فرض سے پیار-۸

431 59 8
                                    




  ولیمے کی تقریب بھی اللہ کے کرم سے اچھی طرح ختم ہو چکی تھی۔ تقریب میں جو کپڑے انہوں نے پہنے تھے انہیں کپڑوں میں ملبوس وہ بیٹھے گپے لگا رہے تھے۔
دلہن کے بعد لگنی والی سب سے حسین لڑکی انیہ تھی۔ جو فیروزی رنگ کی فراک کے ساتھ لمبے سیدھے بالوں کے ساتھ پیاری اور ڈیسنٹ لگ رہی تھی۔
احمد اور رعیم نے ایک جیسا گرے اور وائٹ کڑھائی والا کرتا پہن رکھا تھا۔
آپی کے آنے کی خوشی اتنی تھی کہ ان دونوں نے اپنے جانے کا باقعدہ علان نہیں کیا تھا۔ یہ سوچ کر کہ ماحول اداس ہوجائے گا۔ سو وہ اس بات کو بتانے کا ارادہ کل تک ملتوی کر گئے۔ آج کی رات بھی اکھٹے بیٹھے باتوں میں کٹ گئی۔ فرق یہ تھا کہ آج کوئی شکوہ کوئی شکایت نہیں تھی۔ اور اینی بھی ساتھ بیٹھی شغل لگا رہی تھی۔
اگلے دن اینی واپس سسرال چلی گئی تو سب اداس ہوگئے۔ انیہ اور اس کی فیملی بھی آج لوٹنے والی تھی
۔ احمد اور رعیم نے اس شام دھماکہ کر دیا۔ گھر والے تو جانتے تھے کہ انہیں جانا ہے لیکن انیہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئی
۔" ابھی دو دن نہیں ہوئے ملے ہوئے اور جا رہے ہو تم دونوں؟" ۔ وہ روہانسی ہوئی۔

