فرض سے پیار-۱

1.8K 90 10
                                    




"شجاع یہ کیا حرکت ہے؟"‎
اور چائے پیتے شجاع کو زبردست اچھو لگا۔ ڈیوٹی ٹائم کے دوران میز پہ ٹانگیں جمائے وہ مزےکر رہا تھا۔ "کیا ہوگیا اسلم بھائی صرف چائے ہی تو پی رہا ہوں"
بڑی لاپروائی سے کہتے وہ ایک بار پھر چائے کا گھونٹ بھرنے لگا۔
۔"شجاع تم کسی ہوٹل میں نہیں بیٹھے ۔ تھانے میں موجود ہو اور وہ بھی کانسٹیبل کی وردی میں ۔ اپنے کام سرانجام دو تو بہتر ہوگا ورنہ ابھی سر کے آتے ہی تمھاری بتی گل ہوجائے گی" ۔
اسلم رکا نہیں اور اپنی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔ اور شجاع فوراً کپ چھوڑ کر اپنا کام کرنے لگا۔ یہ تو اس تھانے کے اے ایس پی کا کمال ہےکہ اس تھانے کے لوگ خواہ وہ آفیسر ہو ، کانسٹیبل یا کوئی اور عہدے پہ رائج انسان سب اپنے کام کی اہمیت جان کر دل سے کام کرنے لگے تھے۔
رشوت وغیرہ کا چکر تو اس تھانے میں پھانسی کا پھندا خود گلے میں ڈالنے کے برابر تھا۔‎ایک دفعہ پولیس آفیسر تنویر نے چوری کے چکر میں پھنسے آدمی کے بھائی سے کچھ دانا پانی لیا ۔
جوان پولیس آفیسر تھا سوچا عیاشی ہو جائے۔ ہونا کیا تھا پیسہ پیٹ میں اور آدمی جیل سے باہر ۔ لیکن ہوا سب کچھ اس کے برعکس ہی۔ ابھی اسے باہرنہیں نکالا گیا تھا۔ اے ایس پی جب اس بات سے واقف ہوا تو ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ لے آیا اور عین پولیس سٹیشن میں سب پولیس آفیسرز کے سامنے اسے یہ ڈبہ ختم کرنے کو کہا۔‎ٹیبل کے ایک طرف بیٹھا تنویر حیرت سے اپنے سامنے بیٹھے سر کو دیکھنے لگا۔‎
اے ایس پی نے گن نکال کر میز پہ رکھی اور ایک نظر تنویر کو دیکھ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ جس کا مطلب تھا " مٹھائی کھاؤ ورنہ گولی کھلاؤں گا" ۔
تنویر سمجھ نا سکا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بحر حال بندوق جیسی نظریں اس پر ابھی تک جمیں تھیں۔‎وہ خاموشی سے سر کو دیکھتا رہا جب ایک بار پھر اس نے نظریں مٹھائی کے ڈبے پر ڈالی اور دوبارہ تنویر کو دیکھا ۔
اب تو اسے کھانا ہی تھا۔تنویر نے تھوک نگل کر پہلا گلاب جامن اٹھایا اور کھانے لگا۔ ایک گلاب جامن کھانے کے بعد سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو سینے پہ ہاتھ باندھے ابھی اسے ہی گھور رہا تھا
۔ ‎"سر ۔۔" پہلا گلاب جامن کھا کر اس نے کچھ بولنا چاہا لیکن وہ بات کاٹ کر نرم لہجے میں بولا "مسٹر تنویر ابھی صرف ایک گلاب جامن کھایا ہے آپ نے اور تقریباً پورا ڈبہ آپ کا منتظر ہے" باقی آفیسرز حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
"لیکن سر میں۔۔۔" تنویر نے دوبارہ کچھ کہنا چاہا ۔‎
"مسٹر تنویر اسے کھائیے" آواز ابھی بھی نرم ہی تھی۔‎"سر۔۔" ایک بار پھر احتجاجاً اس نے کچھ کہنا چاہا۔‎"میں نے کہا اسے کھاؤ"
آواز اب اونچی تھی اور ریوالور بھی ہاتھ میں آگیا تھا۔‎وہ منع کر سکتا تھا وہ کیوں کھائے آخر لیکن وہ عہدے میں اس سے اوپر تھا ،چہرے پہ غصہ ہاتھ میں گن۔ایک نظر سامنے بیٹھے شخص پر ڈال کر اس نے دوسرا گلاب جامن اٌٹھایا۔
