فرض سے پیار-۲

769 72 10
                                    




"اور تم کہہ رہے تھے لڑکے ذرا بال تو پکڑانا۔ منے بال تو دینا ذرا"
رعیم لان میں کھڑا احمد کی نقل اتار رہا تھا
۔ "اور وہ بھی کم نہیں تھی۔ 'مجھے جانتے نہیں ہو کیا'" رعیم جو تب چپ شاہ کا روزو رکھے کھڑا تھا اب ہر ڈائلاگ کو دونوں کے انداز میں دہرا کر دوبارہ لطف اٹھا رہا تھا۔ اندر کام کرتیں رعیم کی ماما شازیہ کافی دیر سے دونوں کو پاگلوں کی طرح ہنستے دیکھ رہی تھیں
۔"منا بھائی کہہ کر گئے تھے کہ ہمیں دیکھ لیں  رعیم اس کا نام ہم منی رکھ لیتے ہیں"
اپنی بات سے خود ہی محظوظ ہوتے ہوئے احمد گھاس پر چت لیٹ کر ہنسنے لگا۔وہ دونوں لیٹے کسی بات پر ہنس کر تالی مار رہے تھے جب شازیہ لان میں آئیں
۔ "خیریت ہے ؟"
احمد فوراً ہنسی روک کے بولا
" آنٹی مت پوچھیں آپ جوانی میں ہنس ہنس کر بےحال ہو جائنگیں"
"پاگل ہو تم دونوں تو۔ چلو کھانا لگا رہی ہوں آجاؤ دونوں" وہ واپس مڑ رہی تھیں تب ہی احمد بھی کھڑا ہوگیا
۔ "نہیں آنٹی آج عاصم بھائی آرہے ہیں چلتا ہوں" وہ سر ہلاتے ہوئے اندر مڑ گئی۔
"منّی!" احمد نے رعیم کے کان کے پاس سرگوشی کی اور ہنستے ہوئے باہر نکل گیا جبکہ رعیم ہنسی قابو کرتے ہوئے اندر بڑھ گیا۔

رعیم اور احمد بیسٹ فرینڈز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے ہمسائے بھی تھے۔ دونوں کی فیملیز کی آپس میں کافی دوستی اور میل جول تھا۔ کافی عرصے سے ساتھ رہنے سے تعلقات گہرے ہوگئے تھے۔ رعیم اپنے والدین کا اکلوتا تھا جبکہ احمد سے بڑا ایک بھائی اور بہن تھی۔ عاصم (بھائی) دوسرے شہر میں دادا کے ساتھ رہتا تھا اور وہیں پڑھائی کرتا تھا ۔ بڑی بہن اینی اور احمد والدین کے ساتھ یہ رہتے تھے