" انیہ ! اب ہمیں جانا تو ہے ہی۔ یہاں بیٹھ کر مکھیاں تو مارے گے نہیں؟۔ احمد پہلے ہی والدین کی اداس شکل دیکھ انہیں چیر اپ کرکے تھک گیا تھا اوپر سے انیہ۔
"خبردار اگر تم نے بری سی شکل بنائی تو۔ ہم جب واپس آئے گے تو مل لینگے نا۔ اس ٹوپک پر اب ایک لفظ بھی نہیں بولے گا کوئی۔ " رعیم نے دو ٹوک لہجے میں کہا تو وہ خاموش ہوگئی۔
اب ان دونوں کو نکلنا تھا اپنی منزل کی اور۔۔۔
اس راستے پر جہاں جانا ان کا خواب تھا۔۔۔۔
یہ زمین جہاں لوگ اپنی منزلِ مقصود کی طرف بڑھے گے۔۔۔۔
جدوجہد ہی وہ چیز ہے جو وہاں پہنچائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی ٹرینگ۔۔ جس کے لیے انہیں آج نکلنا تھا۔
اب انہیں زیادہ محنت کرنی ہے۔اب انہیں ذمہ داری کندھوں پر اٹھانی ہے۔ذمہ داری لوگوں کی حفاظت کی۔ ذمہ داری اپنا فرض نبھانے کی۔ذمہ داری فرض سے پیار کرنے کی۔
پیار کرکے دل سے اسے نبھانے کی۔
فرض کو ہر چیز پر ترجیع دینے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پولیس فورس۔۔۔۔۔کچھ سال ٹرینگ محنت اور لگن کے ساتھ۔۔ اور پھرانکی منزل ان کے سامنے۔۔۔اپنے فرض کے ساتھ خیانت کرنا کسی دوسرے پر بھی بھاری پڑ سکتا ہے۔
"ماما اداس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خوش رہنا اپنا خیال رکھنا ۔ اتنے پیارے بیٹے کی ماما ہیں آپ ۔ اداس اچھی نہیں لگتیں"۔ احمد ان کو اپنے ساتھ لگائے اپنے مخصوص انداز میں پیار کر رہا تھا۔
"اچھا اچھا ! نہیں ہو رہی میں اداس۔ مجھے اپنے دونوں بچوں پر فخر ہے۔ اپنا خیال رکھنا ۔ اور جس کام کے لیے جا رہے ہو اسے دل سے کرنا۔ " رعیم اور احمد کو پیار کرتے ہوئے انکی آنکھیں بھر آئی۔
"اور کوئی اوٹ پٹانگ حرکت مت کرنا" وہ احمد کا کان پکڑتے ہوئے بولیں تو اداس ہونے کے باوجود ان تینوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
وہ نا جانے اور کیا نصیحتیں کر رہی تھی جسے سن کر احمد ہنس رہا تھا اور رعیم ہنسی قابو کر رہا تھا۔
وہ انکی باتیں سنتے سنتے باہر نکل آئے ۔ گاڑی انکی منتظر تھی۔
"اپنا نام روشن کرنا۔ اور خوب ترقی کرنا۔ اور اچھا انسان بن کر ملک کو سنوارنا" دونوں کو پیار کرتے ہوئے انکے آنسو نکل آئے۔ ایک آنکھ کے آنسو احمد نے جبکہ دوسری کی رعیم نے صاف کیے۔ اور دونوں ان سے لپٹ گئے۔
اتنی دعائیں لے کر جا رہے تھے وہ کیسے ناکام ہوتے۔ رعیم احمد کے والد سے ملنے چلا گیا اور احمد انیہ کی طرف آیا جو اب بھی غصہ تھی لیکن ان کے لیے خوش تھی
۔ "منی! " انیہ بے آختیار ہنس دی۔
"اچھے سے اپنی پڑھائی کرنا۔ اور خیال رکھنا۔ ہم پھر کبھی ملے گے انشاءاللہ۔ او گاش ! شکر ہے اب میں سکون سے کھیر کھا سکوں گا" احمد آخر میں شوخ ہو کر بولا تو انیہ بھی موڈ میں آئی۔