پھر دوسرا پھر تیسرا ۔دسویں گلاب جامن پہ اس کی بس ہوگئی۔‎"ارے مسٹر تنویر بہت مبارک ہو آپ کو" چہرے کے تاثرات بدلتے ہوئے اس نے پانے کی بوتل آگے بڑھائی۔‎تنویر نے اطمینان کا سانس لیا۔
اوہ وہ پکڑا نہیں گیا تھا۔‎"کس بات کی سر؟"
قدرے مسکرا کر پانی کا گھونٹ بھرا
۔‎"دراصل آپ کے بھائی کو میری سفارش پر اس کے کالج سے نکال دیا گیا ہے اور میں اسے جھوٹےچوری کے کیس میں گرفتار کروں گا" ۔
سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے وہ بڑے اطمینان سے کھڑا ہوا اور سن گلاسس پہنتے ہوئے ایک نظر تنویر پہ ڈالی جس کے چہرے کی ہوایاں اٌڑھ چکی تھی
۔‎"پر کیوں سر اس نے ایسا کیا کیا ہے؟" کچھ سمبھل کر تنویر نے دوبارہ سوال کیا۔‎
"اب ایک غلط طریقے سے جائے گا تو دوسرے کو غلط طریقے سے لانا پڑے گا نا"
بڑی لاپروائی سے کہتے ہوئے وہ اپنے کیبن میں چلاگیا اور پیچھے سب کو حیران اور تنویر کو پریشان چھوڑ گیا۔‎
اگلے دن واقعی اس کے بھائی کو سکول سے نکال دیا گیا۔تنویر کی تو جیسے کائنات تباہ ہوگئی تھی۔
پورا دن وہ اس کے آفس میں کھڑا معافی مانگتا رہا تھا۔ اور اے ایس پی اس سے بے نیاز اپنے کام میں مگن تھا۔ بہرحال کافی محنت کے بعد وہ مان ہی گیا
۔ "اپنے کام میں خیانت کرنے والوں سے میں سخت نفرت کرتا ہوں۔ پہلی غلطی تھی تو معاف کیا۔ آئندہ اس غلطی کو دہرایا تو گناہ کا عذاب تیار ہوگا تمھارے لئے"
سردمہری سے دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوئےتنویر کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پانے کا گلاس اسے تھماتے ہوئے وہ نرمی سی دوبارہ مخاطب ہوا
"اپنے بھائی کو کہہ دینا کل سے کالج دوبارہ شروع کردے"
تنویر نے اطمینان کا سانس لیا
"تھینک یو سر"‎
"تھینک یو مجھے نہیں خود کو کہو"
وہی سنجیدہ لہجہ دوبارہ اختیار کرتے ہوئے میز سے اپنی چیزیں اٹھاتے ہوئے وہ باہر نکل گیا۔تنویر حیرانی سے گلاس تھامے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ کیا چیز ہے یہ انسان۔۔۔※※※※
"Yes"
بیٹ نیچے گرا کر وہ اچھل پڑا۔‎اوہ نو!"
ماتھا پیٹتے ہوئے وہ سامنے کھڑے اپنے
دوست بیٹزمین کو گھورنے لگا
"جاؤ لے کر آؤ اب بال"‎
"بھئی میں کیوں لاؤ بالر خود لے کر آئے" کندھےاچکاتے ہوئے وہ بیٹ کو ہوا میں ہلا رہا تھا۔‎
"اوہو! یہ آفریدی جیسے شاٹ مارنے کو کس نے کہا تھا ۔ جب پتا ہے سب جا چکے ہیں اور صرف ہم دونوں کھیل رہے ہیں تو کون کرےگا اتنے دور کھڑے ہو کر فلڈنگ"
منہ بسور بسور کر اپنے مخصوص انداز میں کھڑا وہ کہہ رہا تھا۔‎
"کبھی ایسی شکل بنا کر خود کو شیشے میں دیکھنا ایمان سے کبھی فنی شو دیکنھے کی ضرورت نہیں پڑے گی احمد" وہ ہنستے ہوئے زمین پر ہی بیٹھ کر احمد کا دھوپ اور غصے کے بائث سرخ چہرہ دیکھنے لگا۔‎
"رعیم تم۔۔۔" احمد کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی رعیم اٹھ کھڑا ہوا۔‎
"اچھا چھوڑو یار وہ دیکھو بچہ کھڑا ہے وہاں اس سے کہو بال لادے" رعیم نے فوراً مشورہ دیا۔‎"ہاں یہ صحیح ہے"
احمد کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔‎"اے بچے۔۔۔"
ابھی وہ چیخا ہی تھا کہ رعیم نے اسکے منہ پر زور سے ہاتھ رکھا
۔‎"پیار سے بلاؤ گے تو لاکر دے گا نا" ‎احمد منہ بسورتے ہوئے کچھ بڑبڑایا اور دوبارہ چیخ اٹھا "پیارے بچےوہ بال تو لادو"
لیکن وہ ٹس سے مس نا ہوا۔‎"پیارے مٌنے لاکر نہیں دینی تو پھینک ہی دو"
بڑی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ رعیم کو دیکھا جو پیٹ پکڑ کر ہنستا ہی جا رہا تھا۔ مجال ہے جو بچے نے مڑ کر بھے دیکھا ہو۔‎
"میں خود ہی لے آتا ہو" مسکراتے ہوئے رعیم آگے بڑھ گیا۔‎
بچے سے دو قدم دور کھڑے ہو کر اس کا جائزہ لیا۔ وہ دوسری طرف رخ کیے کھڑا تھا۔احمد بھی قدم اٹھاتا اس طرف آرہا تھا۔‎
بلو جینز اوپر سیاہ شرٹ جسے کہنیوں تک موڑا ہوا تھا۔ سر پہ کیپ جس میں سے بوائے کٹنگ میں کٹے بال تھوڑے بہت نظر آرہے تھے۔ لگ رہا تھا کوئی لڑکا کھڑا ہے۔
رعیم بال لینے کے لیے نیچےجھکا اور سامنے کھڑی شخصیت نے رخ موڑا۔ جھکے جھکے ہی اس نے اوپر دیکھا اور۔۔۔
سامنے والا مڑا نہیں مٌڑی تھی۔ بالکل لڑکوں جیسے حلیے میں کیوٹ سی بچی۔رعیم آنکھیں پھاڑے اسے تک رہا تھا ۔
پیچھے سے آتے احمد نے اسے دکھا دیا "فریز ہو گئے ہو کیا" رعیم سیدھا ہوا اور احمد نے اسکی نظروں کے تعقب میں دیکھا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
وہ کڑے تیوروں سے انہیں کو دیکھ رہی تھی۔ احمد کو بہت زور سے ہنسی آئی جسے اس نے روکنے کے بالکل کوشش نہیں کی اور زور دار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ رعیم کے قہقہہ بھی ساتھ شامل ہوگئے
۔"اوئے! جوک سنایا ہے کیا میں نے؟" اس لڑکی نے تھوڑے غصے سے کہا تو احمد کی ہنسی میں روانی آگئی جبکہ رعیم ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
"تم جوک سے کم ہو کیا۔ کیوں حلیہ بگاڑا ہوا ہے اپنا۔ " احمد نے ہنسی روک کر طنزیہ انداز میں کہا۔ رعیم کو منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنے کی ضرورت پڑ گئی
۔ وہ جانتا تھا احمد کی باتونی زبان اب کتنا بولے گی۔
"اچھی خاصی کیوٹ بچی ہو اویں لڑکا بننے کا شوق چڑھا ہوا ہے"
"اوئے تمیز ! جانتے نہیں ہو کیا مجھے؟" وہ بھی اونچی آواز میں مخاطب ہوئی۔
"کیوں تم کیا ڈون ہو۔ نہیں جانتے ہم" "جو مرضی سمجھو"
"ارے منا بھائی! آپ کو کون نئیں پہچانتا " احمد ہاتھ جوڑتے ہوئے نیچے بیٹھ گیا
۔اور رعیم کو بھی اشارہ کیا جو تب سے صرف ہنس رہا تھا ۔ دونوں ہاتھ جوڑے بیٹھے تھے ۔
احمد معصوم چہرہ بنائے مکمل ایکٹنگ کر رہا تھا اور رعیم دانت نکالے سامنے سرخ چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
"زیادہ ڈرامے مت کرو ۔ تم لوگوں کو تو میں دیکھ لوں گی" وہ غصے میں پیر پٹختے ہوئے ہوئی پلٹ گئی۔
احمد نے فوراً آواز دی "منا بھائی۔۔۔منی"
لیکن وہ دندناتی ہوئی جا رہی تھی۔ دونوں ہنسی سے نڈھال ہوتے وہیں بیٹھ گئے۔※※※

Assalam O Alaikum , ye novel mene 2015-16 me likha tha or hamariweb.com par post kia.
Lekin wattpad par responce or feedback ap ba-asani dekh sakty hain isliye mai yaha post kar rehi hu.
Isme kuch typing mistakes hongi uske liye mazrat kyunke ye bht pehle likha gya tha or tab me urdu keyboard par bilkul new thi.
Apni raye ka izhar zaroor kijiyega.
ASP sahab k liye koi pyara sa cover nahi mila mujhe isi se guzara kar lijiye..😉

فرض سے پیارDonde viven las historias. Descúbrelo ahora