے لہجے میں شرارت اب بھی ویسے ہی مگر اب مزاج میں ٹھہراؤ کا بھی قیام ہے۔ وہ ہنستا ہے تو بلکل پرانا میرویس لگتا ہے مگر سنجیدگی میں کوئی بات کہے تو دل میں اتر جاتا ہے۔ یہ پہلا ایسا مرد ہے جس کے ہر روپ سے ایک اچھا احساس اٹھتا ہے۔"
"تو وہ تمہیں صرف اچھا لگتا ہے؟۔" صوفیہ نے گہری سانس اندر کھینچی۔
"ہر اچھے شخص سے محبت ہو جائے یہ ضروری تو نہیں۔" مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ وہ اب دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی تھی۔۔ یہ باتیں تو سدا چلتی رہیں گی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کے کچن سے جانے کے وہ کچن میں آیا تھا۔ رات کے آٹھ بجنے کو تھے اور ساویز کے آنے کا وقت ہونے والا تھا۔ دھیرے سے دیگ کا ڈھکن اٹھا کر اس نے اندر جھانکا۔ کھانے کی مزیدار مہک اس کی سوچ بدلنے لگی۔
"مجھے لگتا تھا کہ یہ کھانا اچھا نہیں بنائے گی۔" حیرت سے کہتے ہوئے اس نے تھوڑے سے چاول پلیٹ میں ڈالے اور چکھنے لگا۔ ابھی ایک نوالہ منہ میں ہی ڈالا تھا کہ اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ پلیٹ وہیں چھوڑ کر وہ فریج کی طرف تقریبا بھاگتے ہوئے بڑھا تھا۔۔ پانی پینے کے بعد بھی کھانے کی تیزی زبان سے نہ مٹی تو اس نے تھوڑی سی چینی کھالی۔ اب وہ خود تھوڑا بہتر محسوس کر رہا تھا۔
"صحیح لگتا تھا۔ اسے واقعی نہیں بنانی آتی۔۔" ڈھکن دوبارہ لگا کر وہ جیسے آیا تھا ویسا ہی مڑ گیا۔ اب ساویز کی خیر نہیں تھی۔۔
یکدم ہی ساویز کی گاڑی کا ہارن بجا۔ کمرے میں جانے کا ارادہ ترک کر کے وہ وہیں لاونج کے دروازے پر ٹھہر کر اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ ہارن کی آواز پر غنایہ بھی نیچے آئی تھی اور اب کچھ دور زینے کی طرف کھڑی ہوئی تھی۔ پانچ منٹ کے اندر ہی ساویز اندر داخل ہوا۔ دو لوگوں کو اپنے استقبال کے لیے کھڑے ہوتا دیکھ کر اسے قدرے حیرانی ہوئی تھی۔ باریال کے لبوں پر مسکراہٹ چپکی تھی جسے دیکھ کر ساویز نے بنھویں اچکائی تھیں۔
"کیا ہوا ہے؟۔" لیپ ٹاپ بیگ صوفے پر رکھتے ہوئے اس نے سلام کرنے کے بعد کہا۔
"کچھ نہیں۔۔ بس میں بہت خوش ہوں!۔" پیشانی پر اب بھی کپڑا بندھا ہوا تھا۔ غنایہ کچھ دور چہرہ جھکائے نظریں اٹھائے اسے دیکھ رہی تھی۔
"خیریت؟۔"
"وہ تو آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا۔۔ بہرحال میں بھی اس لیے ہی خوش ہوں کیونکہ مجھے پہلے پتا چل گیا۔ رات کا کھانا دوستوں کے ساتھ باہر ہی کھانے والا ہوں۔" وہ ڈور کو مزید الجھاتا ہوا ساویز کو کنفیوز کر گیا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔ تم نے کھانے میں کیا بنایا ہے؟۔"
"آج میں نے نہیں بنایا کھانا۔" اس نے کہتے ہوئے ایک نظر غنایہ پر ڈالی۔ ساویز نے اثبات میں سر ہلایا بیگ اٹھاتا ہوا غنایہ سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگا۔ اسے لگا کہ شاید ملازمہ خالہ کھانا بنا کر گئی ہیں اس لیے بے فکر ہوتا اوپر بڑھ گیا۔ باریال کمرے میں جا چکا تھا اور وہ ساویز کے پیچھے بڑھ گئی تھی۔ گھر آنے کے بعد اس نے ابھی تک غنایہ کو مخاطب بھی نہیں کیا تھا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد وہ بستر پر بیٹھ کر اسے کلائی سے گھڑی اتارتے ہوئے دیکھنے لگی۔
"کھانا لگادوں؟۔" تھوڑی دیر بعد اس کی آواز ابھری۔ ساویز نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔ بھلا یہ کون سی تبدیلی تھی۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔ تم نے کھانا کھایا؟۔" وہ اب ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے جوتے اتار رہا تھا۔
"نہیں۔۔" غنایہ جھٹ سے بولی۔۔ کہ شاید اب وہ کہے کہ تم نے نہیں کھایا تو چلو ساتھ مل کر کھا لیتے ہیں۔
"تم ناغہ مت کرنا۔ کھانا کھا لو جا کر۔۔" اس کا یوں کہنا غنایہ کو ساکت کر گیا۔ آنکھیں نم ہونے لگیں۔
"اور ہاں سوری! میں بھول گیا تھا کہ آج تمہیں یونیورسٹی جانا ہے۔ کل لے جاؤں گا۔" وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔۔ اگر دیکھ لیتا تو اس کی آنکھوں کی نمی پہچان لیتا۔ آدھا گھنٹہ مزید گزر گیا۔۔ وہ جیسی بیٹھی تھی ویسی ہی بیٹھی رہی البتہ ساویز شاور لے کر اب صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ گود میں رکھ رہا تھا۔
"آپ روز رات کا کھانا کھاتے ہیں مگر آج کیوں نہیں؟۔" نگاہیں فرش پر تھیں۔ وہ چونکا۔
"میں پہلے ہی تاخیر سے آیا ہوں اور اب کچھ کام بھی ہے۔ وقت ملا تو کھالوں گا۔"
"آپ اب بھی مجھ سے ناراض ہیں۔" وہ شاید بتا رہی تھی۔ ساویز کی کیبورڈ پر چلتی انگلیاں ٹھہریں۔
"آپ کو فکر ہے؟۔" یہ سوال تھا۔
"نہیں ہوتی تو آپ کے لیے کھانا نہیں بناتی۔" بلآخر وہ کہہ پڑی۔ ساویز نے قدرے حیرانی کر اسے دیکھا۔
"کیا مطلب؟ کھانا تم نے بنایا ہے؟۔" وہ شاید بے یقین تھا۔
"آپ کے لیے بنایا ہے مگر شاید اب آپ مجھے اتنی اہمیت نہیں دیتے۔۔" کہتے ہوئے وہ رکی نہیں۔۔ وہاں سے اٹھ کر تیزی سے نیچے کی طرف بڑھ گئی۔ اگر کوئی ٹھہر گیا تو وہ ساویز تھا۔ یہ بات کیسی ناقابل یقین سی محسوس ہوتی تھی۔ بنا مزید ٹھہرے ساویز بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ لیپ ٹاپ برابر میں رکھتے ہوئے وہ اس کے پیچھے بڑھا۔ لاؤنج خالی تھا مگر وہ جانتا تھا کہ غنایہ کہاں ہوسکتی تھی۔ لان میں قدم رکھتے ساتھ ہی وہ اسے جھولے پر بیٹھی نظر آئی۔
"اندر آؤ غنایہ۔" اس نے وہیں سے مخاطب کیا۔ ٹھنڈی تیز ہوا خون کو جمانے کے لیے کافی تھی۔ نہ تو وہ اسے باہر لان میں بیٹھا چھوڑ سکتا تھا اور نہ اس ٹھنڈک میں خود اس کے ساتھ باہر بیٹھنا چاہتا تھا۔ غنایہ نے اس بار اس کی بات سنی ان سنی کردی تھی۔
"غنایہ اندر آؤ!! ابھی فوراً!۔" وہ اس کی بات کو بلکل سنجیدہ نہیں لے رہی تھی۔ اس بار وہ ضبط کرتا ہوا خود اس کی جانب بڑھا۔ بنا کچھ سنے اس نے غنایہ کی کلائی پکڑی اور زبردستی اندر لاؤنج میں لاکھڑا کیا۔
"تمہیں اندازہ نہیں کہ اس ٹھنڈک میں تم بیمار بھی ہو سکتی ہو؟۔" پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔ وہ رات جھولے پر گزار کر بیمار پڑ گئی تھی اور ساویز یہ سب ایک اور بار نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سختی سے کہتا وہ کچھ اور بھی بولتا کہ غنایہ کی سسکی بھری آواز کانوں میں پڑی۔ ساویز یکدم ہی بوکھلایا۔ ہچکیوں کی آواز بڑھتی جا رہی تھی اور ساویز کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔ وہ کچھ کہہ بھی نہ سکا۔ تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد غنایہ نے اوپر جانا چاہا جب ساویز نے اس کی کلائی پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔ وہ کھینچتے اس کے بلکل قریب آکھڑی ہوئی تھی۔
"تم رو رہی ہو۔۔" رخسار بھیگے ہوئے تھے۔ بے خودی میں کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ اس کے رخسار پر پھیر کر آنسو صاف کرنے چاہے۔ غنایہ نے بھی کچھ مزاحمت نہیں کی۔
"آپ کو اب فکر ہے؟۔"
اس کی گیلی آواز پر وہ لب بھینچ گیا۔
"مجھ سے پوچھ رہی ہو؟ حالانکہ یہ سوال تمہیں خود سے کرنا چاہئیے۔۔ کہ ساویز کو تمہاری پرواہ ہے یا نہیں؟۔" بھوری نم آنکھیں کاجل زدہ تھیں۔ وہ وہیں ٹھہر گیا۔ وہیں کاجل زدہ آنکھیں اور وہیں آنسو۔۔ ساویز کو پہلی ملاقات والی غنایہ یاد آئی۔
'نہیں ہے اب آپ کو فکر۔۔ میں جانتی ہوں آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئیے تھا۔ میں جو سوچتی تھی بس وہ کہہ پڑی مگر اب میرے خیالات بدل رہے ہیں ساویز۔" اس کا کہنا ساویز کا زخم بھر رہا تھا۔ یہ سب کیا تھا؟ اس کی کہانی کا ایک نیا رخ۔۔
"میں نے وہ بات دل پر محسوس کی تھی اس لیے مجھے برا لگا تھا۔ مگر میں ناراض نہیں تھا۔" غنایہ کا ہاتھ اس کی گرفت میں تھا۔ "میں نے ناراض رہنے کے لیے شادی کی تھی؟ حالانکہ جن حالات میں ہماری شادی ہوئی، یہ سب تو ہونا ہی تھا۔"
غنایہ کے آنسو سسکیوں میں بدل گئے۔
"میں نے آپ کے لیے وقت لگا کر کھانا بنایا۔ آپ نے وہ بھی نہیں کھایا۔" یہ بات اسے اور زیادہ بری لگی تھی۔
ساویز ہنس پڑا۔
"میری بیوی! اگر مجھے معلوم ہی ہوتا کہ کھانا تم نے بنایا تو کیا میں نہ کھاتا؟ ویسے ہم اب بھی کھانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔" ٹھوڑی سے اس کا چہرہ اٹھاتے ہوئے وہ بے حد سے بولا۔
"میں کھانا لے آؤ؟۔" اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا۔
"اگر آپ چاہیں تو۔۔۔" وہ سوچنے لگا کہ کتنی جلدی سب ٹھیک ہونے لگا ہے۔ وہ اب ویسی گھبرائی، سہمی نہیں تھی۔ اپنے شوہر کے سامنے بنا ڈرے کھڑی تھی۔۔ کیا وہ اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا جن سے وہ خوف کھایا کرتی تھی؟ ہلکی ہلکی مسکراہٹ لبوں پر پھیلنے لگی تو اس نے مسکراہٹ ہی چھپادی۔ ساویز کے حصار سے نکلتی کچن کی جانب بڑھ گئی جبکہ ساویز اب تک اس کے سحر میں کھویا، اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے فریج سے وہ کباب کی پلیٹ نکال کر باہر رکھی جو اماں نے اسے بنا کر دیے تھے۔ ہر اتوار اماں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور بنادیتی تھیں جس سے وہ کچھ دن کام چلا لیتا تھا۔ آفس سے گھر آکر کچھ بنانے کی ہمت نہ ہوئی تو اس نے تین کباب تل کر پلیٹ میں رکھے اور کافی بناتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔ ابھی اس نے پہلا ہی لقمہ لیا تھا کہ موبائل بج اٹھا۔ اسکرین پر نام پڑھتے ہوئے اس نے کال اٹھائی۔
"اسلام علیکم!۔"
"وعلیکم اسلام بیٹا۔ تم نے کھانا کھایا؟۔"
"میں کھانا ہی کھا رہا ہوں اماں۔" ماں کی آواز پر وہ مسکرا دیا۔ ان کا یوں پوچھنا اسے ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔
"کیا کھا رہے ہو؟۔"
اس سوال پر اس نے اپنی پلیٹ میں دیکھا جہاں صرف تین کباب رکھے تھے۔
"فکر نہ کریں پورا اہتمام کر کے بیٹھا ہوں۔" وہ اب انہیں کیا ہی بتاتا کہ آفس کی تھکاوٹ نے اسے چاول اور کوئی شوربہ بنانے کی اجازت بھی نہ دی۔ وہ باہر سے کچھ آرڈر کرلیتا اگر اسے زیادہ بھوک ہوتی۔
"میں نے تمہارے لیے لڑکی دیکھ رکھی ہے۔ اب چاہتی ہوں کہ تم شادی کرلو۔" انہوں نے دو ٹوک بات کی۔
"اماں!۔" وہ ہمیشہ کی طرح جھنجھلایا۔
"میں مزید کوئی بات نہیں کر رہی میرویس!! تم شادی کرو گے اور میری بات کو غیر سنجیدہ نہیں لینا۔ ٹھیک ہے اگر تمہیں میرے بتائے ہوئے رشتوں میں خامی محسوس ہوتی تو بتادو مجھے کسی لڑکی کا نام!!۔" انہوں نے یہ بات بے دھیانی میں کہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ میرویس کو اس سب میں دلچسپی نہیں۔۔ جب وہ کسی کا نام نہیں لے سکے گا تو ہار مان لے گا اور اسی طرح اماں اپنی بھانجی صبور سے اس کا رشتہ کروا سکیں گی۔
ان کی اس بات پر میرویس ٹھہر سا گیا۔ آنکھوں کی پتلیاں دیوار کی جانب ساکت ہوچکی تھی۔ الجھا ذہن جانے کسی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ ایک لمبی خاموشی چھا گئی۔ اماں کو لگا جیسے کال کٹ گئی ہو۔ انہوں نے چیک کر کے دوبارہ موبائل کان سے لگایا۔
"اگر میں آپ کو بتادوں تو آپ لڑکیوں کی تلاش ختم کردیں گی؟۔" یہاں میرویس نے یہ کہا اور وہاں اماں کو چپ لگ گئی۔۔ یہ کیا ہوا تھا۔۔
"تم واقعی مجھے خود کی پسند بتاؤ گے؟۔" انہیں یقین نہ آیا۔
"ہاں۔۔"
"کون ہے؟۔"
"مجھے تھوڑا وقت دیں۔"
"اگر وہ لڑکی نہ مانی تو میں جس لڑکی سے کہوں گی تم شادی کرو گے!۔"
میرویس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا۔
"ٹھیک ہے۔۔ مگر مجھے کچھ وقت چاہئیے۔ جب تک میں خود کچھ نہیں بتاؤں گا، آپ مجھ سے رشتوں کا ذکر نہیں کریں گی۔ پلیز۔۔" یہ بات وہ اماں سے کیسے کہے کہ اماں میرویس اپنی پسند سے دور نہیں ہٹنا چاہتا۔ اگر من پسند لڑکی نہیں ملی تو وہ زبردستی کسی سے شادی نہیں کر سکتا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کبھی ان لڑکیوں سے شادی کرنے پر دل سے راضی نہ ہوگا جس کا اماں ذکر کرتی تھیں، وہ کہہ پڑا۔ دل پھیکا پڑ گیا۔ اس نے کال رکھ ایک نظر کباب والی پلیٹ پر ڈالی اور اٹھ کھڑا ہوا اس موقع پر اسے جان جیسی پیاری کافی بھی اپنی طرف راغب نہیں کر پائی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔۔
وہ سونے کے لیے بستر پر لیٹ رہی تھی جب مینجر کی آتی کال پر حیران ہوئی۔ بھلا اتنی رات کو وہ کیوں کال کر رہے تھے؟ یہ سوچ کر ہی اس نے کال اٹھا کر موبائل کان سے لگایا۔
"ہیلو سر!۔" کال اس کی نیند خراب تو کر ہی چکی تھی۔
"ہیلو مس عشنا۔۔ ڈسٹرب کرنے پر بہت معذرت چاہتا ہوں۔"
"جی سر! سب خیریت ہے؟۔"
"مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔"
"کیسی بات؟۔" وہ الجھی۔ اتنی رات کو کون سی ضروری بات ہو سکتی تھی۔
"اس دن پارٹی میں جو ہوا بہت برا تھا۔ رافع کی یہ حرکت واقعی ناقابل برداشت ہے۔۔ میں اس تماشے کے بعد اسے فائر کرنا چاہتا ہوں مگر ابھی باس کو اس بارے میں نہیں معلوم! اگر معلوم ہوجائے گا تو شاید میری خیر نہیں ہوگی۔ وہ پارٹی میں نے منعقد کی تھی اس لیے باس مجھ پر غصہ ہوں گے۔"
"مگر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟۔" وہ اب بھی نہ سمجھ پائی۔
"میرویس! فاری کمپنی کا مینجر! مجھے معلوم تو نہیں وہ تمہارا کون ہے مگر اس دن گفتگو سے اتنا تو اندازہ لگا ہی سکا ہوں کہ وہ تمہارا کوئی جان پہچان کا مرد ہے۔ اس دن جو اس نے وہ سب دیکھا کہیں اس سے ہماری کمپنی کی پروگریس خراب نہ ہو جائے! مزید یہ کہ اگر فاری کمپنی نے کانٹریکٹ سے انکار کردیا تو باس کو سب کچھ پتا چل جائے گا اس طرح ہم میں سے اکثر لوگوں کی نوکری خطرے میں پڑ جائے گی۔ کیا تم ہماری کمپنی کے خاطر ایک کام کر سکتی ہو؟۔" مینجر بہت گھبرایا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔
"میں کوشش کروں گی مگر پہلے آپ مجھے بتائیں۔" وہ ایسے ہی حامی نہیں بھر سکتی تھی۔
"میں چاہتا ہوں کہ۔۔ تم مسٹر میرویس سے بات کرو۔ اس سے کہو کہ اس دن کے تماشے کی وجہ سے دونوں کمپنیوں کے درمیان کے تعلقات میں تبدیلی نہ لائے۔ ایک دفعہ یہ کانٹریکٹ سائن ہو جائے ہم جلد ہی رافع کی چھٹی کردیں گے۔"
تو بات دراصل یہ تھی۔
"اور آپ کو لگتا ہے میرے کہنے سے مینجر مان جائے گا؟۔" نجانے کیوں مگر اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
"میں تم سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک بار کوشش کر کے دیکھو۔ میری بات شاید وہ نہ مانے۔ اپنے طور پر وہ مجھے بلکل نہیں پسند مگر اب ہماری مجبوری ہے۔ باس اس کانٹریکٹ کی وجہ سے بہت خوش ہیں۔" اس لمحے وہ عشنا کو جہاں بہت پریشان نظر آئے، اس کا دل چاہا ہنس دے۔
"ٹھیک ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں۔۔ مگر زیادہ امید نہیں ہے کیونکہ وہ میرا صرف دوست ہے۔۔ جو اپنی کمپنی کے لیے بہت محنت کر رہا ہے سر۔ مجھے نہیں لگتا کہ صرف میری بات سے وہ پیچھے ہٹ جائے گا۔ بہرحال میں کوشش کروں گی۔" گہری سانس خارج کرتے ہوئے اس نے اکتاہٹ سے کہا۔
"اوہ تھینک یو مس عشنا! یہ معاملہ جلد ہی سلجھادیں تو اچھا ہوگا۔ خدا حافظ!۔" وہ فون رکھ چکا تھا اور عشنا اضطراب میں مبتلا ہوچکی تھی۔
"یہ پریشانیاں پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتیں!۔" دانت پیس کر کہتی ہوئی وہ بستر کی جانب بڑھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
یہ بریانی کا پہلا اور شاید آخری نوالا تھا جو منہ میں گیا تھا۔ زبان پر اس کی تیزی محسوس کرنے کے بعد وہ چبا بھی نہیں سکا تھا۔ آنکھوں کی پتلیاں جہاں تھی وہیں ساکت ہوگئیں۔ اس نے پانی کے لیے نگاہ دوڑانا چاہی مگر میز میں کہیں پانی کا جگ نہ پا کر وہ اپنی آنکھوں سے باہر آتے پانی کو روک نہ سکا۔
"آپ رو رہے ہیں؟۔" کاش وہ بریانی پہلے چکھ لیتی تو یہ نہ کہہ پاتی۔ ساویز نے زبردستی نوالہ حلق کے اندر ڈالتے ہوئے اسے دیکھا۔
"ہاں! خوشی سے رو رہا ہوں۔۔ تم نے پہلی بار میرے لیے کھانا بنایا ہے نا۔ بہت خوش ہوں میں۔۔" زبان جل رہی تھی مگر غنایہ کو تسلی دینا زیادہ ضروری تھی۔ وہ یوں کہہ کر اس کی محنت پر پانی نہیں پھیر سکتا تھا۔ غنایہ کو حیرت ہوئی۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی جس نے ہاتھ ابھی تک دوسرے نوالے کی جانب نہیں بڑھائے تھے۔ اس کے انداز کو کچھ کچھ سمجھتے ہوئے اس نے اپنی پلیٹ سے لقمہ منہ میں ڈالا۔۔
یہ وہی وقت تھا جب اس کی سٹی گم ہوئی۔ جلدی سے نوالہ نگلتی وہ پانی کی تڑپ میں کچن کی جانب بھاگی تھی۔ ساویز نے لب بھینچ کر اس کی پلیٹ کو دیکھا۔
تھوڑی سی دیر میں ہی وہ پانی کا جگ لے کر باہر آئی۔
"آپ پانی پی لیں۔" لہجہ شرمندہ تھا۔۔ اس نے ساویز کی پلیٹ آگے سے اٹھالی۔ "اور پلیز یہ کھانا مت کھائیں۔" چہرہ بجھ گیا۔
ساویز نے اس کے تاثرات نوٹ کیے۔
"میں کھا سکتا ہوں۔" جانے کیوں مگر اتنی تکلیف کے باوجود وہ تیزی سے بولا۔ غنایہ نے ٹھہر کر اس کا چہرہ دیکھا۔
"آپ نہیں کھا سکتے ساویز۔۔ اسے کوئی نہیں کھا سکتا۔ مجھے اندازہ نہیں ہوا اور مرچیں بہت زیادہ ہوگئیں۔" دھیمی آواز۔ "مجھے خود کھانا نہیں بنانا چاہئیے تھا۔ خالہ ہی بنا لیتیں۔" اسے ساویز کے لیے برا لگنے لگا جو بھوک کے مارے اس کے ساتھ کھانا کھانے آیا تھا۔
ساویز کو دکھ ہوا۔ وہ ایسا کیا کرے کہ غنایہ برا محسوس نہ کرے۔
"غلطیاں تو سب ہوتی ہیں۔۔ اور ویسے بھی تم نے کہا تھا کہ تم ابھی سیکھ رہی ہو۔ سیکھنے کے مراحل میں انسان بہت سی غلطیاں کرتا ہے اور یہ بلکل عام سی بات ہے غنایہ۔" دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر غنایہ کا ہاتھ پکڑا۔ وہ خاموش زدہ ویسی ہی کھڑی رہی۔
"آپ کو بھوک لگی ہے؟۔" اس کی بات کا جواب دیے بغیر وہ اپنا سوال کر گئی۔
"اتنی بھی نہیں۔۔ تمہیں؟۔"
"مجھے بھوک لگ رہی ہے۔" دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا تو ساویز نے لب کاٹے۔
"کوئی بات نہیں! ہم سینڈوچ بنا لیتے ہیں۔ کیا یہ ٹھیک رہے گا؟۔" اسے کچن کے بارے میں اتنا علم نہیں تھا اس لیے غنایہ سے پوچھنے لگا۔
"ہاں۔۔" بھوک زوروں کی تھی اس لیے وہ فوراً حامی بھر گئی۔
"مجھے کچھ بنانا نہیں آتا۔۔ نہ یہ پتا ہے کہ کون سی چیز کہاں رکھی ہے۔۔ لیکن میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔" اس نے بیچارگی سے پیشانی کجھاتے ہوئے کہا۔ اس کے لیے یہی بہت تھا کہ غنایہ اس کی محبت کو دھیرے دھیرے قبول کر رہی تھی۔
وہ ہنس پڑی۔
ساویز کو جیسے اس کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر سکون حاصل ہوا۔ یہ لڑکی آج پہلے سے زیادہ دل کے قریب محسوس ہو رہی تھی۔ اپنے ہاتھ پر اس کے ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہوئے وہ خود کو کتنا پر سکون محسوس کر رہا تھا۔ شادی سے پہلے اس نے کبھی نہیں سوچا تھا ایک نکاح سے دل کا حال یوں بدل جائے گا۔ کوئی اس کے لیے اتنا ضروری ہوجائے گا کہ دن رات اس کی دنیا اس کے ہی گرد گھومنے لگے گی۔ کیا حسین احساس تھا۔۔ محبت کا۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