"وہاں کونسا تمہیں ملے گی کھیر۔ وہ بھی اتنی لذیذ۔"
"کاش وہاں پر بھی میں ایک عدد 'غنڈا' لے جا سکتا تاکہ کم از کم لوگوں کو ڈرا تو سکتا" ۔ وہی احمد کا ایکٹنگ بھرا انداز۔ اس نے انیہ کو غنڈا کہہ کر مخاطب کیا تھا جس پر وہ چڑنے کی بجائے ہنس دی
"منی جیسی دوست تو کسی کو نہیں مل سکتی دنیا میں۔ "
"زیادہ سر پر نا چڑھو اب۔ نام روشن کرنا میرا جا کر"۔ وہ سر اٹھا کر بولی۔
"ٹھیک ہے تمہارا نام لکھ کر لائٹ جلا دوں گا ۔ ہوگیا نام روشن" احمد مسکرا کر بولا۔
"کاش میں نے اس ٹائم 'ہیل' پہنی ہوتی" وہ افسردگی سے گویا ہوئی۔
"مگر کاش کبھی پورا نہیں ہوتا منی" وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔
اس کے کچھ بولنے سے پہلے وہ دوبارہ بول اٹھا۔" مجھے ابھی پاپا سے بھی ملنا ہے اور میری یہ اماں جان نہیں چھوڑ رہی۔" اسنے انیہ کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ دونوں ہنس دیے۔
"اور تم اپنا خیال رکھنا ۔ میں تمہارے ہیرو کا خیال رکھوں گا" وہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
انیہ فوراً بات سمجھ کر جھینپی
۔" احمد ایسا کچھ نہیں ہے" انیہ بہت آہستہ آواز میں بولی۔
"مذاق کر رہا ہوں۔ میں ذرا پاپا سے مل آؤں" وہ ہنستا ہوا مڑ گیا تو انیہ رعیم کو اپنی طرف آتا دیکھ سنبھل کر کھڑی ہوگئی۔
"اوکے انیہ۔ اچھی سی زندگی گزارنا ۔ ہم پتا نہیں دوبارہ کب ملیں ۔ لیکن ملے گے ضرور انشاءاللہ" ۔
رعیم اپنا شولڈر بیگ پہنتے ہوئے مسکرا کر بولا
۔"انشاءاللہ" اس کے علاوہ اس کے منہ سے کچھ نکل نا سکا۔ وہ سر جھکائے خود کو رو دینے سے روک رہی تھی۔
رعیم اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر بولا
۔" انیہ کبھی بھی اپنوں کی محبت میں اتنا مت کھونا کہ نکل نا پاؤ" انیہ نے چونک کر سر اٹھایا۔
"میری ایک بات ماننا پلیز۔ میں جانتا ہوں تم اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی ہو۔ لیکن لوگوں کا ایک دوسرا روپ بھی ہوتا ہے، اپنے بھائی کے پیار میں اندھی مت ہوجانا ۔والدین کے ساتھ رہنا۔ بھائی پر ڈیپنڈ مت ہونا"انیہ نا سمجھی سے اسے دیکھے گئی۔
رعیم اسے نہیں بتا سکتا تھا کہ اسکا بھائی کیا کچھ کرتا ہے۔ وہ بس چاہتا تھا کہ اسکی دوست محفوظ رہے۔
"اپنا خیال رکھنا۔ اور خبردار اگر روئی تو" رعیم اسکی رونی صورت دیکھ کر بولا۔
"ایسے وداع کرو گی دوست کو۔ چلو سمائل کرو" انیہ بھیگی پلکوں سے مسکرا دی۔ رعیم نے ابھی بھائی کے بارے میں کیا کہا تھا وہ بھول بھی چکی تھی۔
"اللہ حافظ" رعیم بھی مسکرا دیا اور اسے ایک نظر دیکھ کر گاڑی کی طرف بڑھا
۔"فی امان اللہ" ایک آنسو پلکوں سی بچ نکل کر رخساروں پر بہہ گیا۔
"پھر کبھی ملیں گے" ۔ اور پھر وہ چلے گئے۔

