کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی سے چاہت کے بدلے چاہت مانگنے لگتے ہیں۔۔ امیدیں بڑھا لیتے ہیں اور جب کچھ مرضی کے خلاف ہونے لگتا ہے تو تب محسوس ہوتا کہ وہ امیدیں ہی غلط تھیں۔۔ ہر بار چاہت کے بدلے چاہت نہیں ملا کرتی۔ دو دن مزید بیت گئے۔۔ وہ تقریباً ایک گھنٹے سے آنکھیں کھولے چھت کو تک رہا تھا۔ بازو سر کے نیچے تھا اور بے تاثر آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھیں۔ ماحول میں قدرے خاموشی تھی۔ سورج کی کرنیں ٹیرس کے دروازے سے ہوتے ہوئے کمرے کو روشن کر گئیں۔ آنکھ کھلنے کے بعد اس نے ایک بار گردن پھیر کر غنایہ کو دیکھا تھا جو بستر پر لیٹی گہری نیند کے زیر اثر سو رہی تھی۔۔ اس کے بعد آنکھیں پھیر کر چھت کو نگاہوں کا مرکز بنا لیا تھا۔ کچھ بھی ویسا نہیں ہوا تھا جیسا ساویز سوچتا تھا۔۔ مگر ہاں اب ایک احساس تھا۔ کسی کے پاس ہونے کا۔۔ ایک فکر تھی۔ کسی کے ساتھ ہونے کی۔۔ اور خیال تھا۔۔ اس نے ایک بار پھر گردن پھیر کر غنایہ کو دیکھا جس کے چہرے پر ڈوپٹہ تھا۔ وہ اپنا چہرہ ڈوپٹے سے ڈھانپ کر سویا کرتی تھی۔۔ یہ عادت شاید اس کی پرانی تھی۔ اس پردے کے باوجود بھی وہ اس کی بھوری آنکھیں محسوس کرسکتا تھا۔ ٹی شرٹ سے نکلتے اس کے بازوؤں پر لکیریں واضح ہورہی تھیں۔ سینے پر رکھا موبائل اٹھا کر وقت دیکھتا وہ اٹھ کھڑا ہو گیا۔ آج آفس لازمی جانا تھا۔۔ وہ مزید کوئی چھٹی افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے ملازم کو کال کر کے اپنا کوٹ لانے کو کہا اور واش روم کی جانب بڑھ گیا۔ واش روم سے باہر نکلا ہی تھا کہ دروازے پر ہلکی دستک ہوئی۔ پانی سے تر چہرے کو تولیے سے صاف کرتے ہوئے وہ دروازہ کھولنے بڑھا۔ ملازم نے کوٹ اس کی جانب بڑھایا جسے وہ تھام کر اندر مڑ گیا۔ ماحول میں بے حد خاموشی تھی۔ پندرہ منٹ اپنی تیاری پر لگا کر اس نے ایک آخری نگاہ آئینے پر ڈالی۔ پرفیوم کی خوشبو سے کمرا مہک اٹھا۔ لیپ ٹاپ بیگ میں ڈال کر وہ صوفے پر رکھتا ہوا گھوم کر اس کی جانب آیا۔ ڈوپٹہ اب بھی چہرے پر تھا۔ جارجٹ کا ڈوپٹہ پکڑ کر نرمی سے ہٹاتے ہوئے وہ اسے بغور دیکھنے لگا۔ سوتے ہوئے وہ اسے کوئی چھوٹی لڑکی معلوم ہوئی۔ گھنی لمبی پلکیں اب وہ بغور دیکھ سکتا تھا۔ اگر وہ اٹھ جاتی تو نجانے کتنا گھبرا جاتی۔ ساویز کے لبوں پر یہ سوچ کر مبہم سی مسکراہٹ پھیلی۔ دھیرے سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا ہاتھ پکڑا ہی تھا کہ چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے۔ ہاتھ چھوڑ کر پیشانی پر ہاتھ لگایا گیا۔۔ وہ یکدم ہی پریشان ہوگیا۔ تیز بخار میں تپتی غنایہ اس کی فکرمندی میں اضافہ کر گئی۔ ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔ وہ اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے دراز سے تھرما میٹر نکال کر اس کی جانب بڑھا۔
"غنایہ؟۔" اس نے سوتی غنایہ کو آواز دی۔
ساویز کی آواز پر جھٹکے سے آنکھیں کھول کر وہ اسے دیکھنے لگی۔ ہر حالت سے بے خبر آنکھوں میں حیرانی اور کچھ پریشانی تھی۔
"جی؟۔" لہجہ نڈھال تھا۔۔ اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتی وہ اٹھ کر بیٹھی۔
"یہ تھرما میٹر لگاؤ، بخار چیک کرنا ہے۔" اس نے موبائل پر اسٹاپ واچ کھولی اور اس کے برابر بیٹھ گیا۔ سیاہ پینٹ کوٹ میں وہ آفس جانے کے لیے تیار تھا مگر اب یوں غنایہ کو اس حالت میں چھوڑ کر جانے کا رسک وہ کسی طور نہیں لے سکتا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
الارم کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی تھی۔ اوندھا منہ لیٹا میر الارم بند کرنے کے لیے اٹھ کر بیٹھا۔ وہ آواز اس کی آنکھیں مکمل طور پر کھول چکی تھی۔ پیر زمین پر رکھتے ہوئے اس نے موبائل فرش سے اٹھایا۔۔ ہمیشہ کی طرح وہ جو چیزیں رات بستر پر رکھ کر سویا تھا، صبح انہیں فرش سے اٹھا رہا تھا۔ تولیہ، والٹ، گاڑی کی چابی اور اپنا لائٹر۔۔ باری باری اٹھا کر اس نے دوبارہ بستر پر اچھالا تھا۔۔ وہ بستر کی طرف سے گزر رہا تھا جب اسے کنارے پر اپنا تکیہ فرش پر نظر آیا۔
"یا اللہ میر!۔" خود سے حیرت کا اظہار کرتا تکیہ اٹھانے بڑھا۔ اسے اپنے بارے میں بھی زیادہ معلوم نہیں تھا۔۔ یہی سوچتا رہتا کہ آخر وہ کیسے سوتا ہے کہ یہ سب چیزیں اسے اگلے دن یوں فرش سے اٹھانی پڑتی ہیں۔ موبائل پر آئی رابعہ کی مس کالز دیکھتے ہوئے وہ گہری سانس خارج کرتا واش روم کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مگر مجھے تو کچھ نہیں ہوا ہے۔" بخار کی وجہ سے آواز گھٹی گھٹی سی تھی۔ وہ اس پر ایک نگاہ ڈالتا ہوا تھرما میٹر کو دیکھنے لگا جو غنایہ کے ہاتھ میں تھا۔
"تمہیں تیز بخار ہے غنایہ۔۔ تھرما میٹر لگاؤ تاکہ بخار دیکھ سکوں۔" اس کو مزید کچھ کہنا نہیں پڑا۔ اس نے بنا آگے سے کچھ کہے تھرما میٹر لگا لیا اور انتظار کرنے لگی۔ اسٹاپ واچ پر وقت ختم ہونے پر ساویز نے بخار چیک کیا۔
"ایک سو دو!۔" گہری سانس خارج کرتے ہوئے پریشانی سے بتایا۔ غنایہ خاموش رہی۔
"تم پوری رات ٹیرس پر تھی؟۔" وہ اب اس بخار کی وجہ پوچھ رہا تھا۔ ولیمے کی رات کے بعد سے وہ اب بھی کافی رات ٹیرس پر گزارا کرتی تھی۔
"جی۔" بخار سے تپتا چہرہ ہلکا سرخ ہورہا تھا۔ ساویز نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
"اتنی ٹھنڈک کے باوجود اندر کیوں نہیں آئی؟۔" اسے گزری رات چلتی ٹھنڈی ہوائیں یاد آئیں۔ اسے لگا تھا کہ وہ محض ایک گھنٹہ ہی ٹیرس پر ٹھہر سکے گی۔ پوری رات کا بتا کر وہ اس کے چھکے چھڑا گئی تھی۔
"چاند کو تکتے ہوئے وقت کا اندازہ نہ ہوسکا۔۔" اس کی آنکھوں میں دیکھے بغیر وہ گھبرائی گھبرائی بول رہی تھی۔
"پوری رات کھڑی رہی؟۔" ساویز کو اب بھی یقین نہیں آیا۔۔
"نہیں۔ جھولے پر بیٹھی تھی۔۔۔ کب آنکھ لگی اندازہ ہی نہ ہوا اور جب آنکھ کھلی تو فجر ہورہی تھی۔" وہ اس کو فکرمند ہوتا دیکھ رہی تھی۔ سمٹ کر پیچھے ہوتے ہوئے اس نے مسہری سے ٹیک لگا لیا۔ ساویز کی نگاہیں تھرما میٹر پر تھیں۔ موبائل نکال کر ملازمہ کو کال ملائی اور پرہیزی کھانا لانے کا کہا۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔" وہ جلدی سے بولی ہی تھی کہ گلے کی تکلیف سے کراہ کر رہ گئی۔ ساویز نے موبائل کان سے ہٹاتے ہوئے اسے دیکھا۔
"تو پھر بیمار کون ہے؟۔" یکدم ہی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ غنایہ نے کچھ جھجھکتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ "چاند پسند ہے؟۔" بھوری آنکھوں نے بھوری آنکھوں کو دیکھا۔ وہ پریشان تھا مگر اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جان کر کہتے ہوئے وہ اسے باتوں میں مشغول کرنے لگا تاکہ وہ بیماری کو زیادہ محسوس نہ کرے۔
"بہت۔۔" ایک 'چاند' پر ہی تو وہ ڈھیروں باتیں کرسکتی تھی۔
"کیوں؟۔" تھوڑا پیچھے ہو کر بستر پر ایک کہنی ٹکاتے ہوئے وہ لیٹنے کے انداز میں بیٹھا۔ "مجھے چاند دیکھنے میں کبھی دلچسپی نہیں رہی اس لیے تم سے پوچھ رہا ہوں۔"
غنایہ کے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ پھیلی۔ ساویز نے ان مسکراتے لبوں کو دیکھا۔۔۔ شاید پہلی بار تھا کہ غنایہ اس کے ساتھ گفتگو کے درمیان مسکرائی تھی۔ آج پہلی بار ساویز کو احساس ہوا کہ اس کی مسکراہٹ میں خوبصورتی ہے۔۔ کرنی سادہ اور دلکش مسکراہٹ تھی۔
"جب آپ کا لوگوں میں کوئی نہیں ہوتا تو آپ کا چاند ہوتا ہے۔ مجھے وہ پسند ہے کیونکہ وہ مجھ سے مماثلت رکھتا ہے۔۔ اکثر ادھورا نکلتا ہے اور۔۔ میں بھی تو ادھوری ہوں۔" اس کا یوں کہنا ساویز کو تھوک نگلنے پر مجبور کر گیا۔
"تمہیں کس نے کہا تم ادھوری ہو؟۔" دھیما راز دار لہجہ۔۔
"میرے اندر کافی کچھ ادھورا ہے۔ میری دوست کہتی ہے کہ اتنا کوئی عام لڑکی بھی نہیں ڈرتی جتنا میں لوگوں سے ڈرتی ہوں۔۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر کچھ خالی پن سا ہے۔ میں ادھوری ہوں۔۔" تھوڑی دیر کے لیے وہ بھول گئی تھی کہ یہ وہی ساویز ہے جس سے وہ گھبراتی اور سہمتی ہے۔ ساویز اس کی آنکھوں میں خود کو کھوتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
"کیا تمہیں لگتا ہے یہ ادھورا پن کوئی شخص مکمل کر سکتا ہے؟۔" ذو معنی لہجہ۔
"نہیں۔۔ میں ایسی ہوں۔" وہ پھیکا سا مسکرا کر نگاہیں جھکا گئی۔
"ایسی ہی رہنا چاہتی ہو؟۔" اس کے خیالات جاننا ضروری تھے۔ وہ ٹھہر سی گئی۔
"پتا نہیں۔۔ شاید۔۔" وہی پھیکی سی مسکراہٹ۔ چہرے پر آتے بالوں کو اس نے کانوں کے پیچھے کیا۔ ساویز کو اپنا دل کچھ ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
"مجھ سے پوچھو تو یہ ادھورا پن نہیں ہے۔" اس نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے گہری سانس خارج کی۔
"یہ ادھورا پن ہے۔۔ یا پھر۔۔۔ پتا نہیں۔۔" وہ الجھنے لگی۔ " پریشانی میں رونے لگتی ہوں، گھبراہٹ میں ہر کام غلط کرتی ہوں، ڈرنے لگتی ہوں انگلیاں مڑوڑنے لگتی ہوں۔ میری دوست کہتی ہے یہ سب نارمل نہیں۔۔۔" جانے کیوں وہ اسے اپنی باتیں بتا رہی تھی اور ساویز دل میں مسکراتا یہ سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی تو امید سے زیادہ بھی معصوم ہے۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"وہ ابنارمل ہے۔" کہتے ساتھ ہی اس نے سر بستر پر رکھا۔ غنایہ نے کسی غم سے بھنویں اٹھا کر لیٹے ساویز کو دیکھا۔
"ایسا نہیں ہے۔ وہ کانفیڈنٹ ہے!۔" ساویز کا یوں کہنا اسے ذرا نہیں بھایا۔
"کانفیڈنٹ کا مطلب آپ کی ڈکشنری میں غلط درج ہے۔ دراصل یہ سب نارمل ہے۔" وہ اطمینان سے اس کی ہر بات کا جواب دے رہا تھا۔
"چھوٹی بات کو خود پر حاوی کر کے کون روتا ہے بھلا؟۔"
"جب میں انیس سال کا تھا تو صرف اس وجہ سے ایک دن رو گیا تھا کہ بابا آسٹریلیا مجھے بغیر بتائے چلے گئے تھے۔ حالانکہ انیس سال بھی کوئی چھوٹی عمر نہیں ہوتی غنایہ۔۔" وہ جس اطمینان سے اسے بتا رہا تھا غنایہ حیران تھی۔
"آپ کے بابا؟۔"
"میں ان کے ساتھ جانا چاہتا تھا مگر وہ خود چلے گئے۔ مجھے لگا تھا انہیں میری پرواہ ہے مگر اس دن خوب رولینے کے بعد یہ بات خود کو باور کروالی کہ مجھے اپنی پرواہ خود کرنی ہے۔" ہاتھ میں موجود موبائل وہ کچھ اچھال کر پکڑ رہا تھا۔ غنایہ کو حیرانی ہوئی مگر وہ خاموش رہی۔
"اس کے بعد ہر دو مہینے بعد آنا جانا کرتے رہے۔۔ بزنس اس وقت سنبھالنے کے قابل تو نہیں تھا مگر جلد یہ بھی سیکھ لیا۔ پھر یوں ہوا کہ ان کا آنا کم ہوگیا اور مجھے فرق پڑنا۔۔" غنایہ کے تاثرات دیکھ کر وہ جان گیا تھا کہ وہ مزید اس بارے میں جاننا چاہتی ہے مگر کسی خوف سے نہیں پوچھ پا رہی۔ "آخری بار وہ دو سال پہلے آئے تھے صرف یہ خوشخبری سنانے کہ اب وہ سنگاپور میں شفٹ ہورہے ہیں۔ اس بات کو بھی دو سال گزر گئے۔"
"یاد آتے ہیں؟۔" اس نے آہستگی سے پوچھا۔
"نہیں۔ میں نے کبھی کسی انسان سے امیدیں نہیں لگائیں۔۔ نہ کسی سے محبت کی نہ بدلے میں محبت مانگی۔۔" اس نے آخری جملہ غنایہ کو دیکھ کر ادا کیا۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ غنایہ کو کیسے بتائے کہ اس کی زندگی میں شامل ہونے کے بعد ساویز اپنے اصولوں کو آہستہ آہستہ توڑ رہا ہے۔ اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے غنایہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔ وہ ہاتھ سہم کر چھڑاتی دور ہٹی۔ وہی خوف، وہی گھبراہٹ۔۔ جیسے ابھی دونوں کے درمیان کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔۔ ساویز جہاں ٹھہرا تھا وہیں ٹھہرا ہی رہ گیا۔ یکدم ہی ملازمہ نے دروازہ بجایا۔
"تو بلآخر ناشتہ آگیا۔" ابھی ہوئے واقعے کو جھٹ سے بھلاتا وہ خوش دلی سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"آدھے گھنٹے میں سوپ لے آئے گا۔" ملازمہ ٹرے رکھ کر پلٹ رہی تھیں جب ساویز نے روک کر کہا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئیں۔ ایک نگاہ غنایہ پر ڈالتے ہوئے وہ اپنا لیپ ٹاپ لے کر صوفے پر ہی بیٹھ گیا۔ آج اسے گھر سے کام کرنا پڑ رہا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں نے گہرے رنگ کی گلابی میکسی پہنی ہے۔ کیا یہ پارٹی کے لیے مناسب رہے گی؟۔" وہ خود کو آئینے میں گھوم گھوم کر دیکھ رہی تھی۔ کان پر لگے فون کے دوسری طرف صوفیہ جھنجھلائی۔
"پچھلے آدھے گھنٹے سے یہی پوچھ رہی ہو اور میں بارھویں دفعہ بتا چکی ہوں کہ میکسی پارٹی کے لیے ٹھیک رہے گی۔"
گہرے رنگ کی گلابی یہ میکسی بے حد سادہ تھی۔۔ کسی طرح کا نہ کام تھا اور نہ پرنٹ۔۔ خوبصورت رنگ کی یہ میکسی اس نے خاص طور پر آج پارٹی کے لیے خریدی تھی۔ گلے میں گولڈن چین پہن کر وہ تیار تھی۔ ہاتھ خالی تھے جبکہ کانوں میں بھی اس نے کچھ نہیں ڈالا تھا۔ بالوں کو کرل کرکے خوبصورت انداز میں بٹھایا گیا تھا۔
"تمہیں یقین ہے نا کہ رافع نہیں آئے گا؟۔" وہ اپنا دل برا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"میں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ عشنا نہیں آئے گی! اب بھلا وہ کیوں آئے گا؟۔" صوفیہ کے ہنسنے کی آواز پر وہ مسکرادی۔
"سراقہ سے کہو تمہیں ریسٹورینٹ چھوڑ دے۔ میں بھی گھر سے نکل رہی ہوں۔۔ کہیں ہم لیٹ نہ ہوجائیں۔" وہ اپنا پرس نکال رہی تھی۔
"تم بے فکر رہو ہم وقت پر پہنچیں گے۔ سراقہ اپنے شو روم سے گھر آنے کے لیے نکل چکا ہے۔ آتا ہی ہوگا۔" وہ مسکراتی ہوئی اسے بتا کر کال رکھنے لگی۔ عشنا جس کے جانے کا پہلے دل نہیں تھا، وہ اب اپنی تیاری سے خوش ہو کر جلد از جلد وہاں جانا چاہتی تھی۔ گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے وہ اپنا سامان سمیٹنے لگی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
گانوں کی آواز اور پارٹی کا شور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ لوگوں کے ہاتھ میں جوس کے گلاس تھے اور وہ ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے۔ دور خوبصورت سی میز کے ساتھ بیٹھے رابعہ اور میر عجیب طرح سے چلتی پارٹی کو دیکھ رہے تھے۔
"اب کیا ہوگا میرویس!۔" وہ گھبرائی گھبرائی بولی۔
"خدا کی قسم مجھے ذرا اندازہ ہوتا تو میں یہاں کبھی میٹنگ نہیں رکھواتا۔ کلائنٹ آتے ہی ہوں گے اور یہ شور و غل!!!۔" وہ بیچارگی سے درد کرتے سر کو تھامتا ہوا بولا۔
"مینجمنٹ کو ہمیں پہلے آگاہ کرنا چاہئیے تھا۔ یہ میز خاص طور پر کلائنٹ سے میٹنگ کے لیے بک کی گئی تھی اور مینجمنٹ جانتی تھی۔ پھر ہمیں کیوں نہیں بتایا گیا؟۔" وہ منہ کھولے حیرت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
"مسٹر حسام کو معلومات لینی چاہئیے تھی۔ بہرحال وقت کم ہے اور اب ہم لوکیشن تبدیل نہیں کر سکتے۔ کسی طرح مینج کرنے کی کوشش کرنا۔" کرسی کی پشت سے ٹیک لگایا ہوا تھا۔۔ ٹانگ پر ٹانگ جمی ہوئی تھی آنکھوں پر سیاہ چشمہ تھا۔ کلائی پر بندھی گھڑی کو ایک نظر دیکھتا ہوا وہ اپنا پاؤں ہلانے لگا جو دوسرے پاؤں کے اوپر جما تھا۔ رابعہ فائلز دیکھنے لگی۔
"اسلام علیکم! فاری کمپنی؟۔" پیچھے سے آنے والی آواز نے دونوں کو چونکایا۔ ان کا چہرہ پہچان کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
مسہری سے ٹیک لگائے بیٹھی وہ کھلی کھڑکی سے باہر آسمان دیکھ رہی تھی۔ تین گھنٹے گزر چکے تھے۔ سوپ کا آدھا بھرا پیالہ برابر میں رکھا تھا۔ اس نے نگاہیں گھما کر سامنے صوفے پر ڈالی۔
سر صوفے کی پشت سے ٹکائے وہ آنکھیں موند کر کب سویا ساویز کو خود علم نہیں تھا۔ گود میں رکھا لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا۔ ایک ہاتھ صوفے کی پشت پر تھا جب دوسرا لیپ ٹاپ پر۔۔ اسے دو گھنٹے پہلے کی ساویز کے ساتھ گفتگو یاد آئی۔ آج سے پہلے اس نے کبھی کسی غیر مرد سے یوں گفتگو نہیں کی تھی۔۔ اگلے ہی پل اس کے لبوں پر بہت ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔ 'مگر یہ غیر تھوڑی تھا' اسے ساویز کی ہلکی ہلکی شیو پرکشش لگی۔۔ کوٹ چینج کیے بغیر وہ صوفے پر ہی بیٹھے گہری نیند میں جا چکا تھا۔ موبائل پر آتی مینجر کی کال پر اس کی آنکھ کھلی۔ غنایہ نے نگاہوں کا مرکز کھڑکی کو بنالیا۔ ساویز آنکھ کو مسلتے ہوئے ایک نظر اس پر ڈال کر موبائل اٹھانے لگا۔
"کینسل ہے آج کی میٹنگ۔۔" خود کو زبردستی بیدار کرتے ہوئے وہ بمشکل کہہ رہا تھا۔
"نہیں ابھی نہیں! میں آفس نہیں آسکتا۔"
"اچھا میں کوشش کرتا ہوں۔" نظریں غنایہ پر تھیں۔ موبائل صوفے پر رکھ کر اس نے گود سے لیپ ٹاپ اٹھا کر برابر میں رکھا۔
"سوپ نہیں پیا؟۔"
"بھوک نہیں ہے۔" مخصوص دھیمی آواز۔۔
"سوپ کا بھوک سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔۔" وہ گھومتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔ غنایہ نے نظریں جھکا لیں۔ ساویز اس کے نزدیک آتا پیشانی پر بخار چیک کرنے لگا۔ غنایہ نے پیچھے ہٹنا چاہا مگر مسہری سے ٹیک لگانے کی وجہ سے وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکی۔
"مجھے اچانک آفس جانے پڑ رہا ہے۔ بخار کافی بہتر ہے مگر مکمل طور پر ابھی اترا نہیں۔۔ تم اب کیسا محسوس کر رہی ہو؟۔" بالوں میں برش پھیرتے ہوئے وہ اپنا لیپ ٹاپ بیگ میں ڈال رہا تھا۔
"ٹھیک ہوں۔" وہ فوراً سے بولی۔ ساویز اس کے اچانک جواب پر مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"کیا میں رک جاؤں؟۔"
"نہیں میں ٹھیک ہوں۔ آپ آفس چلے جائیں۔" غنایہ نے بغیر کسی وقفے سے کہا۔ ساویز اس کا مطلب سمجھتے ہوئے کسی عجیب احساس سے سر جھٹکتے ہوئے مسکرا دیا۔
"ملازمہ کو کمرے میں بجھوارہا ہوں۔ دوائی وقت پر کھا لینا اور ہاں۔۔" وہ ٹھہر کر پلٹا۔ "اب باہر لان میں نہیں جانا۔" سنجیدگی سے کہتے ساویز باہر نکل گیا۔ غنایہ نے تھوک نگل کر اس کی چوڑی پشت دیکھی اور نگاہیں پھیر دوسری جانب کر لیں۔ اس کا دل ہر احساس و جذبات سے خالی تھا۔ وہ کسی احساس کو محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ محبت کیا ہے اور اس میں مبتلا ہونے کے بعد کیا حاصل ہوگا۔۔۔ وہ ان سب باتوں سے دور تھی۔ باصم کے خوف سے شادی کرنا اس کے لیے محض ایک مجبوری رہی۔ اسے لگتا تھا سب ٹھیک ہو جائے گا مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ سب کچھ یوں ہوتا چلا جائے گا۔ ساویز کو دیکھ کر ہمیشہ دماغ میں ایک خیال آتا تھا۔۔ کیا وہ اسے کبھی قبول کر پائے گی؟
۔۔۔★★★۔۔۔
"بہت خوبصورت!۔" اس کے الفاظ اور نگاہیں عشنا کو عجیب گھبراہٹ مبتلا کر گئے۔
"تھینک یو سر۔۔" صوفیہ کا ہاتھ سختی سے بھینچتی ہوئی وہ تیزی سے اس جگہ سے نکل کر دوسری طرف آکھڑی ہوئی۔ ڈوپٹہ اچھے سے پھیلایا ہوا تھا۔ تیز گانوں کی آواز جہاں لوگوں کو خوش کر رہی تھی وہیں عشنا کے سر کے درد میں اضافہ کرنے لگی۔
"میں نے پہلی بار مینجر کو یوں کہتے سنا۔" صوفیہ اب تک حیران تھی۔ عشنا نے ہونٹ کاٹے۔
"میں نے بھی۔۔ کیسے عجیب طرح سے دیکھ رہا تھا۔" اسے محسوس ہوا جیسے اس پارٹی میں آنا اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
"کم از کم رافع نہیں ہے۔۔" صوفیہ نے جان چھڑانی چاہی۔ وہ ابھی مزید کچھ کہتی کہ اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ کر بوکھلائی۔ "یہ کیسے آگیا۔" ششدر لہجہ۔۔
"کون آگیا؟۔" عشنا نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں پیچھے دیکھا تو رنگت فق ہوگئی۔ گہرے بھورے رنگ کے کوث میں رافع اندر داخل ہوا تھا۔ سب سے گلے ملتے ہوئے نگاہ عشنا کی جانب ڈالی تھی۔ چہرے پر یکدم مسکراہٹ پھیل گئی۔
"یہ یہاں کیسے آگیا؟۔" اس نے صوفیہ کو پکڑ کر جھنجھوڑا۔
"مم۔مجھے نہیں معلوم عشنا۔۔ جب میں نے اسے تمہارے نہ آنے کا بتایا تھا تو مجھے لگا کہ وہ اب پارٹی میں نہیں آئے گا مگر۔۔۔" وہ گھبرائی گھبرائی بولی۔
"یا اللہ! اب وہ جان کر میری طرف آئے گا۔ داخلے کی طرف کھڑے ہونے کے بجائے ہمیں چاہئیے کہ اندر کی جانب چلے جائیں۔ کم از کم یہ ہمیں ڈھونڈھ تو نہیں پائے گا۔" یہ ریسٹورینٹ کافی بڑا تھا۔ صوفیہ کے ہمراہ وہ اپنا پرس اٹھاتے ہوئے وہاں سے آگے بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
کلائنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر فائل دیکھتے میرویس کے کانوں میں رابعہ سرگوشی کرنے لگی۔
"اس شور کا کچھ کرو میرویس!۔"
"میں کیا کرسکتا ہوں۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"یہ ریسٹورینٹ بک کرنے کا تمہارا آئیڈیا تھا اور جانتے ہو نا کہ یہ سب بھی کتنا معنی رکھتا ہے؟ کیا سوچ رہے ہوں گے وہ لوگ؟ ایک ڈھنگ کا ریسٹورینٹ بھی ملاقات کے لیے طے نہ کر پائے۔" وہ دو لوگ تھے جو ان کے مقابل بیٹھے میرویس کی پیش کی گئی ڈیل پر غور کر رہے تھے۔ میرویس نے بیزاریت سے گہری سانس خارج کی۔
"معاف کیجیے گا۔۔" وہ ان دونوں کو متوجہ کرواتا اٹھ کھڑا ہوا۔ "مجھے دو منٹ کی اجازت دیجئے۔" یہ شور و غل اس کا دماغ خراب کر رہی تھی۔ رابعہ کو آنکھوں سے اشارہ کرتا وہ اس ایریا کی جانب بڑھنے لگا جہاں پارٹی چل رہی تھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اس کی بیوی کا نام غنایہ ہے۔۔ دو بہنیں ہیں۔۔ کل جس لڑکی کا آپ میرویس سے پوچھ رہے تھے میں نے اس کے بارے میں معلوم کروایا ہے۔ وہ غنایہ کی بہن ہے۔ نام عشنا!۔" خرم دروازے کی طرف کھڑا اسے معلومات دے رہا تھا۔ اس کی طرف پشت کیے کھڑا وجاہت گلاس وال کے باہر دیکھ رہا تھا۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"غنایہ۔۔ نائس نیم!۔" کسی تیسرے کی موجودگی سے بے خبر وہ دونوں گفتگو کر رہے تھے۔ "بھابھی سے ملنا پڑے گا۔" اس کے ہنسنے کی آواز گونجی۔
"ساویز صبح آفس جاتا ہے اور گھر میں سوائے دو ملازموں کے کوئی نہیں ہے۔ ایک بوڑھی ملازمہ ہے جو عام طور پر کھانا بنا کر جلدی ہی چلی جاتی ہے مگر ملازم جس کی عمر زیادہ نہیں وہ سارا دن ٹھہر کر رات کو رخصت ہوتا ہے۔ دروازے پر ایک بوڑھا چوکیدار ہے جو اس ملازمہ کا شوہر بھی ہے۔" یہ ساری معلومات اکھٹی کرنے میں اسے کافی وقت لگا تھا۔ اس بات سے بے خبر کہ گلاس ڈور سے کوئی داخل ہوا ہے، وہ اپنی کہے جا رہا تھا۔ یکدم ہی اس کی نظر اندر داخل ہونے والے شخص پر نظر پڑی جو نجانے کب سے دروازے پر کھڑا تھا، تو الفاظ حلق میں ہی پھنس گئے۔ پریزے نے خرم کو خاموش رہنے کا اشارہ دیا اور وجاہت کا جواب سننے لگی۔
"کیا فرق پڑتا ہے ملازم دو ہوں یا آٹھ! وجاہت کسی سے نہیں ڈرتا۔" وجاہت کی بات خرم کے پسینے چھوٹ گئی۔ کاش وہ اسے بتا سکتا کہ پریزے پیچھے ہی کھڑی ہے۔
"اسے لگتا ہے وہ شادی کر کے بچ جائے گا؟ حالانکہ اس کی شادی سے ہمیں مزید آسانی ہوگئی ہے۔" وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ "ابھی تو صرف وہ وجاہت کو برداشت رہا ہے۔۔ اس کی بیوی سے ایک ملاقات تو کرنی ہی پڑے گی!!!۔" کہتے ساتھ وہ کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتا ہوا مڑا۔ نگاہ کلائی سے اٹھائی تو ساکت ہوگئیں۔ پریزے کے تاثرات نارمل نہیں تھے۔ بےیقینی سے چہرہ پھیلا ہوا تھا۔ وجاہت کو کچھ بہت برا ہوجانے کا احساس ہوا۔ اس نے خرم کو دیکھا جو آنکھیں پوری کھولے پریشانی میں کھڑا تھا۔
"تم اب اس کے گھر کی عورت کو اپنے منصوبے میں شامل کرو گے؟۔" اسے حیرت تھی یا بےیقینی۔۔ وہ پہچان نہیں پایا۔ ہونٹ سل گئے اور وہ کچھ چاہنے کے باوجود بھی نہ کہہ پایا۔ "مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی وجاہت۔" دل بوجھل ہوگیا۔ قدم پیچھے بڑھنے لگے۔ وجاہت جہاں کا تہاں رہ گیا۔ دل بھاری ہونے گیا۔ قدم جم گئے۔۔ وہ بے یقینی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے نکل گئی اور وجاہت صفائی میں کچھ کہہ بھی نہ سکا۔
"ایسا نہیں ہے۔۔" حلق سے گھٹ کر آواز نکلی۔ خرم کو ایک نظر دیکھتا ہوا وہ کوٹ کی جیب سے ہاتھ باہر نکال کر پریزے کے پیچھے بھاگتا ہوا باہر بڑھا تھا۔ خرم نے پریشانی سے گہری سانس اندر کھینچی۔ اس کی بیوی کو بھی ابھی آنا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔ گلابی رنگ اور یہ گلابی لپ اسٹک تم پر کھل رہی ہے۔" اسے اکیلا پاکر وہ ہمیشہ کی طرح اس پر جملے کس رہا تھا۔
"مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔ راستہ دیں مسٹر رافع!۔" بظاہر سپاٹ لہجے میں کہتی عشنا کا دل خوف کھا رہا تھا۔ اس نے برابر سے نکلنا چاہا مگر رافع نے اس جگہ اپنا ہاتھ ٹکا لیا۔ وہ ششدر اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہ گئی۔۔ آج اس نے حد ہی پار کردی تھی۔
"کیا کر رہے ہیں آپ یہ؟ اپنا ہاتھ ہٹائیں۔" ارد گرد کچھ فاصلے سے لوگ کھڑے تھے۔ ماحول میں بہت زیادہ شور ہونے کی وجہ سے کسی کی بھی توجہ اس طرف نہ تھی۔
"جب صوفیہ نے مجھ سے یہ کہا کہ تم پارٹی میں نہیں آنے والی ہو تو میرا دل بہت اداس ہوگیا تھا۔ تمہارے بغیر میں بہت افسردہ ہوجاتا ہوں عشنا۔" نگاہیں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ عشنا نے ارد گرد صوفیہ کو تلاشنا چاہا جو واش روم گئی تھی مگر اب تک نہیں لوٹی تھی۔ رافع کا ہاتھ اب بھی ویسے ہی دیوار پر ٹکا تھا تاکہ عشنا نہ جا سکے۔
"یہ ٹھیک نہیں کر رہے ہو تم! تمہیں جلد اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا رافع۔۔" ہلکا غصہ اور ہلکا خوف۔۔ ایک عجیب تاثر بنارہے تھے۔ رافع کا قہقہہ چھوٹا۔
"ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں۔۔" اسے سر تا پیر دیکھتے ہوئے اس کی خوفزدہ پھٹی آنکھوں کو دیکھا۔ عشنا نے اپنا دوپٹہ مٹھی میں بھینچ کر سختی سے پکڑ لیا۔
"اگر سرخ لپ اسٹک لگاتی تو بھی اتنی ہی خوبصورت لگتی۔" وہ اس سے کم فاصلے پر کھڑا اسے بغور دیکھ رہا تھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا کہ نظر سامنے سے گزرتے میرویس پر پڑی۔ آنکھیں حیرت سے پھیلنے لگیں۔ رافع کی اس کی جانب پشت تھی۔ اس نے میرویس کو گزرتے ہوئے ساؤنڈ سسٹم کے طرف بیٹھے لوگوں کی جانب دیکھا۔ رافع اب بھی اس کو کچھ کہہ رہا تھا مگر اس کی ساری توجہ میرویس نے کھینچ لی تھی جسے عشنا کی موجودگی کا علم بھی نہیں تھا۔ سر کچھ اٹھاتے ہوئے اس نے دور اپنے کولیگز سے میرویس کو گفتگو کرتے پایا۔ وہ قدرے سنجیدہ معلوم ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گفتگو مکمل کرتا ہوا واپس عشنا کے پاس سے گزرتا ہوا باہر نکل رہا تھا جب اس کی نگاہ بے دھیانی میں عشنا پر پڑی۔ وہ چونکے بنا نہ رہ سکا۔ رافع اب اس کے بے حد قریب کھڑا تھا۔ دیوار پر اب بھی بازو ٹکا ہوا تھا۔ اس شخص کا یوں عشنا کے اس قدر نزدیک ہونا میرویس کا چہرہ سرخ کر گیا۔ اس نے عشنا کی آنکھوں میں دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ خوفزدہ آنکھیں الجھی ہوئی تھیں۔ اس کے تاثرات کچھ سہمے ہوئے تھے اور وہ کسی امید سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ میرویس جس کا دماغ اس شور سے پہلے ہی پھٹ رہا تھا اس شخص نے مزید گھمادیا۔ گانے کی آواز اس کی ریکوسٹ پر آہستہ کردی گئی تھی۔
"کیا ہورہا ہے یہاں؟۔" وہ پوری قوت سے دھاڑا۔ آس پاس سب لوگوں میں خاموشی چھا گئی۔ رافع ہڑبڑا کر عشنا سے دور ہٹا۔ اس کی دھاڑ پر گانا مکمل بند ہوگیا اور سب تماشائیوں کی طرح انہیں دیکھنے لگے۔ میرویس کی کڑی نفرت بھری نگاہ رافع کے چہرے پر تھی۔ اس کے دماغ کی نسیں پھٹ رہی تھیں اور وہ غصے کی آخری حدوں میں معلوم ہوتا تھا۔
"کک۔کیا؟۔" رافع بمشکل بولا۔
"کون ہے یہ؟۔" اس نے عشنا سے پوچھا۔
"کک۔کولیگ ہے۔" اس کے یوں دھاڑنے پر عشنا کی بھی سٹی گم ہوگئی تھی۔
"اتنا بے غیرت اور بے شرم آدمی تمہارا کولیگ ہے؟۔" دانت پیس کر اس نے رافع کو دیکھا جو اس بات پر بھڑک اٹھا اذتھا۔
"تو یار لگتا ہے اس کا جو مجھے کوس رہا ہے؟۔" اس پر حاوی ہونے کے لیے وہ برابر چیخا۔ میرویس نے لال انگارہ ہوتی آنکھوں کے ساتھ ہاتھ میں پکڑے گلاس پر اس قدر گرفت مضبوط کی کہ وہ چھن کی آواز سے ٹوٹ کر بکھر گیا۔ چھوٹی چھوٹی کانچ اس کی ہتھیلی میں چبھ گئی تھیں مگر وہ کسی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر اسے دیکھ رہا تھا۔ مقابل کھڑا شخص اس کی جانب بڑھا تھا جب میرویس نے پوری قوت سے مکا بنا کر اس کی ناک مارا۔
"ایڈیٹ!۔" ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہ خطرناک تاثرات سے دور ہٹا۔
"کیا ہوا ہے؟۔" مینجر تقریبا بھاگتا ہوئے آیا تھا۔ میرویس نے مڑ کر اس کو اپنا چہرہ دکھایا۔ کچھ دور صوفیہ ششدر کھڑی یہ سب ہوتا دیکھ رہی تھی۔
"مینجر میرویس؟۔" اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹیں۔ "یہ میرویس ہیں! فاری کمپنی کا مینجر۔۔ اگلے مہینے ان کے ساتھ ایک کانٹریکٹ سائن ہونے والا ہے۔" وہ معاملے کو سنبھالتا ہوا بات کسی اور طرف موڑنے لگا۔ رافع کی ناک سے خون بہہ رہا تھا اور وہ دیوار سے ٹیک لگائے بے سدھ بیٹھا تھا۔
"ہاں دیکھا ہے میں نے آپ کی کمپنی کے امپلائیز کو۔۔" جملے میں واضح طنز تھا۔ اس نے پل بھر میں عشنا کے مینجر کو شرمندہ کردیا۔
"اب بھی یہیں ٹھہرو گی؟۔"رافع سے منہ پھیر کر عشنا سے پوچھا۔ اسے میرویس کا لہجہ سرد محسوس ہوا۔ وہ تیزی سے وہاں سے نکلتی اس کی جانب آئی۔ ایک نظر مینجر کو دیکھ کر وہ باہر نکل گیا تھا۔
دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی۔ وہ کلائنٹ کی میز کے قریب جانے سے پہلے رکا۔
"میں اس میز پر ہوں۔ میٹنگ اختتام کی طرف ہے۔ تم یہی کسی میز پر ٹھہر جاؤ۔ بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں تمہاری طرف۔۔" اس کے لیے کلائنٹ کی میز کے سامنے والی میز کی کرسی دھکیل کر بیٹھنے کا اشارہ دیتے ہوئے وہ مڑنے لگا۔
"میں گھر چلی جاتی ہوں۔" عشنا تیزی سے بولی۔ یکدم دوسرے ایریا سے رافع باہر نکلا تھا۔ انہیں کھا جانے والی نگاہوں سے تکتے ہوئے وہ وہاں سے گزر گیا۔
"میں یہیں ٹھہر جاتی ہوں۔" پل بھر میں سٹی گم ہوئی تھی اور وہ اس کی باہر نکالی گئی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ میرویس اس کے یوں اچانک کہنے پر دل ہی دل میں مسکرا دیا۔ انک بلو کوٹ میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح اچھا لگ رہا تھا۔ لمبا قد اور چوڑے کندھے ہمیشہ سے عشنا کی توجہ کھینچتے تھے۔ وہ نظریں چراتی ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ رابعہ کی آواز پر وہ متوجہ ہوتا اپنی میز کی جانب بڑھا۔ عشنا وہیں میز پر اپنے ناخن سے خھروچ لگاتی ابھی تک ہڑبڑاہٹ میں بیٹھی تھی۔ اس نے سامنے والی میز پر میر کو دیکھا جو اسے بار بار دیکھ رہا تھا۔ نجانے کیوں عشنا کو اس سے ڈھیروں شرمندہ محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اس کے لیے آج کتنا پریشان ہوا تھا۔۔ عشنا کو آج پہلی بار معلوم ہوا تھا کہ میرویس فاری نام کی جانی مانی کمپنی کا مینجر ہے حالانکہ اس کے غیر سنجیدہ لہجے سے وہ کبھی یہ بات نہ جان سکی تھی۔ ائیر کنڈیشنر کی تیز ہوا اس کی انگلیاں سرد کرنے لگیں۔ کلائنٹ سے گفتگو کرتا میر اسے پہلی بار یوں سنجیدہ معلوم ہوا۔ ماتھے پر ہلکے ہلکے بل اور آئبرو کسی وجہ سے الجھی ہوئی تھی۔ یکدم وہ چاروں ساتھ کھڑے ہوئے اور آپس میں ہاتھ ملانے لگے۔ ان کے درمیان سے میر نے ایک بار پھر عشنا کو دیکھا تھا جو اس کے دیکھنے پر جھجھکتے ہوئے نگاہ میز کی جانب کر چکی تھی۔ رابعہ کو ان کے پیچھے بھیج کر وہ اپنا لیپ ٹاپ بند کرتا ہوا اس کی جانب بڑھنے لگا۔ عشنا کو گھبراہٹ کا احساس ہوا۔۔ ایسا پہلی بار تھا کہ وہ میرویس سے گھبرا رہی تھی۔ خود کو اس کے سامنے مضبوط پیش کرتے کرتے اتنے سال گزر گئے اور آج وہ یہاں بے بس ہوچکی تھی۔۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں پلیز میری فکر مت کریں۔" ملازمہ اسے دیکھنے بار بار کمرے میں آرہی تھی۔ غنایہ کا دل مزید یہاں نہ لگا تو وہ ڈوپٹہ پہن کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ کمرے میں روشنی اور ہوا کے باوجود اسے گھٹن محسوس ہورہی تھی۔
"بیٹا سوپ لے آؤں؟۔" لہجہ فکر مند تھا۔
"نہیں میں مزید سوپ نہیں پینا چاہتی۔ تھوڑی تازہ ہوا کے لیے لان میں جا رہی ہوں۔" انہیں تسلی دیتی وہ نیچے چلی آئی۔ رنگت بیماری کی وجہ سے اتری ہوئی تھی۔ ڈھیلی سی پونی بنا کر اس نے چہرے پر آتے بالوں کو کان کے پیچھے کیا ہوا تھا۔ لان میں بھی ٹیرس کی طرح جھولا لگا تھا مگر وہ ٹیرس کے جھولے کی مناسبت کچھ اور کشادہ تھا۔ ہری بھری گھانس اور کنارے پر دیوار کے ساتھ رکھے گملے اسے بہت اچھے لگتے تھے۔ وہ جھولے پر آبیٹھی۔ کھلی فضا اس کی طبیعت کو جہاں پر سکون کرنے لگی وہیں اسے ٹھنڈک کا احساس ہوا۔
"میں نوفل کے ہاتھ فریش جوس بھیج دیتی ہوں۔" وہ بوڑھی عورت لاونج سے اسے دیکھتے ہوئے بولنے لگی۔ غنایہ نے کچھ نہیں کہا۔ جانے یہ نوفل کون تھا اور جوس اس کے ہاتھ کیوں بجھوانے کا کہا تھا۔ وہ پاؤں کو گھانس پر ٹکاتی ہوئی کچھ زور لگاتے ہوئے ہلکا جھولا جھلانے لگی۔ ساویز کے منع کرنے کے باوجود بھی یہاں بیٹھی تھی۔
"یہ آپ کے جوس کا گلاس!۔" کسی لڑکے کی آواز پر اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ وہ کوئی تیرہ، چودہ سال کا ایک لڑکا تھا جس کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔
"ہاں۔۔" وہ جیسے ہوش میں آئی۔ گلاس اس کے ہاتھوں سے تھام کر پکڑا۔ "تھینک یو۔" قد میں بظاہر لمبا اور دبلا پتلا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے مسکراتا وہ اندر چلا گیا۔ غنایہ اب تک لاونج کے دروازے کو دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ لڑکا اندر گیا تھا۔ کیا یہ لڑکا وہی ملازم تھا جس کا ذکر ساویز نے کیا تھا؟ چہرے سے کتنا معصوم اور بھولا معلوم ہورہا تھا۔ سوچ جھٹکتے ہوئے اس نے جوس کا گلاس اٹھایا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تو یہ ہے تمہاری کھٹارا۔" لبوں پر شریر مسکراہٹ تھی۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں تھے اور وہ کسی وثوق سے اس کی گاڑی کو دیکھ رہا تھا۔ عشنا نے لب کاٹے۔
"اسے ایسا مت کہو!۔" جو کچھ ابھی ہوا تھا اس کے بعد عشنا غصہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"کسے؟۔"
"میری ڈارلا کو۔۔" وہ اب بھی ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ ماتھے پر ہلکے ہلکے بل تھے اور آواز دھیمی تھی۔ میرویس نے حیرت سے بھنویں اچکائی۔ وہ آسمانی رنگ کی تھوڑی چھوٹی گاڑی تھی۔
"تو یہ گاڑی ہے جسے تم ڈارلا کہتی ہو؟۔" وہ چونکا تھا۔
"ہاں۔" اس نے مختصر جواب دیا۔ میر مسکرا کر رہ گیا۔
"ڈارلا کہو یا ڈارلنگ۔۔ ہے تو کھٹارا۔" کہتے ہوئے وہ اس کا دل جلا گیا۔
"میں نے تم سے کہا نا کہ ایسا مت کہو۔"
"کیوں؟۔"
"بس مجھے اچھا نہیں لگتا۔" ماتھے پر ہلکے ہلکے بل تھے۔ وہ اس کو دیکھنے لگا جس کی ناک پر ہلکا ہلکا غصہ بیٹھا تھا۔
"غصہ آتا ہے؟۔"
"کس پر؟۔" وہ الجھی۔
"جب کوئی تمہاری ڈارلا کو برا کہتا ہے تو تمہیں غصہ آتا ہے؟۔"
"ہاں!۔"
"غصے میں کیا دل چاہتا ہے؟۔"
"دل چاہتا ہے اس شخص کا سر پھاڑ دوں۔" اس کا چہرہ بگڑا۔
"تو جب کوئی چھیڑ رہا ہوتا ہے تب غصہ نہیں آتا؟۔" سرد آواز اس کے کانوں پر پڑی تو عشنا نے مڑ کر اسے دیکھا۔ چہرہ سپاٹ تھا۔ عشنا کی رنگت فق ہوئی۔
"کیا مطلب ہے تمہارا؟۔"
"اگر یہی غصہ تم اس وقت کرتی تو شاید اسے کوئی موقع نہیں مل پاتا۔" چہرے پر گہرے بل تھے۔
"میں نے اس سے کہا تھا۔۔" آواز حلق میں پھنسنے لگی۔
"ہونہہ! کیا کہا تھا؟ بلکہ کیا ہی کہا ہوگا تم نے! کہ ہٹ جاؤ؟ یا دور ہٹو؟ تمہیں لگا تھا وہ تمہاری بات مان کر دور ہٹ جائے گا؟ یا یہ کہے گا کہ سوری مجھ سے غلطی ہوگئی؟۔" وہ عشنا کا دل ڈوبتے ہوئے محسوس کر سکتا تھا۔ اسے حیرانی تھی کہ وہ لڑکی ایک اکیلے گھر میں کیسے رہتی ہوگی جب وہ اپنے ساتھ کچھ غلط ہوتا دیکھ کر آواز نہیں اٹھا پاتی تھی۔
"مجھے نہیں پتا تھا کہ پارٹی میں میرے ساتھ یہ سب بھی ہوسکتا ہے۔" ہونٹ تھرتھرانے لگے۔ گزرے وقت کو کچھ سوچنا محال تھا۔ میر نے نگاہ پھیر لی۔۔ سوچتے ہوئے بھی اسے اذیت ہونے لگی کہ اگر وہ وہاں نہ جاتا تو وہ کمینہ شخص مزید کیا کر جاتا۔
"اپنا خیال رکھا کرو۔۔" یہ اس کی بات کا جواب نہیں تھا مگر وہ پھر بھی یہی کہہ رہا تھا۔ آنکھیں اس کی آنکھوں کے رنگ میں الجھی تھی۔ دل میں عجیب ہلچل سی مچ گئی۔
"آئم سوری۔۔" اسے آج شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ وہ شخص جو اس کے مقابل کھڑا تھا، نگاہوں میں اس کے لیے عزت بڑھ گئی تھی۔ ایک طرف ایک ایسا مرد تھا جس کے غلط ارادوں سے وہ اتنے ہجوم میں بھی بچ نہیں پارہی تھی اور ایک یہ مرد تھا جو اس تنہا جگہ پر بھی اس کو نصیحت کر رہا تھا۔
عشنا کو اپنا آپ چھوٹا محسوس ہونے لگا۔
"مجھ سے نہیں۔۔۔ خود سے معافی مانگو کہ آئیندہ تم کبھی خاموش نہیں رہو گی۔ اگر عورت کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوجائے تو دنیا بھر کے مرد اس ڈر سے کوئی غلط ارادے نہ رکھیں۔" وہ اسے آخری حد تک سنجیدہ معلوم ہورہا تھا۔ "خدا حافظ۔" ایک نظر اس دیکھتا ہوا وہ اس کی گاڑی کے پیچھے پارک ہوئی اپنی گاڑی کی طرف چلا بڑھ۔ اس کے الفاظوں میں گم عشنا مزید شرمندہ ہوگئی۔ دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے جب گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ اس نے میر کو دیکھا جو اسے توجہ دلا رہا تھا کہ اب اسے بھی جانا چاہئیے۔
جب تک وہ گاڑی میں بیٹھ کر آگے نہ بڑھ گئی میرویس اس کا انتظار کرتا رہا۔ بیک مرر سے اس نے کافی آگے تک بھی میر کو اپنے پیچھے آتا دیکھا۔ عشنا جانتی تھی وہ یہ اس کی حفاظت کے لیے کر رہا ہے۔۔ پھر وہ راستہ بھی آیا جہاں دونوں اپنی اپنی منزلوں کی جانب بڑھ گئے۔۔ سرمئی شام ڈھلنے لگی اور آسمان رنگ بدلنے لگا۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔۔"
"اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اس کی بیوی کا استعمال کرو۔" وہ منہ پھیرے کھڑکی طرف بیٹھی تھی۔
"میں اس کا استعمال نہیں کر رہا پریزے۔۔" تھکا تھکا سا انداز۔۔
"مگر ان کی زندگی تو برباد کر رہے ہو نا وجاہت۔" نگاہوں میں التجا تھی۔ "اس سے کائنہ کی کمی ازالہ نہیں ہوگا۔"
"سات مہینوں سے کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ نہیں مانتا پریزے۔۔ وہ کچھ نہیں مانتا۔۔" چہرہ سرخ ہونے لگا۔
"سات مہینے کسی کو جرم قبول کروانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔" وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ سمٹ کر بیٹھی کھلی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ اس کی بات پر وہ ہوشیار ہوا۔
"اس بات کا کیا مطلب ہے؟۔" اس کے نزدیک پہنچ کر قریب سے دیکھا۔ ہری آنکھوں میں سورج کی روشنی پڑی تو وہ اپنا رنگ بدلنے لگیں۔
"وہی مطلب جو تم سمجھنا نہیں چاہتے۔۔" اس کی آواز دھیمی تھی۔۔ وہ جتنی غصے میں ہو اس کی آواز کبھی بھی بلند نہیں ہوتی تھی۔ زمین پر پاؤں رکھ کر اس نے اپنا دوپٹہ درست کیا اور وہاں سے نکلنے لگی۔ وجاہت نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی جانب اسے کھینچا۔ وہ نازک سی لڑکی جھٹکے سے اس کے قریب آئی۔
"کیا تم یہ کہہ رہی ہو کہ ساویز قاتل نہیں؟۔" لال آنکھیں اس کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔ پریزے کو اس کا یہ انداز خوف دلانے لگا۔
"ہاں یہی کہہ رہی ہوں۔ اگر وہ ساویز ہوتا تو تم اور تمہارے بندے اسے ڈھونڈ نکالتے مگر نہیں۔۔۔ ساویز نہیں مان رہا کیونکہ اب مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ مجرم نہیں! تمہارے لوگوں نے تمہاری ذہن سازی کر رکھی ہے وجاہت! تمہارے اپنے ہی تمہیں دھوکا دے رہے ہیں۔ اگر ساویز سے نگاہ ہٹا کر دو منٹ سوچو گے کہ وہ تمہاری بہن کا قاتل نہیں تو شاید تم اصل مجرم کو ڈھونڈ سکو۔" اس نے اپنا آپ وجاہت کی قید سے نہیں چھڑایا تھا۔
"تت۔تمہیں بھی لگتا ہے کہ۔۔۔" وہ لمحہ بھر کو ٹھہرا۔۔ نگاہیں اس کے چہرہ پر ساکت تھیں۔ "ساویز قاتل نہیں؟۔"
"ہاں۔ اگر ہوتا تو حالات اب بدل چکے ہوتے۔ تم سات ماہ پہلے بھی ساویز کے منہ سے اقرار سننا چاہتے تھے اور سات ماہ بعد بھی یہی چاہ رہے ہو۔ کچھ تبدیل نہیں ہوا سب کچھ ویسا ہی ہے۔۔"
وہ جھٹکے سے دور ہٹا۔ مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں۔۔ تو وہ بھی یہی سمجھتی تھی کہ ساویز بے گناہ ہے۔ اس کے ہونٹ لرزنے لگے اور وہ اس کی جانب پشت کیے کھڑا ہوگیا۔
"اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو۔۔" پیشانی پر ہاتھ رگڑتے ہوئے وہ کسی اذیت میں خود ہی جملا ادھورا چھوڑ گیا۔
"تو تم اسے شوٹ کردیتے؟ تم اب بھی یہ کام کرسکتے ہو۔۔ مجھے 'کوئی' اور سمجھ کر۔۔" اس کا یوں کہنا پریزے کا دل چیر گیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وجاہت نے کبھی کسی کا قتل نہیں کیا وہ بول پڑی۔
"پلیز یہاں سے جاؤ۔۔ ڈرائیور تمہیں گھر چھوڑ دے گا مگر ابھی نہیں۔۔ میرے پاس ٹھہرنا ابھی ٹھیک نہیں۔۔" وہ بے قابو ہورہا تھا۔ قریب تھا کہ کسی چیز کا نقصان کرتا، خود ہی کہہ پڑا۔
"تم ٹھیک ہو؟ ۔" اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ پریشان ہوئی۔
"میں کوئی نقصان نہیں چاہتا پریزے۔" اس کا یوں بے قابو ہونا خود اس کے قابو میں نہیں تھا۔ وجاہت کو ڈر تھا کہ کہیں وہ اپنے جنون میں پریزے کو نقصان نہ پہنچا دے۔
"جا رہی ہوں۔" لہجہ یکدم سرد ہوا۔ وہ دروازہ کھولتے ہوئے باہر نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی وجاہت نے پوری قوت سے مکا دیوار پر مارا تھا۔ تکلیف کا احساس ہوا تو کراہ کر رہ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے جوس کا خالی گلاس برابر رکھا اور ہلکا جھولا جھولنے لگی۔ بے تاثر لہجہ اور خالی آنکھیں۔
کبھی کبھی انسان اتنا مجبور کردیا جاتا ہے کہ اسے بلآخر وہ قدم اٹھانا پڑ جاتا ہے جس کا وہ خواہشمند بھی نہیں ہوتا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا یوں ساویز سے دور رہنا یا کترانا اچھا نہیں مگر اپنے خوف کے خاطر وہ مجبور تھی۔ ساویز کی نگاہوں میں ایک آس تھی۔۔ کہ شاید ایک دن وہ اس کی جانب مڑ جائے گی۔۔ سب بہتر ہوجانے گا مگر وہ اسے کیسے بتائے کہ کچھ بہتر نہیں ہوگا۔ کوئی شخص اپنی زندگی کے سنہرے پل کسی کو اپنے قابل بنانے کے لیے نہیں ضائع کرتا۔ وہ بھی تھک جائے گا اور جلد اسے اپنی زندگی سے باہر کردے گا۔ غنایہ کے نزدیک کچھ بہتر نہیں ہونے والا تھا۔ باصم سے خوف زندگی بھر کے لیے بھی تھا کہ اگر وہ اپنی عمر کے کسی حصے میں بھی باصم کو سوچے تو اس وقت بھی روح کپکپا جائے گی۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ساویز اس سے جلد تنگ ہوجائے گا اور جب اپنی کوششوں کو رائیگاں جاتا محسوس کرے گا تو دور ہٹ جائے گا۔۔ طلاق دے گا اور گھر سے نکال دے گا۔ زندگی ایک بار پھر پہلی جیسی ہوجائے گی۔ یہ سوچ کر اس کا چہرہ مزید مرجھا گیا۔ کیا یہ اس کا پاگل پن تھا؟ وہ جانتی تھی اس کا یوں ڈرنا، کترانا، لوگوں کا سامنا نہ کرنا ایک ذہنی مسلہ تھا۔
کسی ہلچل سے اس نے رخ موڑ کر پودوں کی طرف والی دیوار کو دیکھا۔ اس دیوار کے پار سڑک تھی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے اپنی سوچ کو جھٹک دوبارہ جھولا جھلانا چاہا۔
ساویز کا چہرہ ذہن میں گھومنے لگا۔ وہ کتنا خوبصورت اور ہینڈسم معلوم ہوتا تھا۔۔ ہلکی شیو اور ترو تازہ چہرہ۔۔ زندگی سے بھرپور انتیس سال کا مرد جو آج کل صرف اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے گھر پر نگاہ ڈالی۔۔ بڑا اور عالیشان گھر تھا، دولت تھی، خوبصورتی تھی۔۔ بھلا پھر ساویز کے قدم غنایہ کے پاس ہی کیوں ٹھہر گئے۔۔ وہ چاہتا تو آگے بڑھ سکتا تھا کہ غنایہ کے پاس تو نہ دولت تھی نہ دینے کو محبت۔۔ وہ یہ بات جہاں سوچنے پر مجبور ہوئی اگلے پل لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ابھی نہیں تو وہ جلد اس کی طرف سے منہ موڑ لے گا۔ اس کا دل چاہا آنسوؤں سے رو دے۔ طبیعت بھاری ہونے لگی۔۔ وہ گہری اندر کھینچتی کہ اسے ایک بار پھر دیوار کی طرف ہلچل محسوس ہوئی۔ اس نے سرعت سے نگاہ دیوار پر ڈالی۔۔ جیسے کوئی زور لگا کر اندر آنا چاہتا ہو۔ یکدم ہی دو بیگ کسی نے باہر سے لان میں پھینکے۔ اس کی چیخ نکلی۔ نگاہ ابھی پڑی ہی تھی کہ رنگت فق ہوئی۔ اسے دو ہاتھ دیوار پر نظر آئے۔ وہ جو کوئی بھی تھا دیوار پھلانگنے کی کوششوں میں تھا۔ غنایہ اٹھ کر تیزی سے کھڑی ہوئی۔ بھلا کسی کو کیا ضرورت تھی کہ دیوار پھلانگ کر آتا۔ اسے خطرے کی گھنٹی محسوس ہونے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں اسے اس شخص کا چہرہ نظر آیا جو اچک کر اب لان میں دیکھ رہا تھا۔ پیشانی پر ایک کالا کپڑا بندھا ہوا تھا اور وہ اس کی صرف آنکھیں ہی دیکھ سکی تھی۔
"باصم؟۔" پہلا خیال دماغ میں یہی آیا تھا۔ اس کی رنگت سفید لٹھے کی مانند ہوچکی تھی۔ خوف سے دل پھٹنے لگا۔ اس کا پورا چہرہ دیکھے بغیر ہی وہ چیخ کر تیزی سے اندر کی طرف بھاگی اور کمرے میں جاکر خود کو بند کردیا۔
وہ جو کوئی بھی تھا غنایہ کو لاؤنج میں اندر بھاگتا دیکھ کر لان میں کودا تھا۔ گھانس پر کھڑے ہوتے ہوئے اس نے اپنے کندھے کی جانب سے شرٹ جھاڑی۔ نظریں اب بھی اس بھاگنے والی لڑکی کو تلاش کر رہی تھیں جو لاونج میں جا کر غائب ہوگئی تھی۔۔ کیا عجیب سماں تھا۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔" وہ یونیورسٹی کے گارڈن میں بیٹھی اپنا اسائمنٹ بنا رہی تھی جب اس کی آواز ماتھے پر بل لے آئی۔
"میں اپنا کام کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔" اس سے اجازت طلب کیے بغیر ہی وہ بلکل اس کے سامنے گھانس پر آبیٹھا۔
"ٹھیک ہے۔۔ تم کام کرو اور میں تمہیں دیکھتا رہتا ہوں۔" لبوں پر ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ تھی۔ عشنا کا دل نے چاہا ہنس دے مگر وہ اسے کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔
"تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں اپنے کیریئر پر فوکس کرنا چاہئیے۔۔ عشق، محبت میں پڑو گے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔" ایک مہینے پہلے کی ہی تو بات تھی جب میرویس نے اسے اغوا کرنے کی کوشش کی تھی اور شرط شادی تھی۔۔
میرویس کا قہقہہ جاندار تھا۔
"مجھے کیریئر کی پرواہ نہیں۔۔" وہ خود ہی کہہ کر گڑبڑایا۔ "مطلب پرواہ ہے! مگر تمہاری بھی پرواہ ہے۔ اگر تم مل گئی تو سب کچھ خود ہوتا چلا جائے گا یقین کرو!۔" دونوں کندھوں کے سہارے بیگ لٹکایا ہوا تھا۔ سیاہ آنکھوں میں بلا کی شرارت تھی۔
"تم سب جانتے ہو کہ میں کسی سے شادی کرنے کی خواہش نہیں رکھتی۔ مجھے بس اپنا کیریئر بنانا ہے اس لیے یہ کوششیں بیکار ہیں میرویس!۔" فائلز پر چلتا قلم رکا۔ اس نے ٹھہر کر میرویس کی آنکھوں میں جھانکا جنہیں ذرا فرق نہیں پڑا تھا۔
"یہ سب فضول باتیں ہیں۔ تم دیکھنا میری محبت کے جال سے نکلنا تمہارے لیے کتنا مشکل جائے گا جاناں۔" وہ ہنستا ہوا اٹھ کر وہاں سے نکل گیا جبکہ عشنا نے بیچارگی سے نفی میں سر ہلایا تھا۔ وہ کتنا عجیب شخص تھا۔ ہر حال میں مسکراتا تھا۔ کوئی غم، غم نہ تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں جو یقین کا احساس تھا وہ جلد ماند پڑ جائے گا عشنا کو یقین تھا۔
پرانی باتوں کو سوچتے ہوئے حال میں بیٹھی عشنا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔
"میری مانو! مجھے یقین ہے کہ اسے تم سے اب بھی محبت ہے۔" صوفیہ کی آواز نے سوچوں کا تسلسل توڑا۔ وہ چونک اٹھی۔
"ہاں شاید۔۔" اس بات سے وہ کب انکاری تھی۔
"اور تمہیں؟۔"
"مجھے محبت نہیں ہے۔" دھیمی آواز میں بتایا۔ صوفیہ چونکی۔
"اب بھی نہیں؟۔"
"نہیں۔۔ بس وہ مجھے اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ ایک اچھا مرد ہے۔ اگر چاہتا تو اتنے سال بعد میری بے رخی جان کر وہ مجھ سے بدلہ لے سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔۔ مجھے محبت نہیں ہے مگر وہ ایک اچھا مرد ہے۔" ہر تاثرات سے عاری چہرہ۔۔
"تو پھر کس سے محبت ہے تمہیں؟۔" شاید پیچھے کوئی وجہ ہو۔
"کسی سے نہیں۔۔ مگر جانتی ہو کیا؟ مجھے اس کی عادت ہوتی جا رہی ہے۔۔ پہلے میں زندگی سے اکتائی پھرتی تھی مگر جب سے اس سے دوبارہ ملاقات ہوئی ہے مجھے لگتا ہے کہ میری پرانی زندگی لوٹ آئی ہے۔۔ ہم جب جب ملتے ہیں، خوب لڑا کرتے ہیں۔ بلکل پہلے کی طرح۔۔" وہ آخری میں مسکرادی۔
"کیا ہو اگر وہ تمہیں پروپوز کردے؟۔"
اس کی بات پر عشنا کی کھلکھلاہٹ گونجی۔
"وہ خودکشی کرسکتا ہے مگر مجھے دوبارہ پروپوز نہیں کرسکتا۔۔ خوددار مرد ہے۔ پہلے میں اس کی کمزوری تھی اس لیے وہ مجبور تھا مگر اب نہیں ہوں۔ اب اگر اسے مجھ سے محبت ہوئی تو وہ اپنی حد پار نہیں کرے گا۔"
"اور کیا ہو اگر تمہیں اس سے محبت ہوجائے؟۔" یہ سوال اس کا دل چیر گیا۔
"خدا نہ کرے ایسا ہو۔۔" اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔ وقت دیکھتے ہوئے وہ کچن کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کی کال ہر وہ بیس منٹ کا سفر دس منٹ میں طے کر کے گھر پہنچا تھا۔ بنا کسی سے بات کیے وہ اوپر کمرے میں بڑھا۔ دروازے کا ہینڈل گھماتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ دروازہ اندر سے لاک ہے۔
"غنایہ میں آگیا ہوں۔ دروازہ کھولو۔" ماتھے پر ہلکے ہلکے بل نمودار تھے۔ لاک کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی دروازہ بھی کھول دیا گیا۔ نگاہ اس کے چہرے پر پڑی تو ساکت ہوگئیں۔ آنسوؤں سے تر چہرہ سہما ہوا تھا۔
"تم اب بھی رو رہی ہو۔۔" اس کے نزدیک پہنچ کر ہاتھ تھامتا ہوا وہ فکرمندی سے بولا۔ غنایہ اس قدر ڈری ہوئی تھی کہ ساویز کے کوٹ کو مٹھیوں سے جکڑ لیا تھا۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ وہ یہاں بھی آگیا اور۔۔" تیزی سے کہتی ہوئی غنایہ کو ساویز نے روکا۔
"وہ نہیں آیا۔۔ کیسے آسکتا ہے؟ چوکیدار سے معلومات لی ہے اور ان کے مطابق گھر میں کوئی داخل نہیں ہوا غنایہ! تم نے کافی باتوں کو خود پر حاوی کر رکھا ہے۔" اس کے بالوں میں دھیرے سے پھیرتے ہوئے وہ اسے اطمینان دلانے لگا۔
"دروازے سے نہیں ساویز۔۔" کپکپاتی آواز منہ سے نکلی۔ "میں لان میں بیٹھی تھی جب دیوار کے سہارے کوئی اندر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اور پیشانی پر بندھا کالا کپڑا میں نے خود دیکھا تھا۔۔" ہچکیاں اسے مزید بولنے سے روک رہی تھیں۔ اس کی بات پر غور کرتے ہوئے ساویز کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
"لان کی دیوار سے؟؟۔" ایک بار پھر کنفرم کرنا چاہا۔ جیسے وہ کچھ کچھ سمجھ رہا ہو۔۔ غنایہ نے بھیگی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ مسکراہٹ پھیلنے لگی تو اس نے لب بھینچ لیے۔
"اچھا تم رو مت!۔" اسے کو خود سے قریب کرتے ہوئے وہ تسلی دینے لگا۔ "تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں غنایہ۔۔ وہ باصم نہیں تھا۔ چلو آؤ تمہیں ملواتا ہوں۔" اس کی ہتھیلی تھام کر وہ نیچے بڑھنے لگا۔
"مم۔مجھے نہیں جانا۔۔" وہ کترانے لگی۔
"مجھ پر بھروسہ ہے؟۔" اس کی آنکھوں دیکھتے ہوئے ساویز نے جواب جاننا چاہا۔ وہ خاموش رہی۔۔ نگاہیں فرش کو تکنے لگیں۔ "مجھے پتا ہے کہ تمہیں مجھے پر بھروسہ ہے۔۔ اگر نہ ہوتا تو میرے ساتھ ایک چھت کے نیچے نہ رہ رہی ہوتی۔" مسکراہٹ گہری ہوئی۔ کیا یقین تھا۔۔ الفاظ حلق میں ہی اٹک گئے۔ وہ چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکی۔ ہاں شاید اسے واقعی ساویز پر اعتماد تھا۔ اگر نہ ہوتا تو یہ دن گزارنے مشکل ہوجاتے۔ اس کے پیچھے چلتے ہوئے لاونج میں داخل ہوئی۔ جتنی گرفت ساویز نے اس کے ہاتھوں میں جمائی تھی، اس سے زیادہ سخت غنایہ کی گرفت تھی۔۔ کہ جیسے ہاتھ چھوٹا تو وہ پھر بھٹک جائے گی۔
"خالہ نسیم! کیا باریال آیا ہے؟۔" اس سوال کے پیچھے اسے یقین تھا۔۔
"ہاں وہ اپنے کمرے میں ہے۔ آدھے گھنٹے پہلے ہی پہنچا ہے۔" ان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ جبکہ غنایہ اس نئے نام پر چونکی تھی۔
"اسے بلا سکتی ہیں؟۔"
"میں بلا کر لاتی ہوں۔" وہ دائیں طرف کمروں کی جانب بڑھ گئی تھیں۔ ساویز نے اپنی کلائی پر غنایہ کی گرفت مضبوط ہوتے ہوئے محسوس کی۔۔ وہ اس کے پیچھے چھپنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ جانے کیوں مگر ساویز کو یہ سب اچھا لگنے لگا۔
"اسلام علیکم۔" ایک لڑکا لاونج میں داخل ہوا تھا جس کے چہرے پر خوشی کے تاثرات نمایاں تھے۔ ساویز مسکرایا۔ اسے سلام کرنے کے لیے اس نے دایاں ہاتھ آگے بڑھانا چاہا جو غنایہ کی گرفت میں تھا۔۔ مگر غنایہ نے ہاتھ مزید سختی سے پکڑ لیا کہ ساویز ہاتھ نہ چھڑا پایا۔ وہ لڑکا یہ بھی دیکھ چکا تھا۔ کچھ نہ سمجھنے والا تاثرات سے اس چھپی لڑکی کو دیکھتے ہوئے ساویز کو دیکھا۔
"بائیں ہاتھ سے کام چلا لو۔۔" ہنس کر کہتے ہوئے اس نے بایاں ہاتھ آگے کیا جسے اس لڑکے خوش اسلوبی سے تھاما۔
"تم اندر کیسے آئے؟۔" اس کا سب سے پہلا سوال یہی تھا۔ ابھی وہ لڑکا جواب ہی دیتا کہ ساویز پھر بول پڑا۔ "دروازے والا آپشن میرے جملے میں موجود نہیں۔۔"
وہ لڑکا زور ہنس پڑا۔ پیشانی پر کالا کپڑا اب بھی بندھا ہوا تھا۔ عمر میں کوئی اکیس، بائیس سال کا معلوم ہوتا تھا۔
"لان کی دیوار سے۔۔" اس نے پیشانی کجھائی۔
"تم نہیں سمجھو گے! حالانکہ کتنی ہی بار کہا ہے کہ دروازے سے آیا کرو گھر میں موجود افراد تمہاری اس حرکت سے پہلے بھی کئی بار ڈر چکے ہیں!۔" ڈپٹ کر سمجھایا۔
"آپ جانتے ہی ہیں ساویز بھائی! پرانی عادت ہے۔" وہ کبھی جو اس کی بات سمجھ لے۔۔ "ویسے جب میں آیا تو ایک لڑکی مجھے دیکھ کر لان سے بھاگی تھی۔ کون تھی وہ؟۔" نگاہ پیچھے کھڑی غنایہ کو تک رہی تھی۔ ساویز قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
"یہ غنایہ ہے۔ میری بیوی!۔" اسے ساتھ کھڑا کرتے ہوئے ساویز نے تعارف کروایا۔ باریال چونکا۔
"بیوی؟۔" اسے حیرانی ہوئی۔ "آپ نے شادی کر لی؟۔"
"ہاں! سب کچھ تھوڑی جلد بازی میں ہوا اس لیے کوئی بڑا اہتمام نہیں کر سکے۔"
"بہت بہت مبارک ہو بھائی! مجھے بے حد خوشی ہے۔" حیرانی سے مسکراتے ہوئے وہ بے حد خوش نظر آرہا تھا۔
"یہ باریال ہے! ہمارے پرانے چوکیدار کا بڑا بیٹا۔۔ ویسے تو گاؤں میں رہتا ہے لیکن امتحانوں کے وقت شہر آجاتا ہے۔ میں نے ہمیشہ اسے اپنا چھوٹا بھائی مانا ہے۔" اس کے گلے سے لگتا ہوا وہ اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگا۔
"یہ تو آپ کی محبت ہے ساویز بھائی۔۔" وہ جھینپ کر پیچھے ہٹا۔
"اور ساتھ ساتھ ایک اچھا شیف بھی ہے۔"
"اسلام علیکم۔" شروعات میں غنایہ کو اس پر غصہ آیا تھا کہ بھلا یہ کیا طریقہ تھا کسی کو ڈرانے کا۔۔ لیکن اب اس کا چہرہ کسی بھی تاثر سے عاری تھا۔
"وعلیکم سلام! خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔" اسے وہ لڑکی بھابھی کے روپ میں اچھی لگی۔ "معافی چاہتا ہوں اگر میری وہ حرکت آپ کو بری لگی ہو۔ میں آپ کو ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔"
"نہیں اس کی ضرورت نہیں۔۔" نرمی سے کہا گیا۔
"سفر سے تھک گئے ہوگے۔۔ کھانا کھالو۔" کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہ تاکید کرنے لگا۔ باریال نے اثبات میں سر ہلایا اور مسکراتا ہوا مڑ گیا۔ اس کے جانے کے بعد ساویز نے غنایہ کو دیکھا۔
"میں کہہ رہا تھا نا کہ مجھ پر بھروسہ رکھو! وہ تمہاری عمر کا ایک اچھا لڑکا ہے۔ بے حد تمیزدار اور سلیقے مند!۔" صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے غنایہ کو سمجھایا۔
"میں بس ڈر گئی تھی۔۔" وہی ایک جملہ۔۔
"میں جانتا ہوں۔۔ اس لیے ہی دوڑا چلا آیا۔ آؤ میرے برابر بیٹھو۔۔ تمہاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔" اس کا ہاتھ زبردستی پکڑتے ہوئے ساویز نے اسے برابر بٹھایا۔ بخار اب سرے سے ختم ہوچکا تھا اور وہ چاق و چوبند بیٹھی تھی۔ چلو اس بہانے ساویز اسے احساس تو دلا سکا کہ وہ اس کے ساتھ ہے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"پرسو میرا اسپورٹس ڈے ہے۔ سب کے والدین آئیں گے اور تم تو جانتے ہو اماں کی گھٹنے کی تکلیف۔۔ وہ نہیں آسکیں گی۔ تم آؤ گے نا؟۔" اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھی وہ بہت معصومیت سے کہہ رہی تھی۔ میرویس دھیرے سے مسکرایا۔
"ہاں میں آؤں گا۔" نجانے کتنے دنوں بعد وہ آج اس سے مل رہا تھا۔ کام کی مصروفیت نے اس کی بہن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔
"تم نے کہا تھا کہ ہفتے اتوار کے علاؤہ بھی آنے کی کوشش کرو گے مگر تم تو ہفتہ اتوار بھی نہ آئے میرو۔" اس کا لہجہ آج کچھ عجیب سا تھا۔ آنکھیں نم نہ ہونے کے باوجود بھی میر کو گیلی محسوس ہوئیں۔ آواز میں دکھ شامل تھا۔ وہ پھیکا سا مسکرا کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگی۔ میر نے لب بھینچ لیے۔ "کاش کہ تم میرے پاس ہی ٹھہر جاؤ اور میں تم سے باتیں کرتی رہوں۔" چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور میرویس کچھ کہہ بھی نہ سکا۔ وہ اب کس منہ سے کہے کہ ایک بار پھر تم سے ملنے کی وہ کوشش کرے گا۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کوششیں صرف کوششیں ہی رہ جاتی ہیں۔ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔۔ وقت نے اسے اتنا مصروف کردیا تھا کہ بہن سے ملنے کے لیے بھی اب کئی بار سوچنا پڑجاتا تھا۔
"تم ایک بہت اچھی اور پیاری بہن ہو روما۔" اس کے بالوں کو چھوتے ہوئے وہ بے حد جذب سے بولا۔
"مگر تم بلکل اچھے نہیں میرو۔۔ ہاں مگر پیارے ضرور ہو! اگر تم میرے بھائی نہ ہوتے تو میں کبھی تم سے نہ کہتی کہ مجھ سے آملو۔" اس کی انگلیوں کو چھو کر لمس محسوس کرتی ہوئی وہ بار بار مسکرا رہی تھی۔
"میرے بس میں ہوتا تو تم سے روز ملنے آتا۔ یہ بھی صرف میں جانتا ہوں کہ تمہارے بنا یہ ویک اینڈ میں نے کیسے گزارے۔۔"
اونچی چھوٹی پونی اور کلائیوں میں بینڈز پہنے وہ اسے بلکل شرارتی بچوں کی طرح معلوم ہوئی۔
"تم اسپورٹس ڈے میں آکر اس غلطی کا ازالہ کردو۔"
میرویس مسکرایا۔ حالانکہ پیر کا دن باقی دنوں سے زیادہ مصروف ہوتا ہے، یہ جان کر بھی وہ کچھ نہ بولا۔
"ٹھیک ہے میں آؤں گا! اب کیا اپنے ہاتھ کی کڑوی چائے بھی نہیں پلاؤ گی؟۔" ہنس کر چھیڑتے ہوئے وہ اس کا موڈ ٹھیک کرنے لگا۔
"اب سارا دن کافی پیو گے تو بہن کی چائے بری تو لگے گی۔" زبان چڑا کر کہتی وہ کچن کی جانب بڑھی۔ میرویس قہقہہ لگاتا ہوا وہیں اپنے کمرے کے بستر پر لیٹ گیا۔ نیند سے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں مگر اسے یقین تھا کہ روما اسے آج سونے نہیں دے گی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ تقریباً گیارہ بجے کے بعد گھر میں داخل ہوا تھا جب میں لان کے جھولے میں بیٹھی غنایہ کو دیکھ کر رکا۔ حیرت سے کلائی میں بندھی گھڑی میں وقت دیکھ کر غنایہ کو دیکھا۔ ماتھے پر بل پھیلے۔۔ اس کی بات کا پاس نہ رکھ کر وہ ہر بار اس کا دل دکھایا کرتی تھی۔ سنجیدگی سے اس کی جانب بڑھ کر وہ ساتھ کھڑا ہوا۔
"میں نے کہا تھا نا کہ گیارہ بجے کے بعد تم یہاں نہیں بیٹھو گی۔" آواز میں کچھ سختی تھی کہ وہ سہم کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"میں بس تھوڑی دیر چاند دیکھنے بیٹھی تھی۔"
"اور میں نے کہا تھا کہ چاند تم ٹیرس سے بھی دیکھ سکتی ہو!۔" بھاری گھمبیر لہجہ۔۔ غنایہ نے کچھ بے یقین ہوتے ہوئے اسے دیکھا۔ تو کیا اسے غنایہ کا یوں کرنا اس قدر برا لگا تھا؟۔
"تھوڑی دیر مزید۔۔۔" وہ ابھی جملہ مکمل کرتی کہ چہرے کے زاویے بگاڑتا ساویز اس کا بازو پکڑتے ہوئے اوپر کی جانب بڑھ گیا۔ وہ پیچھے کھینچتی چلی آرہی تھی۔ لاونج کا دروازہ لاک کرتے ہوئے وہ زینے چڑھتا ہوا اوپر کمرے میں پہنچا۔ کمرا روشن کرتے ہوئے اس نے ہاتھ چھوڑ کر غنایہ پر ایک گہری نگاہ ڈالی تھی۔ غنایہ آج پہلی بار ڈری نہیں تھی۔۔ وہ مکمل حیران ہوتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
کلائی سے گھڑی اتارتے ہوئے وہ خود کو ریلیکس کرنے لگا۔ فون پر آتی کال اس نے نام پڑھ کر اٹھائی۔
"اسلام علیکم!۔" میرویس کی آواز ابھری۔
"وعلیکم سلام۔" مسکراہٹ خود ہی لبوں پر پھیل گئی تھی۔
"میں سوچ رہا تھا کافی دن ہوگئے ہیں ہمیں ملنا چاہئیے! ابھی زیادہ بات نہیں کر سکتا روما پاس بیٹھی ہے۔"
"کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں! کل میرے گھر آجانا اور کیونکہ چھٹی بھی ہے تو ساتھ وقت گزار سکیں گے۔" اسے یکدم ہی روما یاد آئی تھی۔
"دعوت کھلا رہا ہے؟۔" اس کی شرارت بھری آواز ابھری۔
"جو سمجھو! اس بہانے عشنا کو بھی بلا لیتا ہوں۔ اس کے ساتھ بھی غنایہ اور میرا علیحدہ سے کوئی ڈنر نہیں ہوا۔" میر کی بات پر اس کی ہنسی نکلی۔ دور بیٹھی غنایہ اس کی باتیں سمجھ رہی تھی۔ میر عشنا کی آمد کا سن کر مبہم سا مسکرا دیا۔
"پھر کل ملاقات ہوگی! خدا حافظ۔۔"
کال رکھ کر ساویز نے موبائل سنگھار میز پر رکھ دیا۔ اس کے خاموش چہرے کو ایک نظر دیکھتا ہوا وہ لیپ ٹاپ اٹھا کر اس کے بلکل برابر صوفے پر آبیٹھا۔ غنایہ نے خالی صوفے پر نگاہ دوڑائی جہاں اور بھی جگہ تھی بیٹھنے کے لیے مگر وہ اس کے برابر آبیٹھا تھا۔ اتنے نزدیک کئی بار دونوں کے ہاتھ آپس میں ملے تھے۔ دونوں ٹانگیں میز پر ٹکاتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر کھولا۔ وہ اس بار ساویز کا لمس محسوس ہونے پر دور نہیں ہٹی تھی۔۔
"یہاں سے بھی نظر آسکتا تھا چاند!۔" اس نے انگلی سے کھلی کھڑکی کے باہر اشارہ کیا جہاں چاند اپنی جگہ پر موجود تھا۔ غنایہ نے ایک نظر اس کے تعاقب میں چاند کو دیکھا اور نم ہوتی آنکھیں ساویز کی جانب سے پھیر لیں۔ اس کا یوں منہ پھیر لینا ساویز کی نظروں سے چھپا نہیں تھا۔
"ناراض ہو؟۔" ان کے رشتے کے درمیان یہ ایک بے تکا سا سوال تھا۔ بات مزید بڑھانے کے لیے وہ بول پڑا۔
"آپ میرے کوئی نہیں ہیں کہ میں آپ سے ناراض ہوں۔" بے رخی سے منہ موڑے ہی کہا گیا۔ وہ مسکرا دیا۔ نگاہیں لیپ ٹاپ کی روشن اسکرین پر تھیں۔
"مانو نہ مانو مگر اب میں ہی ہوں جو تمہارا سب کچھ ہے!۔" شریر لہجہ۔۔ اسے ایسا موقع کم ہی ملتا تھا۔
"میرے ماں باپ حیات ہیں ابھی!۔" وہ جھٹ سے بولی۔
"مگر اب تم شوہر والی ہوگئی ہو۔۔" ایسے کہنے پر وہ خود ہی ہنس پڑا۔ غنایہ نے پہلی بار اپنا دل جلتا ہوا محسوس کیا۔
"شوہر ہو یا نہ ہو! کیا فرق پڑتا ہے۔" اس نے ایک بار بھی اس کی جانب نہیں دیکھا تھا۔
"میں بھی کل یہی سوچ رہا تھا۔ بیوی ہو یا نہ ہو! کیا فرق تھا۔" اس کی طرف نظریں کرتے ہوئے ساویز نے ٹھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اپنی جانب کیا۔ "مجھے دیکھ کر ذرا نہیں مسکراتی۔" اس کی بھوری شہد رنگ آنکھوں کو دیکھ کر وہ مبہم سا مسکرایا تھا۔۔ غنایہ کی سانسیں تھمنے لگیں۔ آج پہلی بار اسے ساویز سے محبت کا احساس ہوا۔ شرم سے رخسار سرخ ہوگئے۔ زبردستی چہرہ چھڑاتی وہ دوسری طرف رخ کر کے بیٹھ گئی۔ ساویز ایک جانب سے مسکراتا دوبارہ لیپ ٹاپ پر مصروف ہوگیا۔
"آپ کو میرا لان میں بیٹھ کر چاند دیکھنا اتنا برا لگا تھا؟۔" نم آواز ساویز کے کانوں میں پڑی تھی وہ چونک اٹھا۔
"مجھے برا نہیں لگا تھا مگر میرا دل دکھا تھا غنایہ۔ تم نے میری بات پھر سے نہیں مانی تھی۔" وہ عام سے لہجے میں بتانے لگا۔
"میں تھوڑی دیر میں اٹھ کر کمرے میں آنے والی تھی۔" دیکھتے ہی دیکھتے ہچکیاں بندھ گئیں۔ جس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ ساویز کا اس کے ساتھ سختی سے پیش آنا غنایہ کو بہت برا لگا تھا۔ اس کی ہچکیاں سن کر ساویز نے لیپ ٹاپ بند کیا۔
"بات تھوڑی دیر کی نہیں تھی غنایہ۔۔ بات میرے کہے کے مان کی تھی۔" اس کا ہاتھ پکڑ کا اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کا چہرہ اپنی جانب گھمانے لگا۔ وہ اپنے آنسوؤں سے تر چہرہ ساویز کو نہیں دکھانا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا جو شوہر کے ہاتھ میں تھا مگر ساویز کی گرفت مضبوط تھی۔ "پہلی بات تمہاری طبیعت پہلے ہی خراب ہے تو میں کیسے لان میں بیٹھنے کی اجازت دے سکتا تھا؟ سردیوں کی آمد آمد ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارا لان محفوظ نہیں ہے۔ کوئی بھی دیوار پھلانگ کر آسکتا ہے اس لیے گیارہ بجے کے بعد میں لاونج کا دروازہ لاک کر دیتا ہوں تاکہ کوئی اندر گھر میں نہ داخل ہوسکے۔" اسے اصل وجہ بتاتے ہوئے اس نے ہاتھ سہلایا۔ ہچکیوں سے بھرا لہجہ اس کو اذیت دے رہا تھا۔ آخری جملے پر وہ معاملہ سمجھتی اسے دیکھنے لگی۔
"یہ بات پہلے بھی کہہ سکتے تھے۔" معصوم ناراض چہرہ۔۔
وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
"چاند دیکھنے کے لیے تم اپنی نیند بھی خراب کرسکتی ہو؟۔" ساویز اب بے حد انہماک سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"ایسے کیوں کہہ رہے ہیں؟۔" اسے ساویز کا یوں کہنا طنز محسوس ہوا حالانکہ ایسا نہیں تھا۔
"کیونکہ میں نہیں کرسکتا۔۔ نیند پر کوئی سمجھوتہ نہیں!۔" وہ سب جانتی تھی کہ کیوں ساویز اس سے بات کا سلسلہ بڑھا رہا ہے۔
"کبھی کبھی چاند دیکھتے ہوئے بھی نیند آجاتی ہے۔" لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ چمکی۔
"چلو اس بہانے تو تم ذرا مسکرائی۔۔" اسے اب اطمینان ہوا تھا۔ غنایہ کو روتے دیکھ کر جتنی اسے تکلیف ہوئی تھی اب وہ اتنا ہی مطمئن تھا۔ "ایک بات پوچھوں؟۔"
"میں منع کروں گی تو بھی آپ پوچھ لیں گے۔" اس کا معصوم لہجہ ساویز کو ہنسا گیا۔
"تم تو مجھے مجھ سے زیادہ جاننے لگی ہو۔" اس نے گود سے لیپ ٹاپ ہٹا کر میز پر رکھا۔ "تمہارے پیپرز ہونے والے ہیں۔ یونیورسٹی کب تک جوائن کرنا چاہو گی؟۔" اس کا یہ سوال غنایہ کی آنکھوں میں آنسو لے آیا۔۔
"پیپرز بے حد قریب ہیں اور میری تیاری نہیں۔۔ میں نہیں جوائن کرنا چاہتی۔ مجھے فیل ہونے سے ڈر لگتا ہے اور اگر میں نے بغیر پڑھے امتحان دیے تو لازمی فیل ہوجاؤں گی۔" اسے رونا آنے لگا۔ وہ پڑھنے کی شوقین حالات کی مجبور لڑکی تھی۔ ساویز نے انگلیوں کے پوروں سے اس کے آنسو صاف کیے۔
"کیا ہوا اگر فیل ہوجاؤ گی؟ ابھی بھی وقت ہے تم تیاری کرسکتی ہو۔۔ اور میں جانتا ہوں کہ یقیناً تمہاری کچھ تیاری پہلے ہی سے ہوگی۔" اس کو محبت سے ڈیل کرتے ہوئے تسلی دی۔
"جو یاد تھا ان دنوں میں سب بھول گئی! لیبز بھی اٹینڈ نہیں کرسکی! پروفیسر بہت ڈانٹیں گے۔۔ مجھے ڈانٹ سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔ مستقبل برباد ہوگیا اب میرا! میں اب کبھی آگے نہیں بڑھ سکوں گی!۔" آنسوؤں سے روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بولی۔۔ جیسے ساویز نے اس کی دکھتی رگ پر پیر رکھ دیا ہو۔ وہ ہڑبڑا کر سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔
"تم رو مت! سب ٹھیک ہو جائے گا۔" بوکھلاہٹ کے مارے درست جملہ بھی نہیں نکل رہا تھا۔
"کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔۔ اب اگر میں نے پیپر دیے تو فیل ہوجاؤں گی۔ میری کی گئی محنت رائیگاں چلی جائے گی۔" ساویز کو علم نہیں تھا کہ یہ ایک بے حد نازک موضوع ہوگا۔۔
"میری بات سنو!!۔" جب حالات قابو میں نہ رہے تو وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے سختی سے بولا۔ غنایہ یکم ہی ٹھہر سی گئی۔ "مجھ پر یقین رکھو! کچھ نہیں ہوگا۔۔ کیوں نہ مزید وقت ضائع کیے بغیر پیر سے ہی یونیورسٹی کا آغاز کیا جائے؟ کل وقت ملتے ہی تمہارے ابا کے گھر چلیں گے اور ساری کتابیں، ضروری سامان ساتھ لے آئیں گے۔ تمہیں یہاں کوئی ڈسٹرب نہیں کرے گا۔۔ حتی کے میں بھی نہیں!۔" وہ اس کی باتوں کو بڑے انہماک سے سن رہی تھی۔
"آپ بھی نہیں؟۔" بھلا ایسا کیسے ممکن تھا۔ وہ چونک اٹھی۔
"میرا وعدہ ہے۔ میں بھی تنگ نہیں کروں گا۔ میں جان گیا ہوں کہ کچھ معاملے تمہارے لیے حساس ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم اپنا مستقبل برباد ہوتا نہیی دیکھ سکتی۔ کوئی نہیں دیکھ سکتا غنایہ!۔" اسے ریلیکس کرتے ہوئے وہ بے حد نرمی سے کہہ رہا تھا۔ "تم کہہ دینا کہ شادی کی وجہ سے تم کچھ مصروف تھی۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" اس کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے وہ اسے اطمینان دلانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔۔
اس کی کوششوں کا ہی اثر تھا کہ اب وہ سکون سے بیٹھی اسے تک رہی تھی۔ یکدم ہی ہوش آنے پر اس نے اپنا ہاتھ ساویز کے ہاتھوں میں دیکھا جو اسے سہلارہا تھا۔ تھوک نگل کر حیا کے مارے اس نے اپنے ہاتھ کھینچے۔
"میں سونے جا رہی ہوں۔" وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بستر کی طرف بڑھ گئی۔ آج بھی پہلے سے زیادہ باتیں ان کے درمیان ہوئی تھیں۔۔ مگر اس بار وہ ڈری، سہمی نہیں تھی۔ ساویز کا یوں اس سے باتیں کرنا اسے بھانے لگا تھا۔ تو کیا یہ ان کے رشتے کے لیے اچھی علامت تھی؟
وہ بستر پر لیٹ چکی تھی اور ساویز مبہم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔ شاید یہ آغازِ محبت اچھا تھا۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"آج آپ کا وجاہت بھائی کے ساتھ لنچ نہیں ہے باجی؟۔" اس کی چھوٹی بہن نے حیران ہوتے ہوئے یاد دلایا۔ دوپہر کے دو بجنے آئے تھے مگر وہ اب بھی کھڑکی کے پاس بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔ کھڑکی کے پاس بیٹھنے کی ایک جگہ تھی جو کہ کھڑکی کا ہی حصہ تھی۔
"مجھے نہیں جانا اس کے ساتھ کسی لنچ پر۔۔" پیشانی پر ہلکے ہلکے بل نمودار تھے۔
"کیوں ضد کر رہی ہیں۔ وہ کبھی آپ کو آپ کے اس فیصلے پر کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کل سے مسلسل کال کر رہے ہیں آپ کو۔۔" وہ اپنی کتابیں شیلف پر رکھتے ہوئے ساتھ اسے وجاہت سے بات کرنے کی تاکید بھی کر رہی تھی۔ پریزے کو وجاہت کی کالز یاد آئیں تو وہ موبائل میں کال لاگز چیک کرنے لگی۔ رات سے ابھی تک وہ باسٹھ بار کال کر چکا تھا۔ اس نے نگاہ پھیر کر نظریں باہر کی جانب مرکوز کرلیں۔ ابھی مزید کچھ سوچتی کہ موبائل بج اٹھا۔ وجاہت کا نام پڑھ کر اس نے تھوک نگلتے موبائل بجنے کے لیے چھوڑ دیا۔
"مجھے تو لگتا ہے محبت صرف انہوں نے کی ہے!۔" موبائل مستقل بجتا دیکھ کر وہ چڑتے ہوئے بولی۔
"ایسا نہ کہو پریشے۔۔" پریزے تڑپ اٹھی۔ "محبت میں نے بھی کی ہے۔۔" اپنی کی گئی محبت پر وہ ایک لفظ نہ سن سکی۔
"تو پھر ایک نظر کال کرنے والے شخص پر بھی ڈال دیں۔" طنزیہ کہا گیا۔ پریزے گہری سانس بھرتے ہوئے موبائل اٹھانے لگی۔
"ہیلو۔۔" خفا خفا سا لہجہ۔۔ وہ آگے سے کچھ کہہ رہا تھا جسے سن کر پریزے کچھ الجھ گئی تھی۔
"کیا مطلب اس بات کا؟۔" ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔ اس نے کہتے ساتھ کھڑکی سے باہر دیکھا۔ نگاہ ٹھہر سی گئی۔
وہ اپنی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا اسے کھڑکی پر دیکھ رہا تھا۔ لبوں پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔
"مجھے تم سے نہیں ملنا وجاہت! یہاں سے جاؤ۔۔ پلیز!۔" دل اس کی جانب سے برا ہوگیا تھا۔ وہ بمشکل نگاہیں پھیر کر بولی۔ وجاہت اس کی بات کا جواب دیے بغیر اسے دیکھتا گھر میں اندر کی جانب بڑھ گیا۔ پریزے کی سانسیں رکنے لگیں۔ اس نے تیزی سے اٹھتے ہوئے پریشے کو کمرے سے نکال کر دروازہ لاک کرنا چاہا۔ ابھی وہ لاک کر ہی رہی تھی کہ وجاہت نے ہاتھ دروازے میں اٹکا کر اس کی کوشش کو ناکام بنایا۔
"تمہیں لگتا ہے تمہارا وجاہت تم سے ملے بنا یہاں سے چلا جائے گا؟۔" ہری مسکراتی آنکھیں۔۔ وہ دروازہ پورا کھول کر اندر داخل ہوا اور ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے پیچھے دروازے کو لاک کردیا۔ پریزے نے اسے دیکھ کر نگاہیں پھیر لیں۔
"مجھ سے بات بھی نہیں کرو گی؟۔" گہری سانس بھر کر باہر خارج کی۔ اس کی بے رخی وہ کسی صورت نہیں سہہ سکتا تھا۔ پریزے اسے دیکھے بنا بستر پر آبیٹھی۔
"درمیان میں کچھ نہیں رہا وجاہت! مجھے نہیں ہے ابھی تمہاری ضرورت۔۔" جو منہ میں آیا وہ بولتی چلی گئی۔ وجاہت کو لگا وہ سانس نہیں لے سکے گا۔
"ایسا مت کہو۔۔" وہ تڑپ کر تیزی سے بولا۔ پریزے ششدر رہ گئی جب وہ چھ فٹ کا مرد اس کے قدموں میں بیٹھا۔ "میں یہ نہیں سہہ سکتا پریزے۔۔" ہری آنکھوں میں خوف ابھرنے لگا۔ وہ تھوک نگل کر اس کی بات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
"تم کیا چاہتے ہو؟ میں تمہیں وہ سب کرنے دوں جو کہ دراصل غلط ہے۔ کیسا لگے گا تمہیں اگر ساویز تمہاری بیوی کو اپنے منصوبے میں استعمال کرے گا؟۔" اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
"بہن میری مری ہے پریزے۔۔ دل میرا ٹوٹا ہے۔۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا میری حالت یار!۔" آنکھیں شدت ضبط سے سرخ ہونے لگیں۔ "میں پل پل مرتا ہوں پریزے! میں نے کسی اپنے کو کھو دیا ہے۔" آواز مزید بھاری ہوگئی۔ پریزے کا دل چیر گیا۔ "کبھی تم نے سوچا میں کتنا تھک گیا ہوں؟ یہ سات ماہ مجھے کتنا توڑ گئے ہیں؟ زندگی کا دوسرا رخ بہت خطرناک ثابت ہوا ہے پریزے۔۔ میرا دل روتا ہے مگر آنکھیں خشک رہ جاتی ہیں۔ کیا مجھے یہ حق بھی نہیں کہ اس کے قاتل کو سزا دے سکوں؟۔" وہ اس کے سامنے ٹوٹ کر بکھر گیا تھا۔ بازوؤں کی رگیں ابھر گئی تھیں۔
"تمہیں حق ہے وجاہت مگر۔۔" اس نے نم آنکھوں سے خود ہی جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
"خدارا یہ مت کہنا کہ تم بھی ساویز کو بے قصور سمجھتی ہو!۔" وہ تیزی سے بولا۔ "کسی کے منہ سے بھی سن سکتا ہوں مگر تم سے نہیں پریزے۔۔ تمہارا کہنا وجاہت کو مزید توڑ دے گا۔ سات ماہ کی کوششیں تمہارے اس جملے سے رائیگاں چلی جائیں گی۔۔" وہ ایک مضبوط شخص اپنی بیوی کے آگے ایک بار پھر بکھر گیا تھا۔
"سات ماہ بہت ہوتے ہیں۔" وہ اس کا درد محسوس کرتے ہوئے بولی۔
"کیا ہوگا اگر میں تمہارے کہنے سے ساویز کا تعاقب چھوڑ دوں گا؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں پھر خوش بھی رہ سکوں گا؟ لمحے لمحے میری کائنہ نظر آتی ہے مجھے۔۔۔ اس کے ہاتھوں میں میری بہن کا خون نظر آتا ہے۔ وہ رات میرے ذہن میں اپنا نقش چھوڑ گئی ہے۔ اس کا کمرہ دیکھتا ہوں تو دل میں ہول اٹھنے لگتا ہے۔ بہن کو سوچ کر بار بار شرمندہ رہوں گا کہ میں اس کے قتل کا بدلہ بھی نہ لے سکا۔۔" ہونٹ بھینچنے کے باعث ڈمپل گہرا ہوا تھا۔ "میں اس کی حفاظت بھی نہ کر سکا۔۔ اس کا بھائی ہو کر بھی کچھ نہ کر سکا۔ مجںے محسوس ہوتا ہے جیسے ممی اور ڈیڈی مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔ اس اذیت کا بدلہ کون اتارے گا پریزے؟۔" اس کی آنکھیں گیلی ہونے لگیں۔ بمشکل تھوک نگل کر اس نے بیوی کو دیکھا۔
"صرف ایک بار وجاہت! صرف ایک بار تم اپنی کوشش آزماؤ گے اور اگر پھر بھی ساویز مجرم نہ ثابت ہوسکا تو تم کبھی دوبارہ اس کی بیوی کو اپنے منصوبے میں شامل نہیں کرو گے!۔" اس کا ہاتھ دھیرے سے پکڑتی ہوئی وہ نم آنکھوں سے التجا کر رہی تھی۔
"تم جو کہو گی میں صرف وہی کروں گا۔۔ صرف ایک بار مجھے غنایہ سے ملاقات کرنے دو۔ اس کے بعد کبھی اس کی بیوی کو درمیان میں نہیں لاؤں گا۔" اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ بہت دل سے بول رہا تھا۔ آج اس نے پریزے سے وعدہ کیا تھا جس کے بعد وہ کچھ پر سکون ہوگئی تھی۔ "مگر آئیندہ کبھی یوں نہ کہنا کہ تمہیں اب وجاہت کی ضرورت نہیں رہی۔۔" اذیت بھرا لہجہ۔۔ پریزے کا دل ڈوب کر ابھرا۔ "وجاہت مر جائے گا پریزے۔۔ ایسا مت کہنا کبھی۔۔" آنکھیں لال انگارہ ہورہی تھیں۔ "میری کمزوری ہو تم۔۔" اس کا ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہوئے اس نے آنکھوں رکھا۔
"کبھی نہیں کروں گی۔" پریزے محض اتنا ہی کہہ سکی۔
"کبھی مت کرنا۔۔۔" وہ بے حد دھیمی آواز میں تھکا تھکا سا بولا تھا۔
"تم اس لڑکی کے ساتھ کیا کرنے والے ہو؟۔" وہ وجاہت سے سب کچھ جاننا چاہتی تھی۔ اس کی بات پر وجاہت نے جھکا چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ ہری آنکھوں کا مرکز پریزے تھی۔۔ وہ جانتا تھا اسے کیا کرنا ہے۔ کسی بھی منصوبے پر وہ سوچے بغیر عمل نہیں کیا کرتا تھا۔ ذہن میں بہت سے خیالات گھوم رہے تھے۔ ملاقات بہت جلد طے پانے والی تھی۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