۔ "ساتھ والے گھر میں کل ہی نئی فیملی شفٹ ہوئی ہے" کھانے کے دوران شازیہ رعیم کے والد سے مخاطب تھیں۔
"چلو شکر! بائیں طرف بھی رونق آئی۔ تم لگا آنا انکی طرف چکر"
بریانی کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے جواب آیا۔ان کے گھر کے دائیں طرف احمد لوگوں کا گھر تھا جبکہ بائیں طرف کا گھر پچھلے کچھ مہینوں سے خالی تھا۔
"ریمو! تم چلوگے؟" وہ خاموشی سے بریانی کے ساتھ انصاف کر رہا تھا ، چونک کر ماما کو دیکھا
۔"ماما ! مجھے نک نیم نہیں پسند" دبے دبے غصے کے ساتھ وہ گویا ہوا
۔"بیٹا ماما پیار سے بلاتی ہیں" والد صاحب نے سمجھایا تو وہ خاموش ہوگیا۔
"نہیں کل میں نے اور احمد نے گرمیوں کی چھٹیاں انجوائے کرنی ہے۔ کل کے بہت پلینز ہیں ہمارے۔ سوری" وہ ایکسائٹڈ ہوکر بتا رہا تھا۔
"اوکے ٹھیک ہے" شازیہ نے مسکراتے اور سر ہلایا اور کھانا کھانے لگیں
۔※※※
برف اور ٹھنڈے پانی کی الگ بالٹی کو سیڑھیوں میں رکھ (چھپا) کر وہ چھت پر آیا۔
"ہوگیا سب سیٹ؟" سویمنگ پول سیٹ کرتے احمد سے مخاطب ہوا
۔ "یس! پانی بھر رہا ہے بس" بڑی فرمانبرداری سے جواب آیا تھا
۔ دونوں رعیم کے گھر کی چھت پر گرمیوں کی چھٹیاں انجوائے کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
سب سے پہلے تو دونوں نے سویمنگ پول مین خوب تماشے کرنے تھے اور اس کے بعد واٹر فائٹنگ۔
"لو تب تک جوس پیو" احمد اپنے گھر سے جوس لے آیا تھا۔
ان تین گھروں کی چھتیں بالکل ساتھ ساتھ تھیں۔ اور ادھر سے ادھر آنے جانے کا راستہ بھی تھا۔
"او گاڈ! آج تو بڑا مزا آئےگا" ایک سانس میں آدھے سے زیادہ جوس پی کر احمد اپنے مخصوص "سر ہلا ہلا کر او گاڈ او گاش " والے انداز میں بولا
۔"بھر گیا پانی"
اور دونوں نے آؤ دیکھا نا تاؤ سویمنگ پول میں چھلانگ لگادی۔
سویمنگ پول وہ والا تھا جس میں ہوا بھری جاتی ہے تو زیادہ بڑا نہیں تھا ۔ پانی گھٹنوں تک ہی بمشکل پہنچتا تھا۔
"او ہو! اب میں ہیرو کی طرح ہاتھ مار مار کر سویمنگ کیسے کروں گا" منہ بسور احمد نے رعیم کو دیکھا ۔
دونوں تھوڑے تھوڑے بھیگ چکے تھے۔"ایکٹر ہو تم پورے۔ نکالتا ہوں سویمنگ تمہاری ابھی۔۔" احمد کو ٹانگوں سے پکڑا اور گرا دیا۔
بے چارا اوندھے منہ گر پڑا۔ "رعیم۔۔۔" وہ مکمل بھیگ چکا تھا۔ جیسے ہی اٹھا جوش میں آکر رعیم کو بھی دھکا دیا
۔دونوں کے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ سمیت وہ مکمل بھیگ چکے تھے۔ آدھا گھنٹہ وہ یوں ہی "تماشے" کرتے رہے۔
احمد واٹر گن اٹھا لایا اور پانی بھرنے لگا۔ تبھی اسے ساتھ والی چھت پر کچھ نظر آیا۔ڈارک بلو جینز اور اوپر چیک والی شرٹ اور وہی کیپ۔
"رعیم" احمد فوراً رعیم کے پاس گیا جو کھڑا ٹراؤزر کے پانچے فولڈ کر رہا تھا۔"وہ دیکھو۔ منّی"
رعیم نے چونک کر فوراً سامنے دیکھا۔ اس کی پشت اس طرف تھی ۔
وہ چھت کے دروازے میں کھڑی تھی۔
"او گاڈ! لگتا ہے بہت مزا آنے والا ہے" احمد نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا
۔"لگتا ہے آج جنگ عظیم شروع ہونے والی ہے" رعیم ہنسنے کے لیے تیار ہوتے ہوئے بولا۔
"منّی!" احمد حلق پھاڑ کر چلّایا۔ وہ فوراً پلٹی ۔ چہرے کے تاثرات انہیں دیکھ کر فوراً بدلے۔"منّی منّی!" وہ پھر چلّایا۔
اس کا چہرہ لال ہورہا تھا۔ ادھر ادھر دیکھ کر راستہ ڈھونڈا اور فوراً دندناتے ہوئے اس راستے سے اس چھت تک آئی۔
دونوں کھڑے مسکرا رہے تھے یہ سوچ کر کہ "اب آئےگا مزا"۔
دونوں کے سامنے کھڑی ہوکر وہ اونچی آواز میں بولی "منی کس کو بولا ؟"
احمد نے معصوم سی شکل بنا کر دائیں طرف دیکھا پھر بائیں طرف پھر اسے معصومیت سے جواب دیا
" یہاں ایک تم ہی لڑکی کھڑی ہوں تو تمہیں ہی کہوں گا نا منی"
"سوری منا بھائی۔ آپ نے تو لڑکوں والے کپڑے پہنے ہیں غلطی ہوگئی" فوراً اپنی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے ہاتھ جوڑے
۔ "معاف کردیں ہمیں" رعیم کیوں چپ رہتا تھا آخر وہ بھی احمد کا دوست تھا۔
اس نے کھا جانے والی نظروں سے رعیم کو دیکھا کہ " تمہارے منہ میں بھی زبان آگئی"
"بد تمیز! لحاظ نہیں کرتی میں کسی کا" کہتے ہوئے وہ آگے بڑھی اور احمد کو دکھا دیا ۔وہ حملے کے لیے تیار نہیں تھا تو بوکھلا کر پانی میں گرگیا۔
رعیم کی سب سے پہلے ہنسی چھوٹی ۔ وہ بچی کھڑی مسکرا رہی تھی ۔ فخریہ مسکراہٹ۔رعیم نے ہنسی روک کر ہاتھ بڑھایا اور احمد کو نکالا۔
احمد بھی کم نا تھا۔
فوراً سامنے کھڑا ہوا "جنگل! تمہیں تو جنگلی کہنا بھی کم ہے" اور اس کی کیپ اتار کر پانی میں پھینکی۔ "اوئے ! یہ کیا کیا۔۔"
وہ غصے سے آگے بڑھی اور پیچھے سے احمد نے اسے دکھا دیا۔ تھوڑا سا پانی چھلک کر باہر گرا
۔ "احمد!" رعیم چینخا۔ وہ بھیگی ہوئی بمشکل اٹھنے کی کوشش کر پائی تھی کہ پانی میں پاؤں پھسلا اور پھر گر گئی۔
رعیم نے فوراً آگے بڑھ اسے باہر نکالا اور کیپ پکڑائی۔
وہ غصیلی نظر احمد پہ ڈالتے ہوئے کھانستی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
اپنی چھت سے تھوڑی سے فاصلے پر رک کر مڑی ۔ وہ دونوں اسی کو دیکھ رہے تھے۔احمد فوراً بولا "اف دشمن آگئے ہمسائے گھر میں۔ صحیح مزا آئےگا" ۔
اس نے چونک کر دیکھا پھر افسوس سے سر جھٹکا۔ "چھوڑوں گی نہیں" اور اپنی چھت پہ چلی گئی۔
احمد کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔"یار احمد تھوڑا زیادہ ہوگیا تھا۔ بے چاری بچی ہے"
"گاڈ! کچھ نہیں ہوتا۔ چلو ہم اپنا انجوائے کریں" وہ گن میں پانی بھرنے لگا۔رعیم مسکراتے ہوئے سیڑھیوں سے پانی کی بالٹی اٹھا لیا اور احمد پر انڈیل دیا۔ وہ بے چارا تلملا کر چیختا ہوا اٹھا۔ "رعیم تمہاری خیر نہیں اب"
واٹر گن اٹھاتا وہ اسکے پیچھے بھاگا اور وہ ہنستا ہوا آگے بھاگ رہا تھا
۔※※※
دو روز پہلے جب شازیہ اور احمد کی والدہ نئے ہمسائیوں کی طرف گئی تھیں تب سے ان کا چرچہ دونوں گھروں میں ہو رہا تھا
۔"بہت اچھے لوگ ہے ۔ خوب جمے گی ہماری"
"بہت اچھی فیملی ہے بیٹا دوسرے شہر میں ہوتا ہے کام کے سلسلے میں"ان دو دنوں ان کی آپس میں اتنی ملاقاتیں اور فون پر باتیں ہو چکی تھیں کہ پورے خاندان کی خبریں موصول ہوگئی تھی۔
نیازی کی پہلی بیوی وفات پاچکی تھی اور چھوٹے بیٹے کی وجہ سے دوسری شادی کرنی پڑی۔ سوتیلوں والا کوئی سلوک نہیں تھا لیکن سلمان اپنی سوتیلی بہن سے کچھ خاص اچھا سلوک نہیں کرتا تھا لیکن والدین اس پیاری بچی سے بہت محبت کرتے تھے
۔بقول مسز نیازی "میری بیٹی بڑے بھائی کی طرف دیکھ دیکھ کر لڑکا بننے کے شوق اپنا رہی ہے"
اور یہ واحد چیز تھی جس سے اس کی والدہ بہت چڑتی تھی جبکہ والد صاحب فرماتے "کرنے دو جو کرتی ہے بڑی ہو کر ٹھیک ہوجائےگی"
والد صاحب مطمئین ہو کر کہتے۔

فرض سے پیارWhere stories live. Discover now