※※※
"یہ ساری کہانی سچ ہے یا جھوٹ؟"
علی سلاخوں کے اس پار کھڑی لڑکی سے پوچھ رہا تھا
۔"میں سچ کہہ رہی ہوں ۔پلیز میرا یقین کیجیے۔ میں نے واقعی یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا۔ مجھے کچھ اور کہا گیا تھا اور کر وایا کچھ اور گیا ہے۔ میں بے قصور ہوں پلیز مجھے جانے دیجیے۔۔۔پلیز۔۔۔" وہ روتے ہوئی کہہ رہی تھی۔
وہ ہاتھ جوڑے آنکھیں بند کیے بکھرتے ہوئے نیچے بیٹھ گئی۔
رعیم فاروقی جو ابھی جیل کا راؤنڈ لینے آیا تھا یہ منظر دیکھ کر واپس مڑ گیا
۔※※※

اپنے کمرے کی بستر پر لیٹے وہ اسی کو سوچ رہا تھا۔ اتنی دیر سے وہ کمرے میں ٹہل ٹہل کر اسے ہی سوچ رہا تھا۔
'آخر کیوں کیا تم نے ایسا'۔ وہ اسے برا بھلا کہہ رہا تھا
۔انیہ نیازی میں نے بتایا تھا کہ بھائی پر اتنا بھروسا مت کرنا۔۔تم وہی کیسے ہو سکتی ہو جس کو میں وارن کرکے آیا تھا اتنے سال پہلے۔۔۔۔۔ اتنے سال پہلے۔۔۔۔۔وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔
"اتنے سال پہلے کی بات اسے کیسے یاد ہو سکتی ہے۔ ۔ میں نے پوری بات جانے بغیر اسے برا بھلا کہنا شروع کردیا۔۔ تف ہے تم پر رعیم فاروقی۔ یہ سکھایا تھا ماما نے کہ کچھ بھی جانے بغیر کچھ بھی کہہ دو"
"وہ اس شہر میں آئی کیسے؟ " بہت سے سوالات اس کے ذہن میں آرئے تھے۔
"مجھے اس معاملے کی تحقیق خود کرنی چاہیے۔ مجھے یقین ہے انیہ بے قصور ہوگی" اب اسے کل کا انتظار تھا۔
وہ پہلے علی سے ساری معلومات لے گا اور یہ کیس خود ہینڈل کرےگا۔
وہ اس سے تب ہی ملے گا جب اس کیس کا اصلی گنہگار پکڑ لے گا۔
احمد دوسرے شہر کا اے ایس پی تھا۔ لیکن بعض معاملات میں کیس اکھٹے ہینڈل کرنے کی ڈیوٹی انہیں دی جاتی تھی۔
※※※

"علی میرے کمرے میں آؤ جلدی" ۔ رعیم فاروقی بڑی عجلت میں کہتا آگے بڑھ گیا
۔علی فائل اٹھاتا فوراٗ پیچھے لپکا
۔"کدھر ہے وہ؟ کیا معاملہ ہے؟ الف سے ے تک ساری کہانی سناؤ" وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا اور علی کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
علی ساری تفصیل بتانا شروع ہوا۔
"سر اس لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ یہاں کچھ دن کے لیے رہنے آئی تھی۔ وہ اسی کے گھر میں رہ رہی تھی۔ یہاں آئے اسے کچھ ہفتے ہوئے ہیں ۔ بھائی کے کہنے پر ہی اس نے ننھی بن کر اس گھر میں نوکری کی۔"
رعیم بھرپور سنجیدگی سے متوجہ ہوکر اسے سن رہا تھا۔
"بقول اسکے وہ اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی ہے جس کی خاطر اس نے اپنے بھائی کی بات مان لی۔ ۔وہ کہہ رہی تھی کہ اس کے بھائی نے کہا تھا کہ اس گھر کا مرد سلمان کا دوست تھااور اس کا دوست مر چکا تھا لیکن کچھ کام کچھ امانت اس کے پاس پڑی تھی جو اسے لوٹانی تھی۔
اس کے لیے ضروری تھا کہ اس گھر کی چھان بین اور ہر چیز معلوم کی جائے۔ تب ہی وہ انہیں وہ امانت دے گا۔ "رعیم نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔
"امانت؟"
"جی سر! لیکن آگے کی کہانی کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔ ۔۔ جس دن یہ چوری والا واقع پیش آیا اس دن ہی شام کو وہ ننھی کو چھوڑ گیے تھے۔ اور اس عورت کا بیٹا اس وقت گھر میں تھا۔ ہم نے اس لڑکی سے جتنے معلومات معلومات حاصل کی ہیں اس کے مطابق اس کے بھائی کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے جو اس گھر کی معلومات پوچھتے تھے۔ اور سب سے اچھی خبر ان کے ٹھکانے کا احمد سر پتا لگا چکے ہیں اور وہ وہی گیے ہیں۔"رعیم کچھ سوچ رہا تھا
۔" اس عورت اور اس کے بیٹے کو یہاں بلواؤ"
"لیکن سر تمام لوگ جو اس واردات میں شامل تھے تقریباً ہمارے ہاتھ میں ہیں" علی نا سمجھی سے بولا
۔" لیکن کوئی بے قصور بھی ہے" رعیم فاروقی پر یقین لہجے میں بولا
۔"اوکے سر" ۔
※※※

فرض سے پیارTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